بُری مجلس میں شرکت - خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 06 جولائی 2018

Image result for ‫مسجد نبوی‬‎
بُری مجلس میں شرکت
 خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
امام و خطیب: جسٹس صلاح بن محمد البدیر
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
بشکریہ: دلیل ویب

فضیلۃ الشیخ جسٹس صلاح بن محمد البدیر حفظہ اللہ نے 22 شوال 1439 کا خطبہ جمعہ بعنوان "بُری مجلس میں شرکت" مسجد نبوی میں ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ برے لوگوں کی تعداد میں اضافے کا باعث مت بنیں، اور ایسی مجالس سے یکسر کنارہ کشی اختیار کریں جن میں فسق و فجور والے کام کئے جاتے ہیں، اگر کسی کو ضرورت کی بنا پر جانا بھی پڑ جائے تو انہیں برے کاموں پر ٹوکے، اگر وہ استطاعت کے ہوتے ہوئے بھی برائی سے نہیں روکتا تو وہ بھی گناہ میں برابر کا شریک ہو گا، اس لیے اسے چاہیے کہ ایسی مجلس سے اٹھ کر چلا جائے، اسی حکم کی عدم تعمیل پر سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے ایک روزے دار شخص کو شراب کی محفل میں پکڑے جانے کی بنا پر سب سے پہلے سزا دلوائی حالانکہ وہ شراب نوشی میں شریک نہیں تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جدید دور میں گمراہ کن ویب سائٹس اور حیا باختہ چیزوں کو لائک کرنے اور ان کا وزٹ کرنے سے انسان ان برائیوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے، اس لیے ان سے کلی طور پر اجتناب کریں، دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ گناہ کر کے اس کی تشہیر مت کریں، اور اللہ کے حرام کردہ کاموں کو حلال مت سمجھیں، نام نہاد فقیہوں کے فتووں سے دھوکا مت کھائیں، اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو دیکھ کر عبرت حاصل کر لیں کہ اللہ تعالی نے تمہیں کتنی نعمتوں میں رکھا ہوا ہے اس لیے ان نعمتوں کا غلط استعمال مت کریں۔ آخر میں انہوں نے سب کے لیے دعا بھی فرمائی۔

~!~ منتخب اقتباس ~!~

اللہ تعالی کی نعمتوں اور عنایتوں کے برابر تعریفیں اسی کے لیے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے رسول ، نبی، چنیدہ، راز دار، ولی، پسندیدہ اور برگزیدہ بندے ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی اولاد اور صحابہ کرام پر اس وقت تک رحمتیں ، برکتیں اور سلامتی نازل فرمائے جب تک صبح کا اجالا چمکتا رہے اور سویرے پو پھوٹتی رہے۔

مسلمانو!

نافرمانوں کی مجالس سے کنارہ کشی، ان سے لا تعلقی، ان کے میدانوں سے دوری، ان کی جگہوں سے علیحدگی، گناہگاروں کی صحبت سے اجتناب، ان کے ساتھ سفر پر جانے سے پرہیز صائب رائے اور نور بصیرت کی علامت اور دلیل ہے۔

دل بہت کمزور ہوتے ہیں۔ کسی کی مشابہت اپنانے سے انسان ویسا ہی بن جاتا ہے، فتنے ٹھاٹھے مار رہے ہیں۔ صاحب بصیرت انسان ایسے لوگوں کی مجلس میں جانے سے اجتناب کرتا ہے جو دلوں کو بیمار کر دیں اور ایمان بگاڑ دیں۔ بصیرت رکھنے والا انسان فتنے میں مبتلا گمراہ لوگوں سے خبردار رہتا ہے، جو کہ صحیح عقیدے سے بھٹک چکے ہوں، جو لوگ اچھے اور پر وقار کاموں اور مسلمانوں کی اخلاقیات سے دور ہو چکے ہوں۔

 اگر کوئی لوگوں کی کسی مجلس میں بیٹھا ہو اور وہاں کوئی نافرمانی ، یا بدعت پر عمل کیا جا رہا ہو تو ایسے میں اس پر حکمت اور اچھے انداز کے ساتھ انہیں غلطی سے روکنا واجب ہو جاتا ہے، اسے چاہیے کہ انہیں بہترین انداز اور حق واضح کر دینے والے دلائل کے ساتھ نصیحت کرے تا کہ ان کے شبہات زائل ہو جائیں۔ اور اگر اس شخص نے انہیں ٹوکنے کی استطاعت کی باوجود نہیں ٹوکا تو وہ بھی گناہ میں شریک ہو گا؛ لیکن اگر اس میں ٹوکنے کی بھی سکت نہ ہوئی تو اس پر ان کی مجلس سے اٹھ جانا لازم ہے؛ کیونکہ کسی کی صحبت اور کسی کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا؛ الفت ، میلان اور غلطیوں سے چشم پوشی کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ بلکہ بسا اوقات دل میں ایسی مودت کا باعث بھی بن جاتے ہیں جو انسان کو آزمائش میں ڈال کر رہتی ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا} 
 اور تم پر اللہ تعالی نے کتاب میں نازل کر دیا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو تم ان کے ساتھ بھی مت بیٹھو، یہاں تک کہ وہ کسی اور گفتگو میں محو ہو جائیں، وگرنہ تم بھی انہی میں سے ہو جاؤ گے، بیشک اللہ تعالی سب منافقوں اور کافروں کو جہنم میں ایک جگہ اکٹھے کرنا والا ہے۔[النساء: 140]

امام طبری رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں: "اس آیت میں واضح طور پر بدعتی اور فاسق ہمہ قسم کے اہل باطل کے ساتھ بیٹھک کی ممانعت ہے کہ جب وہ اپنے باطل کا تذکرہ کر رہے ہوں تو ان کے ساتھ مت بیٹھو"

اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: " کسی کے لیے بھی اپنی مرضی سے اور بغیر ضرورت کے گناہوں کی مجالس میں شریک ہونا جائز نہیں ہے؛ جیسے کہ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو وہ ایسے دستر خوان پر مت بیٹھے جہاں شراب پی جا رہی ہو ) ایسے ہی سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ تک یہ بات پہنچائی گئی کہ :"کچھ لوگ شراب نوش ہیں تو انہوں نے انہیں کوڑے مارنے کی سزا سنائی ، تو انہیں بتلایا گیا: ان میں ایک روزے دار بھی ہے، تو انہوں نے کہا: سب سے پہلے اسی کو کوڑے مارو؛ کیا تم نے اللہ تعالی کا یہ فرمان نہیں سنا:
{وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ }
  اور تم پر کتاب میں نازل کر دیا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو تم ان کے ساتھ بھی مت بیٹھو، یہاں تک کہ وہ کسی اور گفتگو میں محو ہو جائیں، وگرنہ تم بھی انہی میں سے ہو جاؤ گے۔[النساء: 140]

مسلمانو!

اہل بدعت، اہل باطل اور گناہگاروں کی تعداد میں اضافے کا باعث نہ بنو، کبھی بھی تمہارا شمار ان لوگوں میں نہ ہو جو فتنوں میں مبتلا ہیں اور فسادی ہیں۔ جیسے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : " مسلمانوں میں سے کچھ لوگ مشرکین کے ساتھ مل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ میں حاضر ہو کر مشرکوں کی تعداد میں اضافے کا باعث بنتے تھے، تو انہی میں سے کسی کو کوئی تیر لگ جاتا اور مشرکوں کے ساتھ آنے والا مسلمان قتل ہو جاتا، یا کوئی مسلمان اس پر وار کر کے اسے قتل کر دیتا تو اللہ تعالی نے یہ آیات نازل فرما دیں:
 {إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ}
بیشک جب فرشتے ایسے لوگوں کی روح قبض کرتے ہیں جو اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے ہوتے ہیں۔ [النساء: 97]" بخاری

لہذا اگر کوئی شخص برائی کی مجالس میں حاضر ہو کر ان سے مانوس ہوتا ہے، ان کی حرکتوں پر خوش ہوتا ہے، یا ان کے کام کو سراہتا ہے، یا ان کے کام کی ترویج کرتا ہے ، یا ان کی تائید کرتا ہے، یا گمراہ ویب سائٹس کی تائید کرتا ہے، یا حیا باختہ ویب سائٹس کے صفحات ، یا دین، اخلاق اور ملکی سالمیت کے خلاف ویب سائٹس کی تائید کرتا ہے، یا ان کو لائک کی علامت دیتا ہے تو وہ بھی ان کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے اور اس کا شمار اُنہی برے لوگوں میں ہو گا۔

مسلمانو!

اپنے گناہوں کی تشہیر مت کرو، اپنے گناہوں کا اعلان مت کرو، اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں کو حلال مت جانو۔ متساہل اور نام نہاد فقیہوں کے فتووں سے دھوکا مت کھائیں جو بلا یقین اور پختگی کے بغیر فتوے صادر کرتے ہیں، اور آسانی، وسطیت اور اعتدال کے نام پر پستی کی طرف گرتے چلے جا رہے ہیں!!

اپنے گناہ کو عیاں اور گناہ کی تشہیر کرنے والا شخص پروردگار کو غضبناک کر رہا ہے، وہ اللہ تعالی کی پردہ پوشی ختم کر رہا ہے، ایسا شخص اللہ تعالی کے عذاب کو معمولی سمجھ رہا ہے، اس نے اعلان گناہ کر کے اللہ کے مومن بندوں کو تکلیف پہنچائی ہے۔

اہل اسلام! اللہ تعالی سے ڈور! فراوانی اور نعمتوں کی بہتات سے دھوکا مت کھانا، اللہ تعالی کی عنایتوں کو اسی کی نافرمانیوں میں استعمال نہ کرو، اپنے گناہوں کا اعلان نہ کرو، اللہ تعالی نے تمہیں فراوانی والی زندگی عطا کی ہے، پینے کے لیے سیراب کرنے والا پانی دیا، حالانکہ تمہارے ارد گرد لوگوں بھوک افلاس اور بے دردی کی موت قتل کر رہی ہے۔

یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد پر درود و سلام نازل فرما، یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین، تمام صحابہ کرام، اہل بیت اور تابعین و تبع تابعین سے راضی ہو جا، اور ان کے ساتھ ساتھ ہم سے بھی راضی ہو جا، یا کریم! یا وہاب!


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں