والدین کے حقوق
خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)
امام و خطیب: ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
بشکریہ: دلیل ویب
فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 20 ذوالحجہ 1439 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "حقوق الوالدین" ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ حقوق ادا کرنے کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور ان کی ادائیگی کا فائدہ بھی انسان کو ہی ہوتا ہے اور اگر کوئی کسی کی حق تلفی کرے تو وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، اور مظلوم کو قیامت کے دن پورے حقوق مل جائیں گے، حقوق العباد میں عظیم ترین والدین کا حق ہے، والدین اپنی اولاد کے لیے جنت میں داخلے کا باعث ہوتے ہیں، آخر میں انہوں نے والدین کے ساتھ حسن سلوک اور بد سلوکی کے مظاہر ذکر کیے اور کہا کہ والدہ کا حق والد سے زیادہ ہے۔
منتخب اقتباس
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جس نے اپنے بندوں پر فضل کرتے ہوئے حقوق و واجبات کی تفصیلات سے انہیں آگاہ فرمایا، اور انکے لئے نیک اعمال پسندیدہ قرار دیتے ہوئے، گناہوں کو ناپسند قرار دیا، اور نیک لوگوں کے ساتھ بھلائی کا وعدہ فرمایا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، وہی دعائیں قبول کرنے والا ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ کی معجزوں کے ذریعے تائید کی گئی، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد ، ان کی اولاد اور جہاد و دلائل کے ذریعے دین کو غالب کرنے والے صحابہ کرام پر اپنی رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔
اللہ کے بندو!
ذہن نشین کر لو کہ بندوں کے اعمال کا نفع و نقصان انہی کو ہو گا، چنانچہ اطاعت گزاری اللہ کا کچھ سنوار نہیں سکتی اور نافرمانی اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی، فرمان باری تعالی ہے:
{مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ}
جو کوئی بھی نیک عمل کرے گا اپنے لیے کرے گا، اور جو گناہ کرے گا، اس کا [خمیازہ]اسی پر ہو گا، پھر تم سب اپنے رب کی طرف لوٹائے جاؤ گے [الجاثيۃ: 15]
ایک حدیث قدسی میں ہے کہ : (میرے بندو! تم میرا کچھ بگاڑنے کی حد تک نہیں پہنچ سکتے، اور نہ مجھے نفع پہنچا سکتے ہو، میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہی ہیں جنہیں میں تمہارے لیے محفوظ کرتا ہوں، پھر تمہیں پورا پورا [بدلہ] دونگا، چنانچہ جو شخص اچھائی پائے تو وہ اللہ کی حمد خوانی کرے، اور بصورتِ دیگر اپنے آپ کو ہی ملامت کرے) مسلم نے اسے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
واجب حقوق کی ادائیگی کا فائدہ آخر کار بندے کو ہی ہوگا، جسے انسان دنیا و آخرت میں ثواب کی صورت میں وصول کرے گا، جیسے کہ فرمان باری تعالی ہے:
{فَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِهِ وَإِنَّا لَهُ كَاتِبُونَ}
جو کوئی بھی ایمان کی حالت میں نیکیاں کمائے، تو اس کی جدوجہد کا انکار نہیں ہوگا، اور بیشک ہم اسکے [اعمال] لکھ رہے ہیں[الأنبياء : 94]
اسی طرح واجب حقوق میں کلی یا جزوی کمی کرنے کی سزا انہیں ضائع کرنے والے انسان پر ہی ہوگی؛ کیونکہ اس نے اللہ رب العالمین کے حقوق ضائع کر کے دنیا اور آخرت میں اپنا ہی نقصان کیا ہے، اللہ تعالی تو سب سے بے نیاز ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{إِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ وَلَا يَرْضَى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ}
اگر تم کفر کرو تو بلاشبہ اللہ تعالی تم سے بے نیاز ہے، وہ اپنے بندوں سے کفر پسند نہیں کرتا، اور اگر تم اس کا شکر کرو، تو یہ اس کے ہاں پسندیدہ ہے۔[الزمر : 7]
اور عقیدہ توحید اللہ تعالی کا واجب حق ہے اس کی ادائیگی ضروری ہے، اور اس کی حفاظت پر اللہ تعالی نے عظیم ثواب کا وعدہ بھی کیا ہے، فرمایا:
{وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ غَيْرَ بَعِيدٍ [ 31] هَذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ}
اور جنت کو پرہیز گاروں کے قریب کر دیا جائے گا وہ کچھ دور نہ ہوگی [ 31] یہ ہے جس کا تم [جنتیوں ]سے وعدہ کیا جاتا تھا، یہ ہر رجوع کرنے والے اور [حقوق الہی]کی حفاظت کرنے والے کیلیے ہے۔ [ق :31- 32]
اور جس شخص نے اللہ کے حقوق ضائع کرتے ہوئے شرک کیا ، غیر اللہ کو واسطہ بنا کر اس کی عبادت کی، ان سے فریاد رسی ، مشکل کشائی ، اور حاجت روائی کا مطالبہ کیا، اور انہی پر توکل رکھا تو وہ ناکام و نامراد ہونے کے ساتھ شرک کا مرتکب بھی ہوا، اس کی تمام جد وجہد غارت ہو گئی ، اللہ تعالی اس سے کوئی نفل یا فرض عبادت قبول نہیں کرے گا، اور اسے کہا جائے گا: جہنم میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی جہنم رسید ہو جاؤ، اِلّا کہ وہ شرک سے توبہ کر لے، ایک حدیث میں ہے کہ: (ایک جہنمی آدمی کو قیامت کے دن کہا جائے گا: اگر تمہارے پاس زمین کی ساری دولت آ جائے تو کیا آگ سے بچنے کے لیے اسے فدیہ میں دے دو گے؟ تو وہ کہے گا: ہاں، پھر اسے کہا جائے گا: "تمہیں اس سے بھی آسان کام کا حکم دیا گیا تھا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہرانا، [لیکن تم شرک سے بالکل باز نہ آئے]")بخاری
متنبہ رہنا کہ جس شخص کی دن میں پانچوں نمازیں صحیح سلامت ہوں تو اس کا دن سلامتی والا ہو گا، اور جس کا جمعہ صحیح گزرا تو اس کا پورا ہفتہ سلامتی والا ہو گا، اور جس شخص کا رمضان صحیح گزرا تو اس کا پورا سال سلامتی والا ہو گا۔ جو شخص اپنے مال کی زکوۃ ادا کرے تو اللہ تعالی اس کے مال کی حفاظت فرمائے گا اور اس میں برکت بھی ڈال دے گا، جس کا حج صحیح ہوا تو اس کی ساری زندگی سلامتی والی بن جائے گی، اور جو شخص عقیدہ توحید کے تحفظ میں کامیاب ہو گیا تو اللہ تعالی نے اس کے لیے جنت کی ضمانت دے رکھی ہے۔
اور مکلف بندہ مخلوق کے واجب حقوق ضائع کر کے اپنے آپ کو ہی دنیا و آخرت میں ثواب سے محروم کرتا ہے اور عذاب کا مستحق بنتا ہے، اور اگر حقوق العباد کی ادائیگی میں کمی ہوئی تو اسی کے مطابق ثواب میں بھی کمی ہو گی۔
اللہ تعالی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کے بعد والدین کے حقوق ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہیں اللہ نے اپنے حقوق کے ساتھ بیان کیا اور فرمایا:
{وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا[ 23] وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا}
اور آپ کے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو، والدین کیساتھ اچھا برتاؤ کرو، اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ ہی انہیں جھڑکو اور ان سے بات کرو تو ادب سے کرو [ 23] اور ان پر رحم کرتے ہوئے انکساری سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ: پروردگار! ان پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپنے میں مجھے [محبت و شفقت]سے پالا تھا۔ [الإسراء :23- 24]
اللہ تعالی نے والدین کے حق کو اتنا بڑا مقام اس لئے دیا ہے کہ اللہ تعالی نے تمہیں انہی کی وجہ سے وجود بخشا اور پیدا کیا، ماں نے دوران حمل بہت بڑی بڑی مشقتیں برداشت کیں، اور دوران زچگی زندگی و موت کی کشمکش بھی دیکھی، فرمان الہی ہے:
{وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا}
ہم نے انسان کو حکم دیا کہ وہ اپنے والدین سے اچھا سلوک کرے، اس کی ماں نے مشقت اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور مشقت اٹھا کر ہی جنم دیا۔[الأحقاف : 15]
ماں کا دودھ پلانا بھی اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، جبکہ والد اولاد کی تربیت، اور رزق کی تلاش میں تگ و دو کرتا ہے، والدین مل کر بیماری کا علاج کرتے ہیں، بچوں کی نیند کی خاطر خود جاگتے ہیں، بچوں کے آرام کے لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈالتے ہیں، انکی خوشحالی کے لیے خود تنگی برداشت کرتے ہیں، بچوں کے بول و براز کو برداشت کرتے ہیں تا کہ اولاد سُکھ میں رہے، وہ اسے سِکھاتے بھی ہیں تاکہ بچہ مکمل اور مہذب انسان بنے، انکی دلی خواہش ہوتی ہے کہ انکی اولاد ان سے بھی آگے بڑھے، اس لئے بچو! والدین کے بارے میں کثرت سے وصیت کے متعلق تعجب مت کرو، اور نہ ہی انکی نافرمانی کی وجہ سے کثرتِ وعید پر حیرانگی کوئی معنی رکھتی ہے۔
اولاد جتنی مرضی جد و جہد کر لے اپنے والد کے ساتھ نیکی کا حق ادا نہیں کر سکتی، صرف ایک صورت ہے جسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اولاد کسی صورت میں بھی اپنے والد کا حق ادا نہیں کر سکتی ، اِلّا کہ والد کسی کا غلام ہو تو اسے خرید کر آزاد کر دے۔) مسلم ، ابو داود، ترمذی
والدین جنت کا دروازہ ہیں، چنانچہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا جنت میں داخل ہو گا؛ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسکی ناک خاک آلود ہو، اسکی ناک خاک آلود ہو، اسکی ناک خاک آلود ہو) کہا گیا: اللہ کے رسول! کس کی؟! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص نے اپنے والدین کو یا کسی ایک کو بڑھاپے میں پایا اور جنت میں داخل نہ ہوا)مسلم
اے مسلمان!
اگر تمہارے والدین تم سے راضی ہیں تو اللہ بھی تم سے راضی ہے، جیسے کہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ کی رضا والد کی رضا مندی میں ہے، اور اللہ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے) یہ حدیث صحیح ہے، اسے ترمذی نے روایت کیا ہے، اور حاکم نے مستدرک میں اسے صحیح کہا ہے۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک یہ ہے کہ گناہ کے علاوہ ہر کام میں انکی فرمانبرداری کریں، ان کی وصیت اور حکم کی تعمیل کریں، انکے ساتھ نرم برتاؤ رکھیں، انہیں خوش رکھیں، ان پر خرچہ کرتے ہوئے فراخ دلی سے کام لیں، شفقت و رحمت کے ساتھ پیش آئیں، انکے دکھ کو اپنا دکھ جانیں، ان کے ساتھ مانوس ہو کر رہیں، انکے ساتھیوں اور دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں، انکے رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات بنائیں، اور ان سے ہر قسم کی تکلیف کو دور رکھیں، جن چیزوں سے وہ روک دیں ان سے رک جائیں، انکی لمبی زندگی کی چاہت رکھیں، انکی زندگی میں اور انکے چلے جانے کے بعد کثرت سے ان کے لیے استغفار کریں۔
جبکہ والدین کے ساتھ بد سلوکی گزشتہ تمام چیزوں سے کنارہ کشی کا نام ہے۔
معاشرے میں والدین کے ساتھ بد سلوکی کا بڑھ جانا قیامت کی نشانیوں میں سے ہے؛ حدیث ہے کہ : (قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ : بے وقت بارشیں ہونگی، اولاد نافرمان ہوگی، برے لوگ بڑھتے چلے جائیں گے، اور اچھے لوگ کم ہوتے جائیں گے)
والدین کے ساتھ سب سے بڑی بد سلوکی یہ ہے کہ دونوں کو یا ان میں سے کسی ایک کو اولاد کی خدمت سے نکال کر اولڈ ایج ہاؤس میں منتقل کر دیا جائے -اللہ کی پناہ- اس کام کا اسلامی یا انسانی اخلاقیات سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے!
اسی طرح والدین پر رعب جھاڑنا ، ان پر ہاتھ اٹھانا! انہیں زد و کوب کرنا ! گالی گلوچ کا نشانہ بنانا! اور انہیں انکے حقوق سے محروم کرنا بہت بڑی بد سلوکی ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جنت کی خوشبو پانچ سو سال کی مسافت سے سونگھی جاسکتی ہے، لیکن والدین سے بد سلوکی کرنے والا جنت کی خوشبو بھی نہیں پا سکے گا!)طبرانی
اللہ کے بندو!
والدین کے حقوق ادا کرنے میں جہاں عظیم اجر و ثواب اور برکت ہے، وہیں پر یہ ایسے لوگوں کی بلند صفات میں شامل ہے جن کا باطن پاک ہو ، مقام و مرتبہ بلند ہو، اور پاکیزہ اخلاق کے مالک ہوں۔
نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہوتا ہے، اور کسی کی نیکی یاد رکھنا، اور نیکی کا صلہ دینا نیکی کا حق ہے، حسن سلوک کا بدلہ حسن سلوک سے ہی دیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نیکی کا منکر وہی شخص ہوتا ہے، جو انتہائی بد اخلاق اور بے مروّت ہو، اور اس کے باطن میں بھی خباثت بھری ہو، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{ وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ}
اور ایک دوسرے کے احسانات کو مت بھولو ، اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو یقیناً اللہ اسے دیکھ رہا ہے ۔[البقرة : 237]
اور اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
{وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا}
میں اپنی والدہ کیساتھ بہتر سلوک کرنے والا ہوں، اللہ نے مجھے جابر اور بدبخت نہیں بنایا۔ [مريم : 32]
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا، اور کہا: اللہ کے رسول! لوگوں میں سے کون میرے حسن سلوک کا زیادہ حقدار ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہارا باپ، اسکے بعد جو بھی قریب ترین رشتہ دار ہو)بخاری و مسلم
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کے لیے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو ۔
اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، وسلم تسليما كثيراً۔
یا اللہ! ہمارے نفسوں کو متقی بنا دے، اور ان کا تزکیہ نفس فرما دے، توں ہی ان کا بہترین تزکیہ کرنے والا ہے، توں ہی ان کا ولی اور مولا ہے۔
یا اللہ! ہم بد اخلاقی، بد اعمالی، خواہش پرستی اور بری بیماریوں سے تیری پناہ مانگتے ہیں، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہم تجھ سے معافی، اور درگزر کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہم تجھ سے اپنے دین، دنیا ، اہل و عیال، اور مال دولت کے متعلق معافی، اور درگزر کا سوال کرتے ہیں۔
یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان ، شیطانی چیلوں ، لشکروں، اور شیطان کے ہمنواؤں سے محفوظ فرما، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے تمام مسلمانوں اور ان کی اولادوں کو شیطان مردود سے، شیطانی چیلوں ، لشکروں، اور شیطان کے ہمنواؤں سے محفوظ فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
آمین یا رب العالمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں