اخلاص: اعمال کی قبولیت کی شرط ۔۔۔۔۔ خطبہ مسجد الحرام ( اقتباس) ۔۔ 08 مارچ 2019

Image
اخلاص: اعمال کی قبولیت کی شرط 
 خطبہ مسجد الحرام (اقتباس)
امام وخطیب:  ڈاکٹر فیصل بن جمیل غزاوی
جمعۃ المبارک 01 رجب المرجب 1440ھ بمطابق 8مارچ 2019ء
ترجمہ: محمد عاطف الیاس
بشکریہ: عمر وزیر


خطبے میں کی جانے والی باتیں:

(1) جو کام اللہ کے لیے ہوتا ہے، وہی باقی رہتا ہے، جبکہ غیر اللہ کے لیے کیے جانے والے کام بے فائدہ رہتے ہیں۔ 
(2) جو بڑائی جتانے یا دنیا حاصل کرنے کے لیے کوئی کام کرتا ہے، وہ ہلاک ہو جاتا ہے۔ 
(3) نیکیوں کی قبولیت میں اخلاص اولین شرط ہے۔
 (4) اہل اخلاص کو لوگ ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔
 (5) چند اعمال کا تذکرہ جو اہل اخلاص کے اخلاص کی وجہ سے ہمیشہ یادرکھے گئے۔
 (6) اہل علم اور اللہ کی طرف بلانے والوں کو اخلاص اپنانے کی کوشش میں رہنا چاہیے۔

خلاصہ:

اللہ کے لیے کام کرنے کی برکت یہ ہے کہ کہ کام کا فائدہ دیر تک باقی رہتا ہے اور اس کا اثر لوگوں میں نظر آتا ہے۔ دیکھیے کہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت میں کتنی برکت تھی۔ ان کا مقصد صرف اور صرف اللہ کی خوشنودی تھی۔ اسی لیے ان کی دعوت انتہائی نفع بخش ثابت ہوئی۔ اسی طرح اماموں، مصلحین، ہدایت کی راہ پر چلنے والوں اور ہدایت کی راہ دکھانے والوں اور ان کے بعد آنے والوں کی دعوت کی برکات بھی دیکھیے۔ کتنے لوگوں نے ان کی دعوت کی گھنی چھاؤں سے فائدہ اٹھایا اور ان کے صاف اور میٹھے چشمے سے سیراب ہوئے۔

منتخب اقتباس:

ہر طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہے۔ ہم اسی کی حمد وثنا بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی سے معافی کا سوال کرتے ہیں۔ اپنے نفس کے شر سے اور اپنے برے اعمال سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت عطا فرما دے، اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ کر دے، اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ کی رحمتیں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اہل بیت پر اور صحابۂ کرام پر۔

بعدازاں!

ایک ایسا بنیادی قاعدہ کہ جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے اور اس کا خیال رکھنا چاہیے، وہ بنیادی اصول کہ جو ہر انسان کو معلوم ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ
جو کام اللہ کے لیے ہوتا ہے، اس کا اثر ہمیشہ باقی رہتا ہے اور جو غیر اللہ کے لیے ہوتا ہے، وہ بہت جلد فنا ہو جاتا ہے۔ جو کام اللہ کے لیے ہوتا ہے، اس کی قبولیت کی امید بھی ہوتی ہے، وہ بڑھتا بھی ہے اور اس کا اثر باقی بھی رہتا ہے، جبکہ دوسرے تمام اعمال یقینی طور پر مٹ جاتے ہیں اور ختم ہو جاتے ہیں۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’پھر آیا ایسا شخص بہتر ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ سے ڈرنے پر اور اللہ کی خوشنودی پر رکھی ہو، یا وه شخص، کہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد کسی گھاٹی کے کنارے پر جو کہ گرنے ہی کو ہو، رکھی ہو۔‘‘ (التوبہ: 109)

، علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ آیت اس چیز پر دلیل ہے کہ جس کام کی ابتدا پرہیز گاری کی نیت سے، صرف رضائے الٰہی کی خاطر اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کی جائے گی، وہ کام دیرپا اثر رکھے گا، کرنے والے کو سعادت ملے گی، اللہ کی طرف اٹھایا جائے گا اور اس کےہاں ایک مقام پائے گا۔ ‘‘

آدم کے بیٹوں کے واقعے میں ہمارے لیے بڑی عبرت اور ایک شاندار سبق ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’ذرا انہیں آدمؑ کے دو بیٹوں کا قصہ بھی بے کم و کاست سنا دو جب اُن دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی نہ کی گئی اُس نے کہا “میں تجھے مار ڈالوں گا” اس نے جواب دیا “اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں قبول کرتا ہے۔‘‘ (المائدہ: 27)

اب چونکہ ہابیل، اللہ سے ڈرنے والا تھا، اس نے اللہ کے لیے خیرات کی اور اخلاص اپنایا، تو اللہ تعالیٰ نے اس سے قبول بھی کر لیا، جبکہ قابیل سے قبول نہ کیا، کیونکہ وہ پرہیز گار نہ تھا۔ اسی طرح اہل ایمان میں سے سمجھدار لوگوں نے اللہ سے دعائیں کی، تو اللہ نے ان کی دعائیں نقل کرنے کے بعد یہ تبصرہ فرمایا کہ:
’’جواب میں ان کے رب نے فرمایا، میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو لہٰذا جن لوگوں نے میری خاطر اپنے وطن چھوڑے اور جو میر ی راہ میں اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اور میرے لیے لڑے اور مارے گئے اُن کے سب قصور میں معاف کر دوں گا اور انہیں ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی یہ اُن کی جزا ہے اللہ کے ہاں اور بہترین جزا اللہ ہی کے پاس ہے۔‘‘ (آل عمران: 195)

 تو کسی کا عمل ضائع نہیں ہو گا، بلکہ ہر محنتی کو محنت کا صلہ ضرور ملے گا۔ اہل ایمان کو اپنے اعمال پر اور اللہ کی راہ میں ہونے والی محنت کی بہترین جزا ملے گی۔

اس کے برعکس:
جس کی نیت نیک نہ ہو گی، جس کے اعمال غیر اللہ کے لیے ہوں گے اور جس کے اعمال، محنتیں اور نیتیں دنیا کے گرد گھومتی ہوں گی، اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’جو کچھ بھی ان کا کیا دھرا ہے اُسے لے کر ہم غبار کی طرح اڑا دیں گے۔‘‘ (الفرقان: 23)

جو کام بھی غیر اللہ کے لیے ہوتا ہے، نہ وہ فائدہ مند ہوتا ہے اور نہ اس کا اثر دیر پا ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
’’جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے۔‘‘ (الرعد: 17)

 صحیح مسلم میں سیدہ عائشہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ
’’میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! دورِ جاہلیت میں ابن جدعان صلہ رحمی کرتا تھا اور مسکینوں کو کھلاتا تھا۔ کیا اسے ان چیزوں کا کوئی فائدہ ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نہیں وہ کام اسے کوئی فائدہ نہ پہنچائیں کے۔ اس نے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ’’اے پروردگار! روزِ جزا میرے گناہ معاف کر دینا!‘‘

، چونکہ وہ کفر پر تھا، اس لیے اسے صدقے، یتیموں کی کفالت، مسکینوں کو خوراک کی فراہمی اور مہمان نوازی کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ کیونکہ اس کا مقصد آخرت نہ تھا، بلکہ وہ تو بس فخر، دکھاوا اور دنیا کی شہرت چاہتا تھا۔ وہ کبھی آخرت کا طلبگار نہیں تھا۔ اس کے لیے اس نے کبھی کچھ نہیں کیا۔ وہ تو قبر سے نکلنے، جنت اور جہنم کو مانتا ہی نہیں تھا۔ اسے دنیا ہی میں اپنی نیکیوں کا صلہ مل گیا تھا۔ لوگوں کی زبانوں پر اس کی تعریف تھی، اس کا ذکر ہر شخص کے منہ میں تھا۔ دنیا میں یہی اس کی جزا ہے اور آخرت میں اس کے لیے کچھ نہیں ہے۔
 اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’جو لوگ بس اِسی دنیا کی زندگی اور اس کی خو ش نمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کار گزاری کا سارا پھل ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی (15) مگر آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے (وہاں معلوم ہو جائے گا کہ) جو کچھ انہوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیامیٹ ہو گیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔‘‘ (ہود: 15۔16)

، اس آیت کے الفاظ عام ہیں۔ یعنی دنیا کو اپنا مقصد نہیں بنانا چاہیے اور اس کا خیال ہر چھوٹے اور بڑے کام میں رکھنا چاہیے۔

اسی طرح فرمایا:
’’جس کا اراده صرف اس جلدی والی دنیا (فوری فائده) کا ہی ہو اسے ہم یہاں جس قدر جس کے لئے چاہیں سردست دیتے ہیں بالآخر اس کے لئے ہم جہنم مقرر کردیتے ہیں جہاں وه برے حالوں دھتکارا ہوا داخل ہوگا (18) اور جس کا اراده آخرت کا ہو اور جیسی کوشش اس کے لئے ہونی چاہیئے، وه کرتا بھی ہو اور وه باایمان بھی ہو، پس یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی اللہ کے ہاں پوری قدردانی کی جائے گی ۔‘‘ (الاسراء:: 18۔19)


اے مسلمانو!
یہ ایک عظیم اصول ہے کہ ’’ جو اللہ کے لیے کیا جائے گا، وہ دیر پا اثر رکھے گا، اور جو غیر اللہ کے لیے کیا جائے گا، وہ بہت جلد مٹ جائے گا ‘‘۔ اس اصول کے تحت بہت ساری چیزیں آ جاتی ہیں۔ جیسے عبادات۔ ہر عبادت اللہ کے لیے ہونی چاہیے۔ ہر عبادت کا مقصد اللہ کی خوشنودی ہونی چاہیے۔
سیدنا ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’میں سارے شریکوں سے بے نیاز ہوں۔ جو کسی کام میں میرے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کرتا ہے، میں اسے اور اس کےشرک کو چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘
(اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے)۔

(ابن ماجہ) کی روایت میں ہے کہ:
’’تو پھر میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں، بلکہ وہ اسی کے حوالے ہے جس کو وہ میرے ساتھ شریک بناتا ہے۔‘‘

اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ صرف اسی عمل کو قبول کرتا ہے جو اخلاص کے ساتھ صرف اسی کے لیے کیا جائے اور جس کا مقصد اس کی خوشنودی حاصل کرنا ہو۔‘‘
(اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے)

علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
’’جب عبادت گزار کا دھیان لوگوں کے دل مائل کرنے کی طرف پھرتا ہے، تب ہی شرک اس کی نیت پر حملہ کرتا ہے، کیونکہ عبادت گزار کو چاہیے کہ وہ صرف اسی پر مطمئن ہو جائے کہ وہ جس کے لیے عبادت کر رہا ہے، وہ اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘

اخلاص میں اس چیز کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ لوگوں کا دل مائل کرنا، اپنا مقصد نہ بنایا جائے۔ تاہم ایسا غیر ارادی طور پر بھی ہو سکتا ہے، بلکہ انسان کے نا چاہتے ہوئے بھی اس کے دل میں یہ خیال آ سکتا ہے۔ رہی بات اس شخص کی، جو عبادت ہی لوگوں کو دکھانے کے لیے کرتا ہے، تو اس کی عبادت ضائع ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اللہ کے یہاں تو وہ مقبول نہیں ہوتا اور لوگوں کے یہاں بھی اسے کوئی قبولیت نہیں ملتی، کیونکہ کچھ ہی عرصے بعد لوگوں کے دل اس سے بے زار ہو جاتے ہیں، اس کے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں اور عمر گزر جاتی ہے۔

اخلاص اپنانے والے کی خوش بختی کے کیا کہنے! اخلاص، نیکیوں کی قبولیت کی بنیادی شرط ہے۔ جو اپنی عبادت اللہ کے لیے خاص کر لیتا ہے اور اپنی عبادت کا مقصد اس کا اجر وثواب بنا لیتا ہے، ریا کاری اور طلبِ شہرت سے بچ جاتا ہے اس کا ایمان، ایمانِ کامل بن جاتا ہے۔ صحیح روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو اللہ کے لیے دے، اللہ کے لیے روکے، اللہ کے لیے محبت کرے، اللہ کے لیے نفرت کرے، اللہ کے لیے رشتہ دے، اس کا ایمان مکمل ہے۔‘‘

✦اللہ کے لیے دینے کا معنیٰ یہ ہے کہ زکوٰۃ ہو یا نفقہ، کفارہ ہو ،صدقہ ہو یا ہدیہ، وہ سب صرف اللہ ہی کے لیے نکالے۔ 
✦اللہ کے لیے روکنے معنیٰ یہ ہے کہ وہ اپنا مال وہاں خرچ نہ کرے جہاں خرچ کرنے سے اللہ نے روکا ہو، تا کہ اللہ راضی ہو جائے۔ روکنے کا مقصد خواہشات کی تکمیل، کنجوسی یا تھڑ دلی نہ ہو۔
✦اللہ کے لیے محبت اور نفرت کرنے کا معنیٰ یہ ہے کہ اس کی محبت یا نفرت اسی بنیاد پر ہوتی ہے کہ یہ چیز اللہ سے قریب یا دور کرتی ہے۔ محبت اور نفرت میں نفس کا محرک ختم ہو جاتا ہے۔ وہ صرف ایسے ہی انداز میں محبت یا نفرت کرتا ہے جس سے اللہ راضی ہو جاتا ہے۔
✦اللہ کے لیے رشتہ دینے کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ اپنی شادی، اپنے بیٹوں اور بیٹیوں یا ما تحتوں کی شادی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کے مطابق کرتا ہے، اس میں بھی اس کی نیت اللہ کا قرب حاصل کرنا ہی ہوتی ہے۔ جو شخص ایسا ہو، اس کا ایمان مکمل ہے۔

یعنی: جو اپنی ساری زندگی اللہ کے لیے وقف کر دے، اس کی جزا یہ ہوتی ہے کہ اس کا ایمان مکمل ہو جاتا ہے۔

ایمانی بھائیو!
مؤمن اپنی ساری عبادتیں اللہ کے لیے خالص کر لیتا ہے اور اس کوشش میں رہتا ہے کہ وہ کوئی ایسا کام کر لے جس کا فائدہ اس کی موت کے بعد بھی جاری رہے، کوئی ایسا کام نہ کرے جس کا گناہ اسے موت کے بعد بھی ملتا رہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’ہم یقیناً ایک روز مردوں کو زندہ کرنے والے ہیں جو کچھ افعال انہوں نے کیے ہیں وہ سب ہم لکھتے جا رہے ہیں، اور جو کچھ آثار انہوں نے پیچھے چھوڑے ہیں وہ بھی ہم ثبت کر رہے ہیں۔‘‘ (یٰس:12)

 شیخ سعدی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
’’آثار سے مراد یہ ہے کہ ان کے کھاتے میں وہ بھلے یا برے کام بھی لکھے جاتے جن کا اصل محرک اور سبب وہ اپنی زندگی میں یا اپنی موت کے بعد بنے تھے۔‘‘

اس سے مراد وہ کام ہیں جو انسان کی باتوں، کاموں یا رویے کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔ ہر وہ کام، جو کوئی دوسرا کرتا ہے، صرف اس لیے کہ کسی نے اسے سکھایا ہے، بتایا ہے، اسے نصیحت کی ہے، اچھا حکم دیا ہے یا برائی سے روکا ہے، کوئی علم سکھایا ہے، دنیا وآخرت کے لیے مفید کتابیں چھوڑی ہیں، نماز پڑھی ہے، زکوٰۃ دی ہے، صدقہ یا احسان کیا ہے اور اسے دیکھ کر دوسرا شخص بھی ویسا ہی کرنے لگا ہے، کوئی مسجد بنائی ہے، لوگوں کے فائدے کی کوئی جگہ تعمیر کی ہے، یا کوئی ایسی نیکی کی ہے تو ان سارے کاموں کے اثرات انسان کے نامۂ اعمال میں لکھ دیے جائیں گے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص برا کام کرتا ہے تو اس کے اثرات بھی اسی کے کھاتے میں لکھے جائیں گے۔ سبحان اللہ! کتنے لوگ ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے قبولیت سے نوازا ہے۔ لوگ ان کے گزر جانے کے بعد بھی انہیں یاد رکھتے ہیں، ان کےنیک اعمال ہمیشہ باقی رہتے ہیں۔ اور کتنے ایسے ہیں جو ہلاک ہو گئے اور نیست ونابود ہو گئے۔ بس ان کی کہانیاں بچیں اور وہ لوگوں کے لیے عبرت بن گئے۔

اللہ کے بندو!
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جن لوگوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بلند کیا ہے اور لوگ ان کی وفات کے بعد بھی ان کا ذکر خیر کرتے ہیں، وہ اخلاص والے ہیں ہیں، جو شہرت اور لوگوں کی زبانوں پر آنے یا نہ آنے سے بے فکر ہیں۔ فضیل بن عیاض رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
’’جو یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کا ذکر خیر کریں، لوگ اس کا ذکر خیر نہیں کرتے، اور جو یہ ناپسند کرتا ہے، لوگ اس کا ذکر خیر کرتے ہیں۔‘‘

اسلامی بھائیو!
اللہ کے لیے کام کرنے کی برکت یہ ہے کہ کام کا فائدہ دیر تک باقی رہتا ہے اور اس کا اثر لوگوں میں نظر آتا ہے۔ دیکھیے کہ انبیاء علیھم السلام کی دعوت میں کتنی برکت تھی۔ کیونکہ ان کا مقصد صرف اور صرف اللہ کی خوشنودی تھی۔ اسی لیے ان کی دعوت انتہائی نفع بخش ثابت ہوئی۔ اسی طرح اماموں، مصلحین، ہدایت کی پر چلنے والوں اور ہدایت کی راہ دکھانے والوں اور ان کے بعد آنے والوں کی دعوت کی برکات بھی دیکھیے۔ کتنے لوگوں نے ان کی دعوت کی گھنی چھاؤں سے فائدہ اٹھایا اور ان کے صاف اور میٹھے چشمے سے سیراب ہوئے۔

یہ اللہ کا اصول ہے کہ نیکی کرنے والے کو اور لوگوں کا بھلا کرنے والے کو اس کی نیکی سے بہتر جزا دی جاتی ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ ان کی نیکیوں کا فائدہ ان کی زندگی میں بھی نظر آتا ہے اور ان کی موت کے بعد بھی باقی رہتا ہے۔

 خلیفۃ المؤمنین سیدنا عثمان نے رُومہ نامی کنوا ں خرید کر لوگوں کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اس کام میں اللہ نے اتنی برکت ڈالی کہ وہ چشمہ آج بھی موجود ہے۔ بلکہ وہ اسلامی تاریخ کے مشہور ترین وقف کی حیثیت سے باقی ہے۔

 اسی طرح ہارون رشید  کی بیوی زبیدہ علیہا رحمۃ اللہ نے جب دیکھا کہ حجاج کرام کو پانی حاصل کرنے میں خاصی دشواری ہوتی ہے، بڑی مشقت کے بعد تھک ہار کر وہ پانی حاصل کر پاتے ہیں تو انہوں نے عین زبیدہ نامی نہر بنانے کا حکم دیا۔ یہ میٹھے پانے والی گہری نہر ہے جو مسلمانوں کے نیک کاموں کا شاہکار ہے۔ تھوڑا ہی وقت گزرا ہے کہ اس کا پانی اہل مکہ کے گھروں تک پہنچتا تھا۔

جب امام مالک رحمہ اللہ  نے اپنی کتاب ’’موطأ امام مالک‘‘ لکھنی شروع کی تو لوگوں نے کہا:
’’اس تصنیف کا کیا فائدہ ہو گا؟ تو آپ  نے فرمایا:
’’جو کام اللہ کے لیے کیا جائے، وہ ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ ‘‘
 کتنا عظیم جملہ ہے۔ یہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ یہ بہت پھیلا، مشہور ہوا اور زبان زد عام ہو گیا۔ موطا امام مالک بھی آج تک موجود ہے۔ مشرق ومغرب میں مسلمانوں نے اسے قبول کیا ہے۔ اللہ نے اس کے ذریعے بہت لوگوں کو فائدہ پہنچایا ہے۔ سلف علما کی تحریروں سے اللہ تعالیٰ نے بہت لوگوں کو فائدہ پہنچایا۔ اس دور میں بھی لوگ فیض یاب ہوئے اور آج بھی ہوتے ہیں۔ ان کی کتابیں لوگوں نے بڑی خوشی سے پڑھیں اور حیرت انگیز طریقے سے پھیل گئیں۔ طالب علم بڑے اہتمام کےساتھ انہیں پڑھنے لگے، سمجھنے لگے اور ان کی شروحات لکھنے لگے اور انہیں مختصر کرنے لگے۔

اہل ایمان اپنا مال اللہ کی راہ میں اس کے دین کی نصرت کے لیے دیتے ہیں۔ ایسے ہی مال بڑھتے ہیں اور زیادہ ہوتے رہتا ہے۔ اللہ ان میں برکت ڈالتا ہے اور جو شخص اپنے مال میں سے اللہ کا حق ادا کر دیتا ہے، اللہ اس کے مال کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے اور بہت زیادہ کر دیتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں، اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اِسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے، افزونی عطا فرماتا ہے وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔‘‘ ( البقرۃ: 261)

، سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ کی طرف پاکیزہ چیز ہی اٹھائی جاتی ہے۔ سو جو نیک کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ دیتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے وصول کرتا ہے، پھر اس کی پرورش یوں کرتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچے کی پرورش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ صدقہ ایک پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔‘‘

بہر حال!
اخلاص کے ساتھ دیے جانے والے صدقے ہی انسان کو ایسی بھلائی کی طرف لے جاتے ہیں جس سے بہتر کوئی بھلائی نہیں۔ یہ انسان کو اللہ کے قریب کر دیتے ہیں۔ رہی بات کافروں کی، تو وہ اپنے مال حق کا راستہ روکنے کے لیے، اہل ایمان کے خلاف جنگ کرنے کے لیے اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ ان کے مال بالآخر ضائع ہو جاتے ہیں اور انہیں اپنے خرچ کا کوئی فائدہ نہیں ملتا۔ اہل باطل کی تمام امیدیں خاک میں مل جائیں گی اور انہیں ندامت کے سوا کچھ نہ ملے گا۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’جن لوگوں نے حق کو ماننے سے انکار کیا ہے وہ اپنے مال اللہ کے راستے سے روکنے کے لیے صرف کر رہے ہیں اور ابھی اور خرچ کرتے رہیں گے مگر آخر کار یہی کوششیں ان کے لیے پچھتاوے کا سبب بنیں گی، پھر وہ مغلوب ہوں گے، پھر یہ کافر جہنم کی طرف گھیر لائے جائیں گے۔‘‘ (الانفال: 36)

اللہ کے بندو!
اللہ تعالیٰ ہی زندہ وجاوید ہے۔ وہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ ہے۔ ساری مخلوق فنا ہو جانے والی ہے۔ اللہ کا اجر وثواب ہی باقی رہے گا۔ آخرت کی زندگی ہمیشہ کی زندگی ہے جو کبھی ختم نہ ہو گی۔ جنت والوں پر کبھی موت نہ آئے گی۔ جو اس کے لیے کام کرے گا، اور کما حقہ محنت کرے گا، وہ کامیاب اور کامران ہو گا۔ دنیا ختم ہو جانے والی ہے، دنیا والے جلد رخصت ہونے والے ہیں۔ دنیا کے لیے کیا گیا ہر کام عنقریب ختم ہو جانے والا ہے اور فنا ہو جانے والا ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو کبھی ہمارے ذہنوں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ہمارے دلوں میں راسخ ہونی چاہیے۔ جی ہاں! جوکام اللہ کے لیے کیا جائے گا، اسی کا اثر ہمیشہ باقی رہے گا۔ جو انسان اللہ کے لیے کام کرتا ہے، اس کا عمل زندہ رہے گا اور اس کے اثرات اور ذکر جمیل ہمیشہ موجود رہیں گے۔
 فرمانِ الٰہی ہے:
’’رہے وہ لوگ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں، تو یقیناً ہم نیکو کار لوگوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتے۔‘‘ (الکہف: 30)
، اسی طرح فرمایا:
’’ان کو سچی ناموری عطا کی۔‘‘ (مریم: 50)

یعنی:
ہم نے انہیں نیک نامی عطا فرمائی! لوگ انہیں اچھے الفاظ میں یاد کرنے لگے۔ علما اور داعی ہی وہ لوگ ہیں جنہیں اس الٰہی قاعدے پر صحیح طرح غور کرنا چاہیے۔ انہیں مکمل یقین کرنا چاہیے کہ جو کام اللہ کے لیے کیا جائے گا، وہی دیر پا اثر رکھنے والا ہو گا۔ جو اللہ کے لیے کیا جائے گا، وہ ہمیشہ رہے گا اور بڑھتا جائے گا اور جو غیر اللہ کے لیے ہو گا، وہ ادھورا رہ جائے گا اور بیچ میں ہی رک جائے گا۔ 
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جس کام میں اللہ کی مدد شامل نہ ہو، وہ کبھی نہیں ہوتا۔ اور جو کام اللہ کے لیے نہیں ہوتا، اس کا اثر بھی جلد ختم ہو جاتا ہے‘‘
 اسی طرح آپ  نے فرمایا:
’’ہر وہ کام جس کا مقصد رضائے الٰہی نہ ہو، وہ باطل ہے، اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ جس کام میں اللہ کی مدد شامل حال نہیں ہوتی، وہ کبھی مکمل نہیں ہوتا۔ اللہ کے بغیر کسی کے پاس کوئی قدرت یا طاقت نہیں ہے۔ جو کام اللہ کے لیے نہیں کیا جاتا، وہ کبھی درست نہیں ہوتا، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور اس کا اثر بھی نہیں ہوتا۔‘‘

اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو اللہ کے بندو! ہمیں چاہیے کہ اخلاص اپنانے کے لیے اور ہر کام اللہ کے لیے خالص کرنے کے لیے اپنے نفس سے جہاد کریں۔ یہی قیامت تک اعمال کی بقا کا ذریعہ ہے اور اسی سے نجات اور کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔

علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’سمجھدار انسان کو چاہیے کہ وہ فضیلت والے نیک کام کرنے کی کوشش کرے، وہ کام جن سے اسے نیک نامی نصیب ہو اور جن کی بدولت لوگ اسے نیک الفاظ میں یاد کریں۔ ایسے ہی کاموں کی بدولت وہ قرب الٰہی پانے میں کامیاب ہو جائے گا اور لوگوں کے یہاں بھی ناموری پا لے گا۔ لوگ اسے رہتی دنیا تک یاد رکھیں اور اس کا ذکر کبھی ختم نہیں ہو گا۔‘‘


اے اللہ! ہمیں قول وعمل میں اخلاص نصیب فرما! ہمارے سارے اعمال نیک بنا اور ان کا مقصد اپنی خوشنودی حاصل کرنا بنا۔

اے اللہ! ہم تجھ سے ظاہر اور خفیہ، ہر حال میں تیری خشیت کا سوال کرتے ہیں۔ خوشی کی حالت میں اور غصے کی حالت میں کلمۂ حق کہنے کی توفیق مانگتے ہیں۔ خوشحالی اور بدحالی میں اعتدال مانگتے ہیں۔

پاک ہے تیرا رب، عزت کا مالک، اُن تمام باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں اور سلام ہے مرسلین پر اور ساری تعریف اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

اخلاص: اعمال کی قبولیت کی شرط   خطبہ مسجد الحرام (اقتباس) امام وخطیب:  ڈاکٹر فیصل بن جمیل غزاوی جمعۃ المبارک 01 رجب المرجب 1440ھ ب...

ہر شخص ذمہ دار ہے ۔۔۔۔۔ خطبہ جمعہ بیت اللہ (اقتباس) ۔۔۔ 01 مارچ 2019


ہر شخص ذمہ دار ہے ۔۔۔۔۔ خطبہ جمعہ بیت اللہ
مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر اسامہ بن عبد اللہ خیاط
جمعۃ المبارک 24 جمادیٰ الآخرہ 1440ھ بمطابق 1 مارچ 2019ء
ترجمہ: محمد عاطف الیاس
بشکریہ: عمر وزیر


ہر طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہے۔ اسی نے اپنے بندے پر کتاب نازل فرمائی اور نجات پرہیز کرنے والوں اور رجوع کرنے والوں کے لیے رکھی ہے۔ میں اللہ پاک کی حمد وثنا بیان کرتا ہوں۔ اسی نے اپنے بندوں کو جنت کا راستہ دکھایا اور اس کے دروازے کھلے رکھے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہ جو چاہتا ہے، پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے، اسے چن لیتا ہے۔ جو توبہ کرتا ہے، اللہ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے، رسول، ساری مخلوق میں سے چنیدہ نبی اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والے رسول ہیں۔ اے اللہ! یوم بعث ونشور تک جاری رہنے والی رحمتیں اور سلامتیاں نازل فرما، اپنے بندے اور رسول، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر، اہل بیت پر اور صحابہ کرام پر۔

بعدازاں!

اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو! اس کا حکم بجا لاؤ، جن گناہوں اور برائیوں سے اس نے منع کیا اور جھڑکا ہے، ان سے دور رہو۔ اس کی وافر نعمتوں کا تہہ دل سے شکر ادا کرو، اس سے پیار کرو، اسے عظیم جانوں اور اس سے ڈرو۔ اسی سے امیدیں وابستہ کرو اور ہر کام پورے اخلاص کے ساتھ صرف اسی کے لیے کرو۔ اسی کی طرف رجوع کرو، اسی پر بھروسہ کرو، زبان سے بھی شکر ادا کرو، اللہ کی حمد وثنا بیان کرو، کثرت سے اس کا ذکر کرو، اس سے معافی مانگو، اس کی راہ کی طرف بلاؤ۔ اس کی کتاب کی تلاوت کرو، لوگوں کو دین کے احکام سکھاؤ، انہیں اللہ کے غضب کے موجب اور اس کی سزاؤں کو دعوت دینے والے کاموں سے خبردار کرو۔ اپنے اعمال سے بھی شاکر بنو۔ واجبات ادا کرو، فرضوں کا اہتمام کرو، سب کام شریعت کے مطابق کرو اور سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قائم رہو۔

اللہ کے بندو! 

اہل ایمان کی عظیم ترین صفات اور اللہ کے مخلص پرہیز گار بندوں کی علامتوں میں سے ایک وہ علامت بھی ہے کہ جس سے وہ کافروں سے، اللہ کے رسولوں اور اس کی آیات کے منکروں سے الگ ہو جاتے ہیں۔ اللہ اپنے ایسے بندوں کو زندہ دلی سے نوازتا ہے، ان کی روحوں کو بلندی سے نوازتا ہے اور انہیں احساس جیسی عظیم نعمت عطا فرماتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں ایمان کی صفت سے انہیں پکارتا ہے، فرماتا ہے: 

(اے لوگو جو ایمان لائے ہو) [البقرۃ: 104]، 

تو وہ اس پکار کو پوری توجہ کے ساتھ سنتے ہیں، کان لگا کر، خشوع سے بھرے دلوں سے، سمجھنے کے لیے تیار عقلوں سے اللہ کی بات سنتے ہیں۔ کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ اس پکار کے بعد یا تو انہیں کسی خیر کا حکم دیا جائے گا، یا انہیں کسی برائی سے روکا جائے گا۔

جن مقامات میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اس انداز میں مخاطب کیا ہے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے، فرمانِ الٰہی ہے:
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے جس پر نہایت تند خو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں) [التحریم: 6]

اللہ کے بندو! 

مخاطب کرنے کا یہ ایک عظیم انداز ہے۔ اس کے بعد یہ بیان کیا گیا ہے کہ انسان اپنا بھی ذمہ دار ہے اور اپنے ما تحتوں کا بھی ذمہ دار ہے، جن میں گھر والے، اولاد اور قریبی رشتہ دار شامل ہیں۔ یہ ذاتی اور خاندانی ذمہ داری انسان پر لازم کرتی ہے کہ خود کو اپنے قریبی لوگوں کو اللہ کے عذاب سے بچائے رکھے، سب کو اپنے ساتھ ایسے قلعے میں محفوظ کر لے جو قیامت کے دن اسے اور انہیں اللہ کے عذاب سے بچا لے۔ کیونکہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کا اپنا نصیب اس کی گردن میں لٹکا رکھا ہے۔ یعنی: وہ جو بھی اچھا یا برا کام کرتا ہے، وہ اس کے ساتھ چسپاں کر دیا جاتا ہے۔ اسے اس کی سزا مل کر رہتی ہے، قیامت کے دن اس کا حساب کتاب ہوتا ہے تو وہ اسے اپنے سامنے کھلے صحیفے میں موجود پاتا ہے۔ بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی ذمہ داری کو بھی اس کے ساتھ جوڑ رکھا ہے جو اس کے ما تحت ہیں، یا جن کی نگہداشت اس کے ذمے ہے، چاہے وہ گھر والے ہوں یا اس کی اپنی نسل ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں، جسے امام بخاری اور امام مسلم نے سیدنا عبد اللہ بن عمر سے روایت کیا ہے، 
آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سنو! تم سب ذمہ دار ہو اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ لوگوں کا سربراہ بھی ذمہ دار ہے اور اسے اپنی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ہر شخص اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اور اسے اپنی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا، عورت اپنے شوہر کے گھر کی اور اس کی اولاد کی ذمہ دار ہے اور اسے اپنی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ غلام اپنے مالک کے مال کا ذمہ دار ہے اور اسے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ سنو! تم میں سے ایک ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ انتہائی اہم ذمہ داری اور عظیم امانت ہے، جس کا ہر مؤمن سے یہ تقاضا ہے، جو اللہ پر ایمان رکھتا ہو، اس کی ملاقات پر یقین رکھتا ہے، اس کی جزا، سزا، حساب اور عذاب کو سچ سمجھتا ہو، کہ وہ اپنے آپ کو اور ان تمام لوگوں کو جنہیں اللہ تعالیٰ اس کے ما تحت رکھا ہے، یعنی گھر والوں، بیٹوں، بیٹیوں اور رشتہ داروں کو ان تمام کاموں سے بچائے جو قیامت کے دن انہیں جہنم میں اور اس گرم، جلا دینے والی اور ہلاک کر دینے والی آگ میں دھکیلنے والے ہوں۔ اور یہ کام تب ہی ہو سکتا ہے جب انسان خود اپنے آپ کو اور اپنے تمام گھر والوں کو اللہ اور اس کے رسول کے احکام کا پابند بنا لے، ان کی نافرمانی سے دور کر لے۔ اس کام میں سب سے زیادہ معین اور سب سے زیادہ اثر رکھنے والی چیز اللہ تعالیٰ کی توحید ہے۔ یعنی صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے، دعا ہو یا نماز، رکوع ہو یا سجود، روزہ ہو یا زکوٰۃ، حج ہو یا نذرانہ، قربانی ہو یا قسم، محبت ہو یا خوف، امید ہو یا بھروسہ، رجوع ہو یا انکساری، عاجزی ہو یا خضوع، یا عبادت کی کوئی شکل بھی ہو، سب پورے اخلاص کے ساتھ، صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے، اس کی شریعت کے مطابق اور اس کے رسول کے طریقے پر چلتے ہوئے ادا کی جائے۔ اس کی نافرمانی سے بچا جائے۔

نافرمانی کی بد ترین شکل یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے، یہ ایسا جرم ہے کہ جس سے انسان کی عاقبت تباہ ہو جاتی ہے۔ شرک یہ ہے کہ عبادت کی کوئی شکل غیر اللہ کے لیے کر لی جائے۔ یہ ایسا گناہ ہے کہ اگر اسے کرتے ہوئے کوئی فوت ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف نہیں کرتا۔ فرمانِ الٰہی ہے: 
(اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اِس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھیرایا اُس نے تو بہت ہی بڑا جھوٹ تصنیف کیا اور بڑے سخت گناہ کی بات کی) [النساء: 48]۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے تمام گناہوں اور غلطیوں سے سچی توبہ کرنی چاہیے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
(اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے) [النور: 31]، 
اسی طرح فرمایا:
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے توبہ کرو، خالص توبہ) [التحریم: 8] 

توبہ اسی صورت میں سچی ہو سکتی ہے جب گناہ کو چھوڑ دیا جائے، اسے کرنے پر سچی ندامت ہو اور اس پر افسوس کیا جائے، اسے دوبارہ کبھی نہ کرنے کا پختہ ارادہ کیا جائے۔ اگر گناہ حقوق العباد سے متعلقہ ہو تو لوگوں کے غصب کردہ حقوق اور ظلم وزیادتی سے لیے جانے والی متعلقات لوٹائی جائیں۔

چند چیزیں ایسی ہیں کہ جو اگر انسان توبہ کے ساتھ انہیں بھی اپنا لے تو وہ خود کو جہنم کی آگ سے بچانے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ ان چیزوں میں مکمل طریقے سے اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنا، باقاعدگی کے ساتھ خود کا محاسبہ کرنا، پوری توجہ اور غور وفکر کے ساتھ تلاوت قرآن کرتے رہنا، فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا، ایسے نیک لوگوں کے ساتھ رہنا جو بھولنے کی صورت میں اسے یاد دہانی کرائیں، جب وہ توانا ہو تو نیکی میں اس کی مدد کریں، پھر اہل ایمان کے لیے اچھی چیزیں پسند کرنا، انہیں اذیت دینے سے باز رہنا، ہر طرح سے ان کا بھلا کرنے کی کوشش کرنا، ان کے ساتھ پر خلوص رویہ اپنانا اور انہیں مبالغہ آرائی کی برائی اور احکام الٰہی کے سامنے سر کشی جیسے سنگین گناہوں سے منع کرنا۔ 

رہی بات اپنے گھر والوں، بیٹوں، بیٹیوں اور تمام ما تحتوں کی، تو انہیں جہنم سے بچانے کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں نیکی کا حکم دیا جائے، برائی سے منع کیا جائے، سکھایا جائے، رہنمائی کی جائے، ادب سکھایا جائے، ان کا دھیان رکھا جائے اور نگرانی کی جائے، ان کے احوال کا جائزہ لیا جائے، وہ کس کے ساتھ بیٹھتے ہیں، کس کے ساتھ رہتے ہیں، مگر یہ سب کام انتہائی حکمت والے انداز میں، جس میں عزم بھی ہو اور سختی بھی ہو، نرمی بھی ہو، آسانی بھی ہو اور بردباری بھی ہو۔ ہر موقع کی مناسبت سے مختلف طرز اپنایا جائے۔ سمجھدار وہ ہوتا ہے جو ہر چیز کو اس کی صحیح جگہ پر رکھتا ہے۔ حلال اور اچھے کاموں کی حدود میں رہتے ہوئے حالات کے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ وہ ایسے طبیب کی مانند ہوتا ہے جومرض کو پہچان لیتا ہے اور اس کے مطابق مناسب مقدار اور مناسب وقت پر دوا تجویز کر دیتا ہے۔ وہ خوب سمجھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے اور برے دوست کی مثال کیسی دی ہے۔ فرمانِ نبوی ہے: ’’اچھے اور برے ساتھی کی مثال ایسی ہی ہے جیسے عطر فروش اور بھٹی دھونکنے والا۔ مشک فروش کے ساتھ بیٹھیں گے تو اس سے عطر خرید لیں گے یا اچھی خوشبو تو بہر حال نصیب ہو ہی جائے گی، جبکہ بھٹی دھونکنے والے کے ساتھ بیٹھ کر آپ کے کپڑے جل جائیں گے یا اس سے بدبو تو آتی ہی رہے گی‘‘۔

اس یاد دہانی میں ہر طرح کی محفلیں شامل ہیں، چاہے وہ عام اور روایتی محفلیں ہوں یا سوشل میڈیا کے گروپس وغیرہ ہوں، یا محفل کی جدید شکلوں میں سے کوئی سی بھی شکل ہو، جو انتہائی عام ہو چکی ہیں، بہت زیادہ استعمال ہوتی ہیں، جن کی تاثیر بھی بہت زیادہ ہے اور عاقبت کے حوالے سے انتہائی خطرناک بھی ہیں۔ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس یاد دہانی سے منہ پھیر لیتا ہے، خواہش نفس کا پیروکار بن جاتا ہے اور اپنے ما تحتوں کی ذمہ داری ضائع کر دیتا ہے تو اپنے آپ کو دنیا وآخرت کے گھاٹے میں ڈالتا ہے، کیونکہ ماتحتوں کے حوالے سے عائد ہونے والی امانت میں خیانت کرتا ہے، ان کی اصلاح، رہنمائی اور راہ حق پر ان کی تربیت میں کوتاہی کرتا ہے۔ وہ شخص اس لیے بھی ہلاکت میں پڑ جاتا ہے کہ وہ اپنے اس رویے کی وجہ سے انہیں دور کر دیتا ہے، ان کے دلوں میں اس کے لیے نفرت بیٹھ جاتی ہے اور وہ اس پر حملے کرنے لگتے ہیں۔ وہ اس کے جگری دوست بننے کی بجائے اس کے بد ترین دشمن بن جاتے ہیں۔ بھلا اس سے بڑی مصیبت اور کیا ہو سکتی ہے، اس سے بڑی ندامت اور کیا ہو سکتی ہے؟ وہ طویل مدت کے لیے افسوس کا شکار ہو جاتا ہے۔

بعدازاں! اے اللہ کے بندو! امام ابو بکر بن العربی ﷫ اس آیت کی تشریح اور وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: (اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے)[التحریم: 6]

اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے آپ کو دورکر لو، اور مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یعنی اپنے اور اللہ کی آگ کے درمیان کوئی بچانے والی چیز حائل کر لو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی مفہوم کو واضح کرتے ہوئے فرمایا: ’’آگ سے بچو، چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے، اگر وہ بھی میسر نہ ہو تو اچھی بات کے ذریعے‘‘ (اسے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے۔) پھر فرمایا: چنانچہ ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو فرمان برداری اختیار کر کے اپنی اصلاح کرے، پھر اپنے گھر والوں کی اصلاح ویسے کرے جیسے کوئی رہنما اپنی قوم کی کرتا ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم سب ذمہ دار ہو اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ امام ذمہ دار ہے اور اس سے اپنی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے کا، ہر بندہ ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا…‘‘ حدیث کے آخر تک۔

حسن بصری ﷫ اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’یعنی اپنے گھر والوں کو بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے‘‘، عمر وبن شعیب نے اپنے والد سے اور انہوں نے دادا سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سات سال کی عمر میں اپنے بچوں کو نماز کا حکم دیا کرو۔ دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر سزا دیا کرو اور ان کے بستر بھی الگ کر دو‘‘ (اسے محدثین کی ایک جماعت نے روایت کیا ہے۔ یہ الفاظ سنن ابو داؤد میں صحیح سند کے ساتھ ثابت ہیں)

اسی طرح ابن العربی﷫ بیان کرتے ہیں: ’’یعنی وہ اپنے گھر والوں کو نماز کے اوقات بتائے، چاند کو دیکھ کر یہ بھی بتائے کہ روزہ کب رکھنا ہے اور کب نہیں رکھنا۔ امام مسلم نے سیدنا عروہ سے اور انہوں نے سیدہ عائشہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت طاق عدد میں رکعتیں ادا کرتے۔ جب وتر پڑھ لیتے تو فرماتے: ’’عائشہ! اٹھ کر وتر پڑھ لو!‘‘، اسی طرح امام ابو داؤد، امام نسائی اور امام احمد نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات کے وقت اٹھ کر تہجد پڑھے اور اپنی بیوی کو جگائے اور وہ بھی پڑھے۔ اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے، اللہ اس عورت پر رحم کرے جو رات کے وقت اٹھ کر تہجد پڑھے اور اپنے شوہر کو بھی جگائے اور وہ بھی پڑھے، اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ‘‘، اس حوالے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ: ’’حجروں والیوں کو جگاؤ۔ یعنی، امہات المؤمنین کو جگاؤ، یعنی: تہجد کے لیے۔ ابن العربی بیان کرتے ہیں: یہ حکم اللہ تعالیٰ کے اس عمومی حکم میں آتا ہے کہ: (جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو، اللہ سے ڈرو، اس کی سز ا بہت سخت ہے) [المائدہ: 2]‘‘۔

اے اللہ! ہمارے نفس کو پرہیزگار بنا! انہیں پاکیزگی عطا فرما! تو ہی انہیں سب سے بڑھ کر پاکیزہ بنانے والا ہے۔ تو ہی اس کا ولی اور پروردگار ہے۔

اے اللہ! ہمارے دین کی اصلاح فرما، جس پر ہمارے معاملے کا دار ومدار ہے۔ ہماری دنیا کی اصلاح فرما! جس میں ہمارا معاش ہے، ہماری آخرت کی اصلاح فرما، جو ہمارا آخری ٹھکانہ ہے۔ اے پروردگار عالم! زندگی کو، نیکیوں میں اضافے کا سبب بنا اور موت کو، برائیوں سے نجات کا ذریعہ بنا۔

اے اللہ! ہم نیکیاں کرنے کی، برائیوں سے رکنے کی اور مسکینوں سے محبت کرنے کی توفیق مانگتے ہیں۔ ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما! جب تو کسی قوم کو فتنے میں مبتلا کرنے کا فیصلہ کرے، تو ہمیں فتنے سے محفوظ فرما کر اپنے پاس بلا لے۔

اے اللہ! اے پروردگار عالم! جس طرح تو چاہے، ہمیں ہمارے دشمنوں سے بچا لے! اے اللہ! اے پروردگار عالم! جس طرح تو چاہے، ہمیں ہمارے دشمنوں سے بچا لے! اے اللہ! اے پروردگار عالم! جس طرح تو چاہے، ہمیں ہمارے دشمنوں سے بچا لے! اے اللہ!ہم تجھے تیرے اور اپنے دشمنوں کے سامنے کرتے ہیں۔ ان کے شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں۔ اے اللہ!ہم تجھے ان کے سامنے کرتے ہیں۔ ان کے شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں۔ اے اللہ!ہم تجھے ان کے سامنے کرتے ہیں۔ ان کے شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں۔

آمین یا رب العالمین!!


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

ہر شخص ذمہ دار ہے ۔۔۔۔۔ خطبہ جمعہ بیت اللہ مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر اسامہ بن عبد اللہ خیاط جمعۃ المبارک 24 جمادیٰ...

مقروض اور قرض خواہ کے لیے تعلیمات - خطبہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔ 01 مارچ 2019

Image
مقروض اور قرض خواہ کے لیے تعلیمات - خطبہ مسجد نبوی (اقتباس)
بتاریخ 24جمادی ثانیہ 1440  بمطابق 01 مارچ 2019
امام و خطیب:  ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ 
ترجمہ: شفقت الرحمیٰن مغل
بشکریہ: دلیل ویب

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ حفظہ اللہ نے 24جمادی ثانیہ 1440 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "مقروض اور قرض خواہ کے لیے تعلیمات" ارشاد فرمایا ، جس میں انہوں نے کہا کہ حقوق العباد کا تحفظ اسلام کے قطعی اصولوں میں شامل ہے، انہی اصولوں میں مقروض اور قرض خواہ دونوں کے لئے مؤثر تعلیمات شامل ہیں۔ انہوں نے استطاعت رکھنے والے مقروض لوگوں کو جلد از جلد قرض واپس کرنے کی ترغیب دلائی اور کہا کہ ایسی صورت میں ٹال مٹول سے کام لینا ظلم بھی ہے اور قرض خواہ کی حق تلفی بھی۔ اگر مقروض قرض ادا کرنے کا عزم رکھے تو اللہ تعالی اس کی مدد فرماتا ہے۔ مقروض میت کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے خود جنازہ ادا نہیں فرمایا۔ احادیث کے مطابق قرض ایسا گناہ ہے کہ متعدد بار شہادت سے بھی معاف نہیں ہو سکتا۔ روزِ قیامت قرض کا تصفیہ نیکیوں اور گناہوں کے تبادلے سے کیا جائے گا۔ دوسری جانب قرض خواہ افراد کو مہلت دینے یا قرض معاف کرنے کی ترغیب دلاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تنگ دست کو مزید مہلت دینا واجب ہے، اور اگر کوئی اللہ سے معافی کی امید پر قرض معاف کر دے تو یہ بہت عظیم عمل ہے، نیز جزوی یا کلی طور پر قرض معاف کرنے سے روزِ قیامت کی سختیوں سے نجات ملتی ہے، آخر میں انہوں نے کہا کہ مزدور کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرنی چاہیے، وگرنہ اللہ تعالی ایسے آجر کے خلاف مدعی ہو گا، آخر میں انہوں نے سب کے لئے جامع دعا کروائی۔

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اسی نے متقی لوگوں کے لئے راہ نجات اور مشکلات سے نکلنے کا راستہ بنایا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، اس کے اچھے اچھے نام اور اعلی صفات ہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے ، چنیدہ نبی اور برگزیدہ رسول ہیں، یا اللہ! ان پر، ان کی آل، اور تمام نیکو کار و متقی صحابہ کرام پر سلامتی، رحمتیں اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

مسلمانو! میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں؛ کیونکہ تقوی اپنانے والے کو اللہ تعالی سعادت مند بنا دیتا ہے، اور وہ کبھی شقاوت میں نہیں پڑے گا۔

مسلمانو!

حقوق العباد کا تحفظ اور نگہداشت اسلام کے قطعی اصولوں میں شامل ہے، جبکہ کچھ لوگ حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی کے شکار ہیں اور قرض کی واپسی میں بالخصوص سستی کرتے ہیں، قرض انسان پر چیزوں کی خریداری، یا قرضے یا مزدور کی مزدوری وغیرہ کی شکل میں ہو سکتا ہے۔

مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے آپ کو ان قرضوں سے پاک رکھے، اور اپنے ذمے اپنے بھائیوں کے حقوق ادا کر دے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ}
 اپنی دولت کو آپس میں باطل طریقے سے مت ہڑپ کرو۔[البقرة: 188]

ہر مسلمان پر حتماً فرض ہے کہ سب لوگوں کے حقوق پورے کے پورے بنا کسی کٹوتی اور کمی کے ادا کر دے۔ یہ بہت ہی واضح گناہ اور عظیم جرم ہے کہ انسان قرضوں کی ادائیگی سے بھاگے، یا قرض خواہ کے سامنے سے کترائے، یا ادائیگی میں ٹال مٹول کرے اور بلا وجہ تاخیر کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (مالدار شخص کا ٹال مٹول سے کام لینا ظلم ہے) متفق علیہ

ادائیگی کا وقت آنے پر بلا وجہ تاخیر ٹال مٹول کہلاتا ہے، لہذا جو شخص قرضوں کی اقساط ادا کرنے یا مکمل قرضہ چکانے کی استطاعت رکھتا ہے لیکن پھر بھی ادائیگی نہیں کرتا تو وہ حرام کا مرتکب ہو کر قرض خواہوں پر ظلم کر رہا ہے، اور ظلم کا انجام دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں تباہی اور بربادی ہے۔

اسلامی بھائیو!

اسلام میں قرض کا معاملہ بہت سنگین اور اہمیت والا ہے، یہی وجہ ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کسی مقروض فوت شدہ آدمی کو لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے:"(کیا میت نے اپنے قرض کی ادائیگی کے لئے کچھ چھوڑا ہے؟)"تو اگر بتلایا جاتا کہ: میت نے ادائیگی کے لئے مال چھوڑ ا ہے تو آپ اس کی نماز جنازہ پڑھاتے وگرنہ فرماتے:"(تم خود ہی اپنے ساتھی کا جنازہ ادا کر دو) متفق علیہ

اس لیے قرض کی ادائیگی پر توجہ نہ دینے والے!

نہ ہی قرض خواہوں کا خیال کرنے والے!

اپنے پروردگار اور اللہ تعالی سے ڈر! اور سب لوگوں کو ان کے حقوق پہنچا دے!

صحیح مسلم میں عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا: (شہید کا ہر گناہ معاف کر دیا جاتا ہے لیکن قرض معاف نہیں کیا جاتا)


اس لیے مسلمانو! اگر آپ قرض چکانے کی حیثیت میں ہو تو آپ کے ذمے جو کچھ بھی ہے اس کی فی الفور ادائیگی کر دیں، اور لوگوں کو ان کی رقوم واپس لوٹا دیں۔

مسلمانو! اپنے ذمے قرض ادا کر دیں، لوگوں کا مال واپس کرتے ہوئے ٹال مٹول سے بچیں، آپ ادائیگی کی استطاعت رکھتے ہیں تو وقت ہاتھ سے نکلنے سے پہلے قرض واپس کر دیں؛ کیونکہ روزِ قیامت لوگوں کے حقوق کا تصفیہ نیکیوں اور گناہوں کے تبادلے سے ہو گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جس کسی نے دوسرے کی عزت یا کسی اور چیز پر ظلم کیا ہو وہ آج ہی اس سے معاف کروا لے قبل ازیں کہ وہ دن آئے جس میں درہم و دینار نہیں ہوں گے، اس دن اگر ظالم کا کوئی نیک عمل ہوگا تو اس کے ظلم کی مقدار اس کا نیک عمل [مظلوم کے لیے]لے لیا جائے گا۔ اگر اس کی نیکیاں نہ ہوئیں تو مظلوم کے گناہ ظالم کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے۔) بخاری

مسلمان بھائی!

لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کے لئے پختہ عزم رہیں، اور قرض چکانے کے لئے اپنی نیت اچھی رکھیں، اللہ تعالی آپ کے لیے راستہ بنا دے گا، اور بند دروازے بھی کھول دے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص لوگوں سے قرض واپسی کی نیت سے لیتا ہے تو اللہ تعالی اس کی طرف سے ادا فرما دیتا ہے، اور جو شخص ہڑپ کرنے کی نیت سے لیتا ہے تو اللہ تعالی اسے تلف فرما دیتا ہے) بخاری

اے قرض خواہو !

تم بھی سخاوت، نرمی اور آسانی والا معاملہ کرو، اگر کوئی شخص تنگ دست ہے تو اسے فراخی تک مہلت دینا واجب ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ}
 اور اگر وہ تنگ دست ہو تو فراخی تک اسے لازمی مہلت دو۔[البقرة: 280]

مفلس اور نادار افراد کو مہلت دینا اور انہیں معاف کر دینا بہت فضیلت والا عمل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (ایک تاجر لوگوں کو قرضہ دیا کرتا تھا، تو جب وہ کسی تنگ دست کو دیکھتا تو وہ اپنے لڑکوں کو کہتا کہ اسے قرض معاف کر دو، امید ہے کہ اللہ تعالی ہمیں بھی معاف کر دے، تو اللہ تعالی نے اسے معاف فرما دیا) متفق علیہ

مسلمانو!

اسلامی واجبات اور فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ مزدور کی مزدوری پوری پوری ادا کریں؛ اس لیے مزدوری میں کٹوتی کرنا یا ادائیگی میں تاخیر کرنا حرام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (مزدور کو اس کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو) اس حدیث کو بعض محققین نے حسن قرار دیا ہے۔

اس لیے مزدور کے حقوق ہڑپ کرنا یا ادائیگی میں تاخیر کرنا حرام ہے، اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: میں قیامت کے دن تین آدمیوں کے خلاف مدعی ہوں گا: )ان میں سے ایک یہ بھی ذکر فرمایا: (وہ شخص جس نے کسی مزدور سے پورا کام لیا لیکن اس کو اجرت نہ دی۔) بخاری، جبکہ بخاری کے علاوہ دیگر کتب حدیث میں ہے کہ: (جس کے خلاف میں مدعی بن گیا تو اس پر غالب ہو جاؤں گا۔)

یہ بات ذہن نشین کر لو کہ اللہ تعالی نے ہمیں جلیل القدر عمل کا حکم دیا ہے کہ ہم کثرت کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھیں، یا اللہ! ہمارے نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتیں، برکتیں، اور سلامتی نازل فرما ۔ یا اللہ! تمام اہل بیت اور صحابہ کرام سے راضی ہو جا، تابعین اور قیامت تک اچھے طریقے سے ان کے نقش قدم پر چلنے والوں سے بھی راضی ہو جا۔

یا اللہ! ہماری اور تمام مسلمانوں کی مغفرت فرما دے۔ یا اللہ! ہمارے اگلے، پچھلے، خفیہ اور اعلانیہ سب گناہ معاف فرما دے۔

یا اللہ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما، اور آخرت میں بھی بھلائی سے نواز اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! مسلمانوں کے حالات بہتر فرما دے، یا اللہ! ان کی پریشانیاں ختم فرما دے، یا اللہ! ان کی مشکلات دور فرما دے۔

یا اللہ! تمام بیمار مسلمانوں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! مقروض لوگوں کو اتنا عطا فرما کہ ان کی ضروریات پوری ہو جائیں۔

یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو صرف وہی کام کرنے کی توفیق عطا فرما جن میں ان کی رعایا کا بھلا ہو۔

یا اللہ! یا ذالجلال والا کرام! ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ یا اللہ! تو غنی اور حمید ہے، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا حیی! یا قیوم! یا ذالجلال والا کرام!

ہماری آخری دعوت بھی یہی ہے کہ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

مقروض اور قرض خواہ کے لیے تعلیمات - خطبہ مسجد نبوی (اقتباس) بتاریخ 24جمادی ثانیہ 1440  بمطابق 01 مارچ 2019 امام و خطیب:  ڈاکٹر جسٹس ...

جب وقت نزع آ جائے گا-۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خطبہ جمعہ بیت اللہ۔۔۔ 22 فروری 2019

Image

جب وقت نزع آ جائے گا-۔۔۔۔۔۔ خطبہ جمعہ بیت اللہ (اقتباس)
امام وخطیب: ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمید ﷾
جمعۃ المبارک 17 جمادیٰ الآخرۃ 1440ھ بمطابق 22 فروری 2019ء
ترجمہ: محمد عاطف الیاس
بشکریہ: عمر وزیر

ہر طرح کی حمد وثنا اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔ وہی عظیم وجلیل ہے۔ میں اللہ پاک کی حمد وثنا بیان کرتا ہوں، اسی کا شکر ادا کرتا ہوں۔ وہی ہمارے لیے کافی اور وہی بہترین كارساز ہے۔ بہت زیادہ نوازتا اور بے انتہا عطائیں کرتا ہے۔ میں پوری سچائی اور اخلاص کے ساتھ یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ یہ گواہی اس دنیا سے جدائی کے دن کام آئے گی۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ قرآن کریم کی معجز آیات کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید کی گئی۔ اللہ کی رحمتیں، برکتیں اور سلامتیاں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اہل بیت اور صحابہ کرام پر، جو اہل فضل ومرتبت ہیں۔ تابعین پر اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں، حق پر ثابت قدم رہنے والوں اور راہ راست پر قائم رہنے والوں پر۔

بعدازاں!
لوگو! میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ اللہ آپ کی نگہبانی فرمائے! اللہ سے ڈرتے رہو۔ سچائی کی راہ اپناؤ۔ کیونکہ انسان سچ بولتا رہتا ہے اور سچائی پر قائم رہنے کی کوشش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اسے اللہ کے یہاں سچے لوگوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔ جھوٹ سے بری چیز کوئی نہیں ہے، کیونکہ انسان جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ پر قائم رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ کے یہاں اسے جھوٹے لوگوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔

دل کی سلامتی تو ایسی نعمت ہے جسے جنت کی عظیم نعمتوں میں شمار کیا گیا ہے۔

وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَىٰ سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَ
’’اُن کے دلوں میں جو تھوڑی بہت رنجش ہوگی اسے ہم نکال دیں گے، وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھیں گے۔‘‘(الحجر: 47)

یہ بھی ایک مصیبت ہے کہ انسان ایسی لڑائیوں اور جھگڑوں میں لگا رہے۔ اللہ تیری نگہبانی فرمائے! لوگوں کو معاف کرتے رہنا، ان کی غلطیوں سے درگزر کرتے رہنا، بھلا گمان رکھنا۔ جس کی کسی غلطی کا عذرنہ بھی مل سکے، اس کے متعلق بھی یہی کہہ دیا کرو کہ ہو سکتا ہے اس کی کوئی مجبوری ہو۔

اے مسلمانو!
اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم ترین نعمت بھی ہے کہ وہ انسان کو زندہ دل عطا فرما دے، جس کی بدولت وہ بیدار ہو جائے، متنبہ ہو جائے اور اِس زندگے کے احوال، بدلتے حالات اور اس کے اتار چڑھاؤ کو خوب سمجھ لے۔ انسان کی زندگی ایسے مواقع سے بھری پڑی ہے جن سے عبرت پکڑی جا سکتی ہے اور سبق حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس میں ایسی تبدیلیاں آتی ہیں جن میں سے ہر ایک دوسری سے بڑی ہوتی ہے۔ جب بڑی مصیبت آتی ہے تو ہلکی مصیبت بھول جاتی ہیں۔ مگر ایک موقع ایسا بھی ہے جس کے متعلق انسان بہت کم غور وفکر کرتا ہے، اور اگر غور وفکر کرتا بھی ہے تو ویسے نہیں جیسے غور وفکر کرنے کا حق ہے۔ اس موقع کی تصویر کشی علامہ ابن الجوزی علیہ رحمۃ اللہ یوں کرتے ہیں:

دلچسپ بات یہ ہے کہ موت کے فورًا بعد انسان کو ہوش آجاتی ہے۔ موت کے فورًا بعد انسان کو ہوش آجاتی ہے۔ جب انسان اللہ کے رحم کے مرہون منت ہو جاتا ہے تو وہ ہوش میں آتا ہے، ایسی ہوش میں آتا ہے، جس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے، اتنا بےچین ہوتا ہے جس کا وصف نہیں کیا جا سکتا۔ گزرے وقت کو پھر سے پانے کی تمنا کرتا ہے، تمنا کرتا ہے کہ اسے تھوڑی مہلت مل جائے، تاکہ وہ کوتاہیوں کا تدارک کر لے اور موت پر یقین رکھتے ہوئے پوری سچائی کے ساتھ توبہ کر لے۔

پھر ابن الجوزی ﷫ فرماتے ہیں: عقلمند وہ ہے، جو اس وقت کو یاد رکھتا ہے اور اس کی تیاری کرتا ہے۔

اللہ کے بندو!
موت کو یاد رکھنے سے خواہشات کا زور کم ہو جاتا ہے، اس کا تصور کرنے سے انسان میں سنجیدگی آ جاتی ہے، وقت کی حفاظت ہوتی ہے اور اعمال نیک ہو جاتے ہیں۔ مکمل عافیت اور طویل زندگی کے دنوں میں موت کو یاد کرتے رہنا چاہیے تاکہ ذکر، شکر اور بہترین عبادت کے ذریعے موت کی تیاری ممکن ہو سکے۔

اللہ کے بندو! نزع کا لمحہ، وہ لمحہ ہوتا ہے، جس میں انسان موت اور زندگی کے درمیان ہوتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے، جب آ جاتا ہے تو انسان کو یقینی طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اب مر جائے گا۔ اس لمحے میں کوئی جھوٹ نہیں ہوتا، نہ اس سے بھاگ نکلنے کا کوئی راستہ ہوتا ہے۔ انسان کے سامنے سے پردے ہٹا دیے جاتے ہیں اور وہ یقینی طور پر جان لیتا ہے کہ اس کی آخرت آ گئی ہے۔ دنیا کا پردہ اس کی آنکھوں کے آگے سے ہٹا دیا جاتا ہے، پھر اسے ایسی چیزیں نظر آنے لگتی ہیں، جو پہلے کبھی نہیں آئی ہوتیں۔

ے مسلمانو!
اس دنیا میں انسان صحت اور تندرستی کے وقت غفلت میں پڑ جاتا ہے۔ وہ مالدار بھی ہوتا ہے، صاحب منصب بھی ہوتا ہے اور معاشرے میں اعلیٰ مقام ومرتبہ رکھنے والا بھی ہوتا ہے۔ اس وقت ایسا ہوتا ہے کہ آنکھیں رشک کریں! اس کے ارد گرد بہت سے نوکر چاکر اور ماتحت لوگوں کا جھمگھٹا لگا ہوتا ہے۔ بڑی بڑی امیدوں میں جیتا ہے اور لمبی لمبی منصوبہ بندیاں کرتا ہے۔ پھر جب اس کی موت کا وقت آ جاتا ہے، نزع کا لمحہ آ پہنچتا ہے، یا کوئی مایوس کن بیماری آ جاتی ہے یا کسی حادثے کا شکار ہو جاتا ہے، تو اس کا کیا حال ہوتا ہے، اس وقت اس کے احساسات کیا ہوتے ہیں، اس کے امیدیں کیا ہوتی ہیں، کس چیز پر نادم ہوتا ہے اور کن چیزوں کی امیدیں لگاتا ہے؟ ارد گرد سے سب ہٹ چکے ہوتے ہیں، مصلحت پرست لوگ دور جا چکے ہوتے ہیں۔ وہ ایسی حالت تک پہنچ چکا ہوتا ہے، جس میں اسے یقین ہو جاتا ہے دل کی سلامتی اور نیک اعمال، بہترین عبادت، اچھا اخلاق، پاکیزہ دل، نیک سیرتی، ایثار اور لوگوں کا فائدہ کرنے کا جذبہ ہی قابل رشک ہے۔

وَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ ٨٧ يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ ٨٨ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّـهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ
’’مجھے اس دن رسوا نہ کر جبکہ سب لوگ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے (87) جبکہ نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد (88) سوائے اس کے کہ کوئی شخص قلب سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو۔‘‘(الشعراء: 87)

جب نزع کا وقت آ جاتا ہے، یا بے بسی کی صورت پیدا ہو جاتی ہے تو انسان غور کرنے لگتا ہے اور اس وقت سوچتا ہے کہ کیا دنیا کی زندگی ان ساری قربانیوں کی مستحق بھی تھی؟ کیا وہ اس لائق تھی کہ اس کے لیے دشمنیاں کی جائیں، ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے کیے جائیں، اس کی وجہ سے فلاں کو آگے کیا جائے، فلاں کو پیچھے کیا جائے، فلاں کو نظر انداز کیا جائے، فلاں کو قریب کر لیا جائے، فلاں سے منہ موڑ لیا جائے اور فلاں کے معاملے سے غفلت برتی جائے۔ گھروالوں اور بچوں کے حقوق سے اور ان کی تربیت اور اصلاح سے غفلت کی جائے، بلکہ اپنے نفس کی تندرستی، آرام، سکون، عبادت اور احسان میں کوتاہی کی جائے۔

اس حال میں انسان کی تمام امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں اور آرزؤوں کا طوفان تھم جاتا ہے۔

جب انسان کو یہ یاد آتا ہے اور جب وہ اپنا محاسبہ کرتا ہے تو وہ کہتا ہے، اگرچہ اس وقت کچھ کہنے کا فائدہ نہیں ہوتا۔ کہتا ہے: اگر میں تھوڑی دیر کے لیے دنیا اور آخرت کے حال پر غور کر لیتا تو مجھے معلوم ہو جاتا کہ نیکی، اچھے اعمال اور لوگوں کے لیے بھلائی پسندیدہ اور سلامتی کا راستہ ہے، محفوظ ترین شاہراہ ہے۔ معاشرتی مقام کا شور کہاں گیا؟! مددگاروں کا شور شرابا کہاں گیا؟! رابطے اور تعلقات کس کام آئے؟! اس وقت اسے خوب معلوم ہو چکا ہوتا ہے کہ بلند درجے اور ترقی کے زینے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جان لیتا ہے بلند مقام اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے میں، بہترین انداز میں اس کی عبادت کرنے میں اور اس کے لیے اخلاص اپنانے میں ہے، نا کہ دنیا والوں کے مرتبوں، ان کے عہدوں، ان کی عزتوں اور ان کے مال میں۔
اس حال میں امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں اور آرزؤوں کا طوفان تھم جاتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ:

رَبِّ ارْجِعُونِ ٩٩ لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ
’’اے میرے رب، مجھے اُسی دنیا میں واپس بھیج دیجیے جسے میں چھوڑ آیا ہوں۔‘‘(المؤمنون: 99)
اور کوئی کہتا ہے:
رَبِّ لَوْلَا أَخَّرْتَنِي إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ فَأَصَّدَّقَ وَأَكُن مِّنَ الصَّالِحِينَ
’’اے میرے رب، کیوں نہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہو جاتا۔‘‘
(المنافقون: 10)
اور کوئی کہتا ہے:
يَا حَسْرَتَىٰ عَلَىٰ مَا فَرَّطتُ فِي جَنبِ اللَّـهِ
’’افسوس میری اُس کوتاہی پر جو میں اللہ کے حق میں کرتا رہا۔‘‘(الزمر: 56)
مگر سب کو یہی جواب ملے گا:
أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم مَّا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَن تَذَكَّرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ ۖ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِينَ مِن نَّصِيرٍ
’’کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس میں کوئی سبق لینا چاہتا تو سبق حاصل کر سکتا تھا؟ اور تمہارے پاس متنبہ کرنے والا بھی آ چکا تھا۔‘‘(فاطر: 37)

اس کے لیے بڑی ہلاکت ہے اور اس شخص کی سعادت کے کیا کہنے، جس پر فرشتے نازل ہوں گے اور کہیں گے:
أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ﴿٣٠﴾نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ ﴿٣١﴾ نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ
’’نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جاؤ اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے (30) ہم اِس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی، وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی (31) یہ ہے سامان ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔‘‘(فصلت: 30-32)

ان لوگوں کی کامیابی کے بھی کیا کہنے جنہیں:
لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ هَـٰذَا يَوْمُكُمُ الَّذِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ
’’وہ انتہائی گھبراہٹ کا وقت اُن کو ذرا پریشان نہ کرے گا، اور ملائکہ بڑھ کر اُن کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے کہ “یہ تمہارا وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔‘‘(الانبیاء: 103)

پیارے بھائیو!
یہ ہیں سلف صالحین کے احوال اور حالت نزع میں ان سے روایت کردہ واقعات۔

یہ ہیں حضرت سلمان فارسی ان کے بارے میں امام احمد، امام حاکم اور امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے کہ جب وہ بیمار ہوئے تو حضرت سعد بن ابی وقاص کوفہ سے ان کے پاس عیادت کے لیے آئے۔ جب وہ ان کے پاس پہنچے تو وہ نزع کی حالت میں تھے اور رو رہے تھے۔ انہوں نے سلام کیا اور بیٹھ گئے۔ پھر پوچھا: کیوں رو رہے ہو؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت یاد نہیں ہے؟ کیا نیک اور روح پرور منظر یاد نہیں ہیں؟ سلمان فارسی نے فرمایا: میں ان دونوں چیزوں کی وجہ سے نہیں رو رہا۔ میں دنیا کی محبت میں یا اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتے ہوئے نہیں رو رہا۔ حضرت سعد نے فرمایا: تو پھر دنیا میں 80 سال گزار لینے کے بعد کس وجہ سے رو رہے ہو؟ کہتے: مجھے اس وجہ سے رونا آ رہا ہے کہ میرے خلیل نے مجھے وصیت کی تھی کہ دنیا میں اتنا ہی سامان اکٹھا کروں جتنا کوئی مسافر سوار اکٹھا کرتا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ میں نے اس سے زیادہ سامان اکٹھا کر لیا ہے۔

یہ ہیں حضرت سلمان جو ڈرتے تھے کہ انہوں نے زیادہ مال ومتاع اکٹھا کر لیا ہو۔ تو بھلا وہ کیا کہے گا، جس نے یقینی طور پر بہت زیادہ مال ومتاع اکٹھا کر رکھا ہے؟ پھر وہ کیا کہے گا، جس نے دوسروں کے مال سے بھی ہاتھ پیچھے نہیں رکھا، بلکہ انہیں بھی لوٹ لیا؟ اللہ کی حدوں کا خیال بھی نہیں کیا، بلکہ ان سے بھی آگے بڑھ گیا؟ لوگوں کی عزتوں اور ان کے گوشت کا بھی خیال نہیں کیا، بلکہ انہیں بھی ہضم کر گیا۔ لوگوں کے عقائد اور اخلاق کو محفوظ نہیں رکھا، بلکہ ان پر حملہ کر کے انہیں بھی بگاڑ دیا؟!

یہ ہے محاسبۂ نفس۔ کہ انسان یہ سوچے کہ کیا وہ اپنی حدود سے باہر نکلا ہے؟ کیا اس نے کوتاہی کی ہے؟ کیا اس نے کوئی تبدیلی کی ہے؟ کیا اس نے کسی چیز کی حالت بگاڑی ہے؟

بعدازاں! اللہ کے بندو!
اے زندہ لوگو! اے تندرستو! تم ان چیزوں پر قادر ہو، جس پر قبروں والے قادر نہیں ہیں۔ تو صحت، تندرستی اور فراغت کو غنیمت جانو۔ اس سے پہلے کہ روح نکلنے کا وقت آ جائے یا یوم جزا آ جائے۔ ہر وہ دن جو انسان جی لیتا ہے، بلکہ ہر گھڑی جو انسان گزار لیتا ہے، وہ ایک شاندار موقع ہوتا ہے۔ جو بقیہ زندگی میں اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے گزشتہ اور آئندہ گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ جو اپنی تندرستی اور فراغت کو فرمانبرداری میں لگا دیتا ہے، وہی قابل رشک ہوتا ہے۔ جو انہیں نافرمانی میں استعمال کرتا ہے، وہی گھاٹے میں ہے۔

فراغت کے بعد مصروفیت آ جاتی ہے۔ تندرستی کے بعد بیماری آ جاتی ہے۔

میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردود سے۔
كَلَّا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ ﴿٢٦﴾ وَقِيلَ مَنْ ۜ رَاقٍ ﴿٢٧﴾ وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ ﴿٢٨﴾ وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ ﴿٢٩﴾ إِلَىٰ رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَسَاقُ
’’ہرگز نہیں، جب جان حلق تک پہنچ جائے گی (26) اور کہا جائے گا کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا (27) اور آدمی سمجھ لے گا کہ یہ دنیا سے جدائی کا وقت ہے (28) اور پنڈلی سے پنڈلی جڑ جائے گی (29) وہ دن ہوگا تیرے رب کی طرف روانگی کا۔‘‘(القیامۃ: 26-30)

وعظ ونصیحت سے فائدہ اٹھانے میں یہ بھی شامل ہے کہ آپ یہ بھی جان لو کہ اعمال کا دار ومدار ان کے خاتمے پر ہوتا ہے۔ خوش بخت وہ ہے جو دوسروں سے عبرت پکڑ لے۔ ہر وہ مزا، جس کے بعد موت آنی، اس کی حیثیت راکھ سے زیادہ نہیں ہے۔

أَفَرَأَيْتَ إِن مَّتَّعْنَاهُمْ سِنِينَ ﴿٢٠٥﴾ ثُمَّ جَاءَهُم مَّا كَانُوا يُوعَدُونَ ﴿٢٠٦﴾ مَا أَغْنَىٰ عَنْهُم مَّا كَانُوا يُمَتَّعُونَ
’’تم نے کچھ غور کیا، اگر ہم انہیں برسوں تک عیش کرنے کی مُہلت بھی دے دیں (205) اور پھر وہی چیز ان پر آ جائے جس سے انہیں ڈرایا جا رہا ہے (206) تو وہ سامانِ زیست جو ان کو ملا ہوا ہے اِن کے کس کام آئے گا؟‘‘(الشعراء: 207)

اسی طرح وعظ نصیحت سے فائدہ حاصل کرنے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انسان یہ جان لے کہ دن ایک خزانہ ہیں، جو دن گزر جاتا ہے، وہ کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔ رجوع نہ ہو تو یاد دہانی کا کوئی فائدہ نہیں۔ عمل نہ ہو تو بات سننے کا کوئی فائدہ نہیں۔

غور کرو! امام حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کے اس اشارے پر غور کیجیے۔ فرماتے ہیں: جو اپنی زندکی اللہ تعالیٰ کے ساتھ، اس کے ذکر، اس سے محبت اور اس کی فرمان برداری میں مصروف رہتا ہے، وہ دیکھے کہ اسے موت کے وقت انہی چیزوں کی ضرورت تھی۔ جبکہ جو اپنی زندگی میں ان کے علاہ کسی دوسری چیز میں مصروف رہتا ہے اور غیر اللہ کے ساتھ تعلق مضبوط کر لیتا ہے تو اس کے لیے موت کے وقت اللہ تعالیٰ کے ساتھ دل لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔ فرمان برداری پر سچے اور صبر کرنے والے فرمان بردار ہی ثابت قدم رہتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دل نزع کے وقت نہیں پھرتے اور شیطان ان کا کوئی نقصان نہیں کر پاتے۔

سنو! پرہیز گاری اختیار کرو۔ سنو! پرہیز گاری اختیار کرو۔

درود وسلام بھیجو! اللہ کی عطا کردہ نعمت اور سراپائے رحمت، اپنے نبی محمد رسول اللہ ﷺ پر۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی واضح کتاب میں یہی حکم دیا ہے۔ سچ اور حق بات کرنے والے نے اپنی کتاب میں عظیم فرمان جاری کیا ہے۔ فرمایا:

إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
’’اللہ اور اس کے ملائکہ نبیﷺ پر درود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔‘‘(الاحزاب: 56)
اے اللہ! رحمتیں، برکتیں اور سلامتی نازل فرما اپنے بندے اور رسول، حبیبِ مصطفیٰ، نبیِّ مجتبیٰ، نبینا محمد ﷺ پر، پاکیزہ اہل بیت پر، امہات المؤمنین، ازواج مطہرات پر۔


اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما! اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما! اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما! شرک اور مشرکوں کو رسوا فرما! سرکشوں اور بے دینوں اور تمام دین وملت کے دشمنوں کو تباہ وبرباد فرما!

اے اللہ! ہمارے ملکوں میں امن نصیب فرما! اے اللہ! ہمارے ملکوں میں امن نصیب فرما! ہمارے اماموں اور حکمرانوں کی اصلاح فرما! ہماری حکمرانی ان لوگوں کے ہاتھوں میں تھما جو تجھ سے ڈرنے والے، پرہیز گار اور تیری خوشنودی کے طالب ہوں۔

اے اللہ! مسلمانوں کے احوال درست فرما! اے اللہ! ہر جگہ مسلمانوں کے احوال درست فرما! اے اللہ! ان کی جانوں کی حفاظت اور انہیں حق، ہدایت اور سنت پر اکٹھا فرما! ان کے نیک لوگ ان کے حکمران بنا۔ انہیں برے لوگوں سے چھٹکارہ نصیب فرما! ان کے ملکوں میں امن، عدل اور سلامتی عام فرما! انہیں تمام ظاہر وپوشیدہ برائیوں اور فتنوں سے محفوظ فرما!

اے اللہ! ہمارے فوجی جوانوں کی مدد فرما! اے اللہ! ہمارے فوجی جوانوں کی مدد فرما جو ہمارے ملک کی سرحدوں کی پہرہ داری کر رہے ہیں۔ ان کے فیصلے درست فرما اور ان کے نشانی ٹھیک جگہ پر لگا۔ ان کی مدد فرما! ان کی ہمتیں بلند فرما! انہیں سربلندی نصیب فرما! ان کے دلوں کو مضبوط فرما! ظلم وزیادتی کرنے والوں پر ان کی مدد فرما!

اے اللہ! ان کی تائید فرما! انی کی نصرت فرما! اے اللہ! سامنے سے، پیچھے سے، دائیں جانب سے، بائیں جانب سے اور اوپر سے ان کی حفاظت فرما! نیچے سے ہلاکت کی آمد سے ہم تیری پناہ میں آتے ہیں۔

اے اللہ! ہمارے گناہ معاف فرما! ہمارے عیب چھپا! ہماری مصیبتیں آسان فرما! آزمائیش میں پڑنے والے ہمارے بھائیوں کی مدد فرما! ہمارے بیماروں کو شفا عطا فرما اور ہمارے فوت شدگان پر رحم فرما!

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
’’اے رب، ہم نے اپنے اوپر ستم کیا، اب اگر تو نے ہم سے در گزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو یقیناً ہم تباہ ہو جائیں گے۔‘‘(الاعراف: 23)

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
’’اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔‘‘(الاعراف: 23)

سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ ﴿١٨٠﴾ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ﴿١٨١﴾ وَالْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
’’پاک ہے تیرا رب، عزت کا مالک، اُن تمام باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں (180) اور سلام ہے مرسلین پر (181) اور ساری تعریف اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے۔‘‘(الصافات: 180-182)


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

جب وقت نزع آ جائے گا-۔۔۔۔۔۔ خطبہ جمعہ بیت اللہ (اقتباس) امام وخطیب: ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمید ﷾ جمعۃ المبارک 17 جمادیٰ الآخ...