شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ حضرت خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 32





⚔ شمشیرِ بے نیام ⚔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

( قسط نمبر-32)



خالدؓ اس وقت یمامہ میں تھے۔ان کی دونوں نئی بیویاں لیلیٰ ام تمیم اوربنتِ مجاعہ ان کے ساتھ تھیں۔امیر المومنینؓ کا پیغام ملتے ہی خالدؓ یمامہ سے روانہ ہوئے اور مدینہ پہنچ گئے ۔’’کیا مثنیٰ بن حارثہ کا نام تم نے کبھی سنا ہے؟‘‘خلیفہؓ نے خالدؓ سے پوچھا۔’’سنا ہے۔‘‘خالدؓ نے جواب دیا۔’’اور یہ بھی سنا ہے کہ فارسیوں کے خلاف اس نے ذاتی قسم کی جنگ شروع کر رکھی ہے ،لیکن مجھے یہ معلوم نہیں کہ اس کی ذاتی جنگ ذاتی مفاد کیلئے ہے یا وہ اسلام کی خاطر لڑ رہا ہے۔‘‘ ’’وہ یہاں آیا تھا۔‘‘امیر المومنین نے کہا۔’’جہاد جو اس نے شروع کر رکھا ہے اس میں اس کا کوئی ذاتی مفاد نہیں۔ میں نے اس لئے تمہیں بلایا ہے کہ تم سے مشورہ کر لوں کہ مثنیٰ ہم سے جو مدد مانگتا ہے وہ اسے دی جائے یا اس وقت کا انتظار کیا جائے جب ہم فارسیوں کی اتنی بڑی قوت کے خلاف لڑنے کے قابل ہو جائیں گے۔


وہ کس قسم کی جنگ لڑ رہا ہے؟‘‘ خالدؓ نے پوچھا۔ امیر المومنینؓ نے خالدؓ کو پوری تفصیل سے بتایا کہ مثنیٰ شب خون کی نوعیت کی جنگ لڑ رہا ہے اور اس وقت تک وہ کتنی کامیابیاں حاصل کر چکا ہے۔’’اس کی سب سے بڑی کامیابی تو یہ ہے خالد!‘‘ خلیفہ ؓ نے کہا۔’’کہ اس نے زرتشتوں کے محکوم مسلمانوں کو متحد رکھا ہوا ہے اور ان میں ایسا جذبہ پیدا کیا ہے کہ انہوں نے زرتشتوں کے ظلم و ستم میں اپنے سینوں میں اسلام کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ابلہ اور عراق کے دوسرے علاقوں میں جہاں مسلمان آباد ہیں،وہ فارسیوں کے غیر انسانی تشدد کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ان حالات میں اپنے عقیدوں کو سینے سے لگائے رکھنا بے معنی سا بن جاتا ہے ،وہ مسلمان صرف اتنا کہہ دیں کہ مدینہ اور اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں تو ان کے سارے مصائب ختم ہو جائیں گے۔یہ مثنیٰ اور اس کے چند ایک ساتھیوں کا کمال ہے کہ انہوں نے ان حالات میں بھی وہاں کے مسلمانوں کو اسلام سے منحرف ہونے نہیں دیا۔اس کے علاوہ انہیں اپنے عقیدے کا اتنا پکا بنارکھا ہے کہ وہ زرتشتوں کے خلاف زمین دوز کارروائیوں میں مصروف رہتے ہیں۔‘‘ ’’ امیر المومنین!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’مثنیٰ نے کچھ کیا ہے یا نہیں کیا ،مسلمان کی حیثیت سے ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ جو مسلمان غیر مسلموں کے جور و ستم کا نشانہ بنے ہوئے ہوں ان کی مدد کو پہنچیں۔‘‘ ’’کیا تم یہ مشورہ دیتے ہو کہ ہمیں ایرانیوں سے ٹکر لے لینی چاہیے؟‘‘خلیفہؓ نے پوچھا۔’’ہاں امیر المومنین!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ٹکر کیوں نہ لی جائے؟……یہاں تو صورتِ حال کچھ اور ہے۔جیسا کہ آپ نے بتایا ہے کہ مثنیٰ نے وہاں کچھ کامیابیاں حاصل کر لی ہیں اور اس نے ہمارے حملے کیلئے راہ ہموار کر دی ہے۔


شب خون اور چھاپے مارنے والے اتنا ہی کر سکتے ہیں جتنا مثنیٰ نے کیا ہے۔ وہ کسی علاقے پر قبضہ نہیں کر سکتے۔ قبضہ کرنا منظم لشکر کا کام ہے۔یہ کام ہمیں ہر قیمت پر کرنا چاہیے۔اگر ہم نے مثنیٰ کی کامیابیوں کو آگے نہ بڑھایا تو اس کے دو نقصان ہوں گے۔ ایک یہ کہ یہ کامیابیں ضائع ہو جائیں گی،اور دوسرے یہ کہ زرتشت مثنیٰ اور تمام مسلمانوں سے بہت برا انتقام لیں گے۔اس کے علاوہ فارسی دلیر ہو جائیں گے۔‘‘ ’’جیسا کہ مثنیٰ نے آپ کو بتایا ہے کہ اس نے ایرانیوں کو اس قدر نقصان پہنچایا ہے کہ ان کے حوصلے مجروح ہو گئے ہیں ،اگر انہیں دم لینے کا موقع دے دیا گیا تو وہ اپنے محکوم مسلمانوں کو قتل کریں گے اور اس خطرے کو ختم کرکے وہ اس سرحدی علاقے کو پہلے سے زیادہ مضبوط کر لیں گے۔اپنے علاقوں کو محفوظ کرنے کیلئے وہ اپنی سرحد کے باہر کے علاقوں پر بھی قابض ہو سکتے ہیں، اس خطرے سے محفوظ رہنے کی یہی ایک صورت ہے کہ ہم مثنیٰ کی مدد کو پہنچیں اور پیشتر اس کے کہ زرتشت ہماری طرف بڑھیں ہم انہیں ان کے اپنے علاقے سے بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیں۔‘‘


خلیفہ ابو بکرؓ نے خالدؓ کو یہ ہدایت دے کر رخصت کر دیا کہ وہ اپنے لشکر کو ساتھ لے کر عراق کی طرف پیش قدمی کریں۔’’خالد! ‘‘خلیفہ ابو بکرؓ نے کہا۔’’تمہارے لشکر میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو بڑے لمبے عرصے سے گھروں سے دور لڑ رہے ہیں۔انہیں فارسیوں جیسے طاقتور دشمن کے خلاف لڑانا مجھے اچھا نہیں لگتا۔ میں کسی کو مجبور نہیں کروں گا۔ بہتر صورت یہ ہو گی کہ تم رضا کاروں کی ایک فوج بناؤ ۔اس میں ایسے آدمیوں کو رکھو جو مرتدین کے خلاف لڑ چکے ہیں تمہارے ساتھ کچھ ایسے آدمی بھی ہوں گے جو مرتدین کے ساتھ تھے ۔ شکست کھا کر انہوں نے اپنی خیریت اسی میں سمجھی کہ وہ اسلامی لشکر میں شامل ہو جائیں، ایسے کسی آدمی کو اپنے لشکر میں نہ رکھنا۔ ہم بڑے طاقتور دشمن کو للکارنے جا رہے ہیں۔میں اس لئے کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔‘‘ ’’امیر المومنین!‘‘خالدؓ نے پوچھا۔ ’’کیا آپ مجھے یہ اجازت دے رہے ہیں کہ ان لوگوں کو اپنے لشکر سے نکال دوں؟‘‘ ’’نکال دینا اور بات ہے ولید کے بیٹے!‘‘خلیفہ ابو بکرؓ نے کہا۔’’تم اپنے لشکر سے یہ کہنا کہ جو آدمی اپنے گھر کو جانا چاہتا ہے اسے جانے کی اجازت ہے۔پھر دیکھنا تمہارے ساتھ کون رہتا ہے ،اگر تمہارا لشکر بہت کم رہ گیا تو خلافت اس کی کمی کو کسی نہ کسی طرح پورا کرے گی……جاؤ ولید کے بیٹے! ﷲ تمہارے ساتھ ہے۔‘‘خلیفہ ابو بکرؓ عزم اور ایمان کے پکے تھے،انہوں نے عراق پر حملے کا جو فیصلہ کیا تھا اس پر وہ ہر حال میں ہر قیمت پر پورا عمل کرنا چاہتے تھے۔خالدؓ تو چاہتے ہی یہی تھے کہ انہیں لڑنے کا موقع ملتا رہے۔انہوں نے خلیفہ کے ارادے کو اور زیادہ پختہ کردیا۔عراق کے اس علاقے میں جہاں دجلہ اور فرات ملتے ہیں ،مسلمانوں کی بستیاں تھیں۔یہ مسلمان مجبوری اور مظلومیت کی زندگی گزار رہے تھے ۔اب وہاں کی صورت حال یہ ہو گئی کہ وہ پہلے کی طرح مظلوم اور مقہور رہے جیسے وہ چلتی پھرتی لاشیں ہوں۔لیکن ان کے گھروں میں ایسی سرگرمی شروع ہو گئی کہ وہ چھپ چھپ کر برچھیاں اور کمان بنانے لگے،انہیں مثنیٰ بن حارثہ کی طرف سے جو پیغام ملتا تھا وہ سرگوشیوں میں گھر گھر پہنچ جاتاتھا۔مثنیٰ کے چھاپہ ماروں نے عراق کی سرحد سے دور ایک دشوار گزار علاقے میں اپنا اڈہ بنا رکھا تھا۔برچھیاں اور تیر و کمان جو گھروں میں چوری چھپے تیار ہوتے تھے ،وہ رات کی تاریکی میں اس اڈے تک پہنچ جاتے تھے۔بستیوں سے جوان آدمی بھی غائب ہونے لگے ۔ایرانیوں کی سرحدی چوکیوں پر اور ان کے فوجی قافلوں پر مسلمانوں کے شب خون پہلے سے زیادہ ہو گئے۔یہ مسلمان در پردہ ایک فوج کی صورت میں منظم ہو رہے تھے اور اس فوج کی نفری بڑھتی جا رہی تھی۔


یمامہ میں خالدؓ کی فوج میں صورت ِ حال اس کے الٹ ہو گئی۔خالدؓنے جب اپنی فوج میں جاکر یہ اعلان کیا کہ جو کوئی اپنے گھر کو واپس جانا چاہتا ہے وہ جا سکتا ہے، تو اس کے دس ہزار نفری کے لشکر میں صرف دو ہزار آدمی رہ گئے۔


آٹھ ہزار آدمی مدینہ کو روانہ ہو گئے ۔خالدؓ نے خلیفہ ؓکے نام پیغام لکھا جس میں انہوں نے لکھا کہ ان کے پاس صرف دو ہزار کی نفری رہ گئی ہے ۔خالدؓ نے زور دے کر لکھا کہ انہیں فوری طور پر کمک کی ضرورت ہے۔امیر المومنین ابو بکرؓ اپنی مجلس میں بیٹھے تھے،خالد ؓکے قاصد نے انہیں خالدؓ کا تحریری پیغام دیا۔خلیفہ ؓنے یہ خط بلند آواز سے پڑھنا شروع کر دیا۔اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ مجلس میں ان کے جو مشیر اور دیگر افراد بیٹھے ہیں وہ سن لیں تاکہ کوئی مشورہ دے سکیں۔’’امیر المومنین!‘‘ایک مشیر نے کہا۔’’خالد کیلئے کمک بہت جلدی چلی جانی چاہیے۔دو ہزار نفری سے زرتشتوں کے خلاف لڑائی کی سوچی بھی نہیں جا سکتی۔‘‘’ ’قعقاع بن عمرو کو بلاؤ۔‘‘امیر المومنین ؓنے حکم دیا۔تھوڑی دیر بعد گٹھے ہوئے جسم کا ایک قد آور نوجوان خلیفہ ؓکے سامنے آن کھڑا ہوا۔’’قعقاع!‘‘امیر المومنینؓ نے اس نوجوان سے کہا۔’’خالد کو کمک کی ضرورت ہے ۔تیاری کرو اور فوراً یمامہ پہنچو اور اس سے کہو کہ میں ہوں تمہاری کمک۔‘‘ ’’یا امیر المومنین!‘‘ایک مشیر نے حیران ہو کر کہا۔’’خدا کی قسم !آپ مذاق نہیں کر رہے لیکن اس سالار کو جس کی آٹھ ہزار فوج اس کا ساتھ چھوڑ گئی ہو،صرف ایک آدمی کی کمک دینا مذاق لگتا ہے۔‘‘امیر المومنین ابو بکرؓ ضرورت سے زیادہ سنجیدہ تھے۔انہوں نے قعقاعؓ بن عمرو کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور سکون کی آہ لے کر بولے۔’’مجاہدی­ن کے جس لشکر میں قعقاع جیساجوان ہوگا وہ لشکر شکست نہیں کھائے گا۔ قعقاعؓ اسی وقت گھوڑے پر سوار ہوا اور مدینہ سے نکل گیا۔


مشہور مورخ طبری، ابنِ اسحٰق ،واقدی اور سیف بن عمر نے یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے پہلے بھی ایک ایسا واقعہ ہو چکا تھا۔ایک سالار عیاض بن غنم نے محاذ سے مدینہ میں قاصد بھیجا تھا کہ کمک کی ضرورت ہے۔ خلیفہ ابو بکرؓ نے صرف ایک آدمی عبد بن عہف الحمیری کو کمک کے طور پر بھیجا تھا۔اس وقت بھی اہلِ مجلس نے حیرت کا اظہار کیا تھا اور امیرالمومنین ؓنے یہی جواب دیا تھا جو قعقاع ؓکو خالدؓ کے پاس بھیجنے پر دیا۔حقیقت یہ تھی کہ خلیفہ ابو بکرؓ خالدؓ کو مایوس نہیں کرنا چاہتے تھے۔لیکن مدینہ میں کمک نہیں تھی۔صرف یہی ایک محاذ نہیں تھا ،اس وقت تمام کے تمام مشہور سالار مختلف محاذوں پر لڑ رہے تھے،اور یہ ساری جنگ ارتداد کے خلاف لڑی جا رہی تھی۔اسلام کے دشمن دیکھ چکے تھے کہ مسلمانوں کو میدانِ جنگ میں شکست دینا بڑا مہنگا سودا ہے۔چنانچہ اسلام کو کمزور کرکے ختم کرنے کا انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ کئی افراد نے نبوت کا دعویٰ کر دیا اور اپنے اپنے طریقوں سے پیروکار بنا لیے،متعدد ایسے قبیلے جو اسلام قبول کر چکے تھے، اسلام سے منحرف ہو گئے اور اسلام سے انحراف کا یہ سلسلہ تیز ہوتا جا رہا تھا۔ارتداد کے فتنے کے پیچھے یہودیوں کا ہاتھ تھا۔خلیفہ ابو بکرؓ کی خلافت اسی فتنے کے خلاف بر سر پیکار رہی۔اس فتنے کو وعظوں اور تبلیغی لیکچروں سے نہیں دبایا جا سکتا تھا۔اس کیلئے مسلح جہاد کی ضرورت تھی۔


یہ جنگی پیمانے کی مہم تھی جسے سر کرنے کیلئے مدینہ فوج سے خالی ہو گیا تھا۔کمزور محاذوں کو کمک دینے کیلئے دوسرے محاذوں سے فوج بھیجی جاتی تھی۔امیر المومنینؓ نے خالدؓ کو صرف ایک آدمی دینے پر اکتفا نہ کیا،انہوں نے دو طاقتور قبیلوں مفر اور ربیعہ ۔کے سرداروں کو پیغام بھیجے کہ خالدؓ کو زیادہ سے زیادہ آدمی دیں۔


صرف ایک آدمی؟ قعقاع ؓبن عمرو جب خالدؓ کے پاس پہنچا تو خالدؓ نے اپنے خیمے میں غصے سے ٹہلتے ہوئے کہا۔’’صرف ایک آدمی؟ کیا میں نے امیر المومنین کو بتایا نہیں کہ میرے پاس صرف دو ہزار لڑنے والے رہ گئے ہیں؟اور خلافت مجھ سے توقع رکھتی ہے کہ میں فارس کی اس فوج سے ٹکر لوں جو زرہ میں ڈوبی ہوئی ہے۔‘‘ ’’میرے سالار!‘‘قعقاعؓ نے کہا۔’’میں آٹھ ہزار کی کمی پوری نہیں کر سکتا۔خدا کی قسم !کوئی کمی رہنے بھی نہیں دوں گا۔وقت آنے دیں۔جس رسولﷺ کا کلمہ پڑھتا ہوں اس کی روح مقدس کے آگے تمہیں شرمسار نہیں ہونے دوں گا۔‘‘ ’’میں یمامہ میں بیٹھا نہیں رہوں گا۔‘‘خالدؓ نے ایسے کہا جیسے اپنے آپ سے بات کررہے ہوں۔’’مثنیٰ میرا انتظار کر رہا ہو گا۔میں اسے اکیلا نہیں چھوڑوں گا،لیکن……‘‘خالد ­خاموش ہو گئے۔انہوں نے اوپر دیکھا اور سرگوشی میں کہا ۔’’ یا رب العالمین ! میں نے تیرے نام کی قسم کھائی ہے۔اپنے نام کی خاطر میری مدد کر۔مجھے ہمت اور استقلال عطا فرما کہ میں اس آگ میں کود کر اسے ٹھنڈا کر دوں جس کی زرتشت عبادت کرتے ہیں۔میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں اور محمدﷺ تیرے رسول ہیں۔‘‘ ’’کیا تو ہمت ہار رہا ہے ولید کے بیٹے؟‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’کیا تو نے نہیں کہا تھا کہ ﷲ کی راہ میں لڑنے والوں کی ﷲ مدد کرتا ہے؟‘‘’’میں ہمت نہیں ہاروں گا۔‘‘خالد نے کہا۔’’میں شکست کا عادی نہیں…… ﷲ مدد کرے گا۔ ﷲ کی قسم! میں جاہ و جلال کا طلبگار نہیں ۔مجھے فارس کے بادشاہ کا تخت نہیں چاہیے. مجھے وہ زمین چاہیے جو ﷲ کی ہے،اور اس پر بسنے والے ﷲ اور اس کے رسولﷺ کے نام لیوا ہوں گے۔‘‘وہ دو ہزار مجاہدین جو خالدؓ کے ساتھ رہ گئے تھے ،یمامہ کے ایک میدان میں خالدؓ کے ساتھ کھڑے تھے ۔خالد ؓگھوڑے پرسوار تھے۔’’مجاہدینِ اسلام!‘‘خالدؓ اپنی اس قلیل فوج سے بڑی بلند آواز اسے مخاطب ہوئے۔’’ﷲ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کا نام دور دور تک پہنچانے کیلئے چنا ہے۔وہ جنہیں اپنے گھر اور اپنے مال و عیال عزیز تھے وہ چلے گئے ہیں۔ ہمیں ان سے گلہ نہیں،انہوں نے خاک و خون کے راستوں پر ہمارا ساتھ دیا تھا ۔بڑے لمبے عرصے تک وہ ہمارے ہم سفر رہے۔ ﷲ انہیں جہاد کا صلہ عطا فرمائے۔ تم نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا۔ اس کا اجر میں نہیں ﷲ دے گا ۔ہم بہت ہی طاقتور دشمن پر حملہ کرنے جا رہے ہیں۔ مت دیکھو ہماری تعداد کتنی ہے۔


بدر کے میدان میں تم کتنے اور قریش کتنے تھے ۔احد میں بھی مسلمان تھوڑے تھے ۔میں اس وقت مسلمانوں کے دشمن قبیلے کا فرد تھا۔ تم میں بھی ایسے موجود ہیں جو قبولِ اسلام سے پہلے بدر کے میدان میں مسلمانوں کے خلاف لڑے تھے۔ کیا ہم نے کہا نہیں تھا کہ ان تھوڑے سے مسلمانوں کو ہم گھوڑوں کے سموں تلے کچل ڈالیں گے؟ کیا تمہیں یاد نہیں کہ ہم جو تعداد میں بہت زیادہ تھے ان کے ہاتھوں پسپا ہوئے تھے جو تعداد میں بہت تھوڑے تھے۔ کیوں ……؟ایسا کیوں ہوا تھا……؟اس لئے کہ مسلمان حق پر تھے ، اور ﷲ حق پرستوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ آج تم حق پرست ہو۔‘‘خالدؓ کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا جو انہوں نے کھول کر اپنے سامنے کیا۔ ’’امیر المومنین نے ہمارے نام ایک پیغام بھیجا ہے ۔انہوں نے لکھا ہے میں خالد بن ولید کو فارسیوں کے خلاف جنگ لڑنے کیلئے بھیج رہا ہوں۔ تم سب خالد کی قیادت میں اس وقت تک جنگ جاری رکھو گے جب تک تمہیں خلافت کی طرف سے حکم نہیں ملتا۔ خالد کا ساتھ نہ چھوڑنا اور دشمن کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو بزدلی نہ دکھانا،تم ان میں سے ہو جنہوں نے اس اجازت کے باوجود کہ جو گھروں کو جانا چاہتے ہیں جا سکتے ہیں۔ ﷲ کی تلوار کا ساتھ نہیں چھوڑا۔تم نے اپنے لیے وہ راستہ منتخب کیا ہے جو ﷲ کی راہ کہلاتا ہے۔تصور میں لاؤ اس ثوابِ عظیم کو جو ﷲ کی راہ پر چلنے والوں کو ملتا ہے ﷲ تمہارا حامی و ناصر ہو۔تمہاری کمی وہی پوری کرے گا۔اسی کی رضا اور خوشنودی کے طلبگار رہو۔‘‘ایک مورخ ازدی نے اس خط کا پورا متن اپنی تاریخ میں دیا ہے۔ معلوم نہیں ابنِ خلدون اور ابنِ اثیر نے جن کی تحریریں مستند مانی جاتی ہیں اس خط کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ان دو ہزار مجاہدین کو کسی وعظ کی یا اشتعال انگیزی کی ضرورت نہیں تھی ۔یہ تو رضاکارانہ طور پر خالدؓ کے ساتھ رہ گئے تھے۔ ان میں بیشتر ایسے تھے جنہوں نے رسولِ کریمﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت کی اور اسلام قبول کیااور آپﷺ کی قیادت میں لڑائیاں لڑی تھیں۔ رسول ﷲ ﷺ کے وصال کے بعد وہ یوں محسوس کرتے جیسے آپﷺ کی روحِ مقدس ان کی قیادت کر رہی ہو۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں