~!~ قرآن کہانی ~!~
حضرت یوسف علیہ السلام (حصہ اول)
تحریر: ظل ہما عمران
بشکریہ: الف کتاب ویب
اس قرآن کہانی کا مقصد قرآن کے مختلف واقعات آپ تک پہنچانا ہے۔ جیسے آدم و حوا، حضرت ابراہیم علیہ السلام،حضرت یوسف علیہ السلام۔۔۔
آج ہم حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں بات کریں گے۔
یوسف عبرانی نام ہے اور حضرت یوسف علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ ابراہیم کے بیٹے اسحق،اسحق کے بیٹے یعقوب اور یعقوب کے بیٹے یوسف علیہ السلام تھے۔آپ کا زمانہ انیسویں صدی قبلِ مسیح تھا تقریبا آج سے چار ہزار سال پہلے۔۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کا تعلق علاقہ کنعان سے تھا۔آپ کے بارہ بیٹے تھے جن میں یوسف اور بنیامین ایک ماں سے تھے اور باقی دوسری دو ماؤں سے تھے۔ بنی اسرائیل کا مطلب یہی بارہ بیٹے ہیں اور انہی سے آگے بارہ قبیلے بنے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو حضرت یوسف علیہ السلام سے بے حد پیار تھا اور یہ بات ان کے بھائیوں کو پسند نہ تھی اور وہ دل میں ان سے بغض اور حسد رکھتے تھے ۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی پھوپھی بھی ان سے بہت پیار کیا کرتی تھیں ۔انہوں نے سوچا کہ یوسف علیہ السلام کچھ عرصہ میرے پاس رہ لیں۔ تب کنعان میں یہ اصول ہوا کرتا تھا کہ جو بھی چوری کرتے پکڑا جاتا، اسے اپنے پاس بہ طور سزا کچھ عرصہ رکھ لیا جاتا تھا۔ ان کی پھوپھی نے لاڈ سے یوسف علیہ السلام پر چوری کا الزام لگا کر انہیں اپنے پاس رکھ لیا ۔مگر یعقوب علیہ السلام زیادہ دیر وہ بیٹے کے بغیر نہ رہ سکے تو انہوں نے واپس باپ کے پاس بھجوا دیا۔ پھرہوا کچھ یوں کہ حضرت یوسف نے خواب دیکھا اور اپنے والد کے پاس آئے جو قرآن میں ایسے بیان ہے:
اإِذْ قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ - 12:4 (سورۃ یوسف)
ترجمہ: ’’جب کہ یوسف نے اپنے باپ سے ذکر کیا کہ ابا جان میں نے گیاره ستاروں کو اور سورج چاند کو دیکھا کہ وه سب مجھے سجده کر رہے ہیں‘‘
قَالَ يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَىٰ إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوٌّ مُّبِينٌ - 12:5
’’یعقوب علیہ السلام نے کہا پیارے بچے! اپنے اس خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا۔ ایسا نہ ہو کہ وه تیرے ساتھ کوئی فریب کاری کریں، شیطان تو انسان کا کھلا دشمن ہے‘‘
اور یوں یعقوب علیہ السلام کا شک صحیح نکلا۔
ان کے بھائیوں نے سوچا کہ وہ حضرت یوسف کو کہیں لے جاکر مار ڈالیں،پھر ان کے ایک بھائی نے کہا کہ مارنا نہیں ہے یوسف کو کسی اندھے کنویں میں ڈال دیں گے ۔وہ اپنی تدبیر کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا۔ان کے بھائی کو شک تھا کہ والد ہمارے ساتھ یوسف کو نہیں بھیجیں گے،وہ ان کے پاس آئے اور کہنے لگے ’’ ابا جان آپ کبھی بھی ہمارے ساتھ یوسف کو نہیں بھیجتے،آپ ہم پر اعتبار کر یں یہ بھی کچھ کھا پی لے گا ہمارے ساتھ‘‘۔ یعقوب علیہ السلام نے جانے دیا اس ہدایت کے ساتھ کہ اس کا بہت خیال رکھنا۔سب بھائیوں نے باپ کو تسلی دی لیکن دور جاکر انہوں نے یوسف کو ایک اندھے کنویں میں پھینک دیا اور واپس آکر باپ سے کہا کہ یوسف کو تو بھیڑیا کھا گیا۔ والد سمجھ گئے،خاموش ہوگئے مگر بہت دکھ ہوا ان کو۔
دوسری طرف یوسف علیہ السلام کو اللہ نے بچانا تھا۔ وہ تین دن اس کنویں میں رہے۔ پھر وہاں سے ایک قافلہ کا گزر ہوا۔ انہوں نے وہاں پڑاؤ ڈالا،جب وہ کنویں سے پانی لینے لگے تو دیکھا اندر کوئی ہے۔ ایک شخص واپس آکر وہ بولا اپنے سردار کو اندر تو ایک لڑکا ہے۔اس زمانے میں انسان بِکا بھی کرتے تھے غلام کے طور پر۔ نکالنے والا بھی یوسف علیہ السلام کا کزن تھا مگر وہ بھی ان کو پہچانتا نہ تھا ۔ خیر یوسف علیہ السلام کو منڈی لے جاکر بولی لگائی گئی۔ لوگوں نے سوچا یہ بچہ ہمارے کیا کام آئے گا۔آخر کار کو مصر کے جرنیل، سپہ سالارِ اعظم نے ان کو خرید لیااور اپنے گھر لے گیا۔ اپنی بیوی سے کہا کہ اس کا خاص خیال رکھنا، مجھے امید ہے کہ یہ ہمارے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔
حضرت یوسف کے طور طریقوں سے عزیز مصر بڑا متاثر ہوا ۔کیوں کہ وہ اکثر عبادت کیا کرتے تھے،خود عزیز مصر لا دین سا انسان تھا۔ اس کی بیوی معابد کی پوجا کیا کرتی تھی۔ وقت گزرتا گیا اور وہ یوسف کی طرف راغب ہونے لگی۔ اللہ نے یوسف علیہ السلام کو بے پناہ حسن دیا تھا تو وہ بھی اپنے وقت کی حسین ترین عورت تھی۔ایک دن اس نے یوسف علیہ السلام کو اکیلا پاکر ان کو اپنی طرف بلانے کی کوشش کی تو حضرت یوسف نے کہا معاذ اللہ ،میں اللہ سے ڈرتا ہوں ۔انہوں نے اس کی دعوتِ گناہ قبول نہ کی تو وہ ان کے پیچھے بھاگی،ان کو پیچھے سے پکڑنے لگی تو حضرت یوسف ؑ کا پیراہن پیچھے سے پھٹ گیا اور اسی وقت اس کا شوہر آگیا تو اس نے اپنی جان بچانے کے لئے ان پر تہمت لگا دی۔اب عزیز مصر پریشان ہوا کہ کون قصور وار ہے؟ تو وہیں ایک پنگھوڑے میں ایک بچہ تھا جس کو اللہ نے بولنے کی طاقت دی اور اس نے ان کی گواہی دی لیکن عزیز نے نجات اسی میں جانی کہ یوسف علیہ اسلام کو جیل بھیج دیا جائے۔
یہ عجیب اتفاق تھا کہ جس دن آپ قید خانہ میں آئے اسی دن بادشاہ مصر کے دو خادم بھی، ایک شراب پلانے والا، دوسرا باورچی، دونوں جیل خانہ میں داخل ہوئے ۔ دونوں نے اپنا ایک ایک خواب حضرت یوسف علیہ السلام سے بیان کیا اور آپ نے ان دونوں کے خوابوں کی تعبیر بیان فرما دی جو سو فی صد صحیح ثابت ہوئی۔ اس لئے آپ کا نام معبر (تعبیر دینے والا) مشہور ہو گیا۔
اسی دوران مصر کے بادشاہ اعظم نے یہ خواب دیکھا کہ سات فربہ گائیوں کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات ہری بالیاں ہیں اور سات سوکھی بالیاں ہیں۔ بادشاہ نے اپنے درباریوں سے اس خواب کی تعبیر دریافت کی تو لوگوں نے اس خواب کو خوابِ پریشاں کہہ کر اس کی کوئی تعبیر نہ بتائی۔ اتنے میں بادشاہ کا ساقی جو قید خانہ سے رہا ہو کر آیا تھا۔ اس نے کہا کہ مجھے اس خواب کی تعبیر معلوم کرنے کے لئے جیل خانہ جانے کی اجازت دی جائے۔ چناں چہ یہ بادشاہ کا فرستادہ ہو کر قید خانہ میں حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس گیا اور بادشاہ کا خواب بیان کر کے تعبیر دریافت کی کہ سات دبلی گائیں سات موٹی گایوں کو کھا رہی ہیں اور سات ہری بالیاں ہیں اور سات سوکھی۔ یوسف علیہ اسلام نے فرمایا کہ سات برس مسلسل کھیتی کرو اور ان سے اُگنے والے اناج کو بالیوں میں محفوظ رکھو۔ پھر سات برس تک سخت خشک سالی رہے گی۔ قحط کے ان سات برسوں میں پہلے سات برسوں کا محفوظ کیا ہوا اناج لوگ کھائیں گے۔ اس کے بعد پھر ہریالی کا سال آئے گا۔
قاصد نے واپس جا کر بادشاہ سے اس خواب کی تعبیر بیان کی تو بادشاہ نے حکم دیا کہ یوسف علیہ السلام کو جیل خانہ سے نکال کر میرے دربار میں لائیں۔ قاصد رہائی کا پیغام لے کر جیل خانہ میں پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ پہلے عزیز مصر کی بیوی کے معاملے میں میری بے گناہی ثابت کی جائے، اس کے بعد ہی میں جیل سے باہر نکلوں گا۔ چناں چہ بادشاہ نے اس کی تحقیقات کرائیں تو تحقیقات کے دوران اس نے اقرار کرلیا کہ میں نے ہی حضرت یوسف علیہ السلام کو پھسلایا تھا، خطا میری ہے۔ مصر کی عورتیں کہنے لگیں کہ زلیخا تم نے ایسی گری ہوئی حرکت کیوں کی تو اس نے کہا کہ میں ثابت کروں گی کہ میں ایسے ہی دیوانی نہیں ہوئی۔ اس نے سب عورتوں کو ایک دعوت پر بلایا اور ان کو ایک ایک چھری اور سیب دے کربِٹھا دیا اور حضرت یوسف سے کہا کہ ان کے درمیان راہ داری سے بس ایک بار گزر جاؤ اور جونہی حضرت یوسف علیہ اسلام وہاں سے گزرے ان کے حسن کو دیکھ کر سب عورتوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور اس طرح حضرت یوسف سچے اور پاک دامن ثابت ہوئے۔ اس کے بعد بادشاہ نے حضرت یوسف علیہ اسلام کو دربار میں بلا کر کہہ دیا کہ آپ ہمارے معتمد اور ہمارے دربار کے معزز ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا کہ آپ زمین کے خزانوں کے انتظامی امور اور حفاظتی نظام پر میرا تقرر کردیں، میں پورے نظام کو سنبھال لوں گا۔ بادشاہ نے خزانے کا انتظامی معاملہ اور ملک کے نظام و انصرام کا پورا شعبہ آپ کے سپرد کردیا۔ اس طرح ملک مصر کا اقتدار آپ کو مل گیا۔
پھر جب قحط کے سال شروع ہوئے اور تمام علاقے اس سے متاثر ہوئے تو اس وقت مصر پر حضرت یوسف علیہ السلام کی حکومت تھی۔ اس قحط کا شکار یوسف کے بھائی بھی ہوئے۔ چناں چہ وہ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے انہیں پہچان لیا لیکن وہ آپ کو نہ پہچان پائے کیوں کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ حضرت یوسف علیہ السلام اس مقام و مرتبہ پر فائز ہو سکتے ہیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے جب انہیں ان کا مطلوبہ سامان مہیا فرما دیا تو ان سے ان کے حالات پوچھے کہ وہ کتنے افراد ہیں؟ انہوں نے کہا ہم بارہ بھائی تھے ایک گم ہو گیا اور اس کا سگا بھائی ہمارے والد کے پاس ہے۔ آپ نے فرمایاکہ تم اگلے سال آؤ گے تومیرے پاس اپنے اس بھائی کو بھی لانا جو تمہارے والد کے پاس ہے اور پھر بھائی کو لانے کی ترغیب دینے کے لئے فرمایا کہ کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں پورا ناپ کر دیتا ہوں اور میں بہترین میزبانی کرنے والوں میں سے بھی ہوں۔ پھر ان کو ڈرانے کے لئے یہ بھی کہا کہ اگر تم میرے پاس اسے لے کر نہ آئے تو میری طرف سے تمہیں کوئی غلّہ نہ ملے گا اور تم میرے قریب پھٹکنا بھی مت۔ بھائیوں نے کہا کہ ہم اپنے والد سے بات کریں گے اور ہر ممکن کوشش کریں گے۔ پھر حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے نوکروں کو حکم دیا کہ یہ لوگ غلّہ خریدنے کے لئے جو پونجی لائے ہیں وہ ان کی لاعلمی میں واپس ان کے سامان میں رکھ دی جائے۔ اس کی ایک وجہ یہ بیان کی گئی کہ جب وہ وطن پہنچے پر غلّے میں پونجی پائیں تو واپس کرنے ضرور آئیں گے اور آپ کو یہ بھی خطرہ تھا کہ شاید ان کے پاس دوبارہ غلّہ خریدنے کے لئے مزید رقم نہ ہو۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگلے سال جب وہ غلہ لینے آئیں گے تو بھائی بنیامین کو بھی ساتھ لائیں گے ۔ اس سلسلے میں جب وہ اجازت لینے کے لئے اپنے والد کے پاس پہنچے تو کہا کہ آپ بنیامین کو ہمارے ساتھ بھیج دیں ورنہ ہمارا غلّہ روک لیا جائے گا اور ہمیں کچھ نہ ملے گا اور جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو انہیں وہ سرمایہ بھی مل گیا، جو حضرت یوسف علیہ السلام نے واپس ان کے سامان میں رکھوا دیا تھا۔ اسے دیکھ کر وہ خوش ہوئے اور والد سے کہا کہ ہمیں اور کیا چاہئے سرمایہ بھی واپس مل گیا ہے اور اگر بنیامین ساتھ جائے گا تو ہم اور زیادہ اناج لا سکیں گے۔
جاری ہے۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں