شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ حضرت خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 38

 


⚔  شمشیرِ بے نیام ⚔ 


 حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ


( قسط نمبر-38)



مئی ۶۳۳ء کے پہلے ہفتے جو ماہِ صفر ۱۲ ہجری کا تیسرا ہفتہ تھا زرتشت کے پجاریوں کیلئے دریائے فرات کا سر سبز و شاداب خطہ جہنم بن گیا تھا۔ کس قدر ناز تھا انہیں اپنی جنگی طاقت پر، اپنی شان و شوکت پر ،اپنے گھوڑوں اور ہاتھیوں پر، وہ تو فرعونوں کے ہم پلہ ہونے کا دعویٰ کرنے لگے تھے اور کسریٰ دہشت کی علامت بنتا جا رہا تھا ۔ دجلہ اور فرات کے سنگم کے وسیع علاقے میں خالدؓ نے جنہیں رسولِ ﷲﷺ نے ﷲ کی تلوار کا خطاب دیا تھا فارس کے زرتشتوں کو بہت بری شکستیں دی تھیں اور ان کے ہرمز قارن بن قریانس ،انوشجان اور قباذ جیسے سالاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا لیکن کسریٰ اردشیر نے ابھی شکست تسلیم نہیں کی تھی۔ اس کے پاس ابھی بے پناہ فوج موجود تھی اور مدینہ کے مجاہدین کو وہ اب بھی بدو اور صحرائی لٹیرے کہتا تھا ۔ اس نے شکست تسلیم تو نہیں کی تھی لیکن شکست اور اپنے نام ور سالاروں کی مسلمانوں کے ہاتھوں موت کا جو اسے صدمہ ہوا تھا اسے وہ چھپا نہیں سکا تھا ۔ ہرمز کی موت کی اطلاع پر وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر دہرا ہو گیا تھا ۔ اس نے سنبھلنے کی بہت کوشش کی تھی لیکن ایسے مرض کا آغاز ہو چکا تھا جس نے اسے بستر پر گرا دیا تھا۔ مؤرخوں نے اس مرض کو صدمہ کا اثر لکھا ہے۔’’کیا میرے لیے شکست اور پسپائی کے سوا اب کوئی خبر نہیں رہ گئی ؟‘‘اس نے بستر پہ اٹھ کر بیٹھتے ہوئے گرج کر کہا ۔’’کیا مدینہ کے مسلمان جنات ہیں؟ کیا وہ کسی کو نظر نہیں آتے؟ اور وار کر جاتے ہیں۔‘‘ طبیب، اردشیر کی منظورِ نظر دوجواں سال بیویاں اور اس کا وزیر حیران و پریشان کھڑے اس قاصد کو گھور رہے تھے جو ایرانیوں کی فوج کی ایک اور شکست اور پسپائی کی خبر لایا تھا۔ اس کے آنے کی جب اطلاع اندر آئی تو طبیب نے باہر جا کر قاصد سے پوچھا تھا کہ وہ کیا خبر لایا ہے؟ قاصد نے خبر سنائی تو طبیب نے اسے کہا تھا کہ وہ کسریٰ کو ابھی ایسی بری خبر نہ سنائے کیونکہ اس کی طبیعت اس کی متحمل نہیں ہو سکے گی۔ لیکن یہ قاصد کوئی معمولی سپاہی نہیں تھا کہ وہ طبیب کا کہا مان جاتا ۔ وہ پرانا کماندار تھا۔ اس کا عہدہ سالاری سے دو ہی درجہ کم تھا۔ اسے کسی سالار نے نہیں بھیجا تھا ۔اسے بھیجنے کیلئے کوئی سالار زندہ نہیں بچا تھا۔ طبیب کے روکنے سے وہ نہ رکا اس نے کہا کہ اسے کسریٰ کی صحت کا نہیں، فارس کی شہنشاہیت اور زرتشت کی عظمت کا غم ہے۔ اگر شہنشاہ اردشیرکو اس نے دجلہ اور فرات کی جنگی کیفیت کی پوری اطلاع نہ دی تو مسلمان مدائن کے دروازے پر آ دھمکیں گے ۔اس نے طبیب کی اور کوئی بات نہ سنی ،اندر چلا گیااور اردشیر کو بتایا کہ مسلمانوں نے فارس کی فوج کو بہت بری شکست دی ہے۔اردشیر لیٹا ہوا تھا ،اٹھ بیٹھا ،غصے سے اس کے ہونٹ اور اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔’’شہنشاہِ فارس!‘‘ کماندار نے کہا۔’’مدینہ والے جنات نہیں ۔ وہ سب کو نظر آتے ہیں لیکن……‘‘ ’’کیا قارن مر گیا تھا؟‘‘اردشیر نے غصے سے پوچھا۔’’ہاں شہنشاہ !‘‘کماندار نے جواب دیا۔

۔’’وہ ذاتی مقابلے میں مارا گیا تھا۔اس نے دونوں فوجوں کی لڑائی تو دیکھی ہی نہیں۔‘‘’’مجھے اطلاع دی گئی تھی کہ قباذ اور انوشجان بھی اس کے ساتھ تھے۔‘‘’’وہ بھی قارن کے انجام کو پہنچ گئے تھے۔‘‘کماندار نے کہا۔’’وہ قارن کے قتل کا انتقام لینا چاہتے تھے ۔ دونوں نے اکھٹے آگے بڑھ کر مدینہ کے سالاروں کو للکارا اور دونوں مارے گئے۔ شہنشاہِ فارس! کیا فارس کی اس عظیم شہنشاہی کو اس انجام تک پہنچنا ہے؟ نہیں نہیں……گستاخی کی معافی چاہتا ہوں، اگر کسریٰ نے صدمے سے اپنے آپ کو یوں روگ لگا لیا تو کیا ہم زرتشت کی عظمت کو مدینہ کے بدوؤں سے بچا سکیں گے؟‘‘

’’تم کون ہو؟‘‘اردشیر نے پوچھا۔’’میں کماندار ہوں ۔‘‘کماندار نے جواب دیا۔’’میں کسی کا بھیجا ہوا قاصد نہیں ۔ میں زرتشت کا جانثار ہوں۔‘‘ ’’دربان کو بلاؤ۔‘‘اردشیر نے حکم دیا۔’’تم نے مجھے نیا حوصلہ دیا ہے۔ مجھے یہ بتاؤ کیا مسلمانوں کی نفری زیادہ ہے؟ کیا ان کے پاس گھوڑے زیادہ ہیں؟ کیا ہے ان کے پاس؟‘‘ دربان اندر آیا اور حکم کے انتظار میں جھک کر دہرا ہو گیا۔’’سردار اندرزغر کو فوراً بلاؤ۔‘‘اردشیر نے دربان سے کہا اور کماندار سے پوچھا ۔’’کیا ہے ان کے پاس؟ بیٹھ جاؤ اور مجھے بتاؤ۔‘‘ ’’ہمارے مقابلے میں ان کے پاس کچھ بھی نہیں۔‘‘کماندار نے جواب دیا۔’’ان میں لڑنے کا جذبہ ہے ۔ میں نے ان کے نعرے سنے ہیں۔ وہ نعروں میں اپنے خدا اور رسول ﷺ کو پکارتے ہیں ۔میں نے ان میں اپنے مذہب کا جنون دیکھا ہے۔ وہ اپنے عقیدے کے بہت پکے ہیں اور یہی ان کی طاقت ہے۔ ہر میدان میں انکی تعداد تھوڑی ہے۔‘‘’’ٹھہر جاؤ۔‘‘ اردشیر نے کہا۔’’ اندرزغر آ رہا ہے۔ مجھے اپنے اس سالار پر بھروسہ ہے۔ اسے بتاؤ کہ ہماری فوج میں کیا کمزوری ہے کہ اتنی زیادہ تعداد میں ہوتے ہوئے بھاگ آتی ہے۔‘‘ ’’اندرزغر!‘‘ اردشیر بستر پرنیم دراز تھا۔ اپنے ایک اور نامور سالار سے کہنے لگا۔’’کیا تم نے سنا نہیں۔ کہ قارن بن قریان بھی مارا گیا ہے۔ قباذ بھی مارا گیا اور انوشجان بھی مارا گیا ہے۔‘‘اندرزغر کی آنکھیں ٹھہر گئیں جیسے حیرت نے اس پر سکتہ طاری کر دیا ہو۔’’اسے بتاؤ کماندار!‘‘ اردشیر نے کماندار سے کہا۔’’کیا میں ان حالات میں زندہ رہ سکوں گا؟’’ ‘‘کماندار نے سالار اندرزغر کو تفصیل سے بتایا کہ مسلمانوں نے انہیں دریائے معقل کے کنارے کس طرح شکست دی ہے اور یہ بھی تفصیل سے بتایا کہ مدائن کی فوج کس طرح بھاگی ہے۔’’اندرزغر!‘‘اردشیر نے کہا۔’’ہم اب ایک اور شکست کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ مسلمانوں سے صرف شکست کا انتقام نہیں لینا ۔ ان کی لاشیں فرات میں بہا دینی ہیں ۔یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ تم زیادہ سے زیادہ فوج لے کر جاؤ۔ تم اس علاقے سے واقف ہو۔ تم بہتر سمجھتے ہو کہ مسلمانوں کو کہاں گھسیٹ کر لڑانا چاہیے۔‘‘ ’’وہ ریگستان کے رہنے والے ہیں ۔‘‘اندرزغر نے کہا۔’’اور وہ ریگستان میں ہی لڑ سکتے ہیں۔ میں انہیں سر سبز اور دلدلی علاقے میں آنے دوں گا اور ان پر حملہ کروں گا۔ میری نظر میں دلجہ موزوں علاقہ ہے۔‘‘اس نے کماندار سے پوچھا ۔’’ان کے گھوڑ سوار کیسے ہیں؟‘‘’’ان کے سوار دستے ہی ان کی اصل طاقت ہیں ۔‘‘کماندار نے کہا۔’’ان کے سوار بہت تیز اور ہوشیار ہیں۔ دوڑتے گھوڑوں سے ان کے چلائے ہوئے تیر خطا نہیں جاتے ۔ان کے سواروں کا حملہ بہت ہی تیز ہوتا ہے۔ وہ جم کر نہیں لڑتے۔ایک ہلہ بول کر اِدھر اُدھر ہو جاتے ہیں۔‘‘’’یہی وہ راز ہے جو ہمارے سالار نہیں سمجھ سکتے۔‘‘ اندرزغر نے اپنی ران پر ہاتھ مار کر کہا۔’’مسلمان آمنے سامنے کی جنگ لڑ ہی نہیں سکتے ۔ ہم ان سے کئی گنا زیادہ فوج لے جائیں گے۔ میں انہیں اپنی فوج کے نیم دائرے میں لے کر مجبور کر دوں گا کہ وہ اپنی جان بچانے کیلئے آمنے سامنے کی لڑائی لڑیں ۔‘‘ ’’اندرزغر!‘‘اردشیر نے کہا۔’’یہاں بیٹھ کر منصوبہ بنا لینا آسان ہے لیکن دشمن کے سامنے جا کر اس منصوبے پر اس کے مطابق عمل کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کماندار نے ایک بات بتائی ہے اس پر غور کرو۔ یہ کہتا ہے کہ مسلمان اپنے مذہب اور اپنے عقیدے کے وفادار ہیں اور وہ اپنے خدا اور اپنے رسول ﷺ کا نام لے کر لڑتے ہیں۔ کیا ہماری فوج میں اپنے مذہب کی وفاداری ہے؟‘‘


’’اتنی نہیں جتنی مسلمانوں میں ہے اور اس پر بھی غور کرو اندرزغر! مسلمان اپنے علاقے سے بہت دور آ گئے ہیں۔ یہ ان کی کمزوری ہے۔ یہاں کے لوگ ان کے خلاف ہوں گے۔‘‘ ’’نہیں شہنشاہ!‘‘کماندار نے کہا۔’’فارس کے جن علاقوں پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا ہے، وہاں کے لوگ ان کے ساتھ ہو گئے ہیں۔ ان کا سلوک ایسا ہے کہ لوگ انہیں پسند کرنے لگتے ہیں۔ وہ قتل صرف انہیں کرتے ہیں جن پر انہیں کچھ شک ہوتا ہے۔‘‘’’یہاں کے وہ عربی لوگ ان کے ساتھ نہیں ہو سکتے جو عیسائی ہیں۔‘‘ اندرزغر نے کہا۔’’میرے دل میں ان لوگوں کی جو محبت ہے اسے وہ اچھی طرح جانتے ہیں ۔ میں انہیں اپنی فوج میں شامل کروں گا۔ ہم یہاں کے مسلمانوں پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ یہ ہمیشہ باغی رہے ہیں۔ان پر ہمیں کڑی نظر رکھنی پڑے گی ۔ان کی وفاداریاں مدینہ والوں کے ساتھ ہیں۔‘‘ ’’ان مسلمانوں کے ساتھ پہلے سے زیادہ برا سلوک کرو۔‘‘اردشیر نے کہا۔’’انہیں اٹھنے کے قابل نہ چھوڑو۔‘‘ ’’ہم نے انہیں مویشیوں کا درجہ دے رکھا ہے۔‘‘ اندرزغر نے کہا۔ ’’انہیں بھوکا رکھا ہے۔ ان کے کھیتوں سے ہم فصل اٹھا کر لے آتے ہیں اور انہیں صرف اتنا دیتے ہیں جس پر وہ صرف زندہ رہ سکتے ہیں۔ لیکن وہ اسلام کا نام لینے سے باز نہیں آتے۔ بھوکے مر جانا پسند کرتے ہیں لیکن اپنا مذہب نہیں چھوڑتے۔‘‘ ’’یہی ان کی قوت ہے۔‘‘کماندار نے کہا۔ ’’ورنہ ایک آدمی دس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ کپڑوں میں ملبوس آدمی زرہ پوش کر قتل نہیں کر سکتا۔ مسلمانوں نے یہ کر کے دکھا دیا ہے۔‘‘ ’’میں اس قوت کو کچل ڈالوں گا ۔‘‘اردشیر نے بلند آواز سے کہا۔’’اندرزغر ابھی ان مسلمانوں کو نہ چھیڑنا جو ہماری رعایا ہیں۔ انہیں دھوکا دو کہ ہم انہیں چاہتے ہیں۔ پہلے ان کا صفایا کرو جنہوں نے ہماری شہنشاہیت میں قدم رکھنے کی جرات کی ہے۔ اس کے بعد ہم ان کا صفایا کریں گے جو ہمارے سائے میں سانپوں کی طرح پل رہے ہیں۔‘‘ اسی روز اردشیر نے اپنے وزیر اندرزغر اور اس کے ماتحت سالاروں کو بلایا اور انہیں کہا کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہم مدینہ پر حملہ کرتے اور اسلام کا وہیں خاتمہ کر دیتے۔ لیکن حملہ انہوں نے کر دیا ہے اور ہماری فوج ان کے آگے بھاگی بھاگی پھر رہی ہے۔’’صرف دو معرکوں میں ہمارے چار سالار مارے گئے ہیں۔‘‘ اردشیر نے کہا۔’’ان چاروں کو میں اپنی جنگی طاقت کے ستون سمجھتا تھا۔لیکن ان کے مر جانے سے کسریٰ کی طاقت نہیں مر گئی۔ سب کان کھول کر سن لو جو سالار یا نائب سالار شکست کھا کر واپس آئے گا اسے میں جلاد کے حوالے کر دوں گا۔ اس کیلئے یہی بہتر ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو خود ہی ختم کر لے یا کسی اور طرف نکل جائے۔فارس کی سرحد میں قدم نہ رکھے۔‘‘


’’اندرزغر تم مدائن اور اردگرد سے جس قدر فوج لے جانا چاہو، لے جاؤ۔سالار بہمن کومیں نے پیغام بھیج دیا ہے کہ وہ اپنی تمام تر فوج کے ساتھ فرات کے کنارے دلجہ کے مقام پر پہنچ جائے۔ تم اس سے جلدی دلجہ پہنچ جاؤ گے وہاں خیمہ زن ہو کر بہمن کا انتظار کرنا جونہی وہ آجائے دنوں مل کر مسلمانوں کو گھیرے میں لینے کی کوشش کرنا۔ ان کا کوئی آدمی اور کوئی ایک جانور بھی زندہ نہ رہے۔ ان کی تعداد تمہارے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ۔ میں کوئی مسلمان قیدی نہیں دیکھنا چاہتا۔ میں ان کی لاشیں دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں دیکھنے آؤں گا کہ ان کے گھوڑوں اور اونٹوں کے مردار ان کی لاشوں کے درمیان پڑے ہیں۔ تمہیں زرتشت کے نام پر حلف اٹھانا ہوگا کہ فتح حاصل کرو گے یا موت۔‘‘ ’’اندرزغر دونوں فوجوں کاسپہ سالار ہوگا۔ اندرزغر تمہارے ذہن میں کوئی شک یا وسوسہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بھی سوچ لو کہ مسلمان اور آگے بڑھ آئے اور ہمیں ایک اور شکست ہوئی تو. رومی بھی ہم پر چڑھ دوڑیں گے۔‘‘ ’’شہنشاہِ فارس اب شکست کی آواز نہیں سنیں گے۔‘‘سالار اندرزغرنے کہا۔’’مجھے اجازت دیں کہ میں عیسائیوں کو اپنے ساتھ لے لوں اس سے میری فوج میں بے شمار اضافہ ہو سکتا ہے۔‘‘ ’’تم جو بہتر سمجھتے ہو وہ کرو۔‘‘اردشیر نے کہا۔ ’’لیکن میں وقت ضائع کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ اگر عیسائی تمہارے ساتھ وفا کرتے ہیں تو انہیں ساتھ لے لو۔‘‘یہ عراق کا علاقہ تھا ۔ جہاں عیسائیوں کا ایک بہت بڑا قبیلہ بکر بن وائل آباد تھا۔ یہ لوگ عرب کے رہنے والے تھے۔ اسلام پھیلتا چلا گیا اور یہ عیسائی جو اسلام قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے عراق کے اس علاقے میں اکھٹے ہوتے رہے اور یہیں آباد ہو گئے۔ ان میں وہ بھی تھے جو کسی وقت ایرانیوں کے خلاف لڑے اور جنگی قیدی ہو گئے تھے۔ ایرانیوں نے انہیں اس علاقے میں آباد ہونے کیلئے آزاد کر دیا تھا۔ ان میں کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا ۔ انہیں مثنیٰ بن حارثہ جیسا قائد مل گیا تھا جس نے انہیں پکا مسلمان بنادیا تھا۔ مسلمانوں پر تو ایرانی بے پناہ ظلم و تشدد کرتے تھے لیکن عیسائیوں کے ساتھ ان کا رویہ کچھ بہتر تھا۔ مؤرخوں نے لکھا ہے زرتشتی سالار اندرزغر ہرمز کی طرح ظالم نہیں تھا۔ مسلمانوں پر اگر وہ ظلم نہیں کرتا تھا تو انہیں اچھا بھی نہیں سمجھتا تھا ۔عیسائیوں کے سا تھ اس کا سلوک بہت اچھا تھا، اسے اب عیسائیوں کی مدد کی ضرورت محسوس ہوئی۔اس نے ان کے قبیلے بکر بن وائل کے بڑوں کو بلایا۔وہ اطلاع ملتے ہی دوڑے آئے۔’’اگر تم میں سے کسی کو میرے خلاف شکایت ہے تو مجھے بتاؤ۔‘‘ اندرزغر نے کہا۔ ’’میں اس کا ازالہ کروں گا۔‘‘ ’’کیایہ بہتر نہیں ہوگا کہ سالار ہمیں فوراًبتا دے کہ ہمیں کیوں بلایا گیا ہے۔‘‘ایک بوڑھے نے کہا۔’’ہم آپ کی رعایا ہیں۔ ہمیں شکایت ہوئی بھی تو نہیں کریں گے۔‘‘ ’’ہمیں کوئی شکایت نہیں۔‘‘ایک اور نے کہا۔’’آپ نے جو کہنا ہے وہ کہیں۔‘‘ ’’مسلمان­ بڑھے چلے آ رہے ہیں۔‘‘ اندرزغر نے کہا۔ ’’شہنشاہَِ فارس کی فوج انہیں فرات میں ڈبو دے گی۔ لیکن ہمیں تمہاری ضرورت ہے۔ ہمیں تمہارے جوان بیٹوں کی ضرورت ہے۔‘‘


’’اگر شہنشاہِ فارس کی فوج اسلامی فوج کو فرات میں ڈبو دے گی تو آپ کو ہمارے بیٹوں کی کیا ضرورت پیش آ گئی ہے؟‘‘ وفد کے بڑوں میں سے ایک نے پوچھا۔’’ہم سن چکے ہیں کہ فارس کی فوج کے چار سالار مارے گئے ہیں۔ آپ ہم سے پوچھتے کیوں ہیں؟ ہم آپ کی رعایا ہیں، ہمیں حکم دیں۔ ہم سرکشی کی جرات نہیں کر سکتے۔‘‘ ’’میں کسی کو اپنے حکم کا پابند کرکے میدانِ جنگ میں نہیں لے جانا چاہتا۔‘‘ اندرزغر نے کہا۔’’ میں تمہیں تمہارے مذہب کے نام پر فوج میں شامل کرنا چاہتا ہوں ۔ ہمیں زمین کے کسی خطے کیلئے نہیں اپنے مذہب اور اپنے عقیدوں کے تحفظ کیلئے لڑنا ہے۔ مسلمان صرف اس لئے فتح پر فتح حاصل کرتے چلے آ رہے ہیں کیونکہ وہ اپنے مذہب کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ وہ جس علاقے کو فتح کرتے ہیں وہاں کے لوگوں کو اسلام قبول کرنے کیلئے کہتے ہیں ۔ جو لوگ اسلام قبول نہیں کرتے ان سے مسلمان جذیہ وصول کرتے ہیں۔‘‘ ’’کیا یہ غلط ہے کہ تم میں وہ بھی ہیں جو اس لئے اپنے گھروں سے بھاگے تھے کہ وہ اسلام قبول نہیں کرنا چاہتے تھے؟ کیا تم پسند کرو گے کہ مسلمان آجائیں اور تمہاری عبادت گاہوں کے دروازے بند ہو جائیں؟ کیا تم برداشت کر لو گے کہ مسلمان تمہاری بیٹیوں کو لونڈیاں بنا کر اپنے ساتھ لے جائیں ؟ ذرا غور کرو تو سمجھو گے کہ ہمیں تمہاری نہیں بلکہ تمہیں ہماری مدد کی ضرورت ہے ۔ہم تمہیں ایک فوج دے رہے ہیں ۔ اسے اور زیادہ طاقتور بناؤ اور اپنے مذہب کو ایک بے بنیاد مذہب سے بچاؤ۔‘‘اندرزغرنے عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف ایسا مشتعل کیا کہ وہ اسی وقت واپس گئے اور مؤرخوں کی تحریر کے مطابق اپنے قبیلے کی ہر بستی میں جاکر اعلان کرنے لگے کہ مسلمانوں کا بہت بڑا لشکر قتل و غارت اور لوٹ مار کرتا چلا آ رہا ہے ۔وہ صرف اسی کوبخشتے ہیں جو ان کا مذہب قبول کر لیتا ہے۔ وہ جوان اور کم سن لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے جائیں گے۔’’اپنی لڑکیوں کو چھپا لو۔‘‘ ’’مال ہ دولت زمین میں دبا دو۔‘‘ ’’عورتیں بچوں کو لے کر جنگلوں میں چلی جائیں گی..‘ ’’جوان آدمی ہتھیار گھوڑے اور اونٹ لے کر ہمارے ساتھ آ جائیں۔‘‘

’’شہنشاہِ فارس کی فوج ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘ ’’یسوع مسیح کی قسم! ہم اپنی عزت پر کٹ مریں گے۔‘‘ ’’اپنا مذہب نہیں چھوڑیں گے۔‘‘ایک شور تھا، للکار تھی جو آندھی کی طرح دشت و جبل کو جن و انس کو لپیٹ میں لیتی آ رہی تھی۔ کوئی بھی کسی سے نہیں پوچھتا تھا کہ یہ سب کیا ہے؟ کس نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کا لشکر آ رہا ہے؟ کدھر سے آ رہا ہے؟ جوش و خروش تھا۔ عیسائی مائیں اپنے جوان بیٹوں کو رخصت کر رہی تھیں۔ بیویاں خاوندوں کو اور بہنیں بھائیوں کو الوداع کہہ رہی تھیں۔ ایک فوج تیار ہوتی جا رہی تھی جس کی نفری تیزی سے بڑھتی جا رہی تھی۔ کسریٰ کی فوج کے کماندار وغیرہ آ گئے تھے۔ وہ ان لوگوں کو ایک جگہ اکھٹا کرتے جا رہے تھے جو کسریٰ کی فوج میں شامل ہو کر مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلئے آ رہے تھے۔


ایک بستی میں لڑنے والے عیسائی جمع ہو رہے تھے ۔ سورج کبھی کا غروب ہو چکا تھا ۔ بستی میں مشعلیں گھوم پھر رہی تھیں اور شور تھا۔ بستی دن کی طرح بے دار اور سر گرم تھی۔ دو آدمی جو اس بستی والوں کیلئے اجنبی تھے بستی میں داخل ہوئے اور لوگوں میں شامل ہو گئے۔’’ہم ایک للکار سن کر آئے ہیں ۔‘‘ان میں سے ایک نے کہا۔’’ہم روزگار کی تلاش میں بڑی دور سے آئے ہیں اور شاید مدائن تک چلے جائیں۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ ’’تم ہو کون؟‘‘کسی نے ان سے پوچھا۔’’مذہب کیا ہے تمہارا؟‘‘ دونوں نے اپنی اپنی شہادت کی انگلیاں باری باری اپنے دونوں کندھوں سے لگائیں اور اپنے سینے پر انگلیاں اوپر نیچے کرکے صلیب کا نشان بنایا اور دونوں نے بیک زبان کہا کہ وہ عیسائی ہیں۔’’پھر تم مدائن جا کر کیا کرو گے؟ ‘‘انہیں ایک بوڑھے نے کہا ۔’’تم تنومند ہو ۔تمہارے جسموں میں طاقت ہے ۔ کیا تم اپنے آپ کو کنواری مریم کی آبرو پر قربان ہونے کے قابل نہیں سمجھتے؟ کیا تمہارے لیے تمہارا پیٹ مقدس ہے؟‘‘ ’’نہیں!‘‘ ان میں سے ایک نے کہا۔’’ہمیں کچھ بتاؤ اور تم میں جو سب سے زیادہ سیانا ہے ہمیں اس سے ملاؤ۔ ہم کچھ بتانا چاہتے ہیں۔‘‘وہاں فارس کی فوج کا ایک پرانا کماندار موجود تھا۔ ان دونوں کو اس کے پاس لے گئے ۔’’سنا ہے تم کچھ بتانا چاہتے ہو؟‘‘ کماندار نے کہا۔’’ہاں۔‘‘ایک نے کہا۔’’ہم اپنا راستہ چھوڑ کر ادھر آئے ہیں ۔سنا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف ایک فوج تیار ہو رہی ہے۔‘‘ ’’ہاں ہو رہی ہے۔‘‘کماندار نے کہا۔’’ کیا تم اس فوج میں شامل ہونے آئے ہو؟‘‘ ’’عیسائی ہو کر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس فوج میں شامل نہیں ہوں گے۔‘‘ان میں سے ایک نے کہا۔’’ہم کاظمہ سے تھوڑی دور کی ایک بستی کے رہنے والے عرب ہیں ۔ہم مسلمانوں کے ڈر سے بھاگ کر ادھر آئے ہیں۔ اب آگے نہیں جائیں گے۔ تمہارے ساتھ رہیں گے۔ ہم بتانا یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ لیکن سامنے وہ بہت تھوڑی تعداد کو لاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمہاری فوج ان سے شکست کھا جاتی ہے۔‘‘ ’’اسے زمین پر لکیریں ڈال کر سمجھاؤ۔‘‘اس کے دوسرے ساتھی نے اسے کہا ۔پھر ایرانی کماندار سے کہا۔’’ہمیں معمولی دماغ کے آدمی نہ سمجھنا۔ ہم تمہیں اچھی طرح سمجھا دیں گے کہ مسلمانوں کے لڑنے کا طریقہ کیا ہے؟اور وہ اس وقت کہاں ہیں؟اور تم لوگ انہیں کہاں لا کر لڑاؤ تو انہیں شکست دے سکتے ہو۔ہم جو کچھ بتائیں یہ اپنے سالار کو بتا دینا۔‘‘ ایک مشعل لاکر اس کا ڈنڈا زمین میں گاڑھ دیا گیا۔ یہ دونوں آدمی زمین پر بیٹھ کر انگلیوں سے لکیریں ڈالنے لگے ۔ انہوں نے جنگی اصطلاحوں میں ایسا نقشہ پیش کیاکہ کماندار بہت متاثر ہوا۔’’اگر ہمیں پتا چل جائے کہ مدائن کی فوج کس طرف سے آ رہی ہے تو ہم تمہیں بہتر مشورہ دے سکتے ہیں۔‘‘ان میں سے ایک نے کہا۔’’اور کچھ خطروں سے بھی خبردار کر سکتے ہیں۔‘‘ ’’دو فوجیں مسلمانوں کو کچلنے کیلئے آ رہی ہیں ۔‘‘کماندار نے کہا۔’’ مسلمان ان کے آگے نہیں ٹھہر سکیں گے۔‘‘ ’’بشرطیکہ دونوں فوجیں مختلف سمتوں سے آئیں۔‘‘ایک اجنبی عیسائی نے کہا۔


’’وہ مختلف سمتوں سے آ رہی ہیں۔‘‘ کماندار نے کہا۔’’ایک فوج مدائن سے ہمارے بڑے ہی دلیر اور قابل سالار اندرزغر کی زیرِ کمان آ رہی ہے اور دوسری فوج ایسے ہی ایک نامور سالار بہمن جازویہ لا رہا ہے۔ دونوں دلجہ کے مقام پر اکھٹی ہوں گی۔ ان کے ساتھ بکر بن وائل کا پورا قبیلہ ہو گا ۔ چند چھوٹے چھوٹے قبیلوں نے بھی اپنے آدمی دیئے ہیں۔‘‘ ’’تو پھر تمہارے سالاروں کو جنگی چالیں چلنے کی ضرورت نہیں۔‘‘دوسرے نے کہا ۔’’تمہاری فوج تو سیلاب کی مانند ہے۔ مسلمان تنکوں کی طرح بہہ جائیں گے۔ کیا تم ہم دونوں کو اپنے ساتھ رکھ سکتے ہو؟ ہم نے تم میں خاص قسم کی ذہانت دیکھی ہے ۔ تم سالار نہیں تو نائب سالار کے عہدے کے لائق ضرور ہو۔‘‘ ’’تم میرے ساتھ رہ سکتے ہو۔‘‘ کماندار نے کہا۔’’ہم اپنے گھوڑے لے آئیں؟‘‘ دونوں میں سے ایک نے کہا۔’’ہم تمہیں صبح یہیں ملیں گے۔‘‘ ’’صبح کوچ ہو رہا ہے۔‘‘ کماندار نے کہا۔’’ان تمام لوگوں کو جو لڑنے کیلئے جا رہے ہیں ایک جگہ جمع کیاجا رہا ہے۔ تم ان کے ساتھ آ جانا۔ میں تمہیں مل جاؤں گا۔‘‘دونوں بستی سے نکل گئے۔ انہوں نے اپنے گھوڑے بستی سے کچھ دور جا کر ایک درخت کے ساتھ باندھ دیئے اور بستی میں پیدل گئے تھے۔ بستی سے نکلتے ہی وہ دوڑپڑے اور اپنے گھوڑوں پر جا سوار ہوئے ۔’’کیا ہم صبح تک پہنچ سکیں گے بن آصف!‘‘ ایک نے دوسرے سے پوچھا۔’’خدا کی قسم! ہمیں پہنچنا پڑے گا خواہ اڑکر پہنچیں۔‘‘بن آصف نے کہا ۔’’یہ خبر ابنِ ولید تک بر وقت نہ پہنچی تو ہماری شکست لازمی ہے۔ گھوڑے تھکے ہوئے نہیں۔ ﷲ کا نام لو اور ایڑھ لگا دو۔‘‘دونوں نے ایڑھ لگائی اور گھوڑے دوڑ پڑے۔’’اشعر !‘‘بن آصف نے بلند آواز سے اپنے ساتھی سے کہا۔’’یہ تو طوفان ہے ۔ اب آ تش پرستوں کو شکست دینا آسان نہیں ہو گا۔صرف بکر بن وائل کی تعداد دیکھ لو، کئی ہزار ہو گی۔‘‘ ’’میں نے اپنے سالار ابنِ ولید کو پریشانی کی حالت میں دیکھا تھا۔‘‘ اشعر نے کہا۔’’کیا تم اس کی پریشانی کو نہیں سمجھے ہاشعر؟‘‘بن آصف نے کہا۔’’ہم اتنے طاقتور دشمن کے پیٹ میں آ گئے ہیں۔‘‘


’’ﷲ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ اشعر نے کہا۔’’آتش پرست اس زمین کیلئے لڑ رہے ہیں جو وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ہے اور ہم ﷲ کی راہ میں لڑ رہے ہیں جس کی یہ زمین ہے۔‘‘یہ دونوں گھوڑ سوار خالدؓ کے اس جاسوسی نظام کے بڑے ذہین آدمی تھے جو خالدؓ نے فارس کی سرحد کے اندر آ کر قائم کیا تھا۔ انہیں احساس تھا کہ وہ مدینہ سے بہت دور اجنبی زمین پر آ گئے ہیں۔ جہاں ﷲ کے سوا ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ خالد ؓنے دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کیلئے ہر طرف اپنے ٓنکھیں بچھا رکھی تھیں۔

خالدؓ فجر کی نماز سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ان کے خیمے کے قریب دو گھوڑے آ رکے ۔سوار کود کر اترے۔ خالدؓ نماز با جماعت پڑھ کر آ رہے تھے ان سواروں کو دیکھ کر ان کے قریب جا رکے ۔ گھوڑوں کا پسینہ اس طرح پھوٹ رہا تھا جیسے دریا میں سے گزر کر آئے ہوں۔ ان کی سانسیں پھونکنی کی طرح چل رہی تھیں۔ سواروں کی حالت گھوڑوں سے بھی بری تھی۔’’اشعر!‘‘خالد ؓنے کہا۔’’بن آصف ،کیا خبر لائے ہو؟‘‘ ’’اندر چلو، ذرا دم لے لو۔‘‘ ’’دم لینے کا وقت نہیں سالار!‘‘بن آصف نے خالدؓ کے پیچھے ان کے خیمے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔’’آتش پرستوں کا سیلاب آ رہا ہے۔ ہم نے یہ خبر عیسائیوں کی ایک بستی سے لی ہے ۔ بکر بن وائل کی الگ فوج تیار ہو گئی ہے، یہ مدائن کی فوج کے ساتھ اندرزغر نام کے ایک سالار کی زیرِ کمان آ رہی ہے۔ دوسری فوج بہمن جازویہ کی زیرِ کمان دوسری طرف سے آ رہی ہے۔‘‘ ’’کیا یہ فوجیں ہم پر مختلف سمتوں سے حملہ کریں گی؟‘‘ خالدؓ نے پوچھا۔ ’’نہیں۔‘‘اشعر نے جواب دیا۔’’دونوں فوجیں دجلہ میں اکھٹا ہوں گی۔‘‘ ’’اور تم کہتے ہو کہ سیلاب کی طرح آگے بڑھیں گی ۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’کماندار نے یہی بتایا ہے۔‘‘بن آصف بولا۔ ان دونوں کی رپورٹ ابھی مکمل ہوئی تھی کہ ایک شتر سوار خیمے کے باہر آ رکا اور اونٹ سے اتر کر بغیر اطلاع خیمے میں آ گیا ۔ اس نے خالد ؓکو بتایا کہ فلاں سمت سے ایرانیوں کی ایک فوج بہمن جاذویہ کی قیادت میں آ رہی ہے۔ یہ بھی ایک جاسوس تھا جو کسی بھیس میں اس طرف نکل گیا تھا۔ جِدھر سے بہمن کی فوج آ رہی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اندرزغر اور بہمن جاذویہ کو اس طرح کوچ کرنا تھا کہ دونوں کی فوجیں بیک وقت یا تھوڑے سے وقفے کے دلجہ پہنچتیں۔ مگر ہوا یوں کے اندرزغر پہلے روانہ ہوگیا۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ کسریٰ اردشیر کے قریب تھا ۔ اس لئے اردشیر اس کے سر پر سوار تھا۔ بہمن دور تھا۔ اسے کوچ کا حکم قاصد کی زبانی پہنچا تھا وہ دو دن بعد روانہ ہوا۔کسی بھی مؤرخ نے اس فوج کی تعداد نہیں لکھی جو اندرزغر کے ساتھ تھی۔ بہمن کی فوج کی تعدادبھی تاریخ میں نہیں ملتی۔ صرف یہ ایک بڑا واضح اشارہ ملتا ہے کہ آتش پرستوں کی فوج جو مسلمانوں کے خلاف آ رہی تھی وہ واقعی سیلاب کی مانند تھی ۔اردشیر نے کہا تھا کہ وہ ایک اور شکست کا خطرہ نہیں مول لے گا۔ چنانچہ اس نے اتنی زیادہ فوج بھیجی تھی جتنی اکھٹی ہو سکتی تھی۔


اندرزغر کی فوج کا تو شمار ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ اپنی باقاعدہ فوج کے علاوہ اس نے بکر بن وائل کے معلوم نہیں کتنے ہزار عیسائی اپنی فوج میں شامل کر لیے تھے۔ ان میں پیادہ بھی تھے اور سوار بھی۔ اس فوج میں مزید اضافہ کوچ کے دوران اس طرح ہوا کہ جنگِ دریا میں آتش پرستوں کے جو فوجی مسلمانوں سے شکست کھا کر بھاگے تھے وہ ابھی تک قدم گھسیٹتے مدائن کو جا رہے تھے ۔ وہ صرف تھکن کے مارے ہوئے نہیں تھے ان پر مسلمانوں کی دہشت بھی طاری تھی۔ پسپائی کے وقت مسلمانوں کے ہاتھوں ان کی فوج کا قتلِ عام ہوا تھا۔ انہوں نے کشتیوں میں سوار ہوکر بھاگنے کی کوشش کی تھی۔ اس لیے وہ خالدؓ کے مجاہدین کیلئے بڑا آسان شکار ہوئے تھے۔ اس بھگدڑ میں جو کشتیوں میں سوار ہو گئے تھے ان پر مجاہدین نے تیروں کا مینہ برسا دیا تھا ۔ ایسی کشتیوں میں جو سپاہی زندہ رہے تھے، ان کی ذہنی حالت بہت بری تھی۔ ان کی کشتیوں میں ان کے ساتھی جسموں میں تیر لیے تڑپ تڑپ کر مر ہے تھے۔ اس طرح زندہ سپاہیوں نے لاشوں اور تڑپ تڑپ کر مرتے ساتھیوں کے ساتھ سفر کیا تھا،کشتیاں خون سے بھر گئی تھیں۔ زندہ سپاہیوں کو کشتیاں کھینے کی بھی ہوش نہیں تھی، کشتیاں دریا کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ خود ہی بہتی کہیں سے کہیں جا پہنچی تھیں،اور دور دور کنارے سے لگی تھیں اور زرتشت کے یہ پجاری بہت بری جسمانی اور ذہنی حالت میں مدائن کی طرف چل پڑے تھے۔ وہ دو دو چار چار اور اس سے بھی زیادہ کی ٹولیوں میں جا رہے تھے۔ پرانی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ ان میں کئی ایک نے جب اندرزغر کی فوج کو آتے دیکھا تو بھاگ اٹھے۔وہ تیز دوڑ نہیں سکتے تھے۔ انہیں پکڑ لیا گیا اور فوج میں شامل کر لیا گیا۔ کچھ تعداد ایسے سپاہیوں کی ملی جو دماغی توازن کھو بیٹھے تھے ان میں کچھ ایسے تھے جو بولتے ہی نہیں تھے ۔ ان سے بات کرتے تھے تو وہ خالی خالی نگاہوں اور بے تاثر چہروں سے ہر کسی کو دیکھتے تھے ۔بعض بولنے کے بجائے چیخیں مارتے اور دوڑ پڑتے تھے۔’’پیشتر اس کے کہ یہ ساری فوج کیلئے خوف و ہراس کا سبب بن جائیں ۔انہیں فوج سے دور لے جا کر ختم کر دو۔‘‘ان کے سالار اندرزغر نے حکم دیا۔ اس کے حکم کی تعمیل کی گئی۔ مدائن کی یہ فوج تازہ دم تھی۔ اس نے ابھی مسلمانوں کے ہاتھ نہیں دیکھے تھے لیکن دریا کے معرکے سے بچے ہوئے سپاہی جب راستے میں اس تازہ دم فوج میں شامل ہوئے تو ہلکے سے خوف کی ایک لہر ساری فوج میں پھیل گئی ۔ شکست خوردہ سپاہیوں نے اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے اور یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ وہ بے جگری سے لڑے ہیں ،مسلمانوں کے متعلق اپنی فوج کو ایسی باتیں سنائیں جیسے مسلمانوں میں کوئی مافوق الفطرت طاقت ہو اور وہ جن بھوت ہوں۔خالدؓ کی جنگی قیادت کی یہ خوبی تھی کہ وہ دشمن کو جسمانی شکست ایسی دیتے تھے کہ دشمن پر نفسیاتی اثر بھی پڑتا تھا جو ایک عرصے تک دشمن کے سپاہیوں پر باقی رہتا اور اسی دشمن کے ساتھ جب ایک اور معرکہ لڑاجاتا تو وہ نفسیاتی اثر خالد ؓکو بہت فائدہ دیتا تھا۔یہ اثر پیدا کرنے کیلئے خالدؓ دشمن کو پسپا کرنے پر ہی مطمئن نہیں ہو جاتے تھے بلکہ دشمن کا تعاقب کرتے اور اسے زیادہ سے زیادہ جانی نقصان پہنچاتے تھے-


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں