تزکیہ نفس،،، اہمیت، ذرائع اور فوائد
خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
امام و خطیب: ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
بشکریہ: دلیل ویب
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے 15 شوال 1438 کا خطبہ جمعہ "تزکیہ نفس،،، اہمیت، ذرائع اور فوائد" کے عنوان پر مسجد نبوی میں ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ جب تک ہر شخص کو حقوق پورے نہیں ملتے عدل قائم نہیں ہو گا جبکہ انسان پر سب سے پہلے اپنے نفس کے حقوق لاگو ہوتے ہیں، ان حقوق میں سے تزکیہ نفس سر فہرست حق ہے۔ تزکیہ نفس کی اہمیت کے پیش نظر رسولوں کو مبعوث کیا گیا اور انبیائے کرام نے حصول تزکیہ کیلیے دعائیں بھی مانگیں۔ داعیان اسلام بھی تزکیہ کی خاطر کمتر لوگوں کو بھی دعوت دینے سے نہیں کتراتے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں سب سے زیادہ یکجا قسمیں اٹھا کر یہی فرمایا ہے کہ تزکیہ نفس حاصل کرنے والا کامیاب ہے۔ مومن حضرات تزکیہ نفس کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں؛ کیونکہ آخرت میں جنت اور جنت میں بلند مقام انہی کو حاصل ہو گا۔ تزکیہ نفس کے لیے تگ و دو ہر مسلمان پر ضروری ہے، اور تزکیہ کے لیے عقیدہ توحید مجرب اور فعال ترین راستہ ہے۔ حصول تزکیہ کے لیے نماز، زکاۃ، حج، روزہ، حقوق العباد کی ادائیگی، حصول تزکیہ کی دعا، ذکر الہی، قرآن مجید کی تلاوت، قرآنی تعلیمات پر عمل ، آنکھوں اور زبان کی حفاظت، قبرستان کی زیارت، گناہوں سے دوری، اور حصول علم نافع ؛تزکیہ نفس کے شرعی ذرائع میں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کتاب و سنت؛ تزکیہ نفس کے لیے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں اور یہی دین الہی اور صراط مستقیم ہے۔ دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ: لوگوں میں جس قسم کی بھی تبدیلی رونما ہو اس کی وجہ لوگوں کے ہی اخلاق یا کردار میں تبدیلی ہوا کرتی ہے، یہ اللہ تعالی کا اٹل فیصلہ ہے، اس لیے اپنے آپ کو سنوارنے اور سدھارنے سے ، اللہ تعالی کے ساتھ اچھا تعلق بنانے سے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں، تاہم مومن کا خاص طریقہ کار یہ ہے کہ وہ خوب محنت اور مشقت کرنے کے باوجود خود ستائشی کا شکار نہیں ہوتا۔ آخر میں انہوں نے جامع دعا کروائی۔
~!~ منتخب اقتباس ~!~
یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اسی کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی اسی سے مانگتے ہیں، نفسانی اور بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم -اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔
مسلمانو!
لوگوں میں بہتری اور استحکام اسی وقت آئے گا جب ہر ایک کو ان کا حق ملے گا، در حقیقت یہی وہ عدل ہے جس کے باعث آسمان و زمین قائم ہیں، دنیا اور آخرت کے قائم دائم ہونے کی بنیاد بھی عدل ہے۔ ہر شخص پر حقوق واجب ہیں ان کے بارے میں روزِ قیامت باز پرس بھی ہو گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکا فرمان ہے: (اور بیشک تمہارے نفس کا تم پر حق ہے) مسند احمد۔
نفس کا سب سے بڑا حق تزکیہ ہے، اس کے ذریعے نفس تباہی اور مذموم صفات سے محفوظ ہو جاتا ہے، اور چونکہ نفس برائی کا بہت زیادہ حکم دیتا ہے نیز اس کے شر سے پناہ بھی مانگی جاتی ہے، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمفرمایا کرتے تھے: ( أَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّ نَفْسِيْ [اپنے نفس کے شر سے [یا اللہ]میں تیری پناہ چاہتا ہوں])مسند احمد، پھر چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبات کی ابتدا میں کہا کرتے تھے: (اور ہم اپنے نفسوں کے شر سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں) ترمذی۔ اس لیے نفس کی اصلاح کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں، نیز اصلاح نفس کا عمل اللہ تعالی کے ہاں محبوب بھی ہے، اسی لیے فرمایا:
{مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ}
اللہ تعالی تم پر کسی قسم کی تنگی ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ وہ تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے۔[المائدة: 6]
یعنی اللہ تعالی تمہارا ظاہر اور باطن پاک فرمانا چاہتا ہے۔
تزکیہ نفس کی اہمیت کے پیش نظر رسولوں کی بعثت کا ایک مقصد تزکیہ نفس ہی تھا، جیسے کہ ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ اس امت میں رسول مبعوث فرما جو ان کا تزکیہ نفس کرے، انہوں نے دعا کرتے ہوئے کہا تھا:
{رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ}
اے ہمارے رب ان میں، انہی میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے، انہیں کتاب و حکمت سکھائے اور ان کا تزکیہ کرے ۔ [البقرة: 129]
ہمہ قسم کی کامیابی بھی تزکیہ نفس میں ہے، جبکہ عین یقینی خسارہ فقدان تزکیہ سے ہو گا؛ اسی بارے میں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں سب سے زیادہ قسمیں اٹھا کر فرمایا:
{قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا (9) وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا}
کامیاب ہو گیا وہ شخص جس نے تزکیہ نفس کر لیا [9] اور جس نے اسے خاک میں ملا دیا وہ ناکام ہو گیا۔[الشمس: 9، 10]
اس کی تفسیر میں قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "کامیاب ہو گیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کا تزکیہ اللہ تعالی کی اطاعت اور نیک اعمال کے ذریعے کر لیا" اور یہی تمام کے تمام پیغمبروں کی دعوت کا خلاصہ ہے۔
مومنوں کی صفات میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنے نفس کا خود تزکیہ کرتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ}
اور وہ لوگ جو زکاۃ دینے والے ہیں۔[المؤمنون: 4]
اس کی تفسیر میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یہاں آیت میں زکاۃ سے تزکیہ نفس اور مال کی زکاۃ دونوں مراد ہیں، چنانچہ کامل مومن دونوں کا بھر پور اہتمام کرتا ہے" لہذا اگر کسی کا تزکیہ نفس ہو جائے تو یہ اس پر اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت اور کرم ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَى مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا}
اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت شامل حال نہ ہوتی تو تم میں سے کسی کا بھی تزکیہ نہیں ہو سکتا تھا۔ [النور: 21]
آخرت میں جنت بھی اسی شخص کو بدلے میں ملے گی جو اپنی اصلاح کرے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى (40) فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى}
ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ہوگا۔[40] تو بیشک جنت ہی اس کا ٹھکانا ہو گی۔ [النازعات: 40، 41]
پھر جنتوں میں اعلی ترین درجہ اسی کو ملے گا جو اپنا تزکیہ کر لے.
تزکیہ نفس کےلیے ایک اللہ کی عبادت سے بڑھ کچھ کار گر نہیں ، مخلوق کا تزکیہ عقیدہ توحید کے بغیر ممکن نہیں، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَوَيْلٌ لِلْمُشْرِكِينَ (6) الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ}
اور تباہی ہے مشرکوں کیلیے [6] جو اپنا تزکیہ نہیں کرتے اور وہ آخرت پر ایمان سے انکاری ہیں۔[فصلت: 6، 7]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یہاں زکاۃ سے مراد عقیدہ توحید اور ایمان ہے ان کے ذریعے دل پاکیزہ ہو جاتے ہیں؛ کیونکہ عقیدہ توحید میں دل سے غیر اللہ کی الوہیت کی نفی اور صرف اللہ کی الوہیت کا اثبات ہوتا ہے، اور لا الہ الا اللہ کی حقیقت بھی یہی ہے، اس لیے عقیدہ توحید تزکیہ قلب کیلیے بنیادی ترین امر ہے۔"
نماز تزکیہ نفس اور بندے کو پاکیزہ بنانے کا ذریعہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ}
بیشک نماز بے حیائی اور برائی کے کاموں سے روکتی ہے۔ [العنكبوت: 45]
نماز کی وجہ سے نمازیوں کے حالات سنورتے ہیں اور ان کے گناہ بھی مٹ جاتے ہیں، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (تم مجھے بتلاؤ کہ: اگر تمہارے گھر کے دروازے کے پاس سے کوئی نہر گزرتی ہو اور وہ وہاں پر یومیہ پانچ بار غسل کرے تو کیا اس کی میل کچیل باقی رہے گی؟) تو انہوں نے کہا: "نہیں، اس کی بالکل بھی میل کچیل باقی نہیں رہے گی" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: (پانچوں نمازوں کی بھی یہی مثال ہے، اللہ تعالی ان نمازوں کے ذریعے گناہوں کو مٹا دیتا ہے) متفق علیہ
مالی زکاۃ اور صدقہ دینے سے بھی تزکیہ نفس اور نفس کی صفائی ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا}
ان کے اموال میں سے صدقات وصول کر کے انہیں پاک کریں اور ان کا تزکیہ کریں۔[التوبة: 103]
نیز جہنم سے آزادی بھی ایسے شخص کا بدلہ ہے جو اپنے مال کی زکاۃ دے کر تزکیہ نفس کرتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى (17) الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّى}
جہنم سے متقی بچ پائے گا [17] جو اپنا مال تزکیہ نفس کیلیے [راہ الہی میں]دیتا ہے۔[الليل: 17، 18]
روزہ بھی نفس کو شر، آفات اور بے حیائی سے روکتا ہے، بلکہ روزے داروں کو فحش امور سے بھی بچاتا۔ فرمانِ باری تعالی ہے:
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ}
اے ایمان والوں تم پر روزے اسی طرح فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تا کہ تم متقی بن جاؤ۔[البقرة: 183]
حج میں بھی تزکیہ نفس ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ}
جو شخص ان ایام میں حج کا ارادہ رکھتا ہو وہ دوران حج نہ شہوت کی باتیں کرے ‘ نہ گناہ کرے اور نہ لڑائی جھگڑا کرے۔ [البقرة: 197]
بلکہ مقبول حج والا شخص گناہوں سے پاک صاف ہو کر اپنے گھر ایسے لوٹتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص بھی اللہ کیلیے حج کرے اور بیہودگی سمیت فسق بھی نہ کرے تو وہ ایسے واپس لوٹتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا) متفق علیہ
حقوق العباد سے متعلق اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل بھی تزکیہ نفس کا باعث بنتی ہے، چاہے ان احکامات کی تعمیل دل پر گراں گزرے ، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَإِنْ قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكَى لَكُمْ}
اور اگر تمہیں کہا جائے کہ واپس لوٹ جاؤ تو تم واپس چلے جاؤ ، یہ تمہارے لیے زیادہ تزکیہ کا باعث ہے۔[النور: 28]
اور دعا بھی بہت عظیم عبادت ہے، دعا کے ذریعے انسان اپنی تمنائیں پا لیتا ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عام طور پر دعا ہوا کرتی تھی کہ:
(اَللَّهُمَّ آتِ نَفْسِيْ تَقْوَاهَا وَزَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا)
[یا اللہ! میرے نفس کو تقوی عطا فرما، اور اس کا تزکیہ فرما، بیشک توں ہی سب سے بہترین تزکیہ کرنے والا ہے]) مسلم
علم نافع حاصل کرنے والوں کا تزکیہ نفس علم سے ہوتا ہے، یہی علم ان کا رہنما بن جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ}
آپ ان سے پوچھیں: کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ مگر ان باتوں سے سبق تو وہی حاصل کرتے ہیں جو اہل عقل و خرد ہوں۔ [الزمر: 9]
پھر یہی علم اس شخص کو آگے لے کر جاتا ہے یہاں تک کہ وہ شخص تزکیہ نفس کی بلندیوں پر پہنچ کر اہل خشیت میں شامل ہو جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ}
بیشک اللہ تعالی کے بندوں میں سے اللہ سے علم والے ہی ڈرتے ہیں۔[فاطر: 28]
نظریں جھکانے سے بھی تزکیہ نفس ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ}
مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں؛ یہ ان کے زیادہ تزکیہ کا باعث ہے۔[النور: 30]
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اور جو شخص شادی کی ضروریات کی استطاعت رکھتا ہو تو وہ نکاح کر لے، بیشک نکاح نظریں جھکا دیتا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے، اور جس کے پاس استطاعت نہ ہو تو وہ روزے رکھے، یہ اس کی شہوت توڑ دیں گے۔ ) متفق علیہ
فضول نظریں گھمانے اور فضول گفتگو کرنے سے پرہیز تزکیہ نفس کے لیے ضروری ہے، ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "سب سے زیادہ گناہ فضول گفتگو اور بد نظری کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں، اور یہی دونوں شیطان کے لیے داخل ہونے کے وسیع ترین راستے ہیں؛ کیونکہ زبان اور نظر کے حملوں میں کبھی کمی یا ٹھہراؤ نہیں آتا"
انسانی نفس کا تزکیہ اور عمل میں عمدگی اس وقت تک نہیں آتی جب تک ان سے متصادم امور معدوم نہ ہو جائیں، یہی وجہ ہے کہ تزکیہ اسی وقت ہوتا ہے جب انسان برائیوں کو یکسر چھوڑ دے، لہذا تزکیہ اگرچہ لغوی طور پر خیر میں اضافے ، برکت، اور افزودگی پر بولا جاتا ہے لیکن تزکیہ حاصل اسی وقت ہو گا جب برائیاں یکسر معدوم ہوں، تو اس طرح تزکیہ نفس اپنے اندر خیر میں اضافہ اور برائی سے پاکیزگی دونوں جمع کر لیتی ہے۔
ان تمام تر تفصیلات کے بعد: مسلمانو!
تزکیہ نفس کی بنیاد کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؛ کہ اطاعت اللہ تعالی کی ہو اور اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی؛ یہی دو چیزیں سبیل اللہ، دین الہی اور صراط مستقیم ہیں، انہی کی بدولت تزکیہ اور اصلاح نفس ممکن ہے، انہی سے تمام لوگوں کو کامیابیاں اور عزتیں ملیں گی۔
أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ: {وَمَنْ تَزَكَّى فَإِنَّمَا يَتَزَكَّى لِنَفْسِهِ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ}
اور جو تزکیہ نفس کرے گا تو وہ اپنے لیے تزکیہ کرے گا، اور اللہ کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔ [فاطر: 18]
مسلمانو!
لوگوں میں رونما ہونے والی تبدیلی چاہے وہ اچھی ہو یا بری، فراخی کی ہو یا تنگ دستی والی، یا اس تبدیلی کا تعلق امن یا خوف سے ہو؛ یہ تمام تر تبدیلیاں لوگوں کی شخصیات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے ماتحت ہوتی ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ}
اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے آپ کو خود نہ بدل لیں۔[الرعد: 11]
لہذا لوگوں کو کچھ بھی ہو اس کا منبع اور سبب خود لوگ ہی ہوتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
{أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّى هَذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ}
جب تم پر مصیبت آئی تو تم چلا اٹھے کہ "یہ کہاں سے آگئی ؟" حالانکہ اس سے دو گنا صدمہ تم ان [کافروں ]کو پہنچا چکے ہو ؟ آپ ان سے کہہ دیں: یہ تمہاری اپنی طرف سے ہے ۔[آل عمران: 165]
خلوت اچھی بنانے والے کی جلوت کو اللہ تعالی اچھا بنا دیتا ہے۔ اللہ سے تعلق رکھنے والے شخص کا اللہ تعالی لوگوں سے تعلق استوار رکھتا ہے۔ آخرت سنوارنے کی کوشش میں لگے رہنے والے کی دنیا کو اللہ تعالی سنوار دیتا ہے۔ مومن اللہ تعالی سے خدشات میں رہتے ہوئے محنت خوب کرتا ہے اور خوف بھی رکھتا ہے، وہ تزکیہ نفس اور اپنی اصلاح کی بھر پور کوشش کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود خود ستائشی میں مبتلا ہو کر پارسائی کا دعوی نہیں کرتا، فرمانِ باری تعالی ہے:
{فَلَا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى}
تم اپنی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو، وہ زیادہ جاننے والا ہے کہ کون بچا ہے۔ [النجم: 32]
یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔
یا اللہ! ہم نے اپنی جانوں پر بہت زیادہ ظلم ڈھائے ہیں اگر توں ہمیں معاف نہ کرے اور ہم پر رحم نہ فرمائے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
تم عظمت والے جلیل القدر اللہ کا ذکر کرو تو وہ بھی تمہیں یاد رکھے گا، اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ تمہیں اور زیادہ دے گا، یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، تم جو بھی کرتے ہو اللہ تعالی جانتا ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں