شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 11




⚔ شمشیرِ بے نیام⚔

  حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

قسط نمبر-11


سب نے دیکھا کہ بنو قریظہ کے لوگ قلعے سے باہر آ رہے تھے۔ محاصرے میں سے کسی کو بھاگ نکلنے کا موقع نہ ملا۔مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہودیوں کی تاریخ فتنہ و فساد اور بد عہدی سے بھری پڑی تھی۔ اسے خدا کی دھتکاری ہوئی قوم کہا گیا تھا۔ ان کے ساتھ جس نے بھی نرمی برتی اسے یہودیوں نے نقصان پہنچایا چنانچہ بنو قریظہ کو بخش دینا بڑی خطرناک حماقت تھی۔ مسلمانوں نے اس قبیلے کے ایسے تمام آدمیوں کو قتل کردیا جو لڑنے کے قابل تھے اور بوڑھوں عورتوں اور بچوں کواپنی تحویل میں لے لیا ۔دو مؤرخین نے لکھا ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے بنو قریظہ پر فوج کشی کی تو یہودیوں نے بڑا سخت مقابلہ کیا۔ مسلمانوں نے پچیس روز بنو قریظہ کو محاصرے میں لیے رکھا۔ آخر یہودیوں نے رسول ﷲ ﷺ کو پیغام بھیجا کہ سعد ؓبن معاذ کو ان کے پاس صلح کی شرائط طے کرنے کے لیے بھیجا جائے۔ چنانچہ سعدؓ بن معاذ گئے اور یہ فیصلہ کر آئے کہ بنو قریظہ کے آدمیوں کو قتل کر دیا جائے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو مالِ غنیمت میں لے لیا جائے۔ جن یہودیوں کو قتل کیا گیا ان کی تعداد چار سو تھی۔ زیادہ تر مؤرخین نے لکھا ہے کہ بنو قریظہ نے مقابلہ نہیں کیا اور اپنے کیے کی سزا پانے کے لیے قلعہ سے نکل آئے۔ مدینہ میں یہودیوں کے قتلِ عام کے ساتھ یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اس سے پہلے مسلمانوں نے یہودیوں کے دو قبیلوں بنو نضیر اور بنو قینقاع کو ایسی ہی بدعہدی اور فتنہ پردازی پر ایسی ہی سزا دی تھی ،ان قبیلوں کے بچے کچھے یہودی شام کو بھاگ گئے تھے ، شام میں ایرانیوں کی حکومت تھی۔ ایک عیسائی بادشاہ ہرقل نے حملہ کرکے شام پرقبضہ کر لیا۔یہودیوں نے اس کے ساتھ  بھی بدعہدی  کی، اِدھر مدینہ میں مسلمان بنو قریظہ کو قتل کررہے تھے ،اُدھر ہرقل بنو نضیر اور بنو قینقاع کا قتلِ عام کر رہا تھا۔ ایک حدیث ہے جو حضرت عائشہؓ کے حوالے سے ہشام بن عروہ نے بیان کی ہے کہ سعد ؓبن معاذ کے فیصلے کو رسولِ کریمﷺ نے قبول فرما لیا اور بنو قریظہ کے یہودیوں کو قتل کر دیا گیا تھا ۔ ہشام بن عروہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کے والد ِ بزرگوار نے انہیں یہ واقعہ سنایا تھا کہ سعد ؓبن معاذ کو سینہ میں برچھی لگی تھی ، جب بنو قریظہ کو سزا دی جا چکی تو رسول ﷲﷺ کے حکم سے سعد ؓبن معاذ کے لیے مسجد کے قریب ایک خیمہ لگا کر اس میں انہیں رکھا گیا ،تاکہ ان کے زخم کی دیکھ بھال آسانی سے ہوتی رہے۔

 سعدؓ بن معاذ اس خیمے میں لیٹ گئے لیکن اٹھ بیٹھے اور انہوں نے ﷲ سے دعا مانگی کہ ان کی ایک ہی خواہش ہے کہ ہر اُس قوم کے خلاف لڑیں جو ﷲ کے رسولﷺ کو سچا نبی نہیں سمجھتی ، مگر لڑائی ختم ہو چکی ہے۔ انہوں نے ﷲ سے التجا کی کہ اگر میرے نصیب میں کوئی اور لڑائی لڑنی ہے تو مجھے اس میں شریک ہونے کے لیے زندگی عطا فرما اگر یہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے تو میرے زخم کو کھول دے کہ میں تیری راہ میں جان دے دوں ۔ سعد ؓبن معاذ کی یہ دعا تین چار آدمیوں نے سنی تھی لیکن انہوں نے اسے اہمیت نہیں دی تھی۔ صبح کسی نے دیکھا کہ سعد ؓبن معاذ کے خیمے سے خون بہہ بہہ کر باہر آ رہا تھا۔ خیمہ میں جا کر دیکھا ،سعدؓ بن معاذ شہید ہو چکے تھے۔ انہوں نے ﷲ سے شہادت مانگی تھی، ﷲ نے ان کی دعا قبول کر لی ان کے سینے کا زخم  کھل گیا تھا۔

بنو قریظہ کی تباہی کی خبر مکہ پہنچی تو سب سے زیادہ خوشی ابو سفیان کو ہوئی۔’’خدا کی قسم! بنو قریظہ کو اس بد عہدی کی سزا ملی ہے جو اس کے سردار کعب بن اسد نے ہمارے ساتھ کی تھی۔ ‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’ اگر اس کاقبیلہ مدینہ پر شب خون مارتا رہتا تو فتح ہماری ہوتی اور ہم بنو قریظہ کو موت کے بجائے مالِ غنیمت دیتے……کیوں خالد؟ کیا بنو قریظہ کا انجام بہت برا نہیں ہوا؟‘‘ خالد نے ابو سفیان کی طرف ایسی نگاہوں سے دیکھا جیسے اسے اس کی بات اچھی نہ لگی ہو۔’’ کیا تم بنو قریظہ کے اس انجام سے خوش نہیں ہو خالد؟ ‘‘ابو سفیان نے پوچھا۔ ’’مدینہ سے پسپائی کا دکھ اتنا زیادہ ہے کہ بڑی سے بڑی خوشی بھی میرا یہ دکھ ہلکا نہیں کر سکتی۔‘‘ خالد نے کہا ۔ ’’بد عہد کی دوستی، دشمنی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ یہودیوں نے کس کے ساتھ وفا کی ہے؟ اپنی بیٹیوں کو یہودیت کے تحفظ اور فروغ  کے لیے دوسری قوموں کے آدمیوں کی عیاشی کا ذریعہ بنانے والی قوم پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ ’’ہمیں مسلمانوں نے نہیں طوفانی آندھی نے محاصرہ اٹھانے پر مجبور کیا تھا۔‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’ہمارے پاس خوراک نہیں رہی تھی۔‘‘ ’’تم لڑنا نہیں چاہتے تھے۔‘‘ خالد نے کہا اور اٹھ کر چلا گیا۔ خالد اب خاموش رہنے لگا تھا۔ اسے کوئی زبردستی بلاتا تو وہ جھنجھلا اٹھتا تھا۔ اس کے قبیلے کا سردار ابو سفیان اس سے گھبرانے لگا تھا ۔

 خالد اسے بزدل کہتا تھا۔ خالد نے اپنے آپ سے عہد کر رکھا تھا کہ وہ مسلمانوں کو شکست دے گا۔ لیکن اسے جب میدانِ جنگ میں مسلمانوں کی جنگی چالیں اور ان کا جذبہ یاد آتا تھا تو وہ دل ہی دل میں رسول ﷲ ﷺ کو خراجِ تحسین پیش کرتا تھا۔ ایساعسکری جذبہ اور ایسی عسکری فہم و فراست قریش میں ناپید تھی۔ خالد خود اس طرز پر لڑبنا چاہتا تھا لیکن اپنے قبیلے سے اسے تعاون نہیں ملتا تھا ۔ آج جب وہ مدینہ کی طرف اکیلا جا رہا تھا تو اسے معرکۂ خندق سے پسپائی یاد آ رہی تھی۔ اسے غصہ بھی آ رہا تھا اور وہ شرمسار بھی ہو رہا تھا۔ اسے یاد آ رہا تھا کہ اس نے ایک سال کس طرح گزارا تھا ۔ وہ مدینہ پر ایک اور حملہ کرنا چاہتا تھا ۔ لیکن اہلِ قریش مدینہ کا نام سن کر دبک جاتے تھے ۔ آخر اسے اطلاع ملی کہ مسلمان مکہ پر حملہ کرنے آ رہے ہیں ۔ اسے یہ خبر ابو سفیان نے سنائی تھی ۔’’مسلمان مکہ پر حملہ کرنے صرف اس لیے آ رہے ہیں کہ ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ قبیلہ ٔ قریش محمدﷺ سے ڈرتا ہے۔‘‘ خالد نے ابو سفیان سے کہا۔’’ کیا تم نے اپنے قبیلے کو کبھی بتایا ہے کہ مسلمان مکہ پر حملہ کرسکتے ہیں ۔ کیا قبیلہ حملہ روکنے کے لیے تیار ہے؟‘‘

’’اب اس بحث کا وقت نہیں کہ ہم نے کیا کیا اور کیا نہیں؟ ‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’ مجھے اطلاع دینے والے نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد تقریباً ڈیڑھ ہزار ہے ۔ تم کچھ سوچ سکتے ہو؟‘‘ ’’میں سوچ چکا ہوں۔‘‘ خالد نے کہا۔’’مجھے تین سو سوار دے دو۔ میں مسلمانوں کو راستے میں روک لوں گا، میں کرع الغیم کی پہاڑیوں میں گھات لگاؤں گا۔ وہ اسی درّے سے گزر کر آئیں گے۔ میں انہیں ان پہاڑیوں میں بکھیر کر ماروں گا۔‘‘ ’’تم جتنے سوار چاہو ،لے لو۔‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’ اور فوراً روانہ ہو جاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ وہ درّے سے گزر آئیں۔‘‘ خالد کو آج یاد آرہا تھا کہ اس خبر نے اس کے جسم میں نئی روح پھونک دی تھی ۔اس نے اسی روز تین سو سوار تیار کر لیے تھے ۔ مسلمانوں کی تعداد ایک ہزار چار سو تھی۔ ان میں زیادہ تر نفری پیادہ تھی۔ خالد خوش تھا کہ اپنے سواروں کی قیادت اس کے ہاتھ میں ہے۔ اب ابو سفیان اس کے سر پر سوار نہیں تھا۔ سب فیصلے اسے خود کرنے تھے۔ وہ مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست دینے کے لیے  روانہ ہو گیا۔ خالد کچھ دیر آرام کرکے اور گھوڑے کو پانی پلا کر چل پڑا تھا۔ اس نے گھوڑے کو تھکنے نہیں دیا تھا ۔ مکہ سے گھوڑا آرام آرام سے چلتا آیا تھا ۔ خالد بڑی مضبوط شخصیت کا آدمی تھا ۔ اس کے ذہن میں خواہشیں کم اور ارادے زیادہ ہوا کرتے تھے۔ وہ ذہن کو اپنے قبضہ میں رکھا کرتا تھا مگر مدینہ کو جاتے ہوئے ذہن اس پر قابض ہو جاتا تھا ۔ یادوں کے تھپیڑے تھے جو اسے طوفانی سمندر میں بہتی ہوئی کشتی کی طرح پٹخ رہے تھے۔ کبھی اس کی ذہنی کیفیت ایسی ہو جاتی جیسے وہ مدینہ بہت جلدی پہنچنا چاہتا ہو اور کبھی یوں جیسے اسے کہیں بھی پہنچنے کی جلدی نہ ہو۔ اس کی آنکھوں کے آگے منزل سراب بن جاتی اور دور ہی دور ہٹتی نظر آتی تھی۔ گھوڑا اپنے سوار کے ذہنی خلفشار سے بے خبر چلا جا رہا تھا ۔سوا رنے اپنے سر کو جھٹک کر گردوپیش کو دیکھا ۔ وہ ذرا بلند جگہ پر جا رہا تھا۔ افق سے احد کا سلسلۂ کوہ اور اوپر اٹھ آیا تھا ۔ خالد کو معلوم تھا کہ کچھ دیر بعد ان پہاڑیوں کے قریب سے مدینہ کے مکان ابھرنے لگیں گے۔ اسے ایک بار پھر خندق اور پسپائی یا د آئی اور اسے مسلمانوں کے ہاتھوں چار سو یہودیوں کا قتل بھی یاد آیا۔ بنو قریظہ کی اس تباہی کی خبر پر قریش کا سردار ابوسفیان تو بہت خوش ہوا تھا، مگر خالد کو نہ خوشی ہوئی نہ افسوس ہوا۔’’ قریش یہودیوں کی فریب کاریوں کاسہارا لے کر محمد ﷺ کے پیروکاروں کو شکست دینا چاہتے ہیں۔‘‘ خالد کو خیال آیا۔ اس نے اپنے ماتھے پر ہاتھ پھیرا جیسے اس خیال کو ذہن سے صاف کر دینا چاہتا ہو۔ اس کا ذہن پیچھے ہی پیچھے ہٹتا جا رہا تھا۔ گھنٹیوں کی مترنم آوازیں اسے ماضی سے نکال لائیں ۔ اس نے دائیں بائیں دیکھا ، بائیں طرف وسیع نشیب تھا ۔ خالد اوپر اوپر جا رہا تھا ۔ نیچے چار اونٹ چلے آ رہے تھے۔ اونٹ ایک دوسرے کے پیچھے تھے ۔ ان کے پہلو میں ایک گھوڑا تھا، اونٹوں پر دو عورتیں چند بچے اور دو آدمی سوار تھے ۔ اونٹوں پر سامان بھی لدا ہوا تھا ۔ گھڑسوار بوڑھا آدمی تھا۔ اونٹ کی رفتار تیز تھی۔ خالد نے اپنے گھوڑے کی رفتار کم کر دی۔

اونٹوں کا یہ مختصر سا قافلہ اس کے قریب آ گیا۔ بوڑھے گھوڑ سوار نے اسے پہچان لیا۔ تمہارا سفر آسان ہو ولید کے بیٹے!‘‘بوڑھے نے بازو بلند کرکے لہرایا اور بولا ’’نیچے آ جاؤ۔ کچھ دور اکھٹے چلیں گے۔‘‘ خالد نے گھوڑے کی لگام کو ایک طرف جھٹکا دیا اور ہلکی سی ایڑھ لگائی گھوڑا نیچے اتر گیا۔’’ہاہا……ہاہا ‘‘خالد نے اپنا گھوڑا بوڑھے کے گھوڑے کے پہلو میں لے جا کر خوشی کا اظہار کیا اور کہا۔’’ابو جریج !اور یہ سب تمہارا خاندان ہے؟‘‘’’ہاں!‘‘بوڑھے ابو جریج نے کہا۔’’ یہ میرا خاندان ہے۔ اور تم خالد بن ولید کدھر کا رخ کیا ہے؟ مجھے یقین ہے کہ مدینہ کو نہیں جا رہے۔ مدینہ میں تمہارا کیاکام؟‘‘ یہ قبیلہ غطفان کا ایک خاندان تھا جو نقل مکانی کر کے کہیں جا رہا تھا۔ ابو جریج نے خود ہی کہہ دیا تھا کہ خالد مدینہ تو نہیں جا رہا ،تو خالد نے اسے بتانا مناسب بھی نہ سمجھا ۔’’اہلِ قریش کیا سوچ رہے ہیں؟‘‘ ابو جریج نے کہا۔’ ’کیا یہ صحیح نہیں کہ محمدﷺ کو لوگ نبی مانتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہو گا کہ ایک روز مدینہ والے مکہ پر چڑھ دوڑیں گے اور ابو سفیان ان کے آگے ہتھیار ڈال دے گا ۔‘‘ ’’سردار اپنی شکست کا انتقام لینا ضروری نہیں سمجھتا ۔ وہ ہتھیار ڈالنے کو بھی برا نہیں سمجھے گا۔‘‘ خالد نے کہا۔ ’’کیا تمہیں یاد نہیں کہ ہم سب مل کر مدینہ پر حملہ کرنے گئے تھے تو مدینہ والوں نے اپنے اردگرد خندق کھود لی تھی ۔‘‘ خالد نے کہا ۔’’ہم خندق پھلانگ سکتے تھے۔ میں خندق پھلانگ گیا تھا، عکرمہ بھی خندق کے پار چلا گیا تھا مگر ہمارا لشکر جس میں تمہارے قبیلے کے جنگجو بھی تھے، دور کھڑا تماشہ دیکھتا رہا تھا۔ مدینہ سے پسپا ہونے والا سب سے پہلا آدمی ہمارا سردار ابو سفیان تھا۔‘‘ ’’میرے بازؤں میں طاقت نہیں رہی ابنِ ولید!‘‘ ابو جریج نے اپنا ایک ہاتھ جو ضعیفی سے کانپ رہا تھا ۔ خالد کے آگے کر کے کہا۔’’میرا جسم ذرا سا بھی ساتھ دیتا تومیں بھی ا س معرکے میں اپنے قبیلے کے ساتھ ہوتا ۔ اس روز میرے آنسو نکل آ ئے تھے جس روز میرا قبیلہ مدینہ سے پسپا ہو کر لوٹا تھا۔ اگر کعب بن اسد دھوکا نہ دیتا اورمدینہ پر تین چار شب خون مار دیتا تو فتح یقیناً تمہاری ہوتی۔‘‘ خالد جھنجھلا اٹھا ۔اس نے ابوجریج کو قہر کی نظروں سے دیکھا اور چپ رہا۔ ’’کیا تم نے سنا تھا کہ یوحاوہ یہودن نے تمہارے قبیلے کے ایک آدمی جرید بن مسیب کو محمدﷺ کے قتل کے لیے تیار کر لیا تھا۔‘‘ ابو جریج نے پوچھا۔’’ہاں!‘‘ خالد نے کہا۔ ’’سنا تھا اور مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ جرید بن مسب میرے قبیلے کا آدمی تھا ۔ کہاں ہے وہ؟ ’’وہ ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اس کا پتا نہیں چلا ۔ میں نے سنا تھا کہ یوحاوہ یہودن اسے اپنے ساتھ  یہودی جادوگر لیث بن موشان کے پاس لے گئی تھی اور اس نے جرید کو محمدﷺ  کے قتل کے لیے تیار کیا تھا مگر مسلمانوں کی تلواروں کے سامنے لیث بن موشان کا جادو جواب دے گیا۔ جرید بن مسیب مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا ۔ بنو قریظہ میں سے زندہ بھاگ جانے والے صرف دو تھے لیث بن موشان اور یوحاوہ ۔‘‘

’اب صرف ایک زندہ ہے ۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’ لیث بن موشان ۔ صرف لیث بن موشان زندہ ہے۔‘‘ ’’اور جرید اور یوحاوہ؟‘‘ ’’وہ بد روحیں بن گئے تھے۔‘‘ ابو جریج نے کہا۔ ’میں تمہیں ان کی کہانی سنا سکتا ہوں ۔ تم نے یوحاوہ کو دیکھا تھا۔ وہ مکہ کی ہی رہنے والی تھی۔ اگر تم کہو گے کہ اسے دیکھ  کر تمہارے دل میں ہل چل نہیں ہوئی تھی اور تم اپنے اندر حرارت  سی محسوس نہیں کرتے تھے توخالد میں کہوں گا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ کیا تمہیں کسی نے نہیں بتایا تھا کہ مدینہ پر حملہ کے لیت غطفان اہلِ قریش سے کیوں جا ملا تھا اور دوسرے قبیلے کے سرداروں نے کیوں ابو سفیان کو اپنا سردار تسلیم کرلیا تھا۔ یہ یوحاوہ اور اس جیسی چار یہودنوں کا جادو چلا تھا۔‘‘ گھوڑے اور اونٹ چلے جا رہے تھے۔ اونٹوں کی گردنوں سے لٹکتی ہوئی گھنٹیاں بوڑھے ابو جریج کے بولنے کے انداز میں جلترنگ کا ترنم پیدا کر رہی تھیں ۔ خالد انہماک سے سن رہا تھا۔ ’’جرید بن مسب یوحاوہ کے عشق کا اسیر ہو گیا تھا۔‘‘ ابو جریج کہہ رہا تھا۔’’ تم نہیں جانتے ابنِ ولید! یوحاوہ کے دل میں اپنے مذہب کے سوا کسی آدمی کی محبت نہیں تھی ،وہ جرید کو اپنے طلسم میں گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے گئی تھی ۔ میں لیث بن موشان کو جانتا ہوں ۔ جوانی میں ہماری دوستی تھی۔ جادو گری اور شعبدہ بازی اس کے باپ کا فن تھا۔ باپ نے یہ فن اسے ورثے میں دیا تھا ۔ تم میری بات سن رہے ہو ولید کے بیٹے یا اُکتا رہے ہو؟ اب میں باتو ں کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔‘ خالد ہنس پڑااوربولا۔’’سن رہا ہوں ابو جریج…… غور سے سن رہا ہوں۔‘‘ ’’یہ تو تمہیں معلوم ہو گا کہ جب ہمارے لشکر کو مسلمانوں کی خندق اور آندھی نے مدینہ کا محاصرہ اٹھا کر پسپائی پر مجبور کر دیا تو محمدﷺ نے بنو قریظہ کی بستی کو گھیر لیا تھا۔‘‘ ابو جریج نے کہا۔’’لیث بن موشان اور یوحاوہ ،جرید بن مسب کو وہیں چھوڑ کر نکل بھاگے۔‘‘ ’’ہاں ہاں ابو جریج!‘‘ خالد نے کہا ۔’’مجھے معلوم ہے کہ مسلمانوں نے بنو قریظہ کے تمام مردوں کو قتل کر دیا اور عورتوں اور بچوں کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔‘‘ ’’میں جانتا ہوں تم میری باتوں سے اکتا گئے ہو ۔‘‘ابو جریج نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’تم میری پوری بات نہیں سن رہے ہو۔‘‘ ’’مجھے یہ بات وہاں سے سناؤ ۔‘‘ خالد نے کہا۔’’ جہاں سے میں نے پہلے نہیں سنی۔ میں وہاں تک جانتا ہوں کہ جرید بن مسیب اُسی پاگل پن کی حالت میں مارا گیا تھا جو اس بوڑھے یہودی شعبدہ باز نے اس پر طاری کیا تھا اور وہ خود یوحاوہ کو ساتھ لے کر وہاں سے نکل بھاگا تھا۔ ’’پھر یوں ہوا……‘‘ ابو جریج نے کہا۔’’ اُحد کی پہاڑیوں کے اندر جو بستیاں آباد ہیں وہاں کے رہنے والوں نے ایک رات کسی عورت کی چیخیں سنیں ۔ تین چار دلیر قسم کے آدمی گھوڑوں پر سوار ہو کر تلواریں اور برچھیاں اٹھائے سر پٹ دوڑے گئے لیکن انہیں وہاں کوئی عورت نظر نہ آئی اور چیخیں بھی خاموش ہو گئیں ۔وہ اِدھر ُادھر گھوم پھر کر واپس آ گئے۔ ’’یہ چیخیں صحرائی لومڑیوں یا کسی بھیڑیے کی بھی ہو سکتی تھیں؟‘‘ خالد نے کہا۔
’’بھیڑیے اور عورت کی چیخ میں بہت فرق ہے۔‘‘ ابو جریج نے کہا۔’’ لوگ اسے کسی مظلوم عورت کی چیخیں سمجھے تھے۔ وہ یہ سمجھ کر چپ ہو گئے کہ کسی عورت کو ڈاکو لے جا رہے ہوں گے یا وہ کسی ظالم خاوند کی بیوی ہو گی اور وہ سفر میں ہوں گے ۔ لیکن اگلی رات یہی چیخیں ایک اور بستی کے قریب سنائی دیں ۔ وہاں کے چند آدمی بھی ان چیخوں کے تعاقب میں گئے لیکن انہیں کچھ نظرنہ آیا ۔ اس کے بعد دوسری تیسری رات کچھ دیر کے لیے یہ نسوانی چیخیں سنائی دیتیں ا ور رات کی خاموشی میں تحلیل ہو جاتیں ۔ پھر ان پہاڑیوں کے اندر رہنے والے لوگوں نے بتایا کہ اب چیخوں کے ساتھ عورت کی پکار بھی سنائی دیتی ہے۔ جرید……جرید……کہاں ہو ؟ آجاؤ۔ وہاں کے لوگ جرید نام کے کسی آدمی کو نہیں جانتے تھے ۔ ان کے بزرگوں نے کہا کہ یہ کسی مرے ہوئے آدمی کی بدروح ہے جو عورت کے روپ میں چیخ چلارہی ہے ۔ ابو جریج کے بولنے کا انداز میں ایسا تاثر تھا جو ہرکسی کو متاثر کر دیا کرتا تھا لیکن خالد کے چہرے پر کوئی تاثر نہ تھا جس سے پتا چلتا کہ وہ قبیلہ غطفان کے اس بوڑھے کی باتوں سے متاثر ہو رہا ہے۔’’ لوگوں نے اس راستے سے گزرنا چھوڑ دیا۔ جہاں یہ آوازیں عموماً سنائی دیا کرتی تھیں ۔‘‘ابو جریج نے کہا ۔’’ایک روز یوں ہوا کہ دو گھوڑ سوا ر جو بڑے لمبے سفر پر تھے ،ایک بستی میں گھوڑے سرپٹ دوڑاتے پہنچے۔ گھوڑوں کا پسینہ یوں پھوٹ رہا تھا جیسے وہ پانی میں سے گزر کر آئے ہوں ۔ ہانپتے کانپتے سواروں پر خوف طاری تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ایک وادی میں سے گزر رہے تھے کہ انہیں کسی عورت کی پکار سنائی دی۔جرید ٹھہرجاؤ…… جرید ٹھہرجاؤ…… میں آ رہی ہوں۔ ان گھوڑ سواروں نے اُدھر دیکھا جدھر سے آواز آ رہی تھی۔ ایک پہاڑ ی کی چوٹی پر ایک عورت کھڑی ان گھڑ سواروں کو پکار رہی تھی ۔ وہ تھی تو دور لیکن جوان لگتی تھی ۔وہ پہاڑی سے اترنے لگی تو دونوں گھڑ سواروں نے ڈر کر ایڑھ لگا دی ۔’’سامنے والی چٹان گھومتی تھی ۔ گھوڑ سوار اس کے مطابق وادی میں گھوم گئے ۔ انہیں تین چار مزید موڑ مڑنے پڑے گھبراہٹ میں وہ راستے سے بھٹک گئے تھے۔ وہ ایک اور موڑ مڑے تو ان کے سامنے تیس چالیس قدم دور ایک جوان عورت کھڑی تھی جس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور وہ نیم برہنہ تھی۔ اس کا چہرہ لاش کی مانند سفید تھا ۔ گھڑسواروں نے گھوڑے روک لیے ۔عورت نے دونوں بازو ان کی طرف پھیلا کر اورآگے کو دوڑتے ہوئے کہا۔ میں تم دونوں کے انتظار میں بہت دنوں سے کھڑی ہوں۔ دونوں گھوڑسواروں نے وہیں سے گھوڑے موڑے اور ایڑھ لگا دی ۔‘‘بوڑھا جریج بولتے بولتے خاموش ہو گیا۔ اس نے اپنا ہاتھ خالد کی ران پر رکھا اوربولا ۔’’میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ کیا یہ اچھا نہیں ہو گا کہ ہم کچھ دیر کے لیے رک جائیں پھر نہ جانے تم کب ملو،تمہارا باپ ولید بڑا زبردست آدمی تھا۔ تم میرے ہاتھوں میں پیدا ہوئے تھے۔ میں تمہاری خاطر تواضع کرنا چاہتا ہوں۔ روکو گھوڑے کو اور اتر آؤ۔‘‘
یہ قافلہ وہیں رک گیا۔’’و ہ کسی مرے ہوئے آدمی یا عورت کی بدروح ہی ہو سکتی تھی۔‘‘ابو جریج نے بھنا ہوا گوشت خالد کے آگے رکھتے ہوئے کہا۔  ’کھاؤ ولید کے بیٹے ! پھر ایک خوفناک واقعہ ہو گیا۔ ایک بستی میں ایک اجنبی اس حالت میں آن گرا کہ اس کے چہرہ پر لمبی لمبی خراشیں تھیں جن سے خون بہہ رہا تھا ۔اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور جسم پر بھی خراشیں تھیں ۔ وہ گرتے ہی بے ہوش ہوگیا۔ لوگوں نے اس کے زخم دھوئے اور اس کے منہ میں پانی ڈالا۔وہ جب ہوش میں آیا تو اس نے بتایا کہ وہ دو چٹانوں کے درمیان سے گزر رہا تھا کہ ایک چٹان کے اوپر سے ایک عورت چیختی چلاتی اتنی تیزی سے اُتری جتنی تیزی سے کوئی عورت نہیں اتر سکتی تھی۔ یہ آدمی اس طرح رک گیا جیسے دہشت زدگی نے اس کے جسم کی قوت سلب کرلی ہو۔ وہ عورت اتنی تیزی سے آ رہی تھی کہ رُک نہ سکی ، وہ اس آدمی سے ٹکرائی اور چیخ نماآواز میں بولی ۔ تم آ گئے جرید! میں جانتی تھی تم زندہ ہو۔ آؤ چلیں۔ اس شخص نے اسے بتایا کہ وہ جرید نہیں لیکن وہ عورت اسے بازو سے پکڑ کر گھسیٹتی رہی اور کہتی رہی تم جرید ہو ،تم جرید ہو۔اس شخص نے اس سے آزاد ہونے کی کوشش میں اسے دھکا دیا وہ گر پڑی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ یہ آدمی اسے کوئی پاگل عورت سمجھ کر وہیں کھڑا رہا۔ وہ اس طرح اس کی طرف آئی کہ اس کے دانت بھیڑیوں کی طرح باہرنکلے ہوئے تھے اور اس نے ہاتھ اس طرح آگے کر رکھے تھے کہ اس کی انگلیاں درندوں کے پنجوں کی طرح ٹیڑھی ہو گئی تھیں ۔وہ آدمی ڈر کر الٹے قدم پیچھے ہٹا اور ایک پتھر سے ٹھوکر کھا کر پیٹھ کے بل گرا۔ یہ عورت اس طرح اس پر گری اور پنجے اس کے چہرے پر گاڑھ دیئے جیسے بھیڑیا اپنے شکار کو پنجوں میں دبوچ لیتا ہے ۔اس نے اس آدمی کا چہرہ نوچ ڈالا۔ اس نے اس عورت کو دھکا دے کر پرے کیا اور اس کے نیچے سے نکل آیا۔ لیکن اس عورت نے اپنے ناخن اس شخص کے پہلوؤں میں اتار دیئے ا ور اس کے کپڑے بھی پھاڑ ڈالے اور کھال بھی بری طرح زخمی کردی۔ اس زخمی نے بتایا کہ اس عورت کی آنکھوں اور منہ سے شعلے سے نکلتے ہوئے محسوس ہوتے تھے،وہ اسے انسانوں کے روپ میں آیا ہوا کوئی درندہ سمجھا۔ اس آدمی کے پاس خنجر تھا لیکن اس کے ہوش ایسے گم ہوئے کہ و ہ خنجرنکالنا بھول گیا۔ اتفاق سے اس آدمی کے ہاتھ میں اس عورت کے بال آ گئے۔ اس نے بالوں کو مٹھی میں لے کر زور سے جھٹکا دیا ۔ وہ عورت چٹا ن پر گری۔ یہ آدمی بھاگ اٹھا اسے اپنے پیچھے اس عورت کی چیخیں سنائی دیتی رہیں ۔اسے بالکل یاد نہیں تھا وہ اس بستی تک کس طرح پہنچا ہے ۔ وہ ان خراشوں کی وجہ سے بے ہوش نہیں ہوا تھا۔ اس پر دہشت سوار تھی۔ پھر دو مسافروں نے بتایا کہ انہوں نے راستے میں ایک آدمی کی لاش پڑی دیکھی ہے جسے کسی درندے نے چیر پھاڑ کر ہلاک کیا ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور تمام جسم پر خراشیں تھیں،اس جگہ کے قریب جس جگہ اس عورت کی موجودگی بتائی جا سکتی تھی، چھوٹی سی ایک بستی تھی ۔ وہاں کے لوگوں نے نقل مکانی کا ارادہ کرلیا لیکن یہودی جادوگر لیث بن موشان پہنچ گیا۔ اسے کسی طرح پتا چل گیا تھا کہ ایک عورت اس علاقے میں جرید جرید پکارتی اور چیختی چلاتی رہتی ہے اور جو آدمی اس کے ہاتھ آ جائے اسے چیر پھاڑ دیتی ہے ۔‘‘ابو جریج نے خالد کو باقی کہانی یوں سنائی ۔اسے بدروحوں کے علم کے ساتھ گہری دلچسپی تھی اور وہ لیث بن موشان کو بھی جانتا تھا۔ جب اسے پتا چلا کہ یہودی جادوگر وہاں پہنچ گیا ہے تو وہ بھی گھوڑے پر سوا رہوا اور وہاں جا پہنچا۔ وہ اس بستی میں جا پہنچا جہاں لیث بن موشان آکر ٹھہرا تھا۔’’ابو جریج!‘‘ بوڑھے لیث بن موشان نے اٹھ کر بازو پھیلاتے ہوئے کہا۔’’تم یہاں کیسے آ گئے؟‘‘’’میں یہ سن کہ آیا ہوں کہ تم اس بد روح پر قابو پانے کے لیے آئے ہو۔‘‘ابو جریج نے اس سے بغل گیر ہوتے ہوئے کہا۔’’کیا میں نے ٹھیک سنا ہے کہ اس بدروح نے یا وہ جو کچھ بھی ہے، دو تین آدمیوں کو چیر پھاڑ ڈالا ہے؟‘‘’’وہ بد روح نہیں میرے بھائی!‘‘ لیث بن موشان نے ایسی آواز میں کہا جو ملال اور پریشانی سے دبی ہوئی تھی۔’’وہ خدائے یہودہ کی سچی نام لیوا ایک جوان عورت ہے۔ اس نے اپنی جوانی اپنا حسن اور اپنی زندگی یہودیت کے نام پر وقف کررکھی تھی۔ اس کانام یوحاوہ ہے۔‘‘ ’’میں نے اسے مکہ میں دو چار مرتبہ دیکھا تھا۔‘‘ ابو جریج نے کہا۔’’اس کے کچھ جھوٹے سچے قصے بھی سنے تھے۔ یہ بھی سنا تھا کہ اس نے قریش کے ایک آدمی جرید بن مسیّب کو تمہارے پاس لا کر  محمدﷺ کے قتل کے لیے تیار کیا تھا پھر میں نے یہ بھی سنا تھا کہ تم اور یوحاوہ مسلمانوں کے محاصرے سے نکل گئے تھے اور جرید پیچھے رہ گیا تھا ۔ اگر یوحاوہ زندہ ہے اوروہ بدروح نہیں تو وہ اس حالت تک کس طرح پہنچی ہے؟‘‘ ’’ا س نے اپنا سب کچھ خدائے یہودہ کے نام پر قربان کر رکھا تھا۔‘‘ لیث بن موشان نے کہا۔’’ لیکن وہ آخر انسان تھی، جوان تھی ،وہ جذبات کی قربانی نہ دے سکی۔ اس نے جرید کی محبت کو اپنی روح میں اتارلیا تھا۔جرید ­پرجتنا اثرمیرے خاص عمل کا تھا۔ اتنا ہی یوحاوہ کی والہانہ محبت کا تھا۔‘‘

’’میں سمجھ گیا۔‘‘ ابو جریج نے کہا۔’’اسے جرید بن مسیب کی موت نے پاگل کر دیا ہے ۔ کیا تمہارا عمل اور جادو اس عورت پر نہیں چل سکتا تھا؟‘‘ لیث بن موشان نے لمبی آہ بھری اوربے نور آنکھوں سے ابو جریج کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھا اور کچھ دیر چپ رہنے کے بعد کہا۔’’میرا عمل اس پرکیا اثر کرتا۔ وہ مجھے بھی چیر پھاڑنے کومجھ پر ٹوٹ پڑتی تھی۔ میرا عمل اس صورت میں کام کرتا کہ میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکتا اور میرا ہاتھ تھوڑی دیر کے لیے اس کے ماتھے پر رہتا۔‘‘ ’’جہاں تک میں اس علم کو سمجھتا ہوں۔‘‘ابو جریج نے کہا۔’’وہ پہلے ہی پاگل ہو چکی تھی اور تمہیں اپنا دشمن سمجھنے لگی تھی۔‘‘ ’’اور اسے میرے خلاف دشمنی یہ تھی کہ میں جرید بن مسیب کو مسلمانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ آیا تھا ۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’میں اسے اپنے ساتھ لا سکتا تھا لیکن وہ اس حد تک میرے طلسماتی علم کے زیرِ اثر آچکا تھا کہ ہم اسے زبردستی لاتے تو شاید مجھے یا یوحاوہ کو قتل کردیتا۔ میں نے اس کے ذہن میں درندگی کا ایسا تاثر پیدا کر دیا تھا کہ وہ قتل و غارت کے سوااور کچھ سوچ ہی نہیں سکتا تھا۔ اگر میں ایک درخت کی طرف یہ اشارہ کرکے کہتا کہ یہ ہے محمد، تو وہ تلوار اس درخت کے تنے میں اتار دیتا۔ مجھے یہ توقع بھی تھی کہ یہ پیچھے رہ گیا تو ہو سکتا ہے کہ محمدﷺ تک پہنچ جائے اور اسے قتل کر دے لیکن وہ خود قتل ہو گیا۔‘‘ ’’کیا تم اب یوحاوہ پر قابو پا سکو گے؟‘‘ابو جریج نے پوچھا۔’’مجھے امید ہے کہ میں اسے اپنے اثر میں لے آؤں گا۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’کیا تم مجھے اس کام میں شریک کر سکو گے؟‘‘ابو جریج نے پوچھا اور کہا۔’’میں کچھ جاننا چاہتا ہوں۔ کچھ سیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ ’’اگربڑھاپا تمہیں چلنے دے تو چلو۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’ میں تھوڑی دیر تک روانہ ہونے والا ہوں ۔ یہاں کے کچھ آدمی میرے ساتھ  چلنے کوتیار ہو گئے ہیں۔‘‘ ’’اور پھر خالد بن ولید!‘‘ بوڑھے ابو جریج نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے خالد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جذباتی لہجے میں کہا ۔’’ہم دونوں بوڑھے،اونٹوں پر سوار اس پہاڑی علاقے میں پہنچے جہاں کے متعلق بتایا گیا تھا کہ ایک عورت کو دیکھا گیا ہے۔ ہم تنگ سی ایک وادی میں داخل ہوگئے۔ ہمارے پیچھے دس بارہ گھڑ سوار اور تین چار شتر سوار تھے۔ وادی میں داخل ہوئے تو ان سب نے کمانوں میں تیر ڈال لیے۔ وادی آگے جاکر کھل گئی ، ہم دائیں کو گھومے تو ہمیں کئی گدھ  نظر آئے جو کسی مردار کو کھا رہے تھے ۔ ایک صحرائی لومڑی گدھوں میں سے دوڑتی ہوئی نکلی۔ میں نے دیکھا اس کے منہ میں ایک انسانی بازو تھا ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں