شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ حضرت خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 34



⚔ شمشیرِ بے نیام ⚔


 حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ


( قسط نمبر-34)


ہرمز کی پیش قدمی بہت تیز تھی۔ مارچ ۶۳۳ء کا تیسرا ہفتہ تھا جب خالدؓ نے یمامہ سے دس ہزار فوج لے کر کوچ کیا تھا ۔یہ محرم ۱۲ ھ کا مہینہ تھا۔ ان کی پیش قدمی بھی بہت تیز تھی۔ ہرمز اپنی فوج کے ساتھ اپنی سرحد سے بہت دور کاظمہ کے مقام پر پہنچ گیا اور فوج کو وہیں خیمہ زن کر دیا۔ یہ مقام یمامہ اور اُبلہ کے راستے میں پڑتا تھا۔ ہرمز کو معلوم نہیں تھا کہ اس کی پیش قدمی کو دیکھنے والے موجود ہیں۔ خالدؓ ابھی کاظمہ سے دور تھے کہ انہیں عراق کی سمت سے آتے ہوئے دو شتر سوار ملے۔ انہوں نے خالدؓ کو بتایا کہ زرتشتوں کی فوج کاظمہ میں خیمہ زن ہے۔ خالدؓ نے وہیں سے رستہ بدل دیا۔یہ شتر سوار مثنیٰ کے بھیجے ہوئے تھے۔انہوں نے خالد ؓ کو یہ بھی بتایا کہ وہ حفیر کے مقام تک اس طرح پہنچ جائے کہ زرتشتوں کی فوج کے ساتھ اس کی ٹکر نہ ہو۔ شتر سواروں نے خالد ؓ کو ایک خوشخبری یہ سنائی کہ ان کیلئے آٹھ ہزار نفری کی فوج تیار ہے۔ یہ فوج اس طرح تیار ہوئی تھی کہ مثنیٰ بن حارثہ ،مذعور بن عدی ،ہرملہ اور سُلمہ نے دو دو ہزار لڑنے والے جوان اکھٹے کر لئے تھے ۔ اس طرح خالدؓ کی فوج کی تعداد اٹھارہ ہزار ہوگئی۔ خالدؓ نے اپنی پیش قدمی کا راستہ اس طرح بدل دیا کہ کاظمہ کے دورسے گزر کر حفیر تک پہنچ سکیں ،لیکن ہرمز کے جاسوس بھی صحرا میں موجود تھے۔ انہوں نے خالدؓ کے لشکر کو دور کے راستے سے جاتے دیکھ لیا۔آگے وہ راستہ تھا جو حفیر سے نبّاج کی طرف جاتا تھا۔ ہرمز نے اپنی فوج کو خیمے اکھاڑنے اور بہت تھوڑے وقت میں حفیر کی جانب کوچ کرنے کا حکم دیا۔ حفیر کے اردگرد پانی کے کنوئیں موجود تھے۔ ہرمز نے وہاں خالدؓ سے پہلے پہنچ کر خیمے گاڑدیئے۔ اس طرح پانی ایرانیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ خالدؓ ابھی حفیر سے کچھ دور تھے کہ ایک بار پھردونوں شتر سوار ان کے راستے میں آگئے،اور خالدؓ کو اطلاع دی کے دشمن حفیر کے مقام پرپانی کے کنوئیں پر قابض ہو چکا ہے۔ خالدؓ نے کچھ اور آگے جا کر ایسی جگہ پڑاؤ کا حکم دے دیا جہاں دور دور تک پانی کی ایک بوند نہیں مل سکتی تھی۔ فوج نے وہاں پڑاؤ تو ڈال دیا لیکن خالد ؓکو بتایا گیا کہ فوج میں بے اطمینانی پائی جاتی ہے کہ پڑاؤ ایسی جگہ کیا گیا ہے جہاں دور دور تک پانی کا نام و نشان نہیں۔’’میں نے کچھ سوچ کر یہاں پڑاؤ کیا ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تمام لشکر سے کہو کہ اگر دشمن پانی پر قابض ہے تو پریشان نہ ہوں۔ ہماری پہلی لڑائی پانی کیلئے ہو گی۔ پانی اسی کو ملے گا جو جان کی بازی لگا کر لڑے گا،تم نے دشمن کو پانی سے محروم کردیا تو سمجھو تم نے جنگ جیت لی۔‘‘سالارِ اعلیٰ کایہ پیغام سارے لشکر کو سنا دیا گیااور سب ایک خونریز جنگ لڑنے کیلئے تیار ہو گئے۔ اب لشکر کی نفری اٹھارہ ہزار ہو گئی تھی۔ مثنیٰ بن حارثہ ،مذعور بن عدی ،ہرملہ اور سُلمہ دودوہزار آدمی ساتھ لئے خالدؓ سے آملے تھے۔ خالد ؓنے جو ایلچی ہرمز کے پاس بھیجا تھا ،وہ بھی اسی پڑاؤ میں خالدؓ کے پاس آیا اور بتایا کہ ہرمز نے اس کے ساتھ کیسا توہین آمیز سلوک کیا ہے۔’’اس کی ایک لاکھ درہم کی ٹوپی نے اس کا دماغ خراب کر رکھا ہے۔‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے جو پاس ہی بیٹھا ہوا تھا،کہا۔’’ﷲ یہ نہیں دیکھتا کہ کسی انسان کے سر پر کیا رکھا ہے ۔ﷲ تو دیکھتا ہے کہ اس کے سر کے اندر کیا ہے۔ اس کے عزائم کیا اور اس کی نیت کیا ہے اور وہ سوچتا کیا ہے؟‘‘


’’ایک لاکھ درہم کی ٹوپی؟‘‘خالدؓ نے حیران ہو کرپوچھا۔’’کیا ہرمز اتنی قیمتی ٹوپی پہنتا ہے؟‘‘ ’’فارس کی شہنشاہی کا ایک دستور ہے۔‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے جواب دیا۔’’ان کے ہاں حسب و نسب اور حیثیت کو دیکھ کر اس کے مطابق ٹوپی پہنائی جاتی ہے جو ان کے شہنشاہ کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔ زیادہ قیمتی ٹوپی صرف وہ افراد پہنتے ہیں جو اعلیٰ حسب و نسب کے ہوں اور جنہوں نے رعایا میں بھی اور شاہی دربار میں بھی توقیر اور وجاہت حاصل کر رکھی ہو۔ اس وقت ہرمز سب سے زیادہ قیمتی ٹوپی پہنتا ہے ۔کوئی اور ایک لاکھ درہم کی ٹوپی نہیں پہن سکتا۔ اس ٹوپی میں بیش قیمت ہیرے لگے ہوئے ہیں اور اس کی کلغی بھی بہت قیمتی ہے۔‘‘ ’’فرعونوں نے اپنے سروں پر خدائی ٹوپیاں سجا لی تھیں۔‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’کہاں ہیں وہ ؟ کہاں ہیں ان کی ٹوپیاں؟ مجھے کسی کی بیش قیمت ٹوپی مرعوب نہیں کر سکتی، نہ کسی کی ٹوپی تلوار کے وار کو روک سکتی ہے۔ مجھے یہ بتاؤ کہ آتش پرستوں کی فوج لڑنے میں کیسی ہے اور میدانِ جنگ میں کتنی تیزی سے نقل و حرکت کرتی ہے؟‘‘ ’’فارس کے سپاہی کی زِرہ اور ہتھیار دیکھ کر خوف سا آتا ہے۔‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے خالد ؓکو بتایا۔’’سرپر لوہے کی زنجیروں کی خود،بازوؤں پر کسی اور دھات کے خول اور ٹانگیں آگے کی طرف سے موٹے چمڑے یا دھات سے محفوظ کی ہوئیں ، ہتھیار اتنے کہ ہر سپاہی کے پاس ایک برچھی ایک تلوار ،ایک وزنی گُرز ،ایک کمان اورایک ترکش ہوتی ہے جس میں ہر سپاہی تیس تیر رکھتا ہے۔‘‘ ’’اورلڑنے میں کیسے ہیں؟‘‘ ’’جرات اور عقل سے لڑتے ہیں۔‘‘ مثنیٰ بن حارثہ نے جواب دیا۔’’ان کی دلیری مشہور ہے۔‘‘

’’مثنیٰ!‘‘خالد ؓنے کہا۔’’کیا تم نے محسوس نہیں کیا کہ آتش پرستوں کے سپاہی کتنے کمزور ہیں اور ان کی جرات کی حد کیا ہے؟……ان کی جرات کی حد آہنی خود اور بازوؤں اور ٹانگوں پر چڑھائے ہوئے خولوں تک ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ جذبہ لوہے کو کاٹ دیا کرتا ہے۔ لوہے کی تلوار اور برچھی کی انّی جذبے کو نہیں کاٹ سکتی۔ زِرہ اور دھات یاچمڑے کے خول حفاظت کے جھوٹے ذریعے ہیں۔ ایک خول کٹ گیا تو سپاہی اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگتا ہے۔ پھر اس میں اتنی سی جرات رہ جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بچانے کی اوربھاگنے کی کوشش کرتا ہے۔ ﷲ کے سپاہی کی زِرہ اس کا عقیدہ اور ایمان ہے ……میں تمہیں فارسیوں کی ایک اور کمزوری دِکھاؤں……؟ــ‘‘خالدؓ نے قاصد سے کہا۔’’سالاروں اور کمانداروں کو فوراً بلاؤ۔‘‘

’’فوری طور پر کاظمہ کی طرف کوچ کرو۔‘‘خالد ؓنے حکم دیا۔’’اور کوچ بہت تیز ہو۔‘‘ہرمز حفیرہ کے علاقے میں پڑاؤ کیے ہوئے تھا۔ وہ کاظمہ سے اپنی فوج کو یہاں لایا تھا۔ کیونکہ خالدؓ کا لشکر حفیرہ کی طرف آ گیا تھا۔ اب یہ لشکر پھر کاظمہ کی طرف جا رہا تھا۔ دونوں فوجوں کی چند ایک گھوڑ سوار ایک دوسرے کی خیمہ گاہ کو دیکھتے رہتے تھے ۔ ہرمز کو اطلاع ملی کہ مسلمانوں کا لشکر کاظمہ کی طرف کوچ کر گیا ہے توہرمز نے اپنی فوج کو کاظمہ کی طرف کوچ کرنے کا حکم دے دیا۔ہرمز کو اُبلہ کی بہت فکر تھی۔ یہ ایرانیوں کی بادشاہی کا بہت اہم شہر تھا۔ یہ تجارتی مرکز تھا۔ ہندوستان کو تاجروں کے قافلے یہیں سے جایا کرتے تھے،اور ہندوستان خصوصاً سندھ کا مال اسی مقام پر آیا کرتا تھا۔ یہ ایران کا فوجی مرکز بھی تھا۔ اس علاقے کے رہنے والے مسلمانوں کو دبائے رکھنے کیلئے اُبلہ میں فوج رکھی گئی تھی۔ ہرمز کی کوشش یہ تھی کہ مسلمانوں کا لشکر اُبلہ تک نہ پہنچ سکے۔ ہرمز کو ابلہ پہلے سے زیادہ خطرے میں نظر آنے لگا کیونکہ مسلمان اُبلہ کے جنوب میں کاظمہ کی طرف جا رہے تھے۔ مسلمانوں کیلئے کوچ اتنا مشکل نہ تھا۔ جتنا ایرانیوں کیلئے دشوار تھا۔ مسلمانوں کے پاس اونٹ اور گھوڑے خاصے زیادہ تھے۔ سپاہی ہلکے پھلکے تھے۔ وہ آسانی سے تیز چل سکتے تھے،ان کے مقابلے میں ایرانی سپاہی زِرہ اور ہتھیاروں سے لدے ہوئے تھے اس لئے وہ تیز چل نہیں سکتے تھے۔ ایک دو دن پہلے ہی وہ کاظمہ سے حفیرہ آئے تھے۔ اس کوچ کی تھکن ابھی باقی تھی کہ انہیں ایک بار پھر کوچ کرنا پڑا اور وہ بھی بہت تیز تاکہ مسلمانوں سے پہلے کاظمہ کے علاقے میں پہنچ جائیں ۔ اس کوچ نے راستے میں ہی انہیں تھکا دیا۔ ہرمز کی فوج جب کاظمہ میں مسلمانوں کے بالمقابل پہنچی تونڈھال ہو چکی تھی۔ مسلمان سپاہی صحرائی لڑائیوں اور صحرا میں نقل و حرکت کے عادی تھے۔ خالد ؓنے ہرمز کو یہ تاثر دینے کیلئے کہ وہ اپنے لشکر کو آرام نہیں کرنے دے گا۔ لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کردیا۔ خود قلب میں رہے۔ دائیں اور بائیں پہلوؤں کی کمان عاصم بن عمرو اور عدی بن حاتم کے پاس تھی۔عاصم بن عمرو، قعقاع بن عمرو کے بھائی تھے اور عدی بن حاتم قبیلہ طے کے سردار تھے جو دراز قد مضبوط جسم والے بڑے بہادر جنگجو تھے۔ خالدؓ کو اپنی فوج کو لڑائی کی ترتیب میں کرتے دیکھ کر ہرمز نے بھی اپنی فوج کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا۔ قلب میں وہ خود رہا اور دونوں پہلوؤں کی کمان شاہی خاندان کے  دو افراد قباذ اور انوشجان کو دی۔ ہرمز دیکھ رہا تھا کہ اس کی فوج پسینے میں نہا رہی ہے۔ اور سپاہیوں کی سانسیں پھولی ہوئی ہیں۔ انہیں آرام کی ضرورت تھی لیکن مسلمان جنگی ترتیب میں آ چکے تھے۔ ہرمز نے اپنی فوج کی ترتیب ایسی رکھی کہ کاظمہ شہر اس کی فوج کے پیچھے آ گیا۔ ان کے سامنے ریگستانی میدان تھا اور ایک طرف بے آب و گیاہ ٹیلہ نما پہاڑیوں کا سلسلہ تھا۔


 خالدؓ نے اپنی فوج کو اس طرح آگے بڑھایا کہ یہ پہاڑی سلسلہ اُن کی پشت کی طرف ہو گیا۔اپریل ۶۳۳ء کے پہلے ہفتے کا ایک دن تھا جب مسلمان پہلی بار آتش پرست ایرانیوں کے مقابل آئے۔ خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اگر قتل کر دیا جائے تو یہ معرکہ بغیر لڑے ختم ہو سکتا ہے۔ ہرمز کے ایک سالار نے اسے کہا۔ مسلمان جو اتنی دور سے آئے ہیں اپنے سالار کی موت کے بعد ہمارے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکیں گے۔ ’’فوج سے کہو زنجیریں باندھ لیں۔‘‘ہرمز نے سالار سے کہا۔’’میں ان کے سالار کا بندوبست کرتا ہوں۔سب سے پہلے یہی مرے گا۔‘‘اس نے سالار کو بھیج کر اپنے محافظوں کو بلایا اور انہیں کچھ بتایا۔

 زنجیریں باندھ لینے کا مطلب یہ تھا کہ ایرانی فوج کے سپاہی اپنے آپ کو اس طرح زنجیروں سے باندھ لیتے تھے کہ پانچ سے دس سپاہی ایک لمبی زنجیر میں بندھ جاتے تھے۔ ان کے درمیان اتنا فاصلہ ہوتا تھا کہ وہ آسانی سے لڑ سکتے تھے۔ زنجیریں باندھ کر لڑنے سے ایک فائدہ یہ ہوتا تھا کہ کوئی سپاہی بھاگ نہیں سکتا تھا۔ دوسرا فائدہ یہ کہ ان کے دشمن کے گھوڑ سوار جب ان پر ہلہ بولتے تھے تو سپاہی زنجیریں سیدھی کر دیتے۔ زنجیریں گھوڑوں کی ٹانگوں کے آگے آ جاتیں اور گھوڑے گر پڑتے تھے۔ لیکن زنجیروں کا بہت بڑا نقصان یہ تھا کہ ایک زنجیر میں سے بندھے ہوئے سپاہیوں میں سے ایک دو زخمی یا ہلاک ہو جاتے تو باقی بے بس ہو جاتے اور دشمن کا آسان شکار بنتے تھے۔ اس جنگ کو جو ہرمز اور خالدؓ کے درمیان لڑی گئی،جنگِ سلاسل یعنی زنجیروں کی جنگ کہتے ہیں۔ مسلمانوں نے جب یہ دیکھا کہ ایرانی اپنے آپ کو زنجیروں سے باندھ رہے ہیں تو وہ حیران ہونے لگے۔ کسی نے بلند آواز سے کہا۔’’وہ دیکھو! فارسی اپنے آپ کو ہمارے لیے باندھ رہے ہیں۔‘‘’’فتح ہماری ہے۔‘‘خالدؓ نے بلند ٓواز سے کہا۔’’ﷲ نے ان کے دماغوں پر مہر لگا دی ہے۔‘‘خالدؓ نے کچھ سوچ کر کاظمہ سے حفیر اور حفیر سے کاظمہ کو کوچ کیا تھا۔ وہ فائدہ انہیں نظر آ گیا تھا۔ ہرمز کی و ہ فوج جو زِرہ اور ہتھیاروں سے لدی ہوئی تھی ،لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی تھک گئی تھی۔خالدؓ نے ایرانیوں کو آرام کی مہلت ہی نہیں دی تھی . 


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں