کتاب اللہ ۔۔۔ نشید ۔۔۔ أحمد بو خاطر

 


عربی کلام: 

هذا القرآن يوحدنا لطريق الخير يوجهنا 
الله تعالى أنزله ورسول الله مُعلمنا 

هذا القرآن هو الهادي لأوائلنا و أواخرنا 
يدعو للعلم وللعمل لا شيء سواه يهذبنا

كتاب الله لا شيء سواه
 يهذبنا فلنعمل به

هو معجزة الله الكبرى عن سر الكون يُحدثنا
الله تعالى أنزله ورسول الله معلمنا

 فلنعمل نحن بمنهجه هيا يا عرب هلم بنا

اردو ترجمہ:

یہ قرآن ہمیں نیکی کے راستے پر اکٹھا کرتا ہے اور ہدایت دیتا ہے۔
 اللہ تعالیٰ نے اسے نازل فرمایا اور رسول اللہﷺ ہمارے استاد ہیں۔

 یہ قرآن ہماری ابتدائی اور آخری نسلوں کے لیے رہنما ہے۔
 یہ علم اور کام کا مطالبہ کرتا ہے، اس کے علاوہ کوئی چیز ہمیں نکھار نہیں سکتی

 خدا کی کتاب کے علاوہ کوئی چیز ایسی نہیں 
جو اس کے مطابق عمل کرنے میں ہماری رہنمائی کر سکے۔

 یہ کائنات کے راز کے بارے میں خدا کا سب سے بڑا معجزہ ہے جو ہمیں بتاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اسے نازل فرمایا اور رسول اللہﷺ ہمارے استاد ہیں۔

 چلو اس کے طریقے پر چلو، عربو، ہمارے ساتھ چلو



  عربی کلام:  هذا القرآن يوحدنا لطريق الخير يوجهنا  الله تعالى أنزله ورسول الله مُعلمنا  هذا القرآن هو الهادي لأوائلنا و أواخرنا  يدعو للعلم...

شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ حضرت خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 38

 


⚔  شمشیرِ بے نیام ⚔ 


 حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ


( قسط نمبر-38)



مئی ۶۳۳ء کے پہلے ہفتے جو ماہِ صفر ۱۲ ہجری کا تیسرا ہفتہ تھا زرتشت کے پجاریوں کیلئے دریائے فرات کا سر سبز و شاداب خطہ جہنم بن گیا تھا۔ کس قدر ناز تھا انہیں اپنی جنگی طاقت پر، اپنی شان و شوکت پر ،اپنے گھوڑوں اور ہاتھیوں پر، وہ تو فرعونوں کے ہم پلہ ہونے کا دعویٰ کرنے لگے تھے اور کسریٰ دہشت کی علامت بنتا جا رہا تھا ۔ دجلہ اور فرات کے سنگم کے وسیع علاقے میں خالدؓ نے جنہیں رسولِ ﷲﷺ نے ﷲ کی تلوار کا خطاب دیا تھا فارس کے زرتشتوں کو بہت بری شکستیں دی تھیں اور ان کے ہرمز قارن بن قریانس ،انوشجان اور قباذ جیسے سالاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا لیکن کسریٰ اردشیر نے ابھی شکست تسلیم نہیں کی تھی۔ اس کے پاس ابھی بے پناہ فوج موجود تھی اور مدینہ کے مجاہدین کو وہ اب بھی بدو اور صحرائی لٹیرے کہتا تھا ۔ اس نے شکست تسلیم تو نہیں کی تھی لیکن شکست اور اپنے نام ور سالاروں کی مسلمانوں کے ہاتھوں موت کا جو اسے صدمہ ہوا تھا اسے وہ چھپا نہیں سکا تھا ۔ ہرمز کی موت کی اطلاع پر وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر دہرا ہو گیا تھا ۔ اس نے سنبھلنے کی بہت کوشش کی تھی لیکن ایسے مرض کا آغاز ہو چکا تھا جس نے اسے بستر پر گرا دیا تھا۔ مؤرخوں نے اس مرض کو صدمہ کا اثر لکھا ہے۔’’کیا میرے لیے شکست اور پسپائی کے سوا اب کوئی خبر نہیں رہ گئی ؟‘‘اس نے بستر پہ اٹھ کر بیٹھتے ہوئے گرج کر کہا ۔’’کیا مدینہ کے مسلمان جنات ہیں؟ کیا وہ کسی کو نظر نہیں آتے؟ اور وار کر جاتے ہیں۔‘‘ طبیب، اردشیر کی منظورِ نظر دوجواں سال بیویاں اور اس کا وزیر حیران و پریشان کھڑے اس قاصد کو گھور رہے تھے جو ایرانیوں کی فوج کی ایک اور شکست اور پسپائی کی خبر لایا تھا۔ اس کے آنے کی جب اطلاع اندر آئی تو طبیب نے باہر جا کر قاصد سے پوچھا تھا کہ وہ کیا خبر لایا ہے؟ قاصد نے خبر سنائی تو طبیب نے اسے کہا تھا کہ وہ کسریٰ کو ابھی ایسی بری خبر نہ سنائے کیونکہ اس کی طبیعت اس کی متحمل نہیں ہو سکے گی۔ لیکن یہ قاصد کوئی معمولی سپاہی نہیں تھا کہ وہ طبیب کا کہا مان جاتا ۔ وہ پرانا کماندار تھا۔ اس کا عہدہ سالاری سے دو ہی درجہ کم تھا۔ اسے کسی سالار نے نہیں بھیجا تھا ۔اسے بھیجنے کیلئے کوئی سالار زندہ نہیں بچا تھا۔ طبیب کے روکنے سے وہ نہ رکا اس نے کہا کہ اسے کسریٰ کی صحت کا نہیں، فارس کی شہنشاہیت اور زرتشت کی عظمت کا غم ہے۔ اگر شہنشاہ اردشیرکو اس نے دجلہ اور فرات کی جنگی کیفیت کی پوری اطلاع نہ دی تو مسلمان مدائن کے دروازے پر آ دھمکیں گے ۔اس نے طبیب کی اور کوئی بات نہ سنی ،اندر چلا گیااور اردشیر کو بتایا کہ مسلمانوں نے فارس کی فوج کو بہت بری شکست دی ہے۔اردشیر لیٹا ہوا تھا ،اٹھ بیٹھا ،غصے سے اس کے ہونٹ اور اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔’’شہنشاہِ فارس!‘‘ کماندار نے کہا۔’’مدینہ والے جنات نہیں ۔ وہ سب کو نظر آتے ہیں لیکن……‘‘ ’’کیا قارن مر گیا تھا؟‘‘اردشیر نے غصے سے پوچھا۔’’ہاں شہنشاہ !‘‘کماندار نے جواب دیا۔

۔’’وہ ذاتی مقابلے میں مارا گیا تھا۔اس نے دونوں فوجوں کی لڑائی تو دیکھی ہی نہیں۔‘‘’’مجھے اطلاع دی گئی تھی کہ قباذ اور انوشجان بھی اس کے ساتھ تھے۔‘‘’’وہ بھی قارن کے انجام کو پہنچ گئے تھے۔‘‘کماندار نے کہا۔’’وہ قارن کے قتل کا انتقام لینا چاہتے تھے ۔ دونوں نے اکھٹے آگے بڑھ کر مدینہ کے سالاروں کو للکارا اور دونوں مارے گئے۔ شہنشاہِ فارس! کیا فارس کی اس عظیم شہنشاہی کو اس انجام تک پہنچنا ہے؟ نہیں نہیں……گستاخی کی معافی چاہتا ہوں، اگر کسریٰ نے صدمے سے اپنے آپ کو یوں روگ لگا لیا تو کیا ہم زرتشت کی عظمت کو مدینہ کے بدوؤں سے بچا سکیں گے؟‘‘

’’تم کون ہو؟‘‘اردشیر نے پوچھا۔’’میں کماندار ہوں ۔‘‘کماندار نے جواب دیا۔’’میں کسی کا بھیجا ہوا قاصد نہیں ۔ میں زرتشت کا جانثار ہوں۔‘‘ ’’دربان کو بلاؤ۔‘‘اردشیر نے حکم دیا۔’’تم نے مجھے نیا حوصلہ دیا ہے۔ مجھے یہ بتاؤ کیا مسلمانوں کی نفری زیادہ ہے؟ کیا ان کے پاس گھوڑے زیادہ ہیں؟ کیا ہے ان کے پاس؟‘‘ دربان اندر آیا اور حکم کے انتظار میں جھک کر دہرا ہو گیا۔’’سردار اندرزغر کو فوراً بلاؤ۔‘‘اردشیر نے دربان سے کہا اور کماندار سے پوچھا ۔’’کیا ہے ان کے پاس؟ بیٹھ جاؤ اور مجھے بتاؤ۔‘‘ ’’ہمارے مقابلے میں ان کے پاس کچھ بھی نہیں۔‘‘کماندار نے جواب دیا۔’’ان میں لڑنے کا جذبہ ہے ۔ میں نے ان کے نعرے سنے ہیں۔ وہ نعروں میں اپنے خدا اور رسول ﷺ کو پکارتے ہیں ۔میں نے ان میں اپنے مذہب کا جنون دیکھا ہے۔ وہ اپنے عقیدے کے بہت پکے ہیں اور یہی ان کی طاقت ہے۔ ہر میدان میں انکی تعداد تھوڑی ہے۔‘‘’’ٹھہر جاؤ۔‘‘ اردشیر نے کہا۔’’ اندرزغر آ رہا ہے۔ مجھے اپنے اس سالار پر بھروسہ ہے۔ اسے بتاؤ کہ ہماری فوج میں کیا کمزوری ہے کہ اتنی زیادہ تعداد میں ہوتے ہوئے بھاگ آتی ہے۔‘‘ ’’اندرزغر!‘‘ اردشیر بستر پرنیم دراز تھا۔ اپنے ایک اور نامور سالار سے کہنے لگا۔’’کیا تم نے سنا نہیں۔ کہ قارن بن قریان بھی مارا گیا ہے۔ قباذ بھی مارا گیا اور انوشجان بھی مارا گیا ہے۔‘‘اندرزغر کی آنکھیں ٹھہر گئیں جیسے حیرت نے اس پر سکتہ طاری کر دیا ہو۔’’اسے بتاؤ کماندار!‘‘ اردشیر نے کماندار سے کہا۔’’کیا میں ان حالات میں زندہ رہ سکوں گا؟’’ ‘‘کماندار نے سالار اندرزغر کو تفصیل سے بتایا کہ مسلمانوں نے انہیں دریائے معقل کے کنارے کس طرح شکست دی ہے اور یہ بھی تفصیل سے بتایا کہ مدائن کی فوج کس طرح بھاگی ہے۔’’اندرزغر!‘‘اردشیر نے کہا۔’’ہم اب ایک اور شکست کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ مسلمانوں سے صرف شکست کا انتقام نہیں لینا ۔ ان کی لاشیں فرات میں بہا دینی ہیں ۔یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ تم زیادہ سے زیادہ فوج لے کر جاؤ۔ تم اس علاقے سے واقف ہو۔ تم بہتر سمجھتے ہو کہ مسلمانوں کو کہاں گھسیٹ کر لڑانا چاہیے۔‘‘ ’’وہ ریگستان کے رہنے والے ہیں ۔‘‘اندرزغر نے کہا۔’’اور وہ ریگستان میں ہی لڑ سکتے ہیں۔ میں انہیں سر سبز اور دلدلی علاقے میں آنے دوں گا اور ان پر حملہ کروں گا۔ میری نظر میں دلجہ موزوں علاقہ ہے۔‘‘اس نے کماندار سے پوچھا ۔’’ان کے گھوڑ سوار کیسے ہیں؟‘‘’’ان کے سوار دستے ہی ان کی اصل طاقت ہیں ۔‘‘کماندار نے کہا۔’’ان کے سوار بہت تیز اور ہوشیار ہیں۔ دوڑتے گھوڑوں سے ان کے چلائے ہوئے تیر خطا نہیں جاتے ۔ان کے سواروں کا حملہ بہت ہی تیز ہوتا ہے۔ وہ جم کر نہیں لڑتے۔ایک ہلہ بول کر اِدھر اُدھر ہو جاتے ہیں۔‘‘’’یہی وہ راز ہے جو ہمارے سالار نہیں سمجھ سکتے۔‘‘ اندرزغر نے اپنی ران پر ہاتھ مار کر کہا۔’’مسلمان آمنے سامنے کی جنگ لڑ ہی نہیں سکتے ۔ ہم ان سے کئی گنا زیادہ فوج لے جائیں گے۔ میں انہیں اپنی فوج کے نیم دائرے میں لے کر مجبور کر دوں گا کہ وہ اپنی جان بچانے کیلئے آمنے سامنے کی لڑائی لڑیں ۔‘‘ ’’اندرزغر!‘‘اردشیر نے کہا۔’’یہاں بیٹھ کر منصوبہ بنا لینا آسان ہے لیکن دشمن کے سامنے جا کر اس منصوبے پر اس کے مطابق عمل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کماندار نے ایک بات بتائی ہے اس پر غور کرو۔ یہ کہتا ہے کہ مسلمان اپنے مذہب اور اپنے عقیدے کے وفادار ہیں اور وہ اپنے خدا اور اپنے رسول ﷺ کا نام لے کر لڑتے ہیں۔ کیا ہماری فوج میں اپنے مذہب کی وفاداری ہے؟‘‘


’’اتنی نہیں جتنی مسلمانوں میں ہے اور اس پر بھی غور کرو اندرزغر! مسلمان اپنے علاقے سے بہت دور آ گئے ہیں۔ یہ ان کی کمزوری ہے۔ یہاں کے لوگ ان کے خلاف ہوں گے۔‘‘ ’’نہیں شہنشاہ!‘‘کماندار نے کہا۔’’فارس کے جن علاقوں پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا ہے، وہاں کے لوگ ان کے ساتھ ہو گئے ہیں۔ ان کا سلوک ایسا ہے کہ لوگ انہیں پسند کرنے لگتے ہیں۔ وہ قتل صرف انہیں کرتے ہیں جن پر انہیں کچھ شک ہوتا ہے۔‘‘’’یہاں کے وہ عربی لوگ ان کے ساتھ نہیں ہو سکتے جو عیسائی ہیں۔‘‘ اندرزغر نے کہا۔’’میرے دل میں ان لوگوں کی جو محبت ہے اسے وہ اچھی طرح جانتے ہیں ۔ میں انہیں اپنی فوج میں شامل کروں گا۔ ہم یہاں کے مسلمانوں پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ یہ ہمیشہ باغی رہے ہیں۔ان پر ہمیں کڑی نظر رکھنی پڑے گی ۔ان کی وفاداریاں مدینہ والوں کے ساتھ ہیں۔‘‘ ’’ان مسلمانوں کے ساتھ پہلے سے زیادہ برا سلوک کرو۔‘‘اردشیر نے کہا۔’’انہیں اٹھنے کے قابل نہ چھوڑو۔‘‘ ’’ہم نے انہیں مویشیوں کا درجہ دے رکھا ہے۔‘‘ اندرزغر نے کہا۔ ’’انہیں بھوکا رکھا ہے۔ ان کے کھیتوں سے ہم فصل اٹھا کر لے آتے ہیں اور انہیں صرف اتنا دیتے ہیں جس پر وہ صرف زندہ رہ سکتے ہیں۔ لیکن وہ اسلام کا نام لینے سے باز نہیں آتے۔ بھوکے مر جانا پسند کرتے ہیں لیکن اپنا مذہب نہیں چھوڑتے۔‘‘ ’’یہی ان کی قوت ہے۔‘‘کماندار نے کہا۔ ’’ورنہ ایک آدمی دس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ کپڑوں میں ملبوس آدمی زرہ پوش کر قتل نہیں کر سکتا۔ مسلمانوں نے یہ کر کے دکھا دیا ہے۔‘‘ ’’میں اس قوت کو کچل ڈالوں گا ۔‘‘اردشیر نے بلند آواز سے کہا۔’’اندرزغر ابھی ان مسلمانوں کو نہ چھیڑنا جو ہماری رعایا ہیں۔ انہیں دھوکا دو کہ ہم انہیں چاہتے ہیں۔ پہلے ان کا صفایا کرو جنہوں نے ہماری شہنشاہیت میں قدم رکھنے کی جرات کی ہے۔ اس کے بعد ہم ان کا صفایا کریں گے جو ہمارے سائے میں سانپوں کی طرح پل رہے ہیں۔‘‘ اسی روز اردشیر نے اپنے وزیر اندرزغر اور اس کے ماتحت سالاروں کو بلایا اور انہیں کہا کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہم مدینہ پر حملہ کرتے اور اسلام کا وہیں خاتمہ کر دیتے۔ لیکن حملہ انہوں نے کر دیا ہے اور ہماری فوج ان کے آگے بھاگی بھاگی پھر رہی ہے۔’’صرف دو معرکوں میں ہمارے چار سالار مارے گئے ہیں۔‘‘ اردشیر نے کہا۔’’ان چاروں کو میں اپنی جنگی طاقت کے ستون سمجھتا تھا۔لیکن ان کے مر جانے سے کسریٰ کی طاقت نہیں مر گئی۔ سب کان کھول کر سن لو جو سالار یا نائب سالار شکست کھا کر واپس آئے گا اسے میں جلاد کے حوالے کر دوں گا۔ اس کیلئے یہی بہتر ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو خود ہی ختم کر لے یا کسی اور طرف نکل جائے۔فارس کی سرحد میں قدم نہ رکھے۔‘‘


’’اندرزغر تم مدائن اور اردگرد سے جس قدر فوج لے جانا چاہو، لے جاؤ۔سالار بہمن کومیں نے پیغام بھیج دیا ہے کہ وہ اپنی تمام تر فوج کے ساتھ فرات کے کنارے دلجہ کے مقام پر پہنچ جائے۔ تم اس سے جلدی دلجہ پہنچ جاؤ گے وہاں خیمہ زن ہو کر بہمن کا انتظار کرنا جونہی وہ آجائے دنوں مل کر مسلمانوں کو گھیرے میں لینے کی کوشش کرنا۔ ان کا کوئی آدمی اور کوئی ایک جانور بھی زندہ نہ رہے۔ ان کی تعداد تمہارے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ۔ میں کوئی مسلمان قیدی نہیں دیکھنا چاہتا۔ میں ان کی لاشیں دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں دیکھنے آؤں گا کہ ان کے گھوڑوں اور اونٹوں کے مردار ان کی لاشوں کے درمیان پڑے ہیں۔ تمہیں زرتشت کے نام پر حلف اٹھانا ہوگا کہ فتح حاصل کرو گے یا موت۔‘‘ ’’اندرزغر دونوں فوجوں کاسپہ سالار ہوگا۔ اندرزغر تمہارے ذہن میں کوئی شک یا وسوسہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بھی سوچ لو کہ مسلمان اور آگے بڑھ آئے اور ہمیں ایک اور شکست ہوئی تو. رومی بھی ہم پر چڑھ دوڑیں گے۔‘‘ ’’شہنشاہِ فارس اب شکست کی آواز نہیں سنیں گے۔‘‘سالار اندرزغرنے کہا۔’’مجھے اجازت دیں کہ میں عیسائیوں کو اپنے ساتھ لے لوں اس سے میری فوج میں بے شمار اضافہ ہو سکتا ہے۔‘‘ ’’تم جو بہتر سمجھتے ہو وہ کرو۔‘‘اردشیر نے کہا۔ ’’لیکن میں وقت ضائع کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ اگر عیسائی تمہارے ساتھ وفا کرتے ہیں تو انہیں ساتھ لے لو۔‘‘یہ عراق کا علاقہ تھا ۔ جہاں عیسائیوں کا ایک بہت بڑا قبیلہ بکر بن وائل آباد تھا۔ یہ لوگ عرب کے رہنے والے تھے۔ اسلام پھیلتا چلا گیا اور یہ عیسائی جو اسلام قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے عراق کے اس علاقے میں اکھٹے ہوتے رہے اور یہیں آباد ہو گئے۔ ان میں وہ بھی تھے جو کسی وقت ایرانیوں کے خلاف لڑے اور جنگی قیدی ہو گئے تھے۔ ایرانیوں نے انہیں اس علاقے میں آباد ہونے کیلئے آزاد کر دیا تھا۔ ان میں کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا ۔ انہیں مثنیٰ بن حارثہ جیسا قائد مل گیا تھا جس نے انہیں پکا مسلمان بنادیا تھا۔ مسلمانوں پر تو ایرانی بے پناہ ظلم و تشدد کرتے تھے لیکن عیسائیوں کے ساتھ ان کا رویہ کچھ بہتر تھا۔ مؤرخوں نے لکھا ہے زرتشتی سالار اندرزغر ہرمز کی طرح ظالم نہیں تھا۔ مسلمانوں پر اگر وہ ظلم نہیں کرتا تھا تو انہیں اچھا بھی نہیں سمجھتا تھا ۔عیسائیوں کے سا تھ اس کا سلوک بہت اچھا تھا، اسے اب عیسائیوں کی مدد کی ضرورت محسوس ہوئی۔اس نے ان کے قبیلے بکر بن وائل کے بڑوں کو بلایا۔وہ اطلاع ملتے ہی دوڑے آئے۔’’اگر تم میں سے کسی کو میرے خلاف شکایت ہے تو مجھے بتاؤ۔‘‘ اندرزغر نے کہا۔ ’’میں اس کا ازالہ کروں گا۔‘‘ ’’کیایہ بہتر نہیں ہوگا کہ سالار ہمیں فوراًبتا دے کہ ہمیں کیوں بلایا گیا ہے۔‘‘ایک بوڑھے نے کہا۔’’ہم آپ کی رعایا ہیں۔ ہمیں شکایت ہوئی بھی تو نہیں کریں گے۔‘‘ ’’ہمیں کوئی شکایت نہیں۔‘‘ایک اور نے کہا۔’’آپ نے جو کہنا ہے وہ کہیں۔‘‘ ’’مسلمان­ بڑھے چلے آ رہے ہیں۔‘‘ اندرزغر نے کہا۔ ’’شہنشاہَِ فارس کی فوج انہیں فرات میں ڈبو دے گی۔ لیکن ہمیں تمہاری ضرورت ہے۔ ہمیں تمہارے جوان بیٹوں کی ضرورت ہے۔‘‘


’’اگر شہنشاہِ فارس کی فوج اسلامی فوج کو فرات میں ڈبو دے گی تو آپ کو ہمارے بیٹوں کی کیا ضرورت پیش آ گئی ہے؟‘‘ وفد کے بڑوں میں سے ایک نے پوچھا۔’’ہم سن چکے ہیں کہ فارس کی فوج کے چار سالار مارے گئے ہیں۔ آپ ہم سے پوچھتے کیوں ہیں؟ ہم آپ کی رعایا ہیں، ہمیں حکم دیں۔ ہم سرکشی کی جرات نہیں کر سکتے۔‘‘ ’’میں کسی کو اپنے حکم کا پابند کرکے میدانِ جنگ میں نہیں لے جانا چاہتا۔‘‘ اندرزغر نے کہا۔’’ میں تمہیں تمہارے مذہب کے نام پر فوج میں شامل کرنا چاہتا ہوں ۔ ہمیں زمین کے کسی خطے کیلئے نہیں اپنے مذہب اور اپنے عقیدوں کے تحفظ کیلئے لڑنا ہے۔ مسلمان صرف اس لئے فتح پر فتح حاصل کرتے چلے آ رہے ہیں کیونکہ وہ اپنے مذہب کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ وہ جس علاقے کو فتح کرتے ہیں وہاں کے لوگوں کو اسلام قبول کرنے کیلئے کہتے ہیں ۔ جو لوگ اسلام قبول نہیں کرتے ان سے مسلمان جذیہ وصول کرتے ہیں۔‘‘ ’’کیا یہ غلط ہے کہ تم میں وہ بھی ہیں جو اس لئے اپنے گھروں سے بھاگے تھے کہ وہ اسلام قبول نہیں کرنا چاہتے تھے؟ کیا تم پسند کرو گے کہ مسلمان آجائیں اور تمہاری عبادت گاہوں کے دروازے بند ہو جائیں؟ کیا تم برداشت کر لو گے کہ مسلمان تمہاری بیٹیوں کو لونڈیاں بنا کر اپنے ساتھ لے جائیں ؟ ذرا غور کرو تو سمجھو گے کہ ہمیں تمہاری نہیں بلکہ تمہیں ہماری مدد کی ضرورت ہے ۔ہم تمہیں ایک فوج دے رہے ہیں ۔ اسے اور زیادہ طاقتور بناؤ اور اپنے مذہب کو ایک بے بنیاد مذہب سے بچاؤ۔‘‘اندرزغرنے عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف ایسا مشتعل کیا کہ وہ اسی وقت واپس گئے اور مؤرخوں کی تحریر کے مطابق اپنے قبیلے کی ہر بستی میں جاکر اعلان کرنے لگے کہ مسلمانوں کا بہت بڑا لشکر قتل و غارت اور لوٹ مار کرتا چلا آ رہا ہے ۔وہ صرف اسی کوبخشتے ہیں جو ان کا مذہب قبول کر لیتا ہے۔ وہ جوان اور کم سن لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے جائیں گے۔’’اپنی لڑکیوں کو چھپا لو۔‘‘ ’’مال ہ دولت زمین میں دبا دو۔‘‘ ’’عورتیں بچوں کو لے کر جنگلوں میں چلی جائیں گی..‘ ’’جوان آدمی ہتھیار گھوڑے اور اونٹ لے کر ہمارے ساتھ آ جائیں۔‘‘

’’شہنشاہِ فارس کی فوج ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘ ’’یسوع مسیح کی قسم! ہم اپنی عزت پر کٹ مریں گے۔‘‘ ’’اپنا مذہب نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ایک شور تھا، للکار تھی جو آندھی کی طرح دشت و جبل کو جن و انس کو لپیٹ میں لیتی آ رہی تھی۔ کوئی بھی کسی سے نہیں پوچھتا تھا کہ یہ سب کیا ہے؟ کس نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کا لشکر آ رہا ہے؟ کدھر سے آ رہا ہے؟ جوش و خروش تھا۔ عیسائی مائیں اپنے جوان بیٹوں کو رخصت کر رہی تھیں۔ بیویاں خاوندوں کو اور بہنیں بھائیوں کو الوداع کہہ رہی تھیں۔ ایک فوج تیار ہوتی جا رہی تھی جس کی نفری تیزی سے بڑھتی جا رہی تھی۔ کسریٰ کی فوج کے کماندار وغیرہ آ گئے تھے۔ وہ ان لوگوں کو ایک جگہ اکھٹا کرتے جا رہے تھے جو کسریٰ کی فوج میں شامل ہو کر مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلئے آ رہے تھے۔


ایک بستی میں لڑنے والے عیسائی جمع ہو رہے تھے ۔ سورج کبھی کا غروب ہو چکا تھا ۔ بستی میں مشعلیں گھوم پھر رہی تھیں اور شور تھا۔ بستی دن کی طرح بے دار اور سر گرم تھی۔ دو آدمی جو اس بستی والوں کیلئے اجنبی تھے بستی میں داخل ہوئے اور لوگوں میں شامل ہو گئے۔’’ہم ایک للکار سن کر آئے ہیں ۔‘‘ان میں سے ایک نے کہا۔’’ہم روزگار کی تلاش میں بڑی دور سے آئے ہیں اور شاید مدائن تک چلے جائیں۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ ’’تم ہو کون؟‘‘کسی نے ان سے پوچھا۔’’مذہب کیا ہے تمہارا؟‘‘ دونوں نے اپنی اپنی شہادت کی انگلیاں باری باری اپنے دونوں کندھوں سے لگائیں اور اپنے سینے پر انگلیاں اوپر نیچے کرکے صلیب کا نشان بنایا اور دونوں نے بیک زبان کہا کہ وہ عیسائی ہیں۔’’پھر تم مدائن جا کر کیا کرو گے؟ ‘‘انہیں ایک بوڑھے نے کہا ۔’’تم تنومند ہو ۔تمہارے جسموں میں طاقت ہے ۔ کیا تم اپنے آپ کو کنواری مریم کی آبرو پر قربان ہونے کے قابل نہیں سمجھتے؟ کیا تمہارے لیے تمہارا پیٹ مقدس ہے؟‘‘ ’’نہیں!‘‘ ان میں سے ایک نے کہا۔’’ہمیں کچھ بتاؤ اور تم میں جو سب سے زیادہ سیانا ہے ہمیں اس سے ملاؤ۔ ہم کچھ بتانا چاہتے ہیں۔‘‘وہاں فارس کی فوج کا ایک پرانا کماندار موجود تھا۔ ان دونوں کو اس کے پاس لے گئے ۔’’سنا ہے تم کچھ بتانا چاہتے ہو؟‘‘ کماندار نے کہا۔’’ہاں۔‘‘ایک نے کہا۔’’ہم اپنا راستہ چھوڑ کر ادھر آئے ہیں ۔سنا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف ایک فوج تیار ہو رہی ہے۔‘‘ ’’ہاں ہو رہی ہے۔‘‘کماندار نے کہا۔’’ کیا تم اس فوج میں شامل ہونے آئے ہو؟‘‘ ’’عیسائی ہو کر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس فوج میں شامل نہیں ہوں گے۔‘‘ان میں سے ایک نے کہا۔’’ہم کاظمہ سے تھوڑی دور کی ایک بستی کے رہنے والے عرب ہیں ۔ہم مسلمانوں کے ڈر سے بھاگ کر ادھر آئے ہیں۔ اب آگے نہیں جائیں گے۔ تمہارے ساتھ رہیں گے۔ ہم بتانا یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ لیکن سامنے وہ بہت تھوڑی تعداد کو لاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمہاری فوج ان سے شکست کھا جاتی ہے۔‘‘ ’’اسے زمین پر لکیریں ڈال کر سمجھاؤ۔‘‘اس کے دوسرے ساتھی نے اسے کہا ۔پھر ایرانی کماندار سے کہا۔’’ہمیں معمولی دماغ کے آدمی نہ سمجھنا۔ ہم تمہیں اچھی طرح سمجھا دیں گے کہ مسلمانوں کے لڑنے کا طریقہ کیا ہے؟اور وہ اس وقت کہاں ہیں؟اور تم لوگ انہیں کہاں لا کر لڑاؤ تو انہیں شکست دے سکتے ہو۔ہم جو کچھ بتائیں یہ اپنے سالار کو بتا دینا۔‘‘ ایک مشعل لاکر اس کا ڈنڈا زمین میں گاڑھ دیا گیا۔ یہ دونوں آدمی زمین پر بیٹھ کر انگلیوں سے لکیریں ڈالنے لگے ۔ انہوں نے جنگی اصطلاحوں میں ایسا نقشہ پیش کیاکہ کماندار بہت متاثر ہوا۔’’اگر ہمیں پتا چل جائے کہ مدائن کی فوج کس طرف سے آ رہی ہے تو ہم تمہیں بہتر مشورہ دے سکتے ہیں۔‘‘ان میں سے ایک نے کہا۔’’اور کچھ خطروں سے بھی خبردار کر سکتے ہیں۔‘‘ ’’دو فوجیں مسلمانوں کو کچلنے کیلئے آ رہی ہیں ۔‘‘کماندار نے کہا۔’’ مسلمان ان کے آگے نہیں ٹھہر سکیں گے۔‘‘ ’’بشرطیکہ دونوں فوجیں مختلف سمتوں سے آئیں۔‘‘ایک اجنبی عیسائی نے کہا۔


’’وہ مختلف سمتوں سے آ رہی ہیں۔‘‘ کماندار نے کہا۔’’ایک فوج مدائن سے ہمارے بڑے ہی دلیر اور قابل سالار اندرزغر کی زیرِ کمان آ رہی ہے اور دوسری فوج ایسے ہی ایک نامور سالار بہمن جازویہ لا رہا ہے۔ دونوں دلجہ کے مقام پر اکھٹی ہوں گی۔ ان کے ساتھ بکر بن وائل کا پورا قبیلہ ہو گا ۔ چند چھوٹے چھوٹے قبیلوں نے بھی اپنے آدمی دیئے ہیں۔‘‘ ’’تو پھر تمہارے سالاروں کو جنگی چالیں چلنے کی ضرورت نہیں۔‘‘دوسرے نے کہا ۔’’تمہاری فوج تو سیلاب کی مانند ہے۔ مسلمان تنکوں کی طرح بہہ جائیں گے۔ کیا تم ہم دونوں کو اپنے ساتھ رکھ سکتے ہو؟ ہم نے تم میں خاص قسم کی ذہانت دیکھی ہے ۔ تم سالار نہیں تو نائب سالار کے عہدے کے لائق ضرور ہو۔‘‘ ’’تم میرے ساتھ رہ سکتے ہو۔‘‘ کماندار نے کہا۔’’ہم اپنے گھوڑے لے آئیں؟‘‘ دونوں میں سے ایک نے کہا۔’’ہم تمہیں صبح یہیں ملیں گے۔‘‘ ’’صبح کوچ ہو رہا ہے۔‘‘ کماندار نے کہا۔’’ان تمام لوگوں کو جو لڑنے کیلئے جا رہے ہیں ایک جگہ جمع کیاجا رہا ہے۔ تم ان کے ساتھ آ جانا۔ میں تمہیں مل جاؤں گا۔‘‘دونوں بستی سے نکل گئے۔ انہوں نے اپنے گھوڑے بستی سے کچھ دور جا کر ایک درخت کے ساتھ باندھ دیئے اور بستی میں پیدل گئے تھے۔ بستی سے نکلتے ہی وہ دوڑپڑے اور اپنے گھوڑوں پر جا سوار ہوئے ۔’’کیا ہم صبح تک پہنچ سکیں گے بن آصف!‘‘ ایک نے دوسرے سے پوچھا۔’’خدا کی قسم! ہمیں پہنچنا پڑے گا خواہ اڑکر پہنچیں۔‘‘بن آصف نے کہا ۔’’یہ خبر ابنِ ولید تک بر وقت نہ پہنچی تو ہماری شکست لازمی ہے۔ گھوڑے تھکے ہوئے نہیں۔ ﷲ کا نام لو اور ایڑھ لگا دو۔‘‘دونوں نے ایڑھ لگائی اور گھوڑے دوڑ پڑے۔’’اشعر !‘‘بن آصف نے بلند آواز سے اپنے ساتھی سے کہا۔’’یہ تو طوفان ہے ۔ اب آ تش پرستوں کو شکست دینا آسان نہیں ہو گا۔صرف بکر بن وائل کی تعداد دیکھ لو، کئی ہزار ہو گی۔‘‘ ’’میں نے اپنے سالار ابنِ ولید کو پریشانی کی حالت میں دیکھا تھا۔‘‘ اشعر نے کہا۔’’کیا تم اس کی پریشانی کو نہیں سمجھے ہاشعر؟‘‘بن آصف نے کہا۔’’ہم اتنے طاقتور دشمن کے پیٹ میں آ گئے ہیں۔‘‘


’’ﷲ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ اشعر نے کہا۔’’آتش پرست اس زمین کیلئے لڑ رہے ہیں جو وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ہے اور ہم ﷲ کی راہ میں لڑ رہے ہیں جس کی یہ زمین ہے۔‘‘یہ دونوں گھوڑ سوار خالدؓ کے اس جاسوسی نظام کے بڑے ذہین آدمی تھے جو خالدؓ نے فارس کی سرحد کے اندر آ کر قائم کیا تھا۔ انہیں احساس تھا کہ وہ مدینہ سے بہت دور اجنبی زمین پر آ گئے ہیں۔ جہاں ﷲ کے سوا ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ خالد ؓنے دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کیلئے ہر طرف اپنے ٓنکھیں بچھا رکھی تھیں۔

خالدؓ فجر کی نماز سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ان کے خیمے کے قریب دو گھوڑے آ رکے ۔سوار کود کر اترے۔ خالدؓ نماز با جماعت پڑھ کر آ رہے تھے ان سواروں کو دیکھ کر ان کے قریب جا رکے ۔ گھوڑوں کا پسینہ اس طرح پھوٹ رہا تھا جیسے دریا میں سے گزر کر آئے ہوں۔ ان کی سانسیں پھونکنی کی طرح چل رہی تھیں۔ سواروں کی حالت گھوڑوں سے بھی بری تھی۔’’اشعر!‘‘خالد ؓنے کہا۔’’بن آصف ،کیا خبر لائے ہو؟‘‘ ’’اندر چلو، ذرا دم لے لو۔‘‘ ’’دم لینے کا وقت نہیں سالار!‘‘بن آصف نے خالدؓ کے پیچھے ان کے خیمے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔’’آتش پرستوں کا سیلاب آ رہا ہے۔ ہم نے یہ خبر عیسائیوں کی ایک بستی سے لی ہے ۔ بکر بن وائل کی الگ فوج تیار ہو گئی ہے، یہ مدائن کی فوج کے ساتھ اندرزغر نام کے ایک سالار کی زیرِ کمان آ رہی ہے۔ دوسری فوج بہمن جازویہ کی زیرِ کمان دوسری طرف سے آ رہی ہے۔‘‘ ’’کیا یہ فوجیں ہم پر مختلف سمتوں سے حملہ کریں گی؟‘‘ خالدؓ نے پوچھا۔ ’’نہیں۔‘‘اشعر نے جواب دیا۔’’دونوں فوجیں دجلہ میں اکھٹا ہوں گی۔‘‘ ’’اور تم کہتے ہو کہ سیلاب کی طرح آگے بڑھیں گی ۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’کماندار نے یہی بتایا ہے۔‘‘بن آصف بولا۔ ان دونوں کی رپورٹ ابھی مکمل ہوئی تھی کہ ایک شتر سوار خیمے کے باہر آ رکا اور اونٹ سے اتر کر بغیر اطلاع خیمے میں آ گیا ۔ اس نے خالد ؓکو بتایا کہ فلاں سمت سے ایرانیوں کی ایک فوج بہمن جاذویہ کی قیادت میں آ رہی ہے۔ یہ بھی ایک جاسوس تھا جو کسی بھیس میں اس طرف نکل گیا تھا۔ جِدھر سے بہمن کی فوج آ رہی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اندرزغر اور بہمن جاذویہ کو اس طرح کوچ کرنا تھا کہ دونوں کی فوجیں بیک وقت یا تھوڑے سے وقفے کے دلجہ پہنچتیں۔ مگر ہوا یوں کے اندرزغر پہلے روانہ ہوگیا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ کسریٰ اردشیر کے قریب تھا ۔ اس لئے اردشیر اس کے سر پر سوار تھا۔ بہمن دور تھا۔ اسے کوچ کا حکم قاصد کی زبانی پہنچا تھا وہ دو دن بعد روانہ ہوا۔کسی بھی مؤرخ نے اس فوج کی تعداد نہیں لکھی جو اندرزغر کے ساتھ تھی۔ بہمن کی فوج کی تعدادبھی تاریخ میں نہیں ملتی۔ صرف یہ ایک بڑا واضح اشارہ ملتا ہے کہ آتش پرستوں کی فوج جو مسلمانوں کے خلاف آ رہی تھی وہ واقعی سیلاب کی مانند تھی ۔اردشیر نے کہا تھا کہ وہ ایک اور شکست کا خطرہ نہیں مول لے گا۔ چنانچہ اس نے اتنی زیادہ فوج بھیجی تھی جتنی اکھٹی ہو سکتی تھی۔


اندرزغر کی فوج کا تو شمار ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ اپنی باقاعدہ فوج کے علاوہ اس نے بکر بن وائل کے معلوم نہیں کتنے ہزار عیسائی اپنی فوج میں شامل کر لیے تھے۔ ان میں پیادہ بھی تھے اور سوار بھی۔ اس فوج میں مزید اضافہ کوچ کے دوران اس طرح ہوا کہ جنگِ دریا میں آتش پرستوں کے جو فوجی مسلمانوں سے شکست کھا کر بھاگے تھے وہ ابھی تک قدم گھسیٹتے مدائن کو جا رہے تھے ۔ وہ صرف تھکن کے مارے ہوئے نہیں تھے ان پر مسلمانوں کی دہشت بھی طاری تھی۔ پسپائی کے وقت مسلمانوں کے ہاتھوں ان کی فوج کا قتلِ عام ہوا تھا۔ انہوں نے کشتیوں میں سوار ہوکر بھاگنے کی کوشش کی تھی۔ اس لیے وہ خالدؓ کے مجاہدین کیلئے بڑا آسان شکار ہوئے تھے۔ اس بھگدڑ میں جو کشتیوں میں سوار ہو گئے تھے ان پر مجاہدین نے تیروں کا مینہ برسا دیا تھا ۔ ایسی کشتیوں میں جو سپاہی زندہ رہے تھے، ان کی ذہنی حالت بہت بری تھی۔ ان کی کشتیوں میں ان کے ساتھی جسموں میں تیر لیے تڑپ تڑپ کر مر ہے تھے۔ اس طرح زندہ سپاہیوں نے لاشوں اور تڑپ تڑپ کر مرتے ساتھیوں کے ساتھ سفر کیا تھا،کشتیاں خون سے بھر گئی تھیں۔ زندہ سپاہیوں کو کشتیاں کھینے کی بھی ہوش نہیں تھی، کشتیاں دریا کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ خود ہی بہتی کہیں سے کہیں جا پہنچی تھیں،اور دور دور کنارے سے لگی تھیں اور زرتشت کے یہ پجاری بہت بری جسمانی اور ذہنی حالت میں مدائن کی طرف چل پڑے تھے۔ وہ دو دو چار چار اور اس سے بھی زیادہ کی ٹولیوں میں جا رہے تھے۔ پرانی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ ان میں کئی ایک نے جب اندرزغر کی فوج کو آتے دیکھا تو بھاگ اٹھے۔وہ تیز دوڑ نہیں سکتے تھے۔ انہیں پکڑ لیا گیا اور فوج میں شامل کر لیا گیا۔ کچھ تعداد ایسے سپاہیوں کی ملی جو دماغی توازن کھو بیٹھے تھے ان میں کچھ ایسے تھے جو بولتے ہی نہیں تھے ۔ ان سے بات کرتے تھے تو وہ خالی خالی نگاہوں اور بے تاثر چہروں سے ہر کسی کو دیکھتے تھے ۔بعض بولنے کے بجائے چیخیں مارتے اور دوڑ پڑتے تھے۔’’پیشتر اس کے کہ یہ ساری فوج کیلئے خوف و ہراس کا سبب بن جائیں ۔انہیں فوج سے دور لے جا کر ختم کر دو۔‘‘ان کے سالار اندرزغر نے حکم دیا۔ اس کے حکم کی تعمیل کی گئی۔ مدائن کی یہ فوج تازہ دم تھی۔ اس نے ابھی مسلمانوں کے ہاتھ نہیں دیکھے تھے لیکن دریا کے معرکے سے بچے ہوئے سپاہی جب راستے میں اس تازہ دم فوج میں شامل ہوئے تو ہلکے سے خوف کی ایک لہر ساری فوج میں پھیل گئی ۔ شکست خوردہ سپاہیوں نے اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے اور یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ وہ بے جگری سے لڑے ہیں ،مسلمانوں کے متعلق اپنی فوج کو ایسی باتیں سنائیں جیسے مسلمانوں میں کوئی مافوق الفطرت طاقت ہو اور وہ جن بھوت ہوں۔خالدؓ کی جنگی قیادت کی یہ خوبی تھی کہ وہ دشمن کو جسمانی شکست ایسی دیتے تھے کہ دشمن پر نفسیاتی اثر بھی پڑتا تھا جو ایک عرصے تک دشمن کے سپاہیوں پر باقی رہتا اور اسی دشمن کے ساتھ جب ایک اور معرکہ لڑاجاتا تو وہ نفسیاتی اثر خالد ؓکو بہت فائدہ دیتا تھا۔یہ اثر پیدا کرنے کیلئے خالدؓ دشمن کو پسپا کرنے پر ہی مطمئن نہیں ہو جاتے تھے بلکہ دشمن کا تعاقب کرتے اور اسے زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچاتے تھے-


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  ⚔  شمشیرِ بے نیام ⚔   حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ( قسط نمبر-38) مئی ۶۳۳ء کے پہلے ہفتے جو ماہِ صفر ۱۲ ہجری کا تیسرا ہفتہ تھا زرتشت کے پ...

شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ حضرت خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 37

 


⚔ شمشیرِ بے نیام ⚔ 


 حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ


( قسط نمبر-37)


خالدؓ کیا تو ہماری عصمتوں کا انتقام لے گا؟‘‘ خالدؓ کو کئی عورتوں کی آوازیں سنائی دیں۔’’ہمارے جوان بیٹوں کے خون کا انتقام……انتقام……خالد انتقام……‘‘یہ ایک شور تھا ،للکار تھی اورخالدؓ اس شور سے گزرتے جا رہے تھے۔’’ہم واپس جانے کیلئے نہیں آئے۔‘‘ خالدؓ نے وہاں کے مسلمانوں سے کہا۔ ’’ہم انتقام لینے آئے ہیں۔‘‘ مسلمانوں کے ایک وفد نے خالدؓ کو بتایا کہ اس علاقے کے غیر مسلموں پر وہ بھروسہ نہ کرے۔’’یہ سب فارسیوں کے مددگار ہیں۔‘‘وفد نے خالد ؓکو بتایا۔’’مجوسیوں نے ہمیشہ ہمارے خلاف مخبری کی ہے۔ ہمارے بیٹے جب فارسی فوج کی کسی چوکی پر شب خون مارتے تھے تو مجوسی مخبری کر کے ہمارے بیٹوں کو گرفتار کرا دیتے تھے۔‘‘’’تمام عیسائیوں اور یہودیوں کو گرفتار کر لو۔‘‘خالدؓ نے حکم دیا۔’’اور مسلمانوں میں سے جو اسلامی لشکر میں آنا چاہتے ہیں ‘آجائیں۔‘‘’’وہ پہلے ہی مثنیٰ بن حارثہ کے ساتھ چلے گئے ہیں۔‘‘خالدؓ کو جواب ملا۔ فوراً ہی مجوسیوں اور دیگر غیر مسلموں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی۔ ان میں سے صرف انہیں جنگی قیدی بنایا گیا جن کے متعلق مصدقہ شہادت مل گئی کہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگی کارروائیاں کی تھیں یا مخبری کی تھی۔ نظم و نسق کیلئے اپنے کچھ آدمی کاظمہ میں چھوڑ کر خالدؓ آگے بڑھ گئے۔ اب ان کی پیش قدمی کی رفتار تیز نہیں تھی کیونکہ کسی بھی مقام پر ایرانیوں سے لڑائی کا امکان تھا۔ خالد ؓنے اپنے جاسوس جو اس علاقے کے مسلمان تھے ،آگے اور دائیں بائیں بھیج دیئے تھے۔ مثنیٰ بن حارثہ آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ دریائے معقل عبور کرنا چاہتا تھا لیکن دور سے اسے ایرانیوں کی خیمہ گاہ نظر آئی۔ وہ بہت بڑا لشکر تھا ۔ مثنیٰ کے پاس ڈیڑھ ہزار سے کچھ زیادہ سوارتھے۔ اتنی تھوڑی تعداد سے مثنیٰ ایرانی لشکر سے ٹکر نہیں لے سکتا تھا۔’’ہمیں یہیں سے پیچھے ہٹ جانا چاہیے۔‘‘مثنیٰ کے ایک ساتھی نے کہا۔’’یہ لشکر ہمیں گھیرے میں لے کر ختم کر سکتا ہے۔‘‘ ’’سمجھنے کی کوشش کرو۔‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’اگر ہم پیچھے ہٹے تو فارسیوں کے حوصلے بڑھ جائیں گے۔ ہمارے سپہ سالار خالد نے کہا تھا کہ پیشتر اس کے کہ فارسیوں کے دلوں سے ہماری دہشت ختم ہو جائے ہم ان پر حملے کرتے رہیں گے۔ ہمیں اپنی دہشت برقرار رکھنی ہے۔ میں آگ کے ان پجاریوں کی فوج کو یہ تاثر دوں گا کہ ہم اپنے لشکر کا ہراول دستہ ہیں۔ ہم لڑنے کیلئے بھی تیار رہیں گے۔ اگر لڑنا پڑا تو ہم ان سے وہی جنگ لڑیں گے جو ایک مدت سے لڑ رہے ہیں……ضرب لگاؤ اور بھاگو……کیا تم ایسی جنگ نہیں لڑ سکتے؟‘‘ مثنیٰ نے ایک سوار کو بلایا اور اسے کہا۔’’گھوڑے کو ایڑ لگاؤ ۔ سپہ سالار خالد بن ولید کاظمہ یا ابلہ میں ہوں گے ۔انہیں بتاؤ کہ معقل کے کنارے فارس کا ایک لشکر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے ۔انہیں کہنا کہ میں اس لشکر کو آگے نہیں بڑھنے دوں گا اور آپ کا جلدی پہنچنا ضروری ہے۔‘‘


خالدؓ پہلے ہی کاظمہ سے چل پڑے تھے۔ انہیں گھوڑوں اور بار بردار اونٹوں کیلئے چارے اور لشکر کیلئے کھانے پینے کے سامان کی کمی نہیں تھی۔ اس علاقے کے مسلمانوں نے ہر چیز کا بندوبست کر دیا تھا۔ خالد ؓ کا رستہ کوئی اور تھا۔ وہ ابلہ سے کچھ دور کھنڈروں کے قریب سے گزر رہے تھے۔ سامنے ایک گھوڑ سوار بڑی تیز رفتار سے آ رہا تھا۔ خالدؓ نے اپنے دو محافظوں سے کہا کہ وہ آگے جا کر دیکھیں یہ کون ہے۔ محافظوں نے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور آنے والے سوار کو راستہ میں جالیا۔ اس سوار نے گھوڑا روکا نہیں۔ دونوں محافظوں نے اپنے گھوڑے اس کے پہلوؤں پر کرلئے اور اس کے ساتھ آئے۔’’مثنیٰ بن حارثہ کا پیغام لایا ہے۔‘‘دور سے ایک محافظ نے کہا۔’’فارس کا ایک تازہ دم لشکر دریائے معقل کے کنارے پڑاؤ کیے ہوئے ہے۔‘‘مثنیٰ کے قاصد نے خالد ؓکے قریب آکر رکتے ہوئے کہا۔ ’’تعداد کا اندازہ نہیں۔آپ کے اورمثنیٰ کے لشکر کی تعداد سے اس لشکر کی تعداد سات آٹھ گنا ہے۔ فارس کے بھاگے ہوئے سپاہی بھی اس لشکر میں شامل ہو گئے ہیں۔‘‘ ’’مثنیٰ کہاں ہے؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’فارسیوں کے سامنے۔‘‘قاصد نے کہا۔’’مثنیٰ نے حکم دیا ہے کہ کوئی عسکری پیچھے نہیں ہٹے گا اور ہم فارسیوں کو یہ تاثر دیں گے کہ ہم اپنے لشکر کا ہراول ہیں……مثنیٰ نے پیغام دیا ہے کہ جلدی پہنچیں۔‘‘خالد ؓنے اپنی فوج کی رفتار تیز کردی اور رخ ادھر کر لیا جدھر مثنیٰ بن حارثہ تھے۔ خالد ؓکی فوج مثنیٰ کے سواروں سے جاملی۔ خالد ؓنے سب سے پہلے دشمن کا جائزہ لیا۔ وہ مثنیٰ کے ساتھ ایک اونچی جگہ پر کھڑے تھے۔ دشمن جنگ کی تیاری مکمل کر چکا تھا۔’’فارسی ہمیں آمنے سامنے کی لڑائی لڑانا چاہتے ہیں۔‘‘خالدؓ نے مثنیٰ سے کہا۔’’دیکھ رہے ہو ابنِ حارثہ……انہوں نے دریا کو اپنے پیچھے رکھا ہے۔‘‘’یہ فارسی صرف آمنے سامنے کی لڑائی لڑ سکتے ہیں۔‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’مجھے ان کے ایک قیدی سے پتا چلا ہے کہ ان کے دو سالار جن کے خلاف ہم لڑے ہیں زندہ پیچھے آ گئے ہیں ۔ایک کا نام قباذ ہے اور دوسرے کا نام انوشجان۔ انہوں نے اپنے سپہ سالار کو بتایا ہوگا کہ ہمارے لڑنے کے انداز کیسے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے اپنے عقب کو ہم سے اس طرح محفوظ کر لیا ہے کہ اپنے پیچھے دریا کو رکھا ہے……زیادہ نہ سوچ ولید کے بیٹے!میں ان کے خلاف زمین کے نیچے سے لڑتا رہا ہوں۔‘‘ ’’ﷲ تجھے اپنی رحمت میں رکھے ابن ِ حارثہ!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ﷲ تمہارے ساتھ ہے ……میں نے یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ ہم دریا پار نہیں کر سکتے۔‘‘’’ﷲ کا نام لے ابنِ ولید!‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’مجھے امید ہے کہ ہم ان کی صفیں اس طرح درہم برہم کر دیں گے کہ ہمیں ان کے پہلوؤں سے آگے نکلنے اور پیچھے سے ان پر آنے کا موقع مل جائے گا ۔ میرے سوار رک کر لڑنے والے نہیں ۔یہ گھوم پھر کر لڑنے والے ہیں۔ انہیں آگے دھکیلنے کی ضرورت نہیں۔ مشکل یہ پیش آئے گی کہ انہیں پیچھے کس طرح لایا جائے۔ فارسیوں کو دیکھ کر تو یہ شعلے بن جاتے ہیں۔ انہوں نے فارسیوں کے ہاتھوں بہت زخم کھائے ہیں۔ ابنِ ولید ! تم جانتے ہو انہوں نے کس قسم کی غلامی دیکھی ہے۔ فارس کے ان آتش پرستوں نے اس علاقے کے مسلمانوں کو انسانوں کی طرح زندہ رہنے کے حق سے محروم رکھا تھا۔‘‘


’’ہم زرتشت کی اس آگ کو سرد کر دیں گے ابنِ حارثہ! جس کی یہ عبادت کرتے ہیں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’یہ خود مانیں گے کہ عبادت کے لائق صرف ایک ﷲ ہے۔ جس کی راہ میں ہم اپنی جانیں قربان کرنے آئے ہیں……آؤ ‘میں زیادہ دیر انتظار کرنا نہیں چاہتا۔ یہ جس طرح رکے ہوئے ہیں اس سے پتا چلتا ہے کہ محتاط ہیں اور ان پر ہماری دھاک بیٹھی ہوئی ہے……تم اپنے سواروں کے ساتھ قلب میں رہو۔‘‘ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ خالدؓ نے بہت سوچا کہ کسی طرح انہیں چالیں چلنے کا موقع مل جائے لیکن ایرانیوں کا سالار قارن بن قریاس دانشمند آدمی تھا۔ اسے پتا چل گیا تھا کہ خالدؓ کس طرح لڑتا ہے۔ قارن نے اپنے شکست خوردہ سالاروں قباذ اور انوشجان کو پہلوؤں پر رکھا اور اپنے لشکر کوآگے لے آیا۔ اس لشکر کی اپنی ہی شان تھی۔ پتہ چلتا تھا کہ کسی شہنشاہ کی فوج ہے۔ ان کے قدموں کے نیچے زمین ہلتی تھی۔ ادھر یثرب کے سرفروش تھے۔ ظاہری طور پر ان کی کوئی شان نہیں تھی۔ ایرانیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے ہتھیار بھی کمتر رکھتے تھے۔ لباس بھی یونہی سے تھے اور ان کی تعداد ایرانیوں کے مقابلے میں بہت تھوڑی تھی۔ خالدؓ نے اپنی فوج کو آگے بڑھنے کا حکم دیا تو ہزاروں قدموں کی دھمک اور گھوڑوں کے ٹاپوں کے ساتھ کلمہ طیّبہ کا ورد کوئی اور ہی تاثر پیدا کر رہا تھا۔ یہ فوج تھکی ہوئی تھی اور زرتشت تازہ دم تھے۔ دونوں فوجوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رہ گیا تو خالدؓ نے اپنی فوجوں کو روک لیا۔ مثنیٰ بن حارثہ اپنے سوار دستے کے ساتھ خالدؓ کے پیچھے تھے۔ دائیں اور بائیں پہلوؤں پر خالدؓ کے مقرر کیے ہوئے دو سالار عاصم بن عمرو اور عدی بن حاتم تھے۔اس دور کی جنگوں کے دستور کے مطابق زرتشتوں کا سپہ سالار قارن آگے آیا اور اس نے مسلمانوں کو انفرادی مقابلے کیلئے للکارا۔ ’’مدینہ کا کوئی شتربان میرے مقابلے میں آ سکتا ہے؟‘‘اس نے دونوں فوجوں کے درمیان آکر اور للکار کر کہا۔’’میرے مقابلے میں آنے والا یہ سوچ کر آئے کہ میں شہنشاہِ فارس کا سپہ سالار ہوں۔‘‘ ’’میں ہوں تیرے مقابلے میں آنے والا۔‘‘ خالدؓ نے اپنا گھوڑا آگے بڑھایا اور للکارے۔’’قارن آ اور اپنے سالار ہرمز کے قتل کا انتقام لے۔ میں ہوں اس کا قاتل۔‘‘خالدؓ ابھی قارن سے کچھ دور ہی تھے کہ خالدؓ کے عقب سے ایک گھوڑا تیزی سے آیا اور خالدؓ کے قریب سے گزر گیا۔


’’پیچھے رہ ابنِ ولید!‘‘یہ گھوڑ سوار للکارا۔’’آتش پرستوں کا یہ سالار میرا شکار ہے۔‘‘


خالدؓ نے دیکھا ۔وہ ایک مسلمان سوار معقل بن الاعشی تھا وہ پہلوانی اور تیغ زنی میں مہارت اور شہرت رکھتا تھا۔ یہ ڈسپلن کے خلاف تھا کہ کوئی سپاہی یا سوار اپنے سالار پر برتری حاصل کرنے کی کوشش کرتا لیکن وہ وقت ایسا تھا کہ بندہ و صاحب اور محتاج و غنی ایک ہو گئے تھے۔ سپاہی اور سوار جنگ کا مقصد سمجھتے تھے۔ جو جذبہ سپاہیوں میں تھا وہی سالاروں میں تھا ۔معقل بن الاعشی یہ برداشت نہ کر سکا کہ اس کا سالار ایک آتش پرست کے ہاتھوں گھائل ہو۔ خالدؓ اپنی سپاہ کے جذبے کو سمجھتے تھے ۔ وہ رک گئے۔ انہوں نے اپنے اس سوار کے جذبہ کو مارنے کی کوشش نہ کی۔ معقل کے گھوڑے کی رفتار تیز تھی۔ گھوڑا ایرانیوں کے سالار قارن بن قریاس سے آگے نکل گیا۔ معقل نے آگے جا کر گھوڑے کو موڑا اور قارن کو للکارا۔ قارن نے پہلے ہی تلوار اپنے ہاتھ میں لے رکھی تھی۔ اس کے سر پر زنجیروں والا خود تھا۔ اور اس کا اوپر کا دھڑ زرہ میں تھا۔اس کی ٹانگوں پر موٹے چمڑے کے خول چڑھے ہوئے تھے۔اس کے چہرے پر انتقام کے تاثرات کے بجائے تکبر تھا جیسے لوہے اور موٹے چمڑے کا یہ لباس اسی مسلمان کی تلوار سے بچا لے گا۔ قارن نے اپنے گھوڑے کی باگ کوجھٹکا دیا۔ دونوں کے گھوڑے ایک دوسرے کے اردگرد ایک دو چکر لگا کر آمنے سامنے آگئے۔’’اے آگ کے پوجنے والے!‘‘معقل نے بڑی بلند آواز سے کہا۔’’میں سپاہی ہوں ،سالار نہیں ہوں۔‘‘قارن کے چہرے پر رعونت کے آثار اور زیادہ نمایاں ہو گئے۔ دونوں گھوڑے ایک دوسرے کی طرف بڑھے۔ ان کے سواروں کی تلواریں بلند ہوئیں۔ پہلے وار میں تلواریں ایک دوسرے سے ٹکرائیں اور دونوں سوار پیچھے ہٹ گئے۔ گھوڑے ایک بار پھر ایک دوسرے کی طرف آئے۔ تلواریں ایک بار پھر ہوا میں ٹکرائیں۔ اس کے بعد گھوڑے پیچھے ہٹے  اور گھوم گھوم کر ایک دوسرے کی طرف آئے ۔ دونوں سوار ایک دوسرے پر وار کرتے رہے۔ آخری بار قارن نے تلوار بلند کی معقل نے وہ وار روکنے کے بجائے اس کی بغل کو ننگا دیکھا تو تلوار برچھی کی طرح اس کی بغل میں اتنی زور سے ماری کہ تلوار قارن کے جسم میں دور تک اتر گئی۔ قارن کے اسی ہاتھ میں تلوار تھی جو اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ قارن گھوڑے پر ایک طرف کو جھکا۔ معقل نے اب اس کی گردن دیکھ لی۔ جس سے قارن کے آہنی خود کی زنجیریں ہٹ کر پیچھے کو لٹک آئی تھیں۔ معقل نے پوری طاقت سے گردن پر ایسا وار کیا کہ تکبر اور رعونت سے اکڑی ہوئی گردن صاف کٹ گئی۔ مسلمانوں کے لشکر سے دادوتحسین اور ﷲ اکبر کے نعرے رعد کی طرح کڑکنے لگے۔ قارن بن قریاس کا سر زمین پر پڑا تھا۔ اس کے زنجیروں والے خود کے نیچے اس کی حیثیت کے مطابق ایک لاکھ درہم کے ہیروں والی ٹوپی تھی۔ایسی ہی ٹوپی ہرمز کے سر پر بھی تھی۔ قارن کا باقی دھڑ گھوڑے سے لڑھک گیا لیکن اس کا ایک پاؤں رکاب میں پھنس گیا ۔معقل نے قارن کے گھوڑے کو ٹھُڈا مارا۔ گھوڑاقارن کے جسم کو گھسیٹتا دونوں فوجوں کے درمیان بے لگام دوڑنے لگا۔ ایرانیوں کے لشکر پر موت کا سنّاٹا طاری تھا۔


آتش پرستوں کی صفوں سے دو گھوڑے آگے آئے۔’’کون ہے ہمارے مقابلے میں آنے والا؟‘‘ان دو میں سے ایک گھوڑ سوار للکارا۔’’ہم اپنے سپہ سالار کے خون کا انتقام لیں گے۔‘‘ ’’میں اکیلا دونوں کیلئے کافی ہوں۔‘‘خالدؓ نے دشمن کی للکار کا جواب دیا اور ایڑھ لگائی۔ انہیں للکار نے والے دونوں ایرانی سالار قباذ اور انوشجان تھے۔ اچانک خالدؓ کے عقب سے دو گھوڑے آئے۔جواس کے دائیں بائیں سے آگے نکل گئے۔ خالد ؓکو ایک للکار سنائی دی۔’’پیچھے ہو ولید کے بیٹے! ان دونوں سالاروں نے ہمارے ہاتھ دیکھے ہوئے ہیں۔ اب ہم انہیں بھاگنے کی مہلت نہیں دیں گے۔‘‘خالدؓ کے لشکر کے دوسرے سوار نے کہا۔

خالدؓ نے دیکھا یہ دونوں سوار جو اس کے قریب سے گزر کر دشمن کے مقابلے پر چلے گئے تھے اس کے لشکر کے دائیں اور بائیں پہلوؤں کے سالار عاصم بن عمرو اور عدی بن حاتم تھے۔ ان دونوں نے کپڑوں کا لباس زیب تن کر رکھا تھا اور وہ جن کے مقابلے میں گئے تھے وہ سر سے پاؤں تک لوہے میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ مسلمان سالاروں کو اپنے ﷲ پر بھروسہ تھا اور آتش پرست اس زرہ پر یقین رکھتے تھے جو انہوں نے پہن رکھی تھی۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ تلوار کے وار کو آہن نہیں عقیدہ روکا کرتا ہے۔ دونوں طرف تجربہ کار سالار تھے۔ جو تیغ زنی کی مہارت رکھتے تھے۔ ان کی تلواریں ٹکرانے لگیں۔ مسلمانوں کی تلواریں آتش پرستوں کی زرہ کو کاٹنے سے قاصر تھیں اس لئے وہ محتاط ہو کر وار کرتے تھے تاکہ تلواروں کی دھار کو نقصان نہ پہنچے۔عاصم اور عدی اس تاک میں تھے کہ دشمن کا کوئی نازک اور غیر محفوظ جسم کاحصہ سامنے آئے تو وہ معقل کی طرح وار کریں۔ آخرکار ان دونوں نے باری باری معقل کی ہی طرح اپنے اپنے دشمن کے قریب جا کر انہیں موقع دیا کہ وہ اوپر سے تلوار کا وار کریں۔ آتش پرستوں کے سالاروں نے وہی غلطی کی جو قارن نے کی تھی۔ انہوں نے بازو اوپر کیے اور تلواریں ان کی بغلوں میں داخل ہو گئیں اور دونوں کی تلواریں گر پڑیں۔ خالدؓ نے جب دیکھا کہ زرتشتوں کا سپہ سالار مارا گیا اور اس کے بعد اس کے دونوں سالار بھی جنہیں اپنے لشکر کو منظم طریقے سے لڑانا تھا، مارے گئے ہیں تو خالدؓ نے اپنے لشکر کو حملے کا حکم دے دیا۔ ایرانیوں کے لشکر میں وہ سپاہی بھی شامل تھے جو اپنے دلوں پر مسلمانوں کی دہشت لیے ہوئے جنگِ سلاسل سے بھاگے تھے۔اب انہوں نے اپنے تین سالاروں کو مرتے دیکھا تو انکی دہشت میں اضافہ ہو گیا۔ انہوں نے یہ دہشت اپنے سارے لشکر پر حاوی کر دی۔ لشکر کاحوصلہ تو پہلے ہی مجروح ہو چکا تھا۔ یہ لشکر مقابلے کیلئے بہرحال تیار ہو گیا۔ ایرانیوں کو یہ فائدہ حاصل تھا کہ ان کے پیچھے دریا تھا جس نے ان کے عقب کو محفوظ کیا ہوا تھا۔ اس دریا کا دوسرا فائدہ انہیں یہ نظر آ رہا تھا کہ اس میں بڑی کشتیاں بندھی ہوئی تھیں جو لشکر کے ساتھ آئی تھیں۔ پسپا ہونے کیلئے ان کشتیوں نے ان کے کام آنا تھا۔ انہیں یہ ڈر بھی نہ تھا کہ مسلمان تعاقب میں آسکیں گے۔


خالدؓ کے حملے کاانداز ہلّہ بولنے والا یا اندھا دھند ٹوٹ پڑنے والا نہیں تھا۔ انہوں نے ایک ہی بار اپنے تمام دستے جنگ میں نہ جھونک دیئے۔ انہوں نے قلب کے دستوں کو باری باری آگے بھیجا اور انہیں ہدایت یہ دی کہ وہ دشمن کی صفوں کے اندر نہ جائیں بلکہ دشمن کو اپنے ساتھ آگے لانے کی کوشش کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ خالدؓ پہلوؤں کو اس طرح پھیلاتے چلے گئے کہ وہ دشمنوں پر پہلوؤں سے حملہ کر سکیں۔ دشمن کے سپہ سالار اور دو سالاروں کی لاشیں گھوڑوں کے سُموں تلے کچلی مسلی گئی تھیں۔ یہ فارس کی شہنشاہیت کا غرور تھا جو مسلمانوں کے گھوڑوں تلے کچلا جا رہا تھا۔ اس صورتِ حال میں آتش پرستوں کے حوصلے مر سکتے تھے۔ بیدار نہیں ہو سکتے تھے۔ مسلمانوں کے نعرے اور ان کی للکار ان کے پاؤں اکھاڑ رہی تھی۔’’زرتشت کے پجاریو! ﷲ کو مانو……‘‘’’ہم ہیں محمد ﷺکے شیدائی……‘‘اور ﷲ اکبر کے نعروں سے فضا کانپ رہی تھی۔ جوش وخروش تو مثنیٰ بن حارثہ کے سواروں کا تھا۔ ان کی للکار الگ تھلگ تھی۔’’اپنے غلاموں کی ضرب دیکھو۔‘‘’’آج ظالموں سے خون کا حساب لیں گے۔‘‘ ’’بلاؤ اردشیر کو……‘‘’’زرتشت کو آواز دو۔‘‘ایرانی سپاہ کے حوصلے جواب دینے لگے۔ ان کی دوسری کمزوری نے ان کے جسم توڑ دیئے۔ی ہ کمزوری ان کے ہتھیاروں کا اور زِرہ کا بوجھ تھا۔ وہ تھکن محسوس کرنے لگے۔ خالدؓ نے جو اپنی سپاہ کے ساتھ سپاہیوں کی طرح لڑ رہے تھے، بھانپ لیا کہ آتش پرست ڈھیلے پڑتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے جس شدت سے مقابلے اور جوابی حملوں کا آغاز کیا تھا۔ اس شدت میں نمایاں کمی نظر آنے لگی۔ خالدؓ نے اپنے قاصد پہلوؤں کے سالاروں عاصم بن عدی کی طرف اس حکم کے ساتھ دوڑا دیئے کہ اپنے اپنے پہلوؤں کو اور باہر لے جا کر بیک وقت دشمن کے پہلوؤں پر حملہ کریں۔ اس کے ساتھ ہی خالدؓ نے قلب کے پیچھے رکھے ہوئے محفوظ ریزرو کے دستے کو دشمن کے قلب پر حملے کا حکم دے دیا۔ ان دستوں کو جو پہلے موج در موج کے انداز سے حملے کر رہے تھے ،خالد ؓنے پیچھے ہٹا لیا تاکہ وہ جوش و خروش میں ایسی تھکن محسوس نہ کرنے لگیں جو ان کی برداشت سے باہر ہو جائے۔ ایرانی لشکر مسلمانوں کے نئے حملوں کی تاب نہ لا سکا۔ ان کا جانی نقصان بہت ہو چکا تھا۔ اب وہ بِکھرنے لگے۔ مسلمانوں نے دیکھا کہ پیچھے جو ایرانی سپاہی تھے وہ دریا کی طرف بھاگے جا رہے تھے۔ اس وقت مسلمانوں کو وہ کشتیاں دکھائی دیں جو سینکڑوں کی تعداد میں دریا کے کنارے بندھی تھیں۔’’کشتیاں توڑ دو۔‘‘ایک مسلمان کی للکار سنائی دی۔’’دشمن بھاگنے کیلئے کشتیاں ساتھ لایا ہے۔‘‘ایک اور للکار سنائی دی۔ جب یہ للکار خالدؓ تک پہنچی تو انہوں نے دائیں بائیں قاصد اس حکم کے ساتھ دوڑا دیئے کہ دشمن کے عقب میں جانے کی کوشش کرواور ان کی کشتیاں توڑ دو یا ان پر قبضہ کرلو۔ قبضہ کر لینے کی صورت میں یہ کشتیاں خالدؓ کے لشکر کے کام آ سکتی تھیں،اُنہیں بھی دریا پار کرنا تھا۔جب یہ حکم سالاروں تک اور سالاروں سے سپاہیوں تک پہنچاتو یہی ایک للکار بلند ہونے لگی۔


’’کشتیوں تک پہنچو……کشتیاں بیکار کر دو……کشتیاں پکڑ لو۔‘


اس للکار نے آتش پرستوں کا رہا سہا دم خم بھی توڑ دیا۔ زندہ بھاگ نکلنے کا ذریعہ یہی کشتیا ں تھیں جو مسلمانوں نے دیکھ لی تھیں۔ ایرانیوں نے لڑائی سے منہ موڑ کر کشتیوں کا رخ کیا۔ وہ ایک دوسرے سے پہلے کشتیوں میں سوار ہونے کیلئے دھکم پیل کرنے لگے۔ ان کی حالت ڈری ہوئی بھیڑوں کی مانند ہو گئی۔ جو ایک دوسرے کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کیا کرتی ہیں۔ ایرانی سپاہیوں نے کشتیوں پر سوار ہونے کیلئے گھوڑے چھوڑ دیئے۔ حالانکہ کشتیاں اتنی بڑی تھیں کہ ان پر گھوڑے بھی لے جائے جا سکتے تھے۔ یہ تھا وہ موقع جب مجاہدینِ اسلام کے ہاتھوں آتش پرستوں کا قتلِ عام شروع ہو گیا۔ وہ کشتیوں میں سوار ہونے کی کوشش میں کٹ رہے تھے۔ ان میں سے جوکشتیوں میں سوار ہو گئے اور رسّے کھول کر کشتیاں کنارے سے ہٹا لے گئے ،ان میں زیادہ تر مسلمانوں کے تیروں کا نشانہ بن گئے ۔ پھر بھی کچھ خوش نصیب تھے جو بچ کر نکل گئے۔ تقریباً تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اس معرکے میں تیس ہزار ایرانی فوجی مارے گئے۔ زخمیوں کی تعداد کسی نے نہیں لکھی۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ جہاں اتنی اموات ہوئیں وہاں زخمیوں کی تعداد ان کے ہی لگ بھگ ہو گی۔اس کا مطلب یہ تھا کہ شہنشاہِ فارس کی اس جنگی قوت کا بت ٹوٹ گیا تھا جسے ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا۔ ﷲ کی تلوار نے کِسریٰ کی طاقت اور غرور پر کاری ضرب لگائی تھی جس نے مدائن میں کسریٰ کے ایوانوں کو ہلا ڈالا تھا۔ دریائے معقل کے کنارے خون میں ڈوب گئے تھے۔ میدانِ جنگ کا منظر بڑا ہی بھیانک تھا۔ دور دور تک لاشیں اور تڑپتے زخمی بکھرے نظر آتے تھے۔ زخمی گھوڑے دوڑتے پھرتے اور زخمیوں کو روندتے پھررہے تھے۔ مجاہدین ِ اسلام اپنے زخمی ساتھیوں کو اور شہیدوں کی لاشوں کو اٹھا رہے تھے۔ میدان خون سے لال ہو گیا تھا۔ خالدؓ ایک بلند جگہ پر کھڑے میدانِ جنگ کو دیکھ رہے تھے۔ ایک طرف سے ایک گھوڑ سوار گھوڑے کو سر پٹ دوڑاتا آیا۔ اس نے خالدؓ کے قریب آکر گھوڑا روکا۔ وہ مثنیٰ بن حارثہ تھے۔ گھوڑا خالدؓ کے پہلوکے ساتھ کرکے مثنیٰ گھوڑے پر ہی خالدؓ سے بغل گیر ہو گئے۔

’’ابنِ ولید!‘‘مثنیٰ نے جذبات سے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔’’میں نے آج مظلوم مسلمانوں کے خون کا انتقام لے لیا ہے۔‘‘ ’’ابھی نہیں ابنِ حارثہ!‘‘خالد ؓنے بڑے سنجیدہ لہجے میں کہا۔’’ابھی تو ابتداء ہے۔ہمارے لیے اصل خطرہ اب شروع ہوا ہے۔ کیا تم نے ان کشتیوں کی تعداد نہیں دیکھی ؟ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ یہ کشتیاں کتنی بڑی اور کتنی مضبوط تھیں؟ اور تم نے یہ بھی دیکھا ہو گا کہ فارسیوں کے پاس سازوسامان کس قدر زیادہ ہے۔ ان کے وسائل بڑے وسیع ہیں۔ ہم اپنے وطن سے بہت دورآگئے ہیں۔ہمیں اب انہی سے ہتھیار اور رسد چھین کر اپنی ضرورت پوری کرنی ہے۔ یہ کام آسان نہیں ہے ابنِ حارثہ۔ اور میرے لیے یہ بھی آسان نہیں ہے کہ میں ان دشواریوں اور محرومیوں سے گھبرا کر یہیں سے واپس چلا جاؤں۔‘‘ ’’ہم واپس نہیں جائیں گے ابنِ ولید!‘‘مثنیٰ نے پرعزم لہجے میں کہا۔’’ہمیں کسریٰ کے ایوانوں کی اینٹ سے اینٹ بجانی ہے۔ ہمیں ان آتش پرستوں پر یہ ثابت کرنا ہے کہ جھوٹے ـ’’خدا‘‘ کسی کی دستگیری نہیں کر سکتے۔‘‘


خالدؓ نے اپنے سالاروں کو بلایا۔ اس سے پہلے وہ مالِ غنیمت اکھٹا کرنے کا حکم دے چکے تھے۔’’ہماری مشکلات اب شروع ہوئی ہیں۔ خالدؓ نے اپنے سالاروں سے کہا۔’’ہم اس وقت دشمن کی سرزمین پر کھڑے ہیں ۔ یہاں کے درخت اور یہاں کے پتھر اور اس مٹی کا ذرہ ذرہ ہمارا دشمن ہے۔ یہاں کے لوگ ہمارے لیے اجنبی ہیں ۔ ان لوگوں پر فارس کی شہنشاہیت کی دہشت طاری ہے، یہ لوگ اردشیر کو فرعون سمجھتے ہیں۔ یہ بڑی مشکل سے مانیں گے کہ کوئی ایسی طاقت بھی ہے جس نے فارس کی شہنشاہیت کا بت توڑ ڈال اہے……‘‘’’میرے رفیقو! یہاں کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملائے بغیر ہم یہاں اک قدم بھی نہیں چل سکتے۔ ہم کسی سے تعاون کی بھیک نہیں مانگیں گے۔ ہم محبت سے ان کے دل موہ لینے کی کوشش کریں گے اور جس پر ہمیں ذرا سا بھی شک ہوگا کہ وہ ہمیں ظاہری طور پر یا درپردہ نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ہم اسے زندہ رہنے کے حق سے محروم کر دیں گے۔ ہم ان لوگوں کو غلام بنانے نہیں آئے۔ ہم انہیں غلامی سے اور باطل کے عقیدوں سے نجات دلانے آئے ہیں۔ جو علاقے ہم نے لے لیے ہیں ان کے انتظامی امور کی طرف فوری توجہ دینی ہے۔ یہاں مسلمان بھی آباد ہیں ۔ وہ یقینا ہمارا ساتھ دیں گے ،لیکن میرے دوستو! کسی پر صرف اس لئے اعتبار نہ کرلینا کہ وہ مسلمان ہے غلامی اتنی بری چیز ہے کہ انسانوں کی فطرت بدل ڈالتی ہے……‘‘’’یہاں کے مسلمانوں کو اعتماد میں لے کر ان سے معلوم کرنا ہے کہ شہنشاہِ فارس کے حامی کون کون ہیں؟ ان کی چھان بین کرکے ان کے درجے مقرر کرنے ہیں۔ جن پر ذرا سا بھی شک ہو اسے گرفتار کر لو اور جو غیر مسلم سچے دل سے ہمارے ساتھ تعاون کرنا چاہتا ہے اسے اسلام کی دعوت دو……میں مختلف شعبے قائم کر رہا ہوں۔ــ‘‘ خالدؓ نے مفتوحہ علاقوں کے باشندوں پر سب سے زیادہ توجہ دی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جو غیر مسلم باشندے مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لیں گے ان سے جزیہ وصول کیا جائے گا اور مسلمان انہیں اپنی پناہ میں سمجھیں گے ۔ ان کی ضروریات اور ان کی جان و مال کا تحفظ مسلمانوں کی ذمہ داری ہو گی۔ اس اعلان کے ساتھ ہی بیشتر باشندے مسلمانوں کی پناہ میں آ گئے ۔ خالدؓ نے اس علاقے سے جذیہ اور محصولات وغیرہ جمع کرنے کیلئے ایک شعبہ قائم کر دیا جس کا نگران ــ’’سوید بن مقرن‘‘ کو مقررکیا گیا ۔ دوسرا شعبہ جس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ جاسوسی کا شعبہ تھا اب باقاعدہ اور ماہرانہ جاسوسی کی ضرورت تھی۔ خالدؓ نے اسی وقت اپنے جاسوس جو اسی علاقے کے رہنے والے مسلمان تھے دریائے فرات کے پاربھیج دیئے ۔جب مالِ غنیمت جمع ہو گیا تو دیکھا کہ یہ جنگِ سلاسل کی نسبت خاصا زیادہ تھا۔ خالدؓ نے اس کے پانچ حصے کیے۔ چار اپنی سپاہ میں تقسیم کرکے پانچواں حصہ مدینہ بھیج دیا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس سے پہلے خالد ؓکو اتنا سنجیدہ ااور اتنا متفکر کبھی نہیں دیکھا گیا تھا جتنا وہ اب تھے۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  ⚔ شمشیرِ بے نیام ⚔   حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ( قسط نمبر-37) خالدؓ کیا تو ہماری عصمتوں کا انتقام لے گا؟‘‘ خالدؓ کو کئی عورتوں کی آوا...

شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ حضرت خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 36



⚔ شمشیرِ بے نیام ⚔


حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ


( قسط نمبر-36)


’’ان میں ہمت ہی نہیں بے پناہ جرات بھی ہے۔‘‘ قارن نے کہا۔’’وہ اپنے عقیدے کی جنگ لڑتے ہیں ، ابلہ کے علاقے میں ہم نے مسلمانوں کو اس قدر ذلیل کر کے رکھا ہوا ہے کہ وہ کیڑے مکوڑوں کی سی زندگی بسر کرتے ہیں۔ لیکن انہوں نے زمین دوز حملے کرکے اور شب خون مار مار کر اس علاقے کی کئی چوکیاں صاف کر دی ہیں۔ آج تک انہوں نے جتنی جنگیں لڑی ہیں ان میں انہوں نے کسی ایک میں بھی شکست نہیں کھائی ۔ ہر جنگ میں ان کی سپاہ خاصی تھوڑی ہی رہی ہے ان کے پاس گھوڑوں کی بھی کمی تھی۔‘‘ ’’وہ لڑنے والے ہی ایسے تھے ۔‘‘شہنشاہ اردشیر نے کہا۔’’ان میں کوئی بھی ہماری فوج کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔‘‘ ’’ لیکن مسلمانوں نے مقابلہ کر لیا ہے۔‘‘قارن نے کہا ۔’’اور ہمارا اتنا زبردست سالار ہرمز کمک مانگنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ شہنشاہِ فارس! دشمن کو اتناحقیر نہیں جاننا چاہیے ۔ ہمیں اپنے گریبان میں دیانت داری سے جھانکنا ہو گا ۔ فارس کی شہنشاہیت  کا طوطی بولتا تھا لیکن ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ رومی ہم پر غالب آ گئے تھے اور ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ہم رومیوں کا سامنا کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ اس نئی صورتِ حال کا جائزہ دیانت داری سے لیں شہنشاہِ فارس! ہرمز نے اگر کمک مانگی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اس کے لشکر پر غالب آ گئے ہیں۔‘‘ ’’میں نے تمہیں اسی لیے بلایا ہے کہ تم ہی ہرمز کی مدد کو پہنچو۔‘‘اردشیر نے کہا۔’’اگر ہرمز گھبرا گیا ہے تو اس کی مدد کیلئے اگر اس سے بہتر سالار نہ جائے تو اسی جیسے سالار کو جانا چاہیے۔ تم ایسا لشکر تیار کرو جسے دیکھتے ہی مسلمان سوچ میں پڑ جائیں کہ لڑیں یا مدینہ کو بھاگ جائیں۔ فوراً قارن فوراً۔‘‘قارن نے اسے سلام کیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا چل پڑا۔’’ایرانیوں کا سالار قارن بن قریانس تازہ دم لشکر لے کر اُبلہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ وہ پوری امید لے کر جا رہا تھا کہ مسلمانوں کو تباہ و برباد کرکے لوٹے گا۔ وہ اپنے لشکر کو دجلہ کے بائیں کنارے کے ساتھ ساتھ لے جا رہا تھا۔ اس کی رفتار خاصی تیز تھی۔ اس نے مذار کے مقام پر لشکر کودریائے دجلہ پار کرایا اور جنوب میں دریائے معقل تک پہنچ گیا۔ جب وہ دریائے معقل کے پار گیا تو اسے ہرمز کے لشکر کی ٹولیاں آتی دِکھائی دیں۔ سپاہی بڑی بری حالت میں تھے۔’’تم پر زرتشت کی لعنت ہو۔‘‘قارن نے پہلی ٹولی کو روک کر اور ان کی حالت دیکھ کر کہا۔’’کیا تم مسلمانوں کے ڈر سے بھاگے آ رہے ہو؟‘‘ ’’سپہ سالار ہرمز مارا گیا ہے۔‘‘ ٹولی میں سے ایک سپاہی نے کہا۔’’دونوں پہلوؤں کے سالار قباذ اور انوشجان بھی بھاگ آئے ہیں۔ وہ شاید پیچھے آ رہے ہوں۔‘‘قارن بن قریاس ہرمز کی موت کی خبر سن کر سُن ہو کہ رہ گیا۔ اس نے یہ پوچھنے کی بھی جرات نہیں کی کہ ہرمز کس طرح مارا گیا ہے ۔ قارن کا سر جھک گیا تھا۔ اس نے جب سر اٹھایا تو دیکھا کہ فارس کے فوجیوں کی قطاریں چلی آ رہی تھیں۔ اپنے تازہ دم لشکر کو دیکھ کر بھاگے ہوئے یہ فوجی وہیں رکنے لگے۔ اتنے میں ہرمز کی فوج کے دوسرے سالار قباذ اور انوشجان بھی آ پہنچے ،انہیں دور سے آتا دیکھ کر قارن نے اپنے گھوڑے کی لگام کو جھٹکا دیا۔ گھوڑا چل پڑا۔قارن نے اپنے دونوں شکست خوردہ سالاروں کے سامنے جا گھوڑا روکا۔’’میں سن چکا ہوں ہرمز مارا گیا ہے۔‘‘قارن نے کہا۔ ’’لیکن مجھے یقین نہیں آتا کہ تم دونوں بھاگ آئے ہو۔کیا تم گنوار اور اجڈ عربوں سے شکست کھا کر آئے ہو؟ میں اس کے سوا اور کچھ نہیں کہنا چاہتا کہ تم بزدل ہو اور تم اس رتبے اور عہدے کے قابل نہیں ہو……کیا تم نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کو تباہ و برباد کر دیا جائے؟‘‘


’’کیوں نہیں چاہتے!‘‘قباذ نے کہا۔’’ہم کہیں چھپنے کیلئے پیچھے نہیں آئے ،ہمیں ہرمز کی شیخیوں نے مروایا ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اسلامی فوج کے پاس بڑے ہی قابل اور جرات والے سالار ہیں لیکن وہ اتنے بھی قابل نہیں کہ ہماری فوج کو یوں بھگا دیتے۔‘‘ ’’قارن!‘‘ انوشجان نے کہا۔’’ہماری فوجی قیادت میں یہی سب سے بڑی خرابی ہے ، جس کا مظاہرہ تم نے بھی کیا ہے۔تم نے عرب کے ان مسلمانوں کو اجڈ اور گنوار کہا ہے۔ ہرمز بھی ایسے ہی کہتا تھا لیکن ہم نے میدانِ جنگ میں اس کے الٹ دیکھا ہے۔‘‘ ’’تم نے ان میں کیا خوبی دیکھی ہے جو ہم میں نہیں؟‘‘ قارن نے پوچھا۔ ’’یہ پوچھو کہ ہم میں کیا خامی ہے جو ان میں نہیں؟‘‘ انوشجان نے کہا۔’’ہم اپنے دس دس بارہ بارہ سپاہیوں کو ایک ایک زنجیر سے باندھ دیتے ہیں کہ وہ جم کر لڑیں اور بھاگیں نہیں۔ اسی لیے ہم آمنے سامنے کی جنگ لڑتے ہیں۔ مسلمانوں نے جب ہماری سپاہ کو پابندِ سلاسل دیکھا تو انہوں نے دائیں بائیں کی چالیں چلنی شروع کر دیں۔ہماری سپاہ گھوم پھر کر لڑنے سے قاصر تھی۔ یہ تھی وجہ کہ ہمارا اتنا طاقتور لشکر شکست کھا گیا۔‘‘ ’’ہمارے پاس باتوں کا وقت نہیں۔‘‘قباذ نے کہا۔’’مسلمان ہمارے تعاقب میں آ رہے ہیں۔‘‘اُن کے تعاقب میں مثنیٰ بن حارثہ دو ہزار نفری کی فوج کے ساتھ آرہے تھے۔ مثنیٰ بن حارثہ اسلام کے وہ شیدائی تھے جنہوں نے ایرانیوں کے خلاف زمین دوز جنگی کارروائیاں شروع کر رکھی تھیں۔ اُنہی کی ترغیب پر امیرالمومنین ابو بکر صدیقؓ نے خالدؓ کو بلا کر ایرانیوں کے خلاف بھیجا تھا۔ ایرانیوں کے تعاقب میں جانا غیر معمولی طور پر دلیرانہ اقدام تھا۔ تعاقب کا مطلب یہ تھا کہ مسلمان اپنے مستقر سے دور ہٹتے ہٹتے ایرانیوں کے قلب میں جا رہے تھے ۔ جہاں ان کا گھیرے میں آجانا یقینی تھا۔ لیکن یہ خالدؓ کا حکم تھا کہ ایرانیوں کا تعاقب کیا جائے۔ اس حکم کے پیچھے ایرانیوں کے خلاف وہ نفرت بھی تھی جو مثنیٰ بن حارثہ کے دل میں بھری ہوئی تھی۔ جنگِ سلاسل ختم ہو گئی اور ایرانی بھاگ اٹھے تو خالدؓ نے دیکھا کہ ان کا لشکر تھک گیا ہے ۔انہوں نے مثنیٰ بن حارثہ کو بلایا۔ ’’ابنِ حارثہ!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’اگر یہ بھاگتے ہوئے فارسی زندہ چلے جائیں توکیا تم اپنی فتح کو یقینی سمجھو گے؟‘‘ ’ ﷲ کی قسم ولید کے بیٹے!‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے پرجوش لہجے میں کہا۔’’مجھے صرف حکم کی ضرورت ہے۔ یہ میرا شکار ہے۔‘‘ ’’توجاؤ۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’دو ہزار سوار اپنے ساتھ لو اور زیادہ سے زیادہ ایرانیوں کو پکڑ لاؤ اور جو مقابلہ کرے اسے قتل کر دو……میں جانتا ہوں کہ میرے جانباز تھک گئے ہیں لیکن میں شہنشاہِ فارس کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہم زمین کے دوسرے سرے تک ان کا تعاقب کریں گے۔‘‘


مثنیٰ بن حارثہ نے دو ہزار سوار لیے اور بھاگتے ہوئے ایرانیوں کے پیچھے چلے گئے۔ ایرانیوں نے دور سے دیکھ لیا کہ ان کا تعاقب ہو رہا ہے تو وہ بِکھر گئے،انہوں نے بوجھ ہلکا کرنے کیلئے کُرز اور ہتھیار پھینک دیئے تھے۔ مثنیٰ کیلئے تعاقب کا اور ایرانیوں کو پکڑنے کا کام دشوار ہو گیا تھا کیونکہ ایرانی ٹولی ٹولی ہو کر بکھرے پھر وہ اکیلے اکیلے ہو کر بھاگنے لگے۔ اس کے مطابق مثنیٰ کے سوار بھی بکھر گئے۔ مثنیٰ بن حارثہ کو آگے جاکر اپنے سواروں کو اکھٹا کرنا پڑا کیونکہ آگے ایک قلعہ آگیا تھا۔ یہ قلعہ ــ ’’حصن المراٗۃ‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ یہ ایک عورت کا قلعہ تھا۔ اسی لیے اس کا نام حصن المراٗۃ مشہور ہو گیا تھا۔ یعنی عورت کا قلعہ۔ مثنیٰ نے اس قلعے کا محاصرہ کر لیا کیونکہ خیال یہ تھا کہ ایرانی اس قلعے میں چلے گئے ہوں گے۔ قلعے سے مزاحمت کے آثار نظر آ رہے تھے۔ دودن محاصرے میں گزر گئے تو مثنیٰ کو احساس ہوا کہ وہ جس کام کیلئے آئے تھے و ہ تو رہ گیا ہے۔ مثنیٰ کا ایک بھائی مُعنّٰی ان کے ساتھ تھا۔’’مُعنّٰی!‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے ا سے کہا۔’’ کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ میں ایرانیوں کے تعاقب میں آیا تھا اور مجھے اس قلعے نے روک لیا ہے؟‘‘’’مثنیٰ بھائی!‘‘معنّٰی نے کہا۔’’میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں اور میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں ۔اگر ایسا ہوتا تو تم مجھے کہتے کہ اس قلعے کو تم محاصرے میں رکھو اورمیں ایرانیوں کے پیچھے جاتا ہوں۔‘‘’’ہاں معنّٰی!‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’مجھے تم پر بھروسہ نہیں۔ یہ قلعہ ایک جوان عورت کا ہے اور تم جوان آدمی ہو۔ خدا کی قسم!میں نے قلعے سر کرنے والوں کو ایک عورت کی تیکھی نظروں اور اداؤں سے سر ہوتے دیکھا ہے۔‘‘ ’’میرے باپ کے بیٹے!‘‘معنّٰی نے کہا۔’’مجھ پر بھروسہ کر اور آگے نکل جا۔ مجھے تھوڑے سے سوار دے جا پھر دیکھ کون سر ہوتا ہے۔……قلعہ یا میں……!اگر تو یہیں بندھا رہا تو بھاگتے ہوئے فارسی بہت دور نکل جائیں گے۔‘‘ ’’اگر میرا دماغ ٹھیک کام کرتا ہے تو میں کچھ اور سوچ کر ادھر آیا ہوں۔‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔’’میں اس ﷲ کا شکر ادا کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ جس کے نبی ہیں کہ اس نے ہمیں خالد بن ولید جیسا سپہ سالار دیا ہے۔ مدینہ کی خلافت سے جو اسے حکم ملا تھا وہ اس نے پورا کر دیا ہے لیکن وہ اس پر مطمئن نہیں۔ وہ فارس کی شہنشاہی کی جڑیں اکھاڑ پھینکنے پر تُلا ہوا ہے۔ وہ مدائن کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا عزم کیے ہوئے ہے۔‘‘’’عزم اور چیز ہے میرے بھائی!‘‘معنّٰی نے کہا۔’’عزم کو پورا کرنا بالکل مختلف چیز ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ ولید کا بیٹا تیر کی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ میرے باپ کے بیٹے ! تیر بھی خطا ہو سکتا ہے ۔ ذرا سی رکاوٹ اسے روک بھی سکتی ہے۔‘‘’’کیا تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ خالد کو وہیں رک جانا چاہیے جہاں اس نے فارسیوں کو شکست دی ہے؟‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’ ﷲ کی قسم! تم ایک بات بھول رہے ہو، شہنشاہِ فارس کو اپنی شہنشاہی کا غم ہے اور ہمیں اپنے ﷲ کی ناراضگی کا ڈر ہے۔ اردشیر اپنے تخت و تاج کو بچانا چاہتا ہے۔ لیکن ہم رسول ﷲ ﷺ کی آن کی خاطر لڑ رہے ہیں……سمجھنے کی کوشش کرو میرے بھائی !یہ بادشاہوں کی نہیں عقیدوں کی جنگ ہے۔ ہمارے لیے یہ ﷲ کا حکم ہے کہ ہم اس کے رسول ﷺکا پیغام دنیا کے آخری کونے تک پہنچائیں۔ ہمارا بچھونا یہ ریت ہے اور یہ پتھر ہیں۔ہم تخت کے طلبگار نہیں۔‘‘


’’میں سمجھ گیا ہوں!‘‘معنّٰی نے کہا۔’’نہیں !‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’تم ابھی پوری بات نہیں سمجھے۔ تم بھول رہے ہو کہ ہمیں ان مسلمانوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا انتقام لینا ہے جو فارسیوں کے زیرِ نگیں تھے اور جن پر فارسیوں نے ظلم و تشدد کیا تھا۔ خالد فارسیوں کا یہ گناہ کبھی نہیں بخشے گا، وہ مظلوم مسلمان مدینہ کی طرف دیکھ رہے تھے…… میں تمہیں کہہ رہا تھا کہ میں فارسیوں کے تعاقب میں نہیں آیا۔ میں فارس کے اس لشکر کی تلاش میں آیا ہوں جو ہرمز کی شکست خوردہ فوج کی مدد کیلئے آ رہا ہوگا ۔مجھے پوری امید ہے کہ ان کی کمک آ رہی ہو گی۔ میں اسے راستے میں روکوں گا۔‘‘’’پھر اتنی باتیں نہ کرو مثنیٰ!‘‘معنّٰی نے کہا۔’’مجھے کچھ سوار دے دواور تم آگے نکل جاؤ……یہ خیال رکھنا کہ فارسی اگر آ گئے تو ان کی تعداد اور طاقت زیادہ ہو گی۔ آمنے سامنے کی ٹکر نہ لینا۔ جا میرے بھائی۔ میں تجھے ﷲ کے سپرد کرتا ہوں۔‘‘کسی بھی مؤرخ نے سواروں کی صحیح تعداد نہیں لکھی جومثنیٰ اپنے بھائی معنّٰی کو دے کر چلے گئے تھے۔ بعض مؤرخوں کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ سواروں کی تعداد تین سوسے کم اور چار سو سے زیادہ نہیں تھی۔ معنّٰی نے اتنے سے سواروں سے ہی قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ اور قلعے کے دروازے کے اتنا قریب چلا گیا جہاں وہ تیروں کی بڑی آسان زد میں تھا۔ دروازے کے اوپر جو بُرج تھا اس میں ایک خوبصورت عورت نمودار ہوئی۔’’تم کون ہو اور یہاں کیا لینے آئے ہو؟‘‘عورت نے بلند آواز میں معنّٰی سے پوچھا۔’’ہم مسلمان ہیں۔‘‘معنّٰی نے اس سے زیادہ بلند آواز میں جواب دیا ۔’’ہم میدانِ جنگ سے بھاگے ہوئے فارسیوں کے تعاقب میں آئے ہیں۔ اگر تم نے قلعے میں اُنہیں پناہ دی ہے تم انہیں ہمارے حوالے کر دو۔ ہم چلے جائیں گے۔‘‘’’یہ میرا قلعہ ہے۔‘‘عورت نے کہا۔’’بھاگے ہوئے فارسیوں کی پناہ گاہ نہیں۔ یہاں کوئی فارسی سپاہی نہیں۔. ‘‘’’خاتون!‘‘معنّٰی نے کہا۔’’ہم پر تیرا احترام لازم ہے۔ ہم مسلمان ہیں۔ عورت پر ہاتھ اٹھانا ہم پر حرام ہے خواہ وہ قلعہ دار ہی ہو۔ اگر تم فارس کی جنگی طاقت کے ڈر سے اس کے سپاہی ہمارے حوالے نہیں کرنا چاہتیں تو سوچ لو کہ ہم وہ ہیں جنہوں نے فارس کی اس ہیبت ناک جنگی طاقت کو شکست دی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ تم پر ہمارے ہاتھوں زیادتی ہو جائے ۔ ہم اسلام کے اُس لشکر کا ہراول ہیں جوپیچھے آ رہا ہے۔‘‘ ’’میں نے مسلمانوں کا کیا بگاڑا ہے؟‘‘عورت نے کہا۔’’میرا قلعہ تمہارے لشکر کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتا۔‘‘ ’’تمہاراقلعہ محفوظ رہے گا۔‘‘ معنّٰی نے کہا۔ ’’شرط یہ ہے کہ قلعے کا دروازہ کھول دو۔ ہم اندر آ کر دیکھیں گے۔ تمہارے کسی آدمی اور کسی چیز کو میرے سوار ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ ہم اپنی تسلی کر کے چلے جائیں گے۔ اگر یہ شرط پوری نہیں کروگی تو تمہاری اور تمہاری فوج کی لاشیں اس قلعے کے ملبے کے نیچے گل سڑ جائیں گی۔‘‘

’’قلعہ کا دروازہ کھول دو۔‘‘عورت کی تحکمانہ آواز سنائی دی۔ اس آواز کے ساتھ ہی قلعے کا دروازہ کھل گیا۔ معنّٰی نے اپنے سواروں کو اشارہ کیا۔ تین چار سو گھوڑے سر پٹ دوڑتے آئے ۔ معنّٰی نے انہیں صرف اتنا کہا کہ قلعے کی صرف تلاشی ہوگی ۔کسی چیز اور کسی انسان کو ہاتھ تک نہیں لگایا جائے ۔ معنّٰی کا گھوڑا قلعے میں داخل ہو گیا۔ اس کے تمام سوار اس کے پیچھے پیچھے قلعے میں گئے۔ معنّٰی نے ایک جگہ رک کر قلعے کی دیواروں پر نظر دوڑائی۔ ہر طرف تیر انداز کھڑے تھے۔نیچے اسے کہیں بھی کوئی سپاہی نظر نہ آیا۔ معنّٰی کے سوار قلعے میں پھیل گئے تھے۔


’’تم نے ٹھیک کہا تھا۔‘‘عورت نے معنّٰی سے کہا۔’’میں فارسیوں سے ڈرتی ہوں۔ اس قلعے میں کوئی بھی طاقتور لشکر آئے گا تو میں اس کے رحم و کرم پر ہوں گی۔ مسلمانوں کو میں پہلی بار دیکھ رہی ہوں۔‘‘ ’’اور تم انہیں ساری عمر یاد رکھو گی۔‘‘معنّٰی نے کہا۔’’ خدا کی قسم! تم باقی عمر ان کے انتظار میں گزاردوگی۔ مسلمانوں کیلئے حکم ہے کہ قلعوں کو نہیں دلوں کو سر کرو لیکن قلعے والوں کے دل قلعے کی دیواروں جیسے سخت ہو جائیں، تو پھر ہمارے لئے کچھ اور حکم ہے۔ ہم جب اس حکم کی تعمیل کرتے ہیں تو فارس کی طاقت بھی ہمارے آگے نہیں ٹھہر سکتی۔ کیا تم نے انہیں بھاگتے دیکھا نہیں؟ کیا وہ ادھر سے نہیں گذرے؟‘‘’ ’گذرے تھے۔‘‘قلعے دار عورت نے جواب دیا۔’’ذرا سی دیر کیلئے یہاں رکے بھی تھے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ وہ مسلمانوں سے بھاگ کر آ رہے ہیں۔ وہ دس بارہ آدمی تھے۔ میں حیران تھی کہ اتنے ہٹے کٹے سپاہی خوف سے مرے جا رہے ہیں ۔میں اس پر بھی حیران تھی کہ وہ کون ہیں جنہوں نے فارس کے اس لشکر کو اس قدر دہشت ذدہ کر کے بھگا دیا ہے۔ تم نے جب کہا کہ تم ہو وہ لوگ جنہوں نے فارسیوں کو شکست دی ہے۔ تو میری ہمت جواب دے گئی۔ میں نے قلعے کا دروازہ خوف کے عالم میں کھولا تھا۔ میں تم سے اور تمہارے سواروں سے اچھے سلوک کی توقع رکھ ہی نہیں سکتی تھی۔ مجھے ابھی تک یقین نہیں آیا کہ تم اپنے متعلق جو کہہ رہے ہو۔وہ سچ کہہ رہے ہو۔‘‘یہ خاتون معنّٰی کو اس عمارت میں لے گئی جہاں وہ رہتی تھی۔ وہ تو شیش محل تھا۔ اس کے اشارے پر دو غلاموں نے شراب اور بھنا ہوا گوشت معنّٰی کے سامنے لا رکھا۔ معنّٰی نے ان چیزوں کو پرے کر دیا۔’’ہم شراب نہیں پیتے۔‘‘معنّٰی نے کہا۔’’اور میں یہ کھانا اس لئے نہیں کھاؤں گا کہ تم نے مجھے ایک طاقتور فوج کا آدمی سمجھ کر خوف سے مجھے کھانا پیش کیا ہے ۔ میں اسے بھی حرام سمجھتا ہوں۔‘‘ ’’کیا تم مجھے بھی حرام سمجھتے ہو؟‘‘اس خوبصورت اور جوان عورت نے ایسی مسکراہٹ سے کہا جس میں دعوت کا تاثر تھا۔’’ہاں !‘‘معنّٰی نے جواب دیا۔’’مفتوحہ عورت کو ہم شراب کی طرح حرام سمجھتے ہیں۔ وہ اس وقت تک ہم پر حرام رہتی ہے جب تک کہ وہ اپنی مرضی سے ہمارے عقد میں نہ آ جائے۔‘‘معنّٰی کو اطلاع دی گئی کہ اس کے سوار قلعے کی تلاشی لے کر آگئے ہیں ۔معنّٰی تیزی سے اٹھا اور اسی تیزی سے باہر نکل گیا۔ سواروں کے کمانداروں نے معنّٰی کو تفصیل سے بتایا کہ انہوں نے تلاشی کس طرح لی ہے اور کیا کچھ دیکھا ہے۔ کہیں بھی انہیں کوئی ایرانی سپاہی نظر نہیں آیا تھا۔ اس عورت کا اپنا قبیلہ تھا جس کے آدمی تیروں،تلواروں اور برچھیوں وغیرہ سے مسلح تھے۔ان میں معنّٰی کے سواروں کے خلاف لڑنے کی ہمت نہیں تھی۔ قلعے کی مالکن نے انہیں لڑنے کی اجازت بھی نہیں دی تھی۔اس قلعے کو اپنی اطاعت میں لینا ضروری تھا۔ کیونکہ یہ کسی بھی موقع پر ایرانیوں کے کام آ سکتا تھا۔ معنّٰی نے اِدھر ُادھر دیکھا۔ وہ عورت اسے نظر نہ آئی۔ معنّٰی اندر چلا گیا۔’’کچھ ملا میرے قلعے سے؟‘‘عورت نے پوچھا۔’’نہیں۔‘‘معنّٰی نے جواب دیا۔’’میرے لیے شک رفع کرنا ضروری تھا۔ اور اب یہ پوچھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے کسی سوار نے تمہارے کسی آدمی یا عورت کو یا میں نے تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں دی؟‘‘

’’نہیں۔‘‘عورت نے کہا اور ذرا سوچ کر بولی۔’’لیکن تم چلے جاؤ گے تو مجھے بہت تکلیف ہوگی۔‘‘


’’کیا تم ایرانیوں کا خطرہ محسوس کر رہی ہو؟‘‘ معنّٰی نے پوچھا۔’’یا تمہارے دل میں مسلمانوں کا ڈر ہے؟‘‘ ’’دونوں میں سے کسی کا بھی نہیں۔‘‘عورت نے جواب دیا۔’’مجھے تنہا ئی کا ڈر ہے۔ تم چلے جاؤ گے تو مجھے تنہائی کا احساس ہوگا۔ جو تمہارے آنے سے پہلے نہیں تھا۔‘‘معنّٰی نے اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔’’تم اپنے فرض میں اتنے الجھے ہوئے ہوکہ تمہیں یہ احساس بھی نہیں کہ تم ایک جوان آدمی ہو۔‘‘عورت نے کہا۔’’فاتح سب سے پہلے مجھ جیسی عورت کو اپنا کھلونا بناتے ہیں۔ میں نے تم جیسا آدمی کبھی نہیں دیکھا۔ اب دیکھا ہے تو دل چاہتا ہے کہ دیکھتی ہی رہوں۔ کیا میں تمہیں اچھی نہیں لگی؟‘‘معنّٰی نے اسے غور سے دیکھا۔ سر سے پاؤں تک پھر پاؤں سے سر تک دیکھا۔ اسے ایک آواز سنائی دی۔’’ـ ﷲ کی قسم! میں نے قلعے سر کرنے والوں کو ایک عورت کی تیکھی نظروں اور اداؤں سے سر ہوتے دیکھا ہے۔‘‘’’کیا تم ہوش میں نہیں ہو؟‘‘عورت نے پوچھا۔’’میں شاید ضرورت سے زیادہ ہوش میں ہوں۔‘‘معنّٰی نے کہا۔’’تم مجھے اچھی لگی ہو یا نہیں یہ بعد کی بات ہے۔ اس وقت مجھے تمہارا قلعہ اچھا لگ رہا ہے۔‘‘ ’’کیا میرا یہ تحفہ قبول کرو گے؟‘‘عورت نے کہا۔’’طاقت سے قلعہ سر کرنے کے بجائے مجھ سے یہ قلعہ محبت کے تحفے کے طور پر لے لو تو کیا یہ اچھا نہیں رہے گا؟‘‘ ’’محبت!‘‘م­عنّٰی نے زیرِ لب کہا۔ پھر سر جھٹک کر جیسے بیدار ہوگیا ہو۔ کہنے لگا۔’’محبت کا وقت نہیں۔ میں تمہارے ساتھ شادی کر سکتا ہوں۔ اگر تم رضا مند ہو تو پہلے اپنے سارے کے سارے قبیلے سمیت اسلام قبول کرو۔‘‘’’ میں نے قبول کیا۔‘‘عورت نے کہا۔’’میں اس مذہب پر جان بھی دے دوں گی جس کے تم پیروکار ہو۔‘‘دو مؤرخوں طبری اور ابنِ رُستہ نے اس خاتون کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔ لیکن دونوں کی تحریروں میں اس خاتون کا نام نہیں ملتا۔ شہنشاہِ فارس اردشیر آگ بگولہ ہوا جا رہا تھا۔ اسے ہرمز پر غصہ آ رہا تھا جس نے کمک مانگی تھی۔ کمک بھیجنے کے بعد اسے ابھی کوئی اطلاع نہیں ملی تھی کہ میدانِ جنگ کی صورتِ حال کیا ہے۔ وہ دربار میں بیٹھتا تو مجسم عتاب بنا ہوتا۔ محل میں وہ کہیں بھی ہوتا تو اس کیفیت میں ہوتا کہ بیٹھتے بیٹھتے اٹھ کھڑا ہوتا۔ تیز تیز ٹہلنے لگتا۔ اور بلا وجہ کسی نہ کسی پر غصہ جھاڑنے لگتا۔ اس روز وہ باغ میں ٹہل رہا تھا۔ جب اسے اطلاع ملی کہ قارن کا قاصد آیا ہے۔بجائے اس کے کہ وہ قاصد کوبلاتا ، وہ قاصد کی طرف تیزی سے چل پڑا۔’’کیا قارن نے ان صحرائی گیدڑوں کو کچل ڈالا ہے؟‘‘اردشیر نے پوچھا۔’’شہنشاہِ ­فارس!‘‘قاصد نے کہا۔’’جان بخشی ہو۔ شہنشاہ کا غلام اچھی خبر نہیں لایا۔‘‘

’’کیا قارن نے بھی کمک مانگی ہے؟‘‘اردشیر نے پوچھا۔’’نہیں شہنشاہِ فارس!‘‘قاصد نے کہا۔’’سالار ہرمز مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔‘‘ ’’مارا گیا ہے؟‘‘اردشیر نے حیرت سے کہا۔’’کیا ہرمز کو بھی مارا جا سکتا ہے؟ نہیں نہیں یہ غلط ہے۔ یہ جھوٹ ہے۔‘‘اس نے گرج کر قاصد سے پوچھا۔’’تمہیں یہ پیغام کس نے دیا ہے؟‘‘’’سالار قارن بن قریاس نے۔‘‘قاصد نے کہا۔’’ہمارے دو سالار قباذ اور انوشجان پسپا ہو کر آ رہے تھے ۔ باقی سپاہ بھی جو زندہ تھی،ایک ایک دو دو کر کے ان کے پیچھے آ رہی تھی۔ دریائے معقل کے کنارے وہ ہمیں آتے ہوئے ملے ۔ انہوں نے بتایا کہ سالار ہرمز نے مسلمانوں کو انفرادی مقابلے کیلئے للکارا تو ان کاایک سالار خالد بن ولید ہمارے سالار کے مقابلے میں آیا۔ سالار ہرمز نے اپنے محافظوں کو ایک طرف چھپا دیا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کے سالار کو گھیرے میں لے کر قتل کرنا تھا۔انہوں نے اسے گھیرے میں لے بھی لیا تھا۔ لیکن کسی طرف سے ایک مسلمان سوار سرپٹ گھوڑا دوڑاتا آیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں برچھی اور دوسرے میں تلوار تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے سالار ہرمز کے چھ سات محافظوں کو ختم کر دیا۔عین اس وقت مسلمانوں کے سالار نے سالار ہرمز کو گرالیا اور خنجر سے انہیں ختم کر دیا۔‘‘اردشیر کا سر جھک گیا اور وہ آہستہ آہستہ محل کی طرف چل پڑا۔ جب وہ محل میں پہنچا تو اس نے یوں دیوار کا سہارا لے لیا۔ جیسے اسے ٹھوکر لگی ہو اور گرنے سے بچنے کیلئے اس نے دیوار کا سہارالے لیا ہو۔ وہ اپنے کمرے تک دیوار کے سہارے پہنچا۔ کچھ دیر بعد محل میں ہڑبونگ سی مچ گئی،طبیب دوڑے آئے۔اردشیر پر کسی مرض کا اچانک حملہ ہو گیا تھا۔ یہ صدمے کا اثر تھا۔ فارس کی شہنشاہی شکست سے نا آشنا رہی تھی۔ اسے پہلی ضرب رومیوں کے ہاتھوں پڑی تھی اور فارس کی شہنشاہی کچھ حصے سے محروم ہو گئی تھی۔ اب اس شہنشاہی کواس قوم کے ہاتھوں چوٹ پڑی تھی جسے اردشیر قوم سمجھتا ہی نہیں تھا۔ اردشیر کیلئے یہ صدمہ معمولی نہیں تھا۔ قارن بن قریاس ابھی دریائے معقل کے کنارے پر خیمہ زن تھا ۔ اس نے وہاں اتنے دن اس لئے قیام کیا تھا کہ ہرمز کی فوج کے بھاگے ہوئے کماندار اور سپاہی ابھی تک چلے آ رہے تھے۔ قارن انہیں اپنے لشکر میں شامل کرتا جارہاتھا۔ ہرمز کے دونوں سالار قباذ اور انوشجان اس کے ساتھ ہی تھے ۔ وہ اپنی شکست کا انتقام لینے کا عہد کیے ہوئے تھے۔ ان کے کہنے پر قارن پیش قدمی میں محتاط ہو گیا تھا۔ قیام کے دوران اس کے جاسوس اسے اطلاعیں دے رہے تھے کہ مسلمانوں کی سرگرمیاں اور عزائم کیا ہیں۔ان اطلاعوں سے اسے یقین ہو گیا تھا کہ مسلمان واپس نہیں جائیں گے بلکہ آگے آ رہے ہیں۔ خالدؓ نے جنگِ سلاسل جیتنے کے بعد کاظمہ، ابلہ اور چھوٹی چھوٹی آبادیوں کے انتظامی امور اپنے ہاتھ میں لے لیے تھے۔ جب وہ ان آبادیوں میں گئے تو وہاں کے مسلمانوں نے چِلّا چِلّا کرخالد زندہ باد……اسلام زندہ باد……خلافتِ مدینہ زندہ باد کے نعرے لگائے ۔ وہ سر سبز اور شاداب علاقہ تھا۔عورتوں نے خالدؓ اور اس کے محافظوں کے راستے میں پھول پھینکے۔ اس علاقے کے مسلمانوں کو بڑی لمبی مدت بعد ایرانی ظالموں سے نجات ملی تھی۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

⚔ شمشیرِ بے نیام ⚔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ( قسط نمبر-36) ’’ان میں ہمت ہی نہیں بے پناہ جرات بھی ہے۔‘‘ قارن نے کہا۔’’وہ اپنے عقیدے کی ...

شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ حضرت خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 35


 

⚔ شمشیرِ بے نیام ⚔ 


 حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ


( قسط نمبر-35)


اب ایرانیوں نے اپنے آپ کو زنجیروں میں باندھ لیا تھا ۔ خالدؓ نے سوچ لیا کہ وہ کیا چال چلیں گے، اور ایرانیوں کو کس طرح لڑائیں گے۔ ہرمز نے اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور دونوں فوجوں کے درمیان ایسی جگہ آ کر رک گیا جہاں زمیں کٹی پھٹی اورکہیں کہیں ٹیلے تھے۔ اس کے محافظ اس سے کچھ دور آکر رک گئے۔’’کہاں ہے خالد!‘‘ہرمز نے للکار کر کہا۔’’آ! پہلے میرا اور تیرا مقابلہ ہو جائے۔‘‘ یہ اس زمانے کا دستور تھا کہ جنگ شروع کرنے سے پہلے دونوں فوجوں کے سالار ذاتی مقابلوں کیلئے ایک دوسرے کو للکارتے تھے۔ دونوں فوجوں کے آدمی انفرادی طور پر آگے جا کر تلواروں سے بھی لڑتے تھے اور کشتی بھی کرتے تھے ۔ نتیجہ دونوں میں سے ایک کی موت ہوتا تھا۔ جنگِ سلاسل میں ہرمز نے خود آگے آ کر خالدؓ کو انفرادی مقابلے کیلئے للکارا۔ ہرمز مانا ہوا جنگجو اور بہادر آدمی تھا۔ تیغ زنی کی مہارت کے علاوہ اس کے جسم میں بہت طاقت تھی۔خالدؓ کی عمر اڑتالیس سال ہو چکی تھی۔ وہ جنگی چالوں کے ماہر تھے ۔ ان کے جسم میں اچھی خاصی طاقت تھی لیکن ہرمز زیادہ طاقتور تھا۔ اس کی للکار پر خالدؓ نے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور ہرمز کے سامنے جا رکے۔ ہرمز گھوڑے سے اترا اور خالدؓ کو گھوڑے سے اترنے کا اشارہ کیا۔ دونوں نے تلواریں نکال لیں۔ دونوں نے ایک دوسرے پر بڑھ بڑھ کر وار کیے۔ پینترے بدلے ،گھوم گھوم کر ایک دوسرے پر آئے مگر تلواریں آپس میں ہی ٹکراتی رہیں۔ پھر خالدؓ کے ہاتھوں اور پینتروں میں پھرتی آگئی۔ دونوں فوجیں شوروغل بپا کر رہی تھیں۔ہرمز محسوس کرنے لگا تھا کہ وہ خالدؓ کی تلوار سے بچ نہیں سکے گا۔ وہ تیزی سے پیچھے ہٹ گیا اور اس نے تلوارپھینک دی۔


’’تلواریں فیصلہ نہیں کر سکیں گی۔‘‘ہرمز نے کہا۔’’آخالد! ہتھیار کے بغیر آ،اور کشتی لڑ۔‘‘خالدؓ تلوار پھینک کر کشتی کیلئے آگے بڑھے اور دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔ کشتی میں ہرمزکا پلّہ بھاری نظر آتا تھا لیکن مورخ لکھتے ہیں کہ ہرمز کی چال کچھ اور تھی اس نے اپنے محافظوں کو پہلے ہی بتا رکھا تھا کہ جب وہ خالد ؓکو اتنی مضبوطی سے پکڑ لے کہ خالدؓ ہلنے کے قابل نہ رہیں تو محافظ دونوں کو اس طرح گھیرے میں لے لیں کہ ان کی نیت اور ارادے پر شک نہ ہو۔ یعنی وہ تماشائی بنے رہیں اور ان میں سے ایک محافظ خنجر نکال کرخالد کاپیٹ چاک کر دے۔ جنگجو اس طرح دھوکا نہیں دیا کرتے تھے لیکن ہرمز کمینگی کی وجہ سے مشہور تھا۔ ہرمز کے محافظ آگے بڑھ آئے اور اپنی فوج کی طرح نعرے لگاتے نرغے کی ترتیب میں ہوتے گئے ۔وہ گھوڑوں پر سوار نہیں تھے ۔ وہ گھیرا تنگ کرتے گئے حتیٰ کے دونوں کے قریب چلے گئے ۔ خالدؓ کی توجہ بٹ گئی۔ ہرمز نے پھرتی سے خالد ؓکے دونوں بازو اس طرح جکڑ لیے کہ اس کے بازو خالد ؓکی بغلوں میں تھے ۔محافظ اور قریب آ گئے۔ ہرمز نے اپنی زبان میں محافظوں سے کچھ کہا۔ خالدؓ ا س کی زبان تو نہ سمجھ سکے ،اشارہ سمجھ گئے۔ انہوں نے خطرے کو بھانپ لیا اور جسم کی تمام تر طاقت صرف کرکے اتنی زور سے گھومے کے ہرمزکو بھی اپنے ساتھ گھمالیا۔ پھر خالدؓ ایک جگہ کھڑے گھومتے رہے۔ ہرمز کے پاؤں زمین سے اٹھ گئے۔ خالدؓ نے ہرمز کے بازواپنی بغلوں میں جکڑ لیے تھے اور اپنے ہاتھ ہرمز کی بغلوں میں لے جاکر اسے گھماتے رہے۔ اس طرح محافظوں کا دائرہ کھلتا گیا اور ان میں سے کسی کو بھی آگے بڑھ کر خالد ؓپر وارکرنے کا موقع نہیں ملا۔ لیکن خالدؓ کا یہ داؤ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا تھا۔ وہ تھک چکے تھے۔ اچانک ایک طرف سے ایک گھوڑا سرپٹ دوڑتا آیا جسے ہرمز کے محافظ نہ دیکھ سکے۔ گھوڑا محافظوں کے دائرے کو کا ٹتا گذر گیا اور تین محافظ زمین پر تڑپنے لگے۔ ان میں سے ایک کو گھوڑے نے کچل ڈالا تھا اور دو کو گھوڑ سوار کی تلوار نے کاٹ دیا تھا۔گھوڑا آگے جا کر مڑا اور پھر ہرمز کے محافظوں کی طرف آیا۔ محافظوں نے اب اس سے بچنے کی کوشش کی پھر بھی تین محافظ گرے اور تڑپنے لگے۔ باقی بھاگ گئے اور سوار اپنی فوج سے جا ملا۔ یہ سوار نوجوان قعقاعؓ بن عمرو تھا جسے خلیفہ ابو بکر صدیق ؓ نے کمک کے طور پر خالد ؓکی طرف بھیجا اور کہا تھا۔’’جس لشکر میں قعقاع جیسا جوان ہوگا وہ لشکر شکست نہیں کھائے گا۔‘‘اس سوار سے نظریں ہٹا کر سب نے خالدؓ اور ہرمزکو دیکھا۔ ہرمز پیٹھ کے بل زمین پر پڑا تھااور خالدؓ اس کی پیٹھ پر بیٹھے اس کے سینے سے اپنا خنجر نکال رہے تھے ۔ خنجر سے ہرمزکاخون ٹپک رہا تھا ، قعقاعؓ نے ہرمزکے محافظوں کی نیت بھانپ لی تھی اور کسی کے حکم کے بغیر گھوڑے کو ایڑھ لگا کر محافظوں پر جا ہلّہ بولااورخالدؓ کو بچا لیا تھا۔ خالد ؓہرمز کی لاش سے اٹھے  ۔ہرمز کی ایک لاکھ درہم کی ٹوپی خالدؓ کے ہاتھ میں تھی اور اس کے خون میں لتھڑا ہوا خنجر بلند کر کے خالدؓ نے اپنی فوج کو کھلے حملے کا حکم دے دیا۔ ان کے پہلے سے دیئے ہوئے احکام کے مطابق مسلمان لشکر کے دونوں پہلو کھل گئے اور اس نے دائیں اور بائیں سے ایرانیوں پرحملہ کیا۔ ایرانی اپنے ہرمز جیسے سالار کی موت سے بد دل ہو گئے تھے لیکن اپنی روائتی شجاعت سے وہ دستبردار نہ ہوئے۔ ان کی تعداد مسلمانوں کی نسبت خاصی زیادہ تھی۔ ہتھیاروں اور گھوڑوں کے لحاظ سے بھی انہیں برتری حاصل تھی۔ وہ مسلمانوں کے مقابلے میں جم گئے۔نظر یہی آ رہا تھا کہ ایرانیوں کو شکست نہیں دی جا سکے گی یا یہ کہ انہیں شکست دینے کیلئے بے شمار جانیں قربان کرنا پڑیں گی۔


ایرانی سپاہی پانچ پانچ، سات سات،دس دس، ایک ایک زنجیر سے بندھے ہوئے تھے اورہر طرف سے آنے والے حملے روک رہے تھے ۔ خالدؓ نے انہیں تھکانے کیلئے گھوڑ سواروں کو استعمال کیا۔ گھوڑ سواروں نے پیادوں پر اس طرح حملے شروع کر دیئے کہ پیادوں کو دائیں بائیں دوڑنا پڑتا ۔ اپنے پیادوں کو بھی خالدؓ نے اسی طرح استعمال کیا۔ ایرانی پیادوں کو بھاگنا دوڑنا پڑا۔ان کے مقابلے میں مسلمان تیزی سے حرکت کر سکتے تھے۔ آخر ایرانیوں میں تھکن اور سستی کے آثار نظر آنے لگے۔ انہوں نے اپنی روایت کے مطابق جو زنجیریں باندھ رکھی تھیں، وہ ان کے پاؤں کی بیڑیاں بن گئیں۔ ہتھیاروں کی برتری وبالِ جان بن گئی،ایرانیوں کی تنظیم اور ترتیب بکھرنے لگی، ان کے قلب کی کمان تو پہلے ہی ہرمز کے مرتے ہی ختم ہوگئی تھی ۔ان کے پہلوؤں کے سالاروں قباذ اور انوشجان نے شکست یقینی دیکھی تو پسپائی کا حکم دے دیا۔ پسپا وہی ہو سکے جو زنجیروں میں بندھے نہیں تھے ۔ ان میں زیادہ گھوڑ سوار تھے ۔ قباذ اور انوشجان پہلوؤں سے اپنی فوج کی بہت سی نفری بچا کر لے گئے لیکن قلب کے ہزاروں سپاہی مسلمانوں کے ہاتھوں کٹ گئے ۔ یہ تو آتش پرستوں کا قتلِ عام تھا جوسورج غروب ہونے کے بعد تک جاری رہا۔ شام تاریک ہو گئی تو یہ خونی سلسلہ رکا۔ مسلمانوں نے ایک بڑے ہی طاقتور دشمن کو بہت بری شکست دے کر ثابت کر دیا کہ نفری کی افراط اور ہتھیاروں کی برتری سے فتح حاصل نہیں کی جا سکتی ،جذبہ لڑا کرتا ہے۔ اگلے روز مالِ غنیمت اکھٹا کیا گیا۔ خالد ؓنے اسے پانچ حصوں میں تقسیم کیا،چار حصے اپنے لشکر میں تقسیم کر دیئے اور ایک حصہ مدینہ خلیفہ ابو بکرؓ کو بھیج دیا۔ہرمز کی ایک لاکھ درہم کی ٹوپی بھی خالدؓ نے خلیفہ ؓکو بھیج دی۔ خلیفہ ؓنے یہ ٹوپی خالدؓ کو واپس بھیج دی کیونکہ ذاتی مقابلوں میں مارے جانے والے کا مالِ غنیمت جیتنے والے کا حق ہوتا ہے۔ یہ ٹوپی خالدؓ کی ملکیت تھی۔’’یہ دیکھو……باہر آؤ……دیکھو یہ کیا ہے!‘‘مدینہ کی گلیوں میں کئی آوازیں بلند ہوئیں۔ لوگ دوڑتے گھروں سے باہر آنے لگے۔ ’’جانور ہے۔‘‘’’نہیں ،خدا کی قسم! ہم نے ایسا جانور کبھی نہیں دیکھا۔‘‘ ’’یہ جانور نہیں، خدا کی عجیب مخلوق ہے۔‘‘عورتیں اور بچے بھی باہر نکل آئے۔ سب کے چہروں پر حیرت تھی۔ بچے ڈر کر پیچھے ہٹ گئے ۔جنہوں نے خدا کی اس عجیب مخلوق کو پکڑ رکھا تھا وہ ہنس رہے تھے اور وہ آدمی بھی ہنس رہا تھا جو اس عجیب مخلوق کی گردن پر بیٹھا تھا۔’’یہ کیا ہے؟ لوگ پوچھ رہے تھے۔ اسے کیا کہتے ہیں؟‘‘’’اسے ہاتھی کہتے ہیں ۔‘‘ہاتھی کے ساتھ ساتھ چلنے والے ایک آدمی نے بلند آواز سے کہا۔’’یہ جنگی جانور ہے۔ یہ ہم نے فارس والوں سے چھینا ہے۔‘‘جنگِ سلاسل میں جب ایرانی زرتشت بھاگے تھے تو یہ ہاتھی مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا۔ تقریباً تمام مورخین نے یہ واقعہ لکھا ہے کہ خالد ؓنے مالِ غنیمت کا جو پانچواں حصہ خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓ کو بھیجا تھا اس میں ایک ہاتھی بھی تھا۔ مدینہ والوں نے ہاتھی کبھی نہیں دیکھا تھا ۔اس ہاتھی کو مدینہ شہر میں گھمایا پھرایا گیا۔ تو لوگ حیران ہو گئے اور بعض ڈر بھی گئے۔ وہ اسے جانور نہیں خدا کی عجیب مخلوق کہتے تھے ۔ہاتھی کے ساتھ اس کا ایرانی مہاوت بھی تھا ۔


اس ہاتھی کو چند دن مدینہ میں رکھا گیا ۔ کھانے کے سوا اس کا اور کوئی کام نہ تھا۔ مدینہ والے اس سے کام لینا جانتے بھی نہیں تھے ۔ اس کے علاوہ صرف ایک ہاتھی سے وہ کرتے بھی کیا ؟ امیر المومنینؓ نے اس کے مہاوت کو ہاتھی سمیت رہا کر دیا ، کسی بھی تاریخ میں یہ نہیں لکھا کہ یہ ہاتھی مدینہ سے کہاں چلا گیا تھا۔ دجلہ اور فرات آج بھی بہہ رہے ہیں ،ایک ہزار تین سو باون سال پہلے بھی بہہ رہے تھے ،مگر اس روانی میں اور آج کی روانی میں بہت فرق ہے۔ ساڑھے تیرہ صدیاں پہلے دجلہ اور فرات کی لہروں میں اسلام کے اولین مجاہد کے جوشیلے اور پر عزم نعروں کا ولولہ تھا ان دریاؤں کے پانیوں میں شہیدوں کا خون شامل تھا۔ شمع رسالتﷺ کے شیدائی اسلام کو دجلہ اور فرات کے کنارے کنارے دور آگے لے جا رہے تھے۔ زرتشت کی آگ کے شعلے لپک لپک کر مسلمانوں کا راستہ روکتے تھے۔ مسلمان بڑھتے ہی چلے جا رہے تھے۔ان کا بڑھنا سہل نہیں تھا ۔وہ فارسیوں کی شہنشاہی میں داخل ہو چکے تھے ،ان کی نفری اور جسموں کی تازگی کم ہوتی جا رہی تھی اور دشمن کی جنگی قوت ہیبت ناک تھی۔ کبھی یوں لگتا تھا جیسے آتش پرست فارسیوں کی جنگی طاقت مسلمانوں کے قلیل لشکرکو اپنے پیٹ میں کھینچ رہی ہے۔ اپریل ۶۳۳ء کا تیسرا اور صفر ۱۲ ہجری کا پہلا ہفتہ تھا خالد ؓ کاظمہ کے مقام پر آتش پرست ایرانیوں کو شکست دے کر آگے ایک مقام پر پہنچ گئے تھے ۔ انہوں نے دو ہی ہفتے پہلے ایرانیوں کو شکست دی تھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں نے اتنی بڑی شہنشاہیت سے ٹکرلی تھی جس کی جنگی قوت سے زمین کانپتی تھی۔ امیرالمومنین ابوبکرؓ نے کہا تھا کہ ابھی ہم اتنی بڑی طاقت سے ٹکر لینے کے قابل نہیں ہیں لیکن انہوں نے یہ بھی محسوس کر لیا تھا کہ ٹکر لینا ناگزیر ہو گیا ہے۔ ورنہ زرتشت مدینہ پر چڑھ دوڑیں گے۔ ان کے عزائم ایسے ہی تھے وہ مسلمانوں سے نفرت کرنے والے لوگ تھے اور اپنی بادشاہی میں مسلمانوں پر بہت ظلم کرتے تھے۔ امیر المومنین ؓنے خالدؓ کو یمامہ سے بلاکر زرتشتوں کے خلاف بھیجا تھا۔ خالد ؓکو رسولِ کریمﷺ نے سیف ﷲ کا خطاب عطا فرمایا تھا۔ اب خلیفہ اول ابو بکرؓ نے بھی کہا تھا ’’ ﷲ کی تلوار کے بغیر ہم فارس کی بادشاہی سے ٹکر نہیں لے سکتے ۔‘‘خالد ؓنے یہ ثابت کر دیا تھا کہ وہ ﷲ کی تلوار ہیں۔ فارس کی شہنشاہیت کی گدی مدائن میں تھی ۔فارس کا شہنشاہ اردشیر مدائن میں شہنشاہوں کی طرح تخت پر بیٹھا تھا۔ اس کی گردن ان شہنشاہوں کی طرح اکڑی ہوئی تھی جواپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے تھے۔ اس کے تخت کے دائیں بائیں ایران کا حسن مچل رہا تھا۔ وہ تخت سے اٹھنے ہی لگا تھا کہ اسے اطلاع دی گئی کہ ابلہ کے محا ذ سے قاصد آیا ہے۔’’فوراً بلاؤ۔‘‘اردشیر نے شاہانہ رعونت سے کہا۔’’اس کے سوا وہ اور کیا خبر لایا ہوگا کہ ہرمز نے مسلمانوں کو کچل ڈالا ہے۔ کیا حیثیت ہے عرب کے ان بدوؤں کی۔ جنہوں نے کھجور اور جَوکے سوا کھانے کی کبھی کوئی چیز نہیں دیکھی۔‘‘


قاصد دربار میں داخل ہوا تو اس کا چہرہ اور اسکی چال بتارہی تھی کہ وہ اچھی خبر نہیں لایا۔ اس نے ایک بازو سیدھا اوپر کیا اور جھک گیا۔’’سیدھے ہو جاؤ۔‘‘اردشیر نے فاتحانہ لہجے میں کہا۔’’ ہم اچھی خبر سننے کیلئے اتنا انتظار نہیں کر سکتے ۔ کیا مسلمانوں کی عورتوں کو بھی پکڑا گیا ہے۔ بولو ،تم کیوں خاموش ہو؟‘‘ ’’زرتشت کی ہزار رحمت تختِ فارس پر!‘‘ قاصد نے دربار کے آداب کے عین مطابق کہا۔’’ شہنشاہ اردشیر کی شہنشاہیت ……‘‘’’خبر کیا لائے ہو؟‘‘اردشیر نے گرج کر پوچھا۔’’عالی مقام !ہرمز نے کمک مانگی ہے۔‘‘  قاصد نے کہا۔’’ہرمز نے ؟‘‘اردشیر چونک کر آگے کو جھکا اور ا س نے حیران ہوکر پوچھا۔’’ کمک مانگی ہے؟ کیا وہ مسلمانوں کے خلاف لڑ رہا ہے؟ کیا وہ پسپا ہو رہاہے؟ ہم نے سنا تھا کہ مسلمان لٹیروں کے ایک گروہ کے مانند ہیں۔ کیا ہوگیا ہے ہرمز کو؟ کیا اس نے سپاہ کو زنجیروں سے نہیں باندھا تھا؟ بولو۔‘‘دربار پر سناٹا طاری ہو گیا۔ جیسے وہاں کوئی بھی نہ ہو اور درودیوار چپ چاپ ہوں۔’’شہنشاہِ فارس کی شہنشاہی افق تک پہنچے۔‘‘قاصد نے کہا ۔’’زنجیریں باندھی تھیں مگر مسلمانوں نے ایسی چالیں چلیں کہ یہی زنجیریں ہماری سپاہ کے پاؤں کی بیڑیاں بن گئیں ۔‘‘ ’’مدینہ والوں کی تعداد کتنی ہے؟‘‘ ’’بہت تھوڑی شہنشاہِ فارس۔‘‘قاصد نے جواب دیا۔’’ہمارے مقابلے میں ان کی تعداد کچھ بھی نہیں تھی لیکن……‘‘ ’’دور ہو جا ہماری نظروں سے۔‘‘شہنشاہ اردشیر گرجا اور ذرا سوچ کر بولا۔’’قارن کو بلاؤ۔‘‘قارن بن قریانس ایرانی فوج کا بڑا ہی قابل اور دلیر سپاہ سالار تھا۔وہ بھی ہرمزکی طرح لاکھ درہم کا آدمی تھا اور ہرمز کی ٹوپی کی طرح ٹوپی پہنتا تھا۔ اطلاع ملتے ہی دوڑا آیا۔’’قارن!‘‘ اردشیر نے کہا۔’’کیا تم اس خبر کو سچ مان سکتے ہو کہ ہرمز نے مسلمانوں کے خلاف لڑتے ہوئے کمک مانگی ہے۔‘‘اردشیر نے درباریوں پر نگاہ دوڑائی تو تمام درباری اٹھ کھڑے ہوئے ۔سب تعظیم کوجھکے اور باہر نکل گئے ۔ اردشیر قارن کے ساتھ تنہائی میں بات کرنا چاہتا تھا۔ ’’کیا یہ قاصد مسلمانوں کا آدمی تو نہیں جو ہمیں دھوکا دینے آیا ہو۔‘‘ ’’مسلمان اتنی جرات نہیں کر سکتے۔‘‘قارن نے کہا۔’’میدانِ جنگ میں ذراسی غلطی پانسا پلٹ دیا کرتی ہے۔اگر ہرمز نے کمک مانگی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے کمک کی ضرورت ہے اور اس سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی ہے۔‘‘

’’کیا مسلمانوں میں اتنی ہمت ہے کہ وہ ہماری فوج کو پسپا کر سکیں ؟ ‘‘اردشیر نے کہا۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  ⚔ شمشیرِ بے نیام ⚔   حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ( قسط نمبر-35) اب ایرانیوں نے اپنے آپ کو زنجیروں میں باندھ لیا تھا ۔ خالدؓ نے سوچ لیا ...

آج کی بات --- 527



~!~  آج کی بات  ~!~ 


نجی اور ذاتی طور پر جیتتے رہیں ،

 ہر کوئی یہ جاننے کا مستحق نہیں ہے کہ آپ کیا کر رہے ہیں,


~!~  آج کی بات  ~!~  نجی اور ذاتی طور پر جیتتے رہیں ،  ہر کوئی یہ جاننے کا مستحق نہیں ہے کہ آپ کیا کر رہے ہیں,

شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ حضرت خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 34



⚔ شمشیرِ بے نیام ⚔


 حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ


( قسط نمبر-34)


ہرمز کی پیش قدمی بہت تیز تھی۔ مارچ ۶۳۳ء کا تیسرا ہفتہ تھا جب خالدؓ نے یمامہ سے دس ہزار فوج لے کر کوچ کیا تھا ۔یہ محرم ۱۲ ھ کا مہینہ تھا۔ ان کی پیش قدمی بھی بہت تیز تھی۔ ہرمز اپنی فوج کے ساتھ اپنی سرحد سے بہت دور کاظمہ کے مقام پر پہنچ گیا اور فوج کو وہیں خیمہ زن کر دیا۔ یہ مقام یمامہ اور اُبلہ کے راستے میں پڑتا تھا۔ ہرمز کو معلوم نہیں تھا کہ اس کی پیش قدمی کو دیکھنے والے موجود ہیں۔ خالدؓ ابھی کاظمہ سے دور تھے کہ انہیں عراق کی سمت سے آتے ہوئے دو شتر سوار ملے۔ انہوں نے خالدؓ کو بتایا کہ زرتشتوں کی فوج کاظمہ میں خیمہ زن ہے۔ خالدؓ نے وہیں سے رستہ بدل دیا۔یہ شتر سوار مثنیٰ کے بھیجے ہوئے تھے۔انہوں نے خالد ؓ کو یہ بھی بتایا کہ وہ حفیر کے مقام تک اس طرح پہنچ جائے کہ زرتشتوں کی فوج کے ساتھ اس کی ٹکر نہ ہو۔ شتر سواروں نے خالد ؓ کو ایک خوشخبری یہ سنائی کہ ان کیلئے آٹھ ہزار نفری کی فوج تیار ہے۔ یہ فوج اس طرح تیار ہوئی تھی کہ مثنیٰ بن حارثہ ،مذعور بن عدی ،ہرملہ اور سُلمہ نے دو دو ہزار لڑنے والے جوان اکھٹے کر لئے تھے ۔ اس طرح خالدؓ کی فوج کی تعداد اٹھارہ ہزار ہوگئی۔ خالدؓ نے اپنی پیش قدمی کا راستہ اس طرح بدل دیا کہ کاظمہ کے دورسے گزر کر حفیر تک پہنچ سکیں ،لیکن ہرمز کے جاسوس بھی صحرا میں موجود تھے۔ انہوں نے خالدؓ کے لشکر کو دور کے راستے سے جاتے دیکھ لیا۔آگے وہ راستہ تھا جو حفیر سے نبّاج کی طرف جاتا تھا۔ ہرمز نے اپنی فوج کو خیمے اکھاڑنے اور بہت تھوڑے وقت میں حفیر کی جانب کوچ کرنے کا حکم دیا۔ حفیر کے اردگرد پانی کے کنوئیں موجود تھے۔ ہرمز نے وہاں خالدؓ سے پہلے پہنچ کر خیمے گاڑدیئے۔ اس طرح پانی ایرانیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ خالدؓ ابھی حفیر سے کچھ دور تھے کہ ایک بار پھردونوں شتر سوار ان کے راستے میں آگئے،اور خالدؓ کو اطلاع دی کے دشمن حفیر کے مقام پرپانی کے کنوئیں پر قابض ہو چکا ہے۔ خالدؓ نے کچھ اور آگے جا کر ایسی جگہ پڑاؤ کا حکم دے دیا جہاں دور دور تک پانی کی ایک بوند نہیں مل سکتی تھی۔ فوج نے وہاں پڑاؤ تو ڈال دیا لیکن خالد ؓکو بتایا گیا کہ فوج میں بے اطمینانی پائی جاتی ہے کہ پڑاؤ ایسی جگہ کیا گیا ہے جہاں دور دور تک پانی کا نام و نشان نہیں۔’’میں نے کچھ سوچ کر یہاں پڑاؤ کیا ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تمام لشکر سے کہو کہ اگر دشمن پانی پر قابض ہے تو پریشان نہ ہوں۔ ہماری پہلی لڑائی پانی کیلئے ہو گی۔ پانی اسی کو ملے گا جو جان کی بازی لگا کر لڑے گا،تم نے دشمن کو پانی سے محروم کردیا تو سمجھو تم نے جنگ جیت لی۔‘‘سالارِ اعلیٰ کایہ پیغام سارے لشکر کو سنا دیا گیااور سب ایک خونریز جنگ لڑنے کیلئے تیار ہو گئے۔ اب لشکر کی نفری اٹھارہ ہزار ہو گئی تھی۔ مثنیٰ بن حارثہ ،مذعور بن عدی ،ہرملہ اور سُلمہ دودوہزار آدمی ساتھ لئے خالدؓ سے آملے تھے۔ خالد ؓنے جو ایلچی ہرمز کے پاس بھیجا تھا ،وہ بھی اسی پڑاؤ میں خالدؓ کے پاس آیا اور بتایا کہ ہرمز نے اس کے ساتھ کیسا توہین آمیز سلوک کیا ہے۔’’اس کی ایک لاکھ درہم کی ٹوپی نے اس کا دماغ خراب کر رکھا ہے۔‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے جو پاس ہی بیٹھا ہوا تھا،کہا۔’’ﷲ یہ نہیں دیکھتا کہ کسی انسان کے سر پر کیا رکھا ہے ۔ﷲ تو دیکھتا ہے کہ اس کے سر کے اندر کیا ہے۔ اس کے عزائم کیا اور اس کی نیت کیا ہے اور وہ سوچتا کیا ہے؟‘‘


’’ایک لاکھ درہم کی ٹوپی؟‘‘خالدؓ نے حیران ہو کرپوچھا۔’’کیا ہرمز اتنی قیمتی ٹوپی پہنتا ہے؟‘‘ ’’فارس کی شہنشاہی کا ایک دستور ہے۔‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے جواب دیا۔’’ان کے ہاں حسب و نسب اور حیثیت کو دیکھ کر اس کے مطابق ٹوپی پہنائی جاتی ہے جو ان کے شہنشاہ کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔ زیادہ قیمتی ٹوپی صرف وہ افراد پہنتے ہیں جو اعلیٰ حسب و نسب کے ہوں اور جنہوں نے رعایا میں بھی اور شاہی دربار میں بھی توقیر اور وجاہت حاصل کر رکھی ہو۔ اس وقت ہرمز سب سے زیادہ قیمتی ٹوپی پہنتا ہے ۔کوئی اور ایک لاکھ درہم کی ٹوپی نہیں پہن سکتا۔ اس ٹوپی میں بیش قیمت ہیرے لگے ہوئے ہیں اور اس کی کلغی بھی بہت قیمتی ہے۔‘‘ ’’فرعونوں نے اپنے سروں پر خدائی ٹوپیاں سجا لی تھیں۔‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’کہاں ہیں وہ ؟ کہاں ہیں ان کی ٹوپیاں؟ مجھے کسی کی بیش قیمت ٹوپی مرعوب نہیں کر سکتی، نہ کسی کی ٹوپی تلوار کے وار کو روک سکتی ہے۔ مجھے یہ بتاؤ کہ آتش پرستوں کی فوج لڑنے میں کیسی ہے اور میدانِ جنگ میں کتنی تیزی سے نقل و حرکت کرتی ہے؟‘‘ ’’فارس کے سپاہی کی زِرہ اور ہتھیار دیکھ کر خوف سا آتا ہے۔‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے خالد ؓکو بتایا۔’’سرپر لوہے کی زنجیروں کی خود،بازوؤں پر کسی اور دھات کے خول اور ٹانگیں آگے کی طرف سے موٹے چمڑے یا دھات سے محفوظ کی ہوئیں ، ہتھیار اتنے کہ ہر سپاہی کے پاس ایک برچھی ایک تلوار ،ایک وزنی گُرز ،ایک کمان اورایک ترکش ہوتی ہے جس میں ہر سپاہی تیس تیر رکھتا ہے۔‘‘ ’’اورلڑنے میں کیسے ہیں؟‘‘ ’’جرات اور عقل سے لڑتے ہیں۔‘‘ مثنیٰ بن حارثہ نے جواب دیا۔’’ان کی دلیری مشہور ہے۔‘‘

’’مثنیٰ!‘‘خالد ؓنے کہا۔’’کیا تم نے محسوس نہیں کیا کہ آتش پرستوں کے سپاہی کتنے کمزور ہیں اور ان کی جرات کی حد کیا ہے؟……ان کی جرات کی حد آہنی خود اور بازوؤں اور ٹانگوں پر چڑھائے ہوئے خولوں تک ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ جذبہ لوہے کو کاٹ دیا کرتا ہے۔ لوہے کی تلوار اور برچھی کی انّی جذبے کو نہیں کاٹ سکتی۔ زِرہ اور دھات یاچمڑے کے خول حفاظت کے جھوٹے ذریعے ہیں۔ ایک خول کٹ گیا تو سپاہی اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگتا ہے۔ پھر اس میں اتنی سی جرات رہ جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بچانے کی اوربھاگنے کی کوشش کرتا ہے۔ ﷲ کے سپاہی کی زِرہ اس کا عقیدہ اور ایمان ہے ……میں تمہیں فارسیوں کی ایک اور کمزوری دِکھاؤں……؟ــ‘‘خالدؓ نے قاصد سے کہا۔’’سالاروں اور کمانداروں کو فوراً بلاؤ۔‘‘

’’فوری طور پر کاظمہ کی طرف کوچ کرو۔‘‘خالد ؓنے حکم دیا۔’’اور کوچ بہت تیز ہو۔‘‘ہرمز حفیرہ کے علاقے میں پڑاؤ کیے ہوئے تھا۔ وہ کاظمہ سے اپنی فوج کو یہاں لایا تھا۔ کیونکہ خالدؓ کا لشکر حفیرہ کی طرف آ گیا تھا۔ اب یہ لشکر پھر کاظمہ کی طرف جا رہا تھا۔ دونوں فوجوں کی چند ایک گھوڑ سوار ایک دوسرے کی خیمہ گاہ کو دیکھتے رہتے تھے ۔ ہرمز کو اطلاع ملی کہ مسلمانوں کا لشکر کاظمہ کی طرف کوچ کر گیا ہے توہرمز نے اپنی فوج کو کاظمہ کی طرف کوچ کرنے کا حکم دے دیا۔ہرمز کو اُبلہ کی بہت فکر تھی۔ یہ ایرانیوں کی بادشاہی کا بہت اہم شہر تھا۔ یہ تجارتی مرکز تھا۔ ہندوستان کو تاجروں کے قافلے یہیں سے جایا کرتے تھے،اور ہندوستان خصوصاً سندھ کا مال اسی مقام پر آیا کرتا تھا۔ یہ ایران کا فوجی مرکز بھی تھا۔ اس علاقے کے رہنے والے مسلمانوں کو دبائے رکھنے کیلئے اُبلہ میں فوج رکھی گئی تھی۔ ہرمز کی کوشش یہ تھی کہ مسلمانوں کا لشکر اُبلہ تک نہ پہنچ سکے۔ ہرمز کو ابلہ پہلے سے زیادہ خطرے میں نظر آنے لگا کیونکہ مسلمان اُبلہ کے جنوب میں کاظمہ کی طرف جا رہے تھے۔ مسلمانوں کیلئے کوچ اتنا مشکل نہ تھا۔ جتنا ایرانیوں کیلئے دشوار تھا۔ مسلمانوں کے پاس اونٹ اور گھوڑے خاصے زیادہ تھے۔ سپاہی ہلکے پھلکے تھے۔ وہ آسانی سے تیز چل سکتے تھے،ان کے مقابلے میں ایرانی سپاہی زِرہ اور ہتھیاروں سے لدے ہوئے تھے اس لئے وہ تیز چل نہیں سکتے تھے۔ ایک دو دن پہلے ہی وہ کاظمہ سے حفیرہ آئے تھے۔ اس کوچ کی تھکن ابھی باقی تھی کہ انہیں ایک بار پھر کوچ کرنا پڑا اور وہ بھی بہت تیز تاکہ مسلمانوں سے پہلے کاظمہ کے علاقے میں پہنچ جائیں ۔ اس کوچ نے راستے میں ہی انہیں تھکا دیا۔ ہرمز کی فوج جب کاظمہ میں مسلمانوں کے بالمقابل پہنچی تونڈھال ہو چکی تھی۔ مسلمان سپاہی صحرائی لڑائیوں اور صحرا میں نقل و حرکت کے عادی تھے۔ خالد ؓنے ہرمز کو یہ تاثر دینے کیلئے کہ وہ اپنے لشکر کو آرام نہیں کرنے دے گا۔ لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کردیا۔ خود قلب میں رہے۔ دائیں اور بائیں پہلوؤں کی کمان عاصم بن عمرو اور عدی بن حاتم کے پاس تھی۔عاصم بن عمرو، قعقاع بن عمرو کے بھائی تھے اور عدی بن حاتم قبیلہ طے کے سردار تھے جو دراز قد مضبوط جسم والے بڑے بہادر جنگجو تھے۔ خالدؓ کو اپنی فوج کو لڑائی کی ترتیب میں کرتے دیکھ کر ہرمز نے بھی اپنی فوج کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا۔ قلب میں وہ خود رہا اور دونوں پہلوؤں کی کمان شاہی خاندان کے  دو افراد قباذ اور انوشجان کو دی۔ ہرمز دیکھ رہا تھا کہ اس کی فوج پسینے میں نہا رہی ہے۔ اور سپاہیوں کی سانسیں پھولی ہوئی ہیں۔ انہیں آرام کی ضرورت تھی لیکن مسلمان جنگی ترتیب میں آ چکے تھے۔ ہرمز نے اپنی فوج کی ترتیب ایسی رکھی کہ کاظمہ شہر اس کی فوج کے پیچھے آ گیا۔ ان کے سامنے ریگستانی میدان تھا اور ایک طرف بے آب و گیاہ ٹیلہ نما پہاڑیوں کا سلسلہ تھا۔


 خالدؓ نے اپنی فوج کو اس طرح آگے بڑھایا کہ یہ پہاڑی سلسلہ اُن کی پشت کی طرف ہو گیا۔اپریل ۶۳۳ء کے پہلے ہفتے کا ایک دن تھا جب مسلمان پہلی بار آتش پرست ایرانیوں کے مقابل آئے۔ خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اگر قتل کر دیا جائے تو یہ معرکہ بغیر لڑے ختم ہو سکتا ہے۔ ہرمز کے ایک سالار نے اسے کہا۔ مسلمان جو اتنی دور سے آئے ہیں اپنے سالار کی موت کے بعد ہمارے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکیں گے۔ ’’فوج سے کہو زنجیریں باندھ لیں۔‘‘ہرمز نے سالار سے کہا۔’’میں ان کے سالار کا بندوبست کرتا ہوں۔سب سے پہلے یہی مرے گا۔‘‘اس نے سالار کو بھیج کر اپنے محافظوں کو بلایا اور انہیں کچھ بتایا۔

 زنجیریں باندھ لینے کا مطلب یہ تھا کہ ایرانی فوج کے سپاہی اپنے آپ کو اس طرح زنجیروں سے باندھ لیتے تھے کہ پانچ سے دس سپاہی ایک لمبی زنجیر میں بندھ جاتے تھے۔ ان کے درمیان اتنا فاصلہ ہوتا تھا کہ وہ آسانی سے لڑ سکتے تھے۔ زنجیریں باندھ کر لڑنے سے ایک فائدہ یہ ہوتا تھا کہ کوئی سپاہی بھاگ نہیں سکتا تھا۔ دوسرا فائدہ یہ کہ ان کے دشمن کے گھوڑ سوار جب ان پر ہلہ بولتے تھے تو سپاہی زنجیریں سیدھی کر دیتے۔ زنجیریں گھوڑوں کی ٹانگوں کے آگے آ جاتیں اور گھوڑے گر پڑتے تھے۔ لیکن زنجیروں کا بہت بڑا نقصان یہ تھا کہ ایک زنجیر میں سے بندھے ہوئے سپاہیوں میں سے ایک دو زخمی یا ہلاک ہو جاتے تو باقی بے بس ہو جاتے اور دشمن کا آسان شکار بنتے تھے۔ اس جنگ کو جو ہرمز اور خالدؓ کے درمیان لڑی گئی،جنگِ سلاسل یعنی زنجیروں کی جنگ کہتے ہیں۔ مسلمانوں نے جب یہ دیکھا کہ ایرانی اپنے آپ کو زنجیروں سے باندھ رہے ہیں تو وہ حیران ہونے لگے۔ کسی نے بلند آواز سے کہا۔’’وہ دیکھو! فارسی اپنے آپ کو ہمارے لیے باندھ رہے ہیں۔‘‘’’فتح ہماری ہے۔‘‘خالدؓ نے بلند ٓواز سے کہا۔’’ﷲ نے ان کے دماغوں پر مہر لگا دی ہے۔‘‘خالدؓ نے کچھ سوچ کر کاظمہ سے حفیر اور حفیر سے کاظمہ کو کوچ کیا تھا۔ وہ فائدہ انہیں نظر آ گیا تھا۔ ہرمز کی و ہ فوج جو زِرہ اور ہتھیاروں سے لدی ہوئی تھی ،لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی تھک گئی تھی۔خالدؓ نے ایرانیوں کو آرام کی مہلت ہی نہیں دی تھی . 


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

⚔ شمشیرِ بے نیام ⚔  حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ( قسط نمبر-34) ہرمز کی پیش قدمی بہت تیز تھی۔ مارچ ۶۳۳ء کا تیسرا ہفتہ تھا جب خالدؓ نے یمام...

شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ حضرت خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 33



⚔ شمشیرِ بے نیام ⚔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

( قسط نمبر-33)

رسول ﷲﷺ کے ان شیدایوں نے خالدؓ کی اجازت سے ایک کام یہ بھی کیا کہ گھوڑوں پر سوار ہو کر یمامہ کے گردونواح میں نکل گئے اور بستی بستی جا کر لوگوں کو گھوڑ سواری کے مختلف کرتب دکھانے لگے۔ مثلا دوڑتے گھوڑوں سے اترنا اور سوار ہونا ،سرپٹ دوڑتے گھوڑوں سے نشانے پر تیر چلانا، نیزہ بازی اور گھوڑوں کو دوڑاتے ہوئے تیغ زنی کے کمالات۔ وہ جوانوں کو فوج میں بھرتی ہو جانے کا مشورہ بھی دیتے اور انہیں بتاتے کہ جنگ میں جا کر انہیں کیا کیا فائدے حاصل ہوں گے ۔ اس کے علاوہ ان لوگوں کو یہ بھی بتاتے تھے کہ وہ فوج میں بھرتی نہ ہوئے تو ایرانی آکر انہیں اپنا غلام بنا لیں گے۔جو ان سے بیگار لے گی ،انہیں دیں گے بھی کچھ نہیں ،اور ان کی جوان بہنوں ،بیویوں اور بیٹیوں کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا کریں گے۔اس خطے نے ایرانیوں کا دورِ حکومت دیکھا تھا ۔پھر انہوں نے جھوٹے پیغمبروں کی شعبدے بازیاں دیکھی تھیں اور اب وہ مسلمانوں کی حکومت دیکھ رہے تھے۔ مسلمانوں نے انہیں غلام بنانے کی کوشش نہیں کی تھی ۔ان کے انداز ،طور طریقے او رہن سہن بادشاہوں جیسے یا حکمرانوں جیسے نہیں تھے۔ وہ عام لوگوں کی طرح رہتے ،عام لوگوں کے ساتھ باتیں کرتے اور ان کی سنتے تھے۔ان کی عورتوں کی عزت محفوظ تھی۔

ان لوگوں میں وہ بھی تھے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا لیکن مسیلمہ جیسے شعبدے باز نے انہیں گمراہ کیا اور اسلام کے راستے سے ہٹا لیا تھا۔ انہوں نے مسیلمہ کی نبوت کو مسلمانوں کے ہاتھوں بے نقاب ہوتے دیکھا اور مسیلمہ کی جنگی قوت کو مسلمانوں کی قلیل نفری کی بے جگری کے آگے ریزہ ریزہ ہوتے دیکھا تھااور وہ محسوس کر رہے تھے کہ سچا عقیدہ اور نظریہ اسلام ہی ہے۔جو جھوٹ کی طاقتوں کو کچل دیتا ہے اور وہ غیبی طاقت جو سچے کو جھوٹے پر حق کو باطل پر فتح دیتی ہے وہ اسلام میں مضمر ہے ۔چنانچہ یہ لوگ خالدؓ کی فوج میں شامل ہونے لگے ۔یہ خالدؓ کے مجاہدین کی کوششوں کا حاصل تھا۔یمامہ میں شور اٹھا ۔ کچھ لوگ دوڑتے ہوئے بستی سے باہر چلے گئے۔ عورتیں چھتوں پر جا چڑھیں،افق سے گرد کی گھٹائیں اٹھ رہی تھیں اوریمامہ کی طرف بڑھ رہی تھیں۔’’آندھی آ رہی ہے۔‘‘’’لشکر ہے ……کسی کا لشکر آ رہا ہے۔‘‘’’ہوشیار……خبردار……تیار ہوجاؤ۔‘‘خالدؓ ایک قلعہ نما مکان پر جا چڑھے۔ یہ آندھی نہیں کسی کی فوج تھی۔ مرتدین کے سوا اور کس کی فوج ہو سکتی تھی؟ خالدؓ کو افسوس ہونے لگا کہ کس برے وقت انہوں نے اپنی فوج سے کہا تھا کہ جو گھروں کو جانا چاہتے ہیں چلے جائیں۔ گرد کے جو بادل اٹھتے نظر آ رہے تھے یہ بہت بڑے لشکر کی گرد تھی۔ خالدؓ کے پاس صرف دو ہزار نفری تھی یا وہ نفری تھی جو ابھی ابھی فوج میں شامل ہوئی تھی۔ اس پر بھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اور ہو بھی کیا سکتا تھا۔ یمامہ کی آبادی تھی۔ اس میں لڑنے والے آدمی موجود تھے۔ لیکن یہ خطرہ بھی موجود تھا کہ یہ لوگ دشمن سے مل جائیں گے،اور یہ خطرہ بھی کہ یہ پیٹھ پر وار کریں گے۔’’مجاہدینِ اسلام!‘‘خالد ؓنے قلعہ نما مکان کی چھت سے للکار کر کہا۔’’بہت بڑے امتحان کا وقت آ گیا ہے۔ ﷲ کے سوا تمہارا مددگار کوئی نہیں۔‘‘خالد چپ ہو گئے کیونکہ انہیں دفوں اور ڈھولوں کی دھمک سنائی دینے لگی تھی۔ حملہ آور دف بجاتے نہیں آیا کرتے۔ دھمک بلند ہوتی جا رہی تھی۔ خالدؓ نے اُدھر دیکھا۔ گرد بہت قریب آ گئی تھی،اور اس میں چھپے ہوئے اونٹ اور گھوڑے نظر آنے لگے تھے۔ گرد کے دبیز پردے میں آنے والا لشکر نعرے لگانے لگا۔’’اسلام کے پاسبانو!‘‘خالد ؓنے اوپر سے چلا کر کہا۔’’ﷲ کی مدد آ رہی ہے۔ آگے بڑھو، استقبال کرو، دیکھو! یہ کون ہیں؟‘‘خالدؓ دوڑتے نیچے اترے ۔اپنے گھوڑے پر کود کر سوار ہوئے اور گھوڑے کو ایڑ لگا کر بستی سے نکل گئے۔آنے والا لشکر بستی سے کچھ دور رک گیا اور دو گھوڑ سوار آگے بڑھے ۔ خالدؓ ان تک پہنچے اور گھوڑے سے اترے۔وہ دونوں سوار بھی اتر آئے۔ وہ مضر اور ربیعہ قبائل کے سردار تھے۔

’’مدینہ سے اطلاع آئی تھی کہ تمہیں مدد کی ضرورت ہے۔‘‘ایک سردار نے کہا۔’’میں چار ہزار آدمی ساتھ لایا ہوں۔ان میں شتر سوار بھی ہیں. گھوڑ سوار بھی ہیں اور پیادے بھی۔‘‘ ’’اور چار ہزار کی تعداد میرے قبیلے کی ہے۔‘‘دوسرے سردارنے کہا۔ خالدؓ نے فرطِ مسرت سے دونوں کو اپنے بازوؤں میں لے لیااور خوشی سے کانپتی ہوئی آواز میں بولے۔’’ﷲ کی قسم! ﷲ نے مجھے کبھی مایوس نہیں کیا۔‘‘خالدؓ کے پاس اب دس ہزار نفری کا لشکر جمع ہو گیا تھا۔ انہوں نے مضر اور ربیعہ کے سرداروں کو اچھی طرح سمجھا دیا کہ انہیں کہاں جانا ہے اور دشمن کتنا طاقتور ہے۔’’ہم تمہاری مدد کو آئے ہیں ولید کے بیٹے!‘‘ایک سردار نے کہا۔’’ہماری منزل وہی ہے جو تمہاری ہے۔‘‘ ’’مدینہ سے ہمیں اطلاع ملی ہے کہ امیرِلشکر تم ہو۔‘‘دوسرے سردار نے کہا۔’’جہاں کہو گے چلیں گے۔ دشمن جیسا بھی ہو گا لڑیں گے۔‘‘خالدؓ نے ایرانی سلطنت کے ایک حاکم ہرمز کے نام پیغام لکھوایا۔ اس وقت عراق ایران کی شہنشاہی کا ایک صوبہ تھا۔اس کا حاکم یا امیر ہرمز تھا۔ جس کی حیثیت آج کل کے گورنر جیسی تھی۔ اس کا ذکر پیچھے آ چکا ہے۔ وہ بڑا ہی بد طینت ،جھوٹا اور فریب کار تھا۔ کمینگی میں اس کا نام ضرب المثل کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ خالدؓ نے اس کے نام خط میں لکھوایا:’’تم اسلام قبول کرلو گے تو تمہارے لیے امن ہو گا۔ اگر نہیں تواپنا علاقہ سلطنت ِ اسلامیہ میں شامل کر دو۔ اس کے حاکم تم ہی رہو گے اور مدینہ کی خلافت کو جزیہ ادا کرتے رہو گے۔ اس کے عوض تمہاری اور تمہارے لوگوں کی سلامتی اور دفاع کے ذمہ دار ہم ہوں گے۔ اگر یہ بھی منظور نہیں تو اپنی سلامتی کے ذمہ دار تم خود ہو گے۔ ﷲ ہی جانتا ہے کہ تمہارا انجام کیا ہوگا۔ فتح و شکست ﷲ کے اختیار میں ہے لیکن میں تمہیں خبردار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ ہم وہ قوم ہیں جو موت کی اتنی ہی عاشق ہے جتنی کہ تمہیں زندگی عزیز ہے۔ میں نے ﷲ کا پیغام تم تک پہنچا دیا ہے۔‘‘خالدؓ نے یہ خط ایک ایلچی کو دے کر کہا کہ وہ دو محافظ اپنے ساتھ لے جائے اور جس قدر تیز جا سکتا ہے ،یہ پیغام ہرمز تک پہنچائے اور جواب لائے۔’’تمہاری واپسی تک میں یمامہ میں نہیں ہوں گا۔‘‘خالدؓ نے ایلچی سے کہا۔’’مجھے عراق کی سرحد پر کہیں ڈھونڈ لینا۔ اُبلہ کو یاد رکھنا۔ وہاں سے تمہیں پتا چل جائے گا کہ میں کہاں ہوں۔‘‘ایلچی کی روانگی کے فوراً بعد خالد ؓنے دس ہزار کے لشکر کو کوچ کا حکم دے دیا۔ خالدؓ کو پتا نہیں تھا کہ ﷲ کی ابھی اور مدد اس کی منتظر ہے۔امیرالمومنین ابو بکرؓ نے شمال مشرقی عرب کے علاقوں میں آباد تین قبیلوں کے سرداروں مذعور بن عدی،ہرملہ اور سُلمہ، کو پیغام بھیجے تھے کہ اپنے اپنے قبیلے کے زیادہ سے زیادہ ایسے آدمی مثنیٰ بن حارثہ کے پاس لے جائیں جنہیں جنگ کا تجربہ ہو اور جو پیٹھ دکھانے والے نہ ہوں۔ انہیں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ خالد ؓاپنی فوج لے کر آ رہا ہے اور وہ ان کا اور اپنے لشکر کا سالارِ اعلیٰ ہوگا۔

ابلہ اور دیگر ایسے علاقوں میں جہاں عربی مسلمان ایرانیوں کے محکوم تھے،صورتِ حال کچھ اور ہی ہو چکی تھی۔پہلے مثنیٰ بن حارثہ نے ان بستیوں کے چند ایک جوشیلے جوانوں کو ایرانیوں کی فوجی چوکیوں اور فوجی قافلوں پر شب خون مارنے کیلئے اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا۔ لیکن اب اس محکوم آبادی میں سے ایک فوج تیار کرنی تھی۔ کچھ فوج تو ا س نے اپنے قبیلے بکر بن وائل سے تیار کر لی تھی،جو مدینہ کے ایک سالار علاء بن حضرمی کے دوش بدوش عراق کی سرحد کے علاقوں میں مرتدین کے خلاف لڑی بھی تھی۔ مثنیٰ نے ایرانیوں کے محکوم مسلمانوں کو اطلاع بھیج دی تھی کہ جس قدر جوان آدمی وہاں سے نکل کر باہر آسکیں ،آ جائیں۔

مسلمانوں کا وہاں سے نکلنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ کیونکہ زرتشتوں کی فوج مسلمانوں کی بستیوں پر کڑی نظر رکھتی تھی۔انہیں معلوم تھا کہ ان پر شب خون مارنے والے یہی مسلمان ہیں۔ اب ایران کی فوج کو نئے احکام ملے تھے۔ یہ احکام جاری کرنے والا عراقی صوبے کا حاکم ہرمز تھا۔ چند ہی دن پہلے کا واقعہ تھا کہ خالد ؓکا ایلچی ہرمز کے دربار میں پہنچا۔یہ شہنشاہوں کا دربار تھا۔ ہرمز کو جب اطلاع دی گئی تھی کہ مدینہ کے سالار خالدؓ کا ایلچی آیا ہے تو ہرمزنے چہرے پر نفرت اور رعونت کے آثارپیدا کر لئے تھے۔’’میں کسی مسلمان کی صورت نہیں دیکھنا چاہتا۔‘‘اس نے کہا تھا۔’’لیکن میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ کیوں آیا ہے؟‘‘

’’زرتشت کی قسم!‘‘ایک درباری نے اٹھ کر ہرمز سے کہا۔’’خالد کا ایلچی کوئی پیغام لایا ہوگا۔ جو اس کی اپنی موت کا پیغام ثابت ہو گا۔‘‘ ’’ لے آؤ اسے اندر!‘‘ہرمز نے کہا۔ خالد ؓکا ایلچی دو محافظوں کے ساتھ بڑے تیز قدم اٹھاتا ہرمز کے دربار میں داخل ہوااور سیدھا ہرمز کی طرف گیا۔ دو برچھی برداروں نے سامنے آ کر اسے روکا لیکن وہ دونوں کے درمیان سے گزر کر ہر مز کے سامنے جا کھڑا ہوا۔’’السلام و علیکم!‘‘ایلچی نے کہا۔’’ہرمز آتش پرست کو خالد بن ولید سالارِ مدینہ کا سلام پہنچے جن کا ایک پیغام لایا ہوں۔‘‘’’ہم اس سالار کاسلام قبول نہیں کریں گے جس کے ایلچی میں اتنی بھی تمیز نہیں کہ ہمارے جاہ وجلال کو پہچان سکے۔‘‘ہرمز نے حقارت سے کہا۔’’کیا مدینہ میں جنگلی اور گنوار آباد ہیں ؟ کیا تمہیں نہیں بتایا گیا کہ تم ایک شاہی دربار میں جا رہے ہو،تمہیں دربار کے آداب نہیں سکھائے گئے؟‘‘

’’مسلمان صرف ﷲ کے دربار کے آداب سے آگاہ ہوتا ہے۔‘‘ایلچی نے جرات سے سر کچھ اور اونچا کر کے کہا۔’’اس انسان کو اسلام کوئی حیثیت نہیں دیتا جو ﷲ کے بندوں پر اپنے دربار کا رعب گانٹھتا ہے۔میں تمہارا درباری نہیں ، اس سالار کا ایلچی ہوں جسے ﷲ کے رسولﷺ نے ﷲ کی تلوار کہا ہے۔‘‘’’ہرمز کے سامنے وہ تلوار کند ہو جائے گی۔‘‘ہرمز نے فرعونوں کے سے لہجے میں کہا اور ہاتھ بڑھا کرتحکمانہ لہجے میں بولا۔’’لاؤ تمہارے ﷲ کی تلوار نے کیا پیغام بھیجا ہے؟‘‘ایلچی نے پیغام اس کے ہاتھ میں دے دیا ،جو وہ اس طرح پڑھنے لگا جیسے ازراہِ مذاق اس نے ایک کاغذ ہاتھ میں لے لیا ہو۔ پیغام پڑھ کر اس نے اسے مٹھی میں اس طرح چُڑ مُڑ کردیا جیسے یہ ایک ردّی کا ٹکڑا ہو، جسے وہ پھینک دے گا۔’’کیا کیڑے مکوڑے یہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ وہ ایک چٹان سے ٹکر لے سکیں گے؟‘‘ہرمز نے کہا۔’’کیا مدینہ والوں کو کسی نے نہیں بتایا کہ ہرقل بھی اس چٹان سے ٹکرا کر اپنا سر پھوڑ چکا ہے؟ کیا ہم تمہیں اپنی فوج کی ایک جھلک دِکھائیں تاکہ تم اپنے سالار کو اور اپنے بوڑھے خلیفہ کو بتا سکو کہ عراق کی سرحد کی طرف دیکھنے کی بھی جرات نہ کریں؟‘‘’’مجھے سالارِ اعلیٰ نے صرف یہ حکم دیا تھا کہ یہ پیغام ہرمز تک پہنچا کر اس کا جواب لاؤں۔‘‘ایلچی نے کہا۔’’میں تمہاری کسی بات کا جواب نہیں دے سکتا کیونکہ مجھے ایسا کوئی حکم نہیں ملا۔‘‘

’’تم جیسے ایلچی کے ساتھ ہم یہ سلوک کرتے ہیں کہ اسے قید خانے میں پھینک دیتے ہیں۔‘‘ہرمز نے کہا۔’’اگر ہم رحم کریں تو اسے قید خانے کی اذیت سے بچانے کیلئے جلاد کے حوالے کر دیتے ہیں۔‘‘’’میری جان میرے ﷲ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ایلچی نے پہلے سے زیادہ جرات سے کہا۔’’اگر تم مسلمان ہوتے تو تمہیں علم ہوتا کہ مہمان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ لیکن ﷲ کے منکر اور آگ کے پجاری سے اس سے بہتر سلوک کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ مجھے جلاد کے حوالے کر دو لیکن یہ سوچ لو کہ مسلمان میرے اور میرے محافظوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا انتقام لیں گے۔‘‘ہرمز بدک کر سیدھا ہو بیٹھا۔غصے سے اس کی آنکھیں لال سرخ ہو گئیں۔ ویسی ہی سرخی اس کے چہرے پر بھی آگئی۔ جیسے کہ وہ خالدؓ کے اس ایلچی کو کچا چبا جائے گا۔’’نکال دو اسے ہمارے دربار سے۔‘‘ہرمز نے گرج کر کہا-

چار پانچ درباری جن کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں،تیزی سے آگے بڑھے، ایلچی کے دونوں محافظوں نے تلواریں نکال لیں، پہلے وہ دونوں ایلچی کے پیچھے کھڑے تھے، اب وہ ایلچی کے پہلوؤں میں اس طرح کھڑے ہو گئے کہ ان کی پیٹھیں ایلچی کی طرف تھیں۔

’’ہرمز!‘‘ ایلچی نے بارعب آوازمیں کہا۔’’جنگجو میدانِ جنگ میں لڑا کرتے ہیں، اپنی طاقت کا گھمنڈ اپنے دربار میں نہ دِکھا، مجھے اپنے سالار کے پیغام کا جواب مل گیا ہے،۔تجھے ہماری کوئی شرط قبول نہیں……کیا یہی ہے تیرا جواب؟‘‘’’نکل جاؤ اس دربار سے۔‘‘ہرمز نے غصے سے کانپتی ہوئی بلند آواز سے کہا۔’’اپنے سالار سے کہنا کہ میری طاقت کو میدانِ جنگ میں آزمالے۔‘‘ہرمز کے برچھی بردار درباری اس کے اشارے پر رک گئے تھے۔ ایلچی کے محافظوں نے تلواریں نیاموں میں ڈال لیں۔ایلچی پیچھے کومڑا اور تیز قدم دربار سے نکل گیا۔

دونوں محافظ اس کے پیچھے پیچھے جا رہے تھے۔ ہرمز نے مٹھی کھولی، جس میں خالد کا پیغام چڑ مڑ کیا ہوا تھا۔ چونکہ یہ پیغام باریک کھال پر لکھا ہوا تھا اس لیے یہ مٹھی کھولتے ہی سیدھا ہو گیا۔ ہرمز نے یہ پیغام فارس کے شہنشاہ اُردشیر کی طرف اس اطلاع کے ساتھ بھیج دیا کہ وہ مسلمانوں سے مقابلے کیلئے فوری طور پر سرحد کی طرف کوچ کر رہا ہے اور وہ مسلمانوں کو سرحد سے دور ہی ختم کر دے گا۔’’ہرمز کا اقبال بلند ہو۔‘‘اس کے ایک درباری نے کہا۔’’جس دشمن کو آپ سرحد سے دور ہی ختم کرنا چاہتے ہیں وہ پہلے ہی سرحد کے اندر موجود ہے۔‘‘ہرمز نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔’’یہ وہ عربی مسلمان ہیں۔‘‘اس درباری نے کہا۔’’جو دجلہ اور فرات کے اس علاقے میں آباد ہیں جہاں یہ دونوں دریا ملتے ہیں ۔یہ علاقہ ابلہ تک چلا جاتا ہے۔ انہوں نے کب  کی سلطنتِ ایران کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے۔ مدینہ والوں نے ہم پر حملہ کیا تو یہ مسلمان ان سے مل جائیں گے۔‘‘’’میں ایک عرض کرنے کی جرات کرتا ہوں۔‘‘ایک فوجی مشیر نے کہا۔’’کئی دنوں سے اطلاعیں مل رہی ہیں کہ مسلمان جو لڑنے کے قابل ہیں یعنی جوان ہیں ۔وہ اپنی بستیوں سے غائب ہوتے جا رہے ہیں ۔وہ یقینا مثنیٰ بن حارثہ تک پہنچ رہے ہیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ فوج کی صورت میں منظم ہو رہے ہیں۔‘‘’’کیا تم نے فرار کا یہ سلسلہ روکنے کیلئے کوئی کارروائی کی ہے؟‘‘ہرمز نے پوچھا۔’’فوجی دستے باقاعدہ نگرانی کر رہے ہیں۔‘‘فوجی مشیر نے جواب دیا۔’’اس کے باوجود مسلمان غائب ہو رہے ہیں……?‘‘ہرمز نے غصے اور طنز سے کہا۔’’سرحدی چوکیوں کو ابھی حکم بھیجو کہ مسلمانوں کی بستیوں پر چھاپے مارتے رہیں۔ ہر بستی کی تمام آبادی کو باہر نکال کر دیکھیں کہ کتنے آدمی غائب ہیں اور وہ کب سے غائب ہیں ؟جس گھر کا آدمی غائب ہو اس گھر کو آگ لگا دو۔ کوئی مسلمان سرحد کی طرف جاتا نظر آئے تو اسے پکڑ کر قتل کر دو یا دور سے اس پر تیر چلا دو۔‘‘اس علاقے میں مسلمانوں کی ایک بستی تھی جو سرحد کے بالکل قریب تھی۔ایرانی فوج کی تھوڑی سی نفری نے اس بستی میں جا کر اعلان کیا کہ بچے سے بوڑھے تک باہر نکل آئیں۔ سپاہیوں نے گھروں میں گھس گھس کر لوگوں کو باہر نکالنا شروع کر دیا۔عورتوں کو الگ اور مردوں کو الگ کھڑا کر دیا گیا۔سپاہیوں کا انداز بڑا ہی ظالمانہ تھا۔ وہ گالیوں کی زبان میں بات کرتے اور ہر کسی کودھکے دے دے کر اِدھر سے اُدھر کرتے۔انہوں سے اعلان کیا کہ اُن آدمیوں کے نام بتائے جائیں اور ان کے گھر دِکھائے جائیں جو بستی میں نہیں ہیں۔ تمام آبادی خاموش رہی۔’’جواب دو۔‘‘ایرانی کمانڈر نے غصے سے چلاتے ہوئے کہا۔اسے کوئی جواب نہ ملا۔ کمانڈر نے آگے بڑھ کر ایک بوڑھے آدمی کو گریبان سے پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹا اور اس سے پوچھا کہ اس ہجوم میں کون کون نہیں ہے؟’’ مجھے معلوم نہیں۔‘‘بوڑھے نے جواب دیا۔

کمانڈر نے نیام سے تلوار نکال کر بوڑھے کے پیٹ میں گھونپ دی اور تلوار زور سے باہر کو کھینچی۔ بوڑھا دونوں ہاتھ پیٹ پر رکھ کر گر پڑا۔ کمانڈر پھر ایک بار لوگوں کی طرف متوجہ ہوا۔اچانک ایک طرف سے آٹھ دس گھوڑے سرپٹ دوڑتے آئے۔ان کے سواروں کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں ۔ ایرانی فوجی دیکھنے بھی نہ پائے تھے کہ یہ کون ہیں۔ان میں سے کئی ایک کے جسموں میں برچھیاں اتر چکی تھیں اور گھوڑے جس طرح آئے تھے اسی طرح سرپٹ دوڑتے بستی سے نکل گئے۔ایرانی فوجیوں کی تعداد چالیس پچاس تھی، ان میں بھگدڑ مچ گئی ۔ان میں سے آٹھ دس زمین پر پڑے تڑپ رہے تھے۔ گھوڑوں کے قدموں کی دھمک سنائی دے رہی تھی جو دور ہٹتی گئی اور اب پھر قریب آنے لگی تھی۔اب فوجیوں نے بھی برچھیاں اور تلواریں تان لیں اور اس طرف دیکھنے لگے جدھر سے گھوڑوں کی آوازیں آ رہی تھیں ۔پیچھے سے بستی کی آبادی ان کے اوپر ٹوٹ پڑی۔ ان سپاہیوں میں سے وہی زندہ رہے جو کسی طرف بھاگ نکلے تھے۔جب سوار بستی میں پہنچے تو انہیں گھوڑے روکنے پڑے کیونکہ ان کی راہ میں بستی کے لوگ حائل تھے ۔ جو ایرانی فوجیوں کا کشت و خون کر رہے تھے۔اس سے پہلے مسلمانوں نے یوں کھلے بندوں ایرانی فوج پر حملے کرنے کی جرات کبھی نہیں کی تھی ۔ایک ایرانی سپاہی پر ہاتھ اٹھانے کی سزا یہ تھی کہ ہاتھ اٹھانے والے کے پورے خاندان کو ختم کر دیا جاتا تھا۔اب یہاں کے مسلمان اس لئے دلیر ہو گئے تھے کہ اُنہیں اطلاع مل چکی تھی کہ مدینہ کی فوج آ گئی ہے۔ جن سواروں نے ایرانیوں پر حملہ کیا تھا وہ کچھ اس بستی کے رہنے والے جوان تھے، کچھ دوسری بستیوں کے تھے۔ یہ محض اتفاق تھا کہ وہ مثنیٰ بن حارثہ کی طرف جاتے ہوئے اس بستی کے قریب سے گزر رہے تھے۔ انہوں نے اس بستی کی آبادی کو باہر کھڑے دیکھا اور ایرانی فوجیوں کو بھی دیکھا۔ وہ چھپ کر آگے نکل سکتے تھے لیکن ایرانی کمانڈر نے بوڑھے کے پیٹ میں تلوار گھونپی تو سب نے آپس میں صلاح و مشورے کئے بغیر گھوڑوں کے رُخ اس طرف کر لئے ۔ایرانی فوجیوں نے تو انہیں جاتے ہوئے دیکھا ہی نہیں تھا۔ یہ ﷲ کی مدد تھی جو اس مظلوم بستی کو بر وقت مل گئی۔ یہ بستی تو خوش قسمت تھی کہ اسے مدد مل گئی اور ایرانیوں کی بھیانک سزا سے بچ گئی۔ مسلمانوں کی دوسری بستیوں پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی تھی ۔ ہر بستی کے ہر گھر کی تلاشی ہر رہی تھی۔ یہ دیکھا جا رہا تھا کہ کتنے آدمی غائب ہو چکے تھے ۔ ہر بستی میں ایرانی کئی آدمیوں کو قتل کررہے تھے۔ بعض مکانوں کو انہوں نے نذرِ آتش بھی کر دیا۔تین چار روز یہ سلسلہ چلا۔ اس کے بعد ایرانی فوج کو بستیوں کی طرف توجہ دینے کی مہلت نہ ملی۔ ہرمز اپنی فوج لے کر آگیا۔سرحدی فوج کو بھی اس نے اپنے ساتھ لے لیا اور سرحد سے نکل گیا۔ اس کا ارادہ یہ تھا کہ خالدؓ کو وہ سرحد سے دور روک لے گا۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


⚔ شمشیرِ بے نیام ⚔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ( قسط نمبر-33) رسول ﷲﷺ کے ان شیدایوں نے خالدؓ کی اجازت سے ایک کام یہ بھی کیا کہ گھوڑوں پر ...