⚔ شمشیرِ بے نیام ⚔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
( قسط نمبر-25)
مالک بن نویرہ کہیں بھی نہ رکا۔وہ سیدھا اپنے گھر کے دروازے پر آیااور گھوڑے سے کود کر اندر چلا گیا۔اسے لیلیٰ صحن میں کھڑی ملی۔ اس کے دلکش چہرے پہ اداسی تھی اور اس کی وہ آنکھیں بجھی بجھی سی تھیں جن پر قبیلے کے جوان جانیں قربان کرنے کو تیار رہتے تھے۔ ’’میں نے تیرا حکم مانا ہے لیلیٰ! ‘‘’ ’لڑائی ختم کردی ہے۔ ہم ایک دوسرے کے قیدی واپس کردیں گے۔ میں نے سجاع سے تعلق توڑ لیا ہے۔ اس پھول سے چہرے سے اداسی دھو ڈالو۔‘‘ لیلیٰ اُداس بیٹھی رہی۔ مالک نے اسے بہلانے کی بہت کوشش کی لیکن لیلیٰ کا چہرہ بجھا ہی رہا۔ ’’میرے دل پر ایک خوف بیٹھ گیا ہے۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔ ’’کیسا خوف؟ ‘‘مالک نے پوچھا۔ ’’کس کا خوف؟‘‘ ’’سزا کا۔‘‘ لیلیٰ نے کہا۔ ’’انتقام کا۔‘‘ سجاع اکیلی رہ گئی۔ وکیع بن مالک نے بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ مالک بن نویرہ نے وکیع سے کہا تھا کہ وہ ایک عورت کے جھانسے میں آکر اپنے قبیلے پر ٹوٹ پڑے تھے۔ سجاع اپنے لشکر کو ساتھ لیے نباج کی طرف چلی گئی۔ پہلے سنایا جا چکا ہے کہ وہ یمامہ پر حملہ کرنے گئی تھی لیکن مسیلمہ کے جال میں آگئی اور مسیلمہ نے اسے اپنی بیوی بنالیا۔ مالک بن نویرہ کے گناہوں کی سزا شروع ہو چکی تھی۔ وکیع بن مالک جو اس کا دستِ راست تھا اس کا ساتھ چھوڑ گیا اور مسلمانوں سے جا ملا۔ مالک بن نویرہ نے اسے روکا تھا۔ ’’اگر ہم دونوں الگ ہو گئے تو مسلمان ہمیں کچل کہ رکھ دیں گے۔‘‘ مالک نے وکیع سے کہا تھا۔ ’’ہم دونوں مل کر ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔‘‘ ’’ہمیں زندہ رہنا ہے مالک!‘‘ وکیع نے کہا تھا۔ ’’مدینہ کی فوج کا مقابلہ کس نے کیا ہے؟ غطفان ہار گئے، طئی ہار گئے، بنو سلیم، بنو اسد، ہوازن۔ کوئی بھی مسلمانوں کے آگے ٹھہر نہ سکا۔ پھر سب اکھٹے ہوئے اور ام زمل سلمیٰ کو بھی ساتھ ملا لیا۔‘‘ ’’کیا تم نہیں جانتے مالک! الولید کے بیٹے خالد نے انہیں کس طرح بھگا دیاہے؟ سلمیٰ قتل کر دی گئی ہے. مسلمان ہمیں مسلمانوں کا خون معاف نہیں کریں گے۔ تمام قبیلوں کو شکست دینے والا خالد واپس مدینہ نہیں چلا گیا ۔ وہ بزاخہ میں ہے ۔ دوسری طرف مسلمانوں کامانا ہوا سپہ سالار اسامہ ہے۔ ان دونوں میں سے کوئی بھی کسی بھی وقت یہاں کا رخ کر سکتا ہے ۔ ان سے خون معاف کرانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ میں ان کی اطاعت قبول کرکے انہیں اپنے قبیلے کی زکوٰۃ اور محصول ادا کرتا رہوں۔‘‘ مالک بن نویرہ کوئی فیصلہ نہیں کر سکا۔ خالد ؓبن ولید تک اطلاع پہنچ چکی تھی کہ مالک بن نویرہ کو رسول ﷲﷺ نے امیر مقررکیا تھا مگر اس نے زکوٰۃ وغیرہ وصول کرکے مدینہ نہ بھیجی اور لوگوں کو واپس کر دی ہے۔ جاسوسوں نے خالدؓ کو مالک کا ایک شعر بھی سنایا ۔اس میں اس نے رسولِ کریمﷺ کے وصال کے بعد اپنے قبیلے سے کہا تھا کہ:’’ اپنے مال کو اپنے پاس رکھو اور مت ڈرو کہ نہ جانے کیا ہو جائے۔ اگر اسلامی حکومت کی طرف سے ہم پر کوئی مصیبت آئے گی تو ہم کہیں گے کہ ہم نے محمد ﷺ کے دین کو قبول کیا تھا ،ابو بکر کے دین کو نہیں۔‘‘مالک بن نویرہ نے سجاع کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا جو قتلِ عام کیا تھا ،اس کی بھی اطلاع خالدؓ کو مل گئی تھی۔ خالدؓ نے اپنے دستوں کو بطاح کی طرف تیز کوچ کا حکم دیا ۔ ان کے دستوں میں انصارِ مدینہ بھی تھے۔ انہوں نے بطاح کی طرف پیش قدمی کی مخالفت کی۔ ’’خدا کی قسم!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’میں اپنی سپاہ میں پہلے آدمی دیکھ رہا ہوں جو اپنے امیر اور سالار کی حکم عدولی کر رہے ہیں۔‘‘ ’’اسے حکم عدولی سمجھیں یا جو کچھ بھی سمجھیں۔ ‘‘ انصار کی نمائندگی کرنے والے نے کہا۔’’خلیفۃ المسلمین کا حکم یہ تھا کہ طلیحہ کو مطیع کر کے اس علاقے میں رسول ﷲﷺ کی قائم کی ہوئی عملداری کو بحال کریں اور جو جنگ پہ اتر آئے اس سے جنگ کریں اور بزاخہ میں اگلے حکم کا انتظار کریں۔ ہم جانتے ہیں کہ مدینہ سے ایسا کوئی حکم نہیں آیا کہ ہم بطاح پر حملہ کیلئے جائیں۔‘‘ ’’کیا تم میں کوئی ہے جسے یہ معلوم نہ ہو کہ میں تمہارا امیر اور سپہ سالار ہوں؟‘‘خالد ؓبن ولید نے پوچھا اور سب کی طرف دیکھنے لگے۔انہیں کوئی جواب نہ ملا تو انہوں نے کہا۔’’میں نہیں جانتا کہ خلیفۃ المسلمین کے ساتھ تم کیا معاہدہ کرکے آئے ہو۔ میں یہ جانتا ہوں کہ خلیفہ نے مجھے یہ حکم دیا تھا کہ جہاں بھی اسلام سے انحراف کی خبر ملے اور جہاں بھی مدینہ کے ساتھ کیے ہوئے معاہدوں کی خلاف ورزی نظر آئے ، وہاں تک جاؤ اور اسلام کا تحفظ کرو۔ میں سپہ سالار ہوں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کیلئے اگر مجھے کوئی ایسی کارروائی کرنی پڑے گی جو خلیفہ کے احکام میں شامل نہیں ہو گی تو میں وہ کارروائی ضرور کروں گا……خلافت کے احکام میرے پاس آتے ہیں ،تمہارے پاس نہیں۔‘‘ ’’ہم نے کوئی قاصد آتا نہیں دیکھا۔‘‘ انصار میں سے کسی نے کہا۔’’میں اس کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا۔‘‘ خالد ؓ نے جھنجھلا کر کہا۔’’اور میں کسی ایسے آدمی کو اپنی سپاہ میں نہیں دیکھنا چاہتا جس کے دل میں ذرا سا بھی شک و شبہ ہو۔ مجھے ﷲ کی خوشنودی چاہیے۔ اگر تمہیں اپنی ذات کی خوشنودی چاہیے تو جاؤ ۔اپنے آپ کو خوش کرو۔ میرے لیے مہاجرین کافی ہیں اور میرے ساتھ جو نو مسلم ہیں ،میں انہیں بھی کافی سمجھتا ہوں۔‘‘
مشہور مؤرخ طبری نے لکھا ہے کہ ابوبکرؓ نے اپنے احکام میں یہ شامل کیا تھا کہ بنو اسد کے سردار طلیحہ کی سرکوبی کے بعد خالد ؓکے دستے بطاح تک جائیں گے جہاں کے امیر مالک بن نویرہ نے زکوٰ ۃ اور محصولات کی ادائیگی نہیں کی اور وہ اسلام سے منحرف ہو کر اسلام کا دشمن بن گیا ہے۔طبری اور دیگر مؤرخوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ انصار بزاخہ میں رہ گئے اور خالدؓ اپنے مجاہدین کو ان کے بغیر بطاح لے گئے۔جب یہ لشکر بزاخہ سے چلا تو انصار نے باہم صلاح مشورہ کیا۔ وہ محسوس کرنے لگے تھے کہ اتنی دور سے اکھٹے آئے تھے۔ اکھٹے لڑائیاں لڑیں اور اب ہم میں پھوٹ پڑ گئی ہے ۔’’اور اس لئے بھی ہمیں پیچھے نہیں رہنا چاہیے تھا ۔‘‘ انصار میں سے ایک نے کہا۔ ’’کہ مہاجرین اور نو مسلموں نے فتح حاصل کرلی تو اس میں ہمارا نام نہیں ہوگا۔ ہمیں مدینہ جا کر شرمساری ہو گی۔‘‘ ’’اور اس لئے بھی۔‘‘ایک اور نے کہا۔’’کہ خالد بن ولید کو اگر کہیں شکست ہوئی تو مدینہ میں لوگ ہم پر لعنت بھیجیں گے کہ ہم نے مدینہ سے اتنی دور محاذ پر جا کر خالد کو اور اپنے ساتھیوں کو دھوکا دیا ۔ہم ملعون کہلائیں گے۔‘‘ خالدؓ کے دستے بزاخہ سے دور نکل گئے۔ایک تیز رفتار گھڑسوار پیچھے سے آن ملا اور خالدؓ کے پاس جا گھوڑا روکا۔’’کیا تم انصار میں سے نہیں ہو جو پیچھے رہ گئے ہیں ؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’ہاں امیر لشکر!‘‘ سوار نے کہا۔’’میں اُنہی میں سے ہوں۔ انہوں نے بھیجا ہے کہ میں آپ سے کہوں کہ ان کا انتظار کریں ۔ وہ آ رہے ہیں۔‘‘خالدؓ بن ولید نے اپنے دستوں کو روک لیا۔ کچھ دیر بعد تمام انصار آ گئے اور دستے بطاح کی طرف روانہ ہو گئے۔’’لیلیٰ !‘‘بطاح میں مالک بن نویرہ اپنی بیوی سے کہہ رہا تھا۔’’تو نے مجھے محبت دی ہے ۔تیری ذات نے میرے شعروں میں نئی روح ڈالی ہے۔ اب مجھے حوصلہ دو لیلیٰ! میرے دل میں خوف نے آشیانہ بنا لیا ہے۔‘‘ ’’میں نے تجھے پہلے دن کہا تھا غرور اور تکبر چھوڑ دے مالک!‘‘ لیلیٰ نے کہا۔’’لیکن تم اتنی دور نکل گئے کہ انسانوں کو چیونٹیاں سمجھ کر مسل ڈالا۔‘‘ ’’مت یاد دلا مجھے میرے گناہ لیلیٰ!‘‘ مالک بن نویرہ نے کہا۔’’گناہوں نے میری بہادری کو ڈس لیا ہے۔‘‘’’آج کیا بات ہو گئی ہے کہ تم پر اتنا خوف طاری ہو گیا ہے؟‘‘’’بات پوچھتی ہو لیلیٰ؟‘‘مالک بن نویرہ نے کہا۔’’یہ موت کی بات ہے۔میرا دل گواہی دے رہا ہے کہ میرا تیرا ساتھ ختم ہو رہا ہے…… میں نے اپنے جاسوس بڑی دور دورتک بھیج رکھے ہیں ۔آج ایک جاسوس آیا ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کا لشکر بڑی تیزی سے ادھر آ رہا ہے۔اگر لشکر کی یہی رفتار رہی تو پرسوں شام تک یہاں پہنچ جائے گا۔‘‘ ’’پھر تیاری کرو۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’قبیلوں کو اکھٹا کرو۔‘‘ ’’کوئی میرا ساتھ نہیں دے گا۔‘‘مالک نے ڈرے ہوئے لہجے میں کہا۔’’میں نے وکیع اور سجاع کے ساتھ مل کر اپنے قبیلوں کا جو خون بہایا ہے وہ کوئی نہیں بخشے گا۔ ان سے مصالحت تو کرلی تھی لیکن دل پھٹے ہوئے ہیں ۔ میرے قبیلے کی مدد کو کوئی نہیں آئے گا۔‘‘ ’’پھر آگے بڑھو اور مسلمانوں کے سپہ سالار سے کہو کہ تم نے اسلام ترک نہیں کیا۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’شاید وہ تمہیں بخش دیں۔‘‘’’نہیں بخشیں گے۔‘‘مالک نے کہا۔’’نہیں بخشیں گے۔انہوں نے کسی کو نہیں بخشا۔‘‘
مالک بن نویرہ پر خوف طاری ہوتا چلا گیا۔ اسے خبریں مل رہی تھیں کہ خالدؓ کا لشکر قریب آ رہا ہے ۔اس نے اپنے قبیلے کو اکھٹا کیا۔’’اے بنو یربوع!‘‘اس نے قبیلے سے کہا۔’’ہم سے غلطی ہوئی کہ ہم نے مدینہ کی حکمرانی کو تسلیم کیا اور ان سے منحرف ہو گئے۔انہوں نے ہمیں اپنا مذہب دیا جو ہم نے قبو ل کیا پھر نا فرمان ہو گئے۔ وہ آ رہے ہیں۔سب اپنے گھروں کو چلے جاؤ۔ اور دروازے بند کرلو۔ یہ نشانی ہے کہ تم ان کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھاؤ گے۔ ان کے بلانے پر ان کے سامنے نہتے جاؤ۔ کچھ فائدہ نہ ہوگا مقابلے میں……جاؤ،اپنے گھروں کو چلے جاؤ۔‘‘لوگ سر جھکائے ہوئے اپنے گھروں کو چلے گئے۔نومبر ۶۳۲ء (شعبان ۱۱ہجری) کے پہلے ہفتے میں خالدؓ بطاح پہنچ گئے۔ تفصیل سے پڑھئے
انہوں نے اپنے لشکر کو محاصرے کی ترتیب میں کیا۔ مگر ایسے لگتا تھا جیسے بطاح اجڑ گیا ہو۔ شہر کا دفاع کرنے والے تو نظر ہی نہیں آتے تھے۔کوئی دوسرا بھی دکھائی نہ دیا۔کسی مکان کی چھت پر ایک بھی سر نظر نہیں آتا تھا۔’’کیا مالک بن نویرہ اپنے آپ کو اتنا چالاک سمجھتا ہے کہ مجھے گھیرے میں لے لے گا؟‘‘خالدؓ نے اپنے نائب سالاروں سے کہا۔’’محاصرے کی ترتیب بدل دو اور اپنے عقب کا خیال رکھو۔میں اس بستی کو آگ لگادوں گا۔وہ یہاں سے نکل گئے ہیں ۔عقب سے حملہ کریں گے۔‘‘خالدؓ بن ولید زندہ دل، بے خوف اور مہم جو تھے۔ان کے احکام بہت سخت ہوا کرتے تھے۔انہوں نے اپنے دستوں کو اس ترتیب میں کر دیاکہ عقب سے حملہ ہو تو روک لیں اور اگر اس کے ساتھ ہی شہر سے بھی حملہ ہو جائے تو دونوں طرف لڑا جائے۔مسلمانوں کو اس دشواری کا سامنا تھا کہ ان کی نفری تھوڑی تھی اور وہ اپنے مستقر (مدینہ) سے بہت دور تھے۔انہوں نے جن قبیلوں کو مطیع کیا تھا ،ان کی بستیوں کو اڈے بنا لیا تھا لیکن ابھی وہاں کے لوگوں پر پوری طرح سے بھروسہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔یہ خالدؓ کی پرجوش اور ماہرانہ قیادت تھی جو مجاہدین کی قلیل تعداد میں بجلیوں جیسا قہر پیدا کئے رکھتی تھی۔خالدؓ نے بستی میں ایک دستہ داخل کیا تو اس پر ایک بھی تیر نہ آیا۔ہر مکان کا دروازہ بند تھا۔خالدؓ نے یہ خاموشی دیکھی تو وہ خود بستی میں داخل ہوئے۔’’مالک بن نویرہ!‘‘خالدؓ نے کئی بار مالک کوپکارا اورکہا۔’’باہر آ جاؤ۔نہیں آؤ گے تو ہم بستی کو آگ لگا دیں گے۔‘‘’’تجھ پر خدا کی سلامتی ہو۔‘‘ایک چھت سے ایک آدمی کی آواز آئی۔’’مت جلا ہمارے گھروں کو ۔وہ جسے تو بلا رہا ہے،یہاں نہیں ہے ۔یہاں کوئی نہیں لڑے گا۔‘‘’’الولید کے بیٹے!‘‘ایک اور چھت سے آواز آئی۔’’کیا تو نہیں دیکھ رہا کہ ہم اپنے مکانوں کے بند دروازوں کے پیچھے بیٹھے ہیں۔کیا مدینہ میں یہ رواج نہیں کہ بند دروازہ ایک اشارہ ہے کہ آجاؤ،ہم تمہارے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائیں گے۔‘‘’’بے شک میں یہ اشارہ سمجھتا ہوں!‘‘خالد نے کہا۔’’مکانوں کے دروازے کھول دو اور باہر آجاؤ۔عورتوں اور بچوں پر جبر نہیں۔ان کی مرضی ہے،باہر آئیں یا نہ آئیں۔‘‘لوگوں کو رسم و رواج معلوم تھا۔وہ ہتھیاروں کے بغیر باہر آ گئے۔عورتیں اور بچے بھی نکل آئے۔خالدؓ نے اپنے دستوں کو حکم دیا کہ ہر گھر کے اندر جا کر دیکھیں۔کوئی آدمی اندر نہ رہے.خالدؓ نے خاص طور پر حکم دیاکہ کسی گھر میں کسی چیز کو ہاتھ نہ لگایا جائے نہ کسی پر ہلکا سا بھی تشدد کیا جائے۔ مالک بن نویرہ کے قلعہ نما مکان میں خالد ؓخود گئے۔ وہاں سامان پڑا تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے یہاں کے رہنے والے کچھ ہی دیر پہلے یہاں سے نکلے ہوں۔بستی سے خالد ؓکو اتنا ہی پتا چلا کہ مالک بن نویرہ اپنے قبیلے کو یہ کہہ کر کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہتھیار نہ اٹھائیں۔لیلیٰ کو ساتھ لے کربستی سے نکل گیا تھا۔جنہوں نے اسے جاتے دیکھا تھا،انہوں نے سمت بتائی جدھر وہ گیا تھا۔ مالک گھوڑے پر اور لیلیٰ اونٹ پر سوار تھی۔ خالدؓ نے اردگرد کی بستیوں کو اپنے آدمی بھیج دیئے اور کچھ آدمی اس سمت روانہ کیے جدھر بتایا گیا تھا کہ مالک گیا ہے۔ وہ صحرا تھا اونٹ اور گھوڑے کے قدموں کے نشان بڑے صاف تھے۔ یہ خالدؓ کے آدمیوں کو ایک بستی میں لے گئے۔ یہ بنو تمیم کی ایک بستی تھی۔’’
’’اے بنو تمیم!‘‘خالدؓ کے آدمیوں میں سے ایک نے بلند آواز سے کہا۔’’مالک بن نویرہ کو اور بطاح کا کوئی اور آدمی جو یہاں چھپا ہوا ہو، اسے ہمارے حوالے کر دیں۔ اگر وہ ہماری تلاشی پر ملے تو اس بستی کو آگ لگا دی جائے گی۔‘‘ذرا ہی دیر بعد مالک بن نویرہ لیلیٰ کے ساتھ باہر آیا اور اپنے آپ کو خالدؓ بن ولید کے آدمیوں کے حوالے کر دیا۔ بنو یربوع کے چند اور سرکردہ افراد بھی جو یہاں آکر چھپ گئے تھے۔باہر آگئے۔ان سب کومالک بن نویرہ کے ساتھ بطاح لے آئے۔ لیلیٰ بھی ساتھ تھی۔’’مالک بن نویرہ!‘‘ خالدؓ نے مالک کو اپنے سامنے بلا کر پوچھا۔’’کیا یہ غلط ہے کہ تم نے زکوٰۃ اور محصول مدینہ کو بھیجنے کے بجائے لوگوں کو واپس کر دیئے تھے؟‘‘’’میں اپنے قبیلے کو یہ کہہ کر نکلا تھا کہ مسلمانوں کا مقابلہ نہ کرنا۔‘‘مالک بن نویرہ نے جواب دیا۔’’اور میں نے انہیں یہ بھی کہا تھا کہ مسلمان ہو جاؤ اور زکوٰ ۃ ادا کرو۔‘‘ ’’اور تم خود اس لئے روپوش ہو گئے تھے کہ تم اسلام سے منحرف ہو گئے تھے؟‘‘خالد نے کہا۔’’اور تم منحرف ہی رہنا چاہتے ہو……تم نے اپنے شعروں میں لوگوں سے کہا تھا کہ وہ زکوٰۃ اور محصول ادا نہ کریں اور تم نے انہیں کہا تھا کہ اسلامی حکومت کے احکام کی تم خلاف ورزی کرو گے جو تم نے کی۔‘‘’’ہاں ولید کے بیٹے!‘‘مالک نے کہا۔’’میں نے خلاف ورزی کی لیکن میں اپنے قبیلے سے کہہ رہا ہوں کہ اب وہ خلاف ورزی نہ کریں۔‘‘’’اور تم نے سجاع کی جھوٹی نبوت کو تسلیم کیا۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’اور اس کے ساتھ مل کر لوگوں کو قتل کیا اور انہیں لوٹا اور تم نے ان لوگوں کا قتل عام کیا جن لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔‘‘مالک نے سر ہلاکر اس جرم کااقرار کیا۔’’کیا تو مجھے بتا سکتا ہے کہ میں تجھے قتل کیوں نہ کروں؟‘‘خالدؓ نے کہا۔’’میں جانتا ہوں کہ تمہارے خلیفہ نے تمہیں میرے قتل کا حکم نہیں دیا۔‘‘مالک بن نویرہ نے کہا۔’’؛ ﷲ کی قسم!‘‘خالد ؓنے کہا۔’’میں تجھے زندہ رہنے کا حق نہیں دے سکتا۔‘‘ خالدؓ نے وہ اجڑی ہوئی بستیاں دیکھی تھیں،جو مالک بن نویرہ اور سجاع نے اجاڑی تھیں۔خالد ؓنے مالک بن نویرہ کی بستی بطاح پر بلاوجہ چڑھائی نہیں کی تھی۔انہیں تمام رپورٹیں ملتی رہی تھیں کہ اس شخص نے اس علاقے میں مسلمانوں کو کس طرح تباہ و برباد کیاتھا۔’’لے جاؤ اسے اور اس کے ساتھیوں کو جو اس کے ساتھ روپوش تھے اور انہیں قتل کردو۔‘‘خالدؓ بن ولید نے حکم دیا۔انہیں جب لے گئے تو خالد ؓبن ولید کو اطلاع دی گئی کہ ایک بڑی ہی حسین عورت جس کا نام لیلیٰ ہے اور جو مالک بن نویرہ کی بیوی ہے۔اپنے خاوند کی زندگی کی التجا لے کر آئی ہے۔خالد ؓنے کہا کہ اسے آنے دو۔خالد ؓایک سردار کے فرزند تھے۔انہوں نے امیر گھرانے میں پرورش پائی تھی۔اس لئے ان کے دل و دماغ میں وسعت تھی۔ وہ خوش ذوق،خوش طبع اور زندہ مزاج تھے۔ لیلیٰ جب ان کے سامنے آئی تو خالد ؓنے پوچھا’’ کیا تو اپنے خاوند کو موت سے بچانے آئی ہے؟‘‘’’اس کے سوا میرا اور مقصد ہو ہی کیا سکتا ہے؟‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’اگر تو اس وقت اسے ان جرائم سے روک دیتی جب وہ سمجھتا تھا کہ ہر بستی پر اس کی حکمرانی ہے تو آج تو بیوہ نہ ہوتی۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’کیا اس نے تجھے بتایا نہیں تھا کہ اس کی تلوار نے کتنی عورتوں کو بیوہ کیا ہے؟ اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کی زندگی میں ایک دن انصاف کا بھی آئے گا۔‘‘ ’’میں اس کا ہاتھ نہیں روک سکی۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’اور تو میرا ہاتھ بھی نہیں روک سکتی۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’یہ میرا نہیں میرے ﷲ کا حکم ہے۔‘‘خالدؓ نے لیلیٰ کی التجا قبول نہ کی ۔لیلیٰ ابھی خالدؓ کے پاس ہی تھی کہ اطلاع آئی کہ مالک بن نویرہ اور اس کے ساتھیوں کو قتل کر دیا گیا ہے۔پھر ایک ایسا واقعہ ہو گیا جس نے خالدؓ کے دستوں میں اور مدینہ میں ہلچل مچا دی۔ہوا یوں کہ بطاح میں ہی خالد ؓنے لیلیٰ کے ساتھ شادی کرلی۔انصارِمدینہ اس شادی پر بہت برہم ہوئے۔ابو قتادہ انصاریؓ نے قسم کھائی کہ وہ آئندہ خالد ؓکی قیادت میں کبھی کسی لڑائی میں شریک نہیں ہوں گے۔اعتراض کرنے والے یہ کہتے تھے کہ خالدؓ نے لیلیٰ کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر اس کے خاوند مالک بن نویرہ کو قتل کیا ہے کہ لیلیٰ کے ساتھ خود شادی کرلیں۔ لیکن خالد ؓوہ شخصیت تھی جس نے بسترِ مرگ پر کہا تھا کہ’’ میرے جسم پر کوئی جگہ ایسی ہے جس پر جہاد کا زخم نہ آیا ہو؟‘‘ان کاکردار اتنا کمزور نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ ایک عورت کی خاطر اپنے رتبے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے۔خالدؓ کے حق میں بات کرنے والوں نے کہا ہے کہ خالدؓ نے مالک بن نویرہ اور اسکے ساتھیوں کو قید میں ڈال دیا تھااور انہیں مدینہ بھیجنا تھا۔رات بہت سرد تھی۔خالدؓ کو خیال آیا کہ قیدی سردی سے ٹھٹھر رہے ہوں گے۔انہوں نے حکم دیا۔’’دافؤ اسراکم۔‘‘اس کا ترجمہ ہے۔’’قیدیوں کو گرمی پہنچاؤ۔‘‘کنانہ کی زبان میں مدافاۃ کا لفظ قتل کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔بدقسمتی سے یہ قیدی جن آدمیوں کے پہرے میں تھے وہ کنانہ کے رہنے والے تھے۔انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ مالک بن نویرہ اور اس کے ساتھیوں کے جرائم کتنے سنگین ہیں۔چنانچہ انہوں نے ’’گرمی پہنچاؤ‘‘ کو قتل کے معنوں میں لیا اور مالک اور اس کے ساتھیوں کو قتل کر دیا۔خالدؓ کو پتا چلا تو انہوں نے کہا۔ ’’ﷲ جو کام کرنا چاہتا ہے وہ ہو کے رہتا ہے"
ان دو کے علاوہ اور بھیروایات مختلف تاریخوں میں آئی ہیں۔جو ایک دوسرے کی تردید کرتی ہیں۔ان میں بعض خالد ؓکے حق میں جاتی ہیں بعض خلاف۔ مخالفانہ روایات کے مصنفوں کے مذہبی فرقوں کو دیکھو تو صاف پتا چلتا ہے کہ ان کے ایک ایک لفظ میں تعصب بھرا ہوا ہے اور وہ خالدؓ بن ولید کو رُسوا کر رہے ہیں۔تاریخ میں متضاد کہانیاں ملتی ہیں لیکن کسی بھی مؤرخ نے یہ نہیں لکھا ہے کہ اس شادی پر لیلیٰ کا کیا ردِ عمل تھا۔کیا لیلیٰ نے خالدؓ کو مجبور ہو کر قبول کیا تھا؟ یا وہ خوش تھی کہ ایک عظیم سپہ سالارکی بیوی بن گئی ہے جس کی فتوحات کے چرچے سرزمینِ عرب کے گوشے گوشے تک پہنچ گئے ہیں۔اس وقت کے جنگی رواج کے مطابق لیلیٰ مالِ غنیمت تھی۔ خالد ؓاسے لونڈی بنا کر اپنے پاس رکھ سکتے تھے- تاریخ میں ایک ایسا اشارہ ملتا ہے جو خالدؓ کے حق میں جاتا ہے۔ وہ یوں ہے کہ خالدؓ نے اسے کسی کی یا اپنی لونڈی بننے سے بچا لیا تھا ۔وہ اتنی حسین تھی کہ شہزادی لگتی تھی۔ خالد ؓجانتے تھے کہ لونڈیوں کی زندگی کیا ہوتی ہے؟ خالدؓ نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ لیلیٰ جتنی خوبصورت ہے اتنی ہی ذہین اور دانا ہے۔ انہوں نے اس عورت کی صلاحیتوں کو تباہی سے بچا لیا تھا۔ یہ خبر مدینہ بھی پہنچ گئی کہ خالدؓ نے مالک بن نویرہ کو قتل کرکے اس کی بیوی کے ساتھ شادی کرلی ہے ۔ خبر پہنچی بھی سیدھی خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓ کے پاس،اور خبر پہنچانے والے ابو قتادہ انصاریؓ تھے۔جو اس شادی پر ناراض ہوکر مدینہ چلے گئے تھے۔ابو بکرؓ نے اس خبر کو زیادہ اہمیت نہ دی ۔انہوں نے کہا کہ خالدؓ کو رسول ﷲﷺ نے سیف ﷲ کا خطاب دیا تھا ۔ان کے خلاف وہ کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔ خالد ؓنے کسی زندہ آدمی کی بیوی کو ورغلا کر اپنی بیوی نہیں بنایا۔ ابو قتادہ انصاریؓ ،خلیفۃ المسلمینؓ کے جواب سے مطمئن نہ ہوئے۔وہ عمرؓ کے پاس چلے گئے اور انہیں ایسے انداز سے لیلیٰ کی خالد ؓکے ساتھ شادی کی خبر سنائی جیسے خالدؓ عیاش انسان ہوں اور ان کی عیش پرستی ان کے فرائض پر اثر انداز ہو رہی ہو۔عمرؓ غصے میں آگئے اور ابو قتادہؓ کو ساتھ لے کر ابو بکرؓ کے پاس گئے۔’’خلیفۃ المسلمین!‘‘عمرؓنے ابو بکرؓ سے کہا۔’’خالد کا جرم معمولی نہیں۔ وہ کیسے ثابت کرسکتا ہے کہ بنو یربوع کے سردار مالک بن نویرہ کا قتل جائز تھا؟‘‘ ’’مگر تم چاہتے کیا ہو عمر؟‘‘ ابو بکرؓ نے پوچھا۔’خالد کی معزولی!‘‘عمرؓ نے کہا۔’’صرف معزولی نہیں۔ خالد کو گرفتار کرکے یہاں لایا جائے اور اسے سزا دی جائے۔‘‘’’عمر!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’میں اتنا مان لیتا ہوں کہ خالد سے غلطی ہوئی ہے لیکن یہ غلطی اتنی سنگین نہیں کہ اسے معزول بھی کیا جائے اور سزا بھی دی جائے۔‘‘عمرؓ ابو بکرؓ کے پیچھے پڑے رہے۔ دراصل عمرؓ انتہا درجے کے انصاف پسند اور ڈسپلن کی پابندی میں بہت سخت تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ سالاروں میں کوئی غلط حرکت رواج پا جائے۔’’نہیں عمر!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’میں اس شمشیر کو نیام میں نہیں ڈال سکتا جسے ﷲ نے کافروں پر مسلط کیا ہو۔‘‘عمرؓ مطمئن نہ ہوئے۔ابو بکرؓ عمرؓ کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔انہوں نے خالدؓ کو مدینہ بلوالیا۔ خالدؓ بڑی ہی مسافت طے کر کے بہت دنوں بعد مدینہ پہنچے اور سب سے پہلے مسجدِ نبویﷺ میں گئے۔ انہوں نے اپنے عمامے میں ایک تیر اُڑس رکھا تھا۔عمرؓ مسجد میں موجود تھے۔ خالد ؓکو دیکھ کر عمرؓ طیش میں آگئے۔ وہ اٹھے۔خالدؓ کے عمامے سے تیر کھینچ کر نکالا اور اسے توڑکر پھینک دیا۔’’تم نے ایک مسلمان کو قتل کیا ہے۔‘‘عمرؓ نے غصے سے کہا۔’’اور اس کی بیوہ کو اپنی بیوی بنا لیا ہے۔تم سنگسار کر دینے کے قابل ہو۔‘‘خالدؓ ڈسپلن کے پابند تھے۔ وہ چپ رہے۔انہوں نے عمرؓ کے غصے کو قبول کرلیا۔ سوہ خاموشی سے مسجد سے نکل آئے اور خلیفۃ المسلمین ابوبکرؓ کے ہاں چلے گئے۔ انہیں ابو بکرؓ نے ہی جواب طلبی کیلئے بلایا تھا۔. ابو بکرؓ کے کہنے پر خالد ؓنے مالک بن نویرہ کے تمام جرائم سنائے اور ثابت کیا کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ مسلمانوں کا دشمن تھا۔ ابو بکرؓ خالد ؓسے بہت خفا ہوئے اور انہیں تنبیہہ کی کہ آئندہ ایسی کوئی حرکت نہ کریں۔ جو دوسرے سالاروں میں غلط رواج کا باعث بنے۔ابو بکرؓ نے (طبری اور ہیکل کے مطابق) فیصلہ سنایا کہ مفتوحہ قبیلے کی کسی عورت کے ساتھ شادی کرلینا اور عدت کا عرصہ پورا نہ کرنا عربوں کے رواج کے عین مطابق ہے۔ اس عورت کو آخر لونڈی بننا تھا۔ یہ اس کے آقا کی مرضی ہے کہ اسے لونڈی بنائے رکھے یا اسے نکاح میں لے لے۔
ابو بکرؓ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اس وقت مسلمان ہر طرف سےخطروں میں گھرے ہوئے ہیں ۔ قبیلے باغی ہوتے جا رہے ہیں ۔اپنے پاس نفری بہت تھوڑی ہے۔ان حالات میں اگر کوئی سالار دشمن کے کسی سردار کو غلطی سے قتل کرا دیتا ہے تو یہ سنگین جرم نہیں۔عمرؓ کو خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓ نے یہ کہہ کر ٹھنڈا کیا کہ’’ اسلام کا ایک بڑا دشمن مسیلمہ بن حنیفہ نے نبوت کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ جنگی طاقت بن گیا ہے۔اس کے پاس کم و بیش چالیس ہزار نفری کا لشکر ہے اور عکرمہ بن ابو جہل اس سے شکست کھا چکے ہیں۔ اب سب کی نظریں خالد کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ اگر مسیلمہ کو شکست نہ دی گئی تو اسلام مدینہ میں ہی رہ جائے گا۔ اس کامیابی کیلئے صرف خالد موزوں ہیں۔‘‘عمرؓ خاموش رہے۔ انہیں بھی ان خطروں کا احساس تھا ۔ابو بکرؓ نے خالد ؓکو حکم دیا کہ فوراً بطاح جائیں اور وہاں سے یمامہ پر چڑھائی کرکے اس فتنے کو ختم کر دیں۔ خالد ؓایک بڑی ہی خطرناک جنگ لڑنے کیلئے روانہ ہو گئے۔دسمبر ۶۳۲ء (شوال ۱۱ہجری) کے تیسرے ہفتے میں خالد ؓبن ولید نے تیرہ ہزار مجاہدین سے مُرتدین کے چالیس ہزار سے زیادہ لشکر کے خلاف یمامہ کے مقام پر وہ جنگ لڑی جسے اسلام کی پہلی خونریز جنگ کہا جاتا ہے۔اس جنگ کا آخری معرکہ ایک وسیع باغ حدیقۃ الرحمٰن میں لڑا گیا تھا۔وہاں دونوں طرف اس قدر جانی نقصان ہوا تھا کہ حدیقۃ الرحمٰن کو لوگ حدیقۃ الموت(موت کا باغ) کہنے لگے۔ آج تک اسے حدیقۃ الموت کہا جاتا ہے۔اس وقت خالدؓ مدینہ میں تھے۔ انہیں خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓنے عمرؓ کی اس شکایت پر جواب طلبی کیلئے مدینہ بلایا تھا کہ انہوں نے مالک بن نویرہ کو قتل کراکے اس کی بیوی لیلیٰ کے ساتھ شادی کرلی تھی۔ابو بکرؓ نے ان حالات کو دیکھتے ہوئے جن میں اسلام گھر گیا تھا۔ خالدؓ کے حق میں فیصلہ دیا اور خالد ؓکو واپس بطاح جانے اور یمامہ کے مسیلمہ کذاب کے فتنے کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔مسیلمہ کذاب کے متعلق بتایا جا چکا ہے کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کر رکھا تھا۔اس کے پیروکاروں کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ اس کا لشکرمسلمانوں کیلئے خطرہ بن گیا تھا ، اس وقت تک مسلمان ایک طاقت بن چکے تھے لیکن مسیلمہ کی طاقت بڑھتی جا رہی تھی۔یہ مدینہ کیلئے بھی خطرہ تھااور اسلام کیلئے بھی۔ مدینہ سلطنت اسلامیہ کا مرکز تھا۔خالدؓ کا لشکر بطا ح میں تھا۔ وہیں انہوں نے مالک بن نویرہ کو سزائے موت دی اور اس کی بیوی لیلیٰ کے ساتھ شادی کی تھی۔لیلیٰ وہیں تھی۔ خالد بطاح کو روانہ ہو گئے۔انہیں معلوم تھا کہ ان کے پرانے ساتھی سالار عکرمہؓ اسی علاقے میں اپنے لشکر کے ساتھ موجود ہیں اور مسیلمہ کذاب کے خلاف مدد کو پہنچیں گے۔ عکرمہؓ بن ابو جہل ان گیارہ سالاروں میں سے تھے جنہیں خلیفۃ المسلمین ؓ نے مختلف علاقوں میں مُرتد اور باغی قبائل کی سرکوبی کیلئے بھیجا تھا۔دوسرے قبیلے اتنے طاقتور نہیں تھے جتنا مسیلمہ کا قبیلہ بنو حنیفہ تھا۔اس لیے اس علاقے میں عکرمہؓ کو بھیجا گیا تھا۔
ان کے پیچھے پیچھے ایک اور سالار شرجیلؓ بن حسنہ کو بھیج دیا گیا۔خلیفہ ابو بکرؓ نے شرجیلؓ کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ عکرمہؓ کو مدد دیں گے۔ عکرمہؓ یمامہ کی طرف جا رہے تھے۔یہ دو اڑھائی مہینے پہلے کی بات ہے ۔اس وقت خالدؓ طلیحہ سے نبرد آزما تھے۔انہوں نے طلیحہ کو بہت بری شکست دی تھی ۔یہ خبر عکرمہؓ تک پہنچی تو وہ جوش میں آ گئے۔انہوں نے ابھی کسی قبیلے کے خلاف جنگی کارروائی نہیں کی تھی۔ کچھ دنوں بعد عکرمہؓ کو خبر ملی کہ خالد ؓ نے سلمیٰ کے طاقتور لشکر کو شکست دی ہے۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ عکرمہؓ پر انسانی فطرت کی ایک کمزور ی غالب آ گئی۔ انہوں نے اپنے ساتھی سالاروں سے کہا کہ خالد فتح پہ فتح حاصل کرتے جا رہے ہیں اور اِنہیں ابھی لڑنے کا موقع بھی نہیں ملا۔ خالدؓ اور عکرمہؓ اسلام قبول کرنے سے پہلے کے ساتھی اور ایک جیسے جنگجو اور میدانِ جنگ کے ایک جیسے قائد تھے۔’’کیوں نہ ہم ایک ایسی فتح حاصل کریں جس کے سامنے خالد کی تمام فتوحات کی اہمیت ختم ہو جائے۔ ‘‘عکرمہؓ نے اپنے ماتحت سالاروں سے کہا۔’’مجھے اطلاع مل چکی ہے کہ شرجیل بن حسنہ ہماری مدد کو آرہا ہے۔معلوم نہیں وہ کب تک پہنچے۔میں زیادہ انتظار نہیں کرسکتا۔ میں مسیلمہ پر حملہ کروں گا۔‘‘مسیلمہ معمولی عقل و ذہانت کا آدمی نہیں تھا۔ اسے معلوم تھا کہ مسلمان اس کی نبوت کو برداشت نہیں کر رہے اورکسی بھی روز اسلامی لشکر اس پر حملہ کردے گا۔ اس نے اپنے علاقے کے دفاع کا بندوبست کر رکھا تھا۔جس میں دیکھ بھال اور جاسوسی کا انتظام بھی شامل تھا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مالک بن نویرہ پر خوف طاری ہوتا چلا گیا۔ اسے خبریں مل رہی تھیں کہ خالدؓ کا لشکر قریب آ رہا ہے ۔اس نے اپنے قبیلے کو اکھٹا کیا۔’’اے بنو یربوع!‘‘اس نے قبیلے سے کہا۔’’ہم سے غلطی ہوئی کہ ہم نے مدینہ کی حکمرانی کو تسلیم کیا اور ان سے منحرف ہو گئے۔انہوں نے ہمیں اپنا مذہب دیا جو ہم نے قبو ل کیا پھر نا فرمان ہو گئے۔ وہ آ رہے ہیں۔سب اپنے گھروں کو چلے جاؤ۔ اور دروازے بند کرلو۔ یہ نشانی ہے کہ تم ان کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھاؤ گے۔ ان کے بلانے پر ان کے سامنے نہتے جاؤ۔ کچھ فائدہ نہ ہوگا مقابلے میں……جاؤ،اپنے گھروں کو چلے جاؤ۔‘‘لوگ سر جھکائے ہوئے اپنے گھروں کو چلے گئے۔نومبر ۶۳۲ء (شعبان ۱۱ہجری) کے پہلے ہفتے میں خالدؓ بطاح پہنچ گئے۔ تفصیل سے پڑھئے
انہوں نے اپنے لشکر کو محاصرے کی ترتیب میں کیا۔ مگر ایسے لگتا تھا جیسے بطاح اجڑ گیا ہو۔ شہر کا دفاع کرنے والے تو نظر ہی نہیں آتے تھے۔کوئی دوسرا بھی دکھائی نہ دیا۔کسی مکان کی چھت پر ایک بھی سر نظر نہیں آتا تھا۔’’کیا مالک بن نویرہ اپنے آپ کو اتنا چالاک سمجھتا ہے کہ مجھے گھیرے میں لے لے گا؟‘‘خالدؓ نے اپنے نائب سالاروں سے کہا۔’’محاصرے کی ترتیب بدل دو اور اپنے عقب کا خیال رکھو۔میں اس بستی کو آگ لگادوں گا۔وہ یہاں سے نکل گئے ہیں ۔عقب سے حملہ کریں گے۔‘‘خالدؓ بن ولید زندہ دل، بے خوف اور مہم جو تھے۔ان کے احکام بہت سخت ہوا کرتے تھے۔انہوں نے اپنے دستوں کو اس ترتیب میں کر دیاکہ عقب سے حملہ ہو تو روک لیں اور اگر اس کے ساتھ ہی شہر سے بھی حملہ ہو جائے تو دونوں طرف لڑا جائے۔مسلمانوں کو اس دشواری کا سامنا تھا کہ ان کی نفری تھوڑی تھی اور وہ اپنے مستقر (مدینہ) سے بہت دور تھے۔انہوں نے جن قبیلوں کو مطیع کیا تھا ،ان کی بستیوں کو اڈے بنا لیا تھا لیکن ابھی وہاں کے لوگوں پر پوری طرح سے بھروسہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔یہ خالدؓ کی پرجوش اور ماہرانہ قیادت تھی جو مجاہدین کی قلیل تعداد میں بجلیوں جیسا قہر پیدا کئے رکھتی تھی۔خالدؓ نے بستی میں ایک دستہ داخل کیا تو اس پر ایک بھی تیر نہ آیا۔ہر مکان کا دروازہ بند تھا۔خالدؓ نے یہ خاموشی دیکھی تو وہ خود بستی میں داخل ہوئے۔’’مالک بن نویرہ!‘‘خالدؓ نے کئی بار مالک کوپکارا اورکہا۔’’باہر آ جاؤ۔نہیں آؤ گے تو ہم بستی کو آگ لگا دیں گے۔‘‘’’تجھ پر خدا کی سلامتی ہو۔‘‘ایک چھت سے ایک آدمی کی آواز آئی۔’’مت جلا ہمارے گھروں کو ۔وہ جسے تو بلا رہا ہے،یہاں نہیں ہے ۔یہاں کوئی نہیں لڑے گا۔‘‘’’الولید کے بیٹے!‘‘ایک اور چھت سے آواز آئی۔’’کیا تو نہیں دیکھ رہا کہ ہم اپنے مکانوں کے بند دروازوں کے پیچھے بیٹھے ہیں۔کیا مدینہ میں یہ رواج نہیں کہ بند دروازہ ایک اشارہ ہے کہ آجاؤ،ہم تمہارے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائیں گے۔‘‘’’بے شک میں یہ اشارہ سمجھتا ہوں!‘‘خالد نے کہا۔’’مکانوں کے دروازے کھول دو اور باہر آجاؤ۔عورتوں اور بچوں پر جبر نہیں۔ان کی مرضی ہے،باہر آئیں یا نہ آئیں۔‘‘لوگوں کو رسم و رواج معلوم تھا۔وہ ہتھیاروں کے بغیر باہر آ گئے۔عورتیں اور بچے بھی نکل آئے۔خالدؓ نے اپنے دستوں کو حکم دیا کہ ہر گھر کے اندر جا کر دیکھیں۔کوئی آدمی اندر نہ رہے.خالدؓ نے خاص طور پر حکم دیاکہ کسی گھر میں کسی چیز کو ہاتھ نہ لگایا جائے نہ کسی پر ہلکا سا بھی تشدد کیا جائے۔ مالک بن نویرہ کے قلعہ نما مکان میں خالد ؓخود گئے۔ وہاں سامان پڑا تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے یہاں کے رہنے والے کچھ ہی دیر پہلے یہاں سے نکلے ہوں۔بستی سے خالد ؓکو اتنا ہی پتا چلا کہ مالک بن نویرہ اپنے قبیلے کو یہ کہہ کر کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہتھیار نہ اٹھائیں۔لیلیٰ کو ساتھ لے کربستی سے نکل گیا تھا۔جنہوں نے اسے جاتے دیکھا تھا،انہوں نے سمت بتائی جدھر وہ گیا تھا۔ مالک گھوڑے پر اور لیلیٰ اونٹ پر سوار تھی۔ خالدؓ نے اردگرد کی بستیوں کو اپنے آدمی بھیج دیئے اور کچھ آدمی اس سمت روانہ کیے جدھر بتایا گیا تھا کہ مالک گیا ہے۔ وہ صحرا تھا اونٹ اور گھوڑے کے قدموں کے نشان بڑے صاف تھے۔ یہ خالدؓ کے آدمیوں کو ایک بستی میں لے گئے۔ یہ بنو تمیم کی ایک بستی تھی۔’’
’’اے بنو تمیم!‘‘خالدؓ کے آدمیوں میں سے ایک نے بلند آواز سے کہا۔’’مالک بن نویرہ کو اور بطاح کا کوئی اور آدمی جو یہاں چھپا ہوا ہو، اسے ہمارے حوالے کر دیں۔ اگر وہ ہماری تلاشی پر ملے تو اس بستی کو آگ لگا دی جائے گی۔‘‘ذرا ہی دیر بعد مالک بن نویرہ لیلیٰ کے ساتھ باہر آیا اور اپنے آپ کو خالدؓ بن ولید کے آدمیوں کے حوالے کر دیا۔ بنو یربوع کے چند اور سرکردہ افراد بھی جو یہاں آکر چھپ گئے تھے۔باہر آگئے۔ان سب کومالک بن نویرہ کے ساتھ بطاح لے آئے۔ لیلیٰ بھی ساتھ تھی۔’’مالک بن نویرہ!‘‘ خالدؓ نے مالک کو اپنے سامنے بلا کر پوچھا۔’’کیا یہ غلط ہے کہ تم نے زکوٰۃ اور محصول مدینہ کو بھیجنے کے بجائے لوگوں کو واپس کر دیئے تھے؟‘‘’’میں اپنے قبیلے کو یہ کہہ کر نکلا تھا کہ مسلمانوں کا مقابلہ نہ کرنا۔‘‘مالک بن نویرہ نے جواب دیا۔’’اور میں نے انہیں یہ بھی کہا تھا کہ مسلمان ہو جاؤ اور زکوٰ ۃ ادا کرو۔‘‘ ’’اور تم خود اس لئے روپوش ہو گئے تھے کہ تم اسلام سے منحرف ہو گئے تھے؟‘‘خالد نے کہا۔’’اور تم منحرف ہی رہنا چاہتے ہو……تم نے اپنے شعروں میں لوگوں سے کہا تھا کہ وہ زکوٰۃ اور محصول ادا نہ کریں اور تم نے انہیں کہا تھا کہ اسلامی حکومت کے احکام کی تم خلاف ورزی کرو گے جو تم نے کی۔‘‘’’ہاں ولید کے بیٹے!‘‘مالک نے کہا۔’’میں نے خلاف ورزی کی لیکن میں اپنے قبیلے سے کہہ رہا ہوں کہ اب وہ خلاف ورزی نہ کریں۔‘‘’’اور تم نے سجاع کی جھوٹی نبوت کو تسلیم کیا۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’اور اس کے ساتھ مل کر لوگوں کو قتل کیا اور انہیں لوٹا اور تم نے ان لوگوں کا قتل عام کیا جن لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔‘‘مالک نے سر ہلاکر اس جرم کااقرار کیا۔’’کیا تو مجھے بتا سکتا ہے کہ میں تجھے قتل کیوں نہ کروں؟‘‘خالدؓ نے کہا۔’’میں جانتا ہوں کہ تمہارے خلیفہ نے تمہیں میرے قتل کا حکم نہیں دیا۔‘‘مالک بن نویرہ نے کہا۔’’؛ ﷲ کی قسم!‘‘خالد ؓنے کہا۔’’میں تجھے زندہ رہنے کا حق نہیں دے سکتا۔‘‘ خالدؓ نے وہ اجڑی ہوئی بستیاں دیکھی تھیں،جو مالک بن نویرہ اور سجاع نے اجاڑی تھیں۔خالد ؓنے مالک بن نویرہ کی بستی بطاح پر بلاوجہ چڑھائی نہیں کی تھی۔انہیں تمام رپورٹیں ملتی رہی تھیں کہ اس شخص نے اس علاقے میں مسلمانوں کو کس طرح تباہ و برباد کیاتھا۔’’لے جاؤ اسے اور اس کے ساتھیوں کو جو اس کے ساتھ روپوش تھے اور انہیں قتل کردو۔‘‘خالدؓ بن ولید نے حکم دیا۔انہیں جب لے گئے تو خالد ؓبن ولید کو اطلاع دی گئی کہ ایک بڑی ہی حسین عورت جس کا نام لیلیٰ ہے اور جو مالک بن نویرہ کی بیوی ہے۔اپنے خاوند کی زندگی کی التجا لے کر آئی ہے۔خالد ؓنے کہا کہ اسے آنے دو۔خالد ؓایک سردار کے فرزند تھے۔انہوں نے امیر گھرانے میں پرورش پائی تھی۔اس لئے ان کے دل و دماغ میں وسعت تھی۔ وہ خوش ذوق،خوش طبع اور زندہ مزاج تھے۔ لیلیٰ جب ان کے سامنے آئی تو خالد ؓنے پوچھا’’ کیا تو اپنے خاوند کو موت سے بچانے آئی ہے؟‘‘’’اس کے سوا میرا اور مقصد ہو ہی کیا سکتا ہے؟‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’اگر تو اس وقت اسے ان جرائم سے روک دیتی جب وہ سمجھتا تھا کہ ہر بستی پر اس کی حکمرانی ہے تو آج تو بیوہ نہ ہوتی۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’کیا اس نے تجھے بتایا نہیں تھا کہ اس کی تلوار نے کتنی عورتوں کو بیوہ کیا ہے؟ اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کی زندگی میں ایک دن انصاف کا بھی آئے گا۔‘‘ ’’میں اس کا ہاتھ نہیں روک سکی۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’اور تو میرا ہاتھ بھی نہیں روک سکتی۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’یہ میرا نہیں میرے ﷲ کا حکم ہے۔‘‘خالدؓ نے لیلیٰ کی التجا قبول نہ کی ۔لیلیٰ ابھی خالدؓ کے پاس ہی تھی کہ اطلاع آئی کہ مالک بن نویرہ اور اس کے ساتھیوں کو قتل کر دیا گیا ہے۔پھر ایک ایسا واقعہ ہو گیا جس نے خالدؓ کے دستوں میں اور مدینہ میں ہلچل مچا دی۔ہوا یوں کہ بطاح میں ہی خالد ؓنے لیلیٰ کے ساتھ شادی کرلی۔انصارِمدینہ اس شادی پر بہت برہم ہوئے۔ابو قتادہ انصاریؓ نے قسم کھائی کہ وہ آئندہ خالد ؓکی قیادت میں کبھی کسی لڑائی میں شریک نہیں ہوں گے۔اعتراض کرنے والے یہ کہتے تھے کہ خالدؓ نے لیلیٰ کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر اس کے خاوند مالک بن نویرہ کو قتل کیا ہے کہ لیلیٰ کے ساتھ خود شادی کرلیں۔ لیکن خالد ؓوہ شخصیت تھی جس نے بسترِ مرگ پر کہا تھا کہ’’ میرے جسم پر کوئی جگہ ایسی ہے جس پر جہاد کا زخم نہ آیا ہو؟‘‘ان کاکردار اتنا کمزور نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ ایک عورت کی خاطر اپنے رتبے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے۔خالدؓ کے حق میں بات کرنے والوں نے کہا ہے کہ خالدؓ نے مالک بن نویرہ اور اسکے ساتھیوں کو قید میں ڈال دیا تھااور انہیں مدینہ بھیجنا تھا۔رات بہت سرد تھی۔خالدؓ کو خیال آیا کہ قیدی سردی سے ٹھٹھر رہے ہوں گے۔انہوں نے حکم دیا۔’’دافؤ اسراکم۔‘‘اس کا ترجمہ ہے۔’’قیدیوں کو گرمی پہنچاؤ۔‘‘کنانہ کی زبان میں مدافاۃ کا لفظ قتل کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔بدقسمتی سے یہ قیدی جن آدمیوں کے پہرے میں تھے وہ کنانہ کے رہنے والے تھے۔انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ مالک بن نویرہ اور اس کے ساتھیوں کے جرائم کتنے سنگین ہیں۔چنانچہ انہوں نے ’’گرمی پہنچاؤ‘‘ کو قتل کے معنوں میں لیا اور مالک اور اس کے ساتھیوں کو قتل کر دیا۔خالدؓ کو پتا چلا تو انہوں نے کہا۔ ’’ﷲ جو کام کرنا چاہتا ہے وہ ہو کے رہتا ہے"
ان دو کے علاوہ اور بھیروایات مختلف تاریخوں میں آئی ہیں۔جو ایک دوسرے کی تردید کرتی ہیں۔ان میں بعض خالد ؓکے حق میں جاتی ہیں بعض خلاف۔ مخالفانہ روایات کے مصنفوں کے مذہبی فرقوں کو دیکھو تو صاف پتا چلتا ہے کہ ان کے ایک ایک لفظ میں تعصب بھرا ہوا ہے اور وہ خالدؓ بن ولید کو رُسوا کر رہے ہیں۔تاریخ میں متضاد کہانیاں ملتی ہیں لیکن کسی بھی مؤرخ نے یہ نہیں لکھا ہے کہ اس شادی پر لیلیٰ کا کیا ردِ عمل تھا۔کیا لیلیٰ نے خالدؓ کو مجبور ہو کر قبول کیا تھا؟ یا وہ خوش تھی کہ ایک عظیم سپہ سالارکی بیوی بن گئی ہے جس کی فتوحات کے چرچے سرزمینِ عرب کے گوشے گوشے تک پہنچ گئے ہیں۔اس وقت کے جنگی رواج کے مطابق لیلیٰ مالِ غنیمت تھی۔ خالد ؓاسے لونڈی بنا کر اپنے پاس رکھ سکتے تھے- تاریخ میں ایک ایسا اشارہ ملتا ہے جو خالدؓ کے حق میں جاتا ہے۔ وہ یوں ہے کہ خالدؓ نے اسے کسی کی یا اپنی لونڈی بننے سے بچا لیا تھا ۔وہ اتنی حسین تھی کہ شہزادی لگتی تھی۔ خالد ؓجانتے تھے کہ لونڈیوں کی زندگی کیا ہوتی ہے؟ خالدؓ نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ لیلیٰ جتنی خوبصورت ہے اتنی ہی ذہین اور دانا ہے۔ انہوں نے اس عورت کی صلاحیتوں کو تباہی سے بچا لیا تھا۔ یہ خبر مدینہ بھی پہنچ گئی کہ خالدؓ نے مالک بن نویرہ کو قتل کرکے اس کی بیوی کے ساتھ شادی کرلی ہے ۔ خبر پہنچی بھی سیدھی خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓ کے پاس،اور خبر پہنچانے والے ابو قتادہ انصاریؓ تھے۔جو اس شادی پر ناراض ہوکر مدینہ چلے گئے تھے۔ابو بکرؓ نے اس خبر کو زیادہ اہمیت نہ دی ۔انہوں نے کہا کہ خالدؓ کو رسول ﷲﷺ نے سیف ﷲ کا خطاب دیا تھا ۔ان کے خلاف وہ کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔ خالد ؓنے کسی زندہ آدمی کی بیوی کو ورغلا کر اپنی بیوی نہیں بنایا۔ ابو قتادہ انصاریؓ ،خلیفۃ المسلمینؓ کے جواب سے مطمئن نہ ہوئے۔وہ عمرؓ کے پاس چلے گئے اور انہیں ایسے انداز سے لیلیٰ کی خالد ؓکے ساتھ شادی کی خبر سنائی جیسے خالدؓ عیاش انسان ہوں اور ان کی عیش پرستی ان کے فرائض پر اثر انداز ہو رہی ہو۔عمرؓ غصے میں آگئے اور ابو قتادہؓ کو ساتھ لے کر ابو بکرؓ کے پاس گئے۔’’خلیفۃ المسلمین!‘‘عمرؓنے ابو بکرؓ سے کہا۔’’خالد کا جرم معمولی نہیں۔ وہ کیسے ثابت کرسکتا ہے کہ بنو یربوع کے سردار مالک بن نویرہ کا قتل جائز تھا؟‘‘ ’’مگر تم چاہتے کیا ہو عمر؟‘‘ ابو بکرؓ نے پوچھا۔’خالد کی معزولی!‘‘عمرؓ نے کہا۔’’صرف معزولی نہیں۔ خالد کو گرفتار کرکے یہاں لایا جائے اور اسے سزا دی جائے۔‘‘’’عمر!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’میں اتنا مان لیتا ہوں کہ خالد سے غلطی ہوئی ہے لیکن یہ غلطی اتنی سنگین نہیں کہ اسے معزول بھی کیا جائے اور سزا بھی دی جائے۔‘‘عمرؓ ابو بکرؓ کے پیچھے پڑے رہے۔ دراصل عمرؓ انتہا درجے کے انصاف پسند اور ڈسپلن کی پابندی میں بہت سخت تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ سالاروں میں کوئی غلط حرکت رواج پا جائے۔’’نہیں عمر!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’میں اس شمشیر کو نیام میں نہیں ڈال سکتا جسے ﷲ نے کافروں پر مسلط کیا ہو۔‘‘عمرؓ مطمئن نہ ہوئے۔ابو بکرؓ عمرؓ کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔انہوں نے خالدؓ کو مدینہ بلوالیا۔ خالدؓ بڑی ہی مسافت طے کر کے بہت دنوں بعد مدینہ پہنچے اور سب سے پہلے مسجدِ نبویﷺ میں گئے۔ انہوں نے اپنے عمامے میں ایک تیر اُڑس رکھا تھا۔عمرؓ مسجد میں موجود تھے۔ خالد ؓکو دیکھ کر عمرؓ طیش میں آگئے۔ وہ اٹھے۔خالدؓ کے عمامے سے تیر کھینچ کر نکالا اور اسے توڑکر پھینک دیا۔’’تم نے ایک مسلمان کو قتل کیا ہے۔‘‘عمرؓ نے غصے سے کہا۔’’اور اس کی بیوہ کو اپنی بیوی بنا لیا ہے۔تم سنگسار کر دینے کے قابل ہو۔‘‘خالدؓ ڈسپلن کے پابند تھے۔ وہ چپ رہے۔انہوں نے عمرؓ کے غصے کو قبول کرلیا۔ سوہ خاموشی سے مسجد سے نکل آئے اور خلیفۃ المسلمین ابوبکرؓ کے ہاں چلے گئے۔ انہیں ابو بکرؓ نے ہی جواب طلبی کیلئے بلایا تھا۔. ابو بکرؓ کے کہنے پر خالد ؓنے مالک بن نویرہ کے تمام جرائم سنائے اور ثابت کیا کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ مسلمانوں کا دشمن تھا۔ ابو بکرؓ خالد ؓسے بہت خفا ہوئے اور انہیں تنبیہہ کی کہ آئندہ ایسی کوئی حرکت نہ کریں۔ جو دوسرے سالاروں میں غلط رواج کا باعث بنے۔ابو بکرؓ نے (طبری اور ہیکل کے مطابق) فیصلہ سنایا کہ مفتوحہ قبیلے کی کسی عورت کے ساتھ شادی کرلینا اور عدت کا عرصہ پورا نہ کرنا عربوں کے رواج کے عین مطابق ہے۔ اس عورت کو آخر لونڈی بننا تھا۔ یہ اس کے آقا کی مرضی ہے کہ اسے لونڈی بنائے رکھے یا اسے نکاح میں لے لے۔
ابو بکرؓ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اس وقت مسلمان ہر طرف سےخطروں میں گھرے ہوئے ہیں ۔ قبیلے باغی ہوتے جا رہے ہیں ۔اپنے پاس نفری بہت تھوڑی ہے۔ان حالات میں اگر کوئی سالار دشمن کے کسی سردار کو غلطی سے قتل کرا دیتا ہے تو یہ سنگین جرم نہیں۔عمرؓ کو خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓ نے یہ کہہ کر ٹھنڈا کیا کہ’’ اسلام کا ایک بڑا دشمن مسیلمہ بن حنیفہ نے نبوت کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ جنگی طاقت بن گیا ہے۔اس کے پاس کم و بیش چالیس ہزار نفری کا لشکر ہے اور عکرمہ بن ابو جہل اس سے شکست کھا چکے ہیں۔ اب سب کی نظریں خالد کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ اگر مسیلمہ کو شکست نہ دی گئی تو اسلام مدینہ میں ہی رہ جائے گا۔ اس کامیابی کیلئے صرف خالد موزوں ہیں۔‘‘عمرؓ خاموش رہے۔ انہیں بھی ان خطروں کا احساس تھا ۔ابو بکرؓ نے خالد ؓکو حکم دیا کہ فوراً بطاح جائیں اور وہاں سے یمامہ پر چڑھائی کرکے اس فتنے کو ختم کر دیں۔ خالد ؓایک بڑی ہی خطرناک جنگ لڑنے کیلئے روانہ ہو گئے۔دسمبر ۶۳۲ء (شوال ۱۱ہجری) کے تیسرے ہفتے میں خالد ؓبن ولید نے تیرہ ہزار مجاہدین سے مُرتدین کے چالیس ہزار سے زیادہ لشکر کے خلاف یمامہ کے مقام پر وہ جنگ لڑی جسے اسلام کی پہلی خونریز جنگ کہا جاتا ہے۔اس جنگ کا آخری معرکہ ایک وسیع باغ حدیقۃ الرحمٰن میں لڑا گیا تھا۔وہاں دونوں طرف اس قدر جانی نقصان ہوا تھا کہ حدیقۃ الرحمٰن کو لوگ حدیقۃ الموت(موت کا باغ) کہنے لگے۔ آج تک اسے حدیقۃ الموت کہا جاتا ہے۔اس وقت خالدؓ مدینہ میں تھے۔ انہیں خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓنے عمرؓ کی اس شکایت پر جواب طلبی کیلئے مدینہ بلایا تھا کہ انہوں نے مالک بن نویرہ کو قتل کراکے اس کی بیوی لیلیٰ کے ساتھ شادی کرلی تھی۔ابو بکرؓ نے ان حالات کو دیکھتے ہوئے جن میں اسلام گھر گیا تھا۔ خالدؓ کے حق میں فیصلہ دیا اور خالد ؓکو واپس بطاح جانے اور یمامہ کے مسیلمہ کذاب کے فتنے کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔مسیلمہ کذاب کے متعلق بتایا جا چکا ہے کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کر رکھا تھا۔اس کے پیروکاروں کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ اس کا لشکرمسلمانوں کیلئے خطرہ بن گیا تھا ، اس وقت تک مسلمان ایک طاقت بن چکے تھے لیکن مسیلمہ کی طاقت بڑھتی جا رہی تھی۔یہ مدینہ کیلئے بھی خطرہ تھااور اسلام کیلئے بھی۔ مدینہ سلطنت اسلامیہ کا مرکز تھا۔خالدؓ کا لشکر بطا ح میں تھا۔ وہیں انہوں نے مالک بن نویرہ کو سزائے موت دی اور اس کی بیوی لیلیٰ کے ساتھ شادی کی تھی۔لیلیٰ وہیں تھی۔ خالد بطاح کو روانہ ہو گئے۔انہیں معلوم تھا کہ ان کے پرانے ساتھی سالار عکرمہؓ اسی علاقے میں اپنے لشکر کے ساتھ موجود ہیں اور مسیلمہ کذاب کے خلاف مدد کو پہنچیں گے۔ عکرمہؓ بن ابو جہل ان گیارہ سالاروں میں سے تھے جنہیں خلیفۃ المسلمین ؓ نے مختلف علاقوں میں مُرتد اور باغی قبائل کی سرکوبی کیلئے بھیجا تھا۔دوسرے قبیلے اتنے طاقتور نہیں تھے جتنا مسیلمہ کا قبیلہ بنو حنیفہ تھا۔اس لیے اس علاقے میں عکرمہؓ کو بھیجا گیا تھا۔
ان کے پیچھے پیچھے ایک اور سالار شرجیلؓ بن حسنہ کو بھیج دیا گیا۔خلیفہ ابو بکرؓ نے شرجیلؓ کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ عکرمہؓ کو مدد دیں گے۔ عکرمہؓ یمامہ کی طرف جا رہے تھے۔یہ دو اڑھائی مہینے پہلے کی بات ہے ۔اس وقت خالدؓ طلیحہ سے نبرد آزما تھے۔انہوں نے طلیحہ کو بہت بری شکست دی تھی ۔یہ خبر عکرمہؓ تک پہنچی تو وہ جوش میں آ گئے۔انہوں نے ابھی کسی قبیلے کے خلاف جنگی کارروائی نہیں کی تھی۔ کچھ دنوں بعد عکرمہؓ کو خبر ملی کہ خالد ؓ نے سلمیٰ کے طاقتور لشکر کو شکست دی ہے۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ عکرمہؓ پر انسانی فطرت کی ایک کمزور ی غالب آ گئی۔ انہوں نے اپنے ساتھی سالاروں سے کہا کہ خالد فتح پہ فتح حاصل کرتے جا رہے ہیں اور اِنہیں ابھی لڑنے کا موقع بھی نہیں ملا۔ خالدؓ اور عکرمہؓ اسلام قبول کرنے سے پہلے کے ساتھی اور ایک جیسے جنگجو اور میدانِ جنگ کے ایک جیسے قائد تھے۔’’کیوں نہ ہم ایک ایسی فتح حاصل کریں جس کے سامنے خالد کی تمام فتوحات کی اہمیت ختم ہو جائے۔ ‘‘عکرمہؓ نے اپنے ماتحت سالاروں سے کہا۔’’مجھے اطلاع مل چکی ہے کہ شرجیل بن حسنہ ہماری مدد کو آرہا ہے۔معلوم نہیں وہ کب تک پہنچے۔میں زیادہ انتظار نہیں کرسکتا۔ میں مسیلمہ پر حملہ کروں گا۔‘‘مسیلمہ معمولی عقل و ذہانت کا آدمی نہیں تھا۔ اسے معلوم تھا کہ مسلمان اس کی نبوت کو برداشت نہیں کر رہے اورکسی بھی روز اسلامی لشکر اس پر حملہ کردے گا۔ اس نے اپنے علاقے کے دفاع کا بندوبست کر رکھا تھا۔جس میں دیکھ بھال اور جاسوسی کا انتظام بھی شامل تھا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں