قرآن کہانی ۔۔۔۔ دو باغ دو کہانیاں (حصہ اول)


~!~ قرآن کہانی ~!~
دو باغ دو کہانیاں (حصہ اول)
تحریر: علی منیر فاروقی
بشکریہ: الف کتاب ویب

الحمدللہ رب العالمین و نحمدہ ونصلی علی روسولہ الکریم صلی اللہ علیہ وسلم والتابعین ومن تبعھم باحسان الی یوم الدین
 قصص القرآن کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہیں اس دعا کے ساتھ کہ اللہ عز وجل ہمیں قرآن کی سچی محبت اور اس کی فکر سے سچا عشق عطا فرمائے۔ یہ بات ہم بخوبی جانتے ہیں کہ قرآن میں موجود قصے اپنے اندر علم و حکمت کے موتی سموئے ہوتے ہیں اور ان کو بیان کرنے کا مقصد بھی محض قصہ گوئی نہیں بلکہ راہ ہدایت دکھلانا ہے ۔ چوں کہ یہ کوئی کہانی کی کتاب نہیں شاید اسی لیے ہمیں قرآن کے قصص میں کہانی کے اعتبار سے کچھ کمی نظر آتی ہے، سوائے حضرت یوسفؑ اور کسی حد تک حضرت سلمانؑ کے قصے کے ہمیں کوئی قصہ مع پورے سیاق و سباق ایک ساتھ نہیں ملتا ۔
اور آج ہم ایسے ہی دو بظاہرمختلف قصے سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ جن کا نہ تو محل وقوع واضح ہے اور نہ ہی ہمیں اہل علم سے ان کے کرداروں کے نام پر کوئی حتمی رائے ملتی ہے، اپنی آسانی کے لیے ہم انہیں باغ والے کہہ سکتے ہیں۔ یہ قصے قرآن میں سورۃ الکہف اور سورۃ القلم میں موجود ہیں اور واقعات و موضوع کے اعتبار سے یہ بھلے مختلف ہوں مگر یہ ایک نہایت سنگین حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں کہ جس کا سمجھنا آج کل کے پر فتن اور پر آشوب دور میں بے حد ضروری ہے۔

آئیے پہلے قصے کی جانب جو سورۃ القلم میں درج ہے، اس سورۃ میں اللہ عز وجل اس قصے کو بہ طور اہلِ مکہ کی آزمائش کے پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم نے سردارانِ مکہ کو آزمایا جیسے ان باغ والوں کو آزمایا تھا جو یہ قسم کھا بیٹھے تھے کہ ہم بالضرور صبح سارے پھل توڑ لیں گے۔ یہ باغ کچھ مفسرین کی رائے کے مطابق طائف میں تھا اور کچھ اسے بنی اسرائیل کے دور کا بتاتے ہیں مگر اہلِ علم کی اکثریت اس بات پر اجماع ہے کہ یہ باغ یمن میں موجود وادئ صنعا میں تھا اور اس واقعہ کا زمانہ حضرت عیسیٰ ؑ کے رفع آسمانی کے کچھ عرصہ بعد کا ہے۔

اس قصے کی تمہید میں اہل علم یہ بیان کرتے ہیں کہ ایک درویش صفت شخص تھا، جسے اللہ نے ایک پھل دار باغ سے نواز رکھا تھا ۔ یہ نیک آدمی اپنے مال میں مسکینوں کا حصہ رکھتا تھا اور اس کا حصہ کرنے کا انداز بھی نرالا تھا۔ جب اس کی فصل پک کر تیار ہو جاتی تو یہ درخت کے نیچے چادر بچھا دیتا تھا اور درانتی لے کر ایک خاص انداز سے کاٹنا شروع ہو جاتا تھا۔ کٹائی کے دوران جو پھل درانتی کی زد سے بچ جاتے یا جو چادر کے باہر گرتے وہ چھوڑ دیتا تھا۔ کٹائی والے دن غریبوں اور مسکینوں کو کھلی اجازت تھی کہ جو پھل بچ جائیں، وُہ انہیں کھا لیں۔ الغرض معاملہ یوں ہی چلتا رہا حتی کہ وہ درویش اپنے رب کے بلاوے پر لبیک کہہ کر اس دنیا سے کوچ کر گیا اور اس کا باغ ترکہ میں اس کے تین بیٹوں کے ہاتھ آیا۔

یہ تین بیٹے شاید اپنے آپ کو اس زمانے کا جدید کاروباری سمجھتے تھے اور ابا کی کاروباری حکمت عملی ان کی نظر میں دقیانوسی اور نفع کے اعتبار سے کمزور تھی۔ اس لیے والد کے انتقال کے بعد سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور اپنے آپ کو یقین دہانی کرانے لگ گئے کہ وہ زمانہ اور تھا یہ زمانہ اور ہے، تب فصل زیادہ تھی اور گھر کے افراد کم اور اب گھرانہ بڑھ گیا ہے اس لیے کاروبار کے منافع کو بڑھانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ان مسکینوں اور غریبوں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے، جو مفت میں ہماری فصل کا ایک حصہ ہڑپ کر جاتے ہیں۔ مگر علاقے میں والد ماجد کی دریا دلی اور سخاوت کا تذکرہ عام تھا۔ اب اگر یہ تینوں اپنے ابا کی عادت کے برخلاف غریبوں کو دھتکار دیں تو لوگ کیا کہیں گے ؟ اس کا ایک ہی حل تھا، اپنے ہی باغ میں اندھیرے میں جا کر کام کیا کریں، نہ لوگ دیکھیں گے اور نہ ہی مانگیں گے۔

یہاں سے قرآن اس واقعے کو بیان کرتا ہے کہ انہوں نے قسمیں کھا لیں کہ کل ہر حال میں اپنی فصل اتار لیں گے مگر ان شاء اللہ نہیں کہا ۔ رات میں اللہ نے ان کے باغ پر اپنا عذاب بھیج کر اسے تباہ کردیا اور وہ لہلہاتی فصلیں جن کے پھل اپنے جوبن پر تھے یک لخت خس و خاک ہو گئیں ۔ ادھر یہ اصحاب ایک دوسرے کو اُٹھانے لگے کہ اٹھو چلو اپنی فصل سمیٹو اور ہاں یاد رہے کہ آج کے دن کوئی غریب و مسکین ہمارے باغ میں داخل نہ ہونے پائے اس کے اوپر ستم یہ کہ وغدوا علی قاد قدِرِین اور وہ چل دیے اپنے باغ کی جانب اس حالت میں جیسے وہی قادر ہیں۔ یعنی اپنی تمام تر کاروباری حکمت عملی میں سے نہ صرف غریبوں کا حصہ کاٹ دیا بلکہ اللہ تعالی کے بجائے اپنے آپ کو قادر سمجھ بیٹھے کہ فصل تیار ہے، اوزار ہمارے پاس ہیں، غریبوں کا پتا ہم کاٹ چکے ہیں، اب ہمیں بھلا کون روک سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب انہیں اپنے باغ میں پہنچ کر ملتا ہے، جب انہیں اپنے دل کش باغ کی جگہ تباہ شدہ ٹوٹے درخت نظر آتے ہیں۔ پہلے پہل تو بے یقینی کی سی کیفیت ہوتی ہے،ایسا کیسے ہو سکتا ہے بھلا؟ ہم یقیناًرات کی تاریکی میں بھٹک گئے اور کہیں اور نکل آئے ہیں، ایک دوسرے کو گہنے لگے کہ جا ذرا دیکھ کر آ، کیا ہم صحیح راستے پر آئے ہیں؟ مگر 
کھنڈر بتا رہے ہیں عمارت حسین تھی 
کے مصداق ان میں سے ایک کو یقین ہو جاتا ہے کہ یہ انہیں کا باغ تھا۔ وہ ایک آہ بھر کر دوسروں سے کہتا ہے بل نحن محرومون کہ نہیں بلکہ ہماری قسمت ہی پھوٹ گئی ہے، ان میں جو سب سے بہتر آدمی تھا اس نے کہا کہ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم لوگ رب کی تسبیح کیوں نہیں کرتے۔ 

یہ بات واضح رہے کہ برے سے برے معاشرے میں بھی کوئی نہ کوئی ہوش مند ضرور ہوتا ہے سو ان میں بھی ایک تھا جو انہیں خدا خوفی کی تلقین کیا کرتا تھا مگر نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ۔ خدا کا عذاب اُترتا دیکھ کر ان پر برس پڑا کہ میں ہمیشہ تمھاری غفلت اور غلط روی پر ٹوکتا رہتا تھا اور ہمیشہ تمہیں توجہ دلاتا تھا کہ تم اللہ تعالی کی تسبیح کیوں نہیں کرتے۔ تسبیح ایک جامع کلمہ ہے جو اللہ تعالی کی یاد اور اس کی بندگی کے پورے مفہوم پر حاوی ہے۔ اس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میں تمہیں اللہ تعالی ہی کو یاد کرنے، اس کا شکر بجالانے اور اس کی فرماں برداری کی تلقین کیا کرتا تھا لیکن تم نے میری ایک نہ سنی، آج اس کا انجام دیکھ لیجئے۔ اب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اپنی گمراہی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا رب یقیناً ہر طرح کے ظلم سے پاک ہے، اس نے ہم پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ ہم ہی اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے تھے۔ اپنی خوشحالی کے نشے میں اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا بھول گئے اور عام طور پر مصیبت کے وقت ایسا ہوتا ہے کہ اپنی غلطیوں کے احساس اور اعتراف کے باوجود لوگ ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالنے لگتے ہیں، یہ بھی ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے۔ لیکن جلد ہی ہوش میں آئے اور کہنے لگے کہ ہم سب ہی سرکشی کے راستے پر جا پڑے تھے اور ہم نے کسی ناصح کی بات پر کان نہیں دھرا۔ اب کسی کو مطعون کرنے کی بہ جائے اپنی سرکشی کا انجام دیکھتے ہوئے توبہ کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس طرح ممکن ہے کہ اللہ تعالی ہم پر نظرِ کرم فرمائے اور جس نعمت سے اللہ تعالی نے ہمیں محروم کیا ہے ہمیں اس سے بہتر عطا فرمائے۔

اب ہم اگر اس واقعہ پر غور کریں تو یہ حقیقت ہمارے اوپر عیاں ہو گی کہ یہاں دو نفسانی خواہشات اور عادات کی سختی سے نفی کی جا رہی ہے۔ اول ، مال کی حد سے زیادہ محبت کہ جو انسان کو بخل کے دروازے پر لے جاتی ہے اور انسان اپنی پوری زندگی مال کے پیچھے بھاگتا رہے یہاں تک کہ سورۂ تکاثر کی وعید اس کے اوپر صادق آجائے
  اَلْہٰکُمُ التَّکَاثُرْO حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَO
کہ تمہیں مال کی محبت نے دھوکے میں ڈالے رکھا یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں ۔ 

اوپر جا کر انسان کو معلوم ہوگا کہ جو کچھ کہ دیکھا خواب تھا اور جو کچھ سُنا وہ فسانہ تھا اور یہ انسان جو یہاں ایک ایک پیسے کے لیے جھگڑتا ہے ،چند سکوں کی خاطر اپنوں سے بے گانہ ہو جاتا ہے اُوپر جا کر صدا لگائے گا ۔
ترجمہ
’’ اے کاش کہ موت میرا کام تمام کر چکی ہوتی آج میرا مال میرے کچھ بھی کام نہ آیا‘‘ 

اور جو دوسری بات اس واقعے میں پنہاں ہے اسے صحیح طرح سمجھنے کے لیے ہمیں دوسرا قصہ بھی پڑھنا پڑے گا کہ جو سورۃ الکہف میں درج ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں