سورت الانشراح؛ بعد از رمضان مشعل راہ
خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
امام و خطیب: ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
بشکریہ: دلیل ویب
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ نے مسجد نبوی میں 01 شوال 1439 کا خطبہ جمعہ " سورت الانشراح؛ بعد از رمضان مشعل راہ" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ مسلمان ماہ رمضان کو الوداع کہہ رہے ہیں اور اس صورت حال میں سورت الانشراح مکمل رہنمائی پیش کرتی ہے کہ اس میں مخاطب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا گیا لیکن تمام مسلمانوں کو اس سے رمضان کے بعد کی زندگی کے لیے جامع منصوبہ بندی ملتی ہے؛ چنانچہ پہلی آیت میں شرح صدر کا ذکر ہے جو کہ مسلمانوں کی رمضان میں بھرپور عبادات سے ہو چکی ہے اور اس کی لذت بھی انہوں نے پا لی ہے، بلکہ مومن کی ساری زندگی شرح صدر کی وجہ سے صبر اور شکر کے درمیان ہی گزرتی ہے۔ دوسری آیت میں گناہوں کی معافی تلافی کا ذکر ہے اور رمضان میں مسلمان اپنے گناہ معاف کروا کر ہلکے پھلکے ہو گئے ہیں، نیز انہیں گناہوں کی صفائی کے بعد ایمانی مٹھاس اور حلاوت بھی محسوس ہونے لگی ہے۔ تیسری آیت میں اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بلند کرنے کا ذکر فرمایا تو اسی طرح جن کی زبانیں اور قلب و ذہن یاد الہی میں مصروف رہیں تو اللہ تعالی انہیں بھی بلند مقام عطا فرماتا ہے، قرآن کریم کے ذریعے اللہ تعالی بہت سی اقوام کو رفعت اور کچھ کو پست کر دیتا ہے، جیسے کہ حافظ قرآن کو روزِ قیامت کہا جائے گا: قرآن پڑھتا جا اور چڑھتا جا، دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ آخری اور دو آیات کے مطابق فراغت کو اللہ تعالی کی بندگی میں مصروف رکھیں یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن کی زندگی میں عبادت سے چھٹی کا کوئی تصور نہیں ہے، اسی لیے مومن ایک عبادت کی تکمیل پر دوسری عبادت کو شروع کر لیتا ہے اور اس تسلسل کو ٹوٹنے نہیں دیتا۔ عبادت کے اس تسلسل کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے عملی نمونہ ہیں، آخر میں انہوں نے کہا کہ رمضان میں عبادات میں وقت گزارنے والا رمضان کے بعد یکسر بدل جائے انتہائی محرومیت کی علامت ہے؛ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی آخری دم تک عبادات کرنے کا حکم دیا گیا تھا، پھر آخر میں جامع دعا کروائی۔
منتخب اقتباس:
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ماہ رمضان میں جتنی بھی بھلائیاں مقدر میں لکھیں اور عطا کیں ان پر اللہ ہی کے لیے تعریفیں ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے، اللہ تعالی نے مومنین کو خوشخبریاں دیں اور ان کی مشکلات آسان فرمائیں، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ بندگی کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور بلند درجات تک پہنچنے والے صحابہ کرام پر رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرمائے۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہو، اللہ کا فرمان ہے:
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ}
اے ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقُّہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔[آل عمران: 102]
مسلمان رمضان کو الوداع کہہ رہے ہیں کہ جس کی راتیں مٹھاس والی تھیں، رمضان کے دنوں کی منفرد تازگی تھی، ان میں رحمت کی برکھا برستی تھی۔
رمضان کی راتیں گزر گئیں، اور دن بھی ختم ہو گئے؛ لیکن رمضان کے نقوش قلب و ذہن پر موجود ہیں، روئے زمین پر جہاں جہاں روزے دار چلتے پھرتے تھے وہاں روزے کے اثرات عیاں ہیں۔
اور جب ہم سورت الانشراح کے معانی پر غور کریں جن میں مخاطب تو رسول اللہ ﷺ کو کیا گیا ہے لیکن ہمیں ایسے عظیم ثمرات کا تصور ملتا ہے جو انسان کو رمضان سے ملتا ملتے ہیں، مزید برآں رمضان کے بعد کی زندگی کے لیے رہنمائی بھی حاصل ہوتی ہے؛ فرمان باری تعالی ہے:
{أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ (1) وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ (2) الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ (3) وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ (4) فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (5) إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (6) فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ (7) وَإِلَى رَبِّكَ فَارْغَبْ }
کیا ہم نے آپ کی شرح صدر نہیں فرمائی[1] اور ہم نے آپ سے آپ کا بوجھ اتار دیا[2] جو آپ کی کمر توڑ رہا تھا [3] اور ہم نے آپ کا تذکرہ بلند فرمایا [4]بیشک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے [5] بیشک ہر مشکل کے ساتھ ایک اور آسانی بھی ہے [6]پس جب آپ فارغ ہوں تو عبادت کیلیے محنت کریں [7] اور اپنے پروردگار کی جانب راغب ہوں ۔ [الشرح: 1 - 8]
{أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ}
کیا ہم نے آپ کی شرح صدر نہیں فرمائی [الشرح: 1]
اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک عظیم ترین نعمت کا احسان جتلایا، یہ نعمت شرح صدر کی نعمت ہے، اور شرح صدر رمضان کی عبادات قبول ہونے کا ثمر ہے۔ اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہو گی کہ اللہ تعالی انسان کی اس طرح شرح صدر فرما دے کہ اس نے رمضان میں ایمانی مٹھاس حاصل کر لی ہو، قرآن کریم کے فہم نے اس کے قلب و ذہن کو منور کر دیا ہو۔
یہ یقینی بات ہے کہ کسی چیز کی لذت اور ذائقہ چکھ لینے کے بعد پھر اس سے صبر کرنا ممکن نہیں رہتا؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نفس میں طبعی طور پر تجربے کا شوق اور حرص ہے، چنانچہ جب اسے تجربہ ہو جائے تو نفس اس چیز کا حریص بن جاتا ہے، اور جب کوئی چیز حرص میں شامل ہو جائے تو وہ دل و دماغ پر مسلط ہو جاتی ہے۔
{وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ}
اور ہم نے آپ سے آپ کا بوجھ اتار دیا [الشرح: 2]
نیک لوگوں کو اللہ تعالی کی طرف سے ملنے والا ماہ رمضان کی قبولیت کا ثمرہ یہ بھی ہے کہ کمر سے گناہوں کا بوجھ اتر جائے، خطائیں اور پاپ دھل جائیں، چنانچہ جس وقت انسان گناہوں کے بوجھ سے ہلکا ہو جائے تو سعادت کے قریب تر ہو جاتا ہے۔
کیونکہ گناہوں اور معصیتوں کا بوجھ انسان پر بہت گراں ہوتا ہے، ان کی انسانی اعضا پر گرفت بڑی مضبوط ہوتی ہے، یہ روح کو بیماریوں اور امراض میں مبتلا کر دیتے ہیں، جسمانی بیماری میں تکلیف ہوتی ہے، جبکہ قلبی اور روحانی بیماری میں گناہ سر زد ہوتے ہیں؛ تو جس طرح جسمانی بیماری کی حالت میں کھانے میں لذت نہیں آتی بالکل اسی طرح جب روح اور قلب گناہوں میں مبتلا ہوں تو عبادت کی مٹھاس حاصل نہیں کر پاتے۔
انسان کے کندھوں پر ایسے گناہ بھاری ترین ثابت ہوتے ہیں جن کے ذریعے انسان دوسروں کو تکلیف پہنچائے، ان میں غیبت، چغلی، جھوٹ، اور ظلم سر فہرست ہیں۔
قرآن کریم نے ان گناہوں کو ایسے بوجھ سے تشبیہ دی ہے جو انسان کی کمر توڑ دیں، چنانچہ فرمایا:
{الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ}
[وہ گناہ کا] بوجھ آپ کی کمر توڑ رہا تھا [الشرح: 3]
{وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ}
اور ہم نے آپ کا تذکرہ بلند فرمایا [الشرح: 4]
اللہ تعالی نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو بلند فرمایا تو آپ کے تذکرے کو بھی رفعت بخشی؛ لہذا جب بھی اللہ کا ذکر ہو گا تو ساتھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ذکر ہو گا۔
اسی طرح جن لوگوں کے اعضا اور جوارح خشوع سے نہال رہے، ان کے دل قرآن سے سکینت حاصل کرتے رہے، جن کی زبانیں ذکر سے تر رہیں۔ رمضان کے شب و روز دعا، لا الہ الا اللہ اور الحمد اللہ کے ورد سے معمور رہے؛ اللہ تعالی ان کا ذکر بھی بلند فرماتا ہے، ان کی قدر و منزلت کو دنیا و آخرت میں اعلی ترین مقام پر پہنچا دیتا ہے، اور لوگوں کے مابین درجہ بندی کا حقیقی معیار بھی یہی ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بیشک اللہ تعالی اس کتاب کے ذریعے بہت سی اقوام کو رفعت عطا فرماتا ہے، اور بہت سی اقوام کو پست کر دیتا ہے)
{فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ}
پس جب آپ فارغ ہوں تو عبادت کیلیے محنت کریں [الشرح: 7]
اس آیت کے مطابق بندے کو یہی طریقہ کار اپنانا چاہیے کہ وہ اللہ تعالی کی بندگی کے لیے جہد مسلسل کا پیکر ہو، اللہ تعالی کی شریعت پر کار بند رہے، اللہ کے دین پر ثابت قدم ہو، اسی لیے مسلمان کی ساری زندگی اللہ کی بندگی کی بہار ہوتی ہے، اپنی نماز سے فارغ ہوں تو اپنے رب سے مانگنے میں مصروف ہو جائیں، اپنے رب کی دیگر عبادتوں میں مگن ہو جائیں، جیسے ہی دنیاوی مصروفیات سے فرصت ملے اللہ تعالی کی بندگی میں جت جائیں۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ کی بندگی سے مسلمان کو کبھی فرصت نہیں ملتی، بلکہ وہ ہمیشہ ایک عبادت سے دوسری عبادت میں منتقل ہوتا رہتا ہے؛ کیونکہ جس وقت میں آپ دنیاوی جھنجھٹ اور پریشانیاں پس پشت ڈال کر اپنے پروردگار کے سامنے خلوت اختیار کریں، اس وقت اور ساعت سے اچھی گھڑی کوئی نہیں ہے۔
{فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ (7) وَإِلَى رَبِّكَ فَارْغَبْ}
پس جب آپ فارغ ہوں تو عبادت کیلیے محنت کریں [7] اور اپنے پروردگار کی جانب راغب ہوں ۔ [الشرح: 7، 8]
یہ آیات انسان کو بلیغ ترین صدا اور عظیم ترین تعلیمات دیتی ہیں ، یہ آیات اپنے وقت سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دلاتی ہیں اور اس کے لیے ہمت باندھتی ہیں۔
نیکیوں پر فوری اور دائمی عمل کے واسطے مسلمان کے لیے عملی نمونہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؛ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اتنا لمبا قیام فرماتے تھے کہ آپ کے قدم مبارک بھی سوج جاتے ۔
یہ بہت بڑی محرومیت ہے کہ انسان ماہ رمضان میں نیکیاں کرنے کے بعد پھر ویسے ہی ہو جائے جیسے پہلے تھا، جن نیکیوں کی اللہ تعالی نے ماہ رمضان میں توفیق دی تھی انہیں ضائع کر بیٹھے، حالانکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
{فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِنَ السَّاجِدِينَ (98) وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ}
آپ اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بیان کرتے رہیں اور سجدہ کرنے والوں میں شامل ہو جائیں۔ [98] اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو یقین [یعنی موت ]آ جائے۔ [الحجر: 98، 99]
{رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ} [البقرة: 201]
ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ۔ [البقرة: 201]
{رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ}
ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے [الأعراف: 23]
{رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ} [الحشر: 10]
اے ہمارے پروردگار! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں، ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے، اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے[الحشر: 10]
{رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ}
اے ہمارے رب اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا اے ہمارے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو اور ہم سے درگزر فرما اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر تو ہی ہمارا مالک ہے، ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما ۔[البقرة: 286]
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں