رسولِ کریمﷺ کے وصال کے ساتھ ہی ہر طرف بغاوت اور عہد شکنی کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ ایک طوفان صحابہ ؓکے اپنے ہاں اٹھا۔ یہ خلیفۂ اول کے انتخاب کا مسئلہ تھا۔ انصار اور مہاجرین کے درمیان کھچاؤ سا بھی پیدا ہو گیا۔ ابو بکرؓ نے آخر یہ فیصلہ عمرؓ اور ابو عبیدہؓ پر چھوڑا اور کہا کہ یہ دونوں جسے پسند کریں اسے سب خلیفہ مان لیں۔’’آپ مہاجرین میں سب سے افضل ہیں۔‘‘عمرؓ نے فیصلہ ابوبکرؓ کے حق میں دیا اور ان سے کہا۔’’غار میں آپ رسول ﷲﷺ کے رفیق اور نماز پڑھانے میں ان کے قائم مقام رہے ہیں۔ دین کے احکام میں نماز سب سے افضل ہے۔ ہمیں ایسا کوئی شخص نظر نہیں آتا جو آپ سے برتر ہو ۔ بلا شبہ آپ خلافت کے حقدار ہیں۔‘‘ سب سے پہلے عمرؓ نے آگے بڑھ کر ابو بکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اس کے بعد ابو عبیدہؓ اور بشیرؓ بن سعد نے بیعت کی۔ جب اعلانِ عام ہوا کہ ابو بکرؓ خلیفہ رسولﷺ ہوں گے تو لوگ بیعت کیلئے دوڑے آئے۔ مسجدِ نبویﷺ میں بیعت عام ہوئی۔ ابو بکرؓ نے پہلا خطبۂ خلافت دیا:’’لوگو! ﷲ کی قسم‘میں نے خلافت کی خواہش کبھی نہیں کی تھی۔ نہ کبھی دل میں نہ کبھی ظاہری طور پر اس کیلئے ﷲ سے دعا کی تھی۔ لیکن اس ڈر سے یہ بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا لیا کہ اختلاف جھگڑے کی صورت اختیار نہ کر جائے۔ ورنہ خلافت اور امارت میں مجھے کوئی راحت نظر نہیں آئی۔ ایک بوجھ مجھ پر ڈال دیا گیا ہے جسے اٹھانے کی طاقت مجھ میں کم ہے ۔ ﷲ کی مدد کے بغیر میں اس بوجھ کو اٹھا نہیں سکوں گا۔ مجھے تم نے اپنا امیر بنایا ہے ، میں تم سے بہتر اور برتر تو نہ تھا۔ اگر میں کوئی اچھا کام کروں تو میری مدد کرو ۔ کوئی غلطی کر گزروں تو مجھے روک دو۔ تم میں سے جو کمزور ہے ،میں اسے طاقتور سمجھتا ہوں، میں اسے اس کا حق دلاؤں گا۔ تم میں سے جو طاقتور ہے اسے میں کمزور سمجھوں گا اور اسے اس حق سے محروم کردوں گا جس کا وہ حقدار نہیں ۔ میں جب تک ﷲ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کروں تم میری اطاعت کرو۔ اگرمیں انحراف کروں تو میری اطاعت چھوڑ دینا۔‘‘
خلیفۂ اول ابو بکر صدیقؓ نے سب سے پہلا حکم یہ دے کرکہ’’ اسامہؓ کا لشکر رومیوں کے خلاف جائے گا‘‘،سب کو چونکا دیا۔ یہ موقع کسی اور جنگی مہم کیلئے موزوں نہ تھا۔ رومیوں پر حملہ بہت بڑی جنگ تھی جس میں مسلمانوں کی پوری جنگی طاقت کی ضرورت تھی لیکن دوسری طرف یہ صورت پیدا ہو گئی تھی کہ بیشتر قبیلوں نے نہ صرف بغاوت کر دی تھی بلکہ بعض نے مدینہ پر حملہ کیلئے متحد ہونا شروع کر دیا تھا۔ یہودی اور نصرانی خاص طور پر مدینہ کے خلاف سرگرم ہو گئے۔اس کے علادہ جھوٹے پیغمبروں نے الگ محاذ بنا لیے تھے۔
طلیحہ اور خصوصاً مسیلمہ تو جنگی طاقت بن گئے تھے ۔ اسلام بہت بڑے خطرے میں آگیا تھا۔ ابوبکرؓ کے حکم کا پسِ منظر یہ تھاکہ تبوک اور مُوتہ کے معرکوں کے بعد رسولِ ﷲﷺ نے یہ ضروری سمجھا تھا کہ رومیوں پر حملہ کرکے ان کا دم خم توڑا جائے۔ تبوک اور موتہ کے معرکوں میں تو یہ کامیابی حاصل کی گئی تھی کہ ان قبیلوں کو مطیع کر لیا گیا تھا جن کا خطرہ تھا کہ وہ رومیوں کے ساتھ اتحاد کرلیں گے۔ ان رومیوں کو ختم کرناضروری تھا۔ یہ فیصلہ ملک گیری کی خاطر نہیں بلکہ نظریاتی دفاع کیلئے کیا گیا تھا۔ یہودی اور نصرانی اسلام کے خلاف رومیوں کے کیمپ میں چلے گئے تھے۔ رسول ﷲﷺ نے رومیوں پرحملہ کیلئے ایک لشکر تیار کیا تھا جس میں مہاجرین اور انصار کے سرکردہ افراد بھی شامل تھے۔ اس لشکر کے سپہ سالار زیدؓ بن حارثہ کے بیٹے اسامہؓ تھے۔ ان کی عمر بمشکل بیس سال تھی۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اسامہؓ کو رسول ﷲﷺ نے اس لئے سپہ سالار مقرر کیا تھا کہ نوجوانوں میں قیادت کا شوق پیدا ہو اور وہ اپنے آپ میں اسامہؓ جیسی صلاحیتیں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اسامہؓ کو رسولِ کریمﷺ ویسے بھی بہت چاہتے تھے۔ اسامہؓ کے والد زیدؓ بن حارثہ جنگِ موتہ میں شہید ہو گئے تھے۔ اسامہؓ میں لڑکپن میں ہی عسکری صلاحیتیں اور شجاعت پیدا ہو گئی تھی۔ جنگِ احد کے وقت اسامہؓ بچے تھے اس لیے اس جنگ میں شریک نہ ہو سکے لیکن اسلامی لشکر مدینہ سے روانہ ہوا تو اسامہ ؓ رستے میں کہیں چھپ کر بیٹھ گئے۔ جب لشکر ان کے قریب سے گزرا تو وہ لشکر میں شامل ہو گئے۔ ان کی مراد پھر بھی پوری نہ ہوئی۔ انہیں میدانِ جنگ میں دیکھ لیا گیا اور واپس بھیج دیا گیا ۔ البتہ جنگِ حنین میں انہوں نے سب کو دکھا دیا کہ شجاعت کیا ہوتی ہے۔ جب رسولِ ﷲﷺ نے اسامہؓ کو رومیوں پر حملہ کرنے والے لشکر کی سپہ سالاری سونپی تھی تو بعض لوگوں نے اعتراض کیا تھا کہ جس لشکر میں ابو بکرؓ اور عمرؓ جیسے اعلیٰ حیثیت اور تجربے کے بزرگ شامل ہیں ،اس لشکر کی سپہ سالاری کل کے بچے کو دینا مناسب نہیں۔ یہ اعتراض رسول ﷲﷺ تک اس وقت پہنچا جب آپﷺ زندگی کے آخری بخار میں مبتلا تھے۔ آپﷺ میں بولنے کی بھی سکت نہیں تھی۔ آپﷺ نے بخار سے نجات پانے کیلئے اپنی ازواج سے کہا کہ آپﷺ کو غسل کرائیں۔ آپﷺ پر پانی کے سات مشکیزے ڈالے گئے ۔ اس سے بخار خاصا کم ہو گیا۔ نقاہت زیادہ تھی۔ پھر بھی آپﷺ مسجد میں چلے گئے جہاں بہت سے لوگ موجود تھے۔ جن میں اعتراض کرنے والے سرکردہ افراد بھی تھے۔ ’’اے لوگو!‘‘رسول ﷲﷺ نے فرمایا۔’’اسامہ کے لشکر کو کوچ کرنے دو۔ تم نے اس کی سپہ سالاری پر اعتراض کیا ہے۔ تم نے اس کے باپ کی سپہ سالاری پر بھی اعتراض کیا تھا۔ میں اسامہ کو اس منصب کے قابل سمجھتا ہوں۔ اس کے باپ کو بھی میں نے اس منصب کے قابل سمجھا تھا اور تم نے دیکھا کہ میں نے سپہ سالاری اسے سونپ کر غلطی نہیں کی تھی۔‘‘اعتراض ختم ہو گیا اور رومیوں کے خلاف لشکر کوچ کر گیا۔ لیکن جرف کے مقام پر اطلاع ملی کہ رسولِ کریمﷺ کی بیماری تشویشناک صورت اختیار کر گئی ہے۔ اسامہؓ میں نوجوانی میں ہی بزرگوں جیسی دوراندیشی پیدا ہو گئی تھی۔ انہوں نے لشکر کو جرف کے مقام پر روک لیا اور خود رسول ﷲﷺ کو دیکھنے مدینہ آئے
۔ ایک تحریر میں اسامہؓ کا بیان ان الفاظ میں ملتا ہے:’’اطلاع ملی کہ رسول ﷲﷺ کی حالت بگڑ گئی ہے تو میں اپنے چند ایک ساتھیوں کے ساتھ مدینہ آیا، ہم سیدھے رسول ﷲﷺ کے حضور گئے۔ آپﷺ پرنقاہت طاری تھی ،اتنی کہ بول بھی نہ سکتے تھے۔آپﷺ نے دو تین بارہاتھ اٹھا کر آسمان کی طرف کئے اور ہر بار ہاتھ میرے اوپر رکھ دیئے ،میں سمجھ گیا کہ حضورﷺ میرے لئے دعا کر رہے ہیں۔‘‘دوسرے روز اسامہؓ پھر آپﷺ کے حضور گئے اور کہا۔’’ یا رسول ﷲﷺ! لشکر جرف میں میرا منتظر ہے۔ اجازت فرمائیے۔‘‘رسول ﷲﷺ نے ہاتھ اوپر اٹھائے مگر ہاتھ زیادہ اوپر نہ اٹھ سکے۔ ضعف بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔ اسامہؓ دل پر غم کا بوجھ ،آنکھوں میں آنسو لے کرروانہ ہو گئے۔ تھوڑی ہی دیر بعد رسول ﷲﷺ وصال فرماگئے۔ قاصد اسامہؓ کے پیچھے دوڑا اور راستے میں جالیا۔ اسامہؓ نے حضورﷺ کے وصال کی خبر سنی ۔ گھوڑا سرپٹ دوڑایا اپنے لشکر تک پہنچے۔ وصال کی خبر نے لشکر میں کہرام برپا کر دیا۔ اسامہؓ لشکر کو مدینہ لے آئے۔ خلیفۂ اول کی بیعت ہو چکی تھی۔ انہوں نے اسامہؓ کو بلا کر پوچھا کہ رسول ﷲﷺ نے انہیں کیا حکم دیا تھا؟’’یہ حکم تو آپ کو بھی معلوم ہے۔‘‘اسامہؓ نے جواب دیا۔’’مجھ سے ہی سننا ہے تو سن لیں۔ رسول ﷲﷺ نے حکم دیا تھا کہ میں فلسطین میں بلقاء اور دوام کی سرحد سے آگے جاکر رومیوں پر حملہ کروں لیکن وہاں تک لشکر اس طرح پہنچے کہ دشمن کو حملے تک لشکر کی آمد کی خبر تک نہ ہو سکے۔‘‘’’جاؤ اسامہ!‘‘ ابوبکرؓ نے کہا۔’’اپنا لشکر لے جاؤ اور رسول ﷲﷺ کے حکم کی تعمیل کرو۔‘‘لشکر کو جب یہ حکم ملا تو ابو بکر ؓ پر اعتراض ہونے لگے۔سب کہتے تھے کہ جب ہر طرف سے خطروں کے طوفان نے گھیر لیا ہے ،اتنی بڑی جنگ اور وہ بھی اتنی دور ،شروع نہیں کرنی چاہیے۔ اس لشکر کی ان فتنوں کی سرکوبی کیلئے ضرورت ہے جو بڑی تیزی سے اٹھ رہے ہیں۔’’قسم ہے اس ﷲ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔‘‘. ابوبکرؓ نے کہا۔’’اگر مجھے جنگل کے درندے چیرنے پھاڑنے کیلئے آجائیں تو بھی میں اسامہ کے لشکر کو نہیں روکوں گا۔ میں اس حکم کی خلاف ورزی کس طرح کر سکتا ہوں جو رسول ﷲﷺ نے اپنی زندگی میں دیا تھا؟میں اگر مدینہ میں اکیلا رہ گیا تو بھی اس لشکر کو نہیں روکوں گا۔‘‘ ’’تم پر سلامتی ہوابو بکر!‘‘عمرؓ نے کہا۔’’اعتراض کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اگرلشکر کو بھیجنا ہی ہے توسپہ سالاری اسامہ کے بجائے کسی تجربے کار آدمی کو دیں۔‘‘’’اے ابنِ خطاب!‘‘ابو بکرؓ نے جواب دیا۔’’کیا تم بھول گئے ہو کہ اسامہ کو رسول ﷲﷺ نے سپہ سالار مقرر کیا تھا ؟ کیا تم جرات کرو گے کہ رسول ﷲﷺ کے حکم کو منسوخ کردو؟‘‘’’میں ایسی جرات نہیں کروں گا۔‘‘عمرؓ نے کہا۔’’مجھ میں اتنی جرات نہیں۔‘‘’’میری سن ابنِ خطاب!‘‘ابو بکر ؓ نے کہا۔’’اپنی قوم کو دیکھ۔ پوری قوم غم سے نڈھال ہے۔ غم کے ساتھ ساتھ ایک خوف ہے جو ہر کسی کے دل میں اترتا جا رہا ہے۔ یہ خوف ان بغاوتوں کا ہے جو ہمارے اردگرد اٹھ رہی ہیں، ہر روز ایک خبر آتی ہے کہ آج فلاں قبیلہ باغی ہو گیا ہے ۔ بعض قبیلے اسلام سے منحرف ہو گئے ہیں ۔ اسلام بھی خطرے میں آگیا ہے اور مدینہ بھی۔ یہودیوں اور نصرانیوں نے بڑی خوفناک افواہیں پھیلانی شروع کر دی ہیں ۔ ان سے اور زیادہ خوف پھیل رہا ہے۔ اگر ہم نے رومیوں پر حملہ روک لیا تو دو نقصان ہوں گے۔ ایک یہ کہ قوم سمجھے گی کہ ہم کمزور ہو گئے ہیں۔ دوسری یہ کہ رومی اور مجوسی ہم کو کمزور سمجھ کر ہم پر چڑھ دوڑیں گے۔ میں قوم کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم کمزور نہیں ہو گئے۔ ہمارا ﷲ ہمارے ساتھ ہے۔ میں قوم کے حوصلے اور جذبے پہلے کی طرح مضبوط رکھنا چاہتا ہوں۔ رسول ﷲﷺ کے نقشِ قدم پر چلنا میرا فرض ہے۔‘‘عمرؓ کو اس استدلال نے مطمئن کر دیا ۔ ابو بکرؓ نے کوچ کاحکم دے دیا۔ اسامہؓ کا لشکر روانہ ہوا تو ابوبکرؓ کچھ دور تک پیدل ہی ساتھ چل پڑے۔ اسامہؓ گھوڑے پر سوار تھے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ ایک سپہ سالار اور وہ بھی نوجوان ،گھوڑے پر سوارتھا اور خلیفہ اس کے ساتھ ساتھ پیدل جا رہے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ خلیفہ ؓہر کسی کو دِکھانا چاہتے تھے کہ سپہ سالار اسامہؓ تعظیم و تکریم کے قابل ہے۔’’اے خلیفۂ رسولﷺ !‘‘اسامہؓ نے کہا۔’’آپ گھوڑے پر سوار ہو جائیں یا میں آپ کے ساتھ پیدل چلوں گا۔‘‘ ’’نہ میں سوار ہوں گا اور نہ تم پیدل چلو گے۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’میں روحانی تسکین محسوس کر رہا ہوں کہ ﷲ کی راہ کی گَرد میرے پاؤں پر بھی پڑ رہی ہے۔‘‘عمرؓ بھی اس لشکر میں شامل تھے۔ ابو بکرؓ کو محسوس ہوا کہ مدینہ میں انہیں عمرؓ کی ضرورت ہو گی۔ ’’اُسامہ !‘‘خلیفہ نے سپہ سالار سے کہا۔’’اگر تم اجازت دو تو میں عمر ؓکو مدینہ میں رکھ لوں۔ مجھے اس کی مدد کی ضرورت ہو گی۔‘‘ اسامہؓ نے عمرؓ کو لشکر میں سے نکل کر واپس جانے کی اجازت دے دی۔ ابو بکرؓ بہت بوڑھے تھے۔ایک جگہ رک گئے۔ اسامہؓ نے لشکر کو روک لیا۔ ابو بکرؓ نے ذرا بلند جگہ پر کھڑے ہو کر لشکر سے خطاب کیا۔’’اسلام کے مجاہدو!میں تمہیں دس نصیحتیں کرتا ہوں۔ انہیں یاد رکھنا
ا۔خیانت نہ کرنا، چوری نہ کرنا، دشمن کے لاشوں کے اعضاء نہ کاٹنا، بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا، کھجوروں اور پھلوں کے درخت نہ کاٹنا، کھانے کی غرض کے سوا کسی جانور کو ذبح نہ کرنا، تمہیں دوسرے مذاہب کی عبادت گاہیں نظر آئیں گی جن مین تارک الدنیا لوگ بیٹھے ہوں گے انہیں پریشان نہ کرنا، کسی بستی کے لوگ برتنوں میں تمہارے لیے کھانا لائیں گے یہ کھانا ﷲ کا نام لے کر کھانا، تمہیں ایسے لوگ بھی ملیں گے جنہوں نے اپنے سروں میں شیطان کے گھونسلے بنا رکھے ہیں ۔ان کے سروں کے درمیان کا حصہ منڈھا ہوا ہوگا اور باقی بال بہت لمبے لمبے ہوں گے، انہیں قتل کر دینا۔ ا پنی حفاظت ﷲ کے نام سے کرنا، ﷲ حافظ مجاہدو! ﷲ تمہیں شکست اور وبا سے دور رکھے۔‘‘
لشکر کی مدینہ سے روانگی کی تاریخ ۲۴ جون ۶۳۲ء (یکم ربیع الثانی ۱۱ہجری) تھی۔ یہ کہانی چونکہ شمشیرِ بے نیام کی ہے اس لئے ہم وہ واقعات بیان کریں گے جن کا تعلق خالدؓ بن ولید سے ہے۔ رسول ﷲﷺ نے خالدؓ کو ﷲ کی تلوار کہا تھا۔ اسامہؓ کےلشکر کے متعلق اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ انہوں نے صرف چالیس دنوں میں ہی رومیوں کے خلاف وہ کامیابی حاصل کرلی جورسول ِکریمﷺ حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اسامہؓ سالاری کے ہر پہلو پر پورے اترے اور جب وہ فتح یاب ہو کر مدینہ میں آئے تو ان سب نے انہیں گلے لگایا جنہوں نے ان کی سپہ سالاری پر اعتراض کیے تھے۔ دوسری بڑی جنگ مرتدین کے خلاف تھی۔ ابو بکرؓنے اپنی فوج کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے ہر حصے کے سالار مقرر کیے اور ان کیلئے محاذ مقرر کر دیئے۔یعنی ہر سالار کو ایک ایک علاقہ بتا دیا گیا جہاں انہیں حملہ کرنا تھا۔ اس تقسیم میں ابو بکرؓ نے خاص طور پر یہ خیال رکھا تھا کہ ہر دشمن کی طاقت اور لڑنے والی نفری دیکھ کر اس کے مطابق سالار مقرر کیے جائیں۔ سب سے زیادہ طاقتور اور مکار دو مُرتد تھے۔ایک طلیحہ اور دوسرا مسیلمہ،ان دونوں نے نبوت کا دعویٰ کرکے ہزاروں پیروکار پیدا کر لیے تھے۔ خالدؓ بن ولید کو ابو بکرؓ نے حکم دیا کہ وہ طلیحہ کی بستیوں پر حملہ کریں اور اس سے فارغ ہوکر بطا ح کا رخ کریں۔ جہاں بنی تمیم کے سردار مالک بن نویرہ نے بغاوت کر دی تھی۔
تمام سالار اپنے اپنے محاذوں اور مہموں کو روانہ ہو گئے۔ خالدؓ اپنی مہم کے علاقے میں حسبِ عادت اتنی تیزی سے پہنچے کہ دشمن کو خبر تک نہ ہوئی۔ انہوں نے کچھ بستیوں کو گھیرے میں لے لیا تو خالد ؓکے پاس کچھ آدمی آئے اور انہیں بتایا کہ بعض قبیلے طلیحہ کے فریب کا شکار ہیں۔ ان کی خونریزی مناسب نہیں ہو گی۔ اگر خالد ؓ ذرا انتظار کریں تو قبیلہ طئی کے کم و بیش پانچ سو آدمی خالد ؓ کے دستے میں شامل ہو جائیں گے- خالدؓ نے انتظار کیا اور یہ آدمی قبیلہ طئی کے پانچ سو آدمی لے آئے جو طلیحہ کے قبیلے اور اس کے زیرِ اثر قبیلوں کے خلاف لڑنے پر آمادہ تھے۔ وہ مسلح ہو کر آئے تھے۔ اسی طرح قبیلہ جدیلہ بھی خالدؓ کے ساتھ مل گیا۔ طلیحہ کو پتا چلا تو وہ بہت گھبرایا لیکن ایک شخص عُےَنیہ اس کے ساتھ تھا۔ وہ بنی فرازہ کا سردار تھا۔اس کے دل میں مدینہ والوں کے خلاف اتنا عناد بھرا ہوا تھا کہ اس نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ مدینہ والوں کی حکومت کو کسی قیمت پر تسلیم نہیں کر سکتا۔ غزوۂ احزاب میں جن تین لشکروں نے مدینہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا ،ان میں سے ایک لشکر کا سالار یہی شخص عینیہ بن حصن تھا۔ رسولِ کریمﷺ نے اپنے اس اصول کے مطابق کہ دشمن کو تیاری کی حالت میں پکڑو ، مدینہ سے نکل کر ان تینوں لشکروں پر حملہ کر دیا تھا ۔ سب سے زیادہ نقصان عینیہ کے لشکر کو اٹھانا پڑا۔ اس نے مجبور ہو کر اسلام قبول کر لیا تھا لیکن اسلام کے خلاف سر گرم رہا۔ خالدؓ کو پتا چلا کہ طلیحہ کے ساتھ عینیہ ہے تو انہوں نے عہد کیا کہ ان دونوں کو نہیں بخشیں گے۔ خالدؓ نے پیش قدمی سے پہلے اپنے دو آدمیوں عکاشہ بن محصن اور ثابت بن اقرم انصاری کو لشکر سے آگے بھیج دیا کہ وہ دشمن کی نقل و حرکت یا کوئی اور بات دیکھیں جو لشکر کی پیش قدمی کے کام آسکے تو پیچھے اطلاع دیں۔ دونوں چلے گئے اور خالد ؓاپنے دستوں کے ساتھ آگے بڑھتے گئے۔ بہت دور جا کر ان دونوں میں سے کوئی بھی واپس آ تا دکھائی نہ دیا۔ کچھ دور گئے تو تین لاشیں پڑیں ملیں جو خون میں نہائی ہوئی تھیں۔ دو لاشیں انہی دو آدمیوں عکاشہ اور ثابت کی تھیں جنہیں خالد ؓنے آگے بھیجا تھا۔ تیسری لاش کسی اجنبی کی تھی ۔بعد میں جو انکشاف ہوا (طبری اور قاموس کے مطابق) کہ یہ دونوں آگے جا رہے تھے ۔ راستے میں انہیں ایک شخص حبال مل گیا۔ ایک مؤرخ کامل ابنِ اثیر لکھتا ہے کہ حبال طلیحہ کا بھائی تھا لیکن طبری اور قاموس اسے طلیحہ کا بھتیجا لکھتے ہیں،عکاشہ اور ثابت نے اسے للکار کر قتل کر دیا۔ اس کی اطلاع طلیحہ کو مل گئی۔ وہ اپنے بھائی سلمہ کو اپنے ساتھ لے کر آ گیا۔ عکاشہ اور ثابت ابھی اور آگے جا رہے تھے ۔ طلیحہ اور سلمہ نے گھات لگائی اور دونوں کو مقابلے کی مہلت دیئے بغیر ہی قتل کر دیا۔ خالدؓ آگ بگولہ ہو گئے اور طلیحہ کی بستی پر جا دھمکے ۔عینیہ ،طلیحہ کی فوج کی کمان کر رہا تھا اور طلیحہ ایک خیمہ میں نبی بنا بیٹھا تھا۔ عینیہ نے مسلمانوں کا قہر اور غضب دیکھا تو وہ اپنے لشکر کو لڑتا چھوڑ کر عینیہ کے پاس گیا ،وہ طلیحہ کو سچا نبی مانتا تھا۔’’یا نبی! ‘‘عینیہ نے طلیحہ سے پوچھا۔’’مشکل کا وقت آن پڑا ہے ، جبرئیل کوئی وحی لائے ہیں ؟‘‘’’ابھی نہیں۔‘‘ طلیحہ نے کہا۔’’تم لڑائی جاری رکھو۔‘‘ عینیہ دوڑتا گیا اور لڑائی میں شامل ہو گیا ۔ مسلمانوں کا قہر اور بڑھ گیا تھا ۔ خالدؓ کی چالیں جھوٹے نبی کے لشکر کے پاؤں اکھاڑ رہی تھیں۔ عینیہ ایک بار پھر طلیحہ کے پاس گیا۔’’ یا نبی!‘‘اس نے طلیحہ سے پوچھا۔’’کوئی وحی نازل ہوئی؟
جاری ہے......
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں