شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ حضرت خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 33



⚔ شمشیرِ بے نیام ⚔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

( قسط نمبر-33)

رسول ﷲﷺ کے ان شیدایوں نے خالدؓ کی اجازت سے ایک کام یہ بھی کیا کہ گھوڑوں پر سوار ہو کر یمامہ کے گردونواح میں نکل گئے اور بستی بستی جا کر لوگوں کو گھوڑ سواری کے مختلف کرتب دکھانے لگے۔ مثلا دوڑتے گھوڑوں سے اترنا اور سوار ہونا ،سرپٹ دوڑتے گھوڑوں سے نشانے پر تیر چلانا، نیزہ بازی اور گھوڑوں کو دوڑاتے ہوئے تیغ زنی کے کمالات۔ وہ جوانوں کو فوج میں بھرتی ہو جانے کا مشورہ بھی دیتے اور انہیں بتاتے کہ جنگ میں جا کر انہیں کیا کیا فائدے حاصل ہوں گے ۔ اس کے علاوہ ان لوگوں کو یہ بھی بتاتے تھے کہ وہ فوج میں بھرتی نہ ہوئے تو ایرانی آکر انہیں اپنا غلام بنا لیں گے۔جو ان سے بیگار لے گی ،انہیں دیں گے بھی کچھ نہیں ،اور ان کی جوان بہنوں ،بیویوں اور بیٹیوں کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا کریں گے۔اس خطے نے ایرانیوں کا دورِ حکومت دیکھا تھا ۔پھر انہوں نے جھوٹے پیغمبروں کی شعبدے بازیاں دیکھی تھیں اور اب وہ مسلمانوں کی حکومت دیکھ رہے تھے۔ مسلمانوں نے انہیں غلام بنانے کی کوشش نہیں کی تھی ۔ان کے انداز ،طور طریقے او رہن سہن بادشاہوں جیسے یا حکمرانوں جیسے نہیں تھے۔ وہ عام لوگوں کی طرح رہتے ،عام لوگوں کے ساتھ باتیں کرتے اور ان کی سنتے تھے۔ان کی عورتوں کی عزت محفوظ تھی۔

ان لوگوں میں وہ بھی تھے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا لیکن مسیلمہ جیسے شعبدے باز نے انہیں گمراہ کیا اور اسلام کے راستے سے ہٹا لیا تھا۔ انہوں نے مسیلمہ کی نبوت کو مسلمانوں کے ہاتھوں بے نقاب ہوتے دیکھا اور مسیلمہ کی جنگی قوت کو مسلمانوں کی قلیل نفری کی بے جگری کے آگے ریزہ ریزہ ہوتے دیکھا تھااور وہ محسوس کر رہے تھے کہ سچا عقیدہ اور نظریہ اسلام ہی ہے۔جو جھوٹ کی طاقتوں کو کچل دیتا ہے اور وہ غیبی طاقت جو سچے کو جھوٹے پر حق کو باطل پر فتح دیتی ہے وہ اسلام میں مضمر ہے ۔چنانچہ یہ لوگ خالدؓ کی فوج میں شامل ہونے لگے ۔یہ خالدؓ کے مجاہدین کی کوششوں کا حاصل تھا۔یمامہ میں شور اٹھا ۔ کچھ لوگ دوڑتے ہوئے بستی سے باہر چلے گئے۔ عورتیں چھتوں پر جا چڑھیں،افق سے گرد کی گھٹائیں اٹھ رہی تھیں اوریمامہ کی طرف بڑھ رہی تھیں۔’’آندھی آ رہی ہے۔‘‘’’لشکر ہے ……کسی کا لشکر آ رہا ہے۔‘‘’’ہوشیار……خبردار……تیار ہوجاؤ۔‘‘خالدؓ ایک قلعہ نما مکان پر جا چڑھے۔ یہ آندھی نہیں کسی کی فوج تھی۔ مرتدین کے سوا اور کس کی فوج ہو سکتی تھی؟ خالدؓ کو افسوس ہونے لگا کہ کس برے وقت انہوں نے اپنی فوج سے کہا تھا کہ جو گھروں کو جانا چاہتے ہیں چلے جائیں۔ گرد کے جو بادل اٹھتے نظر آ رہے تھے یہ بہت بڑے لشکر کی گرد تھی۔ خالدؓ کے پاس صرف دو ہزار نفری تھی یا وہ نفری تھی جو ابھی ابھی فوج میں شامل ہوئی تھی۔ اس پر بھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اور ہو بھی کیا سکتا تھا۔ یمامہ کی آبادی تھی۔ اس میں لڑنے والے آدمی موجود تھے۔ لیکن یہ خطرہ بھی موجود تھا کہ یہ لوگ دشمن سے مل جائیں گے،اور یہ خطرہ بھی کہ یہ پیٹھ پر وار کریں گے۔’’مجاہدینِ اسلام!‘‘خالد ؓنے قلعہ نما مکان کی چھت سے للکار کر کہا۔’’بہت بڑے امتحان کا وقت آ گیا ہے۔ ﷲ کے سوا تمہارا مددگار کوئی نہیں۔‘‘خالد چپ ہو گئے کیونکہ انہیں دفوں اور ڈھولوں کی دھمک سنائی دینے لگی تھی۔ حملہ آور دف بجاتے نہیں آیا کرتے۔ دھمک بلند ہوتی جا رہی تھی۔ خالدؓ نے اُدھر دیکھا۔ گرد بہت قریب آ گئی تھی،اور اس میں چھپے ہوئے اونٹ اور گھوڑے نظر آنے لگے تھے۔ گرد کے دبیز پردے میں آنے والا لشکر نعرے لگانے لگا۔’’اسلام کے پاسبانو!‘‘خالد ؓنے اوپر سے چلا کر کہا۔’’ﷲ کی مدد آ رہی ہے۔ آگے بڑھو، استقبال کرو، دیکھو! یہ کون ہیں؟‘‘خالدؓ دوڑتے نیچے اترے ۔اپنے گھوڑے پر کود کر سوار ہوئے اور گھوڑے کو ایڑ لگا کر بستی سے نکل گئے۔آنے والا لشکر بستی سے کچھ دور رک گیا اور دو گھوڑ سوار آگے بڑھے ۔ خالدؓ ان تک پہنچے اور گھوڑے سے اترے۔وہ دونوں سوار بھی اتر آئے۔ وہ مضر اور ربیعہ قبائل کے سردار تھے۔

’’مدینہ سے اطلاع آئی تھی کہ تمہیں مدد کی ضرورت ہے۔‘‘ایک سردار نے کہا۔’’میں چار ہزار آدمی ساتھ لایا ہوں۔ان میں شتر سوار بھی ہیں. گھوڑ سوار بھی ہیں اور پیادے بھی۔‘‘ ’’اور چار ہزار کی تعداد میرے قبیلے کی ہے۔‘‘دوسرے سردارنے کہا۔ خالدؓ نے فرطِ مسرت سے دونوں کو اپنے بازوؤں میں لے لیااور خوشی سے کانپتی ہوئی آواز میں بولے۔’’ﷲ کی قسم! ﷲ نے مجھے کبھی مایوس نہیں کیا۔‘‘خالدؓ کے پاس اب دس ہزار نفری کا لشکر جمع ہو گیا تھا۔ انہوں نے مضر اور ربیعہ کے سرداروں کو اچھی طرح سمجھا دیا کہ انہیں کہاں جانا ہے اور دشمن کتنا طاقتور ہے۔’’ہم تمہاری مدد کو آئے ہیں ولید کے بیٹے!‘‘ایک سردار نے کہا۔’’ہماری منزل وہی ہے جو تمہاری ہے۔‘‘ ’’مدینہ سے ہمیں اطلاع ملی ہے کہ امیرِلشکر تم ہو۔‘‘دوسرے سردار نے کہا۔’’جہاں کہو گے چلیں گے۔ دشمن جیسا بھی ہو گا لڑیں گے۔‘‘خالدؓ نے ایرانی سلطنت کے ایک حاکم ہرمز کے نام پیغام لکھوایا۔ اس وقت عراق ایران کی شہنشاہی کا ایک صوبہ تھا۔اس کا حاکم یا امیر ہرمز تھا۔ جس کی حیثیت آج کل کے گورنر جیسی تھی۔ اس کا ذکر پیچھے آ چکا ہے۔ وہ بڑا ہی بد طینت ،جھوٹا اور فریب کار تھا۔ کمینگی میں اس کا نام ضرب المثل کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ خالدؓ نے اس کے نام خط میں لکھوایا:’’تم اسلام قبول کرلو گے تو تمہارے لیے امن ہو گا۔ اگر نہیں تواپنا علاقہ سلطنت ِ اسلامیہ میں شامل کر دو۔ اس کے حاکم تم ہی رہو گے اور مدینہ کی خلافت کو جزیہ ادا کرتے رہو گے۔ اس کے عوض تمہاری اور تمہارے لوگوں کی سلامتی اور دفاع کے ذمہ دار ہم ہوں گے۔ اگر یہ بھی منظور نہیں تو اپنی سلامتی کے ذمہ دار تم خود ہو گے۔ ﷲ ہی جانتا ہے کہ تمہارا انجام کیا ہوگا۔ فتح و شکست ﷲ کے اختیار میں ہے لیکن میں تمہیں خبردار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ ہم وہ قوم ہیں جو موت کی اتنی ہی عاشق ہے جتنی کہ تمہیں زندگی عزیز ہے۔ میں نے ﷲ کا پیغام تم تک پہنچا دیا ہے۔‘‘خالدؓ نے یہ خط ایک ایلچی کو دے کر کہا کہ وہ دو محافظ اپنے ساتھ لے جائے اور جس قدر تیز جا سکتا ہے ،یہ پیغام ہرمز تک پہنچائے اور جواب لائے۔’’تمہاری واپسی تک میں یمامہ میں نہیں ہوں گا۔‘‘خالدؓ نے ایلچی سے کہا۔’’مجھے عراق کی سرحد پر کہیں ڈھونڈ لینا۔ اُبلہ کو یاد رکھنا۔ وہاں سے تمہیں پتا چل جائے گا کہ میں کہاں ہوں۔‘‘ایلچی کی روانگی کے فوراً بعد خالد ؓنے دس ہزار کے لشکر کو کوچ کا حکم دے دیا۔ خالدؓ کو پتا نہیں تھا کہ ﷲ کی ابھی اور مدد اس کی منتظر ہے۔امیرالمومنین ابو بکرؓ نے شمال مشرقی عرب کے علاقوں میں آباد تین قبیلوں کے سرداروں مذعور بن عدی،ہرملہ اور سُلمہ، کو پیغام بھیجے تھے کہ اپنے اپنے قبیلے کے زیادہ سے زیادہ ایسے آدمی مثنیٰ بن حارثہ کے پاس لے جائیں جنہیں جنگ کا تجربہ ہو اور جو پیٹھ دکھانے والے نہ ہوں۔ انہیں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ خالد ؓاپنی فوج لے کر آ رہا ہے اور وہ ان کا اور اپنے لشکر کا سالارِ اعلیٰ ہوگا۔

ابلہ اور دیگر ایسے علاقوں میں جہاں عربی مسلمان ایرانیوں کے محکوم تھے،صورتِ حال کچھ اور ہی ہو چکی تھی۔پہلے مثنیٰ بن حارثہ نے ان بستیوں کے چند ایک جوشیلے جوانوں کو ایرانیوں کی فوجی چوکیوں اور فوجی قافلوں پر شب خون مارنے کیلئے اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا۔ لیکن اب اس محکوم آبادی میں سے ایک فوج تیار کرنی تھی۔ کچھ فوج تو ا س نے اپنے قبیلے بکر بن وائل سے تیار کر لی تھی،جو مدینہ کے ایک سالار علاء بن حضرمی کے دوش بدوش عراق کی سرحد کے علاقوں میں مرتدین کے خلاف لڑی بھی تھی۔ مثنیٰ نے ایرانیوں کے محکوم مسلمانوں کو اطلاع بھیج دی تھی کہ جس قدر جوان آدمی وہاں سے نکل کر باہر آسکیں ،آ جائیں۔

مسلمانوں کا وہاں سے نکلنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ کیونکہ زرتشتوں کی فوج مسلمانوں کی بستیوں پر کڑی نظر رکھتی تھی۔انہیں معلوم تھا کہ ان پر شب خون مارنے والے یہی مسلمان ہیں۔ اب ایران کی فوج کو نئے احکام ملے تھے۔ یہ احکام جاری کرنے والا عراقی صوبے کا حاکم ہرمز تھا۔ چند ہی دن پہلے کا واقعہ تھا کہ خالد ؓکا ایلچی ہرمز کے دربار میں پہنچا۔یہ شہنشاہوں کا دربار تھا۔ ہرمز کو جب اطلاع دی گئی تھی کہ مدینہ کے سالار خالدؓ کا ایلچی آیا ہے تو ہرمزنے چہرے پر نفرت اور رعونت کے آثارپیدا کر لئے تھے۔’’میں کسی مسلمان کی صورت نہیں دیکھنا چاہتا۔‘‘اس نے کہا تھا۔’’لیکن میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ کیوں آیا ہے؟‘‘

’’زرتشت کی قسم!‘‘ایک درباری نے اٹھ کر ہرمز سے کہا۔’’خالد کا ایلچی کوئی پیغام لایا ہوگا۔ جو اس کی اپنی موت کا پیغام ثابت ہو گا۔‘‘ ’’ لے آؤ اسے اندر!‘‘ہرمز نے کہا۔ خالد ؓکا ایلچی دو محافظوں کے ساتھ بڑے تیز قدم اٹھاتا ہرمز کے دربار میں داخل ہوااور سیدھا ہرمز کی طرف گیا۔ دو برچھی برداروں نے سامنے آ کر اسے روکا لیکن وہ دونوں کے درمیان سے گزر کر ہر مز کے سامنے جا کھڑا ہوا۔’’السلام و علیکم!‘‘ایلچی نے کہا۔’’ہرمز آتش پرست کو خالد بن ولید سالارِ مدینہ کا سلام پہنچے جن کا ایک پیغام لایا ہوں۔‘‘’’ہم اس سالار کاسلام قبول نہیں کریں گے جس کے ایلچی میں اتنی بھی تمیز نہیں کہ ہمارے جاہ وجلال کو پہچان سکے۔‘‘ہرمز نے حقارت سے کہا۔’’کیا مدینہ میں جنگلی اور گنوار آباد ہیں ؟ کیا تمہیں نہیں بتایا گیا کہ تم ایک شاہی دربار میں جا رہے ہو،تمہیں دربار کے آداب نہیں سکھائے گئے؟‘‘

’’مسلمان صرف ﷲ کے دربار کے آداب سے آگاہ ہوتا ہے۔‘‘ایلچی نے جرات سے سر کچھ اور اونچا کر کے کہا۔’’اس انسان کو اسلام کوئی حیثیت نہیں دیتا جو ﷲ کے بندوں پر اپنے دربار کا رعب گانٹھتا ہے۔میں تمہارا درباری نہیں ، اس سالار کا ایلچی ہوں جسے ﷲ کے رسولﷺ نے ﷲ کی تلوار کہا ہے۔‘‘’’ہرمز کے سامنے وہ تلوار کند ہو جائے گی۔‘‘ہرمز نے فرعونوں کے سے لہجے میں کہا اور ہاتھ بڑھا کرتحکمانہ لہجے میں بولا۔’’لاؤ تمہارے ﷲ کی تلوار نے کیا پیغام بھیجا ہے؟‘‘ایلچی نے پیغام اس کے ہاتھ میں دے دیا ،جو وہ اس طرح پڑھنے لگا جیسے ازراہِ مذاق اس نے ایک کاغذ ہاتھ میں لے لیا ہو۔ پیغام پڑھ کر اس نے اسے مٹھی میں اس طرح چُڑ مُڑ کردیا جیسے یہ ایک ردّی کا ٹکڑا ہو، جسے وہ پھینک دے گا۔’’کیا کیڑے مکوڑے یہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ وہ ایک چٹان سے ٹکر لے سکیں گے؟‘‘ہرمز نے کہا۔’’کیا مدینہ والوں کو کسی نے نہیں بتایا کہ ہرقل بھی اس چٹان سے ٹکرا کر اپنا سر پھوڑ چکا ہے؟ کیا ہم تمہیں اپنی فوج کی ایک جھلک دِکھائیں تاکہ تم اپنے سالار کو اور اپنے بوڑھے خلیفہ کو بتا سکو کہ عراق کی سرحد کی طرف دیکھنے کی بھی جرات نہ کریں؟‘‘’’مجھے سالارِ اعلیٰ نے صرف یہ حکم دیا تھا کہ یہ پیغام ہرمز تک پہنچا کر اس کا جواب لاؤں۔‘‘ایلچی نے کہا۔’’میں تمہاری کسی بات کا جواب نہیں دے سکتا کیونکہ مجھے ایسا کوئی حکم نہیں ملا۔‘‘

’’تم جیسے ایلچی کے ساتھ ہم یہ سلوک کرتے ہیں کہ اسے قید خانے میں پھینک دیتے ہیں۔‘‘ہرمز نے کہا۔’’اگر ہم رحم کریں تو اسے قید خانے کی اذیت سے بچانے کیلئے جلاد کے حوالے کر دیتے ہیں۔‘‘’’میری جان میرے ﷲ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ایلچی نے پہلے سے زیادہ جرات سے کہا۔’’اگر تم مسلمان ہوتے تو تمہیں علم ہوتا کہ مہمان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ لیکن ﷲ کے منکر اور آگ کے پجاری سے اس سے بہتر سلوک کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ مجھے جلاد کے حوالے کر دو لیکن یہ سوچ لو کہ مسلمان میرے اور میرے محافظوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا انتقام لیں گے۔‘‘ہرمز بدک کر سیدھا ہو بیٹھا۔غصے سے اس کی آنکھیں لال سرخ ہو گئیں۔ ویسی ہی سرخی اس کے چہرے پر بھی آگئی۔ جیسے کہ وہ خالدؓ کے اس ایلچی کو کچا چبا جائے گا۔’’نکال دو اسے ہمارے دربار سے۔‘‘ہرمز نے گرج کر کہا-

چار پانچ درباری جن کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں،تیزی سے آگے بڑھے، ایلچی کے دونوں محافظوں نے تلواریں نکال لیں، پہلے وہ دونوں ایلچی کے پیچھے کھڑے تھے، اب وہ ایلچی کے پہلوؤں میں اس طرح کھڑے ہو گئے کہ ان کی پیٹھیں ایلچی کی طرف تھیں۔

’’ہرمز!‘‘ ایلچی نے بارعب آوازمیں کہا۔’’جنگجو میدانِ جنگ میں لڑا کرتے ہیں، اپنی طاقت کا گھمنڈ اپنے دربار میں نہ دِکھا، مجھے اپنے سالار کے پیغام کا جواب مل گیا ہے،۔تجھے ہماری کوئی شرط قبول نہیں……کیا یہی ہے تیرا جواب؟‘‘’’نکل جاؤ اس دربار سے۔‘‘ہرمز نے غصے سے کانپتی ہوئی بلند آواز سے کہا۔’’اپنے سالار سے کہنا کہ میری طاقت کو میدانِ جنگ میں آزمالے۔‘‘ہرمز کے برچھی بردار درباری اس کے اشارے پر رک گئے تھے۔ ایلچی کے محافظوں نے تلواریں نیاموں میں ڈال لیں۔ایلچی پیچھے کومڑا اور تیز قدم دربار سے نکل گیا۔

دونوں محافظ اس کے پیچھے پیچھے جا رہے تھے۔ ہرمز نے مٹھی کھولی، جس میں خالد کا پیغام چڑ مڑ کیا ہوا تھا۔ چونکہ یہ پیغام باریک کھال پر لکھا ہوا تھا اس لیے یہ مٹھی کھولتے ہی سیدھا ہو گیا۔ ہرمز نے یہ پیغام فارس کے شہنشاہ اُردشیر کی طرف اس اطلاع کے ساتھ بھیج دیا کہ وہ مسلمانوں سے مقابلے کیلئے فوری طور پر سرحد کی طرف کوچ کر رہا ہے اور وہ مسلمانوں کو سرحد سے دور ہی ختم کر دے گا۔’’ہرمز کا اقبال بلند ہو۔‘‘اس کے ایک درباری نے کہا۔’’جس دشمن کو آپ سرحد سے دور ہی ختم کرنا چاہتے ہیں وہ پہلے ہی سرحد کے اندر موجود ہے۔‘‘ہرمز نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔’’یہ وہ عربی مسلمان ہیں۔‘‘اس درباری نے کہا۔’’جو دجلہ اور فرات کے اس علاقے میں آباد ہیں جہاں یہ دونوں دریا ملتے ہیں ۔یہ علاقہ ابلہ تک چلا جاتا ہے۔ انہوں نے کب  کی سلطنتِ ایران کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے۔ مدینہ والوں نے ہم پر حملہ کیا تو یہ مسلمان ان سے مل جائیں گے۔‘‘’’میں ایک عرض کرنے کی جرات کرتا ہوں۔‘‘ایک فوجی مشیر نے کہا۔’’کئی دنوں سے اطلاعیں مل رہی ہیں کہ مسلمان جو لڑنے کے قابل ہیں یعنی جوان ہیں ۔وہ اپنی بستیوں سے غائب ہوتے جا رہے ہیں ۔وہ یقینا مثنیٰ بن حارثہ تک پہنچ رہے ہیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ فوج کی صورت میں منظم ہو رہے ہیں۔‘‘’’کیا تم نے فرار کا یہ سلسلہ روکنے کیلئے کوئی کارروائی کی ہے؟‘‘ہرمز نے پوچھا۔’’فوجی دستے باقاعدہ نگرانی کر رہے ہیں۔‘‘فوجی مشیر نے جواب دیا۔’’اس کے باوجود مسلمان غائب ہو رہے ہیں……?‘‘ہرمز نے غصے اور طنز سے کہا۔’’سرحدی چوکیوں کو ابھی حکم بھیجو کہ مسلمانوں کی بستیوں پر چھاپے مارتے رہیں۔ ہر بستی کی تمام آبادی کو باہر نکال کر دیکھیں کہ کتنے آدمی غائب ہیں اور وہ کب سے غائب ہیں ؟جس گھر کا آدمی غائب ہو اس گھر کو آگ لگا دو۔ کوئی مسلمان سرحد کی طرف جاتا نظر آئے تو اسے پکڑ کر قتل کر دو یا دور سے اس پر تیر چلا دو۔‘‘اس علاقے میں مسلمانوں کی ایک بستی تھی جو سرحد کے بالکل قریب تھی۔ایرانی فوج کی تھوڑی سی نفری نے اس بستی میں جا کر اعلان کیا کہ بچے سے بوڑھے تک باہر نکل آئیں۔ سپاہیوں نے گھروں میں گھس گھس کر لوگوں کو باہر نکالنا شروع کر دیا۔عورتوں کو الگ اور مردوں کو الگ کھڑا کر دیا گیا۔سپاہیوں کا انداز بڑا ہی ظالمانہ تھا۔ وہ گالیوں کی زبان میں بات کرتے اور ہر کسی کودھکے دے دے کر اِدھر سے اُدھر کرتے۔انہوں سے اعلان کیا کہ اُن آدمیوں کے نام بتائے جائیں اور ان کے گھر دِکھائے جائیں جو بستی میں نہیں ہیں۔ تمام آبادی خاموش رہی۔’’جواب دو۔‘‘ایرانی کمانڈر نے غصے سے چلاتے ہوئے کہا۔اسے کوئی جواب نہ ملا۔ کمانڈر نے آگے بڑھ کر ایک بوڑھے آدمی کو گریبان سے پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹا اور اس سے پوچھا کہ اس ہجوم میں کون کون نہیں ہے؟’’ مجھے معلوم نہیں۔‘‘بوڑھے نے جواب دیا۔

کمانڈر نے نیام سے تلوار نکال کر بوڑھے کے پیٹ میں گھونپ دی اور تلوار زور سے باہر کو کھینچی۔ بوڑھا دونوں ہاتھ پیٹ پر رکھ کر گر پڑا۔ کمانڈر پھر ایک بار لوگوں کی طرف متوجہ ہوا۔اچانک ایک طرف سے آٹھ دس گھوڑے سرپٹ دوڑتے آئے۔ان کے سواروں کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں ۔ ایرانی فوجی دیکھنے بھی نہ پائے تھے کہ یہ کون ہیں۔ان میں سے کئی ایک کے جسموں میں برچھیاں اتر چکی تھیں اور گھوڑے جس طرح آئے تھے اسی طرح سرپٹ دوڑتے بستی سے نکل گئے۔ایرانی فوجیوں کی تعداد چالیس پچاس تھی، ان میں بھگدڑ مچ گئی ۔ان میں سے آٹھ دس زمین پر پڑے تڑپ رہے تھے۔ گھوڑوں کے قدموں کی دھمک سنائی دے رہی تھی جو دور ہٹتی گئی اور اب پھر قریب آنے لگی تھی۔اب فوجیوں نے بھی برچھیاں اور تلواریں تان لیں اور اس طرف دیکھنے لگے جدھر سے گھوڑوں کی آوازیں آ رہی تھیں ۔پیچھے سے بستی کی آبادی ان کے اوپر ٹوٹ پڑی۔ ان سپاہیوں میں سے وہی زندہ رہے جو کسی طرف بھاگ نکلے تھے۔جب سوار بستی میں پہنچے تو انہیں گھوڑے روکنے پڑے کیونکہ ان کی راہ میں بستی کے لوگ حائل تھے ۔ جو ایرانی فوجیوں کا کشت و خون کر رہے تھے۔اس سے پہلے مسلمانوں نے یوں کھلے بندوں ایرانی فوج پر حملے کرنے کی جرات کبھی نہیں کی تھی ۔ایک ایرانی سپاہی پر ہاتھ اٹھانے کی سزا یہ تھی کہ ہاتھ اٹھانے والے کے پورے خاندان کو ختم کر دیا جاتا تھا۔اب یہاں کے مسلمان اس لئے دلیر ہو گئے تھے کہ اُنہیں اطلاع مل چکی تھی کہ مدینہ کی فوج آ گئی ہے۔ جن سواروں نے ایرانیوں پر حملہ کیا تھا وہ کچھ اس بستی کے رہنے والے جوان تھے، کچھ دوسری بستیوں کے تھے۔ یہ محض اتفاق تھا کہ وہ مثنیٰ بن حارثہ کی طرف جاتے ہوئے اس بستی کے قریب سے گزر رہے تھے۔ انہوں نے اس بستی کی آبادی کو باہر کھڑے دیکھا اور ایرانی فوجیوں کو بھی دیکھا۔ وہ چھپ کر آگے نکل سکتے تھے لیکن ایرانی کمانڈر نے بوڑھے کے پیٹ میں تلوار گھونپی تو سب نے آپس میں صلاح و مشورے کئے بغیر گھوڑوں کے رُخ اس طرف کر لئے ۔ایرانی فوجیوں نے تو انہیں جاتے ہوئے دیکھا ہی نہیں تھا۔ یہ ﷲ کی مدد تھی جو اس مظلوم بستی کو بر وقت مل گئی۔ یہ بستی تو خوش قسمت تھی کہ اسے مدد مل گئی اور ایرانیوں کی بھیانک سزا سے بچ گئی۔ مسلمانوں کی دوسری بستیوں پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی تھی ۔ ہر بستی کے ہر گھر کی تلاشی ہر رہی تھی۔ یہ دیکھا جا رہا تھا کہ کتنے آدمی غائب ہو چکے تھے ۔ ہر بستی میں ایرانی کئی آدمیوں کو قتل کررہے تھے۔ بعض مکانوں کو انہوں نے نذرِ آتش بھی کر دیا۔تین چار روز یہ سلسلہ چلا۔ اس کے بعد ایرانی فوج کو بستیوں کی طرف توجہ دینے کی مہلت نہ ملی۔ ہرمز اپنی فوج لے کر آگیا۔سرحدی فوج کو بھی اس نے اپنے ساتھ لے لیا اور سرحد سے نکل گیا۔ اس کا ارادہ یہ تھا کہ خالدؓ کو وہ سرحد سے دور روک لے گا۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں