⚔ شمشیرِ بے نیام ⚔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
( قسط نمبر-30)
زمین کی اگلی ہوئی تمام دولت حاکموں کے گھروں میں اور ایرانی فوج کے پاس چلی جاتی تھی۔ مسلمان مزارعوں کیلئے غربت اور ایرانیوں کی نفرت رہ جاتی تھی۔ مسلمان اپنی جوان بیٹیوں کو کو گھروں میں چھپا کر رکھتے تھے۔ کسی ایرانی فوجی کو کوئی مسلمان لڑکی اچھی لگتی تووہ کسی نہ کسی بہانے یا اس کے گھر والوں پر کوئی الزام عائد کرکے اسے اپنے ساتھ لے جاتا تھا۔ایرانی فوجی کسی بہانے کے بغیر بھی مسلمان لڑکیوں کو اپنے ساتھ زبردستی لے جاسکتے تھے لیکن غلامی اور مظلومیت کے باوجود مسلمانوں میں غیرت کاجذبہ موجود تھا۔ پہلے پہل زبردستی اغواء کی وارداتیں ہوئیں تو مسلمانوں نے دو تین فوجیوں کو قتل کردیا تھا۔ مسلمانوں کواس کی سزا تو بڑی ظالمانہ ملی تھی اورانہیں اپنی لڑکیوں کو بچانے کی قیمت بھی بہت دینی پڑی تھی لیکن زبردستی اغواء کا سلسلہ رک گیا تھا۔
آتش پرست ایرانی اپنے فوجیوں کو سانڈوں کی طرح پالتے تھے۔ہر سپاہی اس قسم کی زِرہ پہنتا تھاکہ سر پر آہنی زنجیروں کی خود اور بازوؤں پر دھات کے خول اس طرح چڑھے ہوئے تھے کہ بازوؤں کی حرکت میں رکاوٹ نہیں ہوتی تھی۔ان کی ٹانگوں کو بھی بڑے سخت چمڑے یا کسی دھات سے محفوظ کیا ہوتا تھا۔
اسلحہ اتنا کہ ہر سپاہی کے پاس ایک تلوار ایک برچھی اور ایک گُرز ہوتا تھا۔ گُرزپر ایرانی سپاہی خاص طور پر فخر کیا کرتے تھے ۔ ان ہتھیاروں کے علاوہ ہر سپاہی کے پاس ایک کمان اور ترکش میں تیس تیر ہوتے تھے انہیں عیش و عشرت کھانے پینے اور لوٹ مار کی کھلی اجازت تھی۔ وہ جرات اور عسکری مہارت میں قابلِ تعریف تھے۔ ان کی کمزوری صرف یہ تھی کہ وہ صرف آمنے سامنے کی لڑائی لڑ سکتے تھے اور لڑتے بھی بے جگری سے تھے لیکن اتنا اسلحہ اٹھا کر وہ پھرتی سے نقل و حرکت نہیں کر سکتے تھے۔ کسی دستے یا جَیش کو فوراً ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا پڑتا تو وہ مطلوبہ وقت میں نہیں پہنچ سکتے تھے۔ اتنے زیادہ ہتھیاروں کا بوجھ انہیں جلدی تھکا دیتا تھا البتہ ان کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ان کی سست رفتاری کی کمزوری کو چھپا لیتی تھی۔ دجلہ اور فرات کے سنگم کے علاقے کے جنوب میں اُبلہ ایک مقام تھا جو عراق اور عرب کی سرحد پر تھا۔اس زمانے میں ابلہ ایک شہر تھا۔ اس کے اردگرد کا علاقہ شاداب اور سرسبز تھا۔ وہاں بڑے خوبصورت جنگل اور ہری بھری پہاڑیاں تھیں۔ یا تاریخی اہمیت کا علاقہ تھا۔ آج بھی وہاں کھنڈرات بکھرے ہوئے ہیں جو بازبان ِخاموشی تاریخی کہانیاں سناتے ہیں۔ہر کہانی عبرت ناک ہے۔اس خطے میں ان قوموں کی تباہی اور بربادی کے آثار بھی موجود ہیں جنہوں نے عیش و عشرت کو زندگی کا مقصد بنا لیا تھا اور رعایا کو وہ انسانیت کا درجہ نہیں دیتے تھے ۔ خدا نے انہیں راہِ مستقیم دکھانے کیلئے پیغمبر بھیجے. اور ان لوگوں نے پیغمبروں کامذاق اڑایا اور کہا کہ تم تو ہم میں سے ہو اور دنیا میں تمہاری حیثیت اور تمہارا رتبہ بھی کوئی نہیں،پھر تم خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر کس طرح ہو سکتے ہو؟ آخر ﷲ نے انہیں ایسا تباہ و برباد کیا کہ ان کے محلّات اور ان کی بستیوں کو کھنڈر بنا دیا۔ ﷲ سبحان و تعالٰی نے ان کا تفصیلی ذکر قرآن میں کیا اور فرمایا۔ کیا تم نے زمین پر گھوم پھر کر نہیں دیکھا کہ جو اپنی بادشاہی پر اتراتے اور ﷲ کی سرکشی کرتے تھے اور جو اونچے پہاڑوں پر اپنی یادگاریں بناتے تھے کہ ان کے نام ہمیشہ زندہ رہیں،وہ اب کہاں ہیں؟ اب زمین کے نیچے سے ان کے محلات اور ان کی یادگاروں کے کھنڈرات نکل رہے ہیں۔ ان کے بعد بھی پر شکوہ شہنشاہ آئے اور ایک کے بعد ایک اپنے کھنڈرات چھوڑتا گیا ۔ بابل کے کھنڈربھی آج تک موجود ہیں۔ اس خطے میں اشوری آئے، ساسانی آئے،اور اب جب مدینہ میں حضرت ابوبکر صدیقؓ امیر المومنین تھے۔ دجلہ اور فرات کے اس حسین اور عبرت انگیز خطے میں ایرانیوں کا طوطی بول رہا تھا اور یہ آتش پرست قوم پہلی قوموں کی طرح یہی سمجھتی رہی کہ اسے تو زوال آہی نہیں سکتا۔وہ محکوموں کے خدا بنے ہوئے تھے۔
’’بنتِ سعود!‘‘ ایک نوجوان مسلمان لڑکی اپنی سہیلی سے پوچھ رہی تھی۔’’خداّم نہیں آیا؟‘‘زہرہ بنتِ سعود کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے آہ بھر کر منہ پھیر لیا۔’’تم کہتی تھیں کہ وہ تمہیں دھوکا نہیں دے گا۔‘‘سہیلی نے زہرہ سے کہا۔’’خدا نہ کرے، وہ اس بدبخت ایرانی کے ہاتھ چڑھ گیاہو۔‘‘ ’’خدا نہ کرے۔‘‘ زہرہ بنتِ سعود نے کہا۔’’وہ آئے گا……چار دن گزر گئے ہیں……میں اس ایرانی کے ساتھ نہیں جاؤں گی۔ موت قبول کرلوں گی اسے قبول نہیں کروں گی۔ خدام مجھے دھوکا نہیں دے گا۔‘‘’’زہرہ! ‘‘سہیلی نے اسے کہا۔’’کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ تم اس ایرانی کماندار کو قبول کرلو؟ تمہارے خاندان کیلئے بھی یہی بہتر ہو گا۔ یہی ہے نہ کہ تمہیں اپنا عقیدہ بدلنا پڑے گا۔ ساری عمر عیش تو کرو گی ناں!‘‘’’میں نے جس ﷲ کو دیکھ لیا ہے اسی کی عبادت کروں گی۔‘‘زہرہ نے کہا۔ ’’آگ خدا نے پیدا کی ہے ،آگ خدا نہیں ہو سکتی۔ میں خداکی موجودگی میں کسی اورکی پرستش کیوں کروں؟‘‘ ’’سوچ لو زہرہ!‘‘ سہیلی نے کہا۔’’تم اسے قبول نہیں کرو گی تو وہ زبردستی تمہیں اپنے ساتھ لے جا سکتا ہے۔ اسے کون روک سکتا ہے؟ وہ شاہی فوج کا کماندار ہے۔ وہ تمہارے خاندان کے بچے بچے کو قید خانے میں بند کرا سکتا ہے۔ ہوں تو میں بھی مسلمان کی بیٹی۔ میں ﷲ کی عبادت کرتی اور ﷲ کی ہی قسم کھاتی ہوں۔ لیکن ﷲ نے ہماری کیا مدد کی ہے؟ کیا تمہیں یقین ہے کہ ﷲ تمہاری مدد کرے گا؟‘‘ ’’ اگر ﷲ نے میری مدد نہ کی تو میں اپنی جان لے لوں گی۔‘‘زہرہ نے کہا۔’’اور ﷲ سے کہوں گی کہ یہ لے۔ اگر میرے وجود میں جان تو نے ڈالی تھی تو واپس لے لے۔‘‘اور اس کے آنسو بہنے لگے۔زہرہ اپنے جیسے ایک خوبصورت جوان خدام بن اسد کو چاہتی تھی اور خدام اس پر جان نثار کرتا تھا۔ ان کی شادی ہو سکتی تھی لیکن شِمر ایرانی فوج کا ایک کماندار تھا جس کی نظر زہرہ بنتِ سعود پر پڑ گئی تھی۔ اس نے اس لڑکی کے باپ سے کہا تھا کہ وہ اس کی بیٹی کو بڑی آسانی سے گھر سے لے جاسکتا ہے لیکن ایسا نہیں کرے گا۔’’میں تمہاری بیٹی کو مالِ غنیمت سمجھ کر نہیں لے جاؤں گا۔‘‘شمر نے کہا تھا ۔’’اسے دوگھوڑوں والی اس بگھی پر لے جاؤں گا جس پر دولہے اپنی دلہنوں کو لے جایا کرتے ہیں۔ تم لوگوں کو فخر سے بتایا کرو گے کہ تمہاری بیوی ایک ایرانی کماندار کی بیوی ہے۔‘‘ ’’لیکن ایرانی کماندار! ‘‘ زہرہ کے باپ نے کہا تھا۔’’تمہارا احترام ہم پر لازم ہے۔اگر لڑکی تمہاری دلہن بننا چاہے گی تو ہم اسے نہیں روکیں گے۔‘‘ ’’ تم غلیظ عربی! ‘‘ایرانی کماندار نے اس نفرت سے جس سے وہ ہر مسلمان سے بات کیا کرتا تھا ،کہا۔’’ تو بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینے والی قوم میں سے ہے اور کہتا ہے کہ اپنی شادی کا فیصلہ تیری بیٹی خود کرے گی۔ زرتشت کی قسم! اگر تیری بیٹی نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں نہ دیا تو تجھے اور تیری بیٹی کو ان کوٹھڑیوں میں بند کروں گا جن میں کوڑھی بند ہیں……بہت تھوڑی مہلت دوں گا بوڑھے۔‘‘
اس کے ساتھ اس کے تین گھوڑ سوار سپاہی تھے ۔انہوں نے بڑی زور کا قہقہہ لگایا تھا۔’’ مدینہ بہت دور ہے بدبخت بوڑھے!‘‘ ایک سپاہی نے اسے دھکا دے کر کہا تھا۔’’تیرا امیر المومنین تیری مدد کو نہیں آئے گا۔‘‘زہرہ کے باپ کو اور اس کے بھائیوں کو معلوم تھا کہ وہ ایران کے ایک سپاہی کی بھی حکم عدولی نہیں کر سکتے۔ یہ تو کماندار تھا۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ شِمر ان کی بیٹی کو اٹھوا بھی سکتا ہے اور وہ کچھ نہیں کر سکتے لیکن اس خطے کے مسلمانوں کے دلوں میں آگ کے پجاریوں کی جو نفرت تھی وہ انہیں مجبور کر رہی تھی کہ وہ ان کے غلام ہوتے ہوئے بھی ان کی غلامی قبول نہ کریں،اور اس کا انجام کتنا ہی بھیانک کیوں نہ ہو ،اسے برداشت کریں ۔انہیں اپنے ﷲ پر بھروسہ تھا۔ زہرہ اور خدام کو ملنے سے کوئی روک نہیں سکتا تھا۔ وہ پھلوں کے باغات میں کام کرتے تھے۔ جس روز شِمر زہرہ کے گھر آیا تھا اس کے اگلے روز زہرہ خدام سے ملی اور خوفزدہ لہجے میں خدام کو بتایا کہ ایرانی کماندار کیا دھمکی دے گیا ہے۔’’ہم یہاں سے بھاگ نہ چلیں؟‘‘زہرہ نے پوچھا۔ ’’نہیں۔‘‘ خدام نے جواب دیا۔’’اگر ہم بھاگ گئے تو یہ بد بخت تمہارے اور میرے خاندان کے بچے بچے کو قتل کردیں گے۔‘‘’’پھر کیا ہو گا؟‘‘زہرہ نے پوچھا۔’’جو ﷲ کو منظور ہو گا۔‘‘خدام نے کہا۔’’ﷲ……ﷲ……‘‘زہرہ نے جھنجھلاتے ہوئے لہجے میں کہا۔’’جو ﷲ ہماری مدد نہیں کر سکتا……‘‘’’زہرہ!‘‘ خدام نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔’’ﷲ اپنے بندوں کو امتحان میں ڈالا کرتا ہے۔ بندے ﷲ کا امتحان نہیں لے سکتے۔‘‘خدام گہری سوچ میں کھو گیا۔’’یہ تو ہو نہیں سکتا کہ تم اس آتش پرست شِمر کا مقابلہ کرو گے۔‘‘زہرہ نے کہا۔ خدام گہری سوچ میں کھویا رہا۔’’سوچتے کیا ہو؟‘‘زہرہ نے کہا۔’’تم اس شخص کو قتل تو نہیں کر سکتے۔ ہمارے سامنے ایک ہی راستہ ہے۔‘‘’’ﷲ نجات کا راستہ بھی دِکھا دے گا۔‘‘ خدام نے کہا۔’’تمہیں ایک اور راستہ میں بھی دکھا سکتی ہوں۔‘‘زہرہ نے کہا۔’’مجھے اپنی تلوار سے قتل کر دو اور تم زندہ رہو۔‘‘’’تھوڑی سی قربانی دو۔‘‘خدام نے کہا۔’’میں اس نفرت کا اندازہ کر سکتا ہوں جو شِمر کے خلاف تمہارے دل میں بھری ہوئی ہے۔لیکن اس پر یہ ظاہر کرو کہ تم اسے پسند کرتی ہو اسے دھوکے میں رکھو ،میں کچھ دنوں کیلئے غائب ہوجاؤں گا۔‘‘’’کہاں جاؤ گے؟‘‘زہرہ نے پوچھا۔’’کیا کرنے جاؤ گے؟‘‘ ’’مجھ سے ہر بات نہ پوچھو زہرہ!‘‘خدام نے کہا۔’’میں خدائی مدد حاصل کرنے جا رہا ہوں۔‘‘’’ﷲ کی قسم خدام!‘‘ زہرہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔’’اگر تم نے مجھے دھوکا دیا تو میری روح تمہیں چین سے نہیں جینے دے گی ۔ میں ایک دن کیلئے بھی اس کافر کی بیوی بن کے نہیں رہ سکوں گی۔ اس کی بیوی بننے کا مطلب یہ ہے کہ مجھ سے تم ہی نہیں میرا مذہب بھی چھن جائے گا۔‘‘ ’’اگر تم مذہب کی اتنی پکی ہو تو ﷲ ہماری مدد کو آئے گا۔‘‘خدام نے کہا۔’’خدام!‘‘زہرہ نے مایوسی کے لہجے میں کہا۔’’میں مذہب کی تو پکی ہوں لیکن ﷲ پر میرا عقیدہ متزلزل ہوتا جا رہا ہے۔
خدام کچھ اور کہنے ہی لگا تھا کہ باغ میں کام کرتے ہوئےلوگوں میں ہڑبونگ سی مچ گئی۔ تین چار آدمیوں نے خدام کو پکارا۔زہرہ اٹھی اور وہیں سے پودوں میں غائب ہو گئی۔ خدام نے اٹھ کر دیکھا۔ کچھ دور پرے ایرانی کماندار شِمر اپنے گھوڑے پر سوار آ رہا تھا۔ اس نے دور ہی سے کہا تھا کہ خدام کو اس کے پاس بھیجا جائے ۔ خدام آہستہ آہستہ چلتا شمر کی طرف گیا۔’’تیز چلو!‘‘شمر نے گھوڑا روک کر دور سے کہا۔ خدام نے اپنی چال نہ بدلی۔ شمر نے ایک بار پھر گرج کر اسے تیز چلنے کو کہا۔خدا م اپنی ہی رفتار سے چلتا رہا۔ شمر گھوڑے سے کود کر اترا اور کولہوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو گیا۔ باغ میں کام کرنے والے مسلمان دم بخود دیکھتے رہے۔ انہیں معلوم تھا کہ شمر خدام کی ہڈی پسلی ایک کردے گا۔ لیکن خدام جب اس کے سامنے جا رکا تو شمر نے ہاتھ بھی نہ اٹھایا۔’’دیکھ کمینے انسان!‘‘ شمر نے خدام سے حقارت آمیز لہجے میں کہا۔’’ میں تمہارے باپ اور تمہاری جوانی پر رحم کرتا ہوں۔ آج کے بعد میں تمہیں اس لڑکی کے ساتھ نہ دیکھوں۔‘‘ ’’اگر تم نے مجھے اس لڑکی کے ساتھ دیکھ لیا تو پھر کیا ہو گا؟‘‘خدام نے پوچھا۔’’پھر میں تمہارے منہ پر ایک دو تھپڑ نہیں ماروں گا۔‘‘شمر نے کہا۔’’تمہیں درخت کے ساتھ الٹا لٹکا دوں گا ۔ جاؤ میری نظروں سے دور ہو جاؤ۔‘‘شمر گھوڑے پر سوار ہوا اور چلا گیا۔خدام وہیں کھڑا اسے دیکھتا رہا۔’’خدام!‘‘ اسے کسی نے بلایا اور کہا۔’’ادھر آ جاؤ۔‘‘پھر اسے تین چار آدمیوں کی آوازیں سنائی دیں۔’’آجاؤ خدام ……آجاؤ۔‘‘ وہ پیچھے مڑا اور لوگوں کے پاس جا رکا۔ سب اس سے پوچھنے لگے کہ شمر نے کیا کہا تھا۔ خدام نے انہیں بتایا۔سب جانتے تھے کہ خدام کا جرم کیا ہے۔ اگر یہ مسلمان آزاد ہوتے ان کی اپنی حکومت ہوتی اور یہ معاشرہ ان کا اپنا ہوتا تو وہ خدام کو برا بھلا کہتے کہ وہ کسی کی نوجوان بیٹی کو اپنے پاس بٹھائے ہوئے تھا۔ لیکن وہاں صورت مختلف تھی۔ انہیں یہ بھی معلوم تھاکہ خدام برے چال چلن کا نوجوان نہیں۔ اس مظلومیت میں بھی مسلمان متحد تھے۔لیکن باغ میں کام کرنے والوں میں سے ایک نے کہا کہ یہ آتش پرست ادھر کیا لینے آیا تھا۔’’اسے ادھر لایا گیا تھا۔‘‘ایک نے کہا۔’’اور لانے والا ہم میں سے کوئی ایک ہی تھا۔‘‘ ’’معلوم کرو وہ کون ہو سکتا ہے۔‘‘اک بوڑھے نے کہا۔’’یہاں سوال ایک لڑکے اور لڑکی کا نہیں۔ یہ ظالم اور مظلوم کا معاملہ ہے۔یہ ہماری آزادی اور خودداری کامعاملہ ہے۔ آج اگر اس شخص نے اس ذرا سی بات پر مخبری کی ہے تو کل وہ بہت بڑی غداری کر سکتا ہے۔‘‘سب پر خاموشی طاری ہو گئی ۔ ایک ادھیڑ عمر عورت نے جو ان آدمیوں کے پیچھے کھڑی تھی بول پڑی۔’’میں بتاتی ہوں وہ کون ہے؟‘‘اس عورت نے کہااور ان آدمیوں میں بیٹھے ہوئے ایک آدمی کی طرف دیکھنے لگی۔عورت نے ہاتھ لمبا کرکے انگلی سے اس کی طرف اشارہ کیا اور پوچھا۔’’ابو نصر! تم وہاں اس ٹیکری کے پیچھے کھڑے کیا کر رہے تھے؟‘‘
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں