شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 10




⚔ شمشیرِ بے نیام⚔

  حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

قسط نمبر-10

اس پر اس خواب کا ایسااثر ہوا کہ وہ لیث بن موشان کے پاس چلا گیا اوراس سے خواب کی تعبیر پوچھی۔ لیث بن موشان نے اسے بتایا کہ وہ اپنی کمسن بیٹی یوحاوہ کو اسلام کی جڑیں کاٹنے کے لیے وقف کردے۔ اس بوڑھے یہودی جادوگر نے یہ پیشن گوئی بھی کی تھی کہ جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ) یعنی نبی کریمﷺ( وہ اس لڑکی کے ہاتھوں قتل ہوں گے ،یا یہ لڑکی ان کی نبوت کے خاتمے کا ذریعہ بنے گی۔ اس نے یوحاوہ کے باپ سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ یوحاوہ کو اس کے پاس لے آئے۔ یوحاوہ کو لیث بن موشان کے حوالے کردیا گیا۔’’میں نے اس لڑکی کی تربیت کی ہے۔‘‘ لیث بن موشان نے یوحاوہ کی بات کاٹ کر کہا۔
’’خدائے یہودہ نے اسے جو حسن اور جو جسم دیا ہے،یہ ایک دلکش تلوار ہے یا اسے بڑا میٹھا زہر سمجھ لیں۔ اس نے قریش کو مسلمانوں سے ٹکرانے میں جو کام کیا ہے وہ تم میں سے کوئی نہیں کر سکتا۔ چھوٹے چھوٹے قبیلوں کے سرداروں کو اس لڑکی نے قریش کا اتحادی اور محمد)ﷺ( کا دشمن بنایا ہے۔ اب اس نے محمد )ﷺ(کے قتل کا جو انتظام مجھ سے کرایا ہے وہ اسی سے سنو۔‘‘یوحاوہ نے سنایا کہ لیث بن موشان نے اس میں ایسی جرات اور ایسی عقل پیدا کر دی کہ وہ مردوں پر اپنے حسن کا جادو چلانے کی ماہر ہو گئی۔ حسین لڑکی ہوتے ہوئے اس میں مردوں جیسی جرات آ گئی تھی۔ )لیکن اس کا استاد اسے یہ نہ بتا سکا کہ جس نئے عقیدے کو روکنے کا اور جس شخصیت کے قتل کا انہوں نے ارادہ کررکھا ہے ۔وہ عقیدہ خدا نے اتارا ہے اور ااس شخصیت کو خدا نے اس عقیدے کے فروغ کیلئے رسالت عطا کی ہے۔ (یوحاوہ کی تربیت ایسی ہی ہوئی کہ وہ اپنے مذہب کو دنیا کا واحد سچا مذہب سمجھتی رہی،اور یہ نہ سمجھ سکی کہ حق پرستوں پر اﷲ کا ہاتھ ہوتا ہے خدا نے اسے آندھی میں تنہا پھینک دیا لیکن وہ خدا کا یہ اشارہ سمجھ نہ سکی، کہاں وہ جرات کے مقابلے میں اپنے آپ کو مردوں کے برابر سمجھتی تھی، کہاں وہ ایک کمزور اور بے بس لڑکی بن گئی۔وہ مرد کے جسم سے ناآشنا نہیں تھی،جرید بن مسیّب کا جسم بھی ایک مرد کا ہی جسم تھا لیکن اس جسم کو وہ مقدس اور پاک سمجھنے لگی اور جرید اسے فرشتہ لگنے لگا۔ وجہ یہ تھی کہ وہ اس کے حسین چہرے، ریشم جیسے بالوں، اور دلکش جسم سے ذرا بھی متاثر نہ ہوا تھا۔یوحاوہ پر جرید کے اس رویے کا یہ اثر ہواکہ وہ جرید کے جسم میں کشش محسوس کرنے لگی۔

مکہ دور نہیں تھا۔ شام کے بعد جب رات گہری ہو چکی تھی،جرید نے یوحاوہ کو اس کے گھر پہنچا دیا۔ یوحاوہ کے قلعہ نما مکان کا دروازہ کھلا تو اس کا باپ پریشان نظر آیا۔اسے توقع نہیں تھی کہ اس کی بیٹی زندہ واپس آجائے گی۔انہوں نے جرید کو روک لیا اور شراب سے اس کی تواضع کی،جرید جب چلا گیا تو یوحاوہ نے اپنی ذات میں خلا محسوس کیا۔
دوسرے ہی روز اس نے جرید کو پیغام بھیجا کہ اسے ملے، جرید آگیا۔ یہ ایک جذباتی ملاقات تھی۔ جرید نے یہ ملاقات جذبات تک ہی رکھی۔ اس کے بعد ان کی ملاقاتیں ہوتی رہیں اور جرید کے دل میں بھی یوحاوہ کی محبت پیدا ہو گئی۔ یہ محبت پاک رہی۔ یوحاوہ حیران تھی کہ اس کے اندر پاکیزہ اور والہانہ محبت کے جذبات موجود ہیں۔ ایک روز جرید نے یوحاوہ سے پوچھا کہ ’’وہ اس کے ساتھ شادی کیوں نہیں کر لیتی؟‘‘ ’’نہیں!‘‘ یوحاوہ نے جواب دیا۔’’میں تمہارے جسم کی پوجا کرتی ہوں۔ شادی ہو گئی تو جذبات مر جائیں گے۔‘‘ ’’میری بیٹیاں ہیں بیٹا کوئی نہیں۔‘‘جرید نے اسے کہا۔’’میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں۔مجھے بیٹا چاہیے۔‘‘یوحاوہ سوچ میں پڑ گئی۔ وہ جرید بن مسیّب کی یہ خواہش پوری کرنا چاہتی تھی۔ اسے ایک رستہ نظر آگیا۔’’ہمارا ایک بزرگ ہے لیث بن موشان ۔‘‘یوحاوہ نے کہا۔’’اس کے پاس کوئی علم ہے۔ اس کے ہاتھ میں کوئی طاقت ہے۔ مجھے امید ہے کہ وہ اپنے علم اور عمل کے زور سے تمہیں اسی بیوی سے بیٹا دے گا۔ تم میرے ساتھ چلو وہ میرا اتالیق ہے۔‘‘جرید بن مسیّب اس کے ساتھ لیث بن موشان کے پاس جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ ان کی دوستی دو آدمیوں یا دو عورتوں کی صورت اختیا رکر گئی تھی۔ وہ جب اکھٹے بیٹھتے تو رسولِ کریمﷺ کے خلاف باتیں کرتے تھے۔اسلام کے فروغ کو روکنے کے منصونے بھی بناتے تھے۔ لیکن جرید مسلمانوں کے خلاف کسی جنگی کارروائی میں شریک نہیں ہوتا تھا۔ یوحاوہ کو اس کی یہ بات پسند نہیں تھی۔وہ اسے اُکساتی اور بھڑکاتی تھی۔’’میرا مذہب تم ہو۔‘‘جرید بن مسیب نے اسے ایک روز فیصلے کے لہجے میں کہہ دیا تھا۔’’تم میری بیوی نہیں بن سکتیں تو نہ سہی،میں تمہیں دیکھے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔‘‘’’میں تمہیں ایک راز بتا دیتی ہوں جرید!‘‘یوحاوہ نے اسے کہا تھا۔’’میں کسی کی بھی بیوی نہیں بنوں گی۔ میرے باپ نے میری زندگی یہودیت کیلئے وقف کردی ہے۔ لیث بن موشان نے مجھے یہ فرض سونپا ہے کہ اسلام کے زیادہ سے زیادہ دشمن پیدا کروں۔میرے دل میں اپنے مذہب کے بعد صرف تمہاری محبت ہے ۔مجھے تم اپنی ملکیت سمجھو۔‘‘

ایک روز جرید یوحاوہ کے ساتھ لیث بن موشان سے ملنے اس کے پاس چلا گیا۔ یوحاوہ اسے لیث بن موشان کے سامنے لے جانے کے بجائے پہلے خود اندر گئی اور اس نے لیث کو صاف الفاظ میں بتایا کہ وہ جرید کو محبت کا دیوتا سمجھتی ہے۔ اس نے لیث بن موشان کو بتایا کہ جرید نے اسے موت کے منہ سے نکالا تھا۔ اس نے لیث کو بتایا کہ جرید کی بیٹیاں ہیں ،بیٹا ایک بھی نہیں۔’’کیا آپ کے علم میں اتنی طاقت ہے کہ جرید کی بیوی کے بطن سے لڑکا پیدا ہو؟ ‘‘یوحاوہ نے پوچھا۔’’کیا نہیں ہو سکتا۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’پہلے میں اسے دیکھوں گا، پھر میں بتا سکوں گا کہ مجھے کیا کرنا پڑے گا۔ اسے میرے پاس بھیج دو۔‘‘یوحاوہ نے اسے اندر بھیج دیا۔ اور خود باہر کھڑی رہی۔ بہت سا وقت گزرجانے کے بعد لیث بن موشان نے جرید کو باہر بھیج کر یوحاوہ کو اندر بلالیا۔’’جو شخص تم جیسی خوبصورت اور دل کش لڑکی کے ساتھ اتنا عرصہ پاک محبت کر سکتا ہے وہ بہت ہی مضبوط شخصیت کا آدمی ہے۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’یا وہ اس قدر کمزور شخصیت کا ہو سکتا ہے کہ تمہارے حسن کا جادو اپنے اوپر طاری کرکے تمہارا غلام ہو جائے۔‘‘ ’’جرید مضبوط شخصیت کا آدمی ہے۔‘‘یوحاوہ نے کہا۔’’جرید کی ذات بہت کمزور ہے۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’میں نے تمہارے متعلق اس کے ساتھ کوئی بات نہیں کی۔ میں نے اس کی ذات میں اتر کر معلوم کر لیا ہے۔ یہ شخص تمہارے طلسم کا اسیر ہے۔‘‘ ’’مقدس اتالیق! ‘‘یوحاوہ نے کہا۔ ’’آپ اس کے متعلق ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں؟ میں اسے ایک بیٹا دینا چاہتی ہوں ۔ مجھے اس کے ساتھ اتنی محبت ہے کہ میں نے یہ بھی سوچ رکھا ہے کہ میں اس کے بیٹے کو جنم دوں گی۔‘‘ ’’نہیں لڑکی!‘‘ بوڑھے لیث نے کہا۔’’تمہاری کوکھ سے اس کا بیٹا جنم نہیں لے گا۔ یہ شخص ذریعہ بنے گا اس فرض کا جو خدائے یہودہ نے مجھے اور تمہیں سونپا ہے۔‘‘یوحاوہ خاموشی سے لیث بن موشان کے چہرے پہ نظریں جمائے ہوئے تھی۔ ’جسے تم اپنی محبت کا دیوتا سمجھتی ہو، وہ اس شخص کو قتل کرے گا جو کہتا ہے کہ اسے خدا نے نبوت دی ہے۔‘ ‘لیث بن موشان نے کہا۔’’جرید سے زیادہ موزوں آدمی اور کوئی نہیں ہو گا۔‘‘ ’’کیا آپ پیشن گوئی کر رہے ہیں؟ ‘‘یوحاوہ نے پوچھا۔’’یہ کس طرح قتل کرے گا؟‘‘’’اسے میں تیار کروں گا۔‘‘ ’’یہ تیارنہیں ہو گا۔‘‘ یوحاوہ نے کہا۔’’ یہ کہا کرتا ہے کہ اس کا کوئی مذہب نہیں۔محمد )ﷺ(کو یہ اپنا دشمن نہیں سمجھتا ،قتل و غارت کو پسند نہیں کرتا۔‘‘

’’یہ سب کچھ کرے گا۔‘‘بوڑھے لیث نے کہا۔’’اس کے ذہن پر میرا قبضہ ہوگا۔ تم میرے ساتھ ہو گی ۔ تین روز تک یہ سورج کی روشنی نہیں دیکھ سکے گا۔ جب ہم اسے باہر نکالیں گے تو یہ ایک ہی بات کہے گا۔ کہاں ہے خدا کا نبی۔ وہ ہم میں سے ہے ۔میں اسے زندہ نہیں رہنے دوں گا۔‘‘ ’’مقدس باپ! ‘‘یوحاوہ نے رندھیائی ہوئی آواز میں التجا کی۔’’جرید مارا جائے گا ۔یہ واحد شخص ہے ……‘‘ ’’خدائے یہودہ سے بڑھ کر محبت کے لائق کوئی نہیں ۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’تمہیں یہ قربانی دینی ہو گی۔ جرید اب مکہ کو واپس نہیں جائے گا۔‘‘ پھر یوحاوہ بھی مکہ کو واپس نہ گئی ۔ جرید بن مسیّب بھی نہ گیا۔ بوڑھے لیث نے دونوں کو تین دن اور تین راتیں ایک کمرے میں بند رکھا ۔ جرید کو اپنے سامنے بٹھا کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں پھر اسے کچھ پلایا اور زیرِلب کچھ بڑ بڑانے لگا۔ اس نے یوحاوہ کو نیم برہنہ کرکے اس کے ساتھ بٹھا دیا۔ لیث یوحاوہ کو جو کہتا رہا وہ کرتی رہی۔
’’یہ ضروری نہیں کہ میں تم سب کو یہ بھی بتاؤں کہ میں نے جرید کے ذہن اور اس کی سوچوں کو کس طرح اپنے قبضے میں لیا ہے۔‘‘ لیث نے کہا۔’’میں اسے ساتھ لایا ہوں تم اسے خود دیکھ لو۔‘‘ ’’لیث بن موشان نے یوحاوہ کو اشارہ کیا۔‘‘یوحاوہ باہر چلی گئی اور جرید بن مسیّب کو اپنے ساتھ لے آئی۔ جرید نے اندر آ کر سب کو باری باری دیکھا۔’’وہ یہاں نہیں ہے ۔‘‘جرید نے کہا۔’’میں اسے پہچانتا ہوں وہ ہم میں سے ہے ۔وہ یہاں نہیں۔‘‘ ’’ذرا صبر کرو جرید!‘‘بوڑھے لیث نے کہا۔’’ہم تمہیں ا س تک پہنچائیں گے کل……کل جرید ……بیٹھ جاؤ۔‘‘جرید یوحاوہ کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا اور بازو اس کی کمر میں ڈال کر اسے اپنے اور قریب کر لیا۔ اگلی صبح جب مدینہ میں لوگ فتح کی خوشیاں منا رہے تھے اور کعب بن اسد کے گھر رسولِ اکرمﷺ اور اسلام کے خلاف بڑی ہی خطرناک سازش تیار ہو چکی تھی۔ رسولِ کریمﷺ کو یاد دلایا گیا کہ بنو قریظہ نے جس کا سردار کعب بن اسد تھا مدینہ کے محاصرے کے دوران اہلِ قریش اور غطفان کے ساتھ خفیہ معاہدہ کیا تھا جسے نعیمؓ بن مسعود نے بڑی دانشمندی سے بیکار کر دیا تھا۔ یہ واقعہ بھی دو چار روز پہلے کا تھا جس میں رسول اﷲﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ نے ایک یہودی مخبر کو قتل کیا تھا۔ یہ مخبر اس چھوٹے سے قلعے میں داخل ہونے کا رستہ دیکھ رہا تھا ۔ جس میں مسلمانوں کی عورتیں اور ان کے بچوں کورکھا گیا تھا ۔ اس یہودی نے ایک عورت کو اپنے مقابلے میں دیکھ کر بڑے رعب اور گھمنڈ سے کہا تھا کہ وہ یہودی ہے اور مخبری کے لیے آیا ہے۔ حضرت صفیہ ؓ نے اس کی تلوار کا مقابلہ ڈنڈے سے کیا اور اسے ہلاک کر دیا تھا۔

’’خدا کی قسم!‘‘ کسی صحابی نے للکار کرکہا۔’’ان یہودیوں پر اعتبار کرنا اور ان کی بد عہدی پر انہیں بخش دینا، ایسا ہی ہے جیسے اپنا خنجر اپنے ہی د ل میں اتا رلیا جائے۔‘‘ ’’عبداﷲ بن محمد بن اسماء اور نافع حضرت ابنِ عمرؓ کے حوالے سے روایت کرتے ہیں کہ معرکۂ خندق کے خاتمے پر رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا ’’تم میں ہر کوئی نمازِ عصر بنو قریظہ کے پاس پہنچ کر پڑھے۔‘‘ ایک اور حدیث میں ہے جس کے راوی حضرت انسؓ ہیں ،انہوں نے کہا تھا میں اب تک لشکرِجبرئیل کا گرد و غبار بنو غنم میں اڑتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب رسولِ کریمﷺ بنو قریظہ کو بدعہدی اور دھوکادہی کی سزا دینے گئے تھے۔

تمام مؤرخین نے لکھا ہے کہ رسولِ کریمﷺ کے حکم سے مسلمانوں نے چڑھائی کردی اور بنو قریظہ کی قلعہ بند بستی کو محاصرے میں لے لیا۔ احادیث کے مطابق سعدؓ بن معاذ کو بنو قریظہ کے سرداروں کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا گیا کہ وہ اپنی بد عہدی کی سزا خود تجویز کریں ۔سعدؓ بن معاذ زخمی تھے۔ خندق کی لڑائی میں انہیں قبیلہ قریش کے ایک آدمی حبان بن عرفہ کی برچھی لگی تھی۔ لیث بن موشان ،یوحاوہ اور یہودیوں کے تین چار سرکردہ آدمی ابھی تک کعب بن اسد کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ جرید بن مسیب بھی وہیں تھا۔ انہوں نے اپنی سازش کا وقت رات کا مقررکیا ۔ لیکن ایک یہودی دوڑتا ہوا اندر آیا۔
’’مسلمان آ رہے ہیں۔‘‘اس نے گھبراہٹ سے کانپتی ہوئے آواز میں کہا۔ ’’صاف نظر آتا ہے کہ وہ دوست بن کر نہیں آ رہے۔ گرد بتا رہی ہے کہ وہ چڑھائی کرکے آ رہے ہیں۔ گرد دائیں بائیں پھیل رہی ہے۔ دیکھو…… اٹھو اور دیکھو ۔‘‘ کعب بن اسد دوڑتا ہوا باہر نکلا اور قلعہ کے برج میں چلا گیا ۔وہاں سے دوڑتا اترا اور لیث بن موشان کے پاس پہنچا۔ ’’مقدس موشان!‘‘کعب بن اسد نے کانپتی ہوئے آوا زمیں کہا ۔’’کیا آپ کا جادو ان برچھیوں اور تلواروں کو توڑ سکتا ہے؟ جو ہمیں قتل کرنے آ رہی ہیں۔‘‘ ’’روک سکتا ہے ۔‘‘بوڑھے لیث بن موشان نے کہا۔’’اگر محمد)ﷺ( کا جادو زیادہ تیز ہوا تو میں مجبور ہوں گا۔ تم اوپر جاکر کیا دیکھ آئے ہو؟‘‘ ’’خدائے یہودہ کی قسم!‘‘ کعب بن اسد نے کہا۔’’یہ مخبری نعیم بن مسعود نے کی ہے۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ و ہ مسلمان ہو چکا ہے۔ مسلمان محاصرے کی ترتیب میں آ رہے ہیں۔ ہم نکل نہیں سکیں گے۔‘‘

’ان دونوں کو نکال دو۔‘‘لیث بن موشان نے کہا۔’’یوحاوہ جرید کو ساتھ لے کر پچھلے دروازے سے نکل جاؤ۔ میں تمہارے پیچھے پیچھے آ رہا ہوں۔‘‘ ’’آپ اوپر کیوں نہیں جاتے لیث بن موشان؟‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’آپ کا وہ علم اور وہ جادو کہاں گیا جو آپ ……‘‘ ’’تم اس راز کو نہیں سمجھ سکتے۔‘‘بوڑھے لیث نے کہا۔’’ موسیٰ نے فرعون کو ایک دن میں ختم نہیں کر دیا تھا۔ یہ عصا جو تم میرے ہاتھ میں دیکھ رہے ہو، وہی ہے جو موسیٰ نے دریا میں مارا تھا تو پانی نے انہیں رستہ دے دیا تھا۔ یہ عصا کا کرشمہ تھا کہ فرعون کا لشکر اور وہ خود دریا میں ڈوب کر فنا ہو گیا تھا۔ جس طرح موسیٰ اپنے قبیلے کو مصر سے نکال لائے تھے اسی طرح میں تمہیں یہاں سے نکال لوں گا۔‘‘یوحاوہ اور جرید بن مسیّب پچھلے دروازے سے نکل گئے اور لیث بن موشان بھی نکل پڑا۔ مسلمان جب بنو قریظہ کی بستی کے قریب آئے تو عورتوں اور بچوں میں ہڑبونگ بپا ہو گئی اور بھگدڑ مچ گئی۔ عورتیں اور بچے اپنے گھروں کو بھاگے جا ہے تھے۔ کوئی آدمی مقابلے کے لیے باہر نہ آیا۔ جو مسلمان ٹھیکریوں کی طرف سے محاصرے کے لیے آگے بڑھ رہے تھے انہیں دو آدمی اور ایک عورت نظر آئی ۔ تینوں بھاگے جا رہے تھے۔ آدمی جو بوڑھا تھا اور عورت، اپنے ساتھی کو گھسیٹ رہے تھے۔ وہ پیچھے کو مڑ مڑ کر دیکھتا اور آگے نہیں چلتا تھا ۔وہ لیث بن موشان ،جرید اور یوحاوہ تھے۔ لیث نے جرید کے ذہن پر قبضہ کر کے اسے رسولِ کریمﷺ کے قتل پر آمادہ کر لیا تھا لیکن اب جرید اس کے لیے مصیبت بن گیا تھا۔ وہ اس عمل کے زیرِاثر تھا جسے آج ہپناٹزم کہا جاتا ہے، یوحاوہ اپنی محبت کی خاطر اسے اپنے ساتھ لے جا رہی تھی ۔ اسے یہی ایک خطرہ نظر آرہا تھا کہ جرید مسلمانوں کے ہاتھوں مار اجائے گا۔ اور لیث ،جرید کواس لیے اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش میں تھا کہ اسے کسی اور موقع پر رسول اﷲ ﷺ کے قتل کے لیے استعمال کرے گا۔لیکن جرید لیث کے عمل ِ تنویم کے زیرِ اثر بار بار کہتا تھا’’ کہاں ہے وہ جو اپنے آپ کو خدا کا نبی کہتا ہے ؟وہ ہم میں سے ہے۔ وہ میرے ہاتھوں قتل ہو گا۔ مجھے چھوڑ دو مجھے مدینہ جانے دو۔‘‘ ایک مسلمان نے ٹھیکری پر کھڑے ہوکر انہیں للکارا اور رکنے کو کہا۔ لیث اور یوحاوہ نے پیچھے دیکھا اور وہ جرید کواکیلا چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ جرید نے تلوار نکال لی۔’’کہاں ہے محمد ؟‘‘جرید نے تلوار لہرا کر ٹھیکری کی طرف آتے ہوئے کہا۔’’وہ ہم میں سے ہے۔ میں اسے پہچانتا ہوں ،میں اسے قتل کروں گا جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے  یوحاوہ میری ہے۔‘‘ وہ للکارتا آ رہا تھا۔’’یوحاوہ ہبل اور عزیٰ سے زیادہ مقدس ہے۔ سامنے لاؤ اپنے نبی کو ……‘‘
کون مسلمان اپنے اﷲ کے رسول ﷺکی اتنی توہین برداشت کرتا ؟ جس مسلمان نے ان تینوں کوللکارا تھا اس نے کمان میں تیر ڈالا اور دوسرے لمحے یہ تیر جرید بن مسیب کی دائیں آنکھ میں اتر کر کھوپڑی کے دور اند ر پہنچ چکا تھا۔ جرید کے ایک ہاتھ میں تلوار تھی۔ اس کا دوسرا ہاتھ دائیں آنکھ پر چلا گیا اور اس نے تیر کو پکڑ لیا ۔وہ رک گیا۔ اس کا جسم ڈولا پھر اس کے گھٹنے زمین سے جا لگے ۔ اس کا وہ ہاتھ جس میں تلوار تھی اس طرح زمین سے لگا کہ تلوار کی نوک اوپر کو تھی۔ جرید بڑی زور سے آگے کو گرا ، تلوار کی نوک اس کی شہ رگ میں اتر گئی ۔وہ ذرا سا تڑپا اور ہمیشہ کے لیے بے حس و حرکت ہو گیا۔

سعد ؓبن معاذ جو زخمی تھے، کعب بن اسد کے دروازے پر جا رکے اور دستک دی ۔ کعب نے غلام کو بھیجنے کے بجائے خود دروازہ کھولا۔’’بنو قریظہ کے سردار!‘‘ سعد ؓبن معاذ نے کہا۔’’ تیرے قبیلے کے بچے بچے نے دیکھ لیا ہے کہ تیری بستی ہمارے گھیرے میں ہے ۔ کیا تو کہہ سکتا ہے کہ تو نے وہ گناہ نہیں کیا جس کی سزا آج تیرے پورے قبیلے کو ملے گی؟ کیا تو نے سوچا نہیں تھا کہ بد عہدی کی سزا کیا ہے؟‘‘ ’’مجھے انکار نہیں۔‘‘ کعب بن اسد نے ہارے ہوئے لہجے میں کہا۔’’لیکن میں نے وہ گناہ کیا نہیں جو ابو سفیان مجھ سے کرانا چاہتا تھا۔‘‘ ’’اس لیے نہیں کیا کہ تو اس سے یرغمال میں اونچے خاندا نوں کے آدمی کو مانگتا تھا۔‘‘ سعدؓ بن معاذنے کہا۔’’اس سے پہلے تو نے اسے کہہ دیا تھا کہ تیرا قبیلہ مدینہ کے ان مکانوں پر شب خون مارے گا جس میں ہماری عورتیں اوربچے تھے۔ تو نے ایک مخبر بھی بھیجا تھا بدبخت انسان ۔ تو نہ سوچ سکا کہ مسلمانوں کی ایک عورت بیدار ہوئی تو وہ یہودیوں کی شیطانیت کو صرف ایک ڈنڈے سے کچل دے گی۔‘‘ ’’میں جانتا ہوں تمہیں نعیم بن مسعود نے خبر دی ہے کہ میں نے تم سے بد عہدی کی ہے ۔‘‘کعب بن اسد نے شکست خوردہ آواز میں کہا۔’’ تم یہ جان لو کہ یہ خبر غلط نہیں۔ میں نے جوکچھ کیا وہ اپنے قبیلے کی سلامتی کے لیے کیا تھا۔‘‘ ’’اب اپنے قبیلے کے لیے  سزا خود ہی مقرر کرلو۔‘‘ سعد ؓبن معاذنے کہا۔’’تو جانتا ہے کہ معاہدہ توڑنے والے قبیلے کو کیا تاوان دینا پڑتا ہے۔ اگر تو خود اپنی سزا کا فیصلہ نہیں کرتا تو بھی تجھے معلوم ہے کہ تیرے قبیلے کا انجام کیا ہو گا۔ کیا تو بنو قینقاع اور بنو نضیر کا انجام بھول گیا ہے؟ مجھے اس زخم کی قسم !جومیں نے خندق کی لڑائی میں کھایا ہے ،تیرے قبیلے کا انجام ان سے زیادہ برا ہوگا۔‘‘ ’’ہاں سعد! ‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’میں جانتا ہوں میرے قبیلے کا انجام کیا ہو گا۔ ہمارے بچے اورہماری عورتیں بھی ختم ہو جائیں گی۔ میرافیصلہ یہ ہے کہ معاہدے کے مطابق میرے قبیلے کے تمام مردوں کو قتل کردواور ہماری عورتو ں اور ہمارے بچوں کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔ وہ زندہ تورہیں گے۔‘‘ ’’صرف زندہ نہیں رہیں گے۔‘‘سعدؓ بن معاذنے کہا۔’’وہ خدا کے سچے نبی ﷺکی رحمت کی بدولت با عزت زندگی بسر کریں گے۔ اپنے تمام آدمیوں کو باہر نکالو۔‘‘ سعدؓ بن معاذ واپس آ گئے ۔’’یا رسول اﷲﷺ!‘‘ انہوں نے رسولِ کریمﷺ سے کہا ۔’’بنو قریظہ نے اپنی سزا خود مقررکی ہے۔ان میں جو آدمی لڑنے کے قابل ہیں انہیں قتل کر دیا جائے اور عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو اپنی تحویل میں لے لیا جائے۔‘‘

جاری ہے۔۔۔۔۔

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں