رمضان ایک عبادت، ایک پیغام... حصہ دوم
مصنف: حامد کمال الدین
مالک کے بجائے اناج کی بندگی، رازق سے بے اعتنائی پر رزق کی طمع ، نعمت کا پاس اور منعم کی بے وقعتی۔۔۔۔ یہ دنیا میں ہمیشہ پست ہمتوں اور کم ظرفوں کاشیوہ رہا ہے۔ یہاں گھٹیا انسانوں کا یہ پرانا مذہب چلا آرہا ہے۔ روزہ جو اصل معبود کے لئے اختیار ی بھوک رکھ کر ہوتا ہے ، مالک کی خاطر پیاس سہہ کر رکھا جاتا ہے، دراصل اسی کم ظرفی کے مذہب کا انکار ہے۔ یہ روزہ کیا ہے؟اس بات کا اعلان کہ دنیا میں خدائی روٹی کی نہیں، روٹی دینے والے اور پیدا کرنے والے کی ہے۔ جو کبھی نہ بھی دے تب بھی خدائی اسی کی شان ہے۔ ہر حال میں اپنا اس سے ایک ہی رشتہ ہے۔ یہ بندگی اور سپاس کا رشتہ ہے۔ یہ منعم شناسی ہی دراصل خود شناسی ہے۔ بھائیو اس رشتے کو جانے بغیر منعم کو پہچانے بغیر کھاتے چلے جانا ویسے کہاں کی انسانیت ہے!! اعلی ظرفی تو یہ ہے کہ کھانے سے زیادہ انسان کو کھلانے والے کی قدر ہو اور کمینگی یہ ہے کہ آدمی کو بس صرف کھانے سے غرض ہو!
ایسی کم ظرفی کی زندگی جوسب نعمتوں کی قدرکھو دے!! ایسی بد بختی ہر اس انسان کے حصے میں آتی ہے جو دنیا میں اللہ کے تعارف سے محروم رہے۔ جو بندگی کے پر لطف معنوں سے آشنا نہ ہو پائے۔ جسے محمد ﷺکی لائی ہوئی روشنی میں دنیا کی حقیقت دیکھ لینا نصیب نہ ہو۔ لوگ پہلے بھی یقینا ہنستے بستے اور کھاتے پیتے رہے ہونگے مگر بندگی کا مطلب سمجھا کر انسانوں کی طرح کھانا اور بندوں کی طرح نعمت کا حظ اٹھانا ان کو محمد ﷺ ہی نے آکر سکھایا ہے۔ یہ بندگی کا احساس، یا یوں کہہ لیں کہ محمد ﷺکی لائی ہوئی ہدایت ، ایک لمحہ کےلیے بھی آپ کی نظر سے اوجھل ہوئی تو سمجھیے یہ ہنستی بستی دنیا بس اندھیر ہوگئی ۔ انسان کے کھانے اور چارے کا فرق بس اسی ہدایت کے دم قدم سے تو ہے!! دنیا کے طبیب اور ڈاکٹر تو آپ کو کھانے اور چار ے کا فرق صرف غذائیت کے اعتبارسے ہی بتا سکیں گے۔ وہ تو آپ کو کیلوریز اور ویٹامنز کی گنتی کرنا ہی سکھا سکیں گے، مگر انسانوں کی طرح کھانا، کسی سوچے سمجھے مقصد کے لیے کھانا بلکہ کسی اعلی مقصد کے لیے کبھی نہ بھی کھانا ۔۔۔۔ پھر کھانے اور نہ کھانے، ہر دوصورت میں بندگی کا اقرار اور اعتراف کرنا، بلکہ نہ کھانے کی صورت میں شکم سیروں سے کہیں بڑھ کر اس کی حمد وتسبیح کرنا، بھوکا اور پیاسا رہ کر اپنی بندگی اوراس کی کبریائی کا اور بھی شدت سے اعتراف کرنا کوئی صرف محمد ﷺ سے ہی سیکھ سکتا ہے،
سچ تو یہ ہے کہ محمد ﷺ مبعوث نہ ہوئے ہوتے تو ہمیں اللہ کی تو کیا اپنی پہچان بھی نہ ہو پاتی۔ ہم بھی چوپایوں کی طرح رہتے ،کھانے کےلئے جیتے، روٹی کےلئے مرتے اور حیوانوں کی طرح دفن ہوتے۔ اللہ کا درود ہو محمد ﷺ پر جوہمیں زندگی کی اعلی قدریں سکھا گئے ۔ جو ہمیں اعلٰی ظرفی کا مطلب بتا گئے۔ جوہمیں جینے کا مقصد سمجھا گئے ۔بلکہ یو ں کہیے جو ہمیں انسان بنا گئے ۔سورہ بینہ پڑھ لیجئے محمد ﷺ قرآن کا صحیفہ لے کرنہ آئے ہوتے تو دنیا مان کر دینے والی نہیں تھی۔ انسان بن جانے پر تیار نہ تھی۔ پر یہ اللہ کی رحمت تھی کہ اس نے پاکیزہ صحیفے دے کر اپنا آخری رسول مبعوث فرمایا۔ ان صحیفوں میں روشنی بھر دی اورر سول کے ہاتھ یہ مشعل تھمادی جس سے زمین روشن ہوئی اور انسانیت کی کایا پلٹ گئی! جس رات یہ صحیفے نازل ہوئے ، جس ماہ میں انسانوں کو یہ روشنی اور ہدایت ملی اس رات کواور اس ماہ کو یادگار ہونا ہی چاہیے تھا! سو یہ ہدایت ملنے کاجشن ہے جو ہدایت پا کر ہی منایا جاسکتا ہے۔ یہ آدمی کے انسان بن جانے کی تقریب ہے جس میں ہم اپنی انسانیت نکھار کر اور بندگی کو جِلا دے کر شریک ہونگے اور عبادت کا خاص سلیقہ اختیار کریں گے ۔ بھائیو!! انسانیت میسر آجانے کا یہ شکر انہ کوئی زیادہ تونہیں! ہدایت کا یہ مول ہی کیا ہے!؟ مگر اللہ زیادہ طلب کرتا ہی کب ہے!
يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (البقرہ 185)
اللہ کو تمہارے ساتھ نرمی ہی مطلوب ہے سختی نہیں۔(بندگی کی یہ ادائیں تم کو سکھا دیں گئیں تاکہ تم خوشی خوشی) روزوں کی تعداد پوری کرلو اور اللہ نے تمہیں بندگی کی جو راہ دکھائی اس پر تم اللہ کی کبریائی کااظہار اور اعتراف کرو اور شکر انہ ادا کرو۔
جاری ہے ۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں