آج کی بات ۔۔۔ 17 جولائی 2018

~!~ آج کی بات ~!~

انسان اتنا چھوٹا نہیں ہے کہ عقل اور حواس کا محکوم بن کر رہ جائے!

احمد جاوید صاحب

~!~ آج کی بات ~!~ انسان اتنا چھوٹا نہیں ہے کہ عقل اور حواس کا محکوم بن کر رہ جائے! احمد جاوید صاحب

آج کی بات ۔۔۔۔۔ 16 جولائی 2018

~!~ آج کی بات ~!~

زندگی بارش کے پانی کا بلبلہ ہے نجانے کب نیست ہوجائے۔ 
زندگی سے خوشی کے جتنے لمحے کشید کرسکتے ہیں ضرور کریں ۔

~!~ آج کی بات ~!~ زندگی بارش کے پانی کا بلبلہ ہے نجانے کب نیست ہوجائے۔  زندگی سے خوشی کے جتنے لمحے کشید کرسکتے ہیں ضرور کریں ۔

بھلائی کا بدلہ بھلائی اور افغانستان میں امن - خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔۔ 13 جولائی 2018

بھلائی کا بدلہ بھلائی اور افغانستان میں امن 
خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
امام و خطیب: ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
بشکریہ: دلیل ویب


فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ نے " بھلائی کا بدلہ بھلائی اور افغانستان میں امن" کے عنوان پر مسجد نبوی میں 29  شوال 1439 کا خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ اچھائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ دینا اسلامی اقدار میں سے ایک عظیم قدر ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلمان کے ساتھ جو بھی خیر خواہی کرے تو اسے کبھی نہیں بھولتا، انبیائے کرام کی زندگی سے بھی احسان مندی کے واقعات ملتے ہیں جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین خدیجہ بنت خویلد کی خوبیوں کا اعتراف ان کے بعد بھی جاری رکھا، اسی طرح مطعم بن عدی جو کہ حالت کفر میں مرا تھا اس کی خوبیوں کا بھی آپ نے اعتراف فرمایا، سیدنا موسی علیہ السلام اور دو عورتوں کے باپ کا واقعہ جن کی بکریوں کو آپ نے پانی پلایا تھا وہ بھی اسی بات کی دلیل ہے۔ دوسروں کے کام آنے والے شخص کا اسلام نے بہت بلند مقام رکھا ہے اور اس کا مالی یا معنوی شکریہ ادا کرنے کی تاکید بھی کی ہے، اگر ہم اس چیز پر عمل پیرا ہو جائیں تو معاشرتی برائیوں میں کافی حد تک کمی آ سکتی ہے،  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے بھلائی کرنے پر بھر پور بدلہ دینے کی ترغیب دی، اگر بدلہ دینے کے لیے کچھ پاس نہ ہو تو اس کی نیکی کے مطابق دعائیں لازمی دیں،  اور اسے جزاک اللہ خیرا کہہ دیں۔ حقائق پر مبنی ستائشی کلمات بھی صلہ اور بدلہ بن سکتے ہیں، قرضہ واپس کرتے ہوئے شکریہ ادا کرنا بھی اچھا عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ ہستیوں کے احسانات ہر وقت ہمارے ساتھ رہتے ہیں ان ہستیوں میں سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ آپ کی بدولت ہمیں ہدایت ملی، ان کے بعد والدین اور اساتذہ کا درجہ آتا ہے، اس لیے انہیں ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا چاہیے۔ خاوند اور بیوی ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور کوتاہیوں سے صرف نظر کرنے کے لیے خوبیوں کو ذہن میں تازہ رکھیں۔ دوسرے خطبے میں انہوں نے سعودی عرب کے بریدہ شہر  میں ہونے والی دہشت گردانہ کاروائی کی پر زور مذمت کی اور کہا کہ ہم داعشی فتنے کے خاتمے کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں، اسی طرح انہوں نے خادم حرمین شریفین کے حکم پر اسلامی تعاون تنظیم کی جانب سے منعقد کردہ افغان امن کانفرنس  کے مکہ اعلامیہ  کو امت اسلامیہ کی جانب بھر پور انداز میں سراہا  اور تمام افغانی دھڑوں کو باہمی صلح اور اتحاد کی دعوت دی ، نیز کسی بھی اختلاف کی صورت میں کتاب و سنت کی جانب رجوع کرنے کی ترغیب دلائی ۔ اور آخر میں جامع دعا کروائی۔

منتخب اقتباس

تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہی ہیں ، ہمہ قسم کی حمد اور بادشاہی اسی کے لیے ہے،  اسی کا فضل ہم پر ہے، میں خفیہ اور اعلانیہ ہر طرح سے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں،  میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ کی اطاعت تمام معاملات میں واجب ہے۔ اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر اس وقت تک رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرمائے جب تک دن اور رات کا آنا جانا لگا رہے۔

مسلمان کی بنیادی اخلاقی اقدار میں یہ بھی شامل ہے کہ بھلائی کرنے والوں کا بدلہ بھلائی کے ساتھ دے، کسی کی نیکی کا اس سے بڑھ کر صلہ دے؛ یہ باہمی تعامل کے لیے اسلامی اقدار میں سے ایک عظیم قدر ہے اس کی دلیل فرمانِ باری تعالی ہے:
 {هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ}
 اچھائی کا بدلہ اچھائی ہی ہوتا ہے۔ [الرحمن: 60]

یہی وجہ ہے کہ مسلمان کے ساتھ کوئی بھلا کرے تو اسے کبھی فراموش نہیں کرتا، مسلمان کے ساتھ جو بھی اچھائی کرے ہمیشہ ان کا تذکرہ خیر کرتا ہے، اس کے حسن سلوک پر اظہار تشکر  اور اس کی نوازشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ نیز مسلمان زندگی کے اژدہام اور بدلتے حالات میں ان لوگوں کو نہیں بھولتا جن کے ساتھ محبت اور انس تھا، جن کے ساتھ زندگی کے چند دن گزارے  تھے، چاہے ان گزرے دنوں میں باہمی اختلافات اور نفرتیں بھی پائی گئی ہوں؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ}
 ایک دوسرے کے ساتھ کئے ہوئے احسانات کو مت بھولو[البقرة: 237]

اسی لیے ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفا داروں میں بھی سب سے آگے ہیں؛ آپ نے ہمیں احسان مندی کے خوبصورت مفاہیم عملی طور پر سمجھائے؛ چنانچہ آپ اپنی اہلیہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کی خوبیوں کے معترف تھے اور آپ کی وفات کے بعد بھی ان کا اعتراف کرتے تھے، اسی لیے آپ انہیں بہت زیادہ یاد فرماتے ، ان کا شکریہ ادا کرتے اور ان کے لیے بخشش مانگتے ہوئے فرماتے: (وہ فلاں فلاں خوبیوں کی مالک تھی، پھر بسا اوقات بکری ذبح کر کے گوشت بناتے تو خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کو بھی بھیج دیتے تھے) بخاری، مسلم

انبیائے کرام کے واقعات بھی اعتراف احسانات سے بھرے ہوئے ہیں، انہی واقعات میں سے موسی علیہ السلام اور دو عورتوں کے والد کا واقعہ بھی ہے جن کی بکریوں کو آپ نے پانی پلایا تھا، اسی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:
 {فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا} 
تو ان دونوں عورتوں میں سے ایک موسی کی طرف شرم و حیا سے چلتی ہوئی آئی  اور کہنے لگی کہ میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ کے پانی پلانے کی اجرت آپ کو دیں ۔ [القصص: 25]،
 تو موسی علیہ السلام کو ان کی نیکی کا صلہ مل گیا، اور ان دو لڑکیوں کے والد نے آپ کے احسان کا بدلہ چکادیا۔

اسلام نے اس شخص کو بہت بلند مقام دیا ہے جو آپ کے ساتھ بھلائی اور اچھائی کرتا ہے، بلکہ اسلام نے اس شخص کو بدلہ دینے کی تاکید بھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (وہ شخص اللہ کا شکر ادا ہی نہیں کرتا جو لوگوں کا شکر ادا نہ کرے) اس حدیث کو احمد اور ابن حبان نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

اہل وفا کسی کو اچھا صلہ دیتے ہوئے اقوال، افعال اور احساسات تک کا صلہ دیتے ہیں؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا}
 اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو۔ [النساء: 86] 
چنانچہ اگر مسلمان سلام کا جواب انہی کلمات میں یا اس سے احسن کلمات میں دیں، اور بھلائی پر اسی جیسی یا اس سے زیادہ بھلائی صلے میں دیں، اور اچھے بول پر  اسی جیسے یا اس سے بھی اچھے بول کہیں، اور تحفہ ملنے پر اسی جیسا تحفہ دیں یا اس سے بھی اچھا دیں ؛ تو ہمارے دل صاف ہو جائیں، ہمارے رابطے مضبوط ہو جائیں، تعلقات کی گہرائی بڑھ جائے، نیز اختلافات کا دائرہ سکڑ جائے۔

بھلائی کرنے والوں کو صلہ دینے کے لیے سب سے پہلا اقدام : ان کی بھلائی کا اعتراف ہے، پھر ان کے شکریہ کا مستحق ہونے کا اقرار کریں؛ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا  اور اس کی ترغیب دلائی ہے، نیز تعلق داری کا خیال رکھنا ایمانی خوبی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص تمہارے ساتھ بھلائی کرے تو اسے پورا بدلہ دو) اس حدیث کو ابو داود، نسائی اور امام احمد رحمہم اللہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

اسلام نے بھلائی کرنے والوں کا بدلہ چکانے کے لیے مسلمان کی استطاعت کے مطابق سہولت رکھی ہے؛ اس لیے مسلمان اچھے بول، اور دعائے خیر کے ذریعے بھی بدلہ چکا سکتا ہے، اسی طرح مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو ہشاش بشاش چہرے اور دل کی گہرائی سے ملے  تو اس کی سہولت بھی موجود ہے۔ یہ تمام تر سہولتیں اس دین کے کامل  اور شامل ہونے کی دلیلیں ہیں، اسلامی آداب اور خوبیوں کے مکمل ہونے کی علامات ہیں، انہی کی بدولت مسلم معاشرے میں مودت، الفت اور محبت پروان چڑھتی ہے؛ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم کسی بھی نیکی کو حقیر مت سمجھو، چاہے تم اپنے بھائی کو خندہ پیشانی سے ملو) مسلم

حقائق پر مبنی تعریف بھی احسان کرنے والوں کو صلہ دینے کا ایک طریقہ ہے؛ جیسے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جسے کوئی چیز تحفہ دی جائے تو وہ اس کا بدلہ چکا دے، اور اگر پاس کچھ نہ ہو تو ستائشی کلمات کہہ دے؛ کیونکہ جس نے ستائشی کلمات کہہ دئیے تو اس نے شکریہ ادا کر دیا۔ اور جس نے ستائشی کلمات بھی نہ کہے تو اس نے نا شکری کی۔ اور جو ایسی چیز زیب تن کرے جو اسے دی ہی نہیں گئی تو وہ ایسے ہی جیسے کوئی [بہروپیا]دو جھوٹے کپڑے زیب تن کر لے) اس حدیث کو ابو داود اور ترمذی  نے حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

کسی کی نیکی کا بدلہ دینے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انہیں خاطر خواہ دعائیں دے دی جائیں؛ رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (۔۔۔ اگر تمہارے پاس بدلہ دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو اس کے لیے اتنی دعائیں کر دو کہ تمہیں   یقین ہو جائے کہ تم نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے) اس حدیث کو ابو داود، نسائی، اور امام احمد نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

اسی طرح سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس کے ساتھ نیکی کی گئی اور اس نے نیکی کرنے والے کو کہا: [جَزَاكَ اللهُ خَيْرًا] اللہ تمہیں جزائے خیر دے، تو اس نے شکریہ ادا کرنے کی انتہا کر دی) اس حدیث کو ترمذی اور نسائی نے حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

مسلمان کی زندگی میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے احسانات ساری زندگی ساتھ رہتے ہیں، ان کے احسانات دائمی اور ابدی نوعیت کے ہوتے ہیں، ان لوگوں کی طرف سے ملنے والی خیر خواہی دائمی ہوتی ہے؛ انہی لوگوں میں سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ آپ کے ذریعے اللہ تعالی نے ہمیں اندھیروں سے نکال کر اجالے میں لا کھڑا فرمایا۔

اسی طرح لوگوں پر جن کا سب سے زیادہ احسان  ہے، جن کے حقوق کی ادائیگی سب سے زیادہ لازمی ہے  وہ ہیں : والدین، کہ انہوں نے ہی انسان کو بچپن میں پالا پوسا ۔

ایسے ہی طلبہ  پر لازمی ہے کہ اپنے اساتذہ کے لیے دعائیں کریں؛ کہ انہوں نے محنت کے ساتھ پڑھایا ، اسی لیے ابو حنیفہ رحمہ اللہ اپنے استاد حماد رحمہ اللہ کے لیے دعائیں کرتے تھے اور ان کے بعد ابو یوسف رحمہ اللہ اپنے استاد ابو حنیفہ رحمہ اللہ  کے لیے دعائیں کرتے۔

خاوند اور بیوی دونوں ایک دوسرے کے یکساں خیر خواہ ہوتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اچھائی کا تبادلہ کرتے ہیں، ان میں سے ہر ایک دوسرے کے لیے اپنی جوانی کی زندگی اور خون جگر  تک قربان کر دیتا ہے؛ اس لیے زوجین تعلق داری کا خیال رکھیں، حسن سلوک سے رہیں، نیز غلطیوں اور کوتاہیوں سے صرف نظر کریں تو یہ بھی بہترین صلہ اور بدلہ ہے؛ کیونکہ انسان میں پائی جانے والی اچھائیوں سے برائیوں کے اثرات مندمل ہو جاتے ہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی ہے کہ: (کوئی مومن کسی مومنہ [بیوی ] سے بغض نہیں رکھتا؛ کیونکہ اگر اسے کوئی بات ناگوار گزرتی ہے تو   وہ اس کی دیگر خوبیوں سے راضی ہو جاتا ہے۔)

یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے ہر کام کی توفیق مانگتے ہیں ۔ یا اللہ! ہم جہنم اور جہنم کے قریب کرنے والے ہر عمل سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے۔ یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، اور ہمارے لیے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے، یا رب العالمین!


بھلائی کا بدلہ بھلائی اور افغانستان میں امن  خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) امام و خطیب: ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی ترجمہ: شفقت ...

آج کی بات ۔۔۔ 12 جولائی 2018



~!~ آج کی بات ~!~

دوستوں کی محبت کبھی کبھی انسان کو خود اپنی حدود کو آزمانے پہ مجبور کر دیتی ہے ۔

حالم از نمرہ احمد

~!~ آج کی بات ~!~ دوستوں کی محبت کبھی کبھی انسان کو خود اپنی حدود کو آزمانے پہ مجبور کر دیتی ہے ۔ حالم از نمرہ احمد

سیرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ - کیوں؟

Image result for our prophet our honour
یہ شیخ مصطفی السباعی کی سیرت پر کتا ب: السیرۃ ا لنبویۃ دروس و عبر سے اقتباس ہے۔پڑھیے اور اپنے ایمان کو تازہ کیجیے۔

سیرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ - کیوں؟
ایک مسلمان ہونے کے ناطے یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی ہمارے لیے کامل نمونہ ہے۔ ہمارا یہ دعوی صرف عقیدت اور محبت کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقل کا فیصلہ بھی یہی ہے اور تاریخ کی گواہی بھی یہی ہے کہ ہر انسان کی کامیابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہے۔
سیرت نبوی کی متعدد خصو صیات ہیں جن کے مطالعہ سے نہ صرف یہ کہ تاریخی واقعات سے واقفیت حاصل ہوتی ہے بلکہ روح و عقل کو قوت حاصل ہوتی ہے۔ یہ مطالعہ جہاں علمائے کرام، دین کے داعیوں اور اجتماعی و سماجی مصلحین کے لیے بے حد ضروری ہے وہیں عام مسلمانوں کے لیے بھی ضروری ہے تاکہ وہ جان لیں کہ مشکلات ومسائل اور دکھوں اور پریشانیوں کا واحد علا ج اسلام ہی ہے۔ہم ذیل میں سیرت نبوی کی چند خصوصیات کا ذکر کرتے ہیں۔

پہلی خصوصیت

یہ ایک نبی، ایک عظیم ترین مصلح کی صحیح تر ین سیرت ہے۔ یہ سیرت ہم تک اس طریقے سے پہنچی ہے جس سے اس نبی کی زندگی کے نمایاں واقعات اور اہم حالات کی سچائی میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ جا تا۔ سیرت نبوی کی یہ خصوصیت شک و شبہ سے خالی ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ اس صفت میں کوئی نبی و رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔چنانچہ موسیٰ علیہ السلام کی سیرت صحیح ڈھنگ میں آج موجود نہیں ہے اور آپ کی سچی سیرت کا پتہ لگانے کے لیے موجودہ تو رات کا سہارا بھی نہیں لیا جاسکتااس لیے کہ علما ئے یہود نے اس میں ترمیم و تبدیلی کر دی ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کی سیرت کا حال بھی یہی ہے۔ چنانچہ جس مجموعے کو انجیل کہا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے لکھنے والوں کے بارے میں بہت اختلاف ہے کہ وہ کون لوگ تھے اور کس زما نے کی پیداوار تھے؟
یہ تو دنیا کے مختلف مذاہب کے انبیاء اور رسولوں کی سیرتوں کا حال ہے، رہا دوسرے نظریات کے بانی اور فلسفیوں کی سیرتوں کا حال تو بس کاہنوں کی من گھڑت کہانیاں اور کچھ قصے ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتے رہے ہیں جنہیں ضد و عصبیت سے آزاد روشن عقل کبھی صحیح نہیں مان سکتی۔ غرض یہ کہ صحیح تر ین سیرت اور علمی دلائل اور تواتر کی حد تک سچائی کو پہنچی ہوئی زندگی بس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی ہے!

دوسری خصو صیت

ہم رسول اللہ علیہ وسلم کی زند گی کے تمام مراحل سے پوری طرح واقف ہیں۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کی شادی سے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک پوری زندگی سے آگاہ ہیں۔ ہم آپ کی ولادت، بچپن، جوانی، نبوت سے پہلے کے روز گاراور کمائی، مکہ کے با ہر اس مقصد کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر کر نا، پھرنبی بننا غرض یہ کہ سا رے حا لا ت اچھی طرح جا نتے ہیں۔ پھر ا س کے بعد سال بہ سال مکمل حالات نہا یت واضح، مکمل اور نمایاں شکل میں ہمارے سا منے ہیں جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سورج سے بھی زیا دہ روشن ہو جاتی ہے۔ آپ کی نجی زندگی، ا ٹھنا بیٹھنا، کھا نا پینا، لباس شکل و صورت، گفتگو، خاندان کے لوگوں سے معاملہ اور برتاؤ، عبادت و نماز، دوستوں کی صحبت و معاشرت غرض یہ کہ پوری زندگی ہماری نگاہوں کے سامنے ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان کرنے والوں کی محنت اتنی زیادہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک اور داڑھی میں موجود سفید بالوں کی تعداد تک بیان کر ڈالی ہے۔ اس کی مثال کسی دوسرے رسول کی زندگی میں نہیں ملتی۔ اسی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ آخری نبی ہو کر دنیا میں تشریف لائے تھے۔

تیسری خصوصیت

ﷲ کے رسول کی سیرت ایک ایسے انسان کی سیرت ہے جسے اﷲ نے اپنا رسول بنایا تھا لیکن یہ سیرت انسانی حدود و اختیار سے باہر نہیں ہے۔ مفید نصیحتوں، میٹھی میٹھی باتوں اور اچھی اچھی تعلیمات کی دنیا میں کمی نہیں، کمی جس چیز کی ہے وہ کام اور عمل ہے۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس بات کی دعوت دی خود اپنے عمل سے اس کو قابل عمل ثابت کیا۔ صلح و جنگ، فقر و دولت مندی، بندے اور رب کا تعلق، انسانوں کے آپس کے تعلقات، معاشرتی زندگی، ذاتی زندگی غرض یہ کہ ہر پہلو سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی مثال پیش کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس پر عمل کیا اور ان کے بعد بھی کروڑوں انسانوں نے اس پر عمل کرکے اس کے عملی ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔در حقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہر اس انسان کے لیے مکمل انسانی نمو نہ اور ا سوہ ہے جو خود شرافت کی زند گی بسر کرنا چاہتا ہے اور اپنے خاندان اور ماحول میں پاکیزہ رہنا چاہتا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں کہتا ہے:
{در حقیقت تم لوگوں کے لیے اﷲ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے ہر اس شخص کے لیے جو اﷲ اور یوم آخرت کا امیدوار ہو اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہو} (احزاب: ۲۱)

چو تھی خصو صیت

یہ صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے جو ہمیں وہ دلیلیں فراہم کرتی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور نبوت کی سچائی میں کوئی شبہ باقی نہیں رہنے دیتیں۔ یہ ایک انسان کامل کی سیر ت ہے جو اپنی دعوت کو لے کر مر حلہ وار آگے بڑھا۔ معجزوں کے بل پر نہیں بلکہ فطری طریقے سے سارے مراحل طے کیے۔ دعوت دی تو ستا ئے گئے۔ تبلیغ کی تو ساتھیوں کی جماعت فراہم ہوئی۔ فاقے کیے، وطن چھوڑا۔جنگ پر مجبور ہوئے تو اس سے بھی نہ رکے۔ خود زخم کھائے ساتھیوں نے جانیں قربان کیں، آپ کی قیادت حکمت اور عقلمندی کا شاہکار تھی۔ چنانچہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی ہے آپ کی دعوت تلوار کے زور پر نہیں بلکہ دعوت و عمل کے راستے سے پورے عر ب پر چھا چکی تھی۔ جس شخص کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی تاریخ معلوم ہے وہ جانتا ہے کہ عربوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جس طر ح مخالفت کی، آپ کو قتل کرنے کی جو سازشیں کیں، آپ پر جنگ مسلط کی۔ اس کے باوجود ہر معرکہ میں افرا د اور اسلحہ کی کمی کے باوجود آپ کو فتح نصیب ہوئی، صلح اور معاہدوں کو تا وفات آپ نے جس طرح نبھایا اور تئیس (23) سال کی مختصر مدت میں جس طرح آپ کی دعوت پھیلی، اور جو قوت و طاقت حاصل ہوئی وہ اس وجہ سے ہوئی کہ آپ درحقیقت اﷲ کے نبی تھے اور یہ کہ جو شخص جھوٹا ہو اس کی اس طرح کی مدد اللہ نہیں کر سکتا۔ چنانچہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت عقل کی بنیاد پر بھی اپنی نبوت کی سچائی و حقانیت ثابت کرتی ہے۔
یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جو معجزات آپ سے صادر ہوئے، وہ عربوں کے ایمان لانے کا بنیادی سبب نہیں تھے بلکہ ہمیں کوئی ایسا معجزہ نظر نہیں آتا جس کی وجہ سے کافروں نے اسلام قبول کر لیا ہو، بلکہ جو لوگ بھی مسلمان ہوئے عقل و وجدان کے اطمینان کے ذریعہ ہی مسلمان ہوئے۔ اور جب کفار قریش نے پچھلی قوموں کی طرح معجزات کا مطالبہ کیا تو اﷲ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ جواب میں کہیں:
{اور انھوں نے کہا ہم تیری بات نہ مانیں گے جب تک کہ تو ہمارے لیے زمین کو پھاڑ کر ایک چشمہ جاری نہ کر دے یا تیرے لیے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ پیدا ہو اور تو اس میں نہریں نکال دے۔ یا تو آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہمارے اوپر گرا دے جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے یا اللہ اور فر شتوں کو ہمارے سامنے لے آئے یا تیرے لیے سونے کا ایک گھر بن جائے یا تو آسمان پر چڑھ جائے، اور تیرے چڑھنے کا بھی ہم یقین نہ کریں گے جب تک کہ تو ہمارے پاس ایک ایسی تحریر نہ ا تار لائے جسے ہم پڑھیں، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہو: پاک ہے میرا پروردگار،کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اور کچھ بھی ہوں۔} (بنی اسرائیل:۹۰تا۹۳)
مزید یہ کہ معجزات بس دیکھنے والوں کے خلاف ہی دلیل بن سکتے ہیں اور بعد کے جن لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا، نہ آپ کے معجزات کو دیکھا وہ محض عقلی و قطعی دلائل کی وجہ سے آپ پر ایمان لائے اور ان عقلی دلائل میں سرفہرست قرآن کر یم ہے۔ یہ کتاب ایک عقلی معجزہ ہے جو ہر انصاف پسند اور صاحب عقل کو اس امر پر مجبور کر دیتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صدق و سچّائی اور نبوت و رسالت کی صداقت پر ایمان لائے۔ سورہ عنکبوت میں اﷲ تعالیٰ صاف کہتا ہے :
{یہ لوگ کہتے ہیں کہ کیوں نہ ا تاری گئیں اس شخص پر نشانیاں اس کے رب کی طرف سے؟ کہو نشانیاں تو اﷲ کے پاس ہیں اور میں صرف خبردار کرنے والا ہوں کھول کھول کر۔ اور کیا ا ن لوگوں کے لیے یہ نشانی کافی نہیں ہے کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے؟ درحقیقت اس میں رحمت ہے اور نصیحت ان لوگوں کے لیے جوایمان لاتے ہیں۔} (عنکبوت:۵۰،۵۱)
جو شخص قرآن کا مطالعہ گہرائی سے کرے گا وہ یہ محسوس کرے گا کہ اس کتاب نے اطمینان وسکون بخشنے کے لیے عقل کے فیصلے، محسوس و نظر آنے والے مناظر اور مکمل معرفت کا سہارا لیا ہے کیونکہ رسول امی تھے اور اس ا میّت کو قرآن نے آپ کی نبوت کی صداقت پر دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔
آپ کی سیرت اس حوالے سے تمام دوسرے انبیاء کی سیرتوں سے قطعی مختلف ہے جن کی سیرتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ عوام ان پر ایمان اسی وقت لا ئے جب ان کے ہاتھوں انہوں نے معجزات و خوارق دیکھ لیے۔ ان کی دعوت کے اصولوں اور قواعد کی سچائی میں انہوں نے عقل کے فیصلہ کو نہیں مانا۔ اس کے برخلاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی ایک فرد بھی معجزات یا خارق عادت کسی چیز کو دیکھ کر ایمان نہیں لایا اسی طرح قرآن بالکل واضح اعلان کرتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم انسان ہیں، رسول ہیں اور یہ کہ رسالت کے دعوے میں معجزات و خوارق پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ وہ تو عقلوں اور دلوں کو مخاطب کرتا ہے:
{پس جسے اﷲ ہدا یت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔} (انعام:۱۲۵)

پا نچویں خصوصیت 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت انسانی زندگی کے تمام گوشوں اور شعبوں کے لیے تعلیمات دیتی ہے۔ یہ ہما رے سامنے اس نو جوان کی زندگی پیش کرتی ہے جو رسالت سے پہلے سچے اور امانت دار کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا۔ اس رسول کی زندگی ہمارے سامنے رکھتی ہے جو ایک اﷲ کی دعوت دیتا تھا اور اپنی دعوت کو پھیلانے کے لیے بہترین طریقے اختیار کرتا تھا۔ اپنے پیغام کو پہنچا نے میں ا نتہا درجہ کی طاقت اور صلاحیت اور محنت صرف کر تا تھا۔ اسی طرح ہمارے سامنے ایک ایسے سربراہ مملکت کی تصویر آ تی ہے جو اپنی مملکت کے لیے بہترین اور صحیح ترین انتظام کرتا تھا اور اپنی سمجھداری اور ہوش مندی، اخلاص و صداقت کے ذریعہ اس کی حفاظت کرتا تھا جس سے اس کی کا میابی یقینی ہو جاتی تھی۔ اسی طرح ہمارے سامنے ایک ایسے نبی کی زندگی ہے جو شوہر تھا، باپ تھا، شفقت و محبت کا پیکر، معاملات کا درست شوہر، بیوی بچوں کے تمام حقوق و ذمہ داریوں کو ادا کرنے والا تھا۔ ا یسا رسول جو مرشد مربی تھا، اپنے ساتھیو ں کی ایسی مثالی تربیت کرتا تھا کہ اپنا دل ان کے دلوں میں اتار دیتا اور اپنی روح ا ن کی ارواح میں بسا دیتا تھا جس کی وجہ سے چھوٹے بڑ ے تما م معاملات میں اس کے حکم کی اتباع کرتے تھے۔ بہترین دوست جو دوستی کی ذمہ داریاں پہچانتا اور انہیں اچھی طرح ادا کرتا تھا جس کی وجہ سے اس کے ساتھی اس سے اپنی جان سے ز یادہ محبت کرتے تھے، ا پنے اہل عیال اورعزیزوں سے زیادہ اسے محبوب رکھتے تھے۔ ایک سپہ سالار، ایک کامیاب جج، ایک کامیاب معلم، ایک کامیاب رہبر، ایک کامیاب سیاسی قائد، امانت دار تاجر اور سچا معاہدہ کرنے والا، غرض یہ کہ اللہ کے رسول کی سیرت زندگی کے تمام گوشوں پر محیط ہے اور ہر داعی، ہر رہبر، ہر باپ، ہر شوہر، ہر دوست، ہر مربی، سیا ستداں، سربراہ مملکت وغیرہ کے لیے بہترین نمو نہ ہے۔
ہم اس درجہ مکمل یا اس سے ملتی جلتی جامعیت کہیں نہیں پاتے۔ تاریخ ہمارے سامنے جن افراد کو کامیاب بنا کر پیش کرتی ہے وہ زندگی کے کسی ایک ہی میدان میں نمایاں ہوئے اور اس میں شہرت پائی۔ وہ تنہا انسان جو تمام طبقوں، گروہوں اور ہر فرد کے لیے نمونہ بن سکتا ہے بس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ہے۔ 

بذریعہ: اردو محفل

یہ شیخ مصطفی السباعی کی سیرت پر کتا ب: السیرۃ ا لنبویۃ دروس و عبر سے اقتباس ہے۔پڑھیے اور اپنے ایمان کو تازہ کیجیے۔ سیرت ...

بُری مجلس میں شرکت - خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 06 جولائی 2018

Image result for ‫مسجد نبوی‬‎
بُری مجلس میں شرکت
 خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
امام و خطیب: جسٹس صلاح بن محمد البدیر
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
بشکریہ: دلیل ویب

فضیلۃ الشیخ جسٹس صلاح بن محمد البدیر حفظہ اللہ نے 22 شوال 1439 کا خطبہ جمعہ بعنوان "بُری مجلس میں شرکت" مسجد نبوی میں ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ برے لوگوں کی تعداد میں اضافے کا باعث مت بنیں، اور ایسی مجالس سے یکسر کنارہ کشی اختیار کریں جن میں فسق و فجور والے کام کئے جاتے ہیں، اگر کسی کو ضرورت کی بنا پر جانا بھی پڑ جائے تو انہیں برے کاموں پر ٹوکے، اگر وہ استطاعت کے ہوتے ہوئے بھی برائی سے نہیں روکتا تو وہ بھی گناہ میں برابر کا شریک ہو گا، اس لیے اسے چاہیے کہ ایسی مجلس سے اٹھ کر چلا جائے، اسی حکم کی عدم تعمیل پر سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے ایک روزے دار شخص کو شراب کی محفل میں پکڑے جانے کی بنا پر سب سے پہلے سزا دلوائی حالانکہ وہ شراب نوشی میں شریک نہیں تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جدید دور میں گمراہ کن ویب سائٹس اور حیا باختہ چیزوں کو لائک کرنے اور ان کا وزٹ کرنے سے انسان ان برائیوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے، اس لیے ان سے کلی طور پر اجتناب کریں، دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ گناہ کر کے اس کی تشہیر مت کریں، اور اللہ کے حرام کردہ کاموں کو حلال مت سمجھیں، نام نہاد فقیہوں کے فتووں سے دھوکا مت کھائیں، اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو دیکھ کر عبرت حاصل کر لیں کہ اللہ تعالی نے تمہیں کتنی نعمتوں میں رکھا ہوا ہے اس لیے ان نعمتوں کا غلط استعمال مت کریں۔ آخر میں انہوں نے سب کے لیے دعا بھی فرمائی۔

~!~ منتخب اقتباس ~!~

اللہ تعالی کی نعمتوں اور عنایتوں کے برابر تعریفیں اسی کے لیے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے رسول ، نبی، چنیدہ، راز دار، ولی، پسندیدہ اور برگزیدہ بندے ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی اولاد اور صحابہ کرام پر اس وقت تک رحمتیں ، برکتیں اور سلامتی نازل فرمائے جب تک صبح کا اجالا چمکتا رہے اور سویرے پو پھوٹتی رہے۔

مسلمانو!

نافرمانوں کی مجالس سے کنارہ کشی، ان سے لا تعلقی، ان کے میدانوں سے دوری، ان کی جگہوں سے علیحدگی، گناہگاروں کی صحبت سے اجتناب، ان کے ساتھ سفر پر جانے سے پرہیز صائب رائے اور نور بصیرت کی علامت اور دلیل ہے۔

دل بہت کمزور ہوتے ہیں۔ کسی کی مشابہت اپنانے سے انسان ویسا ہی بن جاتا ہے، فتنے ٹھاٹھے مار رہے ہیں۔ صاحب بصیرت انسان ایسے لوگوں کی مجلس میں جانے سے اجتناب کرتا ہے جو دلوں کو بیمار کر دیں اور ایمان بگاڑ دیں۔ بصیرت رکھنے والا انسان فتنے میں مبتلا گمراہ لوگوں سے خبردار رہتا ہے، جو کہ صحیح عقیدے سے بھٹک چکے ہوں، جو لوگ اچھے اور پر وقار کاموں اور مسلمانوں کی اخلاقیات سے دور ہو چکے ہوں۔

 اگر کوئی لوگوں کی کسی مجلس میں بیٹھا ہو اور وہاں کوئی نافرمانی ، یا بدعت پر عمل کیا جا رہا ہو تو ایسے میں اس پر حکمت اور اچھے انداز کے ساتھ انہیں غلطی سے روکنا واجب ہو جاتا ہے، اسے چاہیے کہ انہیں بہترین انداز اور حق واضح کر دینے والے دلائل کے ساتھ نصیحت کرے تا کہ ان کے شبہات زائل ہو جائیں۔ اور اگر اس شخص نے انہیں ٹوکنے کی استطاعت کی باوجود نہیں ٹوکا تو وہ بھی گناہ میں شریک ہو گا؛ لیکن اگر اس میں ٹوکنے کی بھی سکت نہ ہوئی تو اس پر ان کی مجلس سے اٹھ جانا لازم ہے؛ کیونکہ کسی کی صحبت اور کسی کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا؛ الفت ، میلان اور غلطیوں سے چشم پوشی کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ بلکہ بسا اوقات دل میں ایسی مودت کا باعث بھی بن جاتے ہیں جو انسان کو آزمائش میں ڈال کر رہتی ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا} 
 اور تم پر اللہ تعالی نے کتاب میں نازل کر دیا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو تم ان کے ساتھ بھی مت بیٹھو، یہاں تک کہ وہ کسی اور گفتگو میں محو ہو جائیں، وگرنہ تم بھی انہی میں سے ہو جاؤ گے، بیشک اللہ تعالی سب منافقوں اور کافروں کو جہنم میں ایک جگہ اکٹھے کرنا والا ہے۔[النساء: 140]

امام طبری رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں: "اس آیت میں واضح طور پر بدعتی اور فاسق ہمہ قسم کے اہل باطل کے ساتھ بیٹھک کی ممانعت ہے کہ جب وہ اپنے باطل کا تذکرہ کر رہے ہوں تو ان کے ساتھ مت بیٹھو"

اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: " کسی کے لیے بھی اپنی مرضی سے اور بغیر ضرورت کے گناہوں کی مجالس میں شریک ہونا جائز نہیں ہے؛ جیسے کہ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو وہ ایسے دستر خوان پر مت بیٹھے جہاں شراب پی جا رہی ہو ) ایسے ہی سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ تک یہ بات پہنچائی گئی کہ :"کچھ لوگ شراب نوش ہیں تو انہوں نے انہیں کوڑے مارنے کی سزا سنائی ، تو انہیں بتلایا گیا: ان میں ایک روزے دار بھی ہے، تو انہوں نے کہا: سب سے پہلے اسی کو کوڑے مارو؛ کیا تم نے اللہ تعالی کا یہ فرمان نہیں سنا:
{وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ }
  اور تم پر کتاب میں نازل کر دیا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو تم ان کے ساتھ بھی مت بیٹھو، یہاں تک کہ وہ کسی اور گفتگو میں محو ہو جائیں، وگرنہ تم بھی انہی میں سے ہو جاؤ گے۔[النساء: 140]

مسلمانو!

اہل بدعت، اہل باطل اور گناہگاروں کی تعداد میں اضافے کا باعث نہ بنو، کبھی بھی تمہارا شمار ان لوگوں میں نہ ہو جو فتنوں میں مبتلا ہیں اور فسادی ہیں۔ جیسے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : " مسلمانوں میں سے کچھ لوگ مشرکین کے ساتھ مل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ میں حاضر ہو کر مشرکوں کی تعداد میں اضافے کا باعث بنتے تھے، تو انہی میں سے کسی کو کوئی تیر لگ جاتا اور مشرکوں کے ساتھ آنے والا مسلمان قتل ہو جاتا، یا کوئی مسلمان اس پر وار کر کے اسے قتل کر دیتا تو اللہ تعالی نے یہ آیات نازل فرما دیں:
 {إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ}
بیشک جب فرشتے ایسے لوگوں کی روح قبض کرتے ہیں جو اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے ہوتے ہیں۔ [النساء: 97]" بخاری

لہذا اگر کوئی شخص برائی کی مجالس میں حاضر ہو کر ان سے مانوس ہوتا ہے، ان کی حرکتوں پر خوش ہوتا ہے، یا ان کے کام کو سراہتا ہے، یا ان کے کام کی ترویج کرتا ہے ، یا ان کی تائید کرتا ہے، یا گمراہ ویب سائٹس کی تائید کرتا ہے، یا حیا باختہ ویب سائٹس کے صفحات ، یا دین، اخلاق اور ملکی سالمیت کے خلاف ویب سائٹس کی تائید کرتا ہے، یا ان کو لائک کی علامت دیتا ہے تو وہ بھی ان کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے اور اس کا شمار اُنہی برے لوگوں میں ہو گا۔

مسلمانو!

اپنے گناہوں کی تشہیر مت کرو، اپنے گناہوں کا اعلان مت کرو، اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں کو حلال مت جانو۔ متساہل اور نام نہاد فقیہوں کے فتووں سے دھوکا مت کھائیں جو بلا یقین اور پختگی کے بغیر فتوے صادر کرتے ہیں، اور آسانی، وسطیت اور اعتدال کے نام پر پستی کی طرف گرتے چلے جا رہے ہیں!!

اپنے گناہ کو عیاں اور گناہ کی تشہیر کرنے والا شخص پروردگار کو غضبناک کر رہا ہے، وہ اللہ تعالی کی پردہ پوشی ختم کر رہا ہے، ایسا شخص اللہ تعالی کے عذاب کو معمولی سمجھ رہا ہے، اس نے اعلان گناہ کر کے اللہ کے مومن بندوں کو تکلیف پہنچائی ہے۔

اہل اسلام! اللہ تعالی سے ڈور! فراوانی اور نعمتوں کی بہتات سے دھوکا مت کھانا، اللہ تعالی کی عنایتوں کو اسی کی نافرمانیوں میں استعمال نہ کرو، اپنے گناہوں کا اعلان نہ کرو، اللہ تعالی نے تمہیں فراوانی والی زندگی عطا کی ہے، پینے کے لیے سیراب کرنے والا پانی دیا، حالانکہ تمہارے ارد گرد لوگوں بھوک افلاس اور بے دردی کی موت قتل کر رہی ہے۔

یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد پر درود و سلام نازل فرما، یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین، تمام صحابہ کرام، اہل بیت اور تابعین و تبع تابعین سے راضی ہو جا، اور ان کے ساتھ ساتھ ہم سے بھی راضی ہو جا، یا کریم! یا وہاب!


بُری مجلس میں شرکت  خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) امام و خطیب: جسٹس صلاح بن محمد البدیر ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل بشکریہ: دلیل ویب ...

تزکیہ نفس،،، اہمیت، ذرائع اور فوائد - خطبہ جمعہ مسجد نبوی ( اقتباس) ۔۔۔ 29 جون 2018

تزکیہ نفس،،، اہمیت، ذرائع اور فوائد
 خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
امام و خطیب: ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
بشکریہ: دلیل ویب

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے 15 شوال 1438 کا خطبہ جمعہ "تزکیہ نفس،،، اہمیت، ذرائع اور فوائد" کے عنوان پر مسجد نبوی میں ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ جب تک ہر شخص کو حقوق پورے نہیں ملتے عدل قائم نہیں ہو گا جبکہ انسان پر سب سے پہلے اپنے نفس کے حقوق لاگو ہوتے ہیں، ان حقوق میں سے تزکیہ نفس سر فہرست حق ہے۔ تزکیہ نفس کی اہمیت کے پیش نظر رسولوں کو مبعوث کیا گیا اور انبیائے کرام نے حصول تزکیہ کیلیے دعائیں بھی مانگیں۔ داعیان اسلام بھی تزکیہ کی خاطر کمتر لوگوں کو بھی دعوت دینے سے نہیں کتراتے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں سب سے زیادہ یکجا قسمیں اٹھا کر یہی فرمایا ہے کہ تزکیہ نفس حاصل کرنے والا کامیاب ہے۔ مومن حضرات تزکیہ نفس کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں؛ کیونکہ آخرت میں جنت اور جنت میں بلند مقام انہی کو حاصل ہو گا۔ تزکیہ نفس کے لیے تگ و دو ہر مسلمان پر ضروری ہے، اور تزکیہ کے لیے عقیدہ توحید مجرب اور فعال ترین راستہ ہے۔ حصول تزکیہ کے لیے نماز، زکاۃ، حج، روزہ، حقوق العباد کی ادائیگی، حصول تزکیہ کی دعا، ذکر الہی، قرآن مجید کی تلاوت، قرآنی تعلیمات پر عمل ، آنکھوں اور زبان کی حفاظت، قبرستان کی زیارت، گناہوں سے دوری، اور حصول علم نافع ؛تزکیہ نفس کے شرعی ذرائع میں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کتاب و سنت؛ تزکیہ نفس کے لیے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں اور یہی دین الہی اور صراط مستقیم ہے۔ دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ: لوگوں میں جس قسم کی بھی تبدیلی رونما ہو اس کی وجہ لوگوں کے ہی اخلاق یا کردار میں تبدیلی ہوا کرتی ہے، یہ اللہ تعالی کا اٹل فیصلہ ہے، اس لیے اپنے آپ کو سنوارنے اور سدھارنے سے ، اللہ تعالی کے ساتھ اچھا تعلق بنانے سے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں، تاہم مومن کا خاص طریقہ کار یہ ہے کہ وہ خوب محنت اور مشقت کرنے کے باوجود خود ستائشی کا شکار نہیں ہوتا۔ آخر میں انہوں نے جامع دعا کروائی۔

~!~ منتخب اقتباس ~!~

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اسی کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی اسی سے مانگتے ہیں، نفسانی اور بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم -اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔

مسلمانو!

لوگوں میں بہتری اور استحکام اسی وقت آئے گا جب ہر ایک کو ان کا حق ملے گا، در حقیقت یہی وہ عدل ہے جس کے باعث آسمان و زمین قائم ہیں، دنیا اور آخرت کے قائم دائم ہونے کی بنیاد بھی عدل ہے۔ ہر شخص پر حقوق واجب ہیں ان کے بارے میں روزِ قیامت باز پرس بھی ہو گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکا فرمان ہے: (اور بیشک تمہارے نفس کا تم پر حق ہے) مسند احمد۔

نفس کا سب سے بڑا حق تزکیہ ہے، اس کے ذریعے نفس تباہی اور مذموم صفات سے محفوظ ہو جاتا ہے، اور چونکہ نفس برائی کا بہت زیادہ حکم دیتا ہے نیز اس کے شر سے پناہ بھی مانگی جاتی ہے، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمفرمایا کرتے تھے: ( أَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِيْ    [اپنے نفس کے شر سے [یا اللہ]میں تیری پناہ چاہتا ہوں])مسند احمد، پھر چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبات کی ابتدا میں کہا کرتے تھے: (اور ہم اپنے نفسوں کے شر سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں) ترمذی۔ اس لیے نفس کی اصلاح کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں، نیز اصلاح نفس کا عمل اللہ تعالی کے ہاں محبوب بھی ہے، اسی لیے فرمایا:
 {مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ
اللہ تعالی تم پر کسی قسم کی تنگی ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ وہ تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے۔[المائدة: 6]
 یعنی اللہ تعالی تمہارا ظاہر اور باطن پاک فرمانا چاہتا ہے۔

تزکیہ نفس کی اہمیت کے پیش نظر رسولوں کی بعثت کا ایک مقصد تزکیہ نفس ہی تھا، جیسے کہ ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ اس امت میں رسول مبعوث فرما جو ان کا تزکیہ نفس کرے، انہوں نے دعا کرتے ہوئے کہا تھا:
 {رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ} 
اے ہمارے رب ان میں، انہی میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور ان کا تزکیہ کرے ۔ [البقرة: 129]

ہمہ قسم کی کامیابی بھی تزکیہ نفس میں ہے، جبکہ عین یقینی خسارہ فقدان تزکیہ سے ہو گا؛ اسی بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں سب سے زیادہ قسمیں اٹھا کر فرمایا:
 {قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا (9) وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا} 
کامیاب ہو گیا وہ شخص جس نے تزکیہ نفس کر لیا [9] اور جس نے اسے خاک میں ملا دیا وہ ناکام ہو گیا۔[الشمس: 9، 10] 
اس کی تفسیر میں قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "کامیاب ہو گیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کا تزکیہ اللہ تعالی کی اطاعت اور نیک اعمال کے ذریعے کر لیا" اور یہی تمام کے تمام پیغمبروں کی دعوت کا خلاصہ ہے۔

مومنوں کی صفات میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنے نفس کا خود تزکیہ کرتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ}
 اور وہ لوگ جو زکاۃ دینے والے ہیں۔[المؤمنون: 4]

 اس کی تفسیر میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یہاں آیت میں زکاۃ سے تزکیہ نفس اور مال کی زکاۃ دونوں مراد ہیں، چنانچہ کامل مومن دونوں کا بھر پور اہتمام کرتا ہے" لہذا اگر کسی کا تزکیہ نفس ہو جائے تو یہ اس پر اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت اور کرم ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَى مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا}
 اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت شامل حال نہ ہوتی تو تم میں سے کسی کا بھی تزکیہ نہیں ہو سکتا تھا۔ [النور: 21]

آخرت میں جنت بھی اسی شخص کو بدلے میں ملے گی جو اپنی اصلاح کرے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى (40) فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى}
 ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ہوگا۔[40] تو بیشک جنت ہی اس کا ٹھکانا ہو گی۔ [النازعات: 40، 41]

 پھر جنتوں میں اعلی ترین درجہ اسی کو ملے گا جو اپنا تزکیہ کر لے.

تزکیہ نفس کےلیے ایک اللہ کی عبادت سے بڑھ کچھ کار گر نہیں ، مخلوق کا تزکیہ عقیدہ توحید کے بغیر ممکن نہیں، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے: 
{وَوَيْلٌ لِلْمُشْرِكِينَ (6) الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ}
 اور تباہی ہے مشرکوں کیلیے [6] جو اپنا تزکیہ نہیں کرتے اور وہ آخرت پر ایمان سے انکاری ہیں۔[فصلت: 6، 7]
 شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یہاں زکاۃ سے مراد عقیدہ توحید اور ایمان ہے ان کے ذریعے دل پاکیزہ ہو جاتے ہیں؛ کیونکہ عقیدہ توحید میں دل سے غیر اللہ کی الوہیت کی نفی اور صرف اللہ کی الوہیت کا اثبات ہوتا ہے، اور لا الہ الا اللہ کی حقیقت بھی یہی ہے، اس لیے عقیدہ توحید تزکیہ قلب کیلیے بنیادی ترین امر ہے۔"

نماز تزکیہ نفس اور بندے کو پاکیزہ بنانے کا ذریعہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ} 
بیشک نماز بے حیائی اور برائی کے کاموں سے روکتی ہے۔ [العنكبوت: 45] 
نماز کی وجہ سے نمازیوں کے حالات سنورتے ہیں اور ان کے گناہ بھی مٹ جاتے ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (تم مجھے بتلاؤ کہ: اگر تمہارے گھر کے دروازے کے پاس سے کوئی نہر گزرتی ہو اور وہ وہاں پر یومیہ پانچ بار غسل کرے تو کیا اس کی میل کچیل باقی رہے گی؟) تو انہوں نے کہا: "نہیں، اس کی بالکل بھی میل کچیل باقی نہیں رہے گی" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: (پانچوں نمازوں کی بھی یہی مثال ہے، اللہ تعالی ان نمازوں کے ذریعے گناہوں کو مٹا دیتا ہے) متفق علیہ

مالی زکاۃ اور صدقہ دینے سے بھی تزکیہ نفس اور نفس کی صفائی ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا}
 ان کے اموال میں سے صدقات وصول کر کے انہیں پاک کریں اور ان کا تزکیہ کریں۔[التوبة: 103] 
نیز جہنم سے آزادی بھی ایسے شخص کا بدلہ ہے جو اپنے مال کی زکاۃ دے کر تزکیہ نفس کرتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى (17) الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّى}
 جہنم سے متقی بچ پائے گا [17] جو اپنا مال تزکیہ نفس کیلیے [راہ الہی میں]دیتا ہے۔[الليل: 17، 18]

روزہ بھی نفس کو شر، آفات اور بے حیائی سے روکتا ہے، بلکہ روزے داروں کو فحش امور سے بھی بچاتا۔ فرمانِ باری تعالی ہے:
 {يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ}
 اے ایمان والوں تم پر روزے اسی طرح فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تا کہ تم متقی بن جاؤ۔[البقرة: 183]

حج میں بھی تزکیہ نفس ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ}
 جو شخص ان ایام میں حج کا ارادہ رکھتا ہو وہ دوران حج نہ شہوت کی باتیں کرے ‘ نہ گناہ کرے اور نہ لڑائی جھگڑا کرے۔ [البقرة: 197] 
بلکہ مقبول حج والا شخص گناہوں سے پاک صاف ہو کر اپنے گھر ایسے لوٹتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص بھی اللہ کیلیے حج کرے اور بیہودگی سمیت فسق بھی نہ کرے تو وہ ایسے واپس لوٹتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا) متفق علیہ

حقوق العباد سے متعلق اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل بھی تزکیہ نفس کا باعث بنتی ہے، چاہے ان احکامات کی تعمیل دل پر گراں گزرے ، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَإِنْ قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكَى لَكُمْ}
 اور اگر تمہیں کہا جائے کہ واپس لوٹ جاؤ تو تم واپس چلے جاؤ ، یہ تمہارے لیے زیادہ تزکیہ کا باعث ہے۔[النور: 28]

اور دعا بھی بہت عظیم عبادت ہے، دعا کے ذریعے انسان اپنی تمنائیں پا لیتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عام طور پر دعا ہوا کرتی تھی کہ: 
   (اَللَّهُمَّ آتِ نَفْسِيْ تَقْوَاهَا وَزَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا)
 [یا اللہ! میرے نفس کو تقوی عطا فرما، اور اس کا تزکیہ فرما، بیشک توں ہی سب سے بہترین تزکیہ کرنے والا ہے]) مسلم

علم نافع حاصل کرنے والوں کا تزکیہ نفس علم سے ہوتا ہے، یہی علم ان کا رہنما بن جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ}
 آپ ان سے پوچھیں: کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ مگر ان باتوں سے سبق تو وہی حاصل کرتے ہیں جو اہل عقل و خرد ہوں۔ [الزمر: 9]
 پھر یہی علم اس شخص کو آگے لے کر جاتا ہے یہاں تک کہ وہ شخص تزکیہ نفس کی بلندیوں پر پہنچ کر اہل خشیت میں شامل ہو جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ}
 بیشک اللہ تعالی کے بندوں میں سے اللہ سے علم والے ہی ڈرتے ہیں۔[فاطر: 28]

نظریں جھکانے سے بھی تزکیہ نفس ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ}
مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں؛ یہ ان کے زیادہ تزکیہ کا باعث ہے۔[النور: 30]
 نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اور جو شخص شادی کی ضروریات کی استطاعت رکھتا ہو تو وہ نکاح کر لے، بیشک نکاح نظریں جھکا دیتا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے، اور جس کے پاس استطاعت نہ ہو تو وہ روزے رکھے، یہ اس کی شہوت توڑ دیں گے۔ ) متفق علیہ

فضول نظریں گھمانے اور فضول گفتگو کرنے سے پرہیز تزکیہ نفس کے لیے ضروری ہے، ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "سب سے زیادہ گناہ فضول گفتگو اور بد نظری کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں، اور یہی دونوں شیطان کے لیے داخل ہونے کے وسیع ترین راستے ہیں؛ کیونکہ زبان اور نظر کے حملوں میں کبھی کمی یا ٹھہراؤ نہیں آتا"

انسانی نفس کا تزکیہ اور عمل میں عمدگی اس وقت تک نہیں آتی جب تک ان سے متصادم امور معدوم نہ ہو جائیں، یہی وجہ ہے کہ تزکیہ اسی وقت ہوتا ہے جب انسان برائیوں کو یکسر چھوڑ دے، لہذا تزکیہ اگرچہ لغوی طور پر خیر میں اضافے ، برکت، اور افزودگی پر بولا جاتا ہے لیکن تزکیہ حاصل اسی وقت ہو گا جب برائیاں یکسر معدوم ہوں، تو اس طرح تزکیہ نفس اپنے اندر خیر میں اضافہ اور برائی سے پاکیزگی دونوں جمع کر لیتی ہے۔

ان تمام تر تفصیلات کے بعد: مسلمانو!

تزکیہ نفس کی بنیاد کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؛ کہ اطاعت اللہ تعالی کی ہو اور اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی؛ یہی دو چیزیں سبیل اللہ، دین الہی اور صراط مستقیم ہیں، انہی کی بدولت تزکیہ اور اصلاح نفس ممکن ہے، انہی سے تمام لوگوں کو کامیابیاں اور عزتیں ملیں گی۔

 أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ: {وَمَنْ تَزَكَّى فَإِنَّمَا يَتَزَكَّى لِنَفْسِهِ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ}
 اور جو تزکیہ نفس کرے گا تو وہ اپنے لیے تزکیہ کرے گا، اور اللہ کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔ [فاطر: 18]

مسلمانو!

لوگوں میں رونما ہونے والی تبدیلی چاہے وہ اچھی ہو یا بری، فراخی کی ہو یا تنگ دستی والی، یا اس تبدیلی کا تعلق امن یا خوف سے ہو؛ یہ تمام تر تبدیلیاں لوگوں کی شخصیات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے ماتحت ہوتی ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ}
 اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے آپ کو خود نہ بدل لیں۔[الرعد: 11] 
لہذا لوگوں کو کچھ بھی ہو اس کا منبع اور سبب خود لوگ ہی ہوتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّى هَذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ}
 جب تم پر مصیبت آئی تو تم چلا اٹھے کہ "یہ کہاں سے آگئی ؟" حالانکہ اس سے دو گنا صدمہ تم ان [کافروں ]کو پہنچا چکے ہو ؟ آپ ان سے کہہ دیں: یہ تمہاری اپنی طرف سے ہے ۔[آل عمران: 165]

خلوت اچھی بنانے والے کی جلوت کو اللہ تعالی اچھا بنا دیتا ہے۔ اللہ سے تعلق رکھنے والے شخص کا اللہ تعالی لوگوں سے تعلق استوار رکھتا ہے۔ آخرت سنوارنے کی کوشش میں لگے رہنے والے کی دنیا کو اللہ تعالی سنوار دیتا ہے۔ مومن اللہ تعالی سے خدشات میں رہتے ہوئے محنت خوب کرتا ہے اور خوف بھی رکھتا ہے، وہ تزکیہ نفس اور اپنی اصلاح کی بھر پور کوشش کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود خود ستائشی میں مبتلا ہو کر پارسائی کا دعوی نہیں کرتا، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {فَلَا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى}
 تم اپنی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو، وہ زیادہ جاننے والا ہے کہ کون بچا ہے۔ [النجم: 32]

یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! ہم نے اپنی جانوں پر بہت زیادہ ظلم ڈھائے ہیں اگر توں ہمیں معاف نہ کرے اور ہم پر رحم نہ فرمائے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

تم عظمت والے جلیل القدر اللہ کا ذکر کرو تو وہ بھی تمہیں یاد رکھے گا، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ تمہیں اور زیادہ دے گا، یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔



تزکیہ نفس،،، اہمیت، ذرائع اور فوائد  خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) امام و خطیب: ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم ترجمہ: شفقت ال...