رمضان کے آخری عشرے کی برکتیں ------ خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس) ۔۔۔ 08 جون 2018

مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن بن عبد العزیز السدیس
جمعۃ المبارک 23 رمضان المبارک 1439ھ بمطابق 8 جون 2018
عنوان: رمضان کے آخری عشرے کی برکتیں۔
ترجمہ: عاطف الیاس

منتخب اقتباس:

یقینًا! ہر طرح کی حمد وثنا اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔ اے اللہ! ہم تیری حمد وثنا بیان کرتے ہیں، تجھ ہی سے معافی مانگتے ہیں اور تجھ ہی سے توبہ کرتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرتے ہیں۔ اسی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اسی نے ہمیں دس بابرکت خیر اور برکات والی راتوں سے نوازا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ واحد ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہی روزہ داروں اور تہجد گزاروں کو اجر عظیم عطا فرمانے والا ہے۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ مخلوق میں افضل ترین ہیں۔ اللہ کی رحمتیں، برکتیں اور سلامتیاں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر، اصحاب توفیق صحابہ کرام پر، تابعین عظام پر اور قیامت تک طالب نجات لوگوں پر جو ان کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں۔

بعدازاں!
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور یاد رکھو کہ آپ پرہیز گاری کے بابرکت موسم میں ہو۔ اللہ تعالیٰ روزے کی فرضیت والی آیت کے آخر میں فرمایا ہے:
’’اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی‘‘
(البقرۃ: 183)

اے مسلمان معاشرے کے لوگو!
امت اسلامیہ ان دنوں گراں قدر اوقات سے گزر رہی ہے۔ یہ اوقات رمضان کے آخری عشرے کے اوقات ہیں۔ سال کے کچھ مہینوں میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے جھونکے بڑی کثرت سے آتے ہیں، رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں۔

کچھ ہی دن پہلے ہم رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے لیے تڑپ رہے تھے۔ بڑے شوق اور محبت بھرے جذبات سے اس کا استقبال کر رہے تھے اور کچھ ہی دن بعد ہم اسے الوداع کہہ رہے ہوں گے اور اس کے کھاتے اللہ تعالیٰ کے یہاں جمع کرا رہے ہوں گے۔

آئیے رمضان کے آخری حصے کی شاندار خوشبو سے معطر ہو جائیں اور اپنے دلوں کو اس کی زینت سے مزین کر لیں۔ اس کی برکتوں سے اپنے دلوں کو شفایاب کریں۔
اس ماہ مبارک کے جانے کے افسوس میں آنکھیں اشک بار ہیں، بلکہ ان سے بارش کی طرح آنسو برس رہے ہیں۔ دل بھی بڑا اداس اور پریشان ہے۔ اب اپنے محبوب کو الوداع کہنا ہے اور ہم میں روزے اور پرہیز گاری کے مہینے کو الوداع کہنے کی ہمت کہاں ہے؟
اللہ آپ کی نگہبانی کرے۔ خوش خبری اور نعمت بھری خبر یہ ہے کہ ابھی اس ماہ مبارک کے چند دن باقی ہیں۔ ان میں فرائض اور نوافل کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرو اور گزشتہ دنوں میں ہونے والی کمی کو پورا کرو۔

اے مسلمانو!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کی آخری راتوں میں اتنی زیادہ عبادت کرتے تھے جتنی وہ دوسرے دنوں میں نہیں کرتے تھے۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدہ عائشہ سے روایت ہے کہ جب رمضان کی آخری دس راتیں آ جاتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات جاگتے، اپنے گھر والوں کو جگاتے اور عبادت کے لیے کمر کس لیتے۔

اللہ کے بندو! ابھی عمر کی رسی دراز ہے تو عبادت میں خوب محنت کرو۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاؤ کیونکہ یہ تجارت بڑی نفع بخش ہے۔ آخری عشرے کی بقیہ ایام کو غنیمت جانو اور اجر وثواب کمانے کی خوب کوشش کرو۔

مشرق ومغرب میں امت اسلامیہ کے لوگو! ان بابرکت راتوں میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک عظیم رات کا تحفہ دیا ہے۔ وہ رات بڑی قدر اور مرتبے والی رات ہے۔ انتہائی بابرکت ہے اور اس کا ذکر بھی بڑا بلند ہے۔ جو خیر، رحمت اور سلامتی سے بھر پور ہے۔ اسی میں قرآن بھی نازل ہوا اور اسی میں فرشتے بھی نازل ہوتے ہیں۔ یہ رات ان شاء اللہ ہم سے بالکل قریب ہے۔ یہ رات لیلۃ القدر ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’اور تم کیا جانو کہ شب قدر کیا ہے؟ (2) شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے‘‘
(القدر: 2-3)

تو اے عبادت میں محنت کرنے والو! رمضان کی سات راتیں آپ کے آگے ہیں۔
لیلۃ القدر ان ہی میں ہے اور وہ ایک ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ اسے مخفی رکھا گیا ہے تاکہ لوگوں کا امتحان ہو سکے، محنت کرنے والے اور سست الگ الگ ہو سکیں۔ جس کی زندگی با مقصد ہوتی ہے وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے سنجیدگی دکھاتا ہے اور اس راہ میں آنے والی پریشانیاں بھی اسے آسان لگنے لگتی ہیں۔ یہ وہ رات ہے کہ جس میں تقدیر کا قلم سعادت مندوں کی سعادت اور بد بختوں بد بختی تحریر کرتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’یہ وہ رات تھی جس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ‘‘
(الدخان: 4)

اللہ اکبر! اللہ اکبر! یہ کتنی بابرکت رات ہے! اور اس کے قیام کا کتنا زیادہ اجر ہے!

یہ وہ رات ہے کہ جس میں صبح تک اللہ کے فرشتے نازل ہوتے رہتے ہیں۔ اگر آپ اسے پانے میں کامیاب ہو گئے تو اس میں کی گئی عبادت ایک ہزار ماہ کی عبادت سے بہتر ہے۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ روایت کرتی ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر مجھے پتا چل جائے کہ کون سی رات لیلۃ القدر ہے، تو میں کیا دعا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دعا کرو کہ اے اللہ! یقینًا! تو معاف کرنے والا ہے۔ معافی تجھے پسند ہے۔ تو ہمیں معاف فرما!
اے اللہ! یقینًا! تو معاف رکنے والا ہے۔ تجھے معافی پسند ہے۔ ہمیں معاف فرما!

اے رات میں عبادت کرنے والو! خوب محنت کرو! امید ہے کہ اس رات کو دعا کرنے والا خالی ہاتھ نہ لوٹے گا اور رات کی عبادت بھی وہی شخص کر سکتا ہے کہ جس کی ہمت بلند اور عزم پختہ ہو۔

کیا ہم یہ سمجھنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ رمضان ایک ایسا نور ہے کہ جس سے اپنے نفس اور دل کو روشناس کرنا ہی ہمیں زیب دیتا ہے۔ اسی کی بدولت امت اسلامیہ تبدیلی اور اصلاح کی راہ پر چل سکتی ہے اور اپنی سوچ کو شہوات نفس اور خواہشات کی پیروی سے بچا سکتی ہے اور ثابت قدم رہ سکتی ہے۔ کیا ہم نے اس چیز کو صحیح طرح سمجھ لیا ہے یا پھر رمضان ہمارے نزدیک بس وہی معروف مہینہ ہے جو ہر سال میں آتا ہے اور جس کا ہمارے حالات سے اور کردار سے کوئی تعلق نہیں۔ بالکل ویسا جیسا کہ سورج طلوع ہوتا ہے یا ہلال نظر آتا ہے!؟

خدا کی قسم! ہم بہت ہی خوش قسمت ہوں گے اگر ہم اس ماہ مقدس کو ایک بابرکت اور مضبوط کورس بنا لیں جس میں ہم اپنے نفس کو قابو میں رکھنا سیکھیں، پورے یقین اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرنا جانیں اور بلند درجات پانے کی کوشش کریں۔

کیا ہم نے رمضان المبارک ایک دوسرے پر رحم کرنے اور معاف کرنے کا مہینہ سمجھا ہے؟ کیا ہم نے اسے نفس کے محاسبے کا مہینہ سمجھا ہے، کیا ہم نے اس میں اپنے اعمال کو درست کیا ہے اور کیا ہم نے اس کے عظیم سبقوں سے کچھ سیکھا ہے۔ یہ ہمیں بھلائی کے کاموں میں مقابلہ کرنا سکھاتا ہے اور نیکی کے کاموں میں پیش قدمی کا درس دیتا ہے۔

کیا امت اسلامیہ نے دین اسلام کا روشن چہرہ بے داغ رکھنے کی کوشش کی ہے اور اسے میانہ روی اور اعتدال والا دین ہی سمجھا ہے کہ جس میں نہ غلو ہے، نہ انتہا پسندی اور نہ دہشتگردی؟ کیا ہم نے واقعی یہ سمجھ لیا ہے کہ دین ان جرائم سے پاک ہے اور اس کا دور دور تک ان برائیوں سے اور ان کے مدد گاروں اور ان کے ساتھ سہولتیں مہیا کرنے والوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے؟

اے امت اسلامیہ کے لوگو!
آج ہم بابرکت وقت میں انتہائی بابرکت جگہ پر موجود ہیں اور بہترین فضا سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مکمل امن وامان میں ہیں اور بڑے ہی روح پرور ماحول میں ہیں۔ مگر ہم اپنے مظلوم اور مصیبت زدہ بھائیوں کو نہیں بھول سکتے جو قبلۂ اول اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے اسرا ، مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کے قریب قریب ہیں۔ جو فلسطین کی مبارک سرزمین پر ہیں اور شام کے علاقے میں ہیں، برما، ارکان اور عراق اور یمن وغیرہ میں ہیں۔

کیا ان مظلوم یتیموں کی رونے کی آوازیں، ٹوٹے ہوئے گھروں کے ملبے کے نیچے سے آنے والی چیخ وپکار کی آوازیں، اندھیوں میں بیواؤں سسکیاں اور خیموں کے مکین بے گھر لوگوں کے جذبات دہشتگردی کے خلاف آوازیں بلند کرنے والوں اور انسانی حقوق کے دعوے داروں اور سلامتی کا شعار اٹھانے والوں کو بھی ہلاتی ہیں یا ان میں کوئی حرکت پیدا کرتی ہیں؟

نہیں! بلکہ یہ تو ایسے لوگ ہیں کہ جن کے خون میں وعدہ خلافی اور جھوٹ رچ بس چکا ہے۔
رمضان المبارک کے آخر میں ہم یہ آواز بلند کرتے ہیں اور تمام مسلمانوں کو پکارتے ہیں کہ وہ حق اور خیر کی ایک دوسرے کو نصیحت کریں، بھلائی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور کتاب وسنت پر قائم رہیں۔

آئیے! مل کر اسلام پر، مسلمانوں پر اور اسلامی امت پر کیے جانے والے حملوں کا مقابلہ کرتے ہیں، گمراہی اور فتنے پھیلانے والے چینلز کا اور جھوٹی خبریں پھیلانے اور بہتان تراشنے والی ویب سائٹس کا سختی سے مقابلہ کرتے ہیں۔ آئیے اسلامی میڈیا کو اپنی محفلوں اور زبانوں سے نکال کر عملی زندگی میں لے آئیں اور سب کو اس سے مستفید کریں۔

یہی امید ہے اور یہی آرزو اور نیک اعمال کی توفیق اللہ تعالیٰ ہی عطا فرماتا ہے اور ہم اسی سے مانگتے ہیں۔

فرمانِ الٰہی ہے:
’’اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اُس پر اللہ کی کبریا ئی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو‘‘
(البقرۃ: 185)

اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو! اپنے اس مہینے کے آخری میں توبہ میں جلدی کرو اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کماؤ۔ استغفار کرو۔ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرو، اس کا شکر ادا کرو کیونکہ اعمال کا دار ومدار ان کے آخری حصے پر ہوتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اُس پر اللہ کی کبریا ئی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو‘‘
(البقرۃ: 185)

اے امت اسلام!
اس مہینے کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے بہت سی بابرکت عبادتیں رکھی ہیں۔ جن میں سے ایک فطرانے کی ادائیگی ہے۔ اسے عید کی نماز سے پہلے خوش دلی کے ساتھ داد کرو۔ اگر عید سے ایک یا دو دن پہلے بھی دے دی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کی مقدار شہر میں کھائی جانے والی خواراک کا صاع ہے۔

اے بابرکت روزہ دارو!
امت کو ثابت قدمی، پرہیز گاری اور فرمان برداری کی ضرورت ہے۔ تو اللہ سے ڈرو اور گناہوں کا رخ نہ کرو۔ اب تو تم عبادت کا مزہ چکھ چکے ہو۔ جو گناہوں کی طرف جائے گا وہ اسے ہلاک کر دین گے۔ نیکی پر ثابت قدمی نصیب ہونا عبادت کی قبولیت کی دلیل ہے۔
سیدنا علی بن ابی طالب فرماتے ہیں: عبادت سے زیادہ عبادت کی قبولیت کی فکر کیا کرو۔ کیا تم اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا کہ:
’’اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں قبول کرتا ہے‘‘
(المائدہ: 27)

اللہ تعالیٰ نے عبادت کا موت تک جاری رکھا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’اور اُس آخری گھڑی تک اپنے رب کی بندگی کرتے رہو جس کا آنا یقینی ہے‘‘
(الحجر: 99)

اے اللہ! اے رب ذو الجلال! اے نعمتیں دینے والے اور فضل وکرم عطا فرمانے والے! ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما کہ جنہیں لیلۃ القدر کی عبادت کی توفیق ملی ہے۔ اے اللہ! ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما کہ جنہیں لیلۃ القدر کی عبادت کی توفیق ملی ہے۔ جنہیں تو بخش دیا ہے، جن کے تو نے درجات بلند کر دیے ہیں۔ جنہیں تو نے اجر عظیم عطا فرمایا ہے۔

اے پروردگار! ہم سے قبول فرما! تو قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ہماری توبہ قبول فرما! یقینًا تو توبہ قبول فرمانے والا اور رحم فرمانے والا! ہمیں، ہمارے والدین کو اور تمام زندہ اور مردہ مسلمان مردوں اور عورتوں کو معاف فرما!

اے اللہ! ہمارا مہینہ بھلائی پر ختم فرما! ہمارے تمام معاملات کی عاقبت درست فرما! ہمیں بہت سے اور رمضان نصیب فرما! اس حال میں کہ ہم مکمل صحت، سلامتی اور بھلی زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہوں۔

’’پاک ہے تیرا رب، عزت کا مالک، اُن تمام باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔ اور سلام ہے مرسلین پر۔ اور ساری تعریف اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے‘‘
(الصافات: 180-182)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں