بھلائی کا بدلہ بھلائی اور افغانستان میں امن - خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔۔ 13 جولائی 2018

بھلائی کا بدلہ بھلائی اور افغانستان میں امن 
خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
امام و خطیب: ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
بشکریہ: دلیل ویب


فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ نے " بھلائی کا بدلہ بھلائی اور افغانستان میں امن" کے عنوان پر مسجد نبوی میں 29  شوال 1439 کا خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ اچھائی کا بدلہ اچھائی کے ساتھ دینا اسلامی اقدار میں سے ایک عظیم قدر ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلمان کے ساتھ جو بھی خیر خواہی کرے تو اسے کبھی نہیں بھولتا، انبیائے کرام کی زندگی سے بھی احسان مندی کے واقعات ملتے ہیں جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین خدیجہ بنت خویلد کی خوبیوں کا اعتراف ان کے بعد بھی جاری رکھا، اسی طرح مطعم بن عدی جو کہ حالت کفر میں مرا تھا اس کی خوبیوں کا بھی آپ نے اعتراف فرمایا، سیدنا موسی علیہ السلام اور دو عورتوں کے باپ کا واقعہ جن کی بکریوں کو آپ نے پانی پلایا تھا وہ بھی اسی بات کی دلیل ہے۔ دوسروں کے کام آنے والے شخص کا اسلام نے بہت بلند مقام رکھا ہے اور اس کا مالی یا معنوی شکریہ ادا کرنے کی تاکید بھی کی ہے، اگر ہم اس چیز پر عمل پیرا ہو جائیں تو معاشرتی برائیوں میں کافی حد تک کمی آ سکتی ہے،  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے بھلائی کرنے پر بھر پور بدلہ دینے کی ترغیب دی، اگر بدلہ دینے کے لیے کچھ پاس نہ ہو تو اس کی نیکی کے مطابق دعائیں لازمی دیں،  اور اسے جزاک اللہ خیرا کہہ دیں۔ حقائق پر مبنی ستائشی کلمات بھی صلہ اور بدلہ بن سکتے ہیں، قرضہ واپس کرتے ہوئے شکریہ ادا کرنا بھی اچھا عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ ہستیوں کے احسانات ہر وقت ہمارے ساتھ رہتے ہیں ان ہستیوں میں سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ آپ کی بدولت ہمیں ہدایت ملی، ان کے بعد والدین اور اساتذہ کا درجہ آتا ہے، اس لیے انہیں ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا چاہیے۔ خاوند اور بیوی ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور کوتاہیوں سے صرف نظر کرنے کے لیے خوبیوں کو ذہن میں تازہ رکھیں۔ دوسرے خطبے میں انہوں نے سعودی عرب کے بریدہ شہر  میں ہونے والی دہشت گردانہ کاروائی کی پر زور مذمت کی اور کہا کہ ہم داعشی فتنے کے خاتمے کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں، اسی طرح انہوں نے خادم حرمین شریفین کے حکم پر اسلامی تعاون تنظیم کی جانب سے منعقد کردہ افغان امن کانفرنس  کے مکہ اعلامیہ  کو امت اسلامیہ کی جانب بھر پور انداز میں سراہا  اور تمام افغانی دھڑوں کو باہمی صلح اور اتحاد کی دعوت دی ، نیز کسی بھی اختلاف کی صورت میں کتاب و سنت کی جانب رجوع کرنے کی ترغیب دلائی ۔ اور آخر میں جامع دعا کروائی۔

منتخب اقتباس

تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہی ہیں ، ہمہ قسم کی حمد اور بادشاہی اسی کے لیے ہے،  اسی کا فضل ہم پر ہے، میں خفیہ اور اعلانیہ ہر طرح سے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں،  میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ کی اطاعت تمام معاملات میں واجب ہے۔ اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر اس وقت تک رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرمائے جب تک دن اور رات کا آنا جانا لگا رہے۔

مسلمان کی بنیادی اخلاقی اقدار میں یہ بھی شامل ہے کہ بھلائی کرنے والوں کا بدلہ بھلائی کے ساتھ دے، کسی کی نیکی کا اس سے بڑھ کر صلہ دے؛ یہ باہمی تعامل کے لیے اسلامی اقدار میں سے ایک عظیم قدر ہے اس کی دلیل فرمانِ باری تعالی ہے:
 {هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ}
 اچھائی کا بدلہ اچھائی ہی ہوتا ہے۔ [الرحمن: 60]

یہی وجہ ہے کہ مسلمان کے ساتھ کوئی بھلا کرے تو اسے کبھی فراموش نہیں کرتا، مسلمان کے ساتھ جو بھی اچھائی کرے ہمیشہ ان کا تذکرہ خیر کرتا ہے، اس کے حسن سلوک پر اظہار تشکر  اور اس کی نوازشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ نیز مسلمان زندگی کے اژدہام اور بدلتے حالات میں ان لوگوں کو نہیں بھولتا جن کے ساتھ محبت اور انس تھا، جن کے ساتھ زندگی کے چند دن گزارے  تھے، چاہے ان گزرے دنوں میں باہمی اختلافات اور نفرتیں بھی پائی گئی ہوں؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ}
 ایک دوسرے کے ساتھ کئے ہوئے احسانات کو مت بھولو[البقرة: 237]

اسی لیے ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفا داروں میں بھی سب سے آگے ہیں؛ آپ نے ہمیں احسان مندی کے خوبصورت مفاہیم عملی طور پر سمجھائے؛ چنانچہ آپ اپنی اہلیہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کی خوبیوں کے معترف تھے اور آپ کی وفات کے بعد بھی ان کا اعتراف کرتے تھے، اسی لیے آپ انہیں بہت زیادہ یاد فرماتے ، ان کا شکریہ ادا کرتے اور ان کے لیے بخشش مانگتے ہوئے فرماتے: (وہ فلاں فلاں خوبیوں کی مالک تھی، پھر بسا اوقات بکری ذبح کر کے گوشت بناتے تو خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کو بھی بھیج دیتے تھے) بخاری، مسلم

انبیائے کرام کے واقعات بھی اعتراف احسانات سے بھرے ہوئے ہیں، انہی واقعات میں سے موسی علیہ السلام اور دو عورتوں کے والد کا واقعہ بھی ہے جن کی بکریوں کو آپ نے پانی پلایا تھا، اسی کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:
 {فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا} 
تو ان دونوں عورتوں میں سے ایک موسی کی طرف شرم و حیا سے چلتی ہوئی آئی  اور کہنے لگی کہ میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ کے پانی پلانے کی اجرت آپ کو دیں ۔ [القصص: 25]،
 تو موسی علیہ السلام کو ان کی نیکی کا صلہ مل گیا، اور ان دو لڑکیوں کے والد نے آپ کے احسان کا بدلہ چکادیا۔

اسلام نے اس شخص کو بہت بلند مقام دیا ہے جو آپ کے ساتھ بھلائی اور اچھائی کرتا ہے، بلکہ اسلام نے اس شخص کو بدلہ دینے کی تاکید بھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (وہ شخص اللہ کا شکر ادا ہی نہیں کرتا جو لوگوں کا شکر ادا نہ کرے) اس حدیث کو احمد اور ابن حبان نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

اہل وفا کسی کو اچھا صلہ دیتے ہوئے اقوال، افعال اور احساسات تک کا صلہ دیتے ہیں؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَإِذَا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا}
 اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو۔ [النساء: 86] 
چنانچہ اگر مسلمان سلام کا جواب انہی کلمات میں یا اس سے احسن کلمات میں دیں، اور بھلائی پر اسی جیسی یا اس سے زیادہ بھلائی صلے میں دیں، اور اچھے بول پر  اسی جیسے یا اس سے بھی اچھے بول کہیں، اور تحفہ ملنے پر اسی جیسا تحفہ دیں یا اس سے بھی اچھا دیں ؛ تو ہمارے دل صاف ہو جائیں، ہمارے رابطے مضبوط ہو جائیں، تعلقات کی گہرائی بڑھ جائے، نیز اختلافات کا دائرہ سکڑ جائے۔

بھلائی کرنے والوں کو صلہ دینے کے لیے سب سے پہلا اقدام : ان کی بھلائی کا اعتراف ہے، پھر ان کے شکریہ کا مستحق ہونے کا اقرار کریں؛ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا  اور اس کی ترغیب دلائی ہے، نیز تعلق داری کا خیال رکھنا ایمانی خوبی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص تمہارے ساتھ بھلائی کرے تو اسے پورا بدلہ دو) اس حدیث کو ابو داود، نسائی اور امام احمد رحمہم اللہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

اسلام نے بھلائی کرنے والوں کا بدلہ چکانے کے لیے مسلمان کی استطاعت کے مطابق سہولت رکھی ہے؛ اس لیے مسلمان اچھے بول، اور دعائے خیر کے ذریعے بھی بدلہ چکا سکتا ہے، اسی طرح مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو ہشاش بشاش چہرے اور دل کی گہرائی سے ملے  تو اس کی سہولت بھی موجود ہے۔ یہ تمام تر سہولتیں اس دین کے کامل  اور شامل ہونے کی دلیلیں ہیں، اسلامی آداب اور خوبیوں کے مکمل ہونے کی علامات ہیں، انہی کی بدولت مسلم معاشرے میں مودت، الفت اور محبت پروان چڑھتی ہے؛ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم کسی بھی نیکی کو حقیر مت سمجھو، چاہے تم اپنے بھائی کو خندہ پیشانی سے ملو) مسلم

حقائق پر مبنی تعریف بھی احسان کرنے والوں کو صلہ دینے کا ایک طریقہ ہے؛ جیسے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جسے کوئی چیز تحفہ دی جائے تو وہ اس کا بدلہ چکا دے، اور اگر پاس کچھ نہ ہو تو ستائشی کلمات کہہ دے؛ کیونکہ جس نے ستائشی کلمات کہہ دئیے تو اس نے شکریہ ادا کر دیا۔ اور جس نے ستائشی کلمات بھی نہ کہے تو اس نے نا شکری کی۔ اور جو ایسی چیز زیب تن کرے جو اسے دی ہی نہیں گئی تو وہ ایسے ہی جیسے کوئی [بہروپیا]دو جھوٹے کپڑے زیب تن کر لے) اس حدیث کو ابو داود اور ترمذی  نے حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

کسی کی نیکی کا بدلہ دینے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انہیں خاطر خواہ دعائیں دے دی جائیں؛ رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (۔۔۔ اگر تمہارے پاس بدلہ دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو اس کے لیے اتنی دعائیں کر دو کہ تمہیں   یقین ہو جائے کہ تم نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے) اس حدیث کو ابو داود، نسائی، اور امام احمد نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

اسی طرح سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس کے ساتھ نیکی کی گئی اور اس نے نیکی کرنے والے کو کہا: [جَزَاكَ اللهُ خَيْرًا] اللہ تمہیں جزائے خیر دے، تو اس نے شکریہ ادا کرنے کی انتہا کر دی) اس حدیث کو ترمذی اور نسائی نے حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

مسلمان کی زندگی میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے احسانات ساری زندگی ساتھ رہتے ہیں، ان کے احسانات دائمی اور ابدی نوعیت کے ہوتے ہیں، ان لوگوں کی طرف سے ملنے والی خیر خواہی دائمی ہوتی ہے؛ انہی لوگوں میں سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ آپ کے ذریعے اللہ تعالی نے ہمیں اندھیروں سے نکال کر اجالے میں لا کھڑا فرمایا۔

اسی طرح لوگوں پر جن کا سب سے زیادہ احسان  ہے، جن کے حقوق کی ادائیگی سب سے زیادہ لازمی ہے  وہ ہیں : والدین، کہ انہوں نے ہی انسان کو بچپن میں پالا پوسا ۔

ایسے ہی طلبہ  پر لازمی ہے کہ اپنے اساتذہ کے لیے دعائیں کریں؛ کہ انہوں نے محنت کے ساتھ پڑھایا ، اسی لیے ابو حنیفہ رحمہ اللہ اپنے استاد حماد رحمہ اللہ کے لیے دعائیں کرتے تھے اور ان کے بعد ابو یوسف رحمہ اللہ اپنے استاد ابو حنیفہ رحمہ اللہ  کے لیے دعائیں کرتے۔

خاوند اور بیوی دونوں ایک دوسرے کے یکساں خیر خواہ ہوتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اچھائی کا تبادلہ کرتے ہیں، ان میں سے ہر ایک دوسرے کے لیے اپنی جوانی کی زندگی اور خون جگر  تک قربان کر دیتا ہے؛ اس لیے زوجین تعلق داری کا خیال رکھیں، حسن سلوک سے رہیں، نیز غلطیوں اور کوتاہیوں سے صرف نظر کریں تو یہ بھی بہترین صلہ اور بدلہ ہے؛ کیونکہ انسان میں پائی جانے والی اچھائیوں سے برائیوں کے اثرات مندمل ہو جاتے ہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی ہے کہ: (کوئی مومن کسی مومنہ [بیوی ] سے بغض نہیں رکھتا؛ کیونکہ اگر اسے کوئی بات ناگوار گزرتی ہے تو   وہ اس کی دیگر خوبیوں سے راضی ہو جاتا ہے۔)

یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے ہر کام کی توفیق مانگتے ہیں ۔ یا اللہ! ہم جہنم اور جہنم کے قریب کرنے والے ہر عمل سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے۔ یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہمارا معاش ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، اور ہمارے لیے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے، یا رب العالمین!


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں