شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 12




⚔ شمشیرِ بے نیام⚔

  حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

قسط نمبر-12

اور لومڑیاں بھاگیں اور گدھ اڑ گئے۔ وہاں انسانی ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں ۔ سر الگ پڑا تھا۔ اس کے بال لمبے اِدھر ُادھر بکھرے ہوئے تھے ۔ کچھ کھوپڑی کے ساتھ تھے۔آدھے چہرے پر ابھی کھال موجود تھی وہ یوحاوہ تھی۔ لیث بن موشان کچھ دیراس کی بکھری ہوئی ہڈیوں کو اور ادھ کھائی چہرے کو دیکھتا رہا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر اس کی دودھ جیسی داڑھی میں جذب ہو گئے۔ہم وہاں سے آگئے۔‘‘ ’’لیث بن موشان اور یوحاوہ نے جرید بن مسیب کو محمدﷺ کے قتل کے لیے تیار کیا تھا ۔‘‘خالد نے ایسے لہجے میں کہا جس میں طنز کی ہلکی سی جھلک بھی تھی ۔’’جرید بن مسیّب مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوا اور یوحاوہ کا انجام تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ……کیا تم سمجھے نہیں ہو ابو جریج؟‘‘’’ہاں ۔ ہاں!‘‘بوڑھے ابو جریج نے جواب دیا۔’’لیث بن موشان کے جادو سے محمد ﷺ کا جادو زیادہ تیز اور طاقتور ہے۔ لوگ ٹھیک کہتے ہیں کہ محمد ﷺ کے ہاتھ میں جادو ہے۔ اس جادو کا ہی کرشمہ ہے کہ اس کے مذہب کو لوگ مانتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ جرید کو قتل ہونا ہی تھا۔‘‘ ’’میرے بزرگ دوست! ‘‘خالد نے کہا ۔’’اس بدروح کے قصّے مدینہ میں بھی پہنچے ہوں گے لیکن وہاں کوئی نہیں ڈرا ہوگا۔ محمد ﷺ کے پیروکاروں نے تسلیم ہی نہیں کیا ہو گا کہ یہ جن بھوت یا بدروح ہے۔‘‘ ’’محمدﷺ کے پیروکاروں کو ڈرنے کی کیا ضرورت ہے ؟‘‘ ابو جریج نے کہا۔’’محمدﷺ کے جادو نے مدینہ کے گرد حصار کھینچا ہوا ہے ،محمد ﷺ کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اُحد کی لڑائی میں زخمی ہوا اور زندہ رہا ۔ تمہارا اور ہمارا اتنا زیادہ لشکر مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے گیا تو ایسی آندھی آئی کہ ہمارا لشکر تتّر بتّر ہو کے بھاگا۔ میدانِ جنگ میں محمد ﷺ کے سامنے جو بھی گیا اس کا دماغ جواب دے گیا۔ کیا تم جانتے ہو خالد! محمد ﷺ کے قتل کی ایک اور کوشش ناکام ہو چکی ہے؟‘‘ ’’سنا تھا۔‘‘خالد نے کہا۔’’ پوری بات کا علم نہیں۔‘‘’’یہ خیبر کا واقعہ ہے۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’مسلمانوں نے خیبر کے یہودیوں پر چڑھائی کی تویہودی ایک دن بھی مقابلے میں نہ جم سکے۔‘‘ ’’فریب کار قوم میدان میں نہیں لڑ سکتی۔‘‘خالد نے کہا ۔’’یہودی پیٹھ پر وار کیا کرتے ہیں۔‘‘ ’’اور وہ انہوں نے خیبر میں کیا۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’یہودیوں نے مقابلہ تو کیا تھا لیکن ان پر محمد ﷺ کا خوف پہلے ہی طاری ہو گیاتھا۔ میں نے سنا تھا کہ جب مسلمان خیبر کے مقام پرپہنچے تو یہودی مقابلے کے لیے نکل آئے۔ ان میں سے بعض محمد ﷺ کو پہچانتے تھے۔ کسی نے بلند آواز سے کہا کہ محمد بھی آیا ہے ۔ پھر کسی اور نے چلا کر کہا۔ محمد بھی آیا ہے۔ یہودی لڑے تو سہی لیکن ان پر محمد کا خوف ایسا سوار ہوا کہ انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔‘‘

یہودیوں نے شکست کھائی تو انہوں نے رسولِ کریمﷺ سے وفاداری کا اظہار کرنا شروع کر دیا اور ایسے مظاہرے کیے جن سے پتا چلتا تھا کہ مسلمانوں کی محبت سے یہودیوں کے دل لبریز ہیں ۔ انہی دنوں جب رسولِ کریمﷺ خیبر میں ہی تھے ۔ ایک یہودن نے آپﷺ کو اپنے ہاں کھانے پر مدعو کیا۔ اس نے عقیدت مندی کا ااظہار ایسے جذباتی انداز میں کیا کہ رسولِ ﷲﷺ نے اسے مایوس کرنا مناسب نہ سمجھا۔ آپﷺ اس کے گھر چلے گئے۔ آپﷺ کے ساتھ ’’بشرؓ بن البارأ ‘‘تھے۔ یہودن زینب بنتِ الحارث نے جو سلّام بن شکم کی بیوی تھی۔ رسولِ ﷲﷺ کے راستے میں آنکھیں بچھائیں اور آپﷺ کو کھانا پیش کیا۔ اس نے سالم دنبہ بھونا تھا۔ اس نے رسول ﷲﷺ سے پوچھا کہ ’’آپﷺ کو دنبہ کا کون سا حصہ پسند ہے؟‘‘آپﷺ نے دستی پسند فرمائی۔ یہودن دنبہ کی دستی کاٹ لائی اور رسولِ خدا ﷺ اور بشرؓ بن البارأ کے آگے رکھ دی۔ بشرؓ بن البارأ نے ایک بوٹی کاٹ کر منہ میں ڈال لی۔ رسولِ اکرمﷺ نے بوٹی منہ میں ڈالی مگر اگل دی۔’’مت کھانا بشر!‘‘ آپﷺ نے فرمایا۔’’اس گوشت میں زہر ملا ہوا ہے۔‘‘ بشرؓ بن البارأ بوٹی چبا رہے تھے۔ انہوں نے اگل تو دی لیکن زہر لعابِ دہن کے ساتھ حلق سے اتر چکا تھا۔’’اے یہودن!‘‘. رسولِ ﷲﷺ نے فرمایا۔ ’’کیا میں غلط کہہ رہا ہوں کہ تو نے اس گوشت میں زہرملایا ہے؟‘‘ یہودن انکار نہیں کر سکتی تھی۔اس کے جرم کا ثبوت سامنے آ گیا تھا۔ بشرؓ بن البارأ حلق پر ہاتھ رکھ  کر اٹھے اور چکرا کر گر پڑے۔ زہر اتنا تیز تھا کہ اس نے بشر ؓکو پھر اٹھنے نہ دیا ۔ وہ زہر کی تلخی سے تڑپے اور فوت ہو گئے۔’’اے محمد!‘‘ یہودن نے بڑی دلیری سے اعتراف کیا۔’’خدائے یہودہ کی قسم! یہ میرا فرض تھا جو میں نے ادا کیا۔‘‘  رسول ﷲﷺ نے اس یہودن اور اس کے خاوند کے قتل کا حکم فرمایا اور خیبر کے یہودیوں کے ساتھ  آپﷺ نے جو مشفقانہ روّیہ اختیار کیا تھا وہ ان کی ذہنیت کے مطابق بدل ڈالا۔ ابنِ اسحاق لکھتے ہیں۔مروان بن عثمان نے مجھے بتایا تھا کہ رسولِ ﷲ ﷺ آخری مرض میں مبتلا تھے ،آپﷺ نے وفات سے دو تین روز پہلے اُمّ ِ بشر بن البارأ کو جب وہ آپ ﷺ کے پاس بیٹھی تھیں ۔فرمایا تھا۔’’اُمّ ِ بشر!میں آج بھی اپنے جسم میں اس زہر کا اثر محسوس کررہا ہوں ۔جو اس یہودن نے گوشت میں ملایا تھا۔ میں نے گوشت چبایا نہیں اگل دیا تھا۔ مگر زہر کا اثر آج تک موجود ہے۔‘‘اس میں شک و شبہہ کی گنجائش نہیں کہ رسول ﷲﷺ کی آخری بیماری کا باعث یہی زہر تھا۔

محمدﷺ کو کوئی شھید نھیں کر سکتا..‘‘خالد نے کہا۔’’آخر کب تک؟‘‘ ابو جریج نے کہا۔’’اس کا جادو کب تک چلے گا؟ اسے ایک نہ ایک دن قتل ہونا ہے خالد!‘‘ابو جریج نے خالد کے قریب ہوتے ہوئے پوچھا۔’’کیا تم نے محمد)ﷺ کے قتل کی کبھی کوئی ترکیب سوچی ہے؟‘‘ ’’کئی بار۔‘‘خالد نے جواب دیا۔’’جس روز میرے قبیلے نے بدر کے میدان میں شکست کھائی تھی ،اس روز سے محمدﷺ کو اپنے ہاتھ سے قتل کرنے کی ترکیب سوچ رہاہوں۔ لیکن میری ترکیب کارگر نہیں ہوئی۔‘‘’’کیا وہ ترکیب مجھے بتاؤ گے؟‘‘ ’’کیوں نہیں۔‘‘خالد نے جواب دیا۔’’بڑی آسان ترکیب ہے۔ یہ ہے کھلے میدان میں آمنے سامنے کی لڑائی ۔ لیکن میں ایک لشکر کے مقابلے میں اکیلا نہیں لڑ سکتا۔ ہم تین لڑائیاں ہار چکے ہیں۔‘‘’’خدا کی قسم!‘‘ ابو جریج نے قہقہہ لگا کر کہا۔’’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ولید کا بیٹا بے وقوف ہو سکتا ہے۔ میں یہودیوں جیسی ترکیب کی بات کر رہا ہوں۔ میں دھوکے اور فریب کی بات کر رہا ہوں۔ محمد ﷺ کو تم آمنے سامنے کی لڑائی میں نہیں مار سکتے۔‘‘ ’’اور تم اسے فریب کاری سے بھی نہیں مار سکتے۔‘‘خالد نے کہا۔’’فریب کبھی کامیاب نہیں ہوا۔‘‘بوڑھا ابو جریج خالد کی طرف جھکا اور اس کے سینے پر انگلی رکھ کر بولا۔ ’’کسی اور کا فریب ناکام ہو سکتا ہے ، یہودیوں کا فریب ناکام نہیں ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فریب کاری یہودیوں کے مذہب میں شامل ہے۔ میں لیث بن موشان کا دوست ہوں، کبھی اس کی باتیں سنو۔ وہ دانش مند ہے اس کی زبان میں جادو ہے۔ وہ تمہیں زبان سے مسحور کردے گا۔ وہ کہتا ہے کہ سال لگ جائیں گے، صدیاں گزر جائیں گی، آخر فتح یہودیوں کی ہوگی۔ دنیا میں کامیاب ہوگا تو صرف فریب کامیاب ہوگا۔ مسلمان ابھی تعداد میں تھوڑے ہیں اس لیے ان میں اتفاق اور اتحاد ہے ۔ اگر ان کی تعداد بڑھ گئی تو یہودی ایسے طریقوں سے ان میں تفرقہ ڈال دیں گے کہ مسلمان آپس میں لڑتے رہیں گے اور سمجھ نہ سکیں گے کہ یہ یہودیوں کی کارستانی ہے ۔محمد ﷺ انہیں یک جان رکھنے کے لیے کب تک زندہ رہے گا؟ ‘‘خالد اٹھ کھڑا ہوا۔ابو جریج بھی اٹھا۔ خالد نے دونوں ہاتھ آگے کیے ،ابو جریج نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ مصافحہ کرکے خالد اپنے گھوڑے پر سوار ہو گیا۔’’تم نے یہ تو بتایا نہیں کہ کہاں جا رہے ہو؟‘‘ابو جریج نے پوچھا۔’’مدینے۔‘‘’’مدینے؟‘‘ابو جریج نے حیرت سے پوچھا۔’’وہاں کیا کرنے جا رہے ہو؟ اپنے دشمن کے پاس……‘‘’’میں محمد ﷺ کا جادو دیکھنے جا رہا ہوں۔‘‘ خالد نے کہا اور گھوڑے کو ایڑی لگا دی۔

اس نے کچھ دور جا کر پیچھے دیکھا۔ اسے ابو جریج کا قافلہ نظر نہ آیا۔ خالد نشیبی جگہ سے نکل کر دور چلا گیا تھا۔اس نے گھوڑے کی رفتار کم کردی۔ اسے ایسے لگا جیسے آوازیں اس کا تعاقب کر رہی ہوں۔’’محمد جادوگر……محمد کے جادو میں طاقت ہے۔‘‘ ’’نہیں ……نہیں۔‘‘ اس نے سر جھٹک کر اپنے آپ سے کہا۔ ’’لوگ جس چیز کو سمجھ نہیں سکتے اسے جادو کہہ دیتے ہیں اور جس آدمی کا سامنا نہیں کر سکتے اسے جادوگر سمجھنے لگتے ہیں۔ پھر بھی……کچھ نہ کچھ راز ضرور ہے۔محمد ﷺ میں کوئی بات ضرور ہے۔‘‘ ذہن اسے چند دن پیچھے لے گیا۔ ابو سفیان نے اسے ،عکرمہ اور صفوان کو بلا کر بتایا تھا کہ مسلمان مکہ پر حملہ کرنے آ رہے ہیں۔ ابو سفیان کو یہ اطلاع دو شتر سواروں نے دی تھی جنہوں نے مسلمانوں کے لشکر کو مکہ آتے دیکھا تھا۔ خالد اپنی پسند کے تین سو گھڑ سواروں کو ساتھ  لے کر مسلمانوں کو راستے میں گھات لگا کر روکنے کے لیے چل پڑا تھا۔ وہ اپنے اس جانباز دستے کو سر پٹ دوڑاتا لے جا رہا تھا۔ اس کے سامنے تیس میل کی مسافت تھی۔ اسے بتایا گیا تھا کہ مسلمان کراع الغیمم سے ابھی دور ہیں۔ خالد اس کوشش میں تھا کہ مسلمانوں سے پہلے کراع الغیمم پہنچ جائے۔ مکہ سے تیس میل دور کراع الغیمم ایک پہاڑی سلسلہ تھا جو گھات کے لیے موزوں تھا۔ا گر مسلمان پہلے وہاں پہنچ جاتے تو خالد کے لیے جنگی حالات دشوار ہو جاتے۔ اس نے راستے میں صرف دو جگہ دستے کو روکا اور گھوڑوں کو سستانے کا موقع دیا۔ اس نے دو جگہوں پر اپنے گھوڑ سواروں کو اپنے سامنے کھڑا کر کے کہا۔’’یہ ہمارے لیے کڑی آزمائش ہے۔ اپنے قبیلے کی عظمت کے محافظ صرف ہم ہیں۔ آج ہمیں عزیٰ اور ہبل کی لاج رکھنی ہے۔ ہمیں اپنی شکست کا انتقام لینا ہے۔ اگر ہم مسلمانوں کو کراع الغیمم کے اندر ہی روک کر انہیں تباہ نہ کر سکے تو مکہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگا۔ ہماری بہنیں اور بیٹیاں ان کی لونڈیاں ہوں گی اور ہمارے بچے ان کے غلام ہوں گے۔عزیٰ اور ہبل کے نام پر حلف اٹھاؤ۔ کہ ہم قریش اور مکہ کی آن اور وقار پر جانیں قربان کر دیں گے۔‘‘ تین سوگھوڑ سواروں نے نعرے لگائے۔’’ہم عزیٰ اور ہبل کے نام پر مر مٹیں گے……ایک بھی مسلمان زندہ نہیں جائے گا……کراع الغیمم کی وادی میں مسلمانوں کا خون بہے گا……محمد کو زندہ مکہ لے جائیں گے……مسلمانوں کی کھوپڑیاں مکہ لے جائیں گے……کاٹ دیں گے……تباہ کر کے رکھ دیں گے۔‘‘خالد کا سینہ پھیل گیا تھا اور سر اونچا ہو گیا تھا۔ اس نے گھات کے لیے بڑی اچھی جگہ کا انتخاب کیا تھا ۔ اس نے نہایت کارگر جنگی چالیں سوچ لی تھیں۔ وہ اپنے ساتھ صرف سوار دستہ اس لیے لایا تھا کہ وہ مسلمانوں کو بکھیر کر اور گھوڑے دوڑا دوڑا کر لڑنا چاہتا تھا۔ مسلمانوں کی زیادہ تعداد پیادہ تھی۔ خالد کو یقین تھا کہ وہ تین سو سواروں سے ایک ہزار چار سو مسلمانوں کو گھوڑوں تلے روند ڈالے گا، اسے اپنے جنگی فہم و فراست پر اس قدر بھروسہ تھا کہ اس نے تیر انداز دستے کو اپنے ساتھ لانے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی تھی۔ حالانکہ پہاڑی علاقے میں تیر اندازوں کو بلندیوں پر بٹھا دیا جاتا تو وہ نیچے گزرتے ہوئے مسلمانوں کو چن چن کر مارتے۔

آگے جا کر خالد نے دستے کو ذرا سی دیر کے لیے روکا تو ایک بار پھر اس نے اپنے سواروں کے جذبے کو بھڑکایا۔ اسے ان سواروں کی شجاعت پر پورا اعتماد تھا۔ مسلمان ابھی دور تھے۔ خالد نے شتر بانوں کے بہروپ میں اپنے تین چار آدمی آگے بھیج دیے تھے جو مسلمانوں کی رفتار کی اور دیگر کوائف کی اطلاعیں دے رہے تھے۔ وہ باری باری پیچھے آتے اور بتاتے تھے کہ مسلمان کراع الغیمم سے کتنی دور رہ گئے ہیں ۔ خالد ان اطلاعوں کے مطابق اپنے دستے کی رفتار بڑھاتا جا رہا تھا۔ مسلمان رسول کریمﷺ کی قیادت میں معمولی رفتار سے اس پھندے کی طرف چلے آ رہے تھے جو ان کے لیے خالد کراع الغیمم میں بچھانے جا رہا تھا۔ خالد اس اطلاع کو نہیں سمجھ سکا تھا کہ مسلمان اپنے ساتھ بہت سے دنبے اور بکرے لا رہے ہیں۔ اسے اس سوال کا جواب نہیں مل رہا تھا کہ وہ مکہ پر حملہ کرنے آ رہے ہیں تو دنبے اور بکرے کیوں ساتھ لا رہے ہیں؟’’انہیں ڈر ہو گا کہ محاصرہ طول پکڑ گیا تو خوراک کم ہو جائے گی۔‘‘خالد کے ایک ساتھی نے خیال ظاہر کیا۔’’اس صورت میں وہ ان جانوروں کا گوشت کھائیں گے۔ اس کے سوا ان جانوروں کا اور کیا استعمال ہو سکتا ہے!‘‘ ’’بے چاروں کو معلوم ہی نہیں کہ مکہ تک وہ پہنچ ہی نہیں سکیں گے۔‘‘خالد نے کہا ۔’’ان کے دنبے اور بکرے ہم کھائیں گے۔‘‘مسلمان ابھی کراع الغیمم سے پندرہ میل دور عسفان کے مقام پر تھے کہ خالد اس سلسلۂ کوہ میں داخل ہو گیا۔ اس نے اپنے دستے کو پہاڑیوں کے دامن میں ایک دوسرے سے دور دور رکنے کو کہا اور خود گھات کی موزوں جگہ دیکھنے کے لیے آگے چلا گیا۔ وہ درّے تک گیا۔ یہی رستہ تھا جہاں سے قافلے اور دستے گزرا کرتے تھے۔ وہ یہاں سے پہلے بھی گزرا تھا لیکن اس نے اس درّے کو اس نگاہ سے کبھی نہیں دیکھا تھا جس نگاہ سے آج  دیکھ رہا تھا۔ اس نے اس درّے کو دائیں بائیں والی بلندیوں پر جا کر دیکھا۔ نیچے آیا۔ چٹانوں کے پیچھے گیا،اور گھوڑوں کو چھپانے کی ایسی جگہوں کو دیکھا جہاں سے وہ اشارہ ملتے ہی فوراً نکل آئیں اور مسلمانوں پر بے خبری میں ٹوٹ پڑیں۔ وہ مارچ ۶۲۸ء کے آخری دن تھے۔ موسم ابھی سرد تھا مگر خالد کا اور اس کے گھوڑے کا پسینہ بہہ رہا تھا۔ اس نے گھات کا علاقہ منتخب کرلیا،اور اپنے دستے کو کئی حصوں میں تقسیم کرکے گھوڑوں کو درّے کے علاقے میں چھپا دیا۔ اب اس نے اپنے ان آدمیوں کو جو مسلمانوں کی پیش قدمی کی اطلاعیں لاتے تھے ،اپنے پاس روک لیا، کیونکہ خدشہ تھا کہ مسلمان ان کی اصلیت معلوم کر لیں گے۔ مسلمان قریب آ گئے تھے۔ رات کو انہوں نے پڑاؤ کیا تھا۔ اگلی صبح جب نمازِ فجر کے بعد مسلمان کوچ کی تیاری کر رہے تھے ۔ایک آدمی رسول اﷲﷺ کے پاس آیا۔’’تمہاری حالت بتا رہی ہے کہ تم دوڑتے ہوئے آئے ہو۔‘‘رسول ﷲﷺ نے کہا۔’’اور تم کوئی اچھی خبر بھی نہیں لائے۔‘‘ ’’یا رسول ﷲﷺ! ‘‘مدینہ کے اس مسلمان نے کہا۔’’خبر اچھی نہیں اور اتنی بری بھی نہیں۔ مکہ والوں کی نیت ٹھیک نہیں۔ میں کل سے کراع الغیمم کی پہاڑیوں میں گھوم پھر رہا ہوں ،خدا کی قسم! مجھے وہ نہیں دیکھ سکے جنہیں میں دیکھ آیا ہوں۔ میں نے ان کی تمام نقل و حرکت دیکھی ہے۔‘‘’’کون ہیں وہ؟‘‘ ’’اہلِ قریش کے سوا اور کون ہو سکتا ہے؟‘‘اس نے جواب دیا۔’’وہ سب گھڑ سوار ہیں اور درّے کے ارد گرد کی چٹانوں میں چھپ گئے ہیں۔‘‘ ’’تعداد؟‘‘ ’’تین اور چار سوکے درمیان ہے۔‘‘رسولِ کریمﷺ کے اس جاسوس نے کہا۔’’میں نے اگر صحیح پہچانا ہے تو وہ خالد بن ولید ہے جس کی بھاگ دوڑ کو میں سارادن چھپ چھپ کے دیکھتا رہا ہوں۔ میں اتنی قریب چلا گیا تھا کہ وہ مجھے دیکھتے تو قتل کر دیتے۔ خالد نے اپنے سواروں کو درّے کے ارد گرد پھیلا کر چھپا دیا ہے۔ کیا یہ غلط ہو گا کہ وہ گھات میں بیٹھ گئے ہیں؟‘‘ ’’مکہ والوں کو ہمارے آنے کی اطلاع ملی تو وہ سمجھے ہوں گے کہ ہم مکہ کا محاصرہ کرنے آئے ہیں۔‘‘ صحابہ کرامؓ میں سے کسی نے کہا۔’’قسم خدا کی! جس کے ہاتھ میں ہم سب کی جان ہے۔‘‘رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا۔’’اہلِ قریش مجھے لڑائی کے لیے للکاریں گے تو بھی میں نہیں لڑوں گا۔ ہم جس ارادے سے آئے ہیں اس ارادے کو بدلیں گے نہیں۔ہماری نیت مکہ میں جاکر عمرہ کرنے کی ہے اور ہم یہ دنبے اور بکرے قربانی کرنے کے لیے ساتھ لائے ہیں۔ میں اپنی نیت میں تبدیلی کرکے خدائے ذوالجلال کو ناراض نہیں کروں گا۔ ہم خون خرابہ کرنے نہیں عمرہ کرنے آئے ہیں۔‘‘ ’’یا رسول ﷲﷺ!‘‘  ایک صحابیؓ نے پوچھا۔ ’’وہ درّے میں ہمیں روکیں گے تو کیا ہم پر اپنے دشمن کا خون  جائز نہیں ہو گا؟‘‘ صحابہ کرامؓ رسولِ ﷲ ﷺ کے ارد گرد اکھٹے ہو گئے۔ اس صورتِ حال سے بچ کر نکلنے کے طریقو ں پر اور راستوں پر بحث و مباحثہ ہوا۔ رسولِ کریمﷺ اچھے مشورے کو دھیان سے سنتے اور اس کے مطابق حکم صادر فرماتے تھے۔ آخر رسولِ ﷲﷺ نے حکم صادر فرمایا۔ آپﷺ نے بیس گھوڑ سوار منتخب کیے اور انہیں ان ہدایات کے ساتھ آگے بھیج دیا کہ وہ کراع الغیمم تک چلے جائیں لیکن درّے میں داخل نہ ہوں ۔ وہ خالد کے دستے کا جائزہ لیتے رہیں اور یہ دستہ ان پر حملہ کرے تو یوں لڑیں کہ پیچھے کو ہٹتے آئیں اور بکھر کر رہیں۔ تاثر یہ دیں کہ یہ مدینہ والوں کا ہراول جَیش ہے۔ ان بیس سواروں کو دعاؤں کے ساتھ روانہ کرکے باقی اہلِ مدینہ کا راستہ آپﷺ نے بدل دیا۔ آپﷺ نے جو راستہ اختیار کیا وہ بہت ہی دشوار گزار تھا اور لمبا بھی تھا۔ لیکن آپﷺ لڑائی سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک مشکل یہ بھی تھی کہ اہلِ مدینہ میں کوئی ایک آدمی بھی نہ تھا جو اس راستے سے واقف ہوتا۔ یہ ایک اور درّہ تھا جو مثنیہ المرار کہلاتا تھا۔ اسے ذات الحنظل بھی کہتے تھے۔ رسولِ کریمﷺ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس درّے میں داخل ہو گئے اور سلسلۂ کوہ کے ایسے راستے سے گزرے جہاں سے کوئی نہیں گزرا کرتا تھا۔وہ راستہ کسی کے گزرنے کے قابل تھا ہی نہیں۔ خالد کی نظریں مسلمانوں کے ہراول دستے پر لگی ہوئی تھیں۔ لیکن ہراول کے یہ بیس سوار رک گئے تھے۔ کبھی ان کے دو تین سوار درّے تک آتے اور اِدھر اُدھر دیکھ کر واپس چلے جاتے۔ اگروہ بیس کے بیس سوار درّے میں آ بھی جاتے تو خالد انہیں گزر جانے دیتا کیونکہ اس کا اصل شکار تو پیچھے آ رہا تھا۔ ان بیس سواروں پر حملہ کرکے وہ اپنی گھات کو بے نقاب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ یہ کوئی پرانا واقعہ نہیں تھا۔ چند دن پہلے کی بات تھی۔ خالد پریشان ہو رہا تھا کہ مسلمانوں کا لشکر ابھی تک نظر نہیں آیا، کیااس نے کوچ ملتوی کر دیا ہے یا اسے گھات کی خبر ہو گئی ہے؟ اس نے اپنے ایک شتر سوار سے کہا کہ وہ اپنے بہروپ میں جائے اور دیکھے کہ مسلمان کہاں ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟اس دوران بیس مسلمان سواروں نے اپنی نقل و حرکت جاری رکھی ،ایک دو مرتبہ وہ درّے تک آئے اورذرا رک کر واپس چلے گئے۔ ایک دو مرتبہ وہ پہاڑیوں میں کسی اور طرف سے داخل ہوئے۔ خالد چھپ چھپ کر اُدھر آ گیا۔ وہ سوار وہاں سے بھی واپس چلے گئے۔اس طرح انہوں نے خالد کی توجہ اپنے اوپر لگائے رکھی۔ خالد کے سوار اشارے کے انتظار میں گھات میں چھپے رہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں