شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 22

 




شمشیرِ بے نیام

 حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

( قسط 22 )

آزاد نے کمرے کا دروازہ ذرا کھولا اور باہر دیکھا ۔اس غلام گردش کے اگلے سرے پرایک پہرہ دار کھڑا رہتا تھا۔ وہ سائے کی طرح کھڑا نظر آ رہا تھا۔ صاف پتا چلتا تھا کہ اس طرف اس کی پیٹھ ہے۔ آزاد اپنے کمرے سے نکلی اور دبے پاؤں اسود کے کمرے کا دروازہ کھولا۔ ہلکی روشنی والا ایک فانوس جل رہا تھا۔ اسود پیٹھ کے بل بستر پر پڑا خراٹے لے رہا تھا۔ مؤرخ بلاذری نے اس دور کی تحریروں کے دو حوالے دے کر لکھا ہے کہ جب آزاد اسود کو دیکھ کر واپس آئی تو اس کاانداز ایسا تھا، جیسے ایک شعلہ آیا ہو۔ یہ انتقام اور نفرت کا شعلہ تھا۔’’آؤ فیروز !‘‘اس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔’’وہ بے ہوش پڑا ہے۔‘‘ فیروز آزاد کے ساتھ کمرے سے نکل گیا اور دبے پاؤں آزاد کے پیچھے اسود کے کمرے میں داخل ہوا۔ اسود جنگلی سانڈ جیسا انسان تھا ۔ کمرے میں شراب اور گناہوں کا تعفن تھا۔ جانے ایسے کیوں ہوا ،اسود بیدار ہو گیا۔ اپنے وزیر اور اپنی حسین ایرانی بیوی کو دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھا ۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ آزاد کو وہ قابلِ اعتماد سمجھتا تھا۔ فیروز کو دیکھ کر اسے کچھ شک ہوا ہو گا۔’’اس وقت کیا مصیبت آ گئی ہے؟‘‘اسود نے نشے سے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں پوچھا۔ فیروز نے ایک لمحہ ضائع نہ کیا۔ تلوار کھینچی اور پوری طاقت سے اسود کی گردن پر وار کیا۔ اسود نے گردن بچا لی اور تلوار اس کے ننگے سر پر لگی۔ اسود کے منہ سے چیخ نما آوازیں نکلیں اور بستر سے لڑھک کر دوسری طرف گرا۔ غلام گردش میں دوڑتے قدموں کی دھمک سنائی دی۔ آزاد تیزی سے باہر نکلی اور دروازہ بند کر لیا۔ پہرہ دار دوڑا آرہا تھا۔ آزاد نے تیزی سے آگے بڑھ کرپہرہ دار کو روک لیا ۔کمرے سے اسود کی ہلکی ہلکی آوازیں آ رہی تھیں ۔’’واپس اپنی جگہ چلے جاؤ۔‘‘آزاد نے پہرہ دار کو تحکمانہ لہجے میں کہا۔’’رحمٰن الیمن کے پاس فرشتہ آیا ہوا ہے۔ وحی نازل ہو رہی ہے ۔ جاؤ ادھر نہ آنا۔‘‘

مؤرخ بلاذری نے لکھا ہے کہ پہرہ دار نے احترام سے سر جھکا لیا اور چلا گیا۔ آزاد اندر آئی تو دیکھا کہ اسود فرش سے اٹھ کر بستر پر گر رہا ہے ،اور فیروز دوسرے وار کیلئے آگے بڑھ رہا ہے ۔ اسود بستر پرگر پڑا ۔ اس کا سر پلنگ کے بازو پر تھا اور سانڈوں کی طرح ڈکار رہا تھا۔’’تم اسے مار نہیں سکو گے فیروز ۔‘‘آزاد نے آگے بڑھ کر کہا اور اسود کے بال جو لمبے تھے۔ہاتھوں سے پکڑ کر نیچے کو کھینچے اور وہ خود فرش پر بیٹھ گئی۔’’ اب فیروز، گردن کاٹ دو۔‘‘فیروز نے ایک ہی وار سے اسود کی گردن صاف کاٹ کر سر جسم سے الگ کر دیا۔ فیروز کے ساتھیوں قیس عبدیغوث اور داذویہ کو معلوم تھا کہ آج رات کیا ہونے والا ہے۔ فیروز نے اسود کا سر اٹھایا اور ان دونوں کے ہاں جا پہنچا۔ محافظوں اور پہرہ داروں کو رحمٰن الیمن کے قتل کی خبر ملی تو انہوں نے محل کو محاصرے میں لے لیا۔ آزاد فیروز کے ساتھ رہی۔ محل میں بھگدڑ مچ گئی۔ حرم کی عورتوں کا ہجوم چیختا چلاتا باہر کو بھاگا۔


ادھر رسول ﷲﷺ کے بھیجے ہوئے قیس بن ہبیرہ اور دبر بن یحنس سرکردہ مسلمانوں کو بغاوت پر آمادہ کر چکے تھے اور دن رات زمین دوز سرگرمیوں سے مسلمانوں کے حوصلے بحال کر چکے تھے۔ اگلی صبح صادق میں کچھ وقت باقی تھا ۔ محل کی چھت سے اذان کی آواز بلند ہوئی ۔ لوگ حیران ہوئے کہ محل میں اذان؟ لوگ محل کی طرف دوڑے ۔ اسود کی فوج حکم کی منتظر تھی لیکن حکم دینے والا قیس عبدیغوث تھا۔ وہی سپہ سالار تھا ۔ اس نے فوج کو باہر نہ آنے دیا۔ اسود کا سر محل کے باہر لٹکا دیا گیا ۔ محل کی چھتوں سے للکار بلند ہو رہی تھی ’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمدﷺ ﷲ کے رسول ہیں اور اسود عنسی کذاب ہے ۔‘‘اسود کے پیروکاروں پر خوف طاری ہو گیا اور مسلمان مسلح ہو کر نکل آئے اور انہوں نے یمنیوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔مصر کے مشہور صحافی اور سابق وزیرِ معارف محمد حسین ہیکل نے اپنی کتاب’’ ابو بکرؓ۔ صدیق اکبرؓ‘‘میں فیروز کی زبانی ایک روایت پیش کی ہے۔ فیروز نے کہا تھا۔’’اسود کو قتل کر کے ہم نے وہاں کا انتظام پہلے کی طرح رہنے دیا۔ یعنی جس طرح اسود کے تسلط سے پہلے تھا ۔ ہم نے قتل کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ معاذؓ بن جبل کو بلایا کہ وہ ہمیں  باجماعت نماز پڑھائیں ۔ہم بے انتہا خوش تھے کہ ہم نے اسلام کے اتنے بڑے دشمن کو ختم کر دیا ہے ۔ لیکن اچانک اطلاع ملی کہ رسولِ ﷲﷺ وصال فرما گئے ہیں ۔ اس خبر سے یمن میں ابتری سی پھیل گئی۔‘‘فیروز کو مسلمانوں نے صنعاء کا حاکم مقررکردیا۔ یہ واقعہ مئی ۶۳۲ء کا ہے۔ قیس بن ہبیرہ اور دبر بن یحنس جون ۶۳۲ء کے دوسرے ہفتے میں یہ خوشخبری لے کر مدینہ پہنچے کہ جھوٹا نبی اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے اور یمن پر اسلامی پرچم لہرا دیا گیا ہے لیکن مدینہ سوگوار تھا ۔۵ جون ۶۳۲ء )۱۲ ربیع الاول ۱۱ ہجری( رسولِ ﷲﷺ وصال فرما گئے تھے۔رسول ﷲﷺ کے وصال کی خبر جوں جوں پھیلتی گئی، یہ جنگل کی آگ ہی ثابت ہوئی۔جہاں پہنچی وہاں شعلے اٹھنے لگے۔ یہ شعلے بغاوت کے تھے۔ ایک تو اسلام کے دشمن تھے جنہوں نے اپنی تخریبی سرگرمیاں تیز کردیں۔ دوسرے وہ قبائل تھے جنہوں نے صرف اس لئے اسلام قبول کیا تھا کہ ان کے سردار مسلمان ہو گئے تھے۔ ایسے قبیلے اتنے زیادہ نہیں تھے جنہوں نے سچے دل سے اسلام قبول کر لیا تھا۔ باقی تمام قبیلے اسلام سے نہ صرف منحرف ہو گئے بلکہ انہوں نے مدینہ کے خلاف عَلَمِ بغاوت بلند کر دیا اور مدینہ پر حملہ کی باتیں کرنے لگے۔


خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ نے باغی قبیلوں کو پیغام بھیجے کہ وہ اسلام کو نہ چھوڑیں ۔ قاصد جہاں بھی گئے وہاں سے انہیں جواب ملا کہ ہمارا قبولِ اسلام صرف ایک شخص رسولِ کریمﷺ کے ساتھ معاہدہ تھا۔ وہ شخص نہیں رہا تو معاہدہ بھی نہیں رہا۔ اب ہم آزاد ہیں اور ہم اپنا راستہ اختیار کریں گے۔ تیسرا اور سب سے خطرناک فتنہ جھوٹے مدعیان نبوت کا تھا۔ رسولِ کریمﷺ کی زندگی میں ہی نبوت کے جھوٹے دعویدار پیدا ہو گئے تھے۔ ان کی پشت پناہی رومی،ایرانی اور یہودی کر رہے تھے۔ان جھوٹے نبیوں میں ایک خوبی مشترک تھی ۔ وہ شعبدے باز اور جادوگر تھے۔ شعبدے بازی اور جادو گری میں یہودی ماہر تھے۔ اَسوَد عنسی کا ذکر ہو چکا ہے۔ وہ بھی شعبدہ باز تھا۔ نبوت کے دوسرے دو دعویدار طلیحہ اور مسیلمہ تھے۔ مسیلمہ خاص طور پر شعبدے بازی میں مہارت رکھتا تھا۔ ایسے شعبدے پہلے کوئی نہ دکھا سکا تھا۔ مثلاًوہ پرندے کے پر اس کے جسم سے الگ کر کے دکھاتا پھر پرندے اور پروں کو اکھٹے ہاتھوں میں لے کر اوپر پھینکتا تو پر پرندے کے ساتھ ہوتے اور وہ پرندہ اڑ جاتا۔ مسیلمہ بد صورت انسان تھا۔ اس کے چہرے پر ایسا تاثر تھا جیسے یہ انسان کا نہیں حیوان کا چہرہ ہو۔ خدوخال بھی حیوانوں جیسے تھے۔ اس کا قد چھوٹا تھا۔ چہرے کا رنگ زرد تھا لیکن اس کے جسم میں غیر معمولی طاقت تھی۔ اس کی آنکھیں غیر قدرتی طور پر چھوٹی اور ناک چپٹی تھی۔ یہ ایک بھدے آدمی کی تصویر ہے جسے کوئی بد صورت انسان بھی پسند نہیں کر سکتا۔ مگر جو عورت خواہ وہ کتنی ہی حسین اور سرکش کیوں نہ ہوتی ،اس کے قریب جاتی تو اس کی گرویدہ ہو جاتی اور اس کے اشاروں پر ناچنے لگتی تھی۔ مسیلمہ نے رسول ﷲﷺ کی زندگی میں ہی نبوت کا دعویٰ کیا تھا،اور دو قاصدوں کے ہاتھ ایک خط ان الفاظ میں لکھا تھا:’’مسیلمہ رسول ﷲ کی جانب سے،محمد رسول ﷲ کے نام! آپ پر سلامتی ہو۔ بعدہٗ واضح ہو کہ میں رسالت میں آپ کا شریک بنایا گیا ہوں ۔ لہٰذہ نصف زمین میری ہے اور نصف قریش کی ۔ مگر قریش انصاف نہیں کر رہے۔‘‘رسول اکرمﷺ نے خط پڑھا اور قاصدوں سے پوچھا کہ مسیلمہ کے اس عجیب و غریب پیغام کے متعلق ان کی کیا رائے ہے؟’’ہم وہی کہتے ہیں جو خط میں لکھا ہے۔‘‘ایک قاصد نے جواب دیا۔’’ ﷲ کی قسم!‘‘رسول ﷲﷺ نے کہا۔’’اگر قاصدوں کے قتل کو میں روا سمجھتا تو تم دونوں کے سر تن سے جدا کر دیتا۔‘‘

آپﷺ نے مسیلمہ کو اس خط کے جواب میں لکھوایا:’’بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم! محمد رسول ﷲﷺ کی جانب سے ،مسیلمہ کذاب کے نام۔ زمین ﷲ کی ہے،وہ اپنے متقی بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے۔‘‘اس کے بعد مسیلمہ کو سب’’ کذاب‘‘ کہنے لگے اور اسلام کی تاریخ نے بھی اسے ’’مسیلمہ کذاب‘‘ ہی کہا ہے۔ رسولِ ﷲﷺ ان دنوں بسترِ علالت پہ تھے۔آپﷺ نے ضروری سمجھا کہ جس شخص نے یہ جسارت کی ہے کہ رسولِ کریمﷺ سے زمین کا مطالبہ کر دیا ہے ،اس کی سرگرمیوں اور لوگوں پراس کے اثرات کو فوراً ختم کیا جائے۔ آپﷺ کی نگاہ ایک شخص نہاراً الرّجال پر پڑی۔ اس شخص نے اسلام قبول کرکے دین کی تعلیم حاصل کی تھی۔ قرآن کی آیات پر اسے عبور حاصل تھا اور وہ عالم و فاضل کہلانے کے قابل تھا۔رسولِ ﷲﷺ نے اسے بلا کر ہدایات دیں کہ وہ یمامہ جائے اور لوگوں کو اسلامی تعلیم دے۔ آپﷺ نے الرّجال کو اچھی طرح سمجھایا کہ مسیلمہ کے اثرات زائل کرنے ہیں تاکہ خون خرابے کے بغیر ہی یہ شخص گمنام اور اس کا دعویٰ بے اثر ہو جائے۔رسول ﷲﷺ کے حکم کی تعمیل میں الرّجال روانہ ہو گیا۔ مسیلمہ بن حبیب جو مسیلمہ کذاب کے نام سے مشہور ہوا تھا۔ رات کو اپنے دربار میں بیٹھا تھا۔ شراب کا دور چل رہا تھا۔ دربار میں اس کے قبیلے کے سرکردہ افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ سب اسے ﷲ کا رسول مانتے تھے۔ اس نے اپنے مذہب کو اسلام ہی کہا تھا۔ لیکن کچھ پابندیاں ہٹا دی تھیں مثلاً اس نے اپنی ایک آیت گھڑ کر اپنے پیروکاروں کو سنائی کہ اس پر وحی نازل ہو ئی ہے کہ شراب حلال ہے ۔ دیگر عیش و عشرت کو بھی اس نے حلال قرار دے دیا ہے۔ اس کا دربار جنت کا منظر پیش کر رہا تھا۔ نہایت حسین اور جوان لڑکیاں اس کے دائیں بائیں بیٹھی تھیں اور دو اس کے پیچھے کھڑی تھیں اور دو اس کے پیچھے کھڑی تھیں۔ مسیلمہ کسی لڑکی کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر اور کسی کے گالوں کو تھپک کر بات کرتا تھا۔ ایک آدمی دربار میں آیا ،وہ بیٹھا نہیں کھڑا رہا۔ سب نے اس کی طرف دیکھا ۔ مسیلمہ نے جیسے اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہی نہ سمجھی ہو ۔اسے معلوم تھا کہ وہ کسی کے کہے بغیر بیٹھ جائے گا مگر وہ کھڑا رہا۔’’کیا تو ہم پر پہرہ دینے آیا ہے؟‘‘مسیلمہ نے اسے کہا۔’’یا تو ﷲ کے رسول کے حکم کے بغیربیٹھ جانا بد تہذیبی سمجھتا ہے۔‘‘ ’’ﷲ کے رسول!‘‘ اس آدمی نے کہا۔’’ایک خبر لایا ہوں……مدینہ سے ایک آدمی آیا ہے۔ وہ بہت دنوں سے یہاں ہے اور وہ ان لوگوں کو جنہوں نے کبھی اسلام قبول کیا تھا، بتاتا پھر رہا ہے کہ سچا رسول محمدﷺ ہے اور باقی سب کذاب ہیں ۔میں نے خود اس کی باتیں سنی ہیں ۔اس کا نام نہاراً الرّجال ہے۔‘‘


نہاراً الرّجال؟‘‘دربارمیں بیٹھے ہوئے دو آدمی بیک وقت بولے پھر ایک نے کہا۔’’وہ مسلمانوں کے رسولﷺ کا منظورِ نظر ہے ۔میں اسے جانتا ہوں ۔ اس کے پاس علم ہے۔‘‘ ’’ایسے شخص کو زندہ نہ چھوڑیں ۔‘‘دربار میں بیٹھے ہوئے ایک آدمی نے گرج کر کہا۔’’اے خدا کے رسول! ‘‘ایک اور آدمی نے اٹھ کر کہا۔’’کیا تو مجھے اجازت نہیں دے گا کہ میں اس بد بخت کا سر کاٹ کر تیرے قدموں میں رکھ دوں؟‘‘’’نہیں۔‘‘مسیلمہ کذاب نے کہا ۔’’اگروہ عالم ہے اور اس نے محمدﷺ کے قرآن کی تعلیم حاصل کی ہے تو میں اسے کہوں گا کہ میرے دربار میں آئے اور مجھے جھوٹا ثابت کرے۔ میں اسے قتل نہیں ہونے دوں گا ……اسے کل رات میرے پاس لے آنا۔ اسے یقین دلانا کہ اسے قتل نہیں کی جائے گا۔‘‘الرّجال کو مسیلمہ کے ایک آدمی نے کہا کہ اسے ﷲ کے رسول مسیلمہ بن حبیب نے اپنے ہاں مدعو کیا ہے۔’’کیا وہ میرے قتل کا انتظام یہیں نہیں کر سکتا تھا؟‘‘الرّجال نے کہا۔’’میں اسے ﷲ کا رسول نہیں مانتا ۔ مجھ پہ یہ لازم نہیں کہ میں اس کا حکم مانوں۔‘‘’’وہ جہاں چاہے تمہیں قتل کرا سکتا ہے۔‘‘مسیلمہ کے ایلچی نے کہا۔’’اس میں یہ طاقت بھی ہے کہ پھونک مار دے تو تیرا جسم مردہ ہو جائے ۔ وہ تجھے زندہ دیکھنا اور رخصت کرنا چاہتا ہے۔‘‘مسلمانوں نے الرجال سے کہا کہ وہ اس کذاب کے ہاں نہ جائے۔

’’یہ میری زندگی اور موت کا سوال نہیں۔‘‘الرجال نے کہا۔’’یہ صداقت اور کذاب کا سوال ہے۔ اگر ایک کذاب کو صدق سے بہرہ ور کرنے میں میری جان چلی جاتی ہے تو یہ سودا مہنگا نہیں۔‘‘’’میں آؤں گا۔‘‘الرجال نے کہا۔’’آج ہی رات آؤں گا۔ مسیلمہ سے کہنا کہ تواگر سچا نبی ہے تو اپنے وعدے سے پھر نہ جانا۔‘‘ ایلچی نے مسیلمہ کذاب کو الرجال کا جواب بتایا۔ الرجال یمامہ کے قلعے میں رہتا تھا۔ مشہور مؤرخ طبری نے لکھا ہے کہ مسیلمہ اپنے خاص مہمانوں کیلئے بڑا خوشنما خیمہ نصب کرایا کرتا تھا۔جس کی ساخت مکان جیسی ہوتی تھی ۔ یہ خیمہ اندر سے بڑے دلفریب طریقوں اور کپڑوں سے سجایا جاتا تھا۔ صحرا کی راتیں سرد ہوتی تھیں۔ اس لیے مسیلمہ خیمہ میں بڑا خوبصورت آتش دان رکھوادیا کرتا تھا۔ اس آتش دان میں وہ کوئی چیز یا ایسی جڑی بوٹی رکھ دیا کرتا تھا،جس کی خوشبو عطر کی طرح کی ہوتی تھی، لیکن یہ خوشبو اس پر ایسا اثر کرتی تھی جیسے اس خیمے میں سونے والے کو ہپناٹائز کرلیا گیا ہو۔ مسیلمہ کا شکار بے ہوش یا بے خبر نہیں ہوتا تھا، بلکہ وہ مسیلمہ کے اشاروں پر ناچنے لگتا تھا۔ خود مسیلمہ پر اس کا یہ اثر نہیں ہوتا تھا۔ مسیلمہ کذاب کو جب یہ اطلاع ملی کہ الرجال آ رہا ہے تو اس نے اپنا مخصوص خیمہ نصب کرایا اور اس میں وہ تمام انتظامات کرا دیئے جو وہ کرایا کرتا تھا۔ اس نے رات کیلئے آتش دان بھی رکھوادیا۔


الرجال آیا تومسیلمہ نے باہر آ کر اس کا استقبال کیا۔’’تم ایک رسول کے بھیجے ہوئے آدمی ہو۔‘‘مسیلمہ نے کہا۔’’اور میں بھی رسول ہوں۔ اس لیے تمہارا احترام میرا فرض ہے۔‘‘’’میں صرف اسے رسول مانتا ہوں جس نے مجھے یہاں بھیجا ہے۔‘‘الرجال نے کہا۔’’اور میں تمہیں یہ کہتے ہوے نہیں ڈروں گا کہ تم کذاب ہو۔‘‘مسیلمہ مسکرایا اور الرجال کو خیمے میں لے گیا۔

تاریخ میں اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ خیمے میں مسیلمہ اور الرجال کے درمیان کیا باتیں ہوئیں۔ کیسی سودے بازی یا کیسا شعبدہ یا جادو تھا کہ اگلی صبح جب الرجال خیمے سے نکلا تو تو اس کے منہ سے پہلی بات یہ نکلی کہ’’ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسیلمہ ﷲ کا سچا رسول ہے،اور اس پر وحی نازل ہوتی ہے۔‘‘اس نے یہ بھی کہا ’’میں نے محمدﷺ کو یہ بھی کہتے ہوئے سنا ہے کہ مسیلمہ سچا نبی ہے۔‘‘الرجال کی حیثیت صحابی کی سی تھی اس لیے مسلمانوں نے اس پر اعتبار کیا،الرجال بنو حنیفہ سے تعلق رکھتا تھا ۔ الرجال کا اعلان سن کر بنو حنیفہ کے لوگ جوق در جوق مسیلمہ کو ﷲ کارسول مان کر اس کی بیعت کو آگئے۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ مسیلمہ نے یہ سوچ کر الرجال کو قتل نہیں کرایا تھا کہ وہ عالم ہے اور صحابی کا درجہ رکھتا ہے ۔ اگر اسے ہاتھ میں لے لیا جائے تو بیعت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے گا۔ چنانچہ اس شخص کو ہاتھ میں لینے کیلئے آتش دان کا اور اپنی زبان کا جادو چلایا اور الرجال کو اپنا دستِ راست بنالیا۔ الرجال نے مسیلمہ کی جھوٹی نبوت میں روح پھونک دی۔ اکثر ماں باپ اپنے نوزائیدہ بچوں کو رسولِ کریمﷺ کے پاس لاتے اور آپﷺ بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا کرتے تھے۔الرجال نے مسیلمہ کذاب کو مشورہ دیا کہ وہ بھی نوزائیدہ بچوں کے سروں پر ہاتھ پھیرا کرے۔ مسیلمہ کو یہ بات اچھی لگی، اس نے کئی نوزائیدہ بچوں اور بچیوں کے سروں پر ہاتھ پھیرا۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ بچے جب سنِ بلوغت میں داخل ہوئے تو ان کے سروں کے بال اس طرح جھڑ گئے کہ کسی مرد یا عورت کے سر پر ایک بھی بال نہ رہا۔ اس وقت تک مسیلمہ کو مرے ہوئے زمانہ گزر گیا تھا۔ اس دوران ایک عورت نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا۔ اس کا نام سجاّع تھا۔ وہ الحارث کی بیٹی تھی۔ اسے اُمِ سادرہ بھی کہا جاتا تھا۔ اس کی ماں عراق کے ایک قبیلے سے تھی اور باپ بنو یربوع سے تعلق رکھتا تھا۔ الحارث اپنے قبیلے کا سردار تھا۔ سجاع بچپن سے خود سر اورآزاد خیال تھی۔ وہ چونکہ سرداروں کے خاندان میں جنی پلی تھی اس لئے دوسروں پر حکم چلانا اس کی سرشت میں شامل تھا۔ وہ غیر معمولی طور پر ذہین اور عقلمند نکلی۔ ایک دو مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ غیب دان بھی تھی اور وہ آنے والے وقت کو قبل از وقت جان لیتی تھی۔ اس کے متعلق اختلافِ رائے بھی پایا جاتا ہے ۔ لیکن یہ بات سب نے متفقہ طور پر کہی ہے کہ سجاع قدرتی طور پر شاعرہ تھی ہر بات منظوم کرتی تھی۔ اس کی زبان میں چاشنی تھی ۔ اس کی ماں کا قبیلہ عیسائی تھا اس لئے سجاع نے بھی عیسائیت کو ہی پسند کیا۔ سجاع کے کانوں میں یہ خبریں پڑیں کہ طلیحہ اور مسیلمہ نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور لوگ ان کی بیعت کر رہے ہیں تو اس نے بھی نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ وہ جوان ہو چکی تھی۔ خدا نے اسے دیگر اوصاف کے علاوہ حسن بھی دیاتھا۔ اس کے سراپا اور چہرے پر ایسا تاثر تھا کہ لوگ اس سے مسحور ہو کر اسے نبی مان لیتے تھے۔ بہت سے لوگ اس کی شاعری سے متاثر ہوئے۔ وہ صرف نبی بن کے کہیں بیٹھنا نہیں چاہتی تھی۔اس نے اپنے پیروکاروں کی ایک فوج تیار کرلی،اور بنی تمیم کے ہاں جا پہنچی،ان قبائل کے جو سردار تھے،وہ رسولِ اکرمﷺ کے مقرر کیے ہوئے تھے۔ یہ تھے زبرقان بن بدر، قیس بن عاصم، وکیع بن مالک اور مالک بن نویرہ۔سجاع نے مالک بن نویرہ کو اپنے پاس بلایا اور اسے کہا کہ وہ مدینہ کو تہہ تیغ کرنے آئی ہے اور بنی تمیم اس کا ساتھ دیں-

مالک بن نویرہ نے اسے بتایا کہ کئی قبیلے اسے پسند نہیں کرتے۔ پہلے انہیں زیر کرنا ضروری ہے۔ سجاع زیرکرنے کا مطلب کچھ اور سمجھتی تھی۔ اس کے پاس اچھا خاصا لشکر تھا۔ مالک نے اس میں اپنی فوج شامل کردی اور قبیلوں کی بستیوں پر حملہ آور ہوئے۔ قبیلے ان کے آگے ہتھیار ڈالتے چلے گئے لیکن سجاع نے انہیں یہ کہنے کے بجائے کہ اسے نبی مانیں ان کے گھر لوٹ لیے اور ان کے مویشی چھین لیے ۔ اس مالِ غنیمت سے اس کا لشکر بہت خوش ہوا۔ اس کی لوٹ مار کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ سجاع ایک مقام نباج پہنچی اور اس علاقے کی بستیوں میں لوٹ مار شروع کر دی۔ لیکن یہ قبیلے متحد ہو گئے اور سجاع کو شکست ہوئی۔ وہ ایک اور حملہ کرنا چاہتی تھی لیکن اسے ایک مجبوری کا سامنا تھا۔ اس کے لشکر کے کئی سرداروں کو نباج کے قبیلوں نے پکڑ کر قید میں ڈال دیا تھا۔ سجاع نے اپنا ایلچی ان قیدیوں کی رہائی کیلئے بھیجا۔


’’پہلے اس علاقے سے کوچ کرو۔‘‘قبیلوں کے سرداروں نے ایلچی سے کہا۔ ’’تمہیں تمہارے قیدی مل جائیں گے۔‘‘ سجاع نے یہ شرط قبول کرلی اور اپنے سرداروں کو آزاد کراکے اس علاقے سے نکل گئی۔ اس کے سرداروں نے اس سے پوچھا کہ اب کدھر کا ارادہ ہے؟’’یمامہ۔‘‘سجاع نے کہا۔’’وہاں مسیلمہ بن حبیب کوئی شخص ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کررکھا ہے۔ اسے تلوار کی نوک پر رکھنا ضروری ہے۔‘‘ ’’لیکن یمامہ کے لوگ جنگ و جدل میں بہت سخت ہیں۔‘‘ایک سردار نے اسے کہا۔’’اور مسیلمہ بڑا طاقتور ہے۔‘‘سجاع نے کچھ اشعار پڑھے جن میں اس نے اپنے لشکر سے کہا تھا کہ ہماری منزل یمامہ ہے۔ مسیلمہ کذاب نے اپنے جاسوسوں کو دور دور تک پھیلایا ہوا تھا۔ اسے یہ اطلاع دی گئی کہ ایک لشکر یمامہ کی طرف بڑھا آرہا ہے۔مسیلمہ نے یہ معلوم کرا لیا کہ یہ سجاع کا لشکر ہے۔ اس نے الرجا ل کو بلایا۔’’کیا تم نے سنا کہ سجاع کا لشکر آ رہا ہے الرجال؟‘‘مسیلمہ نے کہا۔’’لیکن میں ان سے لڑنا نہیں چاہتا۔ تم جانتے ہو کہ اس علاقے میں مسلمانوں کی فوج موجود ہے جس کا سالار عکرمہ ہے۔ کیا ہمارے لیے یہ بہتر نہیں ہو گا کہ سجاع اور عکرمہ کی لڑائی ہو جائے اور جب دونوں لشکر آپس میں الجھے ہوئے ہوں ،اس وقت ہم اُس پر حملہ کر دیں؟‘‘’’اگر ان کی ٹکر نہ ہوئی تو تم کیا کرو گے؟‘‘الرجال نے کہا۔’’پھر میں سجاع کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کروں گا۔‘‘مسیلمہ نے کہا۔ صورت وہی پیدا ہو گئی۔ سجاع اور عکرمہ ؓکی فوجیں ایک دوسرے سے بے خبر رہیں اور سجاع یمامہ کے بالکل قریب آ گئی۔ مسیلمہ نے اپنا ایک ایلچی سجاع کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ سجاع اس سے ملنے اس کے پاس آئے تاکہ دوستی کا معاہدہ کیا جا سکے۔ سجاع نے جواب بھیجا کہ وہ آ رہی ہے۔ لیکن مسیلمہ کو قبل از وقت اطلاع مل گئی کہ سجاع اپنے لشکر کو ساتھ لا رہی ہے۔ اس نے سجاع کو پیغام بھیجا کہ کہ لشکر کو ساتھ لانے سے میں یہ سمجھوں گا کہ تم دوستی کی نیت سے نہیں آ رہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتی ہو کہ اپنے چند ایک محافظوں کوساتھ لے آؤ۔’’یا رسول !‘‘مسیلمہ کے ایک درباری نے اسے کہا۔’’سنا ہے کہ سجاع کا لشکر اتنا بڑا ہے کہ یمامہ کی وہ اینٹ سے اینٹ بجا دے گا۔‘‘ ’’اور یہ بھی سنا ہے۔‘‘ایک اور نے کہا۔’’ وہ قتل و غارت کرکے اور لوٹ مار کرکے آگے چلی جاتی ہے۔ اس سے وہی محفوظ رہتا ہے جو اس کی نبوت کو تسلیم کرلیتا ہے۔‘‘


’’کیا تم مجھے ڈرا رہے ہو؟‘‘ مسیلمہ نے پوچھا۔ ’’کیا تم یہ مشورہ دینا چاہتے ہو کہ میں اپنی نبوت سے دستبردار ہو کر اس کی نبوت کو تسلیم کرلوں؟‘‘ ’’نہیں ﷲ کے رسول۔‘‘اسے جواب ملا۔’’ہمارا مطلب احتیاط سے ہے۔ وہ کوئی اپنا ہاتھ نہ دکھا جائے۔‘‘ مسیلمہ نے قہقہہ لگایا اور کہا۔’’تم شاید میری صورت دیکھ کر مشورہ دے رہے ہو۔ کیا تم مجھے کوئی ایسی عورت دکھا سکتے ہو جو میرے پاس آئی ہو اور میری گرویدہ نہ ہو گئی ہو……سجاع کو آنے دو۔ وہ آئے گی ۔ جائے گی نہیں ……اور وہ زندہ بھی رہے گی۔‘‘وہ آ گئی اور وہ لشکر کے بغیر آئی۔ یمامہ کے لوگوں نے اسے دیکھا اور آوازیں سنائی دیں۔’’اتنی خوبصورت اور طرحدار عورت پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی……اگر نبوت حسن پر ملتی ہے تو اس عورت کو نبوت مل سکتی ہے۔‘‘اس کے ساتھ چالیس محافظ تھے ۔جو اعلیٰ نسل کے گھوڑوں پر سوار تھے۔ ایک سے ایک خوبصورت جوان تھا۔ کمر سے تلواریں لٹک رہی تھیں اور ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں۔ سجاع جب قلعے کے دروازے پر پہنچی تودروازہ بند تھا۔ اسے دیکھ کر بھی کسی نے دروازہ نہ کھولا۔’’کیا ایسا آدمی خدا کا رسول ہو سکتا ہے جو مہمان کو بلا کر دروازہ بند رکھتا ہے؟‘‘سجاع نے بلند آواز سے کہا۔’’کیا وہ نہیں جانتا کہ وہ اس عورت کی توہین کر رہا ہے جسے خدا نے نبوت عطا کی ہے؟‘‘ ’’معزز مہمان!‘‘ قلعے کے اوپر سے آواز آئی۔’’تم پر سلامتی ہو۔ ہمارے رسول نے کہا ہے کہ محافظ باہر رہیں اور مہمان اندر آ جائے۔‘‘’’دروازہ کھول دو۔‘‘سجاع نے دلیری سے کہا اور اپنے محافظوں سے کہا ۔’’تم سب قلعے سے دور چلے جاؤ۔‘‘’’لیکن ہم ایک اجنبی پر کیسے اعتبار کر سکتے ہیں؟‘‘محافظ دستے کے سردار نے کہا۔’’اگر سورج غروب ہونے تک میں واپس نہ آئی تو اس قلعہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دینا۔‘‘ سجاع نے کہا۔’’اور اس شہر کے ایک بچے کو بھی زندہ نہ چھوڑنا۔ میری لاش کو مسیلمہ اور اس کے خاندان کے خون سے نہلا کر یہیں دفن کر دینا……لیکن مجھے یقین ہے کہ میں قلعہ سے کچھ لے کر نکلوں گی۔‘‘محافظ چلے گئے اور دروازہ کھل گیا۔ مگر اس کے استقبال کیلئے مسیلمہ موجود نہیں تھا۔ اس کے حکم پر دروازے پر کھڑے دو گھوڑ سوار اسے قلعے کے صحن میں لے گئے۔ جہاں ایک چوکور خیمہ نصب تھا۔ اس کے اردگرد درخت اور پودے تھے اور نیچے گھاس تھی۔ سجاع کو خیمے میں داخل کر دیا گیا۔ اندر کی سجاوٹ نے اسے مسحور کر دیا مگر مسیلمہ وہاں نہیں تھا۔ وہ بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر بعد مسیلمہ خیمہ میں داخل ہوا۔سجاع نے اسے دیکھا تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ اس مسکراہٹ میں تمسخر تھا۔ سجاع نے اتنا بد صورت آدمی کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اتنے چھوٹے قد کا آدمی شاذ ونادر ہی کبھی نظر آتا تھا۔


’’کیا تم نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟‘‘سجاع نے اس سے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔’’دعویٰ کرنا کچھ اور بات ہے۔‘‘مسیلمہ نے سجاع کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔’’یہ سچ ہے کہ میں خدا کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔ میں محمد ﷺ کو رسول نہیں مانتا۔ لیکن اس نے اپنی رسالت منوالی ہے۔ لوگ اس لیے مان گئے ہیں کہ قبیلہ قریش کی تعداد اور طاقت زیادہ ہے۔ انہوں نے اب دوسروں کے علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے۔‘‘طبری نے چند ایک حوالوں سے لکھا ہے کہ مسیلمہ نے سجاع کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ اس کے ہونٹوں پر دلفریب مسکراہٹ تھی۔ بہت عرصہ بعد سجاع نے کسی موقع پر کہا تھا کہ’’ اس نے اتنی چھوٹی چھوٹی آنکھیں میری آنکھوں میں ڈالیں تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ٹھگنا سا یہ بد صورت آدمی پُراسرار سا ایک اثر بن کر آنکھوں کے راستے میرے وجود میں اتر رہا ہے۔ مجھے اطمینان سا ہونے لگا کہ یہ شخص مجھے قتل نہیں کرے گا۔کچھ اور وقت گزرا تو اس احساس نے جیسے مجھے بے بس کر دیا کہ میں اس کے وجود میں سما جاؤں گی اور میرا وجود ختم ہو جائے گا۔‘‘ ’’اگر تم نبی ہو تو کوئی الہامی بات کرو۔‘‘ سجاع نے کہا۔ ’’تم نے کبھی سوچا ہے کہ تم کس طرح پیدا ہوئی تھیں؟‘‘ مسیلمہ نے ایسے انداز سے کہا جیسے شعر پڑھ رہا ہو۔’’تم نے شاید یہ بھی نہیں سوچا کہ جس طرح تم پیدا ہوئی تھیں اس طرح تم بھی انسانوں کو پیدا کرو گی مگر تنہا نہیں……مجھے خدا نے بتایا ہے۔ اس نے قرآن کی آیات کی طرز کے الفاظ بولے۔ وہ ایک زندہ وجود سے زندہ وجود پیدا کرتا ہے۔ پیٹ سے ۔ انتڑیوں سے۔ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ عورت مانند ظرف کے ہے جس میں کچھ ڈال کر نکالا جاتا ہے ورنہ ظرف بیکار ہے۔‘‘ سجاع مسحور ہوتی چلی گئی۔ مسیلمہ شاعروں کے لب و لہجے میں باتیں کرتا رہا۔ سجاع نے محسوس ہی نہ کیا کہ مسیلمہ اس کے جذبات کو مشتعل کر رہا ہے اور وہ یہ بھی محسوس نہ کر سکی کہ سورج غروب ہو چکا ہے۔’’مجھے یقین ہے کہ تم آج رات یہیں رہنا چاہو گی۔‘‘مسیلمہ نے کہا۔’’اگر چہرے دیکھنے ہیں تو تم دن ہو میں رات ہوں ، مگر تم نے اس پر بھی غور نہیں کیا ہو گا کہ دن پر رات کیوں غالب آ جاتی ہے اور دن اپنا سورج رات کی تاریک گود میں کیوں ڈال دیتا ہے؟ یہ ہر روز ہوتا ہے۔ اس کا وقت مقررہے۔ رات سورج کی چمک دمک کو کھا نہیں جاتی۔ بڑ ے پیار سے اسے جگا کر دوسرے افق پر رکھ دیتی ہے۔‘‘’’ہاں مسیلمہ! ‘‘سجاع نے کہا۔’’میرا جی چاہتا ہے کہ میں مان لوں کہ تم سچے نبی ہو۔ اتنا بد صورت آدمی اتنی خوبصورت باتیں نہیں کر سکتا۔ کوئی غیبی طاقت ہے جو تم سے اتنی اچھی باتیں کرا رہی ہے۔‘‘وہ چونک پڑی اور بولی۔’’سورج غروب ہو گیا ہے ،اگر میں نے قلعے کی دیوار پر کھڑے ہو کر اپنے محافظوں کو یہ نہ بتایا کہ میں زندہ ہوں تو تمہاری بستیوں کی گلیوں میں خون بہنے لگے گا۔‘‘مسیلمہ نے اسے اپنے دو محافظوں کے ساتھ قلعے کی دیوار پر بھیج دیا اور خیمے میں رکھا ہوا آتش دان جلانے کا حکم دیا۔ فانوس بھی روشن ہو گئے۔مسیلمہ نے آتش دان میں چھوٹی سی کوئی چیز رکھ دی۔ کمرے میں خوشبو پھیلنے لگی۔


سجاع واپس خیمہ میں آئی تو اس پر خمار سا طاری ہونے لگا ۔وہ عام سی عورتوں کی طرح رومان انگیز باتیں کرنے لگی۔’’کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ ہم میاں بیوی بن جائیں؟‘‘مسیلمہ نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔’’اس سے اچھی اور کوئی بات نہیں ہو سکتی۔‘‘سجاع نے مخمور سی آواز میں جواب دیا۔ صبح طلوع ہوئی تو سجاع اس انداز سے باہر نکلی جیسے دلہن اپنی پسند کے دولہا کے ساتھ ازدواجی زندگی کی پہلی رات گزار کر نکلی ہو۔ قلعے میں شادیانے بجنے لگے۔ سجاع کے لشکر تک یہ خبر پہنچی کہ سجاع نے مسیلمہ کے ساتھ شادی کرلی ہے۔ یہ شادی اسلام کیلئے بہت بڑا خطرہ بن گئی۔ ارتداد کے دو لشکر متحد ہو گئے لیکن یہ اتحاد جلدی بکھر گیا کیونکہ مسیلمہ نے سجاع کو دھوکا دیا اور وہ دل برداشتہ ہو کر عراق اپنے قبیلے چلی گئی۔ مسیلمہ نے اپنے لیے ایک بہت بڑے خطرے کو ختم کر دیا تھا ۔ سجاع کو اتنا صدمہ ہوا کہ وہ نبوت کے دعویٰ سے دستبردار ہو گئی۔ بعد میں وہ مسلمان ہو گئی اور کوفہ چلی گئی تھی۔ اس نے بڑی لمبی عمر پائی اور متقی اور پارسا مسلمان کی حیثیت سے مشہور رہی۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں