تدبر القرآن۔۔۔۔ سورۃ البقرہ۔۔۔۔۔۔ نعمان علی خان ۔۔۔۔۔۔ حصہ-43

تدبر القرآن
 سورۃ البقرہ
 نعمان علی خان 
 حصہ-43

فإذا قرأۃ القرآن فاستعذ باللہ من الشیطان الرجیم 

کوئی بھی فلسفے کی کتاب اٹھا کے دیکھ لیں، فلسفہ کے کسی طالب علم سے پوچھیں کہ فلسفہ کا مضمون پڑھنا کیسا لگتا ہے؟ آپ اپنا سر میز پر دے مارتے ہیں کہ یہ آخر کہنا کیا چاہ رہا ہے؟ جانتے ہیں پی ایچ ڈی اسکالرز، تعلیمی ناظم، اپنی کتابوں کو جان بوجھ کر مشکل تر بناتے ہیں کیونکہ یہ ان کے دوسروں کو بتانے کا طریقہ ہے کہ وہ کس قدر علم والے ہیں، ان کی گفتگو کس قدر اعلی ہے. وہ بلا ضرورت مشکل الفاظ استعمال کرتے ہیں تب بھی جب انہیں اس کی ضرورت نہیں لیکن قرآن نے اس طریقے کو بالکل رد کر دیا. کہ اللہ نہیں شرماتا کسی چیز کی مثال دینے میں. جب آپ پڑھا رہے ہوں تو سوچیں کہ یہاں کس چیز کی مثال دی جائے کہ دوسرے آسانی سے سمجھ لیں. میرے پسندیدہ ترین اساتذہ میں ایک غیر مسلم خاتون ہیں جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا. میں نے اپنی پسند سے پری اسکول ماسٹرز کی جماعت میں اختیاری داخلہ لیا. وہ خاتون پی ایچ ڈی کر چکی تھیں، چھوٹے بچوں کو پڑھانے پہ، پہلے دن جب وہ کلاس میں آئیں تو ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی کہانی تھی، شیر اور چوہے کے متعلق، ماسٹرز کلاس کے جوانوں کے لیے چھوٹے بچوں کی کہانی اٹھا کے لائیں تھی وہ، انہوں نے کتاب کھولی اور شیرنی کی طرح گرج کر پڑھا، ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شیر تھا......... اور ہم سارے ڈر گئے کہ شیر آ گیا. وہ ہمیں بتا رہی تھیں کہ جب آپ سکھا رہے ہوں تو شرمانا نہیں چاہیے، سکھانے کے لیے آپ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں. اپنے طلباء کو کسی نئی دنیا کے سفر پر لے جائیں، یہ اللہ کی سنت ہے، *لَا يَسْتَحْىٖٓ اَنْ يَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَةً* کوئی سی بھی مثال ہو چاہے وہ حقیر ہو، اللہ نہیں جھجکتا ایسی مثال دینے سے. *بَعُوْضَةً*، عموماً اس لفظ کا ترجمہ مچھر کے معنوں میں کیا جاتا ہے جو کہ غلط العام ہے، بَعَض مچھر کو کہتے ہیں، بَعُوْضَةً کا لفظ عربی کے لفظ بَعَض سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں مچھر کا چھوٹا سا ایک حصہ، یا مچھر کا بچہ، نہایت چھوٹا، حقیر، یہ وہ سب سے چھوٹا جاندار تھا جسے عرب اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے تھے، تو اگر اللہ چاہے تو وہ بَعُوْضَةً کی بھی مثال دے سکتے ہیں. اگر اس مثال سے مفہوم واضح ہوتا ہے تو اللہ ضرور ایسی مثال دیں گے. 
*فَمَا فَوْقَهَا*
اور جو بھی اس کے اوپر ہو، 
ایک چھوٹا سا مچھر یا مچھر کا حصہ اور جو بھی اس سے اوپر ہو، اس بات کے دو مفہوم ہیں، ایک تو یہ کہ جو بھی *بَعُوْضَةً* سے ہجم میں بڑا ہو. اور قرآن میں آگے لفظ *زباب* کا استعمال ہے، یعنی مکھی، مکھی *بَعُوْضَةً* سے بڑی ہوتی ہے. قرآن آگے مکڑی کا ذکر کرتا ہے، اور اس سے آگے طیور، پرندوں کا، لیکن فوقھا کا استعمال یہ مثال واضح کرنے کے لیے ہے کہ اللہ، حقیر چیزوں کی مثال دینے میں نہیں شرماتا، اس سے بھی بڑی چیزیں ہیں جن کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ان کی مثال دی جا سکتی ہے اور بعوضة جو ایک حقیر چیز ہے جسے عرب اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں، تو یہاں اللہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ اگر مثال دو تو کسی ایسی چیز کی جسے لوگ دیکھ سکیں. اور جب اللہ کوئی مثال دیتے ہیں تو نہایت خوبصورت منظر کشی کرتے ہیں، جتنی اچھی آپ منظر نگاری کریں گے، اسی قدر اپنے ناظرین کو متوجہ رکھ پائیں گے. آپ استاد کے رتبہ پر ہوں تو اللہ کے نہایت قریب ہوتے ہیں.
 *فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَيَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ ۚ*
 تو جب ان سے پوچھا جائے جو ایمان لائے اور جو ایمان لانا چاہتے ہیں، فعل کا استعمال طلبِ فعل کے معنوں میں بھی ہے، یعنی وہ جو ایمان لائے اور وہ جو ایمان لانا چاہتے ہیں،ان سے پوچھا جائے تو ان کا جواب کیا ہو گا؟ 
*فَيَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ
تو وہ جان لیتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے،
 حق، سچ کا دوسرا نام ہے، اولً، حق کو ہی سچ کہا جاتا ہے، دوم، حق کسی مقصد کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے.
  خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۚ
اللہ نے زمین و آسمان کو کسی مقصد کے تحت تخلیق کیا، زمین و آسمان کی تخلیق کی کوئی وجہ تھی، سوم، حق، صداقت کو بھی کہتے ہیں، اپنے حق کے لیے ڈٹ جانا،
 *اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ ۚ*
 کہ اللہ کا حق ہے کہ وہ یہ مثال دے،
 اور یہ مثال اسی لائق ہے کہ دی جائے، یہ مثال اسی موقع کے لیے ہے، ایمان والے جانتے ہیں کہ یہ کتاب حق ہے، قرآن کے الفاظ وہ چاہے سمجھ پائیں یا نہ سمجھ سکیں، مگر ان کا رویہ قرآن کے ساتھ ایک جیسا ہو گا، میں حروف مقطعات کے معنی نہیں جانتا، مگر یہ جانتا ہوں کہ اللہ تعالٰی کوئی بھی بات بلا مقصد نہیں کہتے، یہ ہے ہمارا رویہ قرآن پڑھتے ہوئے، آپ کوئی بھی کتاب پڑھتے ہیں تو دو تین سطریں، پیراگراف چھوڑ دیتے ہیں کہ یہ سمجھ نہیں آ رہی چھوڑو آگے چلو، کوئی لمبی ای میل یا پوسٹ ہو تو آپ شروع اور آخر کی ہی چند سطریں پڑھتے ہیں کہ مفہوم واضح ہو جائے لیکن قرآن، اسے آپ ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے ہیں، کچھ سمجھ نہیں بھی آتا تو آپ دعا کرتے ہیں کہ یا رب، میرا سینا کھول دے، کہ میں اسے سمجھ سکوں جو آپ نے کہا، یہ ہے ہمارا رویہ قرآن کے ساتھ، *مِنْ رَّبِّهِمْ ۚ* ان کے رب کی طرف سے، اور قرآن پڑھتے ہوئے عاجزی اختیار کرتے ہیں، کہا جا سکتا تھا من معلھم، لیکن قرآن ہم ایک طالبِ علم کی طرح نہیں بلکہ ایک غلام کی طرح پڑھتے ہیں. ایک غلام کس طرح احکامات پر عمل پیرا ہوتا ہے، اور ایک طالب علم کیسے پڑھتا ہے؟ غلام اس لیے پڑھتا ہے کہ اسے اپنے مالک کو خوش کرنا ہوتا ہے، جبکہ طالب علم محض پاس ہونے کے لیے یا کامیابی کے لیے، غلام عاجزی سے پڑھتا ہے اپنے رب کے احکامات، جبکہ طالب علم میں انا ہوتی ہے، کیا ہے، نہیں پڑھنا، یہ کلاس میں بنک مار لیتا ہوں، ویسے بھی تھوڑا سا بھی پڑھ لوں تو پاس تو ہو ہی جاؤں گا، تو ایک غلام اللہ کے سامنے عاجزی اختیار کرتا ہے.

جاری ہے ----


تبصرے میں اپنی رائے کا اظہار کریں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں