👈سورۃ الکہف میں چُھپے خزانے 👉
تحریر : کامران الہی ظہیر
میں نے دو سال لگائے سورہ کہف کو سمجھنے میں اور بہت ساری تفاسیر کا مطالعہ کیا جن میں اردو اور عربی کی تفاسیر کا مطالعہ کیا اس کے علاوہ ایک فارسی تفسیر بھی تھی، ہم اس سورۃ کو صرف غار والوں کا واقعہ سمجھتے ہیں مگر اصل مدعا جو ہے اس کی طرف کسی کی نظر ہی نہیں گئی۔
تو اس سورۃ کا مقصود، لب لباب یا سینٹرل آئیڈیا کہہ لیں یہ ہے کہ اللہ اس دنیا میں لوگوں کو آٹھ طرح کے حالات سے آزماتے ہیں، عزت، ذلت، صحت، بیماری، نفع، نقصان، خوشی اور غمی۔
ہر بندہ ہر وقت ان میں سے کسی ایک حال میں ہوتا ہے، ان آٹھ کو اگر تقسیم کریں تو دو دو حالات میں تقسیم ہوں گے یا تو اچھے حالات ہوں گے یا برے یعنی یا تو بندہ عزت میں ہوگا یا ذلت میں، یا صحت ہو گی یا بیماری، تو اللہ دو حالات میں آزماتے ہیں یا تو اچھے یا برے کہ یہ بندہ اچھے حالات میں شکر کرتا ہے یا نہیں اور برے حالات میں صبر کرتا ہے یا نہیں۔
تو دو پیپر بنے ایک شکر کا پیپر اور دوسرا صبر کا پیپر، اب اگر بندے نے اچھے حالات میں شکر کیا تو اس نے پیپر کو پاس کیا اور اگر ناشکری کی تو اس پیپر کو فیل کیا اور اگر صبر کے پیپر میں صبر کیا تو پاس ہوا اور بے صبری کی تو فیل ہوگیا، یہ زندگی دار الامتحان ہے جہاں ہم نے دو پیپر دینے ہیں ایک صبر کا دوسر اشکر کا۔
اللہ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان کو بھی ان دو پیپرز میں آزمایا پہلا شکر کا تھا جو کہ جنت کی نعمتیں تھیں، دوسرا درخت کا پھل تھا جو کھانے سے منع کیا گیا تھا تو یہ صبر کا پیپر تھا جس میں شیطان نے ان کو کامیاب نہ ہونے دیا، سورہ کہف میں پانچ واقعات ہیں۔
حضرت آدم علیہ اسلام کا واقعہ ہے جو کہ اس سورت کا قلب ہے، آیتیں تھوڑی ہیں اس لیے پڑھنے والوں کی توجہ ہی نہیں جاتی، آدم علیہ السلام کے واقعہ سے پہلے دو واقعات عام الناس کے ہیں جن میں سے ایک اصحاب کہف تھے، یہ عام نوجوان تھے اور انہوں نے صبر کا امتحان دیا اور اس پیپر میں پاس ہو کر مقبول بندوں میں شامل ہو گئے۔
دوسرا واقعہ دو باغوں والے شخص کا تھا، یہ بھی عام شخص تھا جس کو مال و دولت دی گئی تھی، اس کا پیپر شکر کا تھا کہ تم نے نعمتوں پر شکر کرنا ہے تو یہ فیل ہو گیا، اس کے بعد آدم علیہ السلام کا واقعہ اور پھر دو واقعات ہیں خواص کے، ایک موسٰی علیہ السلام کا کہ ان سے بھی صبر کا پیپر لیا گیا اور سکندر ذوالقرنین کا شکر کا پیپر تھا اور انہوں نے غرور و تکبر نہیں کیا اور شکر کا پیپر پاس کیا اسی طرح اللہ اولاد آدم سے بھی صبر اور شکر کے پیپر لیتے ہیں۔
کچھ نکات:
اللہ نے اس سورۃ کی شروعات میں اپنی الوہیت کا ذکر کیا اور ختم اپنی ربوبیت کے تذکرے پر کیا۔
شروع سورۃ میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عبدیت کا تذکرہ کیا اور اختتام ان کی بشریت پر کیا۔
انسان کے لیئے دنیا میں سب سے بڑی بلندی عبدیت ہے اسی لیئے انسان ذکر کرتا ہے تاکہ اللہ کی محبت اس کے دل میں آ جائے، اب صرف محبت کا آ جانا مقصود نہیں ہے، جب محبت آ جائے تو پھر محب ہمیشہ محبوب کو راضی کرنے کی فکر میں رہتا ہے اور رضا کیا ہے؟ اللہ کی تقدیر پر راضی رہنا، اگر اللہ اچھے حالات بھیجے تو شکر کرنا اور برے حالات میں صبر کرنا، جب بندے کو یہ مقامِ رضا حاصل ہو جائے تو پھر اس کو مقام عبدیت حاصل ہو جاتا ہے۔
عبد کا لفظ اللہ نے اپنے حبیب کے لیے استعمال کیا، مفسرین کی نظر میں عبد وہ ہوتا ہے جس کو اپنے آقا کے سوا کچھ نظر نہ آئے، بعض کے نزدیک عبد وہ ہوتا ہے جو اپنے آقا سے کسی بات میں اختلاف نہیں کرتا، ہر حال میں راضی رہتا ہے، شکوہ نہیں کرتا۔
چونکہ اس سورہ کو دجال سے حفاظت کے لیے پڑھنے کا ذکر احادیث میں آتا ہے اس لیے کہ یہ ہمیں اس سے بچاتی ہے۔
پہلے دجال کے معنی کو سمجھیں کہ یہ دجل سے نکلا ہے، دجل فریب کو کہتے ہیں اور ملمع سازی کرنے کو کہتے ہیں جس طرح تانبے پر سونے کا پانی چڑھا دیا جائے تو وہ اوپر سے کچھ ہو گا اور اندر سے کچھ اسی طرح دجال بھی اندر سے کچھ اور ہوگا اور باہر سے کچھ اور، آج کے دور میں اسی طرح دجالی تہذیب ہے کہ اوپر سے تو خوش نما نظر آتی ہے مگر اندر سے کچھ اور ہے۔،آج کے دور میں ایمان اور مادیت کی ایک جنگ چل رہی ہے، اب اس دور میں اگر اپنا ایمان بچانا ہے تو ہمیں بھی کہف میں گھسنا ہونا ہوگا، جی ہاں کہف میں۔
آج کے زمانے میں جو کہف ہیں، اگر انسان ان میں داخل ہو جائے تو وہ دجال کے فتنے سے بچ سکتا ہے، جو قرآن کے ساتھ نتھی ہو جاتا ہے اس کو پڑھنا، سیکھنا، سمجھنا شروع کر دیتا ہے تو وہ بھی اپنا دین بچا لیتا ہے اور قرآن اس کے لئیے کہف بن جاتا ہے۔
احادیث کے مطابق جو بھی مکہ اور مدینہ میں داخل ہو جائے وہ بھی دجال سے محفوظ رہے گا، انسان اپنے ایمان کو بچا لیتا ہے اور دجال سے محفوظ ہو جاتا ہے، اس سورت کا ہر واقعہ ہمیں ایک سبق سکھاتا ہے کہ کس طرح ہم نے خود کو دجال سے بچانا ہے۔
اصحاب کہف کے قصے سے یہ سبق ملا کہ ہم کو اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے کسی نہ کسی کہف میں پناہ لینی ہے تاکہ ہم اپنا ایمان بچا لیں اور دجال سے محفوظ رہیں۔
صاحب جنتین کے قصے سے یہ سبق ملا کہ اللہ نے جو مال دیا اس کو اپنی طرف منسوب نہ کرے جیسا کہ اس باغ والے نے کیا اور پکڑ میں آ گیا اور اس نعمت سے محروم کر دیا گیا۔
حضرت آدم علیہ السلام کے واقعے سے یہ سبق ملا کہ یہ دنیا ہمارے لیئے دار اقامت ہے، ہمارا اصلی وطن جنت ہے، دنیا میں رہ کر دنیا کو اپنا اصلی وطن سمجھ لینا اور ساری محنتیں اور ساری امیدیں دنیا پر لگا دینا بے وقوفی کی بات ہے، شیطان بدبخت نے ہمیں جھوٹی قسمیں کھا کھا کر اصلی وطن سے نکالا تھا، اب یہاں بھی یہ ہمارا دشمن ہے اور ہم سے گناہ کرواتا ہے تاکہ دوبارہ جنت میں جانے کے قابل نہ رہیں، اللہ شر سے بچائے اور ہمارے اصلی گھر جنت میں پہنچا دے، آمین۔
موسٰی علیہ السلام کے واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہم دنیا میں جتنا بھی علم حاصل کر لیں دنیا میں کوئی نا کوئی ہم سے بھی بڑھ کر جاننے والا ہوگا، انسان کبھی بھی اشیاء کی حقیقت کا احاطہ نہیں کر سکتا، جب ہم یہ سمجھیں گے کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں تو پھر ہم دجال فتنے میں پھنس جائیں گے اس لیے اللہ نے موسی علیہ السلام کا واقعہ بیان کر دیا تاکہ ہم لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ہمیں سب پتا ہے بلکہ یہ کہیں کہ اللہ ہی حقیقت حال کو جانتے ہیں، علم اور بھی اس سے کہیں زیادہ ہے جو ہمارے پاس نہیں ہے، اسی لیئے سورہ کہف انسان کو دجال کے فتنے سے محفوظ رکھتی ہے اور اس کی ذہن سازی کرتی ہے اور ایسا ذہن بناتی ہے کہ بندے کا ذہن محفوظ ہو جاتا ہے۔
حضرت ذوالقرنین کے واقعے سے سبق ملا کہ حضرت ذوالقرنین جہاں گئے وہ ان کے کوئی دوست رشتے دار نہیں تھے یا کوئی جاننے والے نہیں تھے کیوں کہ وہ تو ان کی زبان تک نہیں جانتے تھے لیکن پھر بھی انہوں نے ان لوگوں کی مدد کی کیوں کہ وہ اللہ کی رضا کے لیے اللہ کے بندوں کو نفع پہنچاتے تھے، ان سے کوئی پیسہ وغیرہ نہیں مانگتے تھے بلکہ جب انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو اس کے لیے پیسے دیں گے تو انہوں نے انکار کر دیا، دوسرا یہ کہ وہ اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون نافذ کرتے تھے، جب ان کو اختیار دیا گیا کہ آپ اس قوم کے ساتھ جو سلوک چاہیں کریں مطلب چاہیں تو سزا دیں یا اچھا سلوک کریں تو انہوں نے اس قوم کو اللہ کی طرف بلایا تھا اور اپنے اختیار اور طاقت کو اللہ کے قانون کے نفاذ میں استعمال کیا۔
سورہ کہف میں پہلے پانچ واقعات بیان کر کے بندے کی ذہن سازی کی گئی اور اب آخری آیات میں اس ساری سورت کا نچوڑ بیان کیا جا رہا ہے جو کہ تین باتیں ہیں:
1- جو لوگ دنیا ہی کو بنانے میں لگے رہتے ہیں درحقیقت وہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں، ہر وقت دنیا اور اس کی لذت کو پانے کی فکر میں رہنا ہے دجالی فتنہ ہے لہٰذا فقط دنیا ہی کی فکر میں نا رہیں بلکہ آخرت کی بھی سوچیں۔
2- اس کے بعد اللہ نے اپنی صفات کو بیان فرمایا کہ اگر تم اپنے رب کی تعریفوں کو بیان کرو اور سمندر سیاہی بن جائیں اور دوسرا سمندر بھی اس میں ڈال دیا جائے تو تم پھر بھی اپنے رب کی تعریف بیان نہ کر سکو گے۔
3- آخر میں بتایا کہ جو اپنے رب کا دیدار کرنا چاہے جو کہ سب سے بڑی اور سب سے بڑھ کر نعمت ہے، اس کا کیا طریقہ بتایا کہ وہ شخص جو کام کرے صرف اللہ کریم اور نبی کریم ﷺ کی خوشی کے لئے کرے اور جو ایسا کرے گا اللہ اس کو اپنا دیدار عطا کریں گے.....
التماسِ دعا:
اللّٰہُمَ صَلِ٘ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰٓی اٰلِ مُحَّمَدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ عَلٰٓی اٰلِ اِبْرٰہِیْمَ اِنَّکَ حٓمِیٌدٌ م٘ٓجِیُد۔
اللّٰہُمَ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰٓی اٰلِ مُحَّمَدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ عَلٰٓی اٰلِ اِبْرٰہِیْمَ اِنَّکَ حٓمِیٌدٌ م٘ٓجِیُد۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں