آج کی بات ۔۔۔۔ 30 جون 2018

~!~ آج کی بات ~!~

جو علم آپ کو اپنے عیب دکھائے وہی اصل علم ہے

دوسروں کے عیب دیکھنا خود سے دوری ہے
اللہ سے دوری ہے
وہی علم روشنی پھیلاتا ہے جو آپ کو خود شناس بنا سکے.

~!~ آج کی بات ~!~ جو علم آپ کو اپنے عیب دکھائے وہی اصل علم ہے دوسروں کے عیب دیکھنا خود سے دوری ہے اللہ سے دوری ہے وہی علم رو...

وقت کا مصرف اور افغانستان میں جنگ بندی - خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 22 جون 2018

وقت کا مصرف اور افغانستان میں جنگ بندی 
 خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
امام و خطیب:  ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد الرحمن بعیجان
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
بشکریہ: دلیل ویب

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد الرحمن بعیجان حفظہ اللہ نے 08 شوال 1439 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں "وقت کا مصرف اور افغانستان میں جنگ بندی" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ وقت کی قدر کرتے ہوئے چند دنوں کی زندگی میں خوب نیکیاں کر لیں یہ عقلمندی کی علامت ہے، اگر کوئی شخص اللہ تعالی کے قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کے مزید قریب ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ: رمضان کے بعد بھی وقت کی قدر کریں اور  تلاوت ، قیام اور نفل روزوں کا اہتمام کرتے رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ شوال میں چھ روزے رکھا کرتے تھے اور ان کی بدولت پورا سال روزے رکھنے کا ثواب مل جاتا ہے۔ وقت اور دولت دونوں کو ضائع ہونے سے بچانا پڑتا ہے، لیکن دولت جمع تو ہو جاتی ہے وقت جمع نہیں ہوتا، اس لیے وقت کی اہمیت دولت سے زیادہ ہے۔ اپنے وقت کو کار آمد بنانے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ وقت کہاں اور کیسے صرف کرے۔ مومن کی ساری زندگی اللہ تعالی کی بندگی میں گزرتی ہے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں وقت کو مفید سرگرمیوں سے بھر پور رکھیں، اسے واجبات سے پہلو تہی اور لہو و لعب میں ضائع مت کریں۔ اپنی اولاد کو وقت کی قدر اور اسے مثبت سرگرمیوں میں صرف کرنا سکھائیں؛ وگرنہ بچے لاپرواہی اور انحراف کا شکار ہو جائیں گے۔ انسان سے زندگی کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ کہاں گزاری؟ فراغت اور صحت دو ایسی نعمتیں ہیں جن کی لوگ قدر نہیں کرتے، گرمیوں کی چھٹیوں میں شرعی دائرے میں رہتے ہوئے سیر و تفریح کوئی بری چیز نہیں ہے، تاہم انسان کو ان کا اسیر نہیں ہونا چاہیے۔ آخر میں انہوں نے افغانی بھائیوں کی جانب سے جنگ بندی کو سارے عالم اسلام کی جانب سے خوش آئند قرار دیا اور اس جنگ بندی کو مزید آگے بڑھانے پر زور دیا ، نیز افغانی جنگجوؤں کو صلح اور معافی تلافی کی ترغیب بھی دلائی اور آخر میں سب کے لیے دعا فرمائی۔

●~* منتخب اقتباس ●~*

مسلم اقوام!

تقوی الہی اختیار کرو اور زندگی گزرنے سے پہلے دل کھول کر بندگی کر لو، اپنی بات کو اپنے عمل سے ثابت کر دکھاؤ؛ کیونکہ انسان کی حقیقی زندگی وہی ہے جو اللہ تعالی کی اطاعت میں گزر جائے، عقل مند وہی ہے جو اپنے آپ کو جانچ لے اور موت کے بعد کی تیاری رکھے، وہ شخص عاجز ہے جو چلے تو اپنے نفس کے پیچھے لیکن امیدیں اللہ تعالی سے لگائے۔

اللہ کے بندو!

تم نے ماہ رمضان کو الوداع کہہ دیا، رمضان فضیلتوں، نیکیوں اور مغفرت سے بھر پور مہینہ تھا؛ اگر ہمیں کسی کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ اسے پروانہ قبولیت مل گیا ہے تو ہم اسے مبارکباد دیں اور دھتکارے ہوئے شخص کے ساتھ افسوس کریں۔ اللہ تعالی آپ سب کی بندگی قبول فرمائے اور آپ کے گناہ معاف فرمائے، آپ کے اجر میں اضافہ فرمائے۔

 راہ الہی پر ڈٹ جائیں اور اللہ تعالی کا قرب حاصل کریں؛ کیونکہ عبادت پر استقامت نیکیاں قبول ہونے کی علامات میں شامل ہے، اللہ کے ہاں اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کیلیے فرائض کی پابندی سے بڑھ کر کوئی عمل محبوب نہیں، بندہ نفل عبادات کی ذریعے قرب الہی کی جستجو میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالی اس سے محبت کرنے لگتا ہے، جو شخص اللہ تعالی کے ایک بالشت قریب ہو تو اللہ تعالی اس کے ایک ہاتھ قریب ہو جاتا ہے اور جو شخص اللہ تعالی کے ایک ہاتھ قریب ہو تو اللہ تعالی اس کے ایک گز قریب ہوتا ہے، اور جو اللہ تعالی کے پاس چل کر آئے تو اللہ تعالی اس کے پاس دوڑ کر آتا ہے۔

اس لیے فرائض کی پابندی کرو، قرآن کریم کو مت چھوڑو، قیام اللیل اور گرمیوں میں بھی روزے رکھنے کا اہتمام کرو، سفیان بن عبد اللہ ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: "اللہ کے رسول! مجھے اسلام کے متعلق ایسی بات بتلائیں کہ آپ کے بعد کسی سے کچھ نہ پوچھوں" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم کہو: میں اللہ پر ایمان لایا، اور پھر اس پر ڈٹ جاؤ)

مسلم اقوام!

وقت اور دولت دونوں کی یکساں حفاظت کرنی پڑتی ہے، ان دونوں کو صرف کرنے کے لیے میانہ روی اور سوچ بچار سے کام لینا پڑتا ہے، تاہم دولت کو جمع اور ذخیرہ کرنا ممکن ہے؛ بلکہ اس میں افزودگی بھی ہو سکتی ہے، لیکن وقت میں یہ سب کچھ نہیں ہوتا؛ اس لیے زندگی کا ایک منٹ اور لمحہ گزر جانے کے بعد کبھی بھی واپس نہیں آئے گا چاہے آپ اس کو واپس لانے کے لیے دنیا بھر کی دولت خرچ کر دیں۔

پھر چونکہ وقت موت تک میسر ہے، ہر شخص کی عمر متعین کی جا چکی ہے اس میں کسی قسم کی تقدیم و تاخیر ممکن نہیں، اور وقت کی قیمت اس میں کیا جانے والا کام متعین کرتا ہے؛ تو ہر انسان پر یہ واجب ہو جاتا ہے کہ اپنے وقت کا خیال کرے، اسے خوب اچھے طریقے سے کام میں لائے، وقت تھوڑا ہو یا زیادہ اس کے استعمال میں کوتاہی کا شکار نہ ہو۔

اللہ کے بندو!

زندگی چند دنوں کی ہے، موت تک وقت بہت مختصر ہے۔ ماضی قصہ پارینہ بن گیا اور آنے والی چیز آ کر رہے گی۔ زندگی کا ہر لمحہ نیکیاں کرنے کی بہار ہے، اس لیے نیکی سر انجام دینے کے لیے کوتاہی کا کوئی موقع نہیں، زندگی کا ہر لحظہ امتحان اور آزمائش ہے لہذا خامی یا تاخیر کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔ اس مختصر سی زندگی کے ذریعے انسان جنتوں میں دائمی اور ابدی زندگی خرید سکتا ہے، نہ ختم ہونے والی سرمدی زندگی حاصل کر سکتا ہے، جبکہ اس کے مد مقابل جو شخص بھی اس میں کوتاہی کرے تو وہ ہلاکت اور خسارے میں جائے گا۔

اس لیے عقلمند کو چاہیے کہ اپنی زندگی کی اہمیت پہچانے، اپنے معاملات کی بدولت ملنے والا فائدہ جانچ لے اور پہلے ایسے معاملات پر توجہ کرے جن کا بعد میں ادراک ممکن نہ ہو؛ کیونکہ بسا اوقات ان کے چوک جانے سے انسان تباہ ہو جاتا ہے۔

مسلم اقوام!

آپ گرمیوں کی چھٹیاں گزار رہے ہیں یہ ذہنی سکون، حقوق کی ادائیگی، معافی تلافی سمیت مستقل قریب اور بعید کی تیاری کا نادر موقع ہے۔ گرمیوں کی چھٹیاں ذمہ داریوں اور واجبات سے پہلو تہی، حق تلفی، لہو و لعب میں غرق ہونے، نفس پرستی کے انبار لگانے ، اور اپنے کندھوں پر گناہوں کا بوجھ اٹھانے کا موقع نہیں ہوتیں۔

اس لیے اپنے اہل خانہ اور اولاد کے بارے میں اللہ سے ڈریں، انہیں وقت کی اہمیت سکھائیں، وقت کو مفید سرگرمیوں میں صرف کرنے کی تربیت دیں، حصول علم یا کسی فن کے سیکھنے میں اسے صرف کریں، مثلاً: حلال روزی کے لیے اسے استعمال میں لائیں، اللہ ذو الجلال کی عبادت میں اسے صرف کریں، اور یہی حقیقی معنوں میں مردانہ تربیت ہے۔

اللہ کے بندو!

یقیناً اللہ تعالی تم سے تمہاری زندگی کے بارے میں پوچھے گا کہ کہاں گزاری اسی لیے(اس وقت تک بندے کے قدم ہل نہیں سکیں گے جب تک اس سے قیامت کے دن چار سوال نہ کر لیے جائیں: جوانی کہاں گزاری؟ زندگی کہاں ختم کی؟ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور علم حاصل کر کے اس پر کتنا عمل کیا؟)

لہذا ہر شخص اپنے آپ سے لازمی استفسار کرے کہ جب اس سے یہ سوال پوچھا جائے گا تو اس کے ذہن میں اس کا کیا جواب ہو گا؟ وہ کون سا ایسا عمل ہے جو اس نے اپنی جوانی اور زندگی کے ایام میں کیا اور اس سوال کے جواب میں اس عمل کو پیش کر سکے؟

اس لیے اللہ کے بندو! اس سوال کا جواب تیار رکھو اور جواب بھی صحیح تیار کرو۔

اللہ تعالی ہمیں اور آپ سب کو ان لوگوں میں شامل فرمائے جو باتیں سن کر بہترین بات پر عمل پیرا ہوتے ہیں ، یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالی نے ہدایت دی ہے اور یہی لوگ عقل والے ہیں۔

اللہ کے بندو!

عقل مند اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اس کی سانسیں چلتے ہوئے اس کی عمر کو فضول ضائع کر دیں اور وہ اپنے ان قیمتی لمحات کو دنیاوی یا دینی اعتبار سے استعمال میں نہ لائے، وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ فراغت بہت بڑی نعمت ہے بشرطیکہ اسے صحیح استعمال میں لایا جائے، اور اگر اسی کا استعمال غلط ہو تو یہی فراغت بہت بڑی زحمت بھی بن جاتی ہے؛ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے متعلق بہت سے لوگ دھوکے میں ہیں: صحت اور فراغت)

اس لیے وقت ضائع کرنا دینی اعتبار سے غبن اور عیب ہے، یہ کمزور عقل اور پاگل پن کی علامت ہے، بہت سے لوگ وقت ضائع کرنے میں مبتلا ہیں، اس لیے خود بھی وقت ضائع کرنے سے بچیں اور اپنے ماتحت افراد کو بھی بچائیں، زندگی کے ان قیمتی لمحات کو اپنے لیے غنیمت سمجھیں اور انہیں بھر پور استعمال کریں، ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: (پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے قبل غنیمت سمجھو: جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، ثروت کو غربت سے پہلے، فراغت کو مصروفیت سے پہلے، اور زندگی کو موت سے پہلے)

تربیت کرنے والو!

فضول خرچی اور گناہوں کے بغیر سیر و تفریح، لطف اندوزی، اور آرام کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، نیز تفریحی سرگرمیوں کے دوران یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ حقوق اور واجبات کی ادائیگی میں کمی نہ آئے تو یہ جائز اور مباح تفریحی سرگرمیوں میں شامل ہے، اس سے انسان ایک بار پھر تر و تازہ اور چاق و چوبند ہو جاتا ہے۔

بعد ازاں : مسلم اقوام!

مسلمانوں کے درمیان پائی جانی والی لڑائیاں، دست و گریبان ، نفرتیں، اور اختلافات بہت ہی تکلیف دہ چیزیں ہیں، ان سے دل کڑھتا ہے، کلیجہ منہ کو آتا ہے، یہ قلب پر انتہائی بار گراں ہیں۔

مسلمانوں کے خون کا تحفظ ، مسلمانوں کی جانوں کا تحفظ ، مسلمانوں کی عزت آبرو اور املاک کا تحفظ اولین مقاصد شریعت میں شامل ہے، یہ دین کے مسلمہ اصولوں میں سے ہے، بلکہ فطرت سلیم بھی اسی چیز کا تقاضا کرتی ہے۔

پورا عالم اسلام ہمارے افغانی بھائیوں کے درمیان صلح اور مصالحت کا خواہاں ہے، اور افغانی بھائیوں کے مابین ہونے والی جنگ بندی کو خوش آئند قرار دیتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ہونے والی جنگ بندی طویل ترین جھڑپوں، لڑائیوں، اختلافات ، اور جھگڑوں کے بعد میسر ہوئی ہے، ان جھڑپوں میں معصوم بچے اور خواتین بہت زیادہ متاثر ہوئے، بے گناہ شہری اللہ تعالی سے گڑگڑا کر نجات مانگتے تھے۔

افغانی بھائیو!

صلح میں ہی خیر ہے، اس لیے اللہ سے ڈریں اور باہمی مصالحت کر لیں، ایک دوسرے کی غلطیاں اور کوتاہیاں معاف کر دیں؛ کیونکہ {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ} بیشک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں، اس لیے تم اپنے بھائیوں کے مابین مصالحت کرواؤ[الحجرات: 10] اور اسی طرح فرمایا: {وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ} جو صبر کرے اور معاف کر دے تو یہ بہت بڑی ہمت کا کام ہے۔[الشورى: 43] اس لیے مسلمانوں کی جانوں کو تحفظ دینے کے لیے انفرادی مفادات سے دستبرداری کی بہت بڑی فضیلت ہے، یہ بذات خود بہت بڑا اجتماعی مفاد ہے، یہی بے باکی، شجاعت، اور کمال درجے کی بہادری ہے۔

اللہ تعالی آپ سب کو متحد کر دے، آپ کو یک زبان کر دے، جو باہمی اختلافات ہیں انہیں اللہ تعالی ختم کر دے، تمہارے دلوں میں الفت ڈال دے، آپ کے ملک میں فتنہ پروری اور شدت پسندی کو بھسم فرما دے۔

یا اللہ! مسلمانوں کے حالات سنوار دے، یا اللہ! پوری دنیا میں مسلمانوں کے حالات سنوار دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمارے ملک کو اور دیگر تمام اسلامی ممالک کو امن و استحکام کا گہوارہ بنا دے، یا اللہ! ہمیں ہمارے خطوں میں امن و امان عطا فرما، یا اللہ! ہمارے حکمرانوں کی اصلاح فرما ۔

آمین یا رب العالمین


وقت کا مصرف اور افغانستان میں جنگ بندی   خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) امام و خطیب:  ڈاکٹر عبد اللہ بن عبد الرحمن بعیجان ترجمہ: شفق...

آج کی بات ۔۔۔ 23 جون 2018

~!~ آج کی بات ~!~

آپ کی رائے کا احترام  تبھی تک ہے جب تک اسے قانون کا درجہ دے کر دوسرے پر مسلط کرنے کی کوشش نہ کی جائے ۔  

ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

~!~ آج کی بات ~!~ آپ کی رائے کا احترام  تبھی تک ہے جب تک اسے قانون کا درجہ دے کر دوسرے پر مسلط کرنے کی کوشش نہ کی جائے ۔   ڈاکٹر...

سورت الانشراح؛ بعد از رمضان مشعل راہ - خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 15 جون 2018

Image result for ‫مسجد نبوی‬‎
سورت الانشراح؛ بعد از رمضان مشعل راہ 
  خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
امام و خطیب: ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
بشکریہ: دلیل ویب

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ نے مسجد نبوی میں 01 شوال 1439 کا خطبہ جمعہ " سورت الانشراح؛ بعد از رمضان مشعل راہ" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ مسلمان ماہ رمضان کو الوداع کہہ رہے ہیں اور اس صورت حال میں سورت الانشراح مکمل رہنمائی پیش کرتی ہے کہ اس میں مخاطب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا گیا لیکن تمام مسلمانوں کو اس سے رمضان کے بعد کی زندگی کے لیے جامع منصوبہ بندی ملتی ہے؛ چنانچہ پہلی آیت میں شرح صدر کا ذکر ہے جو کہ مسلمانوں کی رمضان میں بھرپور عبادات سے ہو چکی ہے اور اس کی لذت بھی انہوں نے پا لی ہے، بلکہ مومن کی ساری زندگی شرح صدر کی وجہ سے صبر اور شکر کے درمیان ہی گزرتی ہے۔ دوسری آیت میں گناہوں کی معافی تلافی کا ذکر ہے اور رمضان میں مسلمان اپنے گناہ معاف کروا کر ہلکے پھلکے ہو گئے ہیں، نیز انہیں گناہوں کی صفائی کے بعد ایمانی مٹھاس اور حلاوت بھی محسوس ہونے لگی ہے۔ تیسری آیت میں  اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بلند کرنے کا ذکر فرمایا تو اسی طرح جن کی زبانیں اور قلب و ذہن یاد الہی میں مصروف رہیں تو اللہ تعالی انہیں بھی بلند مقام عطا فرماتا ہے، قرآن کریم کے ذریعے اللہ تعالی بہت سی اقوام کو رفعت اور کچھ کو پست کر دیتا ہے، جیسے کہ حافظ قرآن کو روزِ قیامت کہا جائے گا: قرآن پڑھتا جا اور چڑھتا جا، دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ آخری اور دو آیات کے مطابق فراغت کو اللہ تعالی کی بندگی میں مصروف  رکھیں یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن کی زندگی میں عبادت سے چھٹی کا کوئی تصور نہیں ہے، اسی لیے مومن ایک عبادت کی تکمیل پر دوسری عبادت کو شروع کر لیتا ہے اور اس تسلسل کو ٹوٹنے نہیں دیتا۔ عبادت کے اس تسلسل کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے عملی نمونہ ہیں، آخر میں انہوں نے کہا کہ رمضان میں عبادات میں وقت گزارنے والا رمضان کے بعد یکسر بدل جائے انتہائی محرومیت کی علامت ہے؛ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی آخری دم تک عبادات کرنے کا حکم دیا گیا تھا، پھر آخر میں جامع دعا کروائی۔

منتخب اقتباس: 

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ماہ رمضان میں جتنی بھی بھلائیاں مقدر میں لکھیں اور عطا کیں ان پر اللہ ہی کے لیے تعریفیں ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے، اللہ تعالی نے مومنین کو خوشخبریاں دیں اور ان کی مشکلات آسان فرمائیں، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ بندگی کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور بلند درجات تک پہنچنے والے صحابہ کرام پر رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہو، اللہ کا فرمان ہے: 
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ}
 اے ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقُّہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔[آل عمران: 102]

مسلمان رمضان کو الوداع کہہ رہے ہیں کہ جس کی راتیں مٹھاس والی تھیں، رمضان کے دنوں کی منفرد تازگی تھی، ان میں رحمت کی برکھا برستی تھی۔

 رمضان کی راتیں گزر گئیں، اور دن بھی ختم ہو گئے؛ لیکن رمضان کے نقوش قلب و ذہن پر موجود ہیں، روئے زمین پر جہاں جہاں روزے دار چلتے پھرتے تھے وہاں روزے کے اثرات عیاں ہیں۔

اور جب ہم سورت الانشراح کے معانی پر غور کریں جن میں مخاطب تو رسول اللہ ﷺ کو کیا گیا ہے  لیکن ہمیں ایسے عظیم ثمرات کا تصور ملتا ہے جو انسان کو رمضان سے ملتا ملتے ہیں، مزید برآں رمضان کے بعد کی زندگی کے لیے رہنمائی بھی حاصل ہوتی ہے؛ فرمان باری تعالی ہے:
 {أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ (1) وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ (2) الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ (3) وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ (4) فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (5) إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (6) فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ (7) وَإِلَى رَبِّكَ فَارْغَبْ }
 کیا ہم نے آپ کی شرح صدر نہیں فرمائی[1] اور ہم نے آپ سے آپ کا بوجھ اتار دیا[2] جو آپ کی کمر توڑ رہا تھا [3] اور ہم نے آپ کا تذکرہ بلند فرمایا [4]بیشک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے [5] بیشک ہر مشکل کے ساتھ ایک اور آسانی بھی ہے [6]پس جب آپ فارغ ہوں تو عبادت کیلیے محنت کریں [7] اور اپنے پروردگار کی جانب راغب ہوں ۔ [الشرح: 1 - 8]

{أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ}
 کیا ہم نے آپ کی شرح صدر نہیں فرمائی [الشرح: 1]
 اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک عظیم ترین نعمت کا احسان جتلایا، یہ نعمت شرح صدر کی نعمت ہے، اور شرح صدر رمضان کی عبادات قبول ہونے کا ثمر ہے۔ اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہو گی کہ اللہ تعالی انسان کی اس طرح شرح صدر فرما دے کہ اس نے رمضان میں ایمانی مٹھاس حاصل کر لی ہو، قرآن کریم کے فہم نے اس کے قلب و ذہن کو منور کر دیا ہو۔

یہ یقینی بات ہے کہ کسی چیز کی لذت اور ذائقہ چکھ لینے کے بعد پھر اس سے صبر کرنا ممکن نہیں رہتا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نفس میں طبعی طور پر تجربے کا شوق اور حرص ہے، چنانچہ جب اسے تجربہ ہو جائے تو نفس اس چیز کا حریص بن جاتا ہے، اور جب کوئی چیز حرص میں شامل ہو جائے تو وہ دل و دماغ پر مسلط ہو جاتی ہے۔

{وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ}
 اور ہم نے آپ سے آپ کا بوجھ اتار دیا [الشرح: 2]
 نیک لوگوں کو اللہ تعالی کی طرف سے ملنے والا ماہ رمضان کی قبولیت کا ثمرہ یہ بھی ہے کہ کمر سے گناہوں کا بوجھ اتر جائے، خطائیں اور پاپ دھل جائیں، چنانچہ جس وقت انسان گناہوں کے بوجھ سے ہلکا ہو جائے تو سعادت کے قریب تر ہو جاتا ہے۔

کیونکہ گناہوں اور معصیتوں کا بوجھ انسان پر بہت گراں ہوتا ہے، ان کی انسانی اعضا پر گرفت بڑی مضبوط ہوتی ہے، یہ روح کو بیماریوں اور امراض میں مبتلا کر دیتے ہیں، جسمانی بیماری میں تکلیف ہوتی ہے، جبکہ قلبی اور روحانی بیماری میں گناہ سر زد ہوتے ہیں؛ تو جس طرح جسمانی بیماری کی حالت میں کھانے میں لذت نہیں آتی بالکل اسی طرح جب روح اور قلب گناہوں میں مبتلا ہوں تو عبادت کی مٹھاس حاصل نہیں کر پاتے۔

انسان کے کندھوں پر ایسے گناہ بھاری ترین ثابت ہوتے ہیں جن کے ذریعے انسان دوسروں کو تکلیف پہنچائے، ان میں غیبت، چغلی، جھوٹ، اور ظلم سر فہرست ہیں۔

قرآن کریم نے ان گناہوں کو ایسے بوجھ سے تشبیہ دی ہے جو انسان کی کمر توڑ دیں، چنانچہ فرمایا: 
{الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ}
 [وہ گناہ کا] بوجھ آپ کی کمر توڑ رہا تھا [الشرح: 3]

{وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ
اور ہم نے آپ کا تذکرہ بلند فرمایا [الشرح: 4]
 اللہ تعالی نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو بلند فرمایا تو آپ کے تذکرے کو بھی رفعت بخشی؛ لہذا جب بھی اللہ کا ذکر ہو گا تو ساتھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ذکر ہو گا۔

اسی طرح جن لوگوں کے اعضا اور جوارح خشوع سے نہال رہے، ان کے دل قرآن سے سکینت حاصل کرتے رہے، جن کی زبانیں ذکر سے تر رہیں۔ رمضان کے شب و روز دعا، لا الہ الا اللہ اور الحمد اللہ کے ورد سے معمور رہے؛ اللہ تعالی ان کا ذکر بھی بلند فرماتا ہے، ان کی قدر و منزلت کو دنیا و آخرت میں اعلی ترین مقام پر پہنچا دیتا ہے، اور لوگوں کے مابین درجہ بندی کا حقیقی معیار بھی یہی ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بیشک اللہ تعالی اس کتاب کے ذریعے بہت سی اقوام کو رفعت عطا فرماتا ہے، اور بہت سی اقوام کو پست کر دیتا ہے)

{فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ}
 پس جب آپ فارغ ہوں تو عبادت کیلیے محنت کریں [الشرح: 7]
 اس آیت کے مطابق بندے کو یہی طریقہ کار اپنانا چاہیے کہ وہ اللہ تعالی کی بندگی کے لیے جہد مسلسل کا پیکر ہو، اللہ تعالی کی شریعت پر کار بند رہے، اللہ کے دین پر ثابت قدم ہو، اسی لیے مسلمان کی ساری زندگی اللہ کی بندگی کی بہار ہوتی ہے، اپنی نماز سے فارغ ہوں تو اپنے رب سے مانگنے میں مصروف ہو جائیں، اپنے رب کی دیگر عبادتوں میں مگن ہو جائیں، جیسے ہی دنیاوی مصروفیات سے فرصت ملے اللہ تعالی کی بندگی میں جت جائیں۔

یہی وجہ ہے کہ  اللہ کی بندگی سے مسلمان کو کبھی فرصت نہیں ملتی، بلکہ وہ ہمیشہ ایک عبادت سے دوسری عبادت میں منتقل ہوتا رہتا ہے؛ کیونکہ جس وقت میں آپ دنیاوی جھنجھٹ اور پریشانیاں پس پشت ڈال کر اپنے پروردگار کے سامنے خلوت اختیار کریں، اس وقت اور ساعت سے اچھی گھڑی کوئی نہیں ہے۔

{فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ (7) وَإِلَى رَبِّكَ فَارْغَبْ}
 پس جب آپ فارغ ہوں تو عبادت کیلیے محنت کریں [7] اور اپنے پروردگار کی جانب راغب ہوں ۔ [الشرح: 7، 8]

یہ آیات انسان کو بلیغ ترین صدا اور عظیم ترین تعلیمات دیتی ہیں ، یہ آیات اپنے وقت سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دلاتی ہیں اور اس کے لیے ہمت باندھتی ہیں۔

نیکیوں پر فوری اور دائمی عمل کے واسطے مسلمان کے لیے عملی نمونہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؛ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اتنا لمبا قیام فرماتے تھے کہ آپ کے قدم مبارک بھی سوج جاتے ۔

یہ بہت بڑی محرومیت ہے کہ انسان ماہ رمضان میں نیکیاں کرنے کے بعد پھر ویسے ہی ہو جائے جیسے پہلے تھا، جن نیکیوں کی اللہ تعالی نے ماہ رمضان میں توفیق دی تھی انہیں ضائع کر بیٹھے، حالانکہ فرمانِ باری تعالی ہے: 
{فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِنَ السَّاجِدِينَ (98) وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ}
 آپ اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بیان کرتے رہیں اور سجدہ کرنے والوں میں شامل ہو جائیں۔ [98] اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو یقین [یعنی موت ]آ جائے۔ [الحجر: 98، 99]

{رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ} [البقرة: 201]
 ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ [البقرة: 201] 
{رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے [الأعراف: 23]
 {رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ} [الحشر: 10]
 اے ہمارے پروردگار! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں، ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے، اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے[الحشر: 10]
 {رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ}
 اے ہمارے رب اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو اور ہم سے درگزر فرما اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر تو ہی ہمارا مالک ہے، ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما ۔[البقرة: 286]


سورت الانشراح؛ بعد از رمضان مشعل راہ    خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) امام و خطیب: ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی ترجمہ: شفقت الرحم...

آج کی بات ۔۔۔ 18 جون 2018

~!~ آج کی بات ~!~

جو قوم دنیا کے لیے مفید نہیں ہے، وہ زمین پر بوجھ ہے،
اور زمین زیادہ دیر تک کوئی بوجھ نہیں اٹھاتی۔

احمد جاوید

~!~ آج کی بات ~!~ جو قوم دنیا کے لیے مفید نہیں ہے، وہ زمین پر بوجھ ہے، اور زمین زیادہ دیر تک کوئی بوجھ نہیں اٹھاتی۔ احمد جاوید

رمضان کے بعد بھی ایمان کی مٹھاس - خطبہ عیدالفطر مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 15 جون 2018

رمضان کے بعد بھی ایمان کی مٹھاس 
خطبہ عیدالفطر مسجد نبوی (اقتباس)
امام و خطیب: ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل
بشکریہ: دلیل ویب

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے یکم شوال 1438 کا خطبہ عیدالفطر "رمضان کے بعد بھی ایمان کی مٹھاس" کے عنوان پر مسجد نبوی میں ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی کوشش کرنے والوں کی قدر فرماتا ہے اور رمضان میں عبادات کرنے والوں کو ایمان  کی مٹھاس چکھا دیتا ہے، یہ مٹھاس شرح صدر، قلبی وسعت، دل کی صفائی اور  دیگر معنوی اور حسی خوبیوں کی صورت میں ہوتی ہے، انہوں نے کہا کہ    دین اسلام سے محبت، اللہ کی معرفت، اللہ اور اس کے رسول سے محبت اور  تقدیری فیصلوں پر ایمان بھی اسی میں شامل ہے۔ ہرقل نے بھی اس بات کا اقرار کیا تھا کہ ایمانی مٹھاس  اگر دل میں رچ جائے تو نکلنے کا نام نہیں لیتی، اور یہ اسلام کی حقانیت کی دلیل بھی ہے۔ اسی مٹھاس کی وجہ سے اہل ایمان کی دنیاوی، برزخی اور اخروی تمام زندگیاں امن و امان کی دولت سے مالا مال ہوتی ہیں۔ وحدانیت الہی کا اقرار، حقیقی معرفت الہی، نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا،  روزے رکھنا ،حج کرنا، عبادت اور اعلی اخلاق کے ذریعے تزکیہ نفس، حصول علم نافع، اللہ کا ذکر، قرآن کریم کی تلاوت، قرآنی تعلیمات پر عمل، ایمانی حلاوت کیلیے دعا، تقدیر پر ایمان ، اور کثرت کے ساتھ نفل عبادات وغیرہ   ایمانی حلاوت کے ذرائع ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ: مومن ایمانی حلاوت سے کبھی سیر نہیں ہوتا، مومن ہمیشہ اس میں اضافے کی کوشش میں رہتا ہے۔ گناہوں کی کڑواہٹ اسی وقت محسوس ہوتی ہے جب دل میں ایمان کی مٹھاس ہو، اس وقت انسان کسی کی مدح کا اسیر نہیں ہوتا اور انسان رضائے الہی کو مقدم رکھتا ہے۔ ایمانی مٹھاس کے لیے انسان ہر قسم کی دنیاوی تکلیفیں جھیلنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ عبادت کے باوجود اگر کسی کو ایمانی مٹھاس نہ ملے تو انسان اپنی عبادت اور نیت پر نظر ثانی کرے؛ کیونکہ اللہ تعالی کسی کی محنت ضائع نہیں فرماتا۔ تنہائی میں گناہوں سے دوری حقیقی ایمانی مٹھاس کا باعث بنتی ہے، انہوں نے یہ بھی کہا  کہ اس پر تعجب نہیں کہ کس کو اطاعت کی لذت نہیں ملتی! تعجب تو اس پر ہے جو عبادت کی لذت پانے کے بعد عبادت چھوڑ دے! آخر میں انہوں نے مختصراً عید کے متعلق نصیحتیں فرمائیں اور شوال کے چھ روزوں کی ترغیب دلا کر دعا فرمائی۔

منتخب اقتباس:

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اسی کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی اسی سے مانگتے ہیں، نفسانی اور بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم -اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔

سلمانو!

قدر دانی اور کرم نوازی اللہ تعالی کی صفات ہیں، اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے عبادت گزاروں کو عبادت کے اثرات دنیا میں بھی دکھا دیتا ہے تا کہ جنت کے وعدے لوگوں کے لیے سچے اور پکے ہو جائیں۔

ماہ رمضان میں لوگ رب العالمین کی رحمتوں اور نعمتوں سے خوب بہرہ ور ہوئے کہ ان کا اللہ تعالی سے ناتا استوار رہا، ان کی شرح صدر ہوئی، دل پاکیزہ ہو گئے؛ تا کہ لوگ سارا سال اپنے رب کی عبادت پر ثابت قدم ہو جائیں اور ایسی نعمتیں ہر شخص کو مل جائیں جو ان کا مقصود اور مطلوب ہیں، جن کی بدولت دلی مسرت اور خوشی ملتی ہے، ساری مخلوقات ایسی نعمتوں کی تمنا کرتی ہیں۔ اور ان نعمتوں میں سے کامل ترین نعمت یہ ہے کہ انسان اسلام کا علم حاصل کرے اور پھر اس پر عمل پیرا ہو؛ کیونکہ مسلمان ہی دنیا، برزخ اور آخرت میں دائمی نعمتیں حاصل کریں گے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ} 
یقیناً نیک لوگ[ہمیشہ]نعمتوں میں ہوتے ہیں۔[الانفطار: 13]

اللہ تعالی نے انہیں دنیا میں سعادت اور اجر دونوں سے نوازا؛ لیکن آخرت کا اجر بہت عظیم اور بڑا ہو گا: فرمانِ باری تعالی ہے:
 {لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ}
 اچھے کام کرنے والوں کے لئے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو ہی بہت بہتر ہے۔ اور وہ پرہیز گاروں کے لئے کیا ہی اچھا گھر ہے ۔[النحل: 30]

دنیا میں اللہ تعالی کی مسلمانوں پر سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ انہیں دین کی محبت عطا کی، دین کو دلوں کی زینت بنایا، اپنی اطاعت کی مٹھاس انہیں دی، اس طرح ان کا باطن بھی دینی عقائد اور حقائق سے پیراستہ ہو گیا، ان کا ظاہر دینی احکامات کی تعمیل سے آراستہ ہو گیا، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ}
 اللہ نے تمہیں ایمان کی محبت دی اور اس کو تمہارے دلوں میں سجا دیا [الحجرات: 7] 
اس لیے ہر وقت اللہ تعالی کی جانب توجہ، انابت، اللہ تعالی اور اس کے فیصلوں پر رضا مندی فوری ثواب کا باعث اور دنیا کی جنت ہیں۔

اہل ایمان لوگوں میں سب سے اچھی زندگی گزارتے ہیں، ان کے حالات بہت اچھے ہوتے ہیں، ان کی شرح صدر ہو چکی ہوتی ہے، ان کے دل سب سے زیادہ مسرور ہوتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (62) الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ} 
سن لو ! یقیناً اللہ کے دوستوں پر، نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے [62] یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لاتے ہیں اور تقوی اپناتے ہیں۔ [يونس: 62، 63]

دنیا میں ایسی کوئی لذت اور نعمت نہیں ہے جس کا مقام اللہ تعالی کی معرفت اور اللہ تعالی کی پہچان سے زیادہ ہو، چنانچہ جس وقت انسان اپنے رب کو پہچان لے تو انسان اللہ سے محبت کرنے لگتا ہے اور اسی کی بندگی کرتا ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اللہ کے فضل اور رحمت پر خوشی اللہ تعالی کی ذات سے خوش ہونے کے تابع ہے؛ اسی لیے مومن اپنے رب پر اتنا راضی ہوتا ہے کہ کسی اور چیز سے اتنا خوش نہیں ہوتا، دل کو اسی وقت حقیقی فرحت ملتی ہے جب اللہ کی ذات سے خوش ہونے کی لذت پا لے اور اس کے اثرات چہرے پر رونما ہو جائیں"

عبادت اور اخلاقی برتری کے ذریعے تزکیہ نفس کامیابی کا راز ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا} 
کامیاب ہو گیا وہ شخص جو اپنا تزکیہ کر لے۔[الشمس: 9]
 اسی طرح اللہ تعالی کی جانب دعوت دینے والا شخص بھی کامیاب ہے، وہ دائمی نعمتوں اور خوشیوں میں رہے گا، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ}
 تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف لائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ [آل عمران: 104]

سب سے عظیم ذکر قرآن کریم ہے ، یہ مومنوں کے لیے ہدایت ، شفا اور رحمت ہے، قرآن کریم اللہ تعالی کی ایسی دولت اور رحمت ہے جس کے ذریعے بندے فرحت پاتے ہیں فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَفْرَحُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ}
 اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ آپ کی طرف نازل کی گئی وحی سے خوش ہوتے ہیں۔[الرعد: 36]

یہی وجہ ہے کہ جس وقت مومن آیات کی تلاوت سنتا ہے تو خوشی سے نہال ہو جاتا ہے؛ کیونکہ مومن کو ان آیات سے اطمینان اور سکون ملتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{وَإِذَا مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَذِهِ إِيمَانًا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ} 
اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا؟  تو جو لوگ ایماندار ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیادہ کر دیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں [التوبۃ: 124] 
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اگر آپ اپنے اور کسی دوسرے میں اللہ کی محبت جانچنا چاہتے ہیں تو دل میں قرآن سے محبت اور تلاوت سننے پر ملنے والی لذت کو دیکھ لیں"

اللہ کے اطاعت گزار بندے اس وقت تک نعمتوں میں رہیں گے جب تک کمال درجے کی نعمت یعنی جنت نہیں پا لیتے، پھر جنت میں بھی اعلی ترین نعمت یہ ہو گی کہ اللہ سبحانہ و تعالی کا دیدار ہو اور اللہ تعالی کی گفتگو اللہ تعالی سے سنیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب اللہ تعالی حجاب ہٹائے گا، تو جنتیوں کو اللہ کا دیدار تمام حاصل شدہ نعمتوں سے زیادہ محبوب ہو گا۔) مسلم

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں فرمایا کرتے تھے: 
 (وَأَسْأَلُكَ لَذَّةَ النَّظَرِ إِلَى وَجْهِكَ وَالشَّوْقَ إِلَى لِقَائِكَ 
 [اور میں تجھ سے تیرے چہرے کے دیدار کی لذت اور تیری ملاقات کا شوق چاہتا ہوں]) نسائی

ایمان کی مٹھاس ایک بار پا لینے والا اس سے سیراب نہیں ہوتا، اسی لیے وہ مزید نیکیوں کی کوشش کرتا ہے اور ان نیکیوں کے اثرات اس کی زبان اور اعضا پر رونما ہوتے ہیں، وہ کسی بھی ایسے کام سے محفوظ ہوتا ہے جو اسے دینی طور پر نقصان پہنچائیں، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ} 
لیکن اللہ نے تمہیں ایمان کی محبت دی اور اس محبت کو تمہارے دلوں میں سجا دیا۔ اور کفر، عناد اور نافرمانی سے نفرت پیدا کر دی ۔ ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ [الحجرات: 7] 
ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں: "جس وقت دل ایمان کی مٹھاس پا لے تو اسے کفر، فسق اور گناہوں کی کڑواہٹ بھی محسوس ہوتی ہے۔

جس وقت انسان کو ایمان کی مٹھاس مل جائے تو پھر وہ لوگوں کے ستائشی کلمات کا رسیا نہیں  رہتا، اللہ تعالی اسے دین پر ثابت قدمی عطا کرتا ہے، اور زیادہ سے زیادہ دائمی عبادات کرنے کی توفیق سے نوازتا ہے۔

بندے کو اس وقت اطاعت گزاری سے مانوسیت ہوتی جب وہ اپنے دین اور اپنی عبادت پر سب سے زیادہ خوشی کا اظہار کرے، اللہ اور اس کے رسول کی سختی کے ساتھ اطاعت کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اس شخص نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا جو اللہ تعالی کو اپنا رب مان لے، اسلام کو اپنا دین مان لے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مان کر راضی ہو جائے)مسلم

نفس کو حرام کاموں سے روکنے پر ہی لذت اور سلامتی حاصل ہوتی ہے، حرام کاموں کی طرف نظر اٹھانا در حقیقت ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر ہے، اگر کوئی شخص اللہ کے خوف سے ان پر نظر بھی نہ ڈالے تو اللہ تعالی اسے ایسا ایمان عطا کرتے ہیں جس کی لذت وہ اپنے دل میں محسوس کرتا ہے، امام مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں سے صرف نظر اللہ کی محبت پیدا کرتا ہے"

ان تمام تر تفصیلات کے بعد: مسلمانو!

لوگوں کو نعمتیں ،مسرتیں اور خوشیاں اسی وقت ملیں گی جب وہ اللہ کی معرفت حاصل کریں اور اس سے محبت کریں، اللہ کی اطاعت پر فرحت محسوس کریں ۔ تو آخرت میں ان کے لیے نعمتیں جنت اور دیدار الہی کی صورت میں ہیں، تو یہ دو طرح کی جنتیں ہیں دوسری جنت میں وہی جائے گا جو پہلی جنت میں داخل ہو گا۔ اگر کسی شخص کو اطاعت گزاری میں لذت نہیں ملتی تو وہ اپنے آپ اور اپنے کردار کو قصور وار ٹھہرائے؛ کیونکہ اللہ تعالی تو ہر عبادت گزار کی عبادت کی قدر فرماتا ہے۔

مسلمانو!

عید کے دن مسلمانوں کی خوشیاں دوبالا ہو جاتی ہیں، اس دن اللہ کی نعمتیں اور عنایتیں عیاں ہوتی ہیں، اس لیے عید کے دن خوشی اور مسرت کا اظہار کریں، اپنے آپ اور اہل خانہ پر شرعی دائرے میں رہتے ہوئے دل کھول کر خرچ کریں، عید کی خوشی میں بھی تقوی اور اللہ کو مت بھولیں، اللہ کی عنایتوں پر اس کا شکر ادا کریں۔

اللہ تعالی کو اپنے بندوں سے ایسے اعمال پسند ہیں جو دائمی کئے جائیں چاہے وہ کم ہی کیوں نہ ہوں۔ جو شخص ماہ رمضان کے پورے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے بھی رکھے تو گویا اس نے پورا سال روزے رکھے۔

یا اللہ! ہمارے روزے اور قیام قبول فرما۔

یا اللہ! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! ہم نے اپنی جانوں پر بہت زیادہ ظلم ڈھائے ہیں اگر توں ہمیں معاف نہ کرے اور ہم پر رحم نہ فرمائے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

آمین یا رب العالمین


رمضان کے بعد بھی ایمان کی مٹھاس  خطبہ عیدالفطر مسجد نبوی (اقتباس) امام و خطیب: ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم ترجمہ: شفقت ال...

آج کی بات ۔۔۔۔۔ 12 جون 2018


~!~ آج کی بات ~!~

جب سب کچھ ختم ہوتا محسوس کریں تو ایک نئے آغاز کے لیے تیار ہو جائیں ، 
یہی زندگی ہے...!! 

~!~ آج کی بات ~!~ جب سب کچھ ختم ہوتا محسوس کریں تو ایک نئے آغاز کے لیے تیار ہو جائیں ،  یہی زندگی ہے...!! 

رمضان کے آخری عشرے کی برکتیں ------ خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس) ۔۔۔ 08 جون 2018

مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن بن عبد العزیز السدیس
جمعۃ المبارک 23 رمضان المبارک 1439ھ بمطابق 8 جون 2018
عنوان: رمضان کے آخری عشرے کی برکتیں۔
ترجمہ: عاطف الیاس

منتخب اقتباس:

یقینًا! ہر طرح کی حمد وثنا اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔ اے اللہ! ہم تیری حمد وثنا بیان کرتے ہیں، تجھ ہی سے معافی مانگتے ہیں اور تجھ ہی سے توبہ کرتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرتے ہیں۔ اسی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اسی نے ہمیں دس بابرکت خیر اور برکات والی راتوں سے نوازا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہی روزہ داروں اور تہجد گزاروں کو اجر عظیم عطا فرمانے والا ہے۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ مخلوق میں افضل ترین ہیں۔ اللہ کی رحمتیں، برکتیں اور سلامتیاں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر، اصحاب توفیق صحابہ کرام پر، تابعین عظام پر اور قیامت تک طالب نجات لوگوں پر جو ان کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں۔

بعدازاں!
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور یاد رکھو کہ آپ پرہیز گاری کے بابرکت موسم میں ہو۔ اللہ تعالیٰ روزے کی فرضیت والی آیت کے آخر میں فرمایا ہے:
’’اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘
(البقرۃ: 183)

اے مسلمان معاشرے کے لوگو!
امت اسلامیہ ان دنوں گراں قدر اوقات سے گزر رہی ہے۔ یہ اوقات رمضان کے آخری عشرے کے اوقات ہیں۔ سال کے کچھ مہینوں میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے جھونکے بڑی کثرت سے آتے ہیں، رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں۔

کچھ ہی دن پہلے ہم رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے لیے تڑپ رہے تھے۔ بڑے شوق اور محبت بھرے جذبات سے اس کا استقبال کر رہے تھے اور کچھ ہی دن بعد ہم اسے الوداع کہہ رہے ہوں گے اور اس کے کھاتے اللہ تعالیٰ کے یہاں جمع کرا رہے ہوں گے۔

آئیے رمضان کے آخری حصے کی شاندار خوشبو سے معطر ہو جائیں اور اپنے دلوں کو اس کی زینت سے مزین کر لیں۔ اس کی برکتوں سے اپنے دلوں کو شفایاب کریں۔
اس ماہ مبارک کے جانے کے افسوس میں آنکھیں اشک بار ہیں، بلکہ ان سے بارش کی طرح آنسو برس رہے ہیں۔ دل بھی بڑا اداس اور پریشان ہے۔ اب اپنے محبوب کو الوداع کہنا ہے اور ہم میں روزے اور پرہیز گاری کے مہینے کو الوداع کہنے کی ہمت کہاں ہے؟
اللہ آپ کی نگہبانی کرے۔ خوش خبری اور نعمت بھری خبر یہ ہے کہ ابھی اس ماہ مبارک کے چند دن باقی ہیں۔ ان میں فرائض اور نوافل کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرو اور گزشتہ دنوں میں ہونے والی کمی کو پورا کرو۔

اے مسلمانو!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کی آخری راتوں میں اتنی زیادہ عبادت کرتے تھے جتنی وہ دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدہ عائشہ سے روایت ہے کہ جب رمضان کی آخری دس راتیں آ جاتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات جاگتے، اپنے گھر والوں کو جگاتے اور عبادت کے لیے کمر کس لیتے۔

اللہ کے بندو! ابھی عمر کی رسی دراز ہے تو عبادت میں خوب محنت کرو۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاؤ کیونکہ یہ تجارت بڑی نفع بخش ہے۔ آخری عشرے کی بقیہ ایام کو غنیمت جانو اور اجر وثواب کمانے کی خوب کوشش کرو۔

مشرق ومغرب میں امت اسلامیہ کے لوگو! ان بابرکت راتوں میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک عظیم رات کا تحفہ دیا ہے۔ وہ رات بڑی قدر اور مرتبے والی رات ہے۔ انتہائی بابرکت ہے اور اس کا ذکر بھی بڑا بلند ہے۔ جو خیر، رحمت اور سلامتی سے بھر پور ہے۔ اسی میں قرآن بھی نازل ہوا اور اسی میں فرشتے بھی نازل ہوتے ہیں۔ یہ رات ان شاء اللہ ہم سے بالکل قریب ہے۔ یہ رات لیلۃ القدر ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟ (2) شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے‘‘
(القدر: 2-3)

تو اے عبادت میں محنت کرنے والو! رمضان کی سات راتیں آپ کے آگے ہیں۔
لیلۃ القدر ان ہی میں ہے اور وہ ایک ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ اسے مخفی رکھا گیا ہے تاکہ لوگوں کا امتحان ہو سکے، محنت کرنے والے اور سست الگ الگ ہو سکیں۔ جس کی زندگی با مقصد ہوتی ہے وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے سنجیدگی دکھاتا ہے اور اس راہ میں آنے والی پریشانیاں بھی اسے آسان لگنے لگتی ہیں۔ یہ وہ رات ہے کہ جس میں تقدیر کا قلم سعادت مندوں کی سعادت اور بد بختوں بد بختی تحریر کرتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’یہ وہ رات تھی جس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ‘‘
(الدخان: 4)

اللہ اکبر! اللہ اکبر! یہ کتنی بابرکت رات ہے! اور اس کے قیام کا کتنا زیادہ اجر ہے!

یہ وہ رات ہے کہ جس میں صبح تک اللہ کے فرشتے نازل ہوتے رہتے ہیں۔ اگر آپ اسے پانے میں کامیاب ہو گئے تو اس میں کی گئی عبادت ایک ہزار ماہ کی عبادت سے بہتر ہے۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ روایت کرتی ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر مجھے پتا چل جائے کہ کون سی رات لیلۃ القدر ہے، تو میں کیا دعا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دعا کرو کہ اے اللہ! یقینًا! تو معاف کرنے والا ہے۔ معافی تجھے پسند ہے۔ تو ہمیں معاف فرما!
اے اللہ! یقینًا! تو معاف رکنے والا ہے۔ تجھے معافی پسند ہے۔ ہمیں معاف فرما!

اے رات میں عبادت کرنے والو! خوب محنت کرو! امید ہے کہ اس رات کو دعا کرنے والا خالی ہاتھ نہ لوٹے گا اور رات کی عبادت بھی وہی شخص کر سکتا ہے کہ جس کی ہمت بلند اور عزم پختہ ہو۔

کیا ہم یہ سمجھنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ رمضان ایک ایسا نور ہے کہ جس سے اپنے نفس اور دل کو روشناس کرنا ہی ہمیں زیب دیتا ہے۔ اسی کی بدولت امت اسلامیہ تبدیلی اور اصلاح کی راہ پر چل سکتی ہے اور اپنی سوچ کو شہوات نفس اور خواہشات کی پیروی سے بچا سکتی ہے اور ثابت قدم رہ سکتی ہے۔ کیا ہم نے اس چیز کو صحیح طرح سمجھ لیا ہے یا پھر رمضان ہمارے نزدیک بس وہی معروف مہینہ ہے جو ہر سال میں آتا ہے اور جس کا ہمارے حالات سے اور کردار سے کوئی تعلق نہیں۔ بالکل ویسا جیسا کہ سورج طلوع ہوتا ہے یا ہلال نظر آتا ہے!؟

خدا کی قسم! ہم بہت ہی خوش قسمت ہوں گے اگر ہم اس ماہ مقدس کو ایک بابرکت اور مضبوط کورس بنا لیں جس میں ہم اپنے نفس کو قابو میں رکھنا سیکھیں، پورے یقین اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرنا جانیں اور بلند درجات پانے کی کوشش کریں۔

کیا ہم نے رمضان المبارک ایک دوسرے پر رحم کرنے اور معاف کرنے کا مہینہ سمجھا ہے؟ کیا ہم نے اسے نفس کے محاسبے کا مہینہ سمجھا ہے، کیا ہم نے اس میں اپنے اعمال کو درست کیا ہے اور کیا ہم نے اس کے عظیم سبقوں سے کچھ سیکھا ہے۔ یہ ہمیں بھلائی کے کاموں میں مقابلہ کرنا سکھاتا ہے اور نیکی کے کاموں میں پیش قدمی کا درس دیتا ہے۔

کیا امت اسلامیہ نے دین اسلام کا روشن چہرہ بے داغ رکھنے کی کوشش کی ہے اور اسے میانہ روی اور اعتدال والا دین ہی سمجھا ہے کہ جس میں نہ غلو ہے، نہ انتہا پسندی اور نہ دہشتگردی؟ کیا ہم نے واقعی یہ سمجھ لیا ہے کہ دین ان جرائم سے پاک ہے اور اس کا دور دور تک ان برائیوں سے اور ان کے مدد گاروں اور ان کے ساتھ سہولتیں مہیا کرنے والوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے؟

اے امت اسلامیہ کے لوگو!
آج ہم بابرکت وقت میں انتہائی بابرکت جگہ پر موجود ہیں اور بہترین فضا سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مکمل امن وامان میں ہیں اور بڑے ہی روح پرور ماحول میں ہیں۔ مگر ہم اپنے مظلوم اور مصیبت زدہ بھائیوں کو نہیں بھول سکتے جو قبلۂ اول اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے اسرا ، مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کے قریب قریب ہیں۔ جو فلسطین کی مبارک سرزمین پر ہیں اور شام کے علاقے میں ہیں، برما، ارکان اور عراق اور یمن وغیرہ میں ہیں۔

کیا ان مظلوم یتیموں کی رونے کی آوازیں، ٹوٹے ہوئے گھروں کے ملبے کے نیچے سے آنے والی چیخ وپکار کی آوازیں، اندھیوں میں بیواؤں سسکیاں اور خیموں کے مکین بے گھر لوگوں کے جذبات دہشتگردی کے خلاف آوازیں بلند کرنے والوں اور انسانی حقوق کے دعوے داروں اور سلامتی کا شعار اٹھانے والوں کو بھی ہلاتی ہیں یا ان میں کوئی حرکت پیدا کرتی ہیں؟

نہیں! بلکہ یہ تو ایسے لوگ ہیں کہ جن کے خون میں وعدہ خلافی اور جھوٹ رچ بس چکا ہے۔
رمضان المبارک کے آخر میں ہم یہ آواز بلند کرتے ہیں اور تمام مسلمانوں کو پکارتے ہیں کہ وہ حق اور خیر کی ایک دوسرے کو نصیحت کریں، بھلائی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور کتاب وسنت پر قائم رہیں۔

آئیے! مل کر اسلام پر، مسلمانوں پر اور اسلامی امت پر کیے جانے والے حملوں کا مقابلہ کرتے ہیں، گمراہی اور فتنے پھیلانے والے چینلز کا اور جھوٹی خبریں پھیلانے اور بہتان تراشنے والی ویب سائٹس کا سختی سے مقابلہ کرتے ہیں۔ آئیے اسلامی میڈیا کو اپنی محفلوں اور زبانوں سے نکال کر عملی زندگی میں لے آئیں اور سب کو اس سے مستفید کریں۔

یہی امید ہے اور یہی آرزو اور نیک اعمال کی توفیق اللہ تعالیٰ ہی عطا فرماتا ہے اور ہم اسی سے مانگتے ہیں۔

فرمانِ الٰہی ہے:
’’اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اُس پر اللہ کی کبریا ئی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو‘‘
(البقرۃ: 185)

اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو! اپنے اس مہینے کے آخری میں توبہ میں جلدی کرو اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کماؤ۔ استغفار کرو۔ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرو، اس کا شکر ادا کرو کیونکہ اعمال کا دار ومدار ان کے آخری حصے پر ہوتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اُس پر اللہ کی کبریا ئی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو‘‘
(البقرۃ: 185)

اے امت اسلام!
اس مہینے کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے بہت سی بابرکت عبادتیں رکھی ہیں۔ جن میں سے ایک فطرانے کی ادائیگی ہے۔ اسے عید کی نماز سے پہلے خوش دلی کے ساتھ داد کرو۔ اگر عید سے ایک یا دو دن پہلے بھی دے دی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کی مقدار شہر میں کھائی جانے والی خواراک کا صاع ہے۔

اے بابرکت روزہ دارو!
امت کو ثابت قدمی، پرہیز گاری اور فرمان برداری کی ضرورت ہے۔ تو اللہ سے ڈرو اور گناہوں کا رخ نہ کرو۔ اب تو تم عبادت کا مزہ چکھ چکے ہو۔ جو گناہوں کی طرف جائے گا وہ اسے ہلاک کر دین گے۔ نیکی پر ثابت قدمی نصیب ہونا عبادت کی قبولیت کی دلیل ہے۔
سیدنا علی بن ابی طالب فرماتے ہیں: عبادت سے زیادہ عبادت کی قبولیت کی فکر کیا کرو۔ کیا تم اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا کہ:
’’اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں قبول کرتا ہے‘‘
(المائدہ: 27)

اللہ تعالیٰ نے عبادت کا موت تک جاری رکھا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’اور اُس آخری گھڑی تک اپنے رب کی بندگی کرتے رہو جس کا آنا یقینی ہے‘‘
(الحجر: 99)

اے اللہ! اے رب ذو الجلال! اے نعمتیں دینے والے اور فضل وکرم عطا فرمانے والے! ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما کہ جنہیں لیلۃ القدر کی عبادت کی توفیق ملی ہے۔ اے اللہ! ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما کہ جنہیں لیلۃ القدر کی عبادت کی توفیق ملی ہے۔ جنہیں تو بخش دیا ہے، جن کے تو نے درجات بلند کر دیے ہیں۔ جنہیں تو نے اجر عظیم عطا فرمایا ہے۔

اے پروردگار! ہم سے قبول فرما! تو قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ہماری توبہ قبول فرما! یقینًا تو توبہ قبول فرمانے والا اور رحم فرمانے والا! ہمیں، ہمارے والدین کو اور تمام زندہ اور مردہ مسلمان مردوں اور عورتوں کو معاف فرما!

اے اللہ! ہمارا مہینہ بھلائی پر ختم فرما! ہمارے تمام معاملات کی عاقبت درست فرما! ہمیں بہت سے اور رمضان نصیب فرما! اس حال میں کہ ہم مکمل صحت، سلامتی اور بھلی زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہوں۔

’’پاک ہے تیرا رب، عزت کا مالک، اُن تمام باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔ اور سلام ہے مرسلین پر۔ اور ساری تعریف اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے‘‘
(الصافات: 180-182)

مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن بن عبد العزیز السدیس جمعۃ المبارک 23 رمضان المبارک 1439ھ بمطابق 8 جون 2018 عنو...

رمضان ؛ قرآن اور خود احتسابی کا مہینہ - خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس) ... 08 جون 2018


رمضان ؛ قرآن اور خود احتسابی کا مہینہ 
 خطبہ جمعہ مسجد نبوی
امام و خطیب: پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی
ترجمہ: شفقت الرحمان مغل
بشکریہ: دلیل ویب

فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے (بمطابق رؤیت 23) 24رمضان 1439ہجری کا خطبہ جمعہ " رمضان؛ قرآن اور خود احتسابی کا مہینہ" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ زندگی کا ہر لمحہ نیکی کرتے ہوئے اور گناہوں سے بچتے ہوئے گزرے تو حقیقی سعادت مندی ہے، انسان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ کل کے لیے اس نے کیا تیاری کی ہے؟ کیونکہ یہ سوچ حدیث نبوی کے مطابق عقلمندی کی علامت ہے، انسان کو کسی بھی ایسے عمل سے بچنا چاہیے جس سے نیکیوں کا ثواب کم یا ختم ہو جائے۔ ماہ رمضان کے گنتی کے شب و روز باقی رہ گئے ہیں اس لیے شروع سے محنت کرنے والا شخص اللہ کا شکر ادا کرے اور مزید کے لیے توفیق مانگے، جبکہ ابتدا میں کوتاہی کرنے والا شخص اب بھی محنت کر کے کمی پوری کر سکتا ہے؛ کیونکہ اختتام کے مطابق نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ابھی لیلۃ القدر پانے کے مواقع باقی ہیں اس ایک رات کی بندگی ہزار ماہ کی عبادت سے بھی افضل ہے۔ قرآن کریم اور رمضان کا بہت گہرا تعلق ہے، چنانچہ اسی ماہ میں قرآن نازل کیا گیا اور در حقیقت رمضان کی عبادات نعمت قرآن کے شکرانے کا مظہر ہیں۔ کسی بھی نعمت کے ملنے پر شکر گزاری شیوہ پیغمبری ہے، رسول اللہ ﷺ کی ساری زندگی اسی چیز کا مصداق تھی۔ قرآن کریم کا رمضان میں روح پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے؛ کیونکہ نفس امارہ روزے کی وجہ سے کمزور ہو چکا ہوتا ہے تو ایسے میں قرآن کی تاثیر کارگر ثابت ہوتی ہے۔ انہوں نے تمام مسلمانوں کو مخاطب کیا کہ کیا تم نے رمضان میں آخرت کی تیاری، ہڑپ شدہ مال کی واپسی، بد اخلاقی سے توبہ، صلہ رحمی، والدین کے ساتھ حسن سلوک، حرام اور سود خوری سے توبہ کر لی ہے؟ آج اپنا خود محاسبہ کر لو ورنہ کل کوئی اور تمہارا حساب کرے گا، انہوں نے کہا کہ قرآن کریم میں ہر طرح کے مسئلے کا حل موجود ہے چاہے وہ دنیاوی مسئلہ ہو یا دینی۔ دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ: فطرانہ ہر چھوٹے بڑے مرد و زن مسلمان پر واجب ہے ، اور یہ روزے کی کمی کوتاہی پوری کرتا ہے، اس کی مقدار تین کلو سے کم ہے جو علاقائی غذائی جنس کی شکل میں عید سے ایک یا دو دن قبل دی جا سکتی ہے، عید نماز کے بعد یہ عام صدقہ شمار ہو گا ۔

منتخب اقتباس:

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جو زمین اور آسمانوں کا پروردگار ہے، وہ نعمتیں اور برکتیں دینے والا ہے، ہماری بندگی سے اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، اور ہماری خطائیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، نیکی اور بدی کا نفع اور نقصان اِنہیں کرنے والے کو ہی ہوتا ہے، اور اللہ تعالی تمام مخلوقات سے بے نیاز ہے، میں اپنے رب کی حمد خوانی کرتا ہوں اور اس کی نعمتوں پر اسی کا شکر گزار ہوں، اللہ تعالی کی ایسی نعمتیں جنہیں ہم جانتے ہیں یا نہیں ہر نعمت کے بدلے حمد و شکر اسی کے لیے ہے، میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، اس کے اچھے اچھے نام ہیں اور اس کی صفات عظیم ترین ہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے ، اور اسکے رسول ہیں، آپ کی براہین اور معجزوں کے ذریعے تائید کی گئی، یا اللہ! اپنے بندے ، اور رسول محمد ، انکی اولاد اور نیکیوں کی طرف سبقت لے جانے والے صحابہ کرام پر اپنی رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

مسلمانو!

محاسبہ نفس، عبادت کے لیے محنت، زیادہ سے زیادہ نیکیوں کا حصول ، اللہ تعالی کی توفیق سے کی جانیوالی نیکیوں پر دوام، عمل صالح کی توفیق اور نیکیوں کو ضائع کرنے والے اعمال سے اجتناب ؛ دنیا و آخرت میں عین سعادت مندی اور کامیابی کا باعث ہیں، فرمان باری تعالی ہے:
 {وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى[40] فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى}
 اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا، اور نفس کو خواہشات سے روکا [40] تو بیشک جنت ہی اسکا ٹھکانا ہوگی[النازعات : 40-41]

اسی طرح فرمایا: 
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ}
 اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اور اپنے اعمال ضائع مت کرو۔ [محمد: 33]

امام ابن کثیر رحمہ اللہ ، اللہ تعالی کے فرمان: {وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ} اور ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کے لیے کیا بھیجا ہے [الحشر: 18] 
کی تفسیر میں کہتے ہیں: "تم خود اپنا محاسبہ کر لو اس سے قبل کے تمہارا محاسبہ کیا جائے، یہ دیکھ لو کہ تم نے اپنے لیے کتنے نیک عمل کیے ہیں جو روز قیامت تمہارے لیے مفید ہوں اور تم اُنہیں اپنے رب کے سامنے پیش کر سکو

اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (عقلمند وہ ہے جو اپنے آپ کو پہچان لے، اور موت کے بعد کے لیے تیاری کرے، اور وہ شخص عاجز ہے جو چلے تو نفسانی خواہشات کے پیچھے لیکن امیدیں اللہ سے لگائے۔)یہ حدیث حسن ہے۔

مسلمانو!

تم دیکھ رہے ہو کہ دن اور رات کس تیزی کے ساتھ گزرتے جا رہے ہیں، سالہا سال بھی کس قدر سرعت کے ساتھ گزر رہے ہیں، کوئی بھی دن گزرنے کے بعد دوبارہ کبھی واپس نہیں آئے گا، اور زندگی شب و روز کے گزرنے کا نام ہی تو ہے۔ اس کے بعد موت آ جائے گی اور تمام کی تمام امیدیں ختم ہو جائیں گی، تب خواہشات کا دھوکا سب پر عیاں ہو جائے گا۔

اب تک خیر و برکت والے مہینے کا اکثر وقت بیت چکا ہے، چند ایام، راتیں اور رحمت بھری معمولی سی ساعتیں باقی رہ گئی ہیں، پیوستہ دنوں میں جس نے خوب اچھی محنت کی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرے کہ اللہ تعالی نے اسے نیکیاں کرنے کی توفیق دی اور ان کے لیے مدد بھی فرمائی، اسے چاہیے کہ اپنے اعمال کو ضائع کرنے والے امور سے بچائے، اور ثواب میں کمی کا باعث بننے والی چیزوں سے اجتناب کرے ، نیز ایسا کوئی کام نہ کرے جو اسے سزا کا مستحق بنا دے، گزشتہ دنوں میں کی ہوئی محنت کے بعد مزید بڑھ چڑھ کر محنت کرے۔

اور جو شخص گزشتہ دونوں میں کمی کوتاہی کا شکار رہا ہے تو وہ اب بھی کمر کس لے، اور بھر پور طریقے سے عبادت اور نیکیاں کرے تا کہ سابقہ کمی کوتاہی پوری ہو جائے؛ کیونکہ نتائج اختتام کے مطابق نکلتے ہیں۔

لیلۃ القدر پانے کی امید ابھی تک موجود ہے۔ گناہ جتنے بھی ہوں؛ اللہ تعالی کی رحمت ، مغفرت، حلم ، کرم اور معافی سے مٹ سکتے ہیں، ایک حدیث میں ہے کہ : (جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی امید سے قیام کرے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں) اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

ابو مصعب احمد بن ابو بکر زہری کہتے ہیں کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے بتلایا کہ ان تک یہ بات پہنچی کہ: (رسول اللہ ﷺ کو سابقہ لوگوں کی عمریں دکھائیں گئیں، تو آپ کو اپنی امت کی عمریں بہت کم محسوس ہوئیں اور یہ کہ آپ کی امت اتنے زیادہ عمل نہیں کر سکے گی جو سابقہ امتوں کے لوگ لمبی عمروں کی وجہ سے کر چکے ہیں، تو اللہ تعالی نے آپ کو لیلۃ القدر عطا فرمائی جو ہزار ماہ سے بھی بہتر ہے)

اللہ تعالی کے حکمت بھرے عظیم فیصلوں اور وسیع رحمت میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ تعالی نے امت اسلامیہ پر ماہ رمضان کے روزے فرض قرار دئیے اسی میں قرآن بھی نازل کیا گیا ، پھر رسول اللہ ﷺ نے ماہ رمضان میں قیام فرمایا، اور امت کو بھی قیام کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: (جو شخص رمضان میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی امید سے قیام کرے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں) اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

قرآن و سنت نے اس مبارک مہینے میں ہمہ قسم کی نیکیاں کرنے کی ترغیب دلائی ہے، چنانچہ اس مہینے کے روزے فرض قرار دئیے، قیام کے لیے ابھارا، اور دیگر نیکیاں کرنے کی ترغیب دی؛ یہ سب کچھ قرآن کریم جیسی نعمت کے ملنے پر اللہ کا شکر ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کو جہان والوں پر رحمت کرتے ہوئے نازل فرمایا؛ کیونکہ قرآن کریم انتہائی عظیم ترین اور جلیل القدر نعمت ہے، یہ اللہ تعالی کا بے پناہ احسان ہے؛ قرآن کریم کے ذریعے روح کو غذا ملتی ہے، قرآن کریم امت اسلامیہ کے لیے اولین روحانی نعمت ہے، اس کے بعد ایمان کی نعمت کا درجہ ہے۔

چنانچہ اس امت میں سے جس شخص کو اللہ تعالی ایمان کی توفیق دے دے تو اسے اولین عمومی نعمت یعنی قرآن کریم اور اولین ذاتی نوعیت کی نعمت یعنی ایمان؛ دونوں ہی مل گئی ہیں۔

 نعمتوں پر شکر کرنا اللہ تعالی کا ہم پر حق ہے، اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے زبانی اور عملی ہر دو طرح سے کوشش کریں، اور نعمت عطا کرنے والے اللہ تعالی سے محبت بھی کریں، اس بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ (1) فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} 
بیشک ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا کی [1] پس آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔[الكوثر: 1، 2] 
اور کوثر کا معنی ہے وسیع ،برکتوں والی مسلسل بھلائی ؛ اسی بھلائی میں نہر کوثر بھی شامل ہے۔ تو اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کی رہنمائی فرمائی کہ خیر و بھلائی حاصل ہونے پر اللہ تعالی کا حق ادا کرنے کیلیے نماز اور دیگر عبادت بروئے کار لائیں؛ تا کہ اس میں آپ ﷺ کا بھی فائدہ ہو اور شکر بھی ادا ہو ۔

اللہ تعالی نے بھی آپ ﷺ کو شکر گزار بننے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: 
{بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ}
 بلکہ آپ صرف اللہ ہی کی عبادت کریں اور شکر گزاروں میں شامل رہیں۔ [الزمر: 66]

آپ ﷺ سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا تھا: "اللہ کے رسول! آپ اتنی لمبی نماز کیوں پڑھتے ہیں کہ آپ کے قدم سوج جاتے ہیں؟! حالانکہ اللہ تعالی نے آپ کی گزشتہ و پیوستہ ساری لغزشیں بھی معاف فرما دی ہیں!" تو آپ ﷺ نے فرمایا : (تو کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنو؟!) بخاری، مسلم

قرآن کریم کا رمضان میں روح پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے، چنانچہ قرآن روح کی بھلائی کی جانب رہنمائی کرتا ہے، اسے ہمہ قسم کی برائی سے روکتا ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس وقت نفس امارہ روزے کی وجہ سے کمزور ہو جائے اور روح کو قرآن سے غذا ملے تو انسانی روح میں بہتری آتی ہے۔

اے مسلم!

اپنے آپ کو پرکھو، کیا تم نے رمضان میں توبہ کر لی ہے؟

کیا رمضان میں موت کے بعد والی زندگی کے لیے کچھ کیا ہے؟

کیا تم نے غصب شدہ مال واپس کر دیا ہے، اور آئندہ لوٹ کھسوٹ سے باز آ گئے ہو؟

کیا تم اپنی حرکتوں سے باز آ گئے ہو؟

کیا تم نے لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ شروع کر دیا ہے؟

کیا تم نے صلہ رحمی شروع کر دی ہے؟

کیا تم اپنے والدین سے حسن سلوک شروع کر چکے ہو؟

کیا تم نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا شروع کر دیا ہے؟

کیا تم نے سود خوری اور حرام خوری سے اپنے آپ کو روک لیا ہے؟

کیا تم نے رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور صحابہ و تابعین کے نقش قدم پر چلنا شروع کر دیا ہے؟ کہ وہ رمضان میں صاف ضمیر، اعلی کردار، ایمان میں اضافے اور پختہ یقین کی دولت سے سرفراز ہو تے تھے، [کیا تم بھی یہ دولت پا رہے ہو؟]

اپنا نامہ اعمال دنیا میں خود ہی پڑھ لو ، اس سے قبل کہ تمہیں آخرت میں کہا جائے : 
{اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا}
 خود ہی اپنی کتاب پڑھ لے۔ آج تو خود ہی اپنا حساب لینے کو کافی ہے۔ [الإسراء: 14]

قرآن کریم اللہ تعالی کی عظیم ترین نعمت ہے، قرآن کریم کو اللہ تعالی نے رمضان میں نازل فرمایا، اور مسلمانوں کے حالات کی بہتری قرآن و سنت سے ہی ممکن ہے، دنیا جہان کے اول تا آخر تمام مفکرین، زندہ اور مردہ سب کے سب بھی کسی بحران کے حل کے لیے جمع ہو جائیں تو انہیں اس کا حل قرآن کے بغیر نہیں ملے گا، آپ اللہ تعالی کے بارے میں عقیدے کے مسائل ہی دیکھ لیں، اسما وصفات ، اللہ تعالی کے افعال ، اور عبادت سے متعلق اللہ تعالی کے حقوق ؛ ان سب امور کے متعلق آپ کو کتنے نظریات ملیں گے؟ انہیں شمار نہیں کیا جا سکتا ، تو ان تمام نظریات میں سے حق وہی ہے جو قرآن کریم نے کہہ دیا ہے۔

اب یہ تو نہیں ہو سکتا ہے کہ سب کے سب لوگ ہی مسلمان ہو جائیں، تاہم مسلمانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خود کتاب و سنت پر مضبوطی سے عمل پیرا ہوں، جس وقت لوگ مسلمانوں کو -چاہے دنیاوی امور میں ہی سہی -عملی میدان میں بطور نمونہ دیکھیں گے تو وہ بھی مسلمانوں سے استفادہ کریں گے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى (14) وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى} 
وہ کامیاب ہو گیا جس نے اپنا تزکیہ کر لیا، اور اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھی۔[الأعلى: 14، 15] سیدنا عمر بن عبد العزیز سے مروی ہے کہ وہ لوگوں کو فطرانہ ادا کرنے کا حکم دیتے تو یہ آیت پڑھتے تھے۔

فطرانہ ہر چھوٹے، بڑے، مرد، عورت پر فرض ہے، فطرانہ عید سے ایک یا دو دن پہلے تک دیا جا سکتا ہے، فطرانہ روزے دار کو لغویات سے پاک کرتا ہے اور دوران روزہ جو کچھ کمی کوتاہی ہوئی ہو اسے پورا کر دیتا ہے، جو شخص فطرانہ نماز عید سے پہلے ادا کر دے تو اس نے وقت پر ادا کر دیا، جبکہ نماز کے بعد ادا کرنے پر وہ عام صدقہ ہو گا۔

یا اللہ! دنیا و آخرت میں ہم تجھ سے عفو، عافیت، اور دائمی معافی کے طلب گار ہیں۔

یا اللہ! ہمارے سب معاملات کے نتائج بہتر فرما، اور ہمیں دنیا و آخرت کی رسوائی سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! تو نے جن نیکیوں کی ہمیں توفیق دی اور تو نے جن نیکیوں کو بجا لانے کے لیے مدد فرمائی ہے۔ یا اللہ! ہماری وہ تمام نیکیاں ہم سے قبول فرما، یا اللہ! ان نیکیوں کو ہم سب مسلمانوں کے لیے محفوظ بھی فرما لے، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہم تجھ سے اس ماہ کے بہترین اختتام کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ اس مبارک مہینے کو ہم سب مسلمانوں کے لیے ماہ خیر و برکت بنا دے، یا اللہ! ہر ماہ رمضان کو ہم سب مسلمانوں کے خیر و برکت والا بنا دے۔ یا ارحم الراحمین!


رمضان ؛ قرآن اور خود احتسابی کا مہینہ   خطبہ جمعہ مسجد نبوی امام و خطیب: پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی ترجمہ: شفقت الر...

غیب اور آخرت پر ایمان کے ثمرات-۔۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس) 01 جون 2018

Image result for ‫کعبہ‬‎
مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر صالح بن محمد آل طالب
جمعۃ المبارک 16 رمضان المبارک 1439ھ بمطابق 1 جون 2018
عنوان: غیب اور آخرت پر ایمان کے ثمرات
ترجمہ: عاطف الیاس

منتخب اقتباس:

تعریف اللہ ہی کے لیے ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرتے ہیں، اسی پر بھروسہ اور اعتماد کرتے ہیں اور اسی سے معافی مانگتے ہیں۔ اپنے نفس کے شر سے اور اپنے برے اعمال سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرما دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ کی رحمتیں، برکتیں اور سلامتی ہو آپ ﷺ پر، آپ ﷺ کے پاکیزہ اہل بیت پر، نیک اور روشن پیشانیوں والے صحابہ کرام پر، تابعین پر اور قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والوں پر۔

فرمان الٰہی ہے:
’وہی گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے، سخت سزا دینے والا اور بڑا صاحب فضل ہے کوئی معبود اس کے سوا نہیں، اُسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے‘‘
(غافر: 3)
آخرت کی خوب تیاری کرو۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’اس دن کی رسوائی اور مصیبت سے بچو، کہ جب تم اللہ کی طرف واپس ہو گے، وہاں ہر شخص کو اس کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم ہرگز نہ ہو گا‘‘
(البقرۃ: 281)
عبادت فرض کرنے کا مقصد یہی ہے کہ اللہ کی بندگی صحیح انداز میں بجا لائی جا سکے اور لوگوں میں پرہیز گاری پیدا کی جائے۔

سنو! آپ کے مہینے کے دن کم ہونے لگے ہیں، اب عبادتیں بڑھا لو۔ رمضان کے دو حصہ گزرنے لگے ہیں مگر افضل ترین حصہ تو ابھی باقی ہے۔ رمضان المبارک کی آخری راتیں نیکی کے میدان مقابلہ کرنے والوں کے لیے بہترین موقع ہے اور اجر کمانے والوں کے لیے شاندار وقت ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اتنی زیادہ عبادت کرتے تھے جتنی عبادت وہ دیگر دنوں میں نہیں کرتے تھے۔ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

آخری عشرے میں ایک ایسی رات ہے جو ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ فرمانِ نبوی ہے:
جس نے ایمان اور اخلاص کے ساتھ لیلۃ القدر کی عبادت کی اس کے پچھلے سارے گناہ معاف ہو گئے۔ اسے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
سیدہ عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنی زندگی کے آخری سال تک رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف کرتے رہے اور پھر آپ ﷺ کی بیویاں بھی اعتکاف کرتی رہیں۔ اسے امام بخاری اور امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
فرمانِ الٰہی ہے:
’’ہم نے اِس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ فرشتے اور روح اُس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں۔ وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک‘‘
(القدر: 1-5)

یہ مہینہ نماز، دعا اور قرآن کا مہینہ ہے۔ یہ صدقہ خیرات، توبہ اور احسان کا مہینہ ہے۔ یہ مسلمانوں کی فتوحات کا یادگار مہینہ ہے۔ اس مہینے میں جتنا ہو سکے، اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اللہ سے امیدیں وابستہ رکھو اور خوش ہو جاؤ۔

قرآن کریم رمضان المبارک میں نازل ہوا تو اسے اس صبح صادق کی حیثیت دی گئی کہ جس کے پہلے انسانیت اندھیری رات میں تھی۔ قرآن کریم کے نور سے سارے اندھیرے مٹ جاتے ہیں۔ اگر امت اسلامیہ ہدایت حاصل کرنے کے لیے اسی کی طرف رجوع کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے معاملات بھی سمیٹ دے اور اس کی راہ آسان فرما دے۔
امت کو یہی زیب دیتا ہے کہ وہ ہر وقت قرآن کریم سے جڑی رہے۔ پیاسوں کی طرح اسی کا ٹھنڈا پانی پیے۔ اسے صرف پڑھنے پر اکتفا نہ کرے، بلکہ اس کے معانی پر غور وخوض کرے، تامل اور تدبر کرے، تاکہ لوگوں کی سوچ بھی اسی میں آنے والے مسائل سے جڑ جائے۔ وہ انہی کے متعلق بات کریں، توحید، آخرت اور رسالت پر گفتگو کریں، ان ہی عقائد، شرائع اور اخلاق کو درست سمجھیں جنہیں قرآن کریم نے درست ٹھہرایا ہے۔ ہر چیز کو اتنی ہی اہمیت دیں جتنی قرآن کریم نے دی ہے۔ نہ کم کریں اور نہ زیادہ۔ اگر ہم ایسا کر لیں تو ہم حقیقی معنوں میں قرآن کریم کی طرف لوٹ آئے ہیں اور امت کو آج اس چیز کی بڑی ضرورت ہے۔

اللہ کے بندو!
جو قرآن کریم کا مطالعہ کرتا ہے، اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ قرآن کریم نے آخرت اور موت کے بعد زندگی کو بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی مقامات پر اس کا ذکر فرمایا ہے۔ اسے بار بار دھرایا گیا ہے اور اسے واضح کرنے کے لیے بہت سی مثالیں اور دلیلیں دی گئی ہیں۔ قرآن کریم میں تین جگہوں پر نبی اکرم ﷺ کو آخرت کے آنے پر قسم کھانے کا حکم دیا گیا۔ فرمایا:
’’منکرین نے بڑے دعوے سے کہا ہے کہ وہ مرنے کے بعد ہرگز دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے ان سے کہو نہیں، میرے رب کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤ گے، پھر ضرور تمہیں بتایا جائے گا کہ تم نے (دنیا میں) کیا کچھ کیا ہے، اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے‘‘
(التغابن: 7)

اسی طرح فرمایا:
’’پھر پُوچھتے ہیں کیا واقعی یہ سچ ہے جو تم کہہ رہے ہو؟ کہو میرے رب کی قسم، یہ بالکل سچ ہے اور تم اتنا بل بوتا نہیں رکھتے کہ اسے ظہُور میں آنے سے روک دو‘‘
(یونس: 53)
آخرت پر ایمان لانا ایمان کا ایک ضروری حصہ ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے‘‘
(بقرۃ: 177)

لوگو!
دلوں کی بیماریوں کا بہترین علاج وعظ ہے اور بہترین وعظ آخرت کی یاد ہے، قبروں سے نکلنے اور میدان حشر کو نظروں کے سامنے لانا ہے۔
وہ دن کہ جب لوگوں کے درمیان ہر قسم کے امتیازات ختم ہو جائیں گے، حقائق سامنے آ جائیں گے، آراء اور خود ساختہ افکار کا دروازہ بند ہو چکا ہو گا۔ جس دن ہر انسان اکیلا اللہ کے سامنے پیش ہو گا۔ اس کے ساتھ کوئی نہ ہو گا اور اللہ تعالیٰ سے اس کی کوئی بات چھپی نہ ہو گی۔ وہ ملاقات بڑی ہولناک ہو گی اور انسان بڑی مشکل میں ہو گا۔ وہ اپنی مکمل عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو گا اور اللہ سے کوئی بات چھپی نہ ہو گی۔ راز کی باتیں بھی اس کے علم میں ہوں گی اور پوشیدہ چیزیں بھی اس کے یہاں ظاہر اور واضح ہوں گی۔

اے مسلمانو!
موت کے بعد نئی زندگی کا آغاز، فنا کے بعد دوسری حیات کی ابتدا اور قیامت کے دن کی ہولناکیاں دیکھ کر نیک لوگوں کے دل ڈر جاتے ہیں، عبادت گزاروں کی نیندیں اڑ جاتی ہیں اور پختہ یقین رکھنے والوں کے دل لرز اٹھتے ہیں۔
وہ دن دوسرے دنوں کی طرح کا نہیں ہو گا۔ جب ساری دنیا پر کوئی زندہ چیز نظر نہ آ رہی ہو گی۔ ساری دنیا میں عجب سناٹا ہو گا، ساری مخلوقات فنا ہو چکی ہوں گی۔ پھر اللہ تعالیٰ بادلوں کو بارش برسانے کا حکم دے گا۔ چالیس دن تک پھوار کی مانند تیز بارش ہوتی رہے گی اور اس بارش سے لوگوں کے جسم پھر سے سبزی کی طرح اگنے لگیں گے۔ اس وقت لوگوں کے جسم فنا ہو چکے ہوں گے۔ بس کمر کا آخری گول حصہ ہی بچا ہو گا۔ اسی حصے سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو پھر سے پیدا کرے گا۔

پھر اسرافیل صور میں پھونکے گے اور سب لوگوں کی روحیں واپس ان کے جسموں میں ڈال دی جائیں گی۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’پھر ایک صور پھونکا جائے گا اور یکایک یہ اپنے رب کے حضور پیش ہونے کے لیے اپنی قبروں سے نکل پڑیں گے‘‘
(یٰس: 51)
قبریں کھل جائیں گی اور سب مدفون باہر نکل آئیں گے۔ آدم سے لے دنیا کے آخری لمحے تک آنے والے لوگ اکٹھے ہوں گے۔

 فرمانِ الٰہی ہے:
’’ایک ہی زور کی آواز ہو گی اور سب کے سب ہمارے سامنے حاضر کر دیے جائیں گے‘‘
(یٰس: 53)
اب آپ ذرا تصور کیجیے کہ وہ وقت کتنا ہولناک ہو گا جب زمین پھٹے گی اور لوگ اپنی قبروں سے نکل آئیں گے اور سب اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’بس ایک ہی جھڑک ہو گی اور یکایک یہ اپنی آنکھوں سے (وہ سب کچھ جس کی خبر دی جا رہی ہے) دیکھ رہے ہوں گے‘‘
(الصافات: 19)

جب لوگ قبروں سے نکلیں گے تو وہ کبھی اِدھر جائیں گے تو کبھی اُدھر۔ ایک دوسرے کو لگتے رہیں گے۔ کسی کو معلوم نہ ہو گا کہ کیا کرنا ہے اور کس طرف جانا ہے۔ کبھی آپ نے بکھرے ہوئے پروانے دیکھے ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’وہ دن جب لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہوں گے‘‘
(القارعۃ: 4)

لوگوں سے کہا جائے گا: لوگو! اپنے رب کی طرف آ جاؤ۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’اس روز سب لوگ منادی کی پکار پر سیدھے چلے آئیں گے، کوئی ذرا اکڑ نہ دکھا سکے گا اور آوازیں رحمان کے آگے دب جائیں گی، ایک سرسراہٹ کے سوا تم کچھ نہ سنو گے‘‘
(طٰہٰ: 108)

یوں فرمایا:
’’اُس روز آدمی اپنے بھائی۔ اور اپنی ماں اور اپنے باپ۔ اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔ ان میں سے ہر شخص پر اس دن ایسا وقت آ پڑے گا کہ اسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا‘‘
(عبس: 34-37)

اسی طرح فرمانِ الٰہی ہے:
’’اور جس د ن وہ کہے گا کہ حشر ہو جائے اسی دن وہ ہو جائے گا اس کا ارشاد عین حق ہے اور جس روز صور پھونکا جائیگا، اس دن اسی کی بادشاہت ہو گی‘‘
(الانعام: 73)
ایک شخص کو قبر سے نکالا جائے گا تو وہ تلبیہ پڑھ رہا ہو گا۔ لبیک اللہم لبیک، کیونکہ وہ حالت احرام میں فوت ہوا تھا، دوسرا شخص قبر سے نکالا جائے گا تو اس کے زخموں سے خون بہہ رہا ہو گا۔ رنگ خون کا ہو گا مگر خوشبو مشک کی ہو گی۔ یہ شخص شہید ہو گا۔

اور مجرم اس حال میں گھیر کر لائے جائیں گے کہ خوف کے مارے ان کی آنکھیں پتھرائی ہوئی ہوں گی، دل ڈرے ہوئے ہوں گے، کچھ کی نظریں شرم کے مارے نیچی ہوں گی اور کچھ کی نظریں آسمان سے لگی ہوں گی۔ کافروں کو منہ کے بل چلایا جائے گا۔
ایک شخص نے دریافت کیا: اے اللہ کے نبی! کافر اپنے منہ کے بل کس طرح چلے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا جس نے دنیا میں اسے پاؤں پر چلنے کی صلاحیت دی ہے وہ اسے قیامت کے دن منہ کے بل نہیں چلا سکتا؟ فرمانِ الٰہی ہے:
’’ان لوگوں کو ہم قیامت کے روز اوندھے منہ کھینچ لائیں گے، اندھے، گونگے اور بہرے اُن کا ٹھکانا جہنم ہے جب کبھی اس کی آگ دھیمی ہونے لگے گی ہم اسے اور بھڑکا دیں گے‘‘
(الاسراء: 97)

اس مجمع میں کہ جس میں اولین واخرین موجود ہوں گے، دھوکہ دینے والوں کے علم بلند کیے جائیں گے۔ بتایا جائے گا کہ فلان کی غداری ہے اور یہ فلاں کا دھوکہ ہے۔
جس شخص نے ناحق مسلمانوں کا مال غصب کیا ہو گا وہ اسے اپنی کمر پر اٹھا کر لائے گا، چاہے وہ سونا چاندی ہو یا کوئی اور چیز۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
دیکھنا! ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن تم اپنی کندھے پر بلبلاتے اونٹ کو اٹھا کر لاؤ اور پھر مجھ سے کہو: اے اللہ کے رسول! میری مدد کیجیے! اس وقت میں کہوں گا: میں نے تمہیں خبردار کر دیا تھا۔ اب تجھے اللہ سے میں نہیں بچا سکتا۔

فرمانِ الٰہی ہے:
’’زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی‘‘
یعنی جب اللہ تعالیٰ لوگوں میں فیصلہ کرنے کے لیے جلوہ فرما ہو گا تو زمین روشن ہو جائے گی۔
’’کتاب اعمال لا کر رکھ دی جائے گی‘‘
جس میں ہمارے اعمال لکھے ہوئے ہوں گے۔
’’انبیاء حاضر کر دیے جائیں گے‘‘
جو اپنی اپنی امتوں پر گواہ ہوں گے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا ہے۔
’’تمام گواہ حاضر کر دیے جائیں گے‘‘
جو کہ اولاد آدم کے اعمال لکھ چکے ہوں گے اور ان پر گواہ ہوں گے۔
’’لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور اُن پر کوئی ظلم نہ ہوگا‘‘
(الزمر: 96)

اس دن چہرے یا تو سفید چمکتے ہوں گے یا پھر کالے سیاہ۔ میزان ہلکے یا پھر بھاری۔ نامہ اعمال یا تو لوگوں کے دائیں ہاتھوں میں ہوں گے یا پھر بائیں ہاتھوں میں۔
اللہ اکبر! کتنا ہولناک منظر ہو گا! فرمانِ الٰہی ہے:
’’ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے‘‘
(المعارج: 4)


اللہ اولین اور آخرین کے درمیان فیصلہ فرمائیں گے۔ سارے جہان کو زبان مل جائے گی، سب اللہ تعالیٰ کے سامنے گویا ہوں گے اور اس کے فیصلوں اور عدل کی تعریف کریں گے۔ ساری مخلوقات اس کی ثنا کرے گی۔
قتادۃ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کی ابتدا اپنی تعریف سے کی، فرمایا:
’’تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے زمین اور آسمان بنائے‘‘
(الانعام: 1)
پھر قیامت کے فیصلوں کا اختتام بھی اپنی تعریف پر فرمایا۔ فرمایا:
’’اور تم دیکھو گے کہ فرشتے عرش کے گرد حلقہ بنائے ہوئے اپنے رب کی حمد اور تسبیح کر رہے ہوں گے، اور لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ چکا دیا جائے گا، اور پکار دیا جائے گا کہ حمد ہے اللہ ربّ العالمین کے لیے‘‘
(الزمر: 75)

فرمانِ الٰہی ہے:
’’رہے وہ لوگ جن کے لیے ہماری طرف سے بھَلائی کا پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہو گا، تو وہ یقیناً اُس (جہنم) سے دُور رکھے جائیں گے۔ اس کی سرسراہٹ تک نہ سُنیں گے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اپنی من بھاتی چیزوں کے درمیان رہیں گے۔ وہ انتہائی گھبراہٹ کا وقت اُن کو ذرا پریشان نہ کرے گا، اور ملائکہ بڑھ کر اُن کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے کہ یہ تمہارا وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا‘‘
(الانبیاء: 101-103)

بعدازاں! اے مسلمانو!
آخرت پر اور موت کے بعد کی زندگی پر ایمان سے انسان کی زندگی کا رخ درست ہو جاتا ہے۔ اسی ایمان سے جسم کے اعضا فرمان برداری میں لگ جاتے ہیں۔ گناہوں اور کوتاہیوں سے بچ جاتے ہیں۔ قرآنی آیات بھی یہی بیان کرتی ہیں کہ فرمان برداری اور ایمان بالیوم الآخر میں بہت گہرا تعلق ہے۔

اللہ کے بندو!
آخرت پر ایمان لانے سے انسان ایک نیا شخص بن جاتا ہے۔ جو اپنے اخلاق، مبادی اور نظریات میں بالکل مختلف شخص ہوتا ہے۔ آخرت پر ایمان رکھنے والا اور اس کے لیے محنت کرنے والا دنیا کے لیے جینے والے جیسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ زندگی کے کسی بھی معاملے میں ان دونوں کا فیصلہ ایک نہیں ہو سکتا۔ ان میں سے ہر ایک کی اپنی سوچ ہے جس کی بنیاد پر وہ چیزوں کا وزن کرتے ہیں اور فیصلے کرتے ہیں۔
آخرت پر ایمان سے دل میں آنے والے شکوک وشبہات دور ہو جاتے ہیں اور اگر یہ ایمان کمزور پڑ جائے تو شکوک وشبہات بڑھ جاتے ہیں۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’اور ہم نے تو اسی طرح ہمیشہ شیطان انسانوں اور شیطان جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے جو ایک دوسرے پر خوش آیند باتیں دھوکے اور فریب کے طور پر القا کرتے رہے ہیں اگر تمہارے رب کی مشیت یہ ہوتی کہ وہ ایسا نہ کریں تو وہ کبھی نہ کرتے پس تم اُنہیں ان کے حال پر چھوڑ دو کہ اپنی افترا پردازیاں کرتے رہیں۔ (یہ سب کچھ ہم انہیں اسی لیے کرنے دے رہے ہیں کہ) جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اُن کے دل اِس (خوشنما دھوکے) کی طرف مائل ہوں اور وہ اس سے راضی ہو جائیں اور اُن برائیوں کا اکتساب کریں جن کا اکتساب وہ کرنا چاہتے ہیں‘‘
(الانعام: 112-113) 

اے مسلمانو!
آخرت پر ایمان رکھنے والے کا ضمیر مطمئن ہو جاتا ہے اور وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان نہیں رہتا، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے عفو ودرگزر اور رحمت کی امید رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتا ہے۔ وہ یقین رکھتا ہے کہ یہ ہولناک دن ضرور آئے گا اور اس دنیا کے بعد ایک اور زندگی ضرور ملے گی۔ جب وہ دنیا کی کسی چیز سے محروم ہو جاتا ہے تو وہ آخرت کے حوالے سے امید رکھتا ہے کہ وہاں اسے ساری نعمتیں نصیب ہو جائیں گی۔ جب بھی اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھتا ہے۔ جب دنیا کی نعمتیں دیکھتا ہے تو اسے آخرت کی نعمتیں یاد آتی ہیں۔

فرمانِ الٰہی ہے:
’’اور یہ دنیا کی زندگی کچھ نہیں ہے مگر ایک کھیل اور دل کا بہلاوا، اصل زندگی کا گھر تو دار آخرت ہے، کاش یہ لوگ جانتے‘‘
(العنکبوت: 64)

وہ دنیا میں ویسا ہی رہتا ہے جیسا اللہ تعالیٰ نے اسے رہنے کا کہا ہے۔ وہ لوگوں پر احسان کرتا ہے۔ وہ زمین کو آباد کرتا ہے اور یقین رکھتا ہے دنیا کی بگڑی چیزیں آخرت میں سنور جائیں گی اور دنیا میں اگر باطل غالب ہے تو وہ آخرت میں ضرور رسوا ہو گا۔

اے اللہ! ہمیں آخرت پر مکمل ایمان رکھنے والا بنا۔ ڈر والے دن ہمیں امن نصیب فرما اور جنت میں داخل فرما!

اے اللہ! ہمارے گناہوں کو معاف فرما! ہمارے عیب چھپا، ہمارے معاملات آسان فرما! اور ہماری نیک خواہشات پوری فرما! اے اللہ! ہمیں، ہمارے والدین کو، آباء واجداد کو اور ان کی نسلوں کو، ہماری بیویوں کو اور ہماری نسلوں کو معاف فرما! یقینًا تو دعا سننے والا ہے۔

اے اللہ! ہمارے روزے، قیام اور دعائیں قبول فرما! ہمارے نیک اعمال قبول ومنظور فرما! یقینًا تو سننےاور جاننے والا ہے۔ ہماری توبہ قبول فرما! یقینًا تو توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔
’’پاک ہے تیرا رب، عزت کا مالک، اُن تمام باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔ اور سلام ہے مرسلین پر۔ اور ساری تعریف اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے‘‘
(الصافات: 180-182)


مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر صالح بن محمد آل طالب جمعۃ المبارک 16 رمضان المبارک 1439ھ بمطابق 1 جون 2018 عنوان: غیب اور ...