تعارف سورہ یوسف۔۔ حصہ-4


تعارف سورہ یوسف ۔۔ حصہ-4


آج ہم دونوں واقعات میں دونوں انبیاء کے والدین کے کردار پر روشنی ڈالیں گے۔

ایک طرف ہم بات کریں گے یوسف علیہ السلام کے والدین کے بارے میں اور دوسری طرف ہم بات کریں گے حضرت موسی علیہ السلام کے والدین کے بارے میں۔

حضرت یوسف علیہ السلام کی کہانی شروع ہوتی ہے ان کے والد سے جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کہانی شروع ہوتی ہے ان کی والدہ سے.

سورہ یوسف کی شروعات میں حضرت یعقوب کو کوئی بیرونی خطرہ نہیں تھا،بلکہ ان کو خطرہ ان کے اپنے گھر میں اپنے بیٹوں سے تھا
اسی لیے انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو منع کیا تھا کہ خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کریں۔
اس کے برعکس حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ کو اندرونی خطرہ نہیں تھا کہ ان کے گھر میں کوئی خطرہ ہو بلکہ انہیں بیرونی خطرہ تھا کہ فرعون نے ہر نوزائیدہ بچے کے قتل عام کا حکم دیا ہوا تھا۔

یہاں اللہ تعالی ہمیں یہ سبق دینا چاہ رہے ہیں کہ کبھی کبھی آزمائش باہر سے آتی ہے جو آپ کے اختیار میں نہیں ہوتی اور کبھی آزمائش آپ کے اپنے گھر سے آتی ہے وہ بھی آپ کے اختیار میں نہیں ہوتی۔
کبھی آزمائش بہن بھائیوں کی شکل میں ہوتی ہے کبھی ماں باپ کی شکل میں کبھی اولاد کی شکل میں کبھی عزیز عزیز و اقارب کی شکل میں۔

دونوں صورتوں میں دونوں انبیاء کے والدین اپنے بچوں کو اپنی نگرانی میں رکھنا چاہتے تھے
ان دونوں واقعات میں ایک چیز آپ کے علم میں آئی ہو گی کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں میں ان کی والدہ کا ذکر نہیں ہے جبکہ حضرت موسی علیہ السلام کے واقعہ میں ان کے والد کا ذکر نہیں ہے

اس میں اللہ تعالی کی حکمت یہ ہے کہ اس نے سورہ یوسف میں میں والد کا ذکر خاص رکھا ہے جبکہ حضرت موسی علیہ السلام کے واقعے میں والدہ کا ذکر خاص ہے
اور اس طرح الگ الگ رکھنے میں حکمت یہ بھی ہے کہ بچوں کی پرورش میں ماں اور باپ کے کردار کو الگ کرکے سمجھایا جائے

ان انبیاء کے واقعات میں یہ بھی ملتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ سلام کے والد نہیں چاہتے تھے کہ وہ حضرت یوسف کو ان کے بھائیوں کے ساتھ بھیجیں۔ مگر بیٹوں کے زور دینے کی وجہ سے انہوں نے بھیج دیا،

موسی علیہ السلام کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ کوئی ماں اپنے بچے کو پانی میں نہیں چھوڑ سکتی،یہ تو ممکنات میں سے ہی نہیں ہے چاہے کچھ بھی ہوجائے تو یہاں پر اللہ سبحانہ وتعالی کو خود ان کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالنی پڑی کہ بچے کو ٹوکری میں ڈال کر سمندر میں بہا دیں، اور اس کا ذکر قرآن میں ملتا ہے

وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ أُمِّ مُوسَىٰ أَنْ أَرْضِعِيهِ ۖ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي ۖ إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ (7)

ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کو وحی کی کہ اسے دودھ پلاتی ره اور جب تجھے اس کی نسبت کوئی خوف معلوم ہو تو اسے دریا میں بہا دینا اور کوئی ڈر خوف یا رنج غم نہ کرنا، ہم یقیناً اسے تیری طرف لوٹانے والے ہیں اور اسے اپنے پیغمبروں میں بنانے والے ہیں

ایک اور بات یہ بھی ملتی ہے کہ یوسف علیہ السلام کے والد کو جب یہ خبر ملی کے یوسف علیہ سلام کو بھیڑیا کھا گیا ہے تو وہ روئے اور کہا کہ
فصبراٌ جمیل

جبکہ موسی علیہ السلام کی والدہ کو اللہ تعالی نے وحی کے ذریعے سے ان کو قلبی اطمینان دیا تھا جس کی وجہ سے وہ اپنا راز رکھ سکیں جو کہ وہ تقریبا بے نقاب کرنے والی تھیں۔ اور اس کو اللہ تعالی نے قرآن میں نقل کیا ہے

وَأَصْبَحَ فُؤَادُ أُمِّ مُوسَىٰ فَارِغًا ۖ إِن كَادَتْ لَتُبْدِي بِهِ لَوْلَا أَن رَّبَطْنَا عَلَىٰ قَلْبِهَا لِتَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ

موسیٰ (علیہ السلام) کی والده کا دل بے قرار ہوگیا، قریب تھیں کہ اس واقعہ کو بالکل ﻇاہر کر دیتیں اگر ہم ان کے دل کو ڈھارس نہ دے دیتے یہ اس لیے کہ وه یقین کرنے والوں میں رہیں

اور موسی علیہ السلام کی والدہ میں اتنی ہمت آنے کی وجہ یہ بھی تھی کہ اللہ تعالی نے ان کو کہہ دیا تھا کہ ہم موسی علیہ السلام کو آپ کی طرف لوٹا دیں گے۔ جبکہ یوسف علیہ السلام کے معاملے میں یعقوب علیہ السلام کو کوئی وحی نہیں کی گئی جبکہ وہ نبی تھے اور موسی علیہ السلام کی والدہ کو وحی کے ذریعے بتایا کہ ہم موسی کو تمہارے پاس لوٹا دیں گے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حضرت یعقوب کو حضرت یوسف علیہ السلام کے لوٹنے کی خبر ملتی اور حضرت موسی علیہ السلام کی خبر نہیں دی جاتی جبکہ اس کا الٹ ہوا یعقوب علیہ السلام کو نبی ہونے کے باوجود خبر نہیں دی گئی جبکہ حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ جو کہ ایک عام اللہ کی بندی تھیں ان کو وحی کی گئی۔

یہ صرف اللہ کی ہی مرضی ہوتی ہے کہ جس کے دل میں بات ڈال دے۔
اللہ چاہیں تو شہد کی مکھی کو بھی وحی کرسکتے ہیں جس کا ذکر بھی قرآن میں ہے

وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ۔۔۔ 16:68

آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی۔۔۔

اسی طرح اللہ تعالی ایک مومن کے دل میں بات ڈال سکتے ہیں۔

اور اسی اطمینان قلب کو اللہ تعالی روک بھی لیتے ہیں چاہے کہ وہ نبی ہوں۔
اگر آپ کو صبر دیکھنا ہے تو یعقوب علیہ سلام کا دیکھیے
اور دلچسپ بات یہ ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو جب اپنے بیٹے کی کی موت کا پتہ چلا تو وہ اتنا روئے کہ ان کی بینائی چلی گئی جس کا قرآن میں بھی زکر ہے

وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ 12:84

ان کی آنکھیں بوجہ رنج وغم کے سفید ہو چکی تھیں

دوسری طرف موسی علیہ السلام کی والدہ تھیں جو کہ کچھ ہی دیر بعد موسیٰ علیہ السلام کو دودھ پلانے کی غرض سے فرعون کے محل میں گیئں اس کا ذکر قرآن میں آیا ہے

كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا
تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور آزرده خاطر نہ ہو

حضرت یوسف علیہ السلام کی کہانی میں حضرت یوسف کو ان کے اہل و عیال کے لیے رزق کا وسیلہ بنایا،
جبکہ حضرت موسی علیہ السلام کے معاملے میں ان کی والدہ ان کے رزق کا وسیلہ بنیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ کبھی کبھی والدین کسی کا وسیلہ بنتے ہیں اور کبھی اولاد رزق کا وسیلہ بنتی ہے

جب حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں ڈالا گیا یا تو اللہ تعالی نے وحی کی کے ایک دن تم اپنے بھائیوں کو یہ بتاؤ گے تم نے کیا کیا۔ بتانا مقصود یہ ہے کہ تمہارا پھر سے سے اتحاد ہوگا۔ جبکہ دوسری طرف موسی علیہ السلام کی والدہ کو وحی کی گئی کہ آپ کو آپ کے بچے سے ملا دیا جائے گا
ایک طرف بچے کو وحی کی گئی والدین سے ملانے کی اور دوسری طرف والدہ کو وحی کی گئی بچے سے ملانے کی۔

جاری ہے۔۔۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

تعارف سورہ یوسف ۔۔ حصہ-4 از استاد نعمان علی خان آج ہم دونوں واقعات میں دونوں انبیاء کے والدین کے کردار پر روشنی ڈالیں گے۔ ...

تعارف سورہ یوسف --- حصہ-3


تعارف سورہ یوسف --- حصہ-3


السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

کل میں نے یہ وضاحت کرنے کی کوشش کی تھی کہ حضرت موسی علیہ السلام کی نبوت کی جڑیں ان کے آباواجداد حضرت یوسف علیہ السلام سے ملتی ہیں۔
سو میں اس بات سے شروع کرنا چاہتا ہوں جس کا ایک تاریخی پہلو ہے اور اس کا ذکر قرآن میں بھی ہوا ہے۔
میں نے پچھلی بار سورہ غافر جس کو سورہ مؤمن بھی کہتے ہیں اس کا حوالہ دیا تھا سورہ نمبر 40 آیت نمبر 34

ولقد جاءكم يوسف من قبل بالبينات
یہ صرف آیت کا ایک حصہ ہے

یہاں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ

ترجمہ
اور اس سے پہلے تمہارے پاس (حضرت) یوسف دلیلیں لے کر آئے

یہاں کچھ باتیں ہیں:

پہلی بات تو واضح ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون کی عدالت میں حضرت یوسف علیہ سلام کا ذکر کیا اور ان کا حوالہ دیا۔ اس سے ہمیں یہ پتہ چلا کہ فرعون حضرت یوسف علیہ السلام کو جانتے ہیں اور ان کی میراث کو بھی مگر حضرت موسی علیہ السلام نے یہاں بات ختم نہیں کی بلکہ یہ بھی کہا کہ حضرت یوسف علیہ السلام واضح دلائل کے ساتھ آئے تھے
یہاں پر سوال یہ بنتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ سلام کن دلائل کے ساتھ آئے تھے؟ اور دلیل اسی وقت دی جاتی ہے جب کوئی معاملہ درپیش ہو
تو یہ بات واضح ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کچھ ثابت کرنا چاہتے تھے اس وقت کے فرعون سے، اس وقت کے بادشاہ سے۔
تو کیا ثابت کرنا چاہتے تھے؟
جو باتیں ہمیں قرآن سے ملتی ہیں اور بائبل کی کتابوں میں بھی اس کے شواہد موجود ہیں وہ یہ کہ حضرت یوسف علیہ السلام اللہ کے حکم سے خوابوں کی تعبیر کرتے تھے
اور جو بادشاہ نے خواب دیکھا تھا جسے ہر کوئی یہ سمجھا تھا کہ یہ سب بکواس ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں اس کی تعبیر حضرت یوسف علیہ السلام نے کی، کیسے؟ ہم تفصیل سے آگے پڑھیں گے۔

تو انہوں نے جو بادشاہ کے خواب کی تعبیر کی اس کی بنا پر سیاسی اور معاشی پالیسیاں بنائی گئی۔

یہ بات اس بات کی شاہد ہے کہ حضرت یوسف علیہ سلام کو ان باتوں کی خبر تھی جسے عام انسان نہیں جانتا تھا کہ وہ ایک اعلی طاقت سے جڑے ہوئے ہیں، وہ اللہ کے نبی ہیں

تو یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ حضرت یوسف علیہ سلام کی تعبیر کی وجہ سے مصر کو ایک دفعہ بچایا گیا تھا اور دوسری طرف حضرت موسی علیہ السلام فرعون کے دربار میں یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ مصریوں سیدھے ھو جاو ورنہ پھر مشکل میں آ جاؤ گے اور یہاں پر ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں کہ پانی کہ تحفظ نے مصر کو بچایا تھا اور پانی کی تباہی سے ہی فرعون غرق ہوا حضرت موسی علیہ السلام کے واقعے میں۔

یہاں پر اللہ تعالی ہمیں یہ سبق دینا چاہ رہے ہیں کہ ایک چیز نعمت بھی ہو سکتی ہے اگر ہماری نیت ٹھیک ہو اور وہی چیز ہماری تباہی کا سبب بن سکتی ہے اگر ہماری نیت خراب ہو۔

آپ ہوا کو ہی دیکھ لیں اس میں ہم سانس لیتے ہیں اور یہی ہوا طوفان بن کر ہماری تباہی کا سبب بن سکتی ہے۔ یہی ہوا ہے جو بادلوں کو بھی لے کر آتی ہے ہے اور یہی ہوا ہے جو وائرس بھی لے کر آتی ہے جو ہمیں ایک دوسرے سے لگتا ہے۔
ہوا بس ہوا ہی ہے مگر ایک جگہ پر وہ رحمت ہے اور ایک جگہ پر وہ زحمت۔

شاید ہمیں یہی سبق دیا جا رہا ہے

تو آج میں ان دو میراث کا موازنہ کرنے جا رہا ہوں، حضرت یوسف اور حضرت موسی علیہما السلام کی میراث کا۔
یہ آج کی نشست میں تو ممکن ہی نہیں ہے کہ ختم ہو۔ اور میں اس میں کوئی جلدی بھی نہیں کرنا چاہ رہا میں اپنا وقت اس کے سیاق میں زیادہ لگاؤں گا چاہے کہ ہم لوگ رمضان میں داخل ہو جائے

چلیں ان کا مجموعی طور پر موازنہ دیکھتے ہیں۔ یوسف علیہ السلام نے اپنا سفر مصر کے باہر سے شروع کیا کنعان کے علاقہ سے اور پھر اپنے اہل و عیال سمیت مصر میں آباد ہوئے۔

جبکہ دوسری طرف حضرت موسی علیہ السلام کا سفر مصر سے ہی شروع ہوتا ہے اور جب واقعہ کام اختتام ہوتا ہے ہے تو انھیں مصر سے باہر جانا پڑتا ہے۔ تو ایک کی زندگی مصر کے باہر سے شروع ہوتی ہے اور مصر کے اندر ختم ہوتی ہے اور دوسرے کی زندگی مصر کے اندر سے شروع ہوتی ہے اور اس کا اختتام مصر کے باہر ہوتا ہے۔

اور اس میں اللہ تعالی بنی اسرائیل کی تاریخ بتا رہے ہیں کہ بنی اسرائیل مصر میں کیسے آباد ہوئے اور پھر وہاں سے کیسے نکلے۔
ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ، ایک مثال سے سمجھاتا ہوں کہ جس طرح ایک شخص کو کسی ملک کی شہریت مل جاتی ہے تو اپنے اہل و عیال کو لے کر وہاں آباد ہو جاتا ہے

بالکل یہی معاملہ حضرت یوسف علیہ سلام کے ساتھ رہا کہ انہیں ایک سرکاری نوکری ملی اس کی وجہ سے انہوں نے اپنے اہل وعیال کو مصر بلالیا اور وہی آباد ہوگئے۔

اب اس دور میں کوئی سرکار یا کوئی آئین ہوتا نہیں تھا بادشاہ خود ایک آئین ہوتا تھا۔ ہم اس سورت میں بھی پڑھیں گے "في دین الملک" یعنی بادشاہ کے آئین میں۔ قرآن نے اسی طرح مخاطب کیا ہے

تو حضرت یوسف علیہ السلام کے معاملے میں بادشاہ ہی سب کچھ تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ مصر میں آباد ہوگئے۔
اس کے برعکس حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ تعالی نے حکم دیا تھا کہ تم پتی کر دیئے جاؤ گے اس لیے رات میں نکلنا کیونکہ فرعون اور اس کی قوم تمہارا پیچھا کریں گے۔
إنكم متبعون

فرعون میں اپنی فوج کے سامنے بڑی لمبی تقریر کی جسے قرآن میں اس طرح نقل کیا گیا ہے

ان هؤلاء لشرذمه قليلون
وانهم لنا لغائظون
وانا لجميع حاضرون

مفہوم آیت:

ایک چھوٹے سے گروپ نے ہمیں بہت ناراض کیا ہے۔ اور اس بار ہم ہر احتیاطی تدابیر جو کرسکتے ہیں کریں گے

دوسرے لفظوں میں اس نے یہ پکا ارادہ کر لیا تھا کہ اس نے بنی اسرائیل میں سے کسی کو نہیں چھوڑنا چاہے مرد ہو عورت ہو یا بچہ اس نے بنی اسرائیل کی نسل کشی کا فیصلہ کر لیا تھا
اس واقعے سے ایک رات پہلے جب اللہ تعالی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پیغام دے رہے ہیں کہ رات کے وقت مصر سے نکلنا۔

اس کے برعکس یوسف علیہ السلام کے قصے میں کس بنیاد پر اسرائیلی ایک بادشاہ کی مہربانی سے مصر میں آباد ہو رہے ہیں، اور دوسری طرف بادشاہ کے غیض و غضب سے مصر چھوڑ کے جا رہے ہیں

اس کا تیسرا موازنہ یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر کو بچانے والا سمجھا جارہا ہے اسی لئے تو وہ سرکاری عہدے پر فائز تھے کہ انہوں نے مصر کی معیشت تباہ ہونے سے بچائی تھی جبکہ دوسری طرف حضرت موسی علیہ السلام کو مصر کے آئین کا خطرہ سمجھا جا رہا تھا۔

قرآن میں اس کا بڑا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے

انى أخاف أن يبدل دينكم أو أن يظهر في الأرض الفساد
مفهوم:
مجھے خطرہ ہے کہ یہ کہیں تمہارا دین بدل دے یا کہیں ملک میں انتشار پھیلاۓ

ایک طرف حضرت یوسف علیہ السلام کو ملک کا نجات دہندہ سمجھا جا رہا تھا تو دوسری طرف حضرت موسی علیہ السلام قومی سلامتی کے لئے خطرہ۔
ایک طرف حضرت یوسف علیہ السلام سرکاری آدمی تو دوسری طرف موسی علیہ السلام سرکار کے لیے خطرہ
قابل ذکر بات یہاں پر یہ ہے کہ دونوں کے دونوں اللہ کے نبی تھے، دونوں اللہ سبحان و تعالی کے ہدایت یافتہ بندے جو ہمارے لئے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں اسی وجہ سے ان کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالی ہمیں یہاں پر کیا سبق دینا چاہ رہے ہیں؟

یہاں پر ہمیں یہ نصیحت ملتی ہے کہ کبھی کبھی حالات ہمارے حق میں نہیں ہوتے مگر پھر بھی ہمیں ان سے گزرنا پڑتا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام شام ایک سرکاری عہدے پر فائز ہوتے ہوئے بھی دین کی دعوت دیتے تھے کیونکہ مصر کے بادشاہ تھے اور ان کی قوم مسلمان نہیں تھی۔ تو اللہ سبحانہ وتعالی جب بھی اور جو بھی آپ کو موقع دیں اس موقع سے ضرور فائدہ اٹھائیں۔ اور اللہ کے دین کو پھیلائیں جب بھی آپ کو موقع ملے۔ آپ حضرت یوسف علیہ السلام کی جیل کی زندگی دیکھیں یا ان کا سرکاری عہدہ دونوں میں انہوں نے دین کی دعوت دی ہے۔

جبکہ دوسری طرف فرعون، حضرت موسی علیہ السلام کے خلاف تھا مگر پھر بھی انہوں نے دین کی دعوت اس کے دربار میں دی
تو یہاں پر اللہ تعالی یہ دکھا رہے ہیں کہ دو متضاد واقعات اور مختلف کردار ہیں مگر پھر بھی اللہ کے دین کا کام جاری و ساری ہے۔
چلیں ایک اور موازنہ دیکھتے ہیں
اور یہ تو بڑا ہی قابل ذکر ہے۔
حضرت یوسف علیہ وسلم کنعان کے رہنے والے تھے اور بکریاں چراتے تھے
اور بعد میں وہ مصر کے اندر بڑے عہدے پر فائز رہے
جبکہ حضرت موسی علیہ السلام کی کہانی مختلف ہے انہوں نے فرعون کے محل میں میں آنکھ کھولی اور بعد میں اپنی جان بچا کر مدین پہنچے اور آخر میں بکریاں چرائیں۔ تو یہاں پر معاملہ الٹ ہے

یہاں اللہ سبحانہ و تعالی کا ہمیں بات سمجھانے کا طریقہ ہے کہ آپ کی معاشی ترقی اور سماجی حیثیت کا اللہ کے قریب اور دور ہونے کا کوئی تعلق نہیں
یعنی اگر آپ معاشرے میں اونچا مقام رکھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں نہیں کہ آپ اللہ تعالی کے قریب ہیں، اور کسی شخص کا مقام معاشرے میں اتنا اونچا نہ ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دور ہے۔
دونوں نبی دونوں اللہ تعالی کے برگزیدہ بندے مگر دونوں کی زندگی ایک دوسرے سے بہت مختلف اسی لیئے ہمیں دوسروں کی زندگی کو دیکھ کر یہ نہیں کہنا چاہیے کہ اس کی اتنی اچھی زندگی کیوں ہے اور میری کیوں نہیں؟
ہمیں ظاہری طور پر دوسرے کی نعمت نظر آرہی ہوتی ہے مگر وہ کن آزمائش سے گزر رہا ہوتا ہے ہمیں نہیں معلوم۔ کبھی کبھی ہم کو دوسرے کی آزمائش نظر نہیں آتی ہے مگر اس کی نعمت ہم دیکھ سکتے ہیں۔
اور اکثر ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے کہ ہمیں اپنی آزمائشیں نظر آرہی ہوتی ہیں مگر ہم اپنی نعمت پر نظر نہیں ڈالتے جو اللہ نے ہمیں عطا کی ہیں۔ ہمیں اس طرح بننا ہے کہ ہم اس کی نعمتوں تو کا شکر کریں ہی کریں اور اس کی آزمائش پر صبر بھی کریں۔
اللہ تعالی ہماری آزمائشوں میں ہماری مدد فرمائے۔ آمین

جاری ہے۔۔۔

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

تعارف سورہ یوسف --- حصہ-3 از استاد نعمان علی خان السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ  کل میں نے یہ وضاحت کرنے کی کوشش کی ...

تعارف سورہ یوسف -- حصہ-2


تعارف سورہ یوسف ۔۔ حصہ-2



 عیسائیت مذہب کے مطابق عیسی علیہ السلام صرف بنی اسرائیل کے لئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے آئے تھے، جبکہ بائبل میں واضح طور پر لکھا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے لئے نبی بن کر آئے تھے، اور قرآن بھی یہی کہتا ہے۔ قرآن میں وہ 'اے لوگو،' کہہ کر مخاطب نہیں کرتے بلکہ 'یا بنی اسرائیل' کہتے ہیں۔ جس سے صاف واضح ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے لئے بھیجے گئے نبی تھے۔

اس خیال کو صحیح طرح جانچنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم بنی اسرائیل کے باقی انبیاء کے واقعات پڑھیں، اور ان میں سے ایک نبی ہیں یوسف علیہ السلام ۔۔۔ اور یوسف علیہ السلام کا قصہ ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح وہ اپنے آبائی شہر سے مصر تک پہنچے، اور وہاں جا کر ان لوگوں کے نبی بنے۔  یعنی وہ بھی بنی اسرائیل کے نبی بن کر آئے تھے۔

اللہ کی آیات  ہر چیز کو واضح کردیتی ہیں۔ لیکن کچھ لوگ باقی ہر چیز چھوڑ کر آیت  یا قصے کا ایک حصہ نکال کر اس سے اپنی پسند کا مطلب نکال لیتے ہیں۔  ایسا کرنے سےاللہ کی آیات ہرگزنہیں بدلتیں، حقیقت نہیں بدلتی۔ یہ کام بس عیسائی ہی نہیں بلکہ اکثر مسلمان بھی کرتے ہیں،  اپنے کسی خیال یا نکتے کو ثابت کرنے کے لئے آیات کو بغیر سیاق و سباق کے استعمال کرتے ہیں۔ پتا ہے اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنے خیال کو اللہ کے کلام یا اللہ کی بات سے اعلی سمجھتے ہیں، اور اپنے خیال کو سپورٹ  یا مضبوط کرنے کے لئے اللہ کی آیات کا سہارا لے رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں اللہ کی آیات کے سامنے آپ کی رائے یا آپ کے آئیڈیاز کم درجے کے ہیں۔ اللہ کے کلام، اللہ کے احکام سے اوپر کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ بالکل عاجز اور بغیر کسی ججمنٹ کے آئیں،  اور اللہ کا کلام آپ کو ہر چیز کا آئیڈیا اور جواب دے، آپ اپنے آئیڈیاز لے کر نا آئیں۔

اب میں آپ کو ایک مزے کی بات بتاتا ہوں۔ سورہ القصص میں اللہ بتاتے ہیں کہ جب موسی علیہ السلام نے فرعون کو دعوت حق دیا تو اس نے کچھ جوابات دیے، جن میں اس کا ایک فقرہ بہت دلچسپ ہے۔ وہ کہتا ہے موسی تم جو یہ خدا کی باتیں کرتے ہو یہ ہم نے یا ہمارے باپ دادا نے کبھی نہیں سنی۔ جبکہ سورہ یوسف میں ہمیں اتنی تفصیل سے پتا چلتا ہے کہ یوسف علیہ السلام نے تاج پہننے کے بعد تحت پر بیٹھ کر اللہ کا پیغام دیا تھا، لیکن پھر فرعون کیوں کہہ رہا کہ اس کے باپ دادا نے بھی یہ اللہ کا تصور کبھی نہیں سنا؟

موسی علیہ السلام نے جب مصر میں ایک آدمی کا قتل کیا تھا، تو پولیس کا ایک آدمی تھا جو موسی کا دوست تھا، اس نے موسی علیہ السلام سے کہا تھا کہ آپ شہر چھوڑ جائیں ورنہ یہ لوگ آپ کو قتل کردیں گے۔  بعد میں یہ مسلمان ہو گیا تھا لیکن اس نے کسی پر یہ ظاہر نہیں کیا تھا۔ بعد میں یہی پولیس پروموٹ ہوکر فرعون کے دربار میں آرمی چیف یا کوئی ایسا بلند رتبہ حاصل کرچکا تھا۔ 
اب ایک اورسورہ ہے، سورہ المؤمن ،  یعنی مومن کی سورت۔۔۔ اس  میں ایک انسان کی ایک بہت لمبی تقریر ہے، قرآن میں اتنا لمبا مکالمہ کسی نبی کا بھی نہیں ہے۔ موسی علیہ السلام جب  فرعون کو دعوت حق دے رہے تھے اور فرعون ان کے حق کو ٹھکرارہا تھا، تب اس کے دربار میں سے  ایک آدمی اٹھتا ہے اور حق کی گواہی دیتا ہے۔ قرآن اس کو  'ایک مومن' کہہ کر مینشن کرتا ہے، یہ موسی ؑلیہ السلام کا وہی دوست ہے ۔ اس کے مکالمے کا کچھ حصہ ملاحظہ ہو۔

 اور وہ ایمان والا بولا اے میری قوم! مجھے تم پر اگلے گروہوں کے دن کا سا خوف ہے

اور اے میری قوم میں تم پر اس دن سے ڈراتا ہوں جس دن پکار مچے گی

جس دن پیٹھ دے کر بھاگو گے اللہ سے تمہیں کوئی بچانے والا نہیں، اور جسے اللہ گمراہ کرے اس کا کوئی راہ دکھانے والا نہیں،

اور بیشک اس سے پہلے تمہارے پاس یوسف روشن نشانیاں لے کر آئے تو تم ان کے لائے ہوئے سے شک ہی میں رہے، یہاں تک کہ جب انہوں نے انتقال فرمایا تم بولے ہرگز اب اللہ کوئی رسول نہ بھیجے گا اللہ یونہی گمراہ کرتا ہے اسے جو حد سے بڑھنے والا شک لانے والا ہے

دیکھا آپ نے؟ اس مکالمے میں مومن نے یوسف علیہ السلام کا ذکر کیا کہ یوسف تمہارے پاس آیات لے کر آئے تھے مگر تم نے ان کی وفات کے بعد تم کہنے لگے کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ آیت ۳۴

  یہ بندہ ایک پڑھا لکھا انسان تھا جو  انکو انکی تاریخ یاد کروارہا تھا۔

یہاں میں نے ایک پوائنٹ نکالا، جس سے سب لوگ مکمل متفق نہیں، لیکن مجھے یہی لگتا ہےکہ یوسف علیہ السلام نے وفات سے پہلے اپنے لوگوں کو بتایا تھا کہ تم لوگوں میں اللہ ایک اور نبی بھیجے گا۔۔۔۔ اور پھر اتنے وقت کے بعد فرعون کے دربار میں ایک مومن اہل مصر کو یوسف علیہ السلام  یا د کرواتا ہے۔  سو میرے نزدیک موسی علیہ السلام اور یوسف علیہ السلام کے درمیان ایک گہرا تعلق ہے،۔ ایسے تعلق، ایسے کنیکشن جو بہت واضح نہیں ہیں، جو گہرائی میں جاکر ملتے ہیں۔  یہ میں نے خود دریافت کیے ہیں۔   یہی وجہ ہے میں نے اس بار سورہ یوسف کو گہرائی میں جاکر پڑھانے کا سوچا ہے.

جاری ہے۔۔۔

تعارف سورہ یوسف ۔۔ حصہ-2 از استاد نعمان علی خان  عیسائیت مذہب کے مطابق عیسی علیہ السلام صرف بنی اسرائیل کے لئے نہیں...

تعارف سورہ یوسف -- حصہ-1


تعارف سورہ یوسف ۔۔۔ حصہ-1

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

آج سے ہم سورہ یوسف کا آغاز کریں گے۔ اس رمضان ہم اس کا گہرائی میں مطالعہ کریں گے۔ 

سورہ یوسف اللہ تعالی کی جانب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے ایک خاص تحفہ تھی۔ 
یہ آپ کو "عام الحزن" غم کے دنوں میں دی گئی تھی۔ آپ کی زوجہ خدیجہ رضی اللہ عنہ وفات پاگئیں تھیں، آپ کے چچا کی سپورٹ آپ کے ساتھ باقی نہ رہی تھی، مکہ کے حالات دشوار ہوچکے تھے۔ آپ کی زندگی میں غم نے سایہ کرلیا تھا۔ اور اس دوران آپ کو یہ سورت انعام کی گئی۔ 

یوسف، اسف سے نکلا ہے جس کا معنی ہے غمگین، اداس ہونا۔ 
یوسف علیہ السلام کی زندگی بھی بہت  مشکلات کا شکار رہی تھی۔  

سب سے پہلے میں ابراہیم علیہ السلام اور موسی علیہ السلام کے متعلق کچھ باتیں آپ سے شیئر کرنا چاہوں گا۔ 
قرآن میں جس نبی کا تذکرہ سب سے زیادہ کیا گیا وہ موسی علیہ السلام ہیں۔ 
اور اللہ رب العزت نے ہمارے دین کو ابراہیم علیہ السلام  کا دین کہا ہے قرآن میں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اللہ نے فرمایا تھا کہ وہ گھر جو ابراہیم نے تعمیر کیا تھا اس کا تزکیہ کرو۔
 تو اس سے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کاوش جس کا آغاز ابراہیم نے کیا تھا اس کو ہمارے آخری نبی نے آگے بڑھایا۔ اس سے ہمیں ابراہیم علیہ السلام کے خاص ہونے کا پتا لگتا ہے۔ 

نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے یہ بھی فرمایا گیا قرآن میں کہ "ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کی پیروی کرو"۔ 

ہم ابراہیم علیہ السلام سے کیوں آغاز کر رہے ہیں؟ 

قرآن میں ایک جگہ پر اللہ اور ابراہیم کا ایک مکالمہ ہے جس میں ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے سوال کیا تھا کہ آپ نے مجھے عزت اور نبوت عطا کی ہے تو میری نسل کا کیا بنے گا؟ جس پر اللہ نے جواب دیا تھا کہ لیڈرشپ ظالموں کے لیے نہیں ہے۔ غلط کرنے والوں کے لیے لیڈرشپ نہیں ہے۔ 
اس سے ابراہیم علیہ السلام کو معلوم ہوگیا تھا کہ ان کی نسل میں کچھ  ظالم بھی ہوں گے۔ 
اسی مکالمے کے دوران آپ نے اللہ سے ایک نبی کی بھی درخواست کی تھی۔ یعنی کہ میرے بیٹے اسمعیل کی نسل میں سے ایک نبی مبعوث فرمانا جو آپ کی آیات پڑھے۔ 
 اسمعیل علیہ السلام کی نسل میں سے ہزاروں سال بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اللہ نے نبوت عطا کی۔ 

ابراہیم علیہ السلام کے ایک اور بیٹے تھے۔ اسحاق علیہ السلام۔ اسحاق علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام یعقوب ہے۔ یعقوب سے بارہ بیٹے ہوئے جن میں سے ایک یوسف تھے۔ 
 ابراہیم  علیہ السلام یوسف علیہ السلام کے پڑدادا تھے۔ 
یوسف علیہ السلام کے والد بھی پیغمبر تھے، دادا بھی اور پڑدادا بھی۔  
تین نسل کے بعد بھی یوسف علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام کے دین کی پیروی کر رہے تھے۔ 

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ابراہیم علیہ السلام کے دین کے پیروکار ہونے کا اظہار کرچکے تھے۔ 

بائبل میں ابراہیم اور اللہ کے درمیان ایک مکالمہ موجود ہے جو کہ قرآن میں نہیں۔ بائبل میں آتا ہے کہ اللہ نے ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ ان کی جنریشن ستاروں کی مانند ہوگی، یعنی اس تعداد میں ہوگی اور وہاں ابراہیم علیہ اسلام  سے ایک وعدہ کیا گیا ہے کہ انہیں زمین میں ایک خطہ انعام دیا جائے گا تو اسی وجہ سے اسرائیلیوں کا ماننا تھا کہ ان سے ایک زمین کا وعدہ کیا گیا ہے۔ لیکن قرآن کچھ اور کہتا ہے، قرآن میں کسی زمین کے دیے جانے کا ذکر نہیں ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ انہیں لیڈرشپ ملے گی جب تک وہ ظلم نہیں کریں گے۔ ابراہیم علیہ السلام بھی کسی زمین کے طلبگار نہ تھے بلکہ انکی چاہت تھی کہ ان کی نسل اللہ کے گھر کو آباد کرے۔

ہمیں قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کو اللہ نے ہر نعمت سے نوازا تھا اور انہیں ہر کسی پر فضیلت عطا کی گئی تھی۔ بنی اسرائیل سے مراد یعقوب علیہ السلام کی اولاد ہے اور پھر آگے ان کی نسل۔ 
اور ان کی اس فضیلت، ان کے ان انعامات کا آغاز یوسف علیہ السلام سے ہوا تھا۔ موسی علیہ السلام کے واقعہ کا آغاز بھی یوسف علیہ السلام سے ہوتا ہے۔ ان کے بغیر موسی کا بھی واقعہ پیش نہ آتا۔ 
بائبل اور قرآن کا موازنہ کیا جائے تو یوسف علیہ السلام کا قصہ قرآن میں ہر طرح سے مختلف طریقے سے بیان ہوا ہے۔ یہ تاریخ کا ایسا واقعہ ہے جس سے ہر کوئی ذہنی روحانی اور جذباتی وابستگی قائم کر سکتا ہے۔ 

اس سورت کے اختتام میں اللہ نے فرمایا کہ اس نے اس واقعہ کو "عبرہ" بنایا ہے۔ عبرہ کا معنی ہے سمندر پارکرنا، کسی چیز کا دل کو ایسے چھو جانا کہ آنسو آنکھوں سے پار کرجائیں۔ 
اللہ فرما رہا ہے کہ یہ قصہ ایسا ہے جس کو جان کر آنکھوں سے آنسو جاری ہوجائیں گے۔ 

یہ کچھ باتیں ہیں تاریخ کی جن کو جاننا ضروری ہے تاکہ ہم آگے جا کر بہتر طریقے سے سورت کی گہرائی سمجھ سکیں۔ اس لیے ان سب کا شروع میں ذکر کیا جا رہا ہے جو کہ آگے آنے والے کچھ حصوں میں مکمل ہوگا۔ 

جاری ہے۔۔۔

تبصرہ کرے اپنی رائے کا اظہار کریں

تعارف سورہ یوسف ۔۔۔ حصہ-1 از استاد نعمان علی خان بسم اللہ الرحمٰن الرحیم السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ آج سے ہم سور...

خطبات حرمین ۔۔۔ 24 اپریل 2020



خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اردو ترجمہ)
امام و خطیب:  فضلية الشيخ سعود الشریم
موضوع:  رمضان کی آمد اور کورونا
بتاریخ: 01 رمضان 1441 ۔۔۔ بمطابق 24 اپریل 2020




خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اردو ترجمہ)
امام و خطیب: فضيلة الشيخ صلاح بن محمد البدیر
موضوع:  رمضان مبارک کی بشارت و خوشخبری
بتاریخ: 01 رمضان 1441 ۔۔۔ بمطابق 24 اپریل 2020





تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اردو ترجمہ) امام و خطیب:  فضلية الشيخ سعود الشریم موضوع:  رمضان کی آمد اور کورونا بتاریخ: 01 ...

خطبات حرمین ۔۔۔ 17 اپریل 2020




خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اردو ترجمہ)
امام و خطیب:  فضلية الشيخ ماهر بن حمد المعيقلي 
موضوع:   نیکی کے کام؛ بری آفتوں سے بچاتے ہیں
بتاریخ: 24 شعبان 1441 ۔۔۔ بمطابق 17 اپریل 2020





خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اردو ترجمہ)
امام و خطیب: فضيلة الشيخ عبد المحسن بن محمد القاسم
موضوع: مصیبت کو دور کرنے وال اعمال
بتاریخ: 24 شعبان 1441 ۔۔۔ بمطابق 17 اپریل 2020





تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اردو ترجمہ) امام و خطیب:  فضلية الشيخ ماهر بن حمد المعيقلي  موضوع:   نیکی کے کام؛ بری آفتوں سے ب...

مناجات ۔ اِلٰہِي لَا تُعَذِبنِي فَاِنِي



اِلٰہِي لَا تُعَذِبنِي فَاِنِي
کلام: سید محمد ثانیؔ حسنی ندوی 


خداوندا میں سر تا پا خطا ہوں
اسیرِ پنجۂِ حرص و ھواء ہوں
فقیر و خاکسار و بے نوا ہوں
بُرا ہوں پر تیرے در کا گدا ہوں

اِلٰہِي لَا تُعَذِبنِي فَاِنِي
مُقِرٌبِالَّذِي قَد کَانَ مِنِۤي

الٰہی تو رحیمِ بے کساں ہے
الٰہی تیری رحمت بے کراں ہے
الٰہی تُو ہی خلّاقِ جہاں ہے
الٰہی تجھ پہ صدقے دل و جاں ہے

اِلٰہِي لَا تُعَذِبنِي فَاِنِي
مُقِرٌبِالَّذِي قَد کَانَ مِنِۤي

الٰہی مجھ پہ رحمت کی نظر کر
میرے عیبوں سے یارب درگزر کر
شبِ تاریک دل میں، تُو سحر کر
کریم تُو ہے اورتو بندہ پرور

اِلٰہِي لَا تُعَذِبنِي فَاِنِي
مُقِرٌبِالَّذِي قَد کَانَ مِنِۤي

سوا تیرے نہیں ہے کوئی بھی میرا
میری جاں بھی ہے تیری دل بھی تیرا
سیاہ بختی نے آکے دل کو گھیرا
ہے اف سایہ گناہوں کا گھنیرا

اِلٰہِي لَا تُعَذِبنِي فَاِنِي
مُقِرٌبِالَّذِي قَد کَانَ مِنِۤي

بقا تجھ کو ہے حاصل میں ہوں فانی
تیرے قبضے میں میری زندگانی
ندامت سے ہوں یارب پانی پانی
الٰہی میں تیرا بندہ ہوں ثانیؔ

اِلٰہِي لَا تُعَذِبنِي فَاِنِي
مُقِرٌبِالَّذِي قَد کَانَ مِنِۤي

آمین یا رب العالمین!!

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ


اِلٰہِي لَا تُعَذِبنِي فَاِنِي کلام:  سید محمد ثانیؔ حسنی ندوی  خداوندا میں سر تا پا خطا ہوں اسیرِ پنجۂِ حرص و ھواء ہوں ...

خطبات حرمین ۔۔۔ 10 اپریل 2020



خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اردو ترجمہ)
امام و خطیب:  فضلية الشيخ فیصل غزاوی
موضوع:  آزمائش سے عبرتیں اور نصیحتیں
بتاریخ: 17 شعبان 1441 ۔۔۔ بمطابق 10 اپریل 2020




خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اردو ترجمہ)
امام و خطیب: فضيلة الشيخ علی الحذیفی
موضوع: اللہ سے عافیت مانگنا
بتاریخ: 17 شعبان 1441 ۔۔۔ بمطابق 10 اپریل 2020





تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اردو ترجمہ) امام و خطیب:  فضلية الشيخ فیصل غزاوی موضوع:  آزمائش سے عبرتیں اور نصیحتیں بتا...

فاصلے


فاصلے
از سیما آفتاب

کچھ سال پہلے نمرہ احمد کے مشہور نال "جنت کے پتے" کی ایک سطر نے مجھے اپنی نظم "فاصلہ" لکھنے پر آمادہ کیا، اور اب اس وبا کے دور میں جہاں ہر کوئی پریشان ہے، فکرمند ہے وہیں کچھ لوگوں کے لئے یہ وائرس خود احتسابی کا بھی باعث بنا ہے۔ ہمیں ہماری غلطیوں، کوتاہیوں کے سلسلے میں بیدار کرنے سبب بنا ہے۔

اسی سوچ میں اپنی نظم  نظر سے گزری تو مجھے کچھ ادھوری محسوس ہوئی اور میں نے اس کو مکمل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور میری اس نظم کو اپنی آواز و انداز سے مزین کیا ہے میری پیاری دوست سدرہ احمد نے، جن کی نظم (تب اور اب) میں نے گزشتہ دنوں اپنے بلاگ پر بھی پوسٹ کی تھی۔ جزاک اللہ خیرا سدرہ 

ویڈیو لنک: خدا اور تم 

نظم پیش خدمت ہے:


کبھی گر یہ لگے تم کو
تمہارے اور خدا کے درمیاں
ہیں حائل فاصلے کچھ یوں 
کہ تم جتنی بھی شدت سے پکارو
وہ نہیں سنتا
سمجھ لینا اسی لمحے
کہ یہ سب فاصلے پیدا کیے کس نے
خدا تو اپنے بندوں سے
کبھی دوری نہیں رکھتا
رگ جاں سے بھی نزدیک تر
بندے سے رہتا ہے

یہ ہم بندے ہی اپنی سرکشی میں
خدا کو بھول جاتے ہیں
مگر وہ مہرباں ہستی
صفت رحمان ہے جس کی
وہ کہتا ہے میرے بندو
میری رحمت سے تم ہرگز
کبھی مایوس مت ہونا
کسی پستی میں گر جاؤ
گناہوں سے لتھڑ جاؤ
میری رحمت سے تم ہرگز
کبھی مایوس مت ہونا
کبھی نادم جو ہو جاؤ
پشیمانی میں گھر جاؤ
مجھے ناراض جو پاؤ
ہمیشہ یہ یقیں رکھنا
کہ پلٹے جو میری جانب
کرے توبہ گناہوں سے
درست اعمال جو کرلے
تو اس کے سب گناہوں کو
میں بے شک معاف کردوں گا
بھٹک کر پھر پلٹ آنا
میری رحمت کی چادر میں
مگر مایوس مت ہونا 

چلو پھر سے پلٹ جائیں
سرِ تسلیم خم کرلیں
مٹا دیں فاصلے سارے
رہے نہ درمیاں دوری
خدا اور اس کے بندے میں

دعاؤں کی طالب
سیما آفتاب


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

فاصلے از سیما آفتاب کچھ سال پہلے نمرہ احمد کے مشہور نال " جنت کے پتے " کی ایک سطر نے مجھے اپنی نظم " فاصلہ " ...

تب اور اب (قرنطینہ میں خیال آرائی)


تب اور اب
از سدرہ احمد


کورونا وائرس نے جہاں دنیا بھر کو معیشت اور صحت کے میدان میں متاثر کیا ہے وہیں دنیا کی بھاگ دوڑ سے ملنے والے فرصت کے وقفے میں ہم پر سوچ کے نئے در بھی وا کیے ہیں، ہم چیزوں کو ایک الگ اور مثبت زاویے سے بھی دیکھنے لگے ہیں۔

اسی طرح میری بہترین دوست سدرہ احمد جو کہ ایک نجی یونیورسٹی میں سماجی علوم کے استاد ہیں، انہوں نے قرنطینہ کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے۔


ابھی کچھ روز پہلے تک
سمے کے رنگ بدلنے تک
بہ مثلِ رقص
بہ مثلِ جاں
زندگی یوں جوبن پہ تھی
رفاقت میں بھی ان بن تھی
بڑی بے کیف قربت تھی
عجب کچھ بھاگ دوڑ تھی
گھر کی دہلیز ساکن تھی
نہ تھا اک سانس لینے کو
میسر پل وہ فرصت کا
کچھ کہنے اور سننے کو
ہو جیسے بوجھ رفاقت کا
ملاقاتوں کی اپنوں سے
ہر اک چاہ پہ قدغن تھی

پھر ایسا موڑ اک آیا
جنوں ساکت جو کرپایا
نہ سوچا تھا کبھی دل میں
وہ وقت ایسا بے وقت آیا
سکوں سے گھر پہ رہنے کی
خوشی سے مل بیٹھنے کی
جو اک عرصے سے خواہش تھی
سبب اس کا یہ بن پایا
یہ وائرس تھا بڑا ظالم
مگر کچھ کام کرپایا
کہ کتنے وقت کے قیدی
وہ زنداں سے چھڑا لایا
سکوں کے پل میسر ہوئے
کہ جتنا دل کیا سوئے
کچھ ایسی اپنی راحت تھی
ٍکچھ اس طرح کی سلجھن تھی

مگرگھر پر رہے کتنا
 دل کو بہلائے بھلے کتنا
یہ اکیسویں صدی کا انساں ہے صاحب
اسے اوروں کی عادت تھی
بہت جلدی یہ گھبرایا
سکوں سے اپنے اکتایا
اسے مرغوب الجھن تھی
بہت مرغوب الجھن تھی
نہ کچھ اور جو سمجھ آیا
سنبھالا زباں کا تیر و بھالا
یوں نوکِ لفظ سے کرڈالیں
اپنی اقدار تہہ و بالا
بنا بیٹھا ہے اسکریں کے سامنے
سراپا مبلغ ومعلمِ اعلیٰ
سیاست ہو کہ حکمت ہو
ہر اک میداں فتح کرنا
وہ اک ماہر کہ جس کے پاس
ہر اک سلجھن کی الجھن تھی

میاں کچھ تو رحم کھاؤ
پریشانیوں کو نہ بڑھاؤ
کہ بن جائیں جو مرہم
وہ الفاظ بانٹو تم
یہی آقا (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت تھی
یہی آقا (صلی اللہ علیہ وسلم)  کی سنت تھی
یہ زندگی مشکل سہی کتنی
اسے ہر طور ہے جینا
بھلا کیوں نہ جئیں ایسے
سراپا دعا و شفاء جیسے
تمہیں انساں بنایا ہے
کروتم شاد دل و نظر ایسے
یہی مالک کی نعمت تھی
یہی مولا کی حکمت تھی
یہی مولا کی حکمت تھی


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

تب اور اب از سدرہ احمد ویڈیو لنک:  Before and now in Qurantine time کورونا وائرس نے جہاں دنیا بھر کو معیشت اور صحت کے میدان می...

آج کی بات ۔۔۔ 505


 آج کی بات 

من مانی کا مزاج رکھنے والے افراد اپنا دین اور اپنی دُنیا دونوں ہی خطرہ میں ڈال لیتے ہیں۔ 
ماننے والے بنیں یعنی فرمانبردار، اور یہی مسلمان کی تعریف ہے۔




تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

❃  آج کی بات  ❃ من مانی کا مزاج رکھنے والے افراد اپنا دین اور اپنی دُنیا دونوں ہی خطرہ میں ڈال لیتے ہیں۔  ماننے والے بنیں یع...

خدا ناراض ہے ہم سے


خدا ناراض ہے ہم سے 
شاعرہ: ناز بٹ

خدا ناراض ہے ہم سے
جبھی تو اُس نے اپنے گھر کے دروازے
سبھی پر بند کرڈالے!

خدا خاموش ہے لیکن…..
خدا کی خامشی کی رمز کو سمجھو !
یہ خاموشی کہیں غیظ و غضب کی ابتدا نہ ہو!

حدوں سے ہم تجاوز کرگئے تھے
یوں سمجھنے لگ گئے تھے
جیسے اپنے ہاتھ میں ہو کُل خدائی
زعم میں یہ بھول بیٹھے تھے
طنابیں سارے عالم کی
اُسی کے دستِ قدرت میں ازل سے ہیں
وہ جب چاہے سمندر، آسماں، کہسار، سیارے
چٹانیں، چاند، سورج، کہکشاں، تارے
دُھواں بن جائیں نظارے

تو آؤ!
اس سے پہلے کہ صدائے صُورآپہنچے
بقا کے راستے پر چل پڑیں پھرہم
ابھی توبہ کا دروازہ کھلا ہے
آرہی ہے روشنی، رحمت خدا کی!

چلو! گریہ کریں مِل کر
خطاؤں پر، گناہوں پر
دَرِ توبہ پہ اذن ِ حاضری مانگیں
چلو پھر بارگاہ ِ ایزدی میں سر جھکا لیں
اور منالیں اپنے خالق کو
جو ستّر ماؤں سے بڑھ کر محبت ہم سے کرتا ہے!




تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

خدا ناراض ہے ہم سے  شاعرہ: ناز بٹ خدا ناراض ہے ہم سے جبھی تو اُس نے اپنے گھر کے دروازے سبھی پر بند کرڈالے! خدا خاموش ہے ...

خطبات حرمین ۔۔۔ 03 اپریل 2020



خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اردو ترجمہ)
امام و خطیب:  فضلية الشيخ بندر بليلة 
موضوع: مصیبت کو دور کرنے میں دعاؤں کا اثر
بتاریخ: 10 شعبان 1441 ۔۔۔ بمطابق 03 اپریل 2020



  



خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اردو ترجمہ)
امام و خطیب: فضيلة الشيخ عبدالباري الثبيتي
موضوع: اپنی مخلوق میں اللہ کے دستور اور قوانین
بتاریخ: 10 شعبان 1441 ۔۔۔ بمطابق 03 اپریل 2020






تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اردو ترجمہ) امام و خطیب:  فضلية الشيخ بندر  بليلة  موضوع: مصیبت کو دور کرنے میں دعاؤں کا اثر بتاریخ: ...