شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 8





⚔ شمشیرِ بے نیام⚔

  حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

قسط نمبر-8


میں ان کی نیت معلوم کرلیتا ہوں۔‘‘ابو سفیان نے کہا اور اپنے غلام کو آواز دی۔’’عکرمہ اور خالد کو بلا لاؤ۔‘‘ابو سفیان نے غلام سے کہا۔نعیمؓ بن مسعود یہ کہہ کر چلے گئے ۔’’میں اپنے سردار غطفان کو خبردار کرنے جا رہا ہوں ۔‘‘خالد اور عکرمہ آئے تو ابوسفیان نے انہیں بتایا کہ نعیم اسے کعب بن اسد کے متعلق کیا بتا گئے ہیں ۔’’غیروں کے سہارے لے کر لڑائیاں نہیں لڑی جاتیں ابو سفیان!‘‘خالد نے کہا ۔’’آپ نے یہ تو سوچا ہی نہیں کہ بنو قریظہ مسلمانوں کے سائے میں بیٹھے ہیں۔ وہ زمین کے نیچے سے مسلمانوں پر وار کر سکتے ہیں لیکن وہ ہیں تو مسلمانوں کے رحم و کرم پر۔ اگر آپ لڑنے آئے ہیں تو جنگجوؤں کی طرح لڑیں۔‘‘ ’’کیا یہ صحیح نہیں ہو گا کہ تم دونوں میں سے کوئی کعب بن اسد کے پاس جائے۔‘‘ ابوسفیان نے پوچھا۔’’ہو سکتا ہے کہ اس نے نعیم سے کہا ہو کہ وہ ہم سے یرغمال مانگے گا۔لیکن تم جاؤ تو وہ ایسی شرط پیش نہ کرے۔کیا تمہیں نظر نہیں آ رہا ہے کہ تمام کا تمام لشکر نیم فاقہ کشی کی حالت میں ہے۔ کیا یہ لشکر خندق عبور کر سکتا ہے؟ یہی ایک صورت ہے کہ کعب مدینہ کے اندر مسلمانوں پر شب خون مارنے کا انتظام کرے۔‘‘ ’’میں جاؤں گا ۔‘‘عکرمہ نے کہا۔’’میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ کعب بن اسد نے یرغمال کی شرط پیش کی تو میں آپ سے پوچھے بغیر معاہدہ منسوخ کر آؤں گا۔‘‘ ’’کیا میں بھی عکرمہ کے ساتھ چلا جاؤں ؟‘‘خالد نے ابو سفیان سے پوچھا۔’’اس کا اکیلے جانا ٹھیک نہیں ہے ۔‘‘’’نہیں!‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’اگر خطرہ ہے تو میں دو سالار ضائع نہیں کر سکتا۔عکرمہ اپنی حفاظت کیلئے جتنے لشکری ساتھ لے جانا چاہتا ہے لے جائے۔‘‘عکرمہ اسی وقت روانہ ہو گیا۔ اس کے ساتھ چار لشکری تھے۔اسے بڑی دور کا چکر کاٹ کر بنو قریظہ تک پہنچنا تھا۔وہ جمعہ کی رات اور تاریخ ۱۴ مارچ ۶۲۷ء تھی ۔جب عکرمہ خندق سے دور دور چلتا شیخین کے سلسلۂ کوہ میں داخل ہوا اور کعب بن اسد کے گھر پہنچا۔ کعب کو معلوم تھا کہ عکرمہ کیوں آیا ہے۔’’آؤ عکرمہ!‘‘ کعب بن اسد نے کہا۔’’ میں جانتا ہوں کہ تم کیوں آئے ہو۔ تمہارے آنے کی ضرورت نہیں تھی۔میں نے دس دن کی مہلت مانگی تھی ۔‘‘کعب بن اسد نے اپنے غلام کو آواز دی ۔غلام آیا تو اس نے غلام سے شراب اور پیالے لانے کو کہا۔’’پہلے میری بات سن لو کعب!‘‘ عکرمہ نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔’’میں شراب پینے نہیں آیا ۔مجھے بہت جلدی واپس جانا ہے۔ ہم محاصرے کو اور زیادہ طول نہیں دے سکتے ۔ہم کل مدینہ پر حملہ کر رہے ہیں۔تمہارے ساتھ ہمارا جو معاہدہ ہوا ہے اس کے مطابق تم مدینہ میں ان جگہوں پر جو ہم نے تمہیں بتائی ہیں کل سے حملے شروع کر دو۔ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تم نے ظاہری طور پر ہمارے ساتھ معاہدہ کیا ہے لیکن درپردہ تم نے وہ معاہدہ قائم کر رکھا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ تم نے کیا ہے۔‘‘
اتنے مین ایک نہایت حسین لڑکی شراب کی صراحی اور پیالے اٹھائے کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ عکرمہ کو دیکھ کر مسکرائی۔ عکرمہ نے اسے دیکھا تو اس کے چہرے پر سنجیدگی کا تاثر اور زیادہ گہرا ہو گیا۔’’کعب!‘‘ عکرمہ نے کہا۔’’تم نے اپنا مذہب اور اپنی زبان ان چیزوں کے عوض بیچ ڈالی ہے۔جنہوں نے کبھی کسی کا ساتھ نہیں دیا۔‘‘کعب بن اسد نے لڑکی کو اشارہ کیا تو وہ چلی گئی۔ ’’میرے عزیز عکرمہ!‘‘ کعب نے کہا۔’’میں تمہارے چہرے پر رعونت کے آثار دیکھ رہا ہوں۔ صاف پتا چلتا ہے کہ تم مجھے اپنا غلام سمجھ کر حکم دینے آئے ہو۔میں نے مسلمانوں کےبساتھ جو معاہدہ کیا تھا وہ بنو قریظہ کے تحفظ اور سلامتی کیلئے کیا تھا اور میں نے جو معاہدہ تمہارے ساتھ کیا ہے وہ تمہاری فتح اور مسلمانوں کی شکست کی خاطر کیا ہے۔مسلمانوں کو ختم کرنا میرے مذہب کا حکم ہے۔ تمہارے ساتھ معاہدہ نبھانا اسی سلسلے کی ایک کوشش ہے۔ اپنا مذہبی فریضہ ادا کرنے کیلئے میں تمہیں استعمال کروں گا۔حُیّ بن اخطب سے میں نے کہہ دیا تھا کہ اہلِ قریش اور اہلِ غطفان مجھے بنو قریظہ کی سلامتی کی ضمانت دیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ تم لوگ ناکام ہو جاؤ اور مسلمان ہم سے ظالمانہ انتقام لیں۔‘‘نعیمؓ بن مسعود نے جو چنگاری ان لوگوں کے درمیان پھینک دی تھی وہ عکرمہ کے سینے میں سلگ رہی تھی ۔نعیم ؓ نے عکرمہ کے ذہن میں ابو سفیان کی معرفت پہلے ہی ڈال دیا تھا کہ کعب افراد کی صورت میں ضمانت مانگے گا۔کعب کی زبان سے ضمانت کا لفظ سنتے ہی عکرمہ بھڑک اٹھا۔’’کیا تمہیں ہم پر اعتماد نہیں؟‘‘عکرمہ نے غصیلی آواز میں کہا۔’’کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم شاید بھول گئے ہیں کہ محمدﷺ ہمارا اور تمہارا مشترکہ دشمن ہے۔‘‘’’میں یہ نہیں کہتا جو تم کہہ رہے ہو۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ اپنے مشترکہ دشمن کو جتنا میں جانتا ہوں اتنا تم نہیں جانتے۔میں اعتراف کرتا ہوں کہ جو عقل خدا نے محمدﷺ کو دی ہے وہ ہم میں سے کسی کو نہیں دی……میں اس کی ضمانت چاہتا ہوں۔‘‘’’کہو، تمہیں کیسی ضمانت چاہیے؟‘‘عکرمہ نے پوچھا۔ ’’قبیلۂ قریش کے چند ایک سرکردہ افراد ہمارے پاس بھیج دو۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’میں کوئی نئی بات نہیں کہہ رہا عکرمہ! یہ ہمارا تمہارا دستور ہے۔اس رواج اور شرط سے تم واقف ہو۔میں نے ضمانت کے طور پر یرغمال میں لینے والے آدمیوں کی تعداد نہیں بتائی ،یہ تعداد تم خود مقرر کر لو۔تم جانتے ہو کہ معاہدے کی خلاف ورزی کرو گے تو تمہارے ان سرکردہ افراد کو ہم قتل کر دیں گے۔‘‘ ’’انہیں تم قتل نہیں کرو گے۔‘‘عکرمہ نے بھڑکی ہوئی آواز میں کہا۔’’تم انہیں مسلمانوں کے حوالے کر دو گے۔‘‘’’کیا کہہ رہے ہو عکرمہ؟‘‘کعب بن اسد نے حیرت اور پریشانی کے لہجے میں پوچھا۔’’کیا تم مجھے اتنا ذلیل سمجھتے ہو کہ میں تمہیں یہ دھوکا دوں گا کہ تمہارے قبیلوں کے سرداروں کو مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کرواؤں گا؟مجھ پر اعتبار کرو۔‘‘
’’یہودی پر اعتبار کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی نے سانپ پر اعتبار کر لیا ہو۔‘‘عکرمہ نے غصے کے عالم میں کہا۔’’اگر تم اپنے آپ کو اتنا ہی قابلِ اعتبار سمجھتے ہو تو کل مدینہ میں ان چھوٹے قلعوں پر حملے شروع کردو جہاں پر مسلمانوں نے اپنی عورتوں اور بچوں کو رکھا ہوا ہے۔‘‘’’کل؟‘‘کعب نے کہا۔’’کل ہفتے کا دن ہے۔ہفتے کا دن یہودیوں کا ایک مقدس دن ہوتا ہے جسے ہم ’’سبت‘‘ کہتے ہیں ۔اس روز عبادت کے سوا ہم اور کوئی کام نہیں کرتے۔کوئی یہودی سبت کے دن کوئی کام یا کاروبار کرے یا کسی پر حملہ کرے تو خدائے یہودہ اسے انسان سے خنزیر یا بندر کی شکل میں تبدیل کر دیتا ہے۔‘‘عکرمہ دیکھ چکا تھا کہ کعب بن اسد کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔وہ شراب پیتا چلاجا رہا تھا۔عکرمہ نے شراب پینے سے انکار کر دیا تھا۔اس نے ابو سفیان سے کہا تھا کہ وہ فیصلہ کر کے ہی واپس آ ئے گا۔’’تم کل حملہ کرو یا ایک دن بعد کرو۔ ہم تمہاری نیت کو عملی صورت میں دیکھ کر فیصلہ کریں گے کہ تمہیں یرغمال میں اپنے آدمی دیئے جائیں یا نہ دیئے جائیں۔‘‘عکرمہ نے کہا۔’’ اس سے پہلے ہم تمہیں ایک آدمی بھی نہیں دیں گے۔‘‘ ’’میں کہہ چکا ہوں کہ یرغمال کے بغیر ہم کچھ نہیں کریں گے۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’جوں ہی تمہارے آدمی ہمارے پاس پہنچ جائیں گے ہم تمہاری منشاء کے مطابق مدینہ کے اندر کھلبلی مچا دیں گے ۔تم دیکھنا کہ ہم محمد ﷺ کی پیٹھ میں کس طرح چھرا گھونپتے ہیں۔‘‘عکرمہ اٹھ کھڑا ہوا اور غصے میں بولا۔’’تم بد نیت ہو۔تمہاری نیت صاف ہوتی تو تم کہتے کہ مجھے کسی ضمانت کی ضرورت نہیں۔آؤ مل کر مسلمانوں کو مدینہ کے اندر ہمیشہ کیلئے ختم کر دیں۔‘‘’’مجھے اگر حکم ماننا ہی ہے تو میں محمد ﷺ کا حکم کیوں نہ مان لوں؟‘‘کعب بن اسد نے عکرمہ کاغصہ دیکھتے ہوئے کہا۔’’ہم مسلمانوں کے ساتھ رہتے ہیں۔جو تحفظ ہمیں ان سے مل سکتا ہے وہ تم نہیں دے سکو گے۔‘‘مؤرخ ابنِ ہشام اور ابنِ سعد نے لکھا ہے کہ نعیمؓ بن مسعود کا چھوڑا ہوا تیر نشانہ پہ لگا ۔عکرمہ غصے کے عالم میں کعب بن اسد کے گھر سے نکل آیا۔یہودیوں اور اہلِ قریش کا معاہدہ جو اگر برقرار رہتا تو مسلمانوں کی کمر ٹوٹ جاتی،کعب کے گھر کے اندر ہی ٹوٹ گیا۔جب عکرمہ کعب بن اسد سے ملنے جا رہا تھا۔اس وقت نعیم ؓبن مسعود اپنے قبیلے کے سردارغطفان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔اس کے ساتھ بھی انہوں نے کعب بن اسد کے متعلق وہی باتیں کیں جن باتوں سے وہ ابو سفیان کو بھڑکا چکے تھے۔غطفان نے اپنے سالار عینیہ کو بلالیا۔’’کیا تم نے سنا ہے کہ کعب بن اسد ہمیں کیا دھوکا دے رہا ہے؟‘‘غطفان نے عینیہ سے کہا۔’’وہ ہم سے یرغمال میں رکھنے کیلئے سرکردہ افراد مانگتا ہے۔کیا یہ ہماری توہین نہیں؟‘‘
’’سردار غطفان!‘‘ سالار عینیہ نے کہا۔’’میں پہلے تمہیں کہہ چکا ہوں کہ میرے ساتھ میدانِ جنگ کی بات کرو۔میں آمنے سامنے کی لڑائی جانتا ہوں۔ مجھے اس شخص سے نفرت ہو گی جو پیٹھ کے پیچھے آکر وار کرتا ہے اور مجھے اس شخص سے بھی نفرت ہوگی جس کی پیٹھ پر وار ہوتا ہے اور پھر تم یہودیوں پر اعتبار کرتے ہو؟ اگر کعب بن اسد کہے گا کہ مجھے اپنے قبیلے کا سردار غطفان یرغمال میں دے دوتو کیا میں تمہیں اس کے حوالے کر دوں گا؟‘‘ ’’میں اس شخص کا سر اڑا دوں گا جو ایسا مطالبہ کرے گا۔‘‘نعیمؓ بن مسعود نے کہا۔’’میں ان یہودیوں کو اپنے قبیلے کی ایک بھیڑ یا بکری بھی نہ دوں گا۔خدا کی قسم! کعب نے ہماری توہین کی ہے۔‘‘’’ابو سفیان کیا کہتا ہے؟‘‘غطفان نے نعیمؓ سے پوچھا۔’’یہ بات سن کر ابو سفیان غصے سے کانپنے لگا۔‘‘نعیمؓ نے کہا ۔’’ابو سفیان کہتا ہے کہ وہ کعب بن اسد سے اس توہین کا انتقام لے گا۔‘‘
’’اور اسے انتقام لینا چاہیے۔‘‘سالار عینیہ نے کہا۔’’بنو قریظہ کی حیثیت ہی کیا ہے؟وہ ہمارے اور مسلمانوں کے درمیان اس طرح پس جائیں گے کہ ان کا وجود ہی ختم ہو جائے گا۔‘‘خالد کو آج مدینہ کی طرف جاتے ہوئے وہ وقت یاد آ رہا تھا جب عکرمہ بنو قریظہ کی بستی سے واپس آ یا تھا۔خالد دوڑتا ہوا اس تک پہنچا تھا ۔اُدھر سے ابو سفیان گھوڑا دوڑاتا آگیا۔ عکرمہ کے چہرے پر غصے اور تھکن کے گہرے آثار تھے۔’’کیا خبر لائے ہو؟‘‘ ابو سفیان نے اس سے پوچھا۔’’خدا کی قسم ابو سفیان! میں نے کعب سے زیادہ بد نیت انسان پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔‘‘عکرمہ نے گھوڑے سے کود کر اترتے ہوئے جواب دیا۔’’نعیم نے ٹھیک کہا تھا۔‘‘’’کیا اس نے ہم سے یرغمال میں رکھنے کیلئے آدمی مانگے ہیں؟‘‘خالد نے پوچھا تھا۔’’ ہاں خالد!‘‘ عکرمہ نے کہا تھا۔’’ اس نے مجھے شراب پیش کی اور میرے ساتھ اس طرح بولا جیسے ہم اس کے مقروض ہیں۔اس نے کہا کہ پہلے یرغمال میں اپنے آدمی دو پھر میں مدینہ کے اندر شب خون ماروں گا۔‘‘ ’’کیا تم نے اسے کہا نہیں کہ اہلِ قریش کے سامنے بنو قریظہ کی حیثیت اونٹ کے مقابلے میں ایک چوہے کی سی ہے؟‘‘خالد نے کہا تھا ۔’’کیا تم نے اس کا سر اس کے کندھوں سے اتار نہیں دیا؟‘‘’’میں نے اپنا ہاتھ بڑی مشکل سے روکا تھا۔‘‘ عکرمہ نے کہا’’اس کے ساتھ ہمارا جو معاہدہ ہوا تھا وہ میں توڑ آیا ہوں ۔‘‘’’تم نے اچھا کیا۔‘‘ابو سفیان نے دبی دبی آواز میں کہا تھا۔’’تم نے اچھا کیا۔‘‘اور وہ پرے چلا گیا تھا۔

یہ کوئی بہت پرانا واقعہ نہیں تھا، ڈیڑھ دو سال پہلے کی ہی بات تھی۔ آج جب خالد مدینہ کی طرف جا رہا تھا تو یہ جانا پہچانا رستہ اسے اجنبی سا لگ رہا تھا ۔کبھی اسے ایسا محسوس ہونے لگتا جیسے وہ خود اپنے لیے اجنبی ہو گیا ہو ۔اسے ابو سفیان کا افسردہ چہرہ نظر آنے لگا۔ خالد نے محسوس کرلیا تھا کہ ابو سفیان مدینہ پر حملے سے منہ موڑ رہا ہے۔خالد اور عکرمہ وہیں کھڑے رہ گئے تھے۔ ’’کیا سوچ رہے ہو خالد ؟‘‘عکرمہ نے پوچھا تھا۔’’کیا تم میری تائید نہیں کرو گے کہ میں اس شخص ابو سفیان کی موجودگی کو صرف اس لیے برداشت کر رہا ہوں کہ یہ میرے قبیلے کا سردار ہے۔‘‘خالد نے عکرمہ کو جواب دیا تھا۔’’اہلِ قریش کو ابو سفیان سے بڑھ کر بزدل سردار اور کوئی نہیں ملے گا۔تم پوچھتے ہو کہ میں کیا سوچ رہا ہوں؟ میں اور زیادہ انتظار نہیں کر سکتا ۔میں نے خندق کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک دیکھا ہے۔ایک جگہ خند ق کم ہے اور زیادہ گہری بھی نہیں ہے۔ہم وہاں سے خندق کے پار جا سکتے ہیں اگر تم میرا ساتھ دو تو میں آج ہی ابھی اس جگہ سے چند سوار خندق کے اس پار لے جانا چاہتا ہوں۔ ابو سفیان کسی غیبی مدد اور سہارے کا انتظار کرنا چاہتا ہے تو کرتا رہے۔‘‘ ’’میں تمہارا ساتھ کیوں نہ دوں گا خالد؟‘‘ عکرمہ نے کہا تھا ۔’’کیا میں مسلمانوں کے ان قہقہوں کو برداشت کرسکوں گا جو اس وقت بلند ہوں گے جب ہم یہاں سے لڑے بغیر واپس جائیں گے۔چلو میں تمہارے ساتھ ہوں ۔‘‘وہ جگہ ذباب کی پہاڑی کے مغرب اور سلع کی پہاڑی کے مشرق میں تھی۔جہاں خندق کی چوڑائی اتنی تھی کہ گھوڑا اسے پھلانگ سکتا تھا۔ضرورت شہسوار کی تھی۔پیادے خندق میں اتر کر اوپر چڑھ سکتے تھے۔ اسی جگہ کے قریب تقریباً سامنے مسلمانوں کی خیمہ گاہ تھی۔ خالد نے عکرمہ کو یہ جگہ دور سے دکھائی۔ ’’پہلے میرے سوار خندق پھلانگیں گے ۔‘‘عکرمہ نے کہا۔’’ لیکن ابھی ہم تمام کا تمام سوار دستہ نہیں گزاریں گے۔ پار جا کر مسلمانوں کو ایک ایک سوار کے مقابلے کیلئے للکاریں گے۔وہ اس رواج کی خلاف ورزی نہیں کریں گے،میرے ساتھ آؤ خالد۔میں اپنے منتخب سوار آگے لاؤں گا۔تم ابھی خندق کے پاس نہ جانا ۔اگر ہم دونوں مارے گئے تو اہلِ قریش کو سوائے ذلت کے اور کچھ نہ ملے گا۔ابو سفیان کا دل محاصرہ اٹھا چکا ہے۔وہ لڑنے کے جذبے کو سرد کر چکا ہے۔‘‘

وہ مقام جہاں خندق گھوڑے کی لمبی جتنی چھلانگ سے پھلانگی جا سکتی تھی ایسی اوٹ میں تھا۔جسے گشتی سنتری قریب آ کر ہی دیکھ سکتے تھے۔عکرمہ نے سات سوار منتخب کر لیے تھے ان میں ایک قوی ہیکل بلکہ دیو قامت شخص ’’عمرو بن عبدو‘‘بھی تھا۔جس کی دھاک اس کی جسامت کی بدولت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ عکرمہ ان سات سواروں کو مقررہ مقام سے کچھ دور تک اس اندازے سے لے گیا جیسے گھوڑوں کو ٹہلائی کیلئے لے جا رہے ہوں۔مسلمانوں کے سنتریوں کو ان پر شک نہ ہوا۔’’سب سے پہلے میں خندق پھلانگوں گا۔‘‘عکرمہ نے چلتے چلتے اپنے سات سواروں سے کہا۔’’کیا یہ ٹھیک نہیں ہو گا کہ سب سے پہلے میرا گھوڑا خندق کو پھلانگے؟‘‘عمرو بن عبدو نے کہا ۔’’نہیں عمرو!‘‘عکرمہ نے کہا۔’’پہلے میں جاؤں گا۔ اگر میرا گھوڑا خندق میں گر پڑا تو تم خندق پھلانگنے کی کوشش نہ کرنا۔تمہارا سالار اپنی جان کی قربانی دے گا۔‘‘یہ کہہ کر عکرمہ نے گھوڑے کی باگ کو جھٹکا دیا ۔گھوڑے کا رخ خندق کی طرف ہوا۔تو عکرمہ نے ایڑھ لگا دی۔عربی نسل کا گھوڑا ہوا سے باتیں کرنے لگا۔عکرمہ نے لگام اور ڈھیلی کر دی اور گھوڑے کو پھر ایڑھ لگائی گھوڑے کی لگام اور تیز ہو گئی۔خندق کے کنارے پہ جا کر عکرمہ گھوڑے کی پیٹھ سے اٹھااور آگے کو جھک گیا۔گھوڑا ہوا میں بلند ہو گیا۔خالد کچھ دور کھڑا دیکھ رہا تھا قبیلہ ٔ قریش کے بہت سے لشکری دیکھ رہے تھے۔ زمین و آسمان دیکھ رہے تھے تاریخ دیکھ رہی تھی۔گھوڑے کے اگلے پاؤں خندق کے دوسرے کنارے سے کچھ آگے اور پچھلے پاؤں عین کنارے پر لگے گھوڑا رفتار کے زور پر آگے چلا گیا۔اس کی اگلی ٹانگیں دوہری ہو گئیں ۔اس کا منہ زمین سے لگا ،عکرمہ گرتے گرتے بچا۔گھوڑا بھی سنبھل گیا اور عکرمہ بھی،اسے اپنے پیچھے للکار سنائی دی ۔’’آگے نکل جاؤ عکرمہ !‘‘عکرمہ نے پیچھے دیکھا۔عمرو بن عبدو کا گھوڑا ہوا میں اڑا آ رہا تھا ۔عمرو رکابوں پر کھڑا آگے کو جھکا ہوا تھا۔کسی کو توقع نہیں تھی کہ اتنے وزنی سوار کے نیچے گھوڑا خندق پھلانگ جائے گا لیکن گھوڑا اسی جگہ جا پڑا جہاں عکرمہ کا گھوڑا گرا تھا۔عمرو کے گھوڑے کی ٹانگیں ایسی دوہری ہوئیں کہ منہ کے بل گرا اور ایک پہلو پر لڑھک گیا ۔عمرو گھوڑے کی پیٹھ سے لڑھک کر قلابازیاں کھاتا گیا ۔ایک لمحے میں گھوڑا اٹھ کھڑا ہوا ،ادھر عمرو اٹھا اور پلک جھپکتے میں گھوڑے پر سوار ہو گیا۔
اس کے پیچھے عکرمہ کے دو سوار اکھٹے چلے آ رہے تھے۔ خندق کے کنارے پر آکے دونوں سواروں نے اپنے گھوڑوں کی پیٹھیں خالی کر دی تھیں اور ان کی گردنوں پر جھکے ہوئے تھے۔ دونوں گھوڑے خندق پھلانگ آئے۔اہلِ قریش کے لشکر نے داد وتحسین کے نعرے لگائے۔ اس شور سے مسلمان پہرے دار دوڑے آئے،اتنے میں عکرمہ کے دو اور گھوڑے اپنے سواروں کو اٹھائے خندق کے کنارے سے ہوا میں اٹھے۔ ان کے پیچھے سات میں سے باقی سواروں نے بھی اپنے گھوڑوں کو ایڑھ لگا دی۔ تمام گھوڑے خندق پھلانگ آئے۔’’ٹھہر جاؤ !‘‘عکرمہ نے مسلمان سنتریوں کو بلند آواز میں کہا۔’’ کوئی اور گھوڑا خندق کے اس طرف نہیں آئے گا.ںمحمد ﷺ کو بلاؤ۔ تم میں جو سب سے زیادہ بہادر ہے اسے لاؤ وہ میرے ایک آدمی کا مقابلہ کرکے گرا لے تو ہم سب کو قتل کر دینا۔خدا کی قسم! ہم تمہارا خون اس ریت پر چھڑک کر واپس چلے جائیں گے۔‘‘ مسلمانوں کی اجتماع گاہ میں کھلبلی برپا ہو چکی تھی ۔ایک شور تھا ’’قریش اور غطفان نے خندق عبور کر لی ہے۔ مسلمانوں تمہارے امتحان کا وقت آ گیا ہے ۔ 

"ہوشیار…… خبردار……دشمن آگیا ہے۔‘‘رسول ﷲﷺ نے مسلمانوں کو بے قابو نہ ہونے دیا۔آپﷺ نے دیکھ لیا تھا کہ اہلِ قریش خندق کے پار کھڑے قہقہے لگا رہے تھے ۔ وہ مسلمانوں کا مزاق بھی اڑا رہے تھے۔ پھبتیاں بھی کس رہے تھے۔ رسولِ کریمﷺ اس جگہ پہنچے جہاں عکرمہ اور اس کے سوار کھڑے للکار رہے تھے۔ رسولِ کریمﷺ کے ساتھ حضرت علی ؓبھی تھے ۔آپﷺ نے صورتِ حل کا جائزہ لیا تو سمجھ گئے کہ عکرمہ انفرادی مقابلے کیلئے آیا ہے۔آپﷺ کو اور حضرت علیؓ کو دیکھ کر عمرو بن عبدو نے اپنا گھوڑا آگے بڑھایا۔’’قسم نے ہبل اور عزیٰ کی!‘‘عمرو نے للکار کر کہا۔’’تم میں مجھے کوئی ایک بھی نظر نہیں آ رہا جو میرے مقابلے میں اتر سکے۔‘‘مؤرخ عینی شاہدوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’مسلمانوں کی خاموشی گواہی دے رہی تھی کہ ان پر عمرو کا خوف طاری ہو گیا تھا۔وجہ یہ تھی کہ عمرو کی جسامت اور طاقت کے ایسے ایسے قصے مشہور تھے جیسے وہ مافوق الفطرت طاقت کا مالک ہو۔دیکھا شاید کسی نے بھی نہیں تھا. لیکن سب کہتے تھے کہ عمرو گھوڑے کو اپنے کندھوں پر اٹھا سکتا ہے اور وہ پانچ سو گھڑ سواروں کو اکیلا شکست دے سکتا ہے۔اس کے متعلق ہر کوئی تسلیم کرتا تھا کہ اسے نہ کوئی گرا سکا ہے نہ کوئی گرا سکے گا۔ ابو سفیان خندق کے پاس کھڑا دیکھ رہا تھا ۔خالد اور صفوان بھی دیکھ رہے تھے۔ غطفان، عینیہ اور ان کا تمام لشکر دیکھ رہا تھا اور نعیم ؓبن مسعود بھی غیر مسلموں کے لشکر میں دم بخود کھڑے تھے۔‘‘ ’’میں جانتا ہوں تم میں سے کوئی بھی آگے نہیں آئے گا۔‘‘عمرو بن عبدو کی للکار ایک بار پھر گرجی۔خندق کے پار قریش کا قہقہہ بلند ہوا اور کئی پھبتیاں سنائی دیں۔حضرت علیؓ نے رسول ﷲﷺکی طرف دیکھا ۔آپﷺ نے اپنا عمامہ سر سے اتارا اور حضرت علیؓ کے سر پر باندھ دیا پھر اپنی تلوار حضرت علیؓ کو دی۔
مؤرخ ابن سعد نے لکھا ہے کہ رسولِ کریمﷺ کی سرگوشی سنائی دی۔’’ علی کا مدد گار تو ہی ہے میرے ﷲ!‘‘مؤرخین نے اس تلوار کے متعلق جو رسولِ کریمﷺ نے حضرت علیؓ کو دی تھی، لکھا ہے کہ ’’یہ تلوار قریش کے مشہور جنگجو منبّہ بن حجاج کی تھی۔وہ بدر کی لڑائی میں مارا گیا تھا۔فاتح مجاہدین نے یہ تلوار حضورﷺ کو پیش کی تھی ۔آپﷺ نے اس کے بعد یہی تلوار اپنے پاس رکھی ،اب آپﷺ نے وہی تلوار حضرت علیؓ کو دے کر عرب کے ایک دیو قامت کے مقابلے میں اتارا۔ یہ تلوار تاریخ ِاسلام میں ’’ذوالفقار ‘‘کے نام سے مشہور ہوئی. حضرت علیؓ، عمرو بن عبدو کے سامنے جا کھڑے ہوئے ۔’’ابو طالب کے بیٹے!‘‘ عمرو جو گھوڑے پر سوار تھا۔حضرت علیؓ سے مخاطب ہوا۔’’کیا تم بھول گئے ہو کہ تمہارا باپ میرا کتنا گہرا دوست تھا؟ کیا یہ میرے لیے بہت برا فعل نہیں ہو گا۔کہ میں اپنے عزیز دوست کے بیٹے کو قتل کردوں۔‘‘ ’’اے میرے باپ کے دوست!‘‘حضرت علیؓ نے للکارکر جوا ب دیا ۔’ہماری دوستی ختم ہوچکی ہے۔ ﷲ کی قسم! میں تمہیں صرف ایک بار کہوں گا کہ ﷲ کو برحق اور محمدﷺ کو ﷲ کا رسول تسلیم کرلو اور ہم میں شامل ہو جاؤ۔‘‘ ’’تم نے ایک بار کہہ لیا ہے ۔‘‘عمرو نے کہا۔’’میں دوسری بار یہ بات نہیں سنوں گا ۔میں یہ بھی کہوں گا کہ میں تمہیں قتل نہیں کرنا چاہتا ۔‘‘ ’’میں تمہیں قتل کرنا چاہتا ہوں عمرو!‘‘حضرت علیؓ نے کہا ۔’’اتر گھوڑے سے اور آ میرے مقابلے پہ۔ اور بچا اپنے آپ کو اس تلوار سے جو مجھے ﷲ کے رسولﷺ نے عطا کی ہے۔‘‘عمرو کے متعلق مؤرخ لکھتے ہیں کہ وہ وحشی تھا۔ جب غصے میں آتا تھا تو اس کا چہرہ غضب ناک ہو کر درندوں جیسا ہو جاتا تھا۔ وہ گھوڑے سے کود کر اترا اور تلوار سونت کر حضرت علی ؓپر پہلا وار اتنی تیزی سے کیا کہ دیکھنے والے یہ سمجھے کہ اس کی تلوار نے حضرت علیؓ کو کاٹ دیا ہے۔لیکن حضرت علی ؓیہ بھرپور وار بچا گئے۔اس کے بعد عمرو نے یکے بعد دیگرے حضرت علیؓ پر متعدد وار کیے۔ حضرت علیؓ نے ہر وار غیر متوقع پینترا بدل کر بچایا۔عمرو نے یہ تو سوچا ہی نہیں تھا کہ جس جسامت اور طاقت پر اسے اتنا گھمنڈ ہے وہ ہر جگہ کام نہیں آ سکتی۔تیغ زنی کے معرکے میں جس تیزی اورپھر تی کا مظاہرہ حضرت علی ؓکر رہے تھے وہ عمرو نہیں کر سکتا تھا ۔کیونکہ اس کا جسم بھاری بھرکم تھا، اگر وہ گھوڑے کو اپنے کندھوں پر اٹھا بھی سکتا تھا تو بھی اس میں گھوڑے جیسے رفتار نہیں تھی۔اس کی طاقت گھوڑے سے زیادہ بھی ہو سکتی تھی۔حضرت علیؓ نے اس پر ایک بھی وار نہ کیا جسے عمرو نے خوفزدگی سمجھا ہو گا ۔وہ وار پہ وار کرتا رہا اور حضرت علیؓ کبھی اِدھر کبھی اُدھر ہوتے رہے۔ خندق کے پار اہلِ قریش کا لشکر جو قہقہے لگا رہا تھا ،یک لخت خاموش ہو گیا۔کیونکہ ان کا دیو قامت عمرو وار کرتے کرتے رک گیا تھا، اور خاموش کھڑا ہو گیا تھا۔وہ ہانپ رہا تھا۔وہ غالباً حیران تھا کہ کہ یہ نوجوان جو قد بت میں اس کے جسم کا بیسواں حصہ بھی نہیں ہے اس سے مرعوب کیوں نہیں ہوا۔دراصل عمرو تھک گیا تھا۔ حضرت علیؓ نے جب اس کی یہ حالت دیکھی کہ وہ اپنی طاقت اتنے سارے وار کرتے کرتے صرف کرچکا ہے اور حیران و پریشان کھڑا ہے تو حضرت علیؓ نے یہ حیران کن مظاہرہ کیا کہ تلوار پھینک کر بجلی کی سی تیزی سے عمرو پر جھپٹے ،اور اچھل کر اس کی گردن اپنے ہاتھوں میں دبوچ لی۔اس کے ساتھ ہی حضرت علیؓ نے عمرو کی ٹانگوں میں اپنی ٹانگ ایسے پھنسائی کہ وہ پیٹھ کے بل گرا۔
اس نے اپنی گردن چھڑانے کیلئے بہت زور لگایا لیکن اس کی گردن حضرت علیؓ کی آہنی گرفت سے آزاد نہ ہو سکی۔حضرت علی ؓنے اس کی گردن سے ایک ہاتھ ہٹا کر کمر بند سے خنجر نکالا اور اس کی نوک عمرو کی شہہ رگ پر رکھ دی ۔’’اب بھی میرے ﷲ کے رسول ﷺپر ایمان لے آ تو میں تیری جان بخشی کر دوں گا۔‘‘حضرت علیؓ نے کہا۔عمرو بن عبد نے جب دیکھا کہ اس کی وہ طاقت جس سے اہلِ عرب لرزتے تھے بے کار ہو گئی ہے تو اس نے یہ اوچھی حرکت کی کہ حضرت علیؓ کہ منہ پر تھوک دیا۔دیکھنے والے ایک بار پھر حیران رہ گئے کیونکہ حضرت علیؓ خنجر سے اس کی شہ رگ کاٹ دینے کے بجائے اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔انہوں نے خنجر کمر بند میں اڑس لیا اور ہاتھوں سے اپنا چہرہ صاف کیا،عمرو اب اس طرح اٹھا جیسے اس کے جسم کی طاقت ختم ہو چکی ہو۔صرف اسے ہی نہیں ہر کسی کو توقع تھی کہ حضرت علی ؓاسے زندہ نہیں اٹھنے دیں گے لیکن حضرت علیؓ بڑے آرام سے پیچھے ہٹے ۔’’عمرو!‘‘ حضرت علی ؓنے کہا۔’’میں نے ﷲ کے نام پر تیرے ساتھ زندگی اور موت کا مقابلہ کیا ہے لیکن تو نے میرے منہ پر تھوک کر میرے دل میں ذاتی دشمنی پیدا کر دی ہے۔میں تجھے ذاتی دشمنی کی بناء پر قتل نہیں کروں گا۔کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے ﷲ کو میرا یہ انتقام اچھا نہ لگے…… جا یہاں سے۔ اپنی جان لے کر واپس چلا جا۔‘‘عمرو بن عبدو شکست تسلیم کرنے والا آدمی نہیں تھا۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ میدان میں اس کی یہ پہلی ہار تھی جسے وہ برداشت نہ کر سکا ۔ا س نے اپنی ہار کو جیت میں بدلنے کیلئے یہ اوچھی حرکت کی کہ تلوار نکال کر حضرت علیؓ پر جھپٹ پڑا۔حضرت علیؓ اس حملے کیلئے تیار نہیں تھے لیکن ان کی کامیابی کیلئے رسولِ ﷲﷺ نے ﷲ سے مدد مانگی تھی ۔عین وقت پر جب عمرو کی تلوار اور حضرت علیؓ کی گردن میں دو چار لمحوں کا فاصلہ رہ گیا تھا، حضرت علیؓ نے اپنی ڈھال آگے کر دی۔ عمرو کا وار اس قدر زور دار تھا کہ اس کی تلوار نے حضرت علیؓ کی ڈھال کو کاٹ دیا۔ڈھال حضرت علی ؓکے کان کے قریب سر پر لگی جس سے خون پھوٹنے لگا۔ عمرو ڈھال میں سے تلوار کھینچ ہی رہا تھا کہ حضرت علی ؓکی وہ تلوار جو انہیں رسولِ کریمﷺ نے دی تھی ،اتنی تیزی سے حرکت میں آئی کہ عمرو کی گردن کٹ گئی۔گردن پوری نہ کٹی لیکن شہہ رگ کٹ چکی تھی۔ عمرو کی تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اس کاجسم ڈولنے لگا۔حضرت علیؓ نے ا س پردوسرا وار نہ کیا۔ انہو ں نے دیکھ لیا تھا کہ یہی وار کافی ہے۔ عمرو کی ٹانگیں دوہری ہوئیں، اس کے گھٹنے زمین پر لگے اور وہ لڑھک گیا۔عرب کی مٹی اس کا خون چوسنے لگی۔خندق کے پار دشمن کے لشکر پر ایسا سکوت طاری ہو گیا جیسے پورے کا پورا لشکر کھڑے کھڑے مر گیا ہو۔اب مسلمانوں کے نعرے گونج رہے تھے ۔عربوں کی رسم کے مطابق اس مقابلے کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گیا تھا۔مسلمانوں کے ایک جیش نے عکرمہ اور اس کے باقی سواروں پر حملہ کر دیا تھا۔ قریش کے ان سواروں کیلئے بھاگ نکلنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔وہ خیریت سے پسپا ہونے کیلئے لڑے۔ اس معرکے میں قریش کا ایک آدمی مارا گیا۔عکرمہ نے اپنا ایک گھوڑا خندق کی طرف موڑ کر بھاگ نکلنے کیلئے ایڑھ لگائی ۔خندق پھلانگنے سے پہلے عکرمہ نے اپنی برچھی پھینک دی۔ ان میں سے ایک سوار جس کا نام ’’خالد بن عبداﷲ‘‘ تھا خندق کو پھلانگ نہ سکا ۔اس کا گھوڑا خندق کے اگلے کنارے سے ٹکرایا اور خندق میں جا پڑا۔وہ اٹھ کر کنارے پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔لیکن مسلمانوں نے اس پر پتھروں کی بوچھاڑکر دی اور وہ وہیں ختم ہو گیا۔رسولِ کریمﷺ نے حکم دیا کہ خندق کے اس مقام پر مستقل پہرے کا انتظام کر دیا جائے کیونکہ وہاں سے خندق پھلانگی جا سکتی تھی۔دوسرے دن خالد اپنے گھڑ سوار دستے میں سے چند ایک جانباز سوار منتخب کرکے خندق عبورکرنے کو چل پڑا۔’’خالد رک جاؤ!‘‘ابو سفیان نے اسے کہا۔’’کیا تم نے کل عکرمہ کے سواروں کاانجام نہیں دیکھا؟اب مسلمانوں نے وہاں پہرے کا اور زیادہ مضبوط انتظام کر دیا ہوگا۔‘‘’’کیا یہ بہتر نہیں کہ لڑے بغیر واپس جانے کے بجائے تم میری لاش میرے گھوڑے پر رکھ کر مکہ لے جاؤ؟‘‘خالد نے کہا۔’’اگر ہم ایک دوسرے کے انجام سے ڈرنے لگے تو وہ دن بہت جلد طلوع ہو گا جب ہم مسلمانوں کے غلام ہوں گے۔‘‘’’میں تمہیں نہیں روکوں گا میرے دوست! ‘‘عکرمہ نے خالد سے کہا۔’’لیکن میری ایک بات سن لو۔اگر تم میری شکست کا انتقام لینے جا رہے ہو تو رک جاؤ۔تمہیں قریش کی عظمت عزیز ہے تو ضرور جاؤ۔‘‘

آج مدینہ کی طرف جاتے ہوئے خالد کو وہ لمحے یاد آ رہے تھے ۔اسے نہ اس وقت یہ خیال آیا تھا نہ آج کہ وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ خندق عبور کرکے بھی مارا جائے گا ،نہ عبور کر سکا تو بھی مارا جائے گا ،کیوں خندق کی طرف چل پڑا تھا۔ وہ ۱۶مارچ ۶۲۷ء کے دن کا تیسرا پہر تھا۔خالد چند ایک منتخب سوارو ں کے ساتھ خندق کی طرف بڑھا۔اس نے خندق پھلانگنے کیلئے کچھ فاصلے سے اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگائی۔مگر اس مقام کے پہرے پر جو مسلمان کہیں چھپے بیٹھے تھے۔انہوں نے تیروں کا مینہ برسا دیا۔خالد نے لگام کو پوری طاقت سے کھینچا،اور اس کا گھوڑا خندق کے عین کنارے پر جا رکا۔خالد نے گھوڑے کو پیچھے موڑااور اپنے تیر اندازوں کو بلایا۔اس نے سوچا تھا کہ اس کے تیر انداز مسلمانوں پر تیر پھینکتے چلے جائیں گے جس سے مسلمان سر نہیں اٹھا سکیں گے اور وہ خندق پھلانگ لے گا۔لیکن مسلمانوں نے تیر اندازی میں اضافہ کر دیا۔مسلمان تیروں کی بوچھاڑوں میں تیر چلا رہے تھے۔خالد کو پسپا ہونا پڑا۔خالد اس انداز سے اپنے سواروں کو وہاں سے ہٹا کر دوسری طرف چل پڑا جیسے اس نے خندق پر ایک اور حملہ کرنے کا ارادہ ترک کر دیا ہو۔مؤرخین جن میں ابنِ ہشام اور ابنِ سعد قابلِ ذکر ہیں لکھتے ہیں کہ’’ یہ خالدکی ایک چال تھی۔اس نے چلتے چلتے اپنے سوار جیش میں مزید سوار شامل کر لیے۔اس نے سوچا یہ تھا کہ اسے پسپا ہوتے دیکھ کر مسلمان پہرے دار اِدھر ُادھر ہوجائیں گے ۔اس نے ادھر دیکھا ۔وہاں اسے کوئی پہرے دار نظر نہ آیا۔اس نے اپنے دستے کو خندق کے کم چوڑائی والے مقام کی طرف موڑ کر سَر پٹ دوڑادیا۔خالد کی یہ چال صرف اس حد تک کامیاب رہی کہ اس کے تین چار گھوڑ سوار خندق پھلانگ گئے۔ان میں خالد سب سے آگے تھا۔مسلمان پہرے داروں نے انہیں گھیرے میں لے لیا۔قریش کے جو سوار ابھی خندق کے پاس تھے۔ان پر مسلمانوں نے اتنے تیر برسائے کہ انہیں پسپا ہونا پڑا۔خالد اور اس کے سواروں کیلئے مسلمانوں کے گھیرے سے نکلنا بہت مشکل ہو گیا۔یہ زندگی اور موت کا معرکہ تھا جو خالد نے گھوڑا دوڑا کر اور پینترے بدل بدل کر لڑا۔اس کے سوار بھی تجربہ کار اور پھرتیلے تھے۔ ان میں سے ایک مارا گیا۔خالد اب دفاعی معرکہ لڑ رہا تھا ۔اس نے کئی مسلمانوں کو زخمی کیا جن میں سے ایک شہید ہو گیا ۔آخر اسے نکلنے کا موقع مل گیا اور اس کا گھوڑا خندق کو پھلانگ آیا۔ اس کے جو سوار زندہ رہ گئے تھے وہ بھی خندق پھلانگ آئے۔ اس کے بعد قریش میں سے کسی نے بھی خندق کے پار جانے کی جرات نہ کی۔عکرمہ اور خالد کی ناکامی کے بعد قریش اور ان کے دیگر اتحادی قبائل کے لشکر میں مایوسی جو پہلے ہی کچھ کم نہ تھی اور بڑھ گئی۔ خوراک نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔ ابو سفیان جو اپنے اور دیگر تمام قبائل کے لشکر کا سالارِ اعلیٰ تھا پہلے ہی ہاتھ پاؤں چھوڑ بیٹھا تھا ۔خالد، عکرمہ اور صفوان نے یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ ان کا لشکر زندہ و بیدار ہے، یہ کارروائی جاری رکھی کہ وقتاً فوقتاً خندق کے قریب جاکر مسلمانوں کی خیمہ گاہ پر تیر برساتے رہے ۔اس کے جواب میں مسلمانوں نے تیر اندازوں کو خندق کے قریب پھیلا دیا جو اہلِ قریش کے تیر اندازوں پر جوابی تیر اندازی کرتے رہے۔تیروں کے تبادلے کا یہ سلسلہ صرف ایک دن صبح سے شام تک چلا۔

جاری ہے.........



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

⚔ شمشیرِ بے نیام⚔   حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ قسط نمبر-8 میں ان کی نیت معلوم کرلیتا ہوں۔‘‘ابو سفیان نے کہا اور اپنے غلام کو آواز دی۔’’ع...

شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 7





⚔شمشیرِ بے نیام⚔

  حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ 


 قسط نمبر -7

مؤرخ ابنِ ہشام نے لکھا ہے کہ اس کیفیت میں کہ شہر میں خوراک کا کوئی ذخیرہ نہ تھا، لوگوں کو روزانہ نصف خوراک دی جا رہی تھی۔ منافقین اور یہودی تخریب کار درپردہ حرکت میں آ گئے تھے۔ کوئی بھی نہ جان سکا کہ یہ آواز کہاں سے اٹھی ہے لیکن یہ آواز سارے شہر میں پھیل گئی۔’’ محمد ہمیں کیسی بری موت مروانے کا بندوبست کر رہا ہے ۔ایک طرف وہ کہتا ہے کہ بہت جلد قیصروکسریٰ کے خزانے ہمارے قدموں میں پڑے ہوں گے، دوسری طرف ہم نے اس کی نبوت کا یہ اثر بھی نہ دیکھا کہ آسمان سے ہمارے لیے خوراک اترے۔‘‘ لوگوں نے اسلام تو قبول کرلیا تھا لیکن وہ گوشت پوست کے انسان تھے۔ وہ پیٹ کی آوازوں سے متاثر ہونے لگے ۔آخر ایک آواز نے انہیں پیٹ کے بھوت سے آزادی دلا دی۔ ’’کیا تم خدا سے یہ کہو گے کہ ہم نے اپنے پیٹ کو خدا سے زیادہ مقدس جانا تھا؟‘‘ یہ ایک رعد کی کڑک کی طرح آواز تھی جو مدینہ کے گلی کوچوں میں سنائی دینے لگی ۔’’آج خدا کو وہ لوگ عزیز ہوں گے جو اس کے رسولﷺ کے ساتھ بھوکے اورپیاسے جانیں دے دیں گے۔ خدا کی قسم! اس سے بڑی بزدلی اور بے غیرتی مدینہ والوں کیلئے اور کیا ہو گی کہ ہم اہلِ مکہ کے قدموں میں جا گریں اورکہیں کہ ہم تمہارے غلام ہیں ہمیں کچھ کھانے کو دو۔‘‘رسول ِاکرمﷺ شہرکے دفاع میں اس قدر سر گرم تھے کہ آپﷺ کیلئے دن اور رات ایک ہو گئے تھے ۔آپﷺ ﷲ کے محبوب نبیﷺ تھے ۔آپ چاہتے تو معجزے بھی رونما ہو سکتے تھے لیکن آپ ﷺ کو احساس تھا کہ ہر آدمی پیغمبر اور رسول نہیں،نہ کوئی انسان آپﷺ کے بعد نبوت اور رسالت کا درجہ حاصل کر سکے گا اس لیے آپﷺ ان انسانوں کیلئے یہ مثال قائم کر رہے تھے کہ انسان اپنی ان لازوال جسمانی اور نفسیاتی قوتوں کو جو ﷲ سبحان و تعالیٰ نے انہیں عطا کی ہیں، استقلا ل اور ثابت قدمی سے استعمال کرے تو وہ معجزہ نما کارنامے انجام دے سکتا ہے۔

محاصرے کے دوران آپﷺ کی سرگرمیاں اور آپﷺ کی حالت ایک سالار کے علاوہ ایک سپاہی کی بھی تھی۔ آپﷺ کو اس کیفیت اور اس سرگرمی میں دیکھ کر مسلمان بھوک اور پیاس کو بھول گئے اور ان میں ایساجوش پیدا ہو گیا کہ ان میں بعض خندق کے قریب چلے جاتے اور قریش کو بزدلی کے طعنے دیتے۔ وہ سات مارچ ۶۲۷ء کا دن تھا۔جب ابو سفیان نے پریشان ہو کر کہا کہ۔’’ حیُّ بن اخطب کو بلاؤ ۔‘‘اس کی پریشانی کا باعث یہ تھا کہ دس دنوں میں ہی اس کے لشکر کی خوراک کا ذخیرہ بہت کم رہ گیا تھا۔ سپاہیوں نے قرب و جوار کی بستیوں میں لوٹ مار کر کے کچھ خوراک تو حاصل کر لی تھی لیکن اس ریگزار میں لوگوں کے گھروں میں بھی خوراک کا کوئی ذخیرہ نہیں ہوتا تھا۔ قریش کے لشکر میں بددلی پھیلنے لگی ۔اپنے لشکر کے جذبے کو یوں ٹھنڈا پڑتے دیکھ کر اس نے یہودیوں کے ایک قبیلے کے سردار کو حیُّ بن اخطب کو بلایا جو قریش کی زمین دوز مدد کیلئے لشکر کے قریب ہی کہیں موجود تھا ۔وہ تو اس انتظار میں تھا کہ اہلِ قریش اسے بلائیں اور ا س سے مدد مانگیں ۔مدینہ سے کچھ ہی دور یہودیوں کے ایک قبیلے بنو قریظہ کی بستی تھی۔ اس قبیلے کا سردار کعب بن اسد اس بستی میں رہتا تھا ۔اس رات جب وہ گہری نیندسویا ہوا تھا۔دروازے پر بڑی زورکی دستک سے اس کی آنکھ کھل گئی۔اس نے اپنے غلام کو آواز دے کر کہا۔’’ دیکھو باہر کون ہے؟‘‘’’حیُّ بن اخطب آیا ہے۔‘‘غلام نے کہا۔’’رات کے اس وقت وہ اپنے ہی کسی مطلب سے آیا ہوگا۔‘‘ کعب بن اسد نے غصیلی آواز میں کہا۔’’اسے کہو کہ میں اس وقت تمہارا کوئی مطلب پورا نہیں کر سکتا، دن کے وقت آنا۔‘‘ بنو قریظہ یہودیوں کا وہ قبیلہ تھا جس نے مسلمانوں کے ساتھ دوستی کا اور ایک دوسرے کے خلاف جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کر رکھا تھا۔اس معاہدے میں یہودیوں کے دوسرے دو قبیلے۔بنو قینقاع اور بنو نضیر۔بھی شامل تھے لیکن ان دونوں قبیلوں نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی اور مسلمانوں نے انہیں وہ سزا دی تھی کہ وہ لوگ شام کی طرف بھاگ گئے تھے۔صرف بنو قریظہ تھا جس نے معاہدے کو برقرار رکھا اور اس کا احترام کیا۔مسلمان جنگ ِخندق میں اس قبیلے کی طرف سے ذرا سا بھی خطرہ محسوس نہیں کر رہے تھے۔حیُّ بن اخطب بھی یہودی تھا۔ وہ کعب بن اسد کو اپنا ہم مذہب بھائی سمجھ کر اس کے پاس گیا تھا۔وہ کعب بن اسد کو مسلمانوں کے خلاف اکسانا چاہتا تھا اس لیے وہ غلام کے کہنے پر بھی وہاں سے نہ ہٹا ۔کعب بن اسد نے پریشان ہو کر اسے اندر بلا لیا۔’’میں جانتا ہوں تم اس وقت میرے پاس کیوں آئے ہو؟‘‘ کعب بن اسد نے حیُّ سے کہا۔’’اگر تم ابو سفیان کے کہنے پر آئے ہو تو اسے کہہ دو کہ ہم نے مسلمانوں کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے اس پر مسلمان پوری دیانت داری سے قائم ہیں۔ وہ ہمیں اپنا حلیف سمجھتے ہیں اور انہوں نے ہمیں پورے حقوق دے رکھے ہیں۔‘‘
’’کعب بن اسد! ہوش میں آ!‘‘حیُّ بن اخطب نے کہا۔’’بنو قینقاع اور بنو نضیر کا انجام دیکھ لے۔مسلمانوں کی شکست مجھے صاف نظر آ رہی ہے خدائے یہودہ کی قسم! دس ہزار کا لشکر مسلمانوں کو کچل ڈالے گا۔پھر یہ مسلمان تم پر ٹوٹ پڑیں گے کہ یہودیوں نے انہیں شکست دلائی ہے۔‘‘’’تم چاہتے کیا ہو حیُّ؟‘‘کعب بن اسد نے پوچھا۔’’قریش کے لشکر کا ایک حصہ پہاڑوں کے پیچھے سے تمہارے پاس پہنچ جائے گا۔‘‘حیُّ نے کہا۔’’تمہاری موجودگی میں یہ سپاہی مسلمانوں پر عقب سے حملہ نہیں کر سکتے ۔تم اپنے قبیلے سمیت قریش سے مل جاؤ اور مسلمانوں پر اس طرح سے حملہ کرو کہ تمہیں جم کر نہ لڑنا پڑے، بلکہ ضرب لگا کر پیچھے ہٹ آؤ۔ اس سے قریش کو یہ فائدہ ہو گا کہ مسلمانوں کی توجہ خندق سے ہٹ جائے گی اور قریش کا لشکر خندق کو عبور کرلے گا۔‘‘ ’’اگر میں تمہاری بات مان لوں اور ہمارا حملہ وہ کام نہ کر سکے جو تم چاہتے ہو تو جانتے ہو مسلمان ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟‘‘ کعب بن اسد نے کہا۔’’تم مسلمانوں کے قہر و غضب سے واقف ہو۔کیا بنو قینقاع اور بنو نضیر کا کوئی ایک بھی یہودی تمہیں یہاں نظر آتاہے۔‘‘ ’’ابو سفیان نے سب کچھ سوچ کر تمہیں معاہدے کی دعوت دی ہے۔‘‘حیُّ بن اخطب نے کہا۔’’اگر مسلمانوں کا قہر و غضب تم پر گرنے لگا تو قریش کے لشکر کا ایک حصہ تمہارے قبیلے کی حفاظت کیلئے شیخین اور لاوا کی پہاڑیوں میں موجود رہے گا۔وہ شب ِ خون مارنے والے تجربہ کارسپاہیوں کا لشکر ہو گا جو مسلمانوں کو تمہاری طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھنے کی مہلت نہیں دیں گے۔‘ ‘’’تم مجھے اتنے بڑے خطرے میں ڈال رہے ہو جو میرے پورے قبیلے کو تباہ کر دے گا۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’تمہارا قبیلہ تباہ ہو یا نہ ہو، اہلِ قریش اتنی قیمت دیں گے جو تم نے کبھی سوچی بھی نہ ہو گی۔‘‘حیُّ نے کہا۔’’یا اپنے تعاون کی قیمت خود بتا دو۔جو کہو گے،جس شکل میں مانگو گے تمہیں قیمت مل جائے گی،اور تمہارے قبیلے کو پورا تحفظ ملے گا۔مسلمان اگلے چند دنوں میں نیست و نابود ہو جائیں گے۔تم اس کا ساتھ دو۔ جو زندہ رہے گا اور جس کے ہاتھ میں طاقت ہو گی۔‘‘
کعب بن اسد آخر یہودی تھا۔اس نے زروجواہرات کے لالچ میں آ کر حیُّ بن اخطب کی بات مان لی۔

’’قریش کا کوئی سپاہی ہماری بستی کے قریب نہ آئے۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔ مسلمانوں پر میرا قبیلہ شب خون مارتا رہے گا۔ یہ کام رات کی تاریکی میں کیا جائے گا تاکہ مسلمانوں کو پتہ ہی نہ چل سکے کہ شب خون مارنے والے بنو قریظہ کے آدمی ہیں……اور حیُّ۔‘‘کعب نے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔’’ تم دیکھ رہے ہو کہ میں یہاں اکیلا پڑا ہوں۔ میری راتیں تنہائی میں گزر رہی ہیں۔‘‘’’آج کی رات تنہا گزارو۔‘‘حُیّ نے کہا۔’’کل تم تنہا نہیں ہو گے۔‘‘’’مجھے دس دنوں کی مہلت ملنی چاہیے۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’مجھے اپنے قبیلے کو تیار کرنا ہے۔‘‘قریش اور بنو قریظہ کے درمیان معاہدہ ہو گیا۔
’سعد بن عتیق‘‘ معمولی قسم کا ایک جوان تھا جس کی مدینہ میں کوئی حیثیت نہیں تھی۔وہ خنجر اور تلواریں تیز کرنے کا کام کرتا تھا ۔اس میں یہ خوبی تھی کہ خدا نے اسے آواز پر سوز اور سریلی دی تھی اور وہ شہسوار تھا۔راتوں کو کسی محفل میں اس کی آواز سنائی دیتی تھی تو لوگ باہر آ کر اس کا گانا سنا کرتے تھے۔کبھی رات کو وہ شہر سے باہر چلا جاتا اور اپنی ترنگ میں گایا کرتا تھا۔ اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ایک رات وہ پُر سوز لَے میں شہر سے دور کہیں گا رہا تھا کہ ایک بڑی خوبصورت اور جوان لڑکی اس کے سامنے یوں آن کھڑی ہوئی جیسے کوئی جن یا چڑیل انسان کے حسین روپ میں آ گئی ہو۔سعد گھبرا کر خاموش ہو گیا۔’’اس آواز سے مجھے محروم نہ کر جو مجھے گھر سے نکال لائی ہے۔‘‘ لڑکی نے کہا۔’’ مجھے دیکھ کے تو خاموش ہو گیا ہے تو میں دور چلی جاتی ہوں۔ اپنے نغمے کا خون نہ کر۔تیری آواز میں ایسا سوز ہے جیسے تو کسی کے فراق میں نغمہ سرا ہے۔‘‘’’کون ہے تو؟‘‘سعد نے کہا۔’’ اگر تو جنات میں سے ہے تو بتا دے۔‘‘لڑکی کی جل ترنگ جیسے ہنسی سنائی دی۔صحرا کی شفاف چاندنی میں اس کی آنکھیں ہیروں کی طرح چمک رہی تھیں۔’’میں بنو قریظہ کی ایک یہودی کی بیٹی ہوں۔‘‘ ’’اور میں مسلمان ہوں۔‘‘’’مذہب کو درمیان میں نہ لا۔‘‘یہودن نے کہا۔’’نغموں کا کوئی مذہبیں ہوتا۔میں تیرے لیے نہیں تیرے نغمے اور تیری آواز کیلئے آئی ہوں۔‘‘سعد دوبارہ اپنی دھن میں گنگنانے لگا۔ایک روز یہودن نے اسے کہا کہ سعد قبول کرے تو وہ اس کے پاس آ جائے گی اور اسلام قبول کرلے گی۔دو تین روز ہی گزرے تھے کہ مدینہ کا محاصرہ آ گیا۔سعد بن عتیق کا کام بڑھ گیا ۔اس کے پاس تلواریں خنجر اور برچھیوں کی انّیاں تیز کروانے والوں کا ہجوم رہنے لگا۔وہ راتوں کو بھی کام کرتا تھا۔ایک روز یہ یہودن اپنے باپ کی تلوار اٹھائے اس کے پاس آئی۔
’’تلوار تیز کرانے کے بہانے آئی ہوں۔‘‘یہودن نے کہا۔’’آج ہی رات یہاں سے نکلو ورنہ ہم کبھی نہ مل سکیں گے۔‘‘ ’’کیا ہو گیا ہے؟‘‘’’پرسوں شام میرے باپ نے مجھے کہا کہ قبیلے کے سردار کعب بن اسد کو میری ضرورت ہے ۔‘‘یہودن نے بتایا۔’’باپ نے حُیّ بن خطب کا نام بھی لیا تھا۔ میں کعب کے گھر چلی گئی۔وہاں حُیّ کے علاوہ دو اور آدمی بیٹھے ہوئے تھے ،وہ اس طرح کی باتیں کر رہے تھے کہ مسلمانوں کے آخری دن آ گئے ہیں۔‘‘کعب بن اسد، حُیّ بن اخطب اور قریش کے درمیان اس لڑکی کی موجودگی میں معاہدہ ہوااور مسلمانوں پر عقب سے حملوں کا منصوبہ طے ہوا۔اس یہودن کو رات بھر کعب کے پا س گزارنی پڑی۔صبح وہ اپنے گھر آگئی۔اسے مسلمانوں کے ساتھ کوئی دلچسپی نہ تھی ۔اس کی دلچسپیاں سعد کے ساتھ تھیں۔اس کے کانوں میں یہ بات بھی پڑی تھی کہ کعب اسے بیوی یا داشتہ کی حیثیت سے اپنے پاس رکھ لے گا۔سعد بن عتیق اس یہودن کی محبت کو تو بھول ہی گیا ۔اس نے یہودن کو گھر بھیج دیا اور ایک بزرگ مسلمان کو بتایا کہ کعب بن اسد نے حُیّ کے کہنے پہ قریش کے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے ۔اس بزرگ نے یہ اطلاع اوپر پہنچا دی ۔رسولِ اکرمﷺ کو بتایا گیا کہ بنو قریظہ نے بنو قینقاع اور بنو نضیر کی طرح اپنا معاہدہ توڑ دیا ہے ۔آپﷺ نے کعب بن اسد کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے پہلے یہ یقین کر لینا ضروری سمجھا کہ بنو قریظہ نے واقعی قریش کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔ ﷲ اپنے نام لیوا بندوں کی مدد کرتا ہے۔اس کے فوراً بعد ایک ایساواقعہ ہو گیا کہ جس سے تصدیق ہو گئی کہ بنو قریظہ اور قریش کے درمیان بڑا خطرناک معاہدہ ہوا ہے۔واقعہ یوں ہوا۔عورتوں اور بچوں کو شہر کے ان مکانوں اورچھوٹے چھوٹے قلعوں میں منتقل کر دیا گیا تھا جو خندق سے دور تھے۔ایک ایسے ہی قلعے میں رسول اکرمﷺ کی پھوپھی صفیہؓ چند ایک عورتوں اور بہت سے بچوں کے ساتھ مقیم تھیں۔ایک روز صفیہؓ قلعے کی فصیل پر گھوم پھر رہی تھیں کہ انہوں نے نیچے دیکھا۔ایک آدمی دیوار کے ساتھ ساتھ مشکوک سی چال چلتا جارہا تھا۔وہ کہیں رکتا،دیوار کو دیکھتا اور آگے چل پڑتا۔صفیہؓ اسے چھپ کر دیکھنے لگیں صاف پتا چلتا تھا کہ یہ آدمی قلعہ کے اندر آنے کا کوئی راستہ یا ذریعہ دیکھ رہاہے۔صفیہؓ کو اس وجہ سے بھی اس آدمی پر شک ہوا کہ شہر کے تمام آدمی خندق کے قریب مورچہ بند تھے یا جنگ کے کسی اور کام میں مصروف تھے۔اگر یہ کوئی اپنا آدمی ہوتا اور کسی کام سے آیا ہوتا تو دروازے پر دستک دیتا۔ قلعے میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ صرف ایک مرد تھا ۔یہ تھے عرب کے مشہور شاعر’’ حسان ؓبن ثابت‘‘۔صفیہ ؓنے حسان ؓسے کہا کہ نیچے ایک آدمی مشکوک انداز سے دیوار کے ساتھ ساتھ جارہا ہے۔’’مجھے شک ہے کہ وہ یہودی ہے۔‘‘صفیہؓ نے حسانؓ سے کہا۔’’تم جانتے ہو حسان! بنو قریظہ نے دوستی کا معاہدہ توڑ دیا ہے۔یہ شخص مجھے یہودیوں کا مخبر معلوم ہوتا ہے ۔ بنو قریظہ ہم پر عقب سے حملہ کریں گے تاکہ ہمارے مردوں کی توجہ خندق کی طرف سے ہٹ جائے اور وہ پیچھے آ جائیں۔
یہودیوں کے پاس ہمارے مردوں کو مورچوں سے نکال کر پیچھے لانے کا یہ طریقہ کارآمد ہو گا کہ وہ ان قلعوں پر حملے شروع کر دیں جن میں عورتیں اور بچے ہیں۔نیچے جاؤ حسان! ﷲ تمہارا نگہبان ہو،اس شخص کو للکارو۔اگر وہ واقعی یہودی ہو تو اسے قتل کر دو۔خیال رکھنا کہ اس کے ہاتھ میں برچھی ہے اور اس کے چغے کے اندر تلوار بھی ہوگی۔‘‘ ’’اے عظیم خاتون! ‘‘حسانؓ نے کہا۔’’کیا آپ نہیں جانتیں کہ میں بیمار ہوں اگر مُجھ میں ذرا سی طاقت بھی ہوتی تو اس وقت میں میدان جنگ میں ہوتا۔‘‘مؤرخ ابن ہشام اور ابن قتیبہ نے لکھا ہے کہ عرب کے عظیم صحابی کا یہ جواب سن کر رسول ِاکرمﷺ کی پھوپھی صفیہؓ خود اس مشکوک آدمی کو پکڑنے یا مارنے کیلئے چل پڑیں۔لیکن یہ نہ دیکھا کہ ایک مسلّح مرد کے مقابلے میں جاتے ہوئے ان کے ہاتھ میں کون سا ہتھیار ہے۔وہ جلدی میں جو ہتھیار لے کر گئیں وہ برچھی نہیں تھی،تلوار نہیں تھی،وہ ایک ڈنڈہ تھا۔صفیہؓ دوڑتی ہوئی باہر نکلیں اور اس مشکوک آدمی کے پیچھے جا رکیں۔جو دیوار کے ساتھ کھڑا اوپر دیکھ رہا تھا۔’’کون ہے تو؟‘‘صفیہؓ انے اسے للکارا۔مشکوک آدمی نے بدک کر پیچھے دیکھا۔اگر وہ کسی غلط نیت سے نہ آیا ہوتا تو اس کا انداز کچھ اور ہوتا۔مگر اس نے برچھی تان لی۔صفیہؓ نے اس کا چہرہ دیکھا تو کوئی شک نہ رہا وہ یہودی تھااور وہ بنو قریظہ کا ہی ہو سکتا تھا۔اسے یقین تھا کہ ایک عورت ،وہ بھی ایک ڈنڈے سے مسلّح، اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔’’تجھ پر خدا کی لعنت!‘‘صفیہؓ نے للکار کر کہا۔’’کیا تو بنو قریظہ کا مخبر نہیں ہے؟‘‘’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی !یہاں سے چلی جا۔‘‘یہودی نے کہا۔’’کیا تو میرے ہاتھوں مرنے آئی ہے۔ہاں میں بنو قریظہ کا آدمی ہوں۔‘‘’’پھر تو یہاں سے زندہ نہیں جائے گا۔‘‘

یہودی نے قہقہہ لگایا اور بڑھ کر برچھی ماری۔جس تیزی سے برچھی آئی تھی ،اس سے زیادہ تیزی سے صفیہؓ ایک طرف ہو گئیں۔یہودی کا وار خالی گیا تو وہ سنبھل نہ سکا۔وہ آگے کو جھکا اور اپنے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک نہ سکا۔صفیہؓ نے پوری طاقت سے اس کے سر پر ڈنڈامارا۔ایک عورت کے بازو میں خدا کا قہر آگیاتھا۔یہودی رُک کر سیدھا ہوا لیکن اس کا سر ڈولنے لگا۔صفیہؓ نے اسے سنبھلنے کا موقع نہ دیا اوراس کے سر پر پہلے سے زیادہ زور سے ڈنڈا مارا۔اب یہودی کھڑا نہ رہ سکا۔اس کے ہاتھ سے برچھی گری پھر اسکے گھٹنے زمین سے لگے،صفیہؓ نے اس کے سر پر ،جس سے خون بہہ بہہ کر اس کے کپڑوں کو لال کر رہا تھا ایک اور ڈنڈہ مارا ،وہ جب بے ہوش ہو کر لڑھک گیا تو صفیہؓ اس کے سر پر ہی ڈنڈے مارتی چلی گئیں،جیسے زہریلے ناگ کا سر کچل رہی ہوں۔صفیہؓ نے اس وقت ہاتھ روکا جب یہودی کی کھوپڑی کچلی گئی اور اس کا جسم بے حس ہو گیا،صفیہ ؓ قلعہ میں چلی گئیں۔’’حسان! ‘‘صفیہؓ نے حسان ؓسے کہا۔’’میں وہ کام کر آئی ہوں جو تمہیں کرنا تھا ۔اب جاؤ اور اس یہودی کے ہتھیار اٹھالاؤ اور اس کے کپڑوں کے اندر جو کچھ ہے وہ بھی لے آؤ۔میں عورت ہوں کسی مرد کے کپڑوں کے اندر ہاتھ ڈالنا ایک عورت کیلئے مناسب نہیں۔چاہو تو یہ مالِ غنیمت تم لے سکتے ہو ،مجھے اس کی ضرورت نہیں۔‘‘ ’’ﷲ آپ کی عصمت و عفت کی حفاظت کرے! ‘‘حسانؓ نے مسکراہٹ سے کہا۔’’مالِ غنیمت کی ضرورت مجھے بھی نہیں ہے ۔اور میں اپنے اندر اتنی توانائی محسوس نہیں کرتا کہ یہ کام انجام دے سکوں‘‘۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ یہ خبر رسولِ کریمﷺ تک پہنچی تو آپﷺ کو پریشانی ہوئی، شہر میں خوراک کی کیفیت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ہر فرد کو اس کی اصل ضرورت کی صرف ایک چوتھائی خوراک ملتی تھی۔رسولِ کریمﷺ نے ﷲ ذوالجلال سے مدد مانگی اور کوئی حکمت عملی سوچنے لگے۔ادھر خندق کا محاذ سر گرم تھا ۔خالد کو اپنی اس وقت کی بے چینی اور بے تابی اچھی طرح یاد تھی ۔وہ خندق کے ساتھ ساتھ گھوڑا دوڑاتا اور کہیں سے خندق عبور کرنے کے طریقے سوچتا تھا۔وہ مرد ِمیدان تھا لڑے بغیر واپس جانے کو اپنی توہین سمجھتا تھا۔مگر وہاں لڑائی اس نوعیت کی ہو رہی تھی کہ قریش کے تیر انداز خاصی تعداد میں خندق کے اس مقام پر قریب آتے جہاں مسلمان مورچہ بند تھے۔یہ سلع کی پہاڑی تھی ۔تیر انداز مسلمانوں پر تیر برساتے۔ مسلمان جوابی تیر اندازی کرتے۔کبھی قریش کاکوئی تیر انداز جیش کسی اور جگہ گشتی سنتریوں پر تیر چلاتا مگر مسلمانوں کا جیش فوراً پہنچ جاتا۔رات کو مسلمان خندق پر سنتریوں کی تعداد میں اضافہ کردیتے تھے اور قریش خندق سے دور پیچھے خیمہ گاہ میں چلے جاتے تھے۔

رسولِ کریمﷺ کو جہاں مدینہ میں خوراک کی قلت کا جو قحط کی صورت اختیار کرتی جا رہی تھی احساس تھا،وہاں آپ ﷺکو یہ بھی معلوم تھا کہ قریش کا لشکر بھی نیم فاقہ کشی پر آگیا ہے۔ یہ وہ کیفیت ہوتی ہے جو انسانوں کو ایک دوسرے کی شرائط ماننے پر اور معاہدوں اور سمجھوتوں پر مجبور کر دیتی ہے۔ کسی بھی تاریخ میں اس شخص کا نام نہیں لکھا جسے رسولِ کریمﷺ نے خفیہ طریقے سے قریش کے اتحادی غطفان کے سالار عینیہ کے پاس اس مقصد کیلئے بھیجا کہ اسے قریش کی دوستی ترک کرنے پر آمادہ کرے۔اسے یہ نہیں کہا گیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل جائے۔رسولِ کریمﷺ کا مقصد صرف یہ تھا کہ غطفان اور عینیہ رضا مند ہو جائیں اور اپنے قبیلے کو واپس لے جائیں تو قریش کا لشکر دو ہزار نفری کی فوج سے محروم ہو جائے گا۔ یہ توقع بھی کی جا سکتی تھی کہ دوسرے قبائل بھی غطفان کی تقلید میں قریش کے لشکر سے نکل جائیں گے۔’’کیا محمدﷺ ہمیں زبانی معاہدے کی دعوت دے رہا ہے؟‘‘سالار عینیہ نے رسول خداﷺ کے ایلچی سے کہا۔’’ہم نے یہاں تک آنے کا جو خرچ برداشت کیا ہے وہ کون دے گا؟‘‘’’ہم دیں گے۔‘‘رسولِ ﷲﷺ کے ایلچی نے کہا۔’’نبی کریمﷺ نے فرمایا ہے کہ تم لوگ اپنے قبیلے کو واپس لے جاؤ تو اس سال مدینہ میں کھجور کی جتنی پیداوار ہو گی اس کا تیسرا حصہ تم لے جانا۔خود مدینہ آجانا۔ پوری پیداوار دیکھ لینا اور اپنا حصہ اپنے ہاتھوں الگ کر کے لے جانا۔‘‘سالار عینیہ میدانِ جنگ میں لڑنے اور لڑانے والوں کی قیادت کرنے والا جنگجو تھا۔لیکن غیر جنگی مسائل اور امور کو بہت کم سمجھتا تھا۔مؤرخ ابنِ قتیبہ نے لکھا ہے کہ اس واقع کے کچھ ہی عرصہ بعد رسول اﷲﷺ نے اسے ’’مستعد احمق ‘‘کا خطاب دیا تھا۔وہ بڑے طاقت ور جسم والا اور جسمانی لحاظ سے پھرتیلا اور مستعد رہنے والا آدمی تھا۔اس نے اپنے سردارغطفان سے بات کی ۔’’خدا کی قسم! محمد ﷺ نے ہمیں کمزور سمجھ کر یہ پیغام بھیجا ہے۔‘‘غطفان نے کہا۔’’اس کے ایلچی سے پوچھو کہ مدینہ کے اندر لوگوں کو بھوک کا سامنا نہیں؟ہم انہیں بھوک سے نڈھال کر کے ماریں گے۔‘‘ ’’کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ ہمارا اپنا لشکر بھوک سے نڈھال ہو رہا ہے ؟‘‘سالار عینیہ نے کہا۔’’مدینہ والے اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں ہم اپنے گھر سے بہت دور آگئے ہیں۔ کیا لشکر میں تم بے اطمینانی نہیں دیکھ رہے؟کیا تم نے دیکھا نہیں کہ ہماری کمانوں سے نکلے ہوئے تیر اب اتنی دور نہیں جاتے جتنی دور اس وقت جاتے تھے جب تیر اندازوں کو پیٹ بھر کر کھانا ملتا تھا۔ان کے بازوؤں میں کمانیں کھینچنے کی طاقت نہیں رہی ۔‘‘
’’کیا اس کا فیصلہ تم کرو گے کہ ہمیں محمد ﷺ کو کیا جواب دینا چاہیے؟‘‘غطفان نے پوچھا۔’’یا میں فیصلہ کروں گا جو قبیلے کا سردار ہوں۔‘‘ ’’خدا کی قسم! میدانِ جنگ میں جو فیصلہ میں کر سکتا ہوں وہ تم نہیں کر سکتے۔‘‘سالار عینیہ نے کہا۔’’اور میدانِ جنگ سے باہر جو فیصلہ تم کر سکتے ہو وہ فیصلہ میری عقل نہیں کر سکتی۔میری عقل تلوار کے ساتھ چلتی ہے۔مگر یہاں میری فوج کی تلواریں اور برچھیاں اور ہمارے تیر مایوس ہو گئے ہیں۔ ہم خندق کے پار نہیں جا سکتے ۔ہمیں محمد ﷺ کی بات مان لینی چاہیے۔‘‘اور انہوں نے رسولِ کریمﷺ کی بات مان لی۔ایلچی امید افزا جواب لے کر آ گیا۔اسے قریش کا کوئی آدمی نہیں دیکھ سکا تھا کیونکہ غطفان کی فوج محاصرے کے کسی اور مقام پر تھی۔ ﷲ کے رسول ﷺکے خلاف کون بول سکتا تھا۔مگر آپﷺ نے اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق اپنے سرکردہ ساتھیوں کو بلایا اور انہیں موقع دیا کہ کسی کو آپﷺ کے فیصلے سے اختلاف ہے تو وہ بولے۔آپﷺ ایک شخص کا فیصلہ پوری قوم پر ٹھونسنے کے قائل نہ تھے چنانچہ آپﷺ نے سب کو بتایا کہ آپﷺ نے غطفان کو کیا پیش کش کی ہے۔(یہاں اُمت کو مشورے کی اہمیت سکھائی گئی ہے) ’’نہیں!‘‘چندپرجوش آوازیں اٹھیں ۔’’ہماری تلواریں جن کے خون کی پیاسی ہیں ،خدا کی قسم! ہم انہیں اپنی زمین کی پیدوار کا ایک دانہ بھی نہیں دیں گے۔جنگ تو ہوئی نہیں ہم لڑے بغیر کیوں ظاہر کریں کہ ہم لڑ نہیں سکتے۔‘‘اس کی تائید میں کچھ آوازیں اٹھیں۔ ایسی دلیلیں دی گئیں جنہیں رسول ﷲﷺ نے اس لیے قبول فرما لیا کہ یہ اکثریت کی آواز تھی۔آپﷺ نے اپنے ایلچی کو دوبارہ غطفان اور عینیہ کے پاس نہ بھیجا لیکن آپﷺ نے سب پر واضح کر دیا کہ تدبر اور حکمت عملی کے بغیر محاصرہ نہیں توڑا جا سکے گا۔ ﷲ حق پرستوں کے ساتھ تھا۔رسولِ کریمﷺ نے اپنے ﷲ سے مدد مانگی جو ایک انسان کے روپ میں آپ ﷺکے سامنے آگئی ۔یہ تھے’’ نعیم ؓبن مسعود‘‘۔ان کا تعلق غطفان کے قبیلے کے ساتھ تھا۔نعیمؓ سرکردہ شخصیت تھے ۔خدا نے انہیں غیر معمولی دماغ عطا کیا تھا۔تین اہم قبیلوں قریش ،غطفان اور بنو قریظہ پر ان کا اثر و رسوخ تھا۔ ایک روز نعیمؓ جو کہ قبیلہ غطفان میں تھے، مدینہ میں رسولِ ﷲﷺ کے سامنے آکھڑے ہوئے۔’’خدا کی قسم تو قبیلہ غیر کا ہے۔‘‘رسول ﷲﷺ نے فرمایا ۔’’تو ہم میں سے نہیں۔ تو یہاں کیسے آ گیا؟‘‘’’میں آپ میں سے ہوں۔‘‘نعیمؓ نے کہا۔’’مدینہ میں گواہ موجود ہیں۔ میں نے درپردہ اسلام قبول کر لیا تھا۔اپنے قبیلے کے ساتھ اسی مقصد کے لیے آیا تھا کہ آپﷺ کے حضور حاضر ہو جاؤں مگر موقع نہ ملا ،پتا چلا کہ آپﷺ نے میرے قبیلے کے سردار اور سالار کو قریش سے دوستی ترک کرکے واپس چلے جانے کا پیغام بھیجا تھا اور آپﷺ نے اس کا معاوضہ بھی بتا دیا تھا لیکن آپﷺ نے بات کو مزید آگے نہ بڑھایا ۔‘‘’’ ﷲ کی تجھ پررحمت ہو۔‘‘رسولِ ﷲﷺ نے پوچھا۔’’کیا تو بات کو آگے بڑھانے آیا ہے؟‘‘
’’نہیں، میرے ﷲ کے سچے نبیﷺ! ‘‘نعیم نے جواب دیا۔’’مجھے آپﷺ ہی کے قدموں میں آنا تھا۔اہلِ مدینہ پر مشکل کا وقت آن پڑا ہے۔میں اپنی جان لے کے حاضر ہوا ہوں۔ یہ حضور ﷺکے اور اسلام کے شیدائیوں کے جس کام آ سکتی ہے حضورﷺ کے قدموں میں پیش کرتا ہوں۔اپنے لشکر میں سے چھپ چھپا کر نکلا ہوں۔ خندق میں اتر تو گیا لیکن سنتریوں کی موجودگی میں اوپر آنا خودکشی کے برابر تھا۔اوپر چڑھنا ویسے بھی محال تھا ۔بڑی مشکل پیش آئی۔ﷲ سے آپ ﷺکے نام پر التجاکی، گڑ گڑا کر دعا مانگی ،ﷲ نے کرم کیا ۔سنتری آگے چلے گئے اور میں خندق پر چڑھ آیا۔‘‘رسولِ اکرمﷺ کو نعیمؓ کے متعلق بتایا گیا کہ یہ کس حیثیت کی شخصیت ہے۔ رسولِ کریمﷺ نے ان کے ساتھ دو چار باتیں کیں تو آپﷺ کو اندازہ ہو گیا کہ نعیمؓ اونچی سطح اور عقل کے انسان ہیں۔ آپﷺ نے نعیم ؓکو بتایا کہ محاصرے نے جو حالات پیدا کر دیئے ہیں ان سے نکلنے کیلئے ضروری ہو گیا ہے کہ قریش کے لشکر میں جو مختلف قبائل شامل ہیں انہیں قریش سے بدزن کیا جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ دو تین قبائل کے ساتھ خفیہ معاہدے کرلیے جائیں ۔’’یا رسول ﷲﷺ!‘‘ نعیم نے کہا۔’’اگر میں یہ کام اپنے طریقے سے کردوں تو کیا حضورﷺ مجھ پر اعتماد کریں گے ؟‘‘’’تجھ پر ﷲ کی رحمت ہو نعیم‘‘۔رسول ﷲﷺ نے فرمایا۔’’ میں تجھے اور تیرے نیک ارادوں کو ﷲ کے سپرد کرتا ہوں۔‘‘ ’’میں واپس اپنے قبیلے میں چلا جاؤں گا۔‘‘نعیم نے کہا۔’’لیکن یہ نہیں بتاؤں گا کہ میں مدینہ میں آیا تھا۔یہاں سے میں کعب بن اسد کے پاس جا رہا ہوں ،میرے ﷲ کے رسولﷺ !میری کامیابی کیلئے دعا فرمائیں۔‘‘مدینہ میں رات کو پہرے بڑے سخت تھے۔ پیچھے کی طرف خندق نہیں تھی ۔ادھر پہاڑیوں نے قدرتی دفاع مہیا کر رکھا تھا ۔ادھر پہرے داروں اور گشتی سنتریوں کی تعداد زیادہ رکھی گئی تھی اور شہر کے کسی آدمی کا بھی ادھر جانا بڑا مشکل تھا۔رسولِ اکرمﷺ نے نعیم ؓکے ساتھ اپنا ایک آدمی بھیج دیا تھا تاکہ کوئی سنتری انہیں روک نہ لے ۔یہ آدمی نعیمؓ کو مدینہ کے ساتھ باہرتک چھوڑ کر واپس آ گیا۔رات کا پہلا پہر تھا جب نعیمؓ بنو قریظہ کی بستی میں کعب بن اسد کے دروازے پر پہنچے۔دروازہ غلام نے کھولا۔’’تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو نہ کعب؟‘‘نعیم ؓنے پوچھا۔’’نعیم بن مسعود کو کون نہیں جانتا۔‘‘کعب نے کہا ۔’’غطفان کے قبیلے کو تجھ جیسے سردار پر بہت فخر ہوگا۔کہو نعیم رات کے اس پہر میں تمہاری کیا خدمت کر سکتا ہوں؟میں نے دس دنوں کی مہلت مانگی تھی۔ابھی تو چھ سات دن گزرے ہیں ۔میں نے مسلمانوں پر شب خون مارنے کیلئے آدمی تیار کر لیے ہیں۔ کیا تم یہی معلوم کرنے آ ئے ہو؟‘‘
"میں اسی سلسلے میں آیا ہوں ۔‘‘نعیمؓ نے کہا۔’’تم بے وقوف ہو کعب۔تم نے قریش کے ساتھ کس بھروسے پر معاہدہ کر لیا ہے؟ مجھ سے نہ پوچھنا کہ میرے دل میں تمہاری ہمدردی کیوں پیدا ہوئی۔میں مسلمانوں کا بھی ہمدرد نہیں کیونکہ میں مسلمان نہیں۔تم اچھی طرح جانتے ہو میرے دل میں انسانیت کی ہمدردی ہے۔ میرے دل میں ہمدردی ہے تمہاری ان خوبصورت اور جوان بیٹیوں، بیویوں اور بہنوں کی، جو مسلمانوں کی لونڈیاں بن جائیں گی۔تم نے قریش سے بڑا ہی خطرناک معاہدہ کر لیا ہے لیکن اس کی ضمانت نہیں لی کہ اہلِ قریش تمہیں مسلمانوں سے بچا لیں گے۔ہم نے بھی قریش کے ساتھ معاہدہ کیا ہے لیکن کچھ ضمانت بھی لی ہے ۔‘‘ ’’کیا قریش جنگ ہار جائیں گے؟‘‘کعب بن اسد نے پوچھا۔’’وہ جنگ ہار چکے ہیں۔‘‘نعیم ؓنے کہا ۔’’کیا یہ خندق انہیں شہر پر حملہ کرنے دے گی؟قریش کے لشکر کو بھوک نے بے حال کرنا شروع کر دیا ہے ۔میرا قبیلہ بھوک سے پریشان ہو گیا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ کل تم میرے قبیلے کو بدنام کرو کہ غطفان تمہیں مسلمانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ گئے تھے، تم مسلمانوں پر حملہ کرکے انہیں اپنا دشمن بنا لو گے اور قریش اور ہم محاصرہ اٹھا کہ واپس چلے جائیں گے۔ اپنے دونوں قبیلوں قینقاع اور بنو نضیر کا انجام جو مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا تھا وہ تمہیں یاد ہوگا۔‘‘کعب بن اسد پر خاموشی طاری ہو گئی۔’’ میں جانتا ہوں کہ تم نے قریش سے کتنی اجرت لی ہے ۔‘‘نعیم نے کہا ۔’’لیکن یہ خزانہ جو تم ان سے لے رہے ہو، یہ خوبصورت لڑکیاں جو حُیّ بن اخطب نے تمہارے پاس بھیجی ہیں ۔یہ سب مسلمانوں کی ملکیت ہو جائے گی اور تمہارا سر تمہارے تن سے جدا ہوگا۔‘‘’’تو کیا میں قریش سے معاہدہ توڑ دوں؟‘‘ کعب نے پوچھا۔’’معاہدہ نہ توڑو ۔‘‘نعیم ؓنے کہا۔’’انہیں ابھی ناراض نہ کرو لیکن اپنی حفاظت کی ان سے ضمانت لو۔عرب کے رواج کے مطابق انہیں کہو کہ ان کے اونچے خاندانوں کے کچھ آدمی تمہیں یرغمال کے طور پر دے دیں۔اگر انہوں نے اپنے چند ایک معزز اور سرکردہ آدمی دے دیئے تو یہ ثبوت ہو گا کہ وہ معاہدہ میں مخلص ہیں۔‘‘ ’’ہاں نعیم!‘‘ کعب بن اسد نے کہا۔’’میں ان سے یرغمال میں آدمی مانگوں گا۔‘‘

نعیمؓ بن مسعود رات کے وقت پہاڑیوں میں چلے جا رہے تھے ۔ان کی منزل قریش کی خیمہ گاہ تھی جو کئی میل دور تھی۔ سیدھا رستہ چھوٹا تھا لیکن راستے میں خندق تھی۔ وہ بڑی دور کا چکر کاٹ کے جا رہے تھے۔ وہ گزشتہ رات سے مسلسل چل رہے تھے مگر چھپ چھپ کر چلنے اور عام سفر میں بہت فرق ہوتا ہے ۔نعیمؓ جب ابو سفیان کے پاس پہنچے تو ایک اور رات شروع ہو چکی تھی۔اس وقت ان کی ہڈیاں بھی دکھ رہی تھیں اور ان کی زبان سوکھ
گئی تھی۔ ایک ہی بار بے تحاشا پانی پی کر وہ بولنے کے قابل ہوئے۔ابوسفیان نعیم ؓکی دانشمندی اور تدبر سے متاثر تھا۔’’تمہاری حالت بتا رہی ہے کہ تم اپنے لشکر میں سے نہیں آئے۔‘‘ابوسفیان نے نعیمؓ سے پوچھا۔’’کہاں سے آ رہے ہو؟‘‘’’بہت دور سے۔‘‘ نعیمؓ بن مسعود نے جواب دیا۔’’ جاسوسی کی ایک مہم سے آ رہا ہوں ،تم لوگ بنو قریظہ کے ساتھ معاہدہ کر آئے ہو۔ کیا تم بھول گئے تھے کہ یہودیوں کو ہمارے ساتھ جو دلچسپی ہے وہ صرف اس لیے ہے کہ وہ اسلام کو ہمارے ہاتھوں یہیں پر ختم کرا دینا چاہتے ہیں۔ میں بنو قریظہ کے دو دوستوں سے مل آیا ہوں اور مجھے مدینہ کا بھی ایک پرانا دوست مل گیا تھا۔ مجھے پتا چلا ہے کہ کعب بن اسد نے محمد ﷺ کا ساتھ نہیں چھوڑا بلکہ کعب نے مسلمانوں کو خوش کرنے کا ایک نیا طریقہ سوچا ہے۔ تم نے اسے کہا کہ وہ مدینہ میں مسلمانوں پر حملے کرے ۔وہ اب تم سے قریش کے سرکردہ خاندانوں کے چند افراد یرغمال میں ضمانت کے طور پر رکھنے کیلئے مانگے گا۔ مگر انہیں وہ مسلمانوں کے حوالے کر دے گااور مسلمان ان افراد کو قتل کر دیں گے۔پھر یہودی مسلمانوں کے ساتھ مل جائیں گے اور دونوں ہم پر حملہ کر دیں گے۔ میں تمہیں خبردار کرنے آیا ہوں کہ یہودیوں کو یرغمال میں اپنا ایک آدمی بھی نہ دینا ۔‘‘’’خدا کی قسم نعیم!‘‘ ابوسفیان نے کہا۔’’اگر تمہاری یہ بات سچ نکلی ۔تو میں بنو قریظہ کی بستیاں اجاڑ دوں گا۔کعب بن اسد کی لاش کو میں اپنے گھوڑے کے پیچھے باندھ کر گھسیٹتا ہوا مکہ لے جاؤں گا۔اس نے کیا سوچ کر ہمیں دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے؟‘‘’’اس کی سوچ پر آپ نے شراب اور حسین لڑکیوں کا طلسم طاری کر دیا ہے۔‘‘ نعیمؓ بن مسعود نے کہا۔’’ کیا شراب اور عورت کسی کے دل میں خلوص اور دیانت داری رہنے دیتی ہے؟‘‘’’اسے شراب اور عورت کس نے دی؟‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’کیا بد بخت کعب اتنی سی بات نہیں سمجھ سکا کہ میں نے اس کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے اس میں اس کی قوم اور اس کے مذہب کا تحفظ ہے۔اگر محمدﷺ کا مذہب اسی طرح پھیلتا چلا گیا تو یہودیت ختم ہو جائے گی۔‘‘

’’تم یہودیوں کو ابھی تک نہیں سمجھ سکے۔‘‘نعیم ؓنے کہا۔’’وہ اپنے دشمن پر بھی ظاہر نہیں ہونے دیتے کہ وہ اس کے دشمن ہیں ۔حُیّ بن اخطب بھی یہودی ہے ۔اس نے تمہاری طرف سے کعب کو شراب کا نصف مٹکا اور دو نہایت حسین لڑکیا ں دی ہیں۔ میں جب کعب سے ملا تو وہ شراب میں بد مست تھا اور دونوں لڑکیاں نیم برہنہ حالت میں اس کے پاس تھیں ۔اس نے بد مستی کے عالم میں مجھے کہا کہ وہ اہلِ قریش کو انگلیوں پر نچا رہا ہے۔‘‘ ’’نعیم!‘‘ ابو سفیان نے تلوار کے دستے پر ہاتھ مار کر کہا۔’’ میں مدینہ سے محاصرہ اٹھاکر بنو قریظہ کی نسل ختم کر دوں گا۔اس کی یہ جرات کہ قبیلہ قریش کے سرکردہ چند افراد کو ضمانت کے طور پر یرغمال بناکر رکھنا چاہتا ہے۔‘‘ ’’تمہیں اتنا نہیں بھڑکنا چاہیے ابو سفیان۔‘‘نعیمؓ نےکہا۔’’ ٹھنڈے دل سے سوچو اور فیصلہ کر لو کہ کعب کو تم ایک بھی آدمی یرغمال میں نہیں دو گے ۔‘‘’’میں فیصلہ کر چکا ہوں ۔‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’ کیا تم اہلِ مدینہ کی کوئی خبر دے سکتے ہو؟ وہ کس حال میں ہیں؟ وہ کب تک بھوک برداشت کریں گے ؟‘‘نعیمؓ بن مسعود کو ابو سفیان کے پاؤں اکھاڑنے کا موقع مل گیا۔ ’’میں حیران ہوں ابو سفیان !‘‘ نعیمؓ نے کہا۔’’ اہلِ مدینہ خوش اور مطمئن ہیں ۔وہاں بھوک کے کوئی آثار نہیں، خوراک کی کمی ضرور ہے لیکن اہل ِمدینہ کا جوش اور جذبہ ایسا ہے کہ جیسے انہیں خوراک کی ضرورت ہی نہیں۔‘‘ ’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے محاصرے کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’بالکل نہیں۔‘‘نعیم ؓبن مسعود نے کہا۔’’ان پر محاصرے کا یہ اثر ہے کہ وہ جوش و خروش سے پھٹے جا رہے ہیں ۔‘‘’’ہمارے یہودی جاسوس ہمیں بتا رہے ہیں کہ مدینہ میں خوراک تقریباً ختم ہو چکی ہے۔‘‘ابو سفیان نے ذرا پریشان ہو کر کہا۔ ’’وہ جھوٹ بولتے ہیں ۔‘‘نعیمؓ نے اسے اور زیادہ پریشان کرنے کیلئے کہا۔’’میں تمہیں پھر کہتا ہوں کہ یہودیوں پر بھروسہ نہ کرنا۔یہ بتا کر کہ مسلمانوں کی حالت اچھی نہیں وہ تمہیں اکسا رہے ہیں کہ تم مسلمانوں کو کمزور سمجھ کر کہیں سے خندق عبور کر لو اور مدینہ پر حملہ کر دو۔ وہ اہلِ قریش اور میرے قبیلے غطفان کو مسلمانوں کے ہاتھوں تباہ کرانا چاہتے ہیں۔‘‘


جاری ہے ۔۔۔

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

⚔شمشیرِ بے نیام⚔   حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ   قسط نمبر -7 مؤرخ ابنِ ہشام نے لکھا ہے کہ اس کیفیت میں کہ شہر میں خوراک کا کوئی ذخیرہ نہ ...

شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 6





⚔شمشیرِ بے نیام⚔ ِ

سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

(قسط نمبر 6)


اس مؤرخ کے مطابق ،مدینہ میں اس افواہ کو سچ مانا گیا اور مسلمانوں کے چہروں پر اس کے اثرات بھی دیکھے گئے۔جب رسولِ کریمﷺ تک یہ افواہ پہنچی اور یہ اطلاع بھی کہ بعض مسلمانوں پر خوف و ہراس کے اثرات دیکھے گئے ہیں تو رسولِ کریمﷺ نے باہر آ کر لوگوں کو جمع کیا اور اعلان کیا: ’’کیا ﷲ کے نام لیوا صرف یہ سن کر ڈر گئے ہیں کہ قریش کی تعداد زیادہ ہو گی؟کیا ﷲسے ڈرنے والے آج بتوں کے پجاریوں سے ڈرگئے ہیں ؟اگر تم قریش سے اس قدر ڈر گئے ہو کہ ان کی للکار پر تم منہ موڑ گئے ہو تو مجھے قسم ہے خدائے ذوالجلال کی !جس نے مجھے رسالت کی ذمہ داری سونپی ہے۔ میں بدر کے میدان میں اکیلا جاؤں گا۔‘‘رسولﷲ ﷺ کچھ اور بھی کہنا چاہتے تھے لیکن رسالتِ مآبﷺ کے شیدائیوں نے نعروں سے آسمان کو ہلا ڈالا۔ یہ سراغ نہ مل سکا کہ افواہ کس نے اڑائی تھی لیکن رسول ﷲ ﷺ کی پکار پر قریش کی پھیلائی ہوئی افواہ کے اثرات زائل ہو گئے اور مسلمان جنگی تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔ دن تھوڑے سے رہ گئے تھے۔ کوچ کے وقت مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار تھی۔ ان میں صرف پچاس گھوڑ سوار تھے۔جن یہودیوں کو افواہ پھیلانے کیلئے مدینہ بھیجا گیا تھا انہوں نے واپس آ کر بتایا کہ’’ افواہ نے پہلے پورا کام کیا تھا لیکن ایک روز محمدﷺ نے مسلمانوں کو اکھٹا کرکے چند ہی الفاظ کہے تو مسلمان بدر کو کوچ کیلئے تیار ہو گئے۔ان کی تعداد مدینہ میں ہماری موجودگی تک ڈیڑھ ہزار تک پہنچ گئی تھی ۔ہمارا خیال ہے کہ تعداد اس سے کم یا زیادہ نہیں ہو گی۔‘‘ 

آج مدینہ کو جاتے ہوئے اس واقعہ کی یاد نے خالد کو اس لیے شرمسار کر دیا تھا کہ وہ اس وقت محسوس کرنے لگا تھا کہ ابو سفیان کسی نہ کسی وجہ سے مسلمانوں کے سامنے جانے سے ہچکچا رہا ہے۔ خالد کو جب مسلمانوں کی تعداد کا پتا چلا تو وہ بھڑکا بپھرا ہوا ابو سفیان کے پاس گیا ۔’’ابو سفیان !‘‘خالد نے اسے کہا۔’’ سردار کی اطاعت ہمارا فرض ہے ۔میں اہلِ قریش میں سردار کی حکم عدولی کی روایت قائم نہیں کر نا چاہتا لیکن مجھے قریش کی عظمت کا بھی خیال ہے۔آپ اپنے رویے کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ قبیلہ قریش کی عظمت کا احساس مجھ میں اتنا زیادہ ہو جائے کہ میں آپ کے حکم اور رویہ کی طرف توجہ ہی نہ دوں۔ ‘‘ ’’کیا تم نے سنا نہیں تھا کہ میں نے یہودیوں کو مدینہ کیوں بھیجا تھا۔‘‘ ابو سفیان نے پوچھا۔’’ میں مسلمانوں کو ڈرانا چاہتا تھا۔‘

’ابو سفیان!‘‘ خالد نے اس کی بات پوری ہونے سے پہلے کہا۔’’ لڑنے والے ڈرا نہیں کرتے۔ کیا آپ نے مسلمانوں کو قلیل تعداد میں لڑتے ہوئے نہیں دیکھا؟ کیا آپ نے خبیب اور زید کو اہلِ قریش کی برچھیوں کے سامنے کھڑے ہو کر نعرے لگاتے نہیں سنا تھا؟ میں آپ سے صرف یہ کہنے آیا ہوں کہ اپنی سرداری کا احترام کریں اور بدر کوچ کی تیاری کریں۔‘‘ دوسرے ہی دن مکہ میں یہ خبر پہنچی کہ مسلمان مدینہ سے بدر کی طرف کوچ کر گئے ہیں ۔اب ابو سفیان کے کیلئے اس کے سوا اورکوئی راستہ نہیں رہ گیا تھا کہ وہ کوچ کاحکم دے ۔قریش کی جو تعداد بدر کو کوچ کیلئے تیار ہوئی وہ دو ہزار تھی اور ایک سو گھڑ سوار اس کے علاوہ تھے۔قیادت ابو سفیان کی تھی اور اس کے ماتحت خالد ،عکرمہ اور صفوان نائب سالار تھے۔ حسبِ معمول ابو سفیان کی بیوی ہند اور اس کی چند ایک کنیزیں اور گانے بجانے والی عورتیں بھی ساتھ تھیں۔مسلمان رسولِ اکرمﷺ کی قیادت میں ۴ اپریل ۶۲۶ء بمطابق یکم ذ ی القعد ۴ ہجری کے روز بدر کے میدان میں پہنچ گئے۔ قریش ابھی عسفان کے مقام تک پہنچے تھے ۔انہوں نے وہیں رات بھر کیلئے پڑاؤ کیا.
 علی الصبح ان کی روانگی تھی لیکن صبح طلوع ہوتے ہی ابو سفیان نے اپنے لشکر کو کوچ کا حکم دینے کے بجائے اکھٹا کیا اور لشکر سے یوں مخاطب ہوا :’’قریش کے بہادرو! مسلمان تمہارے نام سے ڈرتے ہیں۔ اب ان کے ساتھ ہماری جنگ فیصلہ کن ہو گی۔ ان مٹھی بھر مسلمانوں کا ہم نام و نشان مٹا دیں گے۔ نہ محمد اس دنیا میں رہے گا نہ کوئی اس کا نام لینے والا۔ لیکن ہم ایسے حالات میں لڑنے جا رہے ہیں جو ہمارے خلاف جا سکتے ہیں اور ہماری شکست کا باعث بن سکتے ہیں ۔تم دیکھ رہے ہو کہ ہم اپنے ساتھ پورا اناج نہیں لا سکے ۔ مزید اناج ملنے کی امید بھی نہیں کیونکہ خشک سالی نے قحط کی صورت پیدا کردی ہے پھر اس گرمی کو دیکھو۔ میں نہیں چاہتا کہ میں اپنے بہادروں کو بھوکا اور پیاسا مروا دوں۔میں فیصلہ کن جنگ کیلئے موزوں حالات کا انتظار کروں گا۔ہم آگے نہیں جائیں گے۔ مکہ کو کوچ کرو۔خالد کو یاد آ رہا تھا کہ قریش کے لشکر نے دو طرح کے نعرے بلند کیے۔ ایک ان کے نعرے تھے جو انہی حالات میں مسلمانوں کے خلاف لڑنے کا عزم کیے ہوئے تھے۔ دوسرے نعرے ابو سفیان کے فیصلے کی تائید میں تھے لیکن حکم سب کو ماننا تھا۔ خالد، عکرمہ اورصفوان نے ابو سفیان کا یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا۔
لیکن ابو سفیان پر ان کے احتجاج کا کچھ اثر نہ ہوا۔ ان تینوں نائب سالاروں نے یہ جائزہ بھی لیا کہ کتنے آدمی ان  کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ جائزہ ان کے خلاف ثابت ہوا ۔لشکر کی اکثریت ابو سفیان کے حکم پر مکہ کی طرف کوچ کر گئی۔ خالد اور اس کے دوسرے ساتھیوں کو مجبوراً لشکر کے پیچھے پیچھے آنا پڑا۔
 خالد کو وہ لمحہ یاد آ رہا تھا جب وہ اہلِ قریش کے لشکر کے پیچھے پیچھے عکرمہ اور صفوان کے ساتھ مکہ کو چلا جا رہا تھا۔اس کا سر جھکا ہوا تھا ۔ یہ تینوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ بھی نہیں رہے تھے جیسے ایک دوسرے سے شرمسار ہوں. خالد کو بار بار یہ خیال آتا تھا کہ لڑائی میں اس کی ایک ٹانگ کٹ جاتی۔ بازو کٹ جاتے ۔اس کی دونوں آنکھیں ضائع ہوجاتیں تو اسے یہ دکھ نہ ہوتا جو بغیر لڑے واپس جانے سے ہو رہا تھا۔اس وقت وہ اس طرح محسوس کر رہا تھا جیسے اس کی ذات مٹ چکی ہو اور گھوڑے پر اس کی لاش مکہ کو واپس جا رہی ہو۔نبی کریمﷺ کا قتل اس کا عزم اور عہد تھا جو وہ پورا کیے بغیر واپس آ رہا تھا۔ یہ عزم بچھو بن کر اسے ڈس رہا تھا۔ اسے بہت کچھ یاد آ رہا تھا۔ یادوں کا ایک ریلا تھا جو ختم نہیں ہو رہا تھا۔ اسے یہودیوں کے تینوں قبیلے بنو نضیر، بنو قریظہ اور بنو قینقاع یادآئے ۔انہوں نے جب دیکھا کہ قریش مسلمانوں کے خلاف لڑنے سے منہ موڑ گئے ہیں تو وہ سرگرم ہو گئے۔ یہودیوں نے مسلمانوں کے خلاف زمین دوز کارروائیاں شروع کیں ۔مکہ گئے اور قریش کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا۔ مگر قریش کا سردار ابو سفیان ٹس سے مس نہ ہوا۔ خالد کو معلوم نہ ہو سکا کہ ابو سفیان کے دل میں کیا ہے اور وہ مسلمانوں سے لڑنے سے کیوں گھبرا تا ہے۔

اسی سال کے موسمِ سرما کے اوائل میں خیبر کے چند ایک سرکردہ یہودی مکہ گئے۔ ان کا سردار حیّی بن اخطب تھا ۔یہ شخص یہودیوں کے قبیلے بنو نضیر کا سردار بھی تھا ۔یہودیوں کے پاس زر و جواہرات کے خزانے تھے۔ وہ چند ایک یہودی ابو سفیان اور قریش کے دیگر سرداروں کیلئے بیش قیمت تحفے لے کر گئے ۔ان کے ساتھ حسین و جمیل لڑکیوں کا طائفہ بھی تھا۔ مکہ میں یہ یہودی ابو سفیان سے ملے۔ اسے تحفے پیش کیے اور رات کو اپنے طائفہ کا رقص بھی دکھایا ۔اس کے بعد حیّی بن اخطب نے ابو سفیان سے خالد ،عکرمہ اور صفوان کی موجوگی میں کہا کہ’’ انہوں نے مسلمانوں کو ختم نہ کیا اور ان کے بڑھتے ہوئے قدم نہ روکے تو وہ یمامہ تک پہنچ جائیں گے ۔اگر وہ اس میں کامیاب ہو گئے تو قریش کیلئے وہ تجارتی راستہ ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے گا۔جو بحرین اور عراق کی طرف جاتا ہے ۔‘‘قریش کیلئے یہ راستہ شہ رگ کی حیثیت رکھتا تھا ۔’’اگر آپ ہمارا ساتھ دیں۔‘‘ حیّی بن اخطب نے کہا۔’’ تو ہم مسلمانوں کے خلاف خفیہ کارروائیاں شروع کر دیں گے۔‘‘ ’’ہم مسلمانوں سے دگنے تھے تو بھی انہیں شکست نہ دے سکے۔‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’ ان سے تین گنا تعداد میں ان سے لڑے تو بھی انہیں شکست نہ دے سکے اگر چند اور قبیلے ہمارے ساتھ مل جائیں تو ہم مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کر سکتے ہیں۔‘‘

’’ہم نے یہ انتظام پہلے ہی کر دیا ہے ۔‘‘حیّی بن اخطب نے کہا ۔’’قبیلہ غطفان اور بنو اسد آپ کے ساتھ ہوں گے۔ چند اور قبیلے ہماری کوششوں سے آپ کے ساتھ آ جائیں گے۔‘‘ خالد کو کیا کچھ یاد نہ آ رہا تھا تین چار سال پہلے کے واقعات ،اسے ایک روز پہلے کی طرح یاد تھے۔ اسے ابو سفیان کا گھبرایا گھبرایا چہرہ اچھی طرح یاد تھا۔ خالد جانتا تھا کہ یہودی اہلِ قریش کو مسلمانوں کے خلاف صرف اس لیے بھڑکا رہے ہیں کہ یہودیوں کا اپنا مذہب اسلام کے مقابلے میں خطرے میں آ گیا تھا ۔لیکن انہوں نے ابو سفیان کو ایسی تصویر دکھائی تھی جس میں اسے مسلمانوں کے ہاتھوں تباہی نظر آ رہی تھی۔دوسری طرف خالد، عکرمہ اور صفوان بن امیہ نے ابو سفیان کو سر اٹھا نے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔’’ ہم آپ کو اپنا سردار تسلیم کرتے ہیں ۔لیکن آپ یہ تسلیم کریں کہ آپ بزدل ہیں۔‘‘ ’اگر مسلمان موسم کی خرابی اور قحط میں لڑنے کیلئے آ گئے تھے تو ہم بھی لڑ سکتے تھے۔‘‘ ’’آ پ نے جھوٹ بو ل کر ہمیں دھوکا دیا ہے۔‘‘ ’’ابو سفیان بزدل ہے۔ ابو سفیان نے پورے قبیلے کو بزدل بنا دیا ہے۔ اب محمد ﷺ کے چیلے ہمارے سر پر کودیں گے۔‘‘ اور ایسی بہت سی طنز اور غصے میں بھری ہوئی آوازیں مکہ کے گلی کوچوں میں گشت کرتی رہتی تھیں ۔ان آوازوں کے پیچھے یہودیوں کا دماغ بھی کام کر رہا تھا لیکن اہلِ قریش کی غیرت اور ان کا جذبہ انتقام انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔ ابو سفیان اس حال تک پہنچ گیا کہ اس نے باہر نکلنا ہی چھوڑ دیا ۔خالد کو وہ دن یاد آیا جب اسے ابوسفیان نے اپنے گھر بلایا تھا۔ خالدکے دل میں ابو سفیان کا وہ احترام نہیں رہ گیا تھا جو کبھی ہوا کرتا تھا ۔وہ بادل نخواستہ صرف اس لیے چلا گیا کہ ابی سفیان اس کے قبیلے کا سردار ہے۔ وہ ابو سفیان کے گھر گیا تو وہاں عکرمہ اور صفوان بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ’’خالد!‘‘ ابوسفیان نے کہا ۔’’میں نے مدینہ پر حملہ کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘ خالد کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس نے غلط سنا ہو۔ اس نے عکرمہ اور صفوان کی طرف دیکھا ۔ان دونوں کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ آ گئی۔ ’’ہاں خالد!‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’جس قدر جلدی ہو سکے لوگوں کو مدینہ پر حملہ کیلئے تیار کر لو۔‘‘

یہودیوں نے جن قبائل کو قریش کا ساتھ دینے کیلئے تیار کیا تھا ۔ان سب کی طرف پیغام بھیج دیئے گئے ۔یہ فروری627 ء کے آغاز کے دن تھے ۔مختلف قبائل کے لڑاکا دستے مکہ میں جمع ہونے لگے۔ ان قبائل میں سب سے زیادہ فوج غطفان کی تھی ۔اس کی تعداد تین ہزار تھی۔ مُنےّہ اس کا سالار تھا ۔سات سو آدمی بنو سلیم نے بھیجے۔ بنو اسد نے بھی خاصی فوج بھیجی جس کا سالار طلیحہ بن خویلد تھا۔)اس کی تعداد تاریخ میں نہیں ملتی (قریش کی اپنے فوج کی تعداد چار ہزار پیادہ اور تین سو گھڑ سوار اور ڈیڑھ ہزار شتر سوار تھے۔اس پورے لشکر کی تعداد جو مدینہ پر فوج کشی کیلئے جا رہی تھی کل دس ہزار تھی۔اس کی کمان ابو سفیان کے ہاتھ میں تھی۔ابو سفیان نے اس متحدہ فوج کو جمیعت القبائل کہا تھا۔ ان میں سے کچھ قبائل مکہ میں نہیں آئے تھے۔ انہوں نے اطلاع دی تھی کہ جب لشکر مکہ سے روانہ ہو گا تو وہ اپنی اپنی بستی سے کوچ کر جائیں گے اور راستہ میں لشکر سے مل جائیں گے۔ خالد کو آج وہ وقت یاد آ رہا تھا جب اس نے مکہ سے کوچ کیا تھا ۔لشکر کا تیسرا حصہ ان کی کمان میں تھا۔ اس نے ایک ٹھیکری پر گھوڑا چڑھا کر وہاں سے اس تمام لشکر کو دیکھا تھا۔ اسے لشکر کے دونوں سرے نظر نہیں آ رہے تھے۔ دف اور نفریاں اور شہنائیاں اور لشکر کی مترنم آواز جو ایک ہی آواز لگتی تھی۔ خالد کے خون کو گرما رہی تھی۔ اس نے گردن تان کر اپنے آپ سے کہا تھا کہ ’’مسلمان پس کے رہ جائیں گے ۔اسلام کے ذرے عرب کی ریت میں مل کر ہمیشہ کیلئے فنا ہو جائیں گے ۔یہ اس کا عزم تھا ۔یہ لشکر 24فروری627ء بمطابق یکم شوال ہجری مدینہ کے قریب پہنچ گیا ۔قریش نے اپنا پڑاؤ اس جگہ ڈالا جہاں احد کی لڑائی کیلئے خیمہ زن ہوئے تھے۔ وہاں دوند یاں آکر ملتی تھیں۔ دوسرے تمام قبائل احد کی پہاڑی کے مشرق کی طرف خیمہ زن ہوئے۔قریش نے یہ معلوم کر نے کیلئے کہ مدینہ کے لوگوں کو قریش کی لشکر کی آمد کی اطلاع ملی ہے یا نہیں ۔دو جاسوس تاجروں کے بھیس میں مدینہ بھیجے ۔ابو سفیان اور ا سکے تمام نائب سالاروں کی خواہش اور کوشش یہ تھی کہ مدینہ والوں پر بے خبری میں حملہ کیا جائے لیکن دوسرے ہی دن قریش کاایک جاسوس جو یہودی تھا مدینہ سے آیا۔ا س نے ابو سفیان کو بتایا کہ مسلمانوں کو حملہ آور لشکر کی آمد کی اطلاع مل چکی ہے۔
مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔ اس یہودی جاسوس نے بتایا ۔’’سارے شہر پر خوف طاری ہو گیا تھا لیکن محمد)ﷺ( اور اس کے قریبی حلقے کے آدمیوں کی للکار پر مسلمانوں کے دل مضبوط ہو گئے ۔گلی کوچوں میں ایسے اعلان ہونے لگے جن سے تمام شہر کا جذبہ اور حوصلہ عود کر آیا اور مسلمان لڑائی کیلئے ایک جگہ اکھٹے ہونے لگے۔میرے خیال میں ان کی تعداد تین ہزار سے زیادہ نہیں ہو گی۔‘‘ مؤرخ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ انہیں اطلاع مل چکی تھی کہ مدینہ پر حملہ کیلئے جو لشکر آیا ہے اس کی تعداد دس ہزار ہے جس میں سینکڑوں گھڑ سوار اور شتر سوار بھی ہیں ۔اس وقت تک عرب کی سرزمین میں کسی لڑائی میں اتنا بڑا لشکر نہیں دیکھا تھا۔ تعداد کو دیکھا جاتا اور فن ِ حرب و ضرب کے پیمانے سے دونوں اطراف کو ناپا تولا جاتا تو مسلمانوں کو لڑے بغیر ہتھیار ڈال دینے چاہیے تھے یا وہ رات کی تاریکی میں مدینہ سے نکل جاتے اور کسی اور بستی میں اپنا ٹھکانا بناتے ۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تین ہزار مسلمان دس ہزار کے لشکر کامقابلہ ذرا سی دیر کیلئے بھی کر سکیں گے۔ دس ہزار لشکر نہایت آسانی سے مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتا تھا لیکن یہ حق اور باطل کی ٹکر تھی ۔یہ ﷲ کے آگے سجدے کر نے والوں اور بت پرستوں کا تصادم تھا۔ خدا کو حق کا ساتھ دینا تھا۔ خدا کو اپنے اس عظیم پیغام کی لاج رکھنی تھی جو اس کی ذاتِ باری نے غارِ حرا میں عرب کے سپوت کو دیا تھا اور اسے رسالت عطا کی تھی۔ــ’’خدا ان کا ساتھ دیتا ہے جن کے دلوں میں حق اور صدق ہوتا ہے۔‘‘ یہ نبی کریمﷺ کی للکار تھی جو مدینہ کے گلی کوچوں میں سنائی دے رہی تھی ۔’’لیکن اے ﷲ کی عبادت کرنے والوں! خدا تمہارا ساتھ اسی صورت میں دے گا جب تم دلوں سے خوف و ہراس نکال کر ایک دوسرے کا ساتھ دو گے اور اپنی جانیں ﷲ کی راہ میں قربان کر دینے کا عزم کرو گے۔جو ہمارے ﷲ کو نہیں مانتا اور جو ہمارے دین کو نہیں مانتا وہ ہمارا دشمن ہے اور اس کا قتل ہم پر فرض ہے۔ یاد رکھو قتل کرنے کیلئے قتل ہونا بھی پڑتا ہے۔ ایمان سے بڑھ کر اور کوئی طاقت نہیں جو تمہیں دشمن سے بچا سکے گی۔ تمہیں دفاع مدینہ کا نہیں اپنے عقیدے کا کرنا ہے۔ اگر اس عزم سے آگے بڑھو گے تو دس ہزار پر غالب آ جاؤ گے ۔خدا سوئے ہوئے یا خوف زدہ انسان کو معجزے نہیں دکھایا کرتا ۔اپنے عقیدے اور اپنی بستی کے دفاع کا معجزہ تمہیں خود دکھانا ہے ۔‘‘
نبی کریمﷺ نے مدینہ والوں کا حوصلہ اس قدر مضبوط کر دیا تھا کہ وہ اس سے بڑے لشکر کے مقابلے کیلئے بھی تیار ہو گئے۔ لیکن رسولِ ﷲﷺ اس سوچ میں ڈوب گئے تھے کہ اتنے بڑے لشکر سے مدینہ کو بچانا کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟ آپ ﷺ کو یہ تو پورا یقین تھا کہ ﷲ حق پرستوں کے ساتھ ہے لیکن حق پرستوں کو خود بھی کچھ کر کے دکھانا تھا۔ بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ خدا نے اپنے نام لیواؤں کی مدد کا انتظام کر رکھا تھا ۔وہ ایک انسان تھا جس نے عمر کے آخری حصہ میں اسلام قبول کیا تھا۔ اس انسان کا نام ’’سلمان فارسیؓ ‘‘تھا۔ سلمان فارسیؓ آتش پرستوں کے مذہبی پیشوا تھے۔ لیکن وہ شب و روز حق کی تلاش میں سرکردہ رہتے تھے۔ وہ آگ کو پوجتے تو تھے لیکن آگ کی تپش اور چمک میں اُنہیں وہ راز نظر نہیں آتا تھا جسے وہ پانے کیلئے بے تاب رہتے تھے ۔عقل و دانش میں ان کی ٹکر کا کوئی نہیں تھا۔ آتش پرست انہیں بھی اسی طرح پوجتے تھے جس طرح آگ کو۔ جب سلمان فارسیؓ کی عمر بڑھاپے کی دہلیز پھلانگ کر خاصی آگے نکل گئی تو ان کے کانوں میں عرب کی سرزمین کی ایک انوکھی آواز پڑی۔’’ ﷲ ایک ہے۔ محمدﷺ اس کا رسول ہے ۔‘‘یہ آواز سلمان فارسیؓ کے کان میں گھر بیٹھے نہیں پڑی تھی۔ ان کی عمر علم کی تلاش میں سفر کرتے گزر رہی تھی۔ وہ تاجروں کے قافلے کے ساتھ شام میں آئے تھے جہاں قریش کے تاجروں کے قافلے اور کچھ مسلمان تاجر بھی جایا کرتے تھے۔ قریش کے تاجروں نے سلمان فارسیؓ کو طنزیہ اور مزاحیہ انداز میں بتایا کہ ان کے قبیلے کے ایک آدمی کا دماغ چل گیا ہے اور اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ۔
ایک دو مسلمانوں نے عقیدت مندی سے سلمان فارسی کو نبی کریمﷺ کا عقیدہ اور آپﷺ کی تعلیمات سنائیں ۔سلمان فارسیؓ یہ سب سن کر چونک پڑے۔ انہوں نے ان مسلمانوں سے کچھ اور باتیں پوچھیں۔ انہیں جو معلوم تھا وہ انہوں نے بتایا ۔لیکن سلمان فارسیؓ تشنگی محسوس کر رہے تھے۔ وہ اتنا متاثر ضرور ہو گئے تھے کہ انہوں نے نبی کریمﷺ تک پہنچنے کا فیصلہ کر لیا ۔کچھ عرصہ بعد سلمان فارسیؓ رسولِ خدا ﷺ کے مقدس سائے میں جا بیٹھے ۔انہیں وہ راز مل گیا جس کی تلاش میں وہ مارے مارے عمر گزار رہے تھے۔ انہوں نے رسول ﷲﷺ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کر لیا اس وقت تک سلمان فارسیؓ بڑھاپے کے آخری حصہ میں پہنچ چکے تھے۔

اپنے ملک میں سلمان فارسیؓ صرف مذہبی پیشوا ہی نہ تھے وہ جنگی علوم کے ماہر تسلیم کیے جاتے تھے۔ اس دور کے مذہبی پیشوا بھی جنگ و جدل اور سپاہ گری کے ماہر ہوتے تھے۔ علم و ادب کے عالم بھی سپاہی ہوتے تھے لیکن سلمان فارسیؓ کو خدا نے جنگ و جدل کے امور میں غیر معمولی ذہانت دی تھی۔ اپنے ملک میں جب کوئی لڑائی ہوتی تھی یا دشمن حملہ آور ہوتا تھا تو سلمان فارسی ؓکو بادشاہ طلب کر کے صورتِ حال ان کے آگے رکھتا اور مشورے لیتا تھا۔نامور سالار بھی ان کے شاگرد تھے۔ وہ سلمان فارسیؓ اس وقت مدینہ میں رسولِ اکرمﷺ کے صحابہ کرامؓ میں شامل تھے ۔رسولِ اکرمﷺ نے یہ صورتِ حال جو قریش نے آپ ﷺ کیلئے پیدا کر دی تھی، سلمان فارسیؓ کے آگے رکھی ۔’’خندق کھودو ،جو سارے شہر کو گھیرے میں لے لے۔‘‘سلمان فارسیؓ نے کہا ۔رسولِ کریمﷺ اور وہاں بیٹھے ہوئے تمام صحابہ کرامؓ اور سالار ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھنے لگے کہ سلمان فارسی ؓنے یہ کیا کہہ دیا ہے؟عرب خندق سے واقف نہیں تھے۔فارس میں جنگوں میں خندق کا رواج تھا۔ سب کو حیران دیکھ کر سلمان فارسیؓ نے بتایا کہ خندق کیا ہوتی ہے اور اس سے دفاعی کام کس طرح سے لیا جاتا ہے ۔رسولِ کریمﷺ نے جو خود تاریخ کے نامور سالار تھے خندق کی ضرورت اور افادیت کو سمجھ لیا لیکن آپﷺ کے دیگر سالار شش و پنج میں پڑ گئے۔ ان کیلئے اتنے بڑے شہر کے اردگرد اتنی چوڑی اور اتنی بڑی خندق کھودنا ناقابلِ فہم نہیں تھا لیکن انہیں رسولِ ﷲﷺ کا حکم ماننا تھا۔خندق کی لمبائی چوڑائی اور گہرائی کا حساب کر لیا گیا۔ رسولﷲ ﷺ نے خندق کھودنے والوں کی تعداد کا حساب کیا۔آپﷺ نے کھدائی کا کام اس تعداد پر تقسیم کیا تو ایک سو دس آدمیوں کے حصہ میں چالیس ہاتھ کھدائی آئی تو رسولﷲ ﷺ نے دیکھا کہ لوگ خندق کو ابھی تک نہیں سمجھے اور وہ کھدائی سے ہچکچا رہے ہیں تو آپ ﷺنے کدال اٹھائی اور کھدائی شروع کردی۔یہ دیکھتے ہی مسلمان کدالیں اور بیلچے لے کر نعرے لگاتے ہوئے زمین کا سینہ چیرنے لگے۔ ادھر سے اس وقت کے ایک شاعر حسانؓ بن ثابت آ گئے۔ جنہیں رسولِ اکرمﷺ اکثر اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے۔

اس موقع پر جب مسلمان خندق کھود رہے تھے حسانؓ نے ایسے اشعار ترنم سے سنانےشروع کر دیئے کہ خندق کھودنے والوں پر وجد اور جنون کی کیفیت طاری ہو گئی۔ خندق کی لمبائی چند گز نہیں تھی، اسے میلوں دور تک جانا تھا۔ شیخین کی پہاڑی سے لے کر جبل بن عبید تک یہ خندق کھودنی تھی زمین نرم بھی تھی اور سنگلاخ بھی تھی اوریہ نہایت تیزی سے مکمل کرنی تھی، کیونکہ دشمن سر پر آن بیٹھا تھا۔قریش کا لشکر اس عجیب و غریب طریقۂ دفاع سے بے خبر احد کی پہاڑی کے دوسری طرف خیمہ زن تھا۔اس کے پیچھے یہودیوں کا ہاتھ تھا۔

چلتے چلتے خالد کو اپنی آواز سنائی دینے لگی۔اہلِ قریش تو ٹھنڈے پڑ گئے تھے ۔ان پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی تھی۔ گھوڑا اپنی مرضی کی چال چلا جا رہا تھا۔ مدینہ ابھی دور تھا، خالد کو جھینپ سی محسوس ہوئی۔ اس کے قبیلہ قریش نے اسے شرمسار کر دیا تھا۔ اسے یہ بات اچھی نہیں لگی تھی کہ یہودیوں کے اکسانے پر اس کے قبیلے کے سردار اور سالار ابو سفیان نے مدینہ پر حملہ کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن وہ خوش تھا کہ حملہ کا فیصلہ تو ہوا۔اتنا بڑا لشکر جو سر زمینِ عرب پر پہلی بار دیکھا گیاتھا یہودیوں نے ہی جمع کیا تھا لیکن خالد اس پر بھی مطمئن تھا کہ کسی نے بھی یہ کام کیا ہو، لشکر تو جمع ہو گیا تھا۔وہ اس روز بہت خوش تھا کہ اتنے بڑے لشکر کو دیکھ کر ہی مسلمان مدینہ سے بھاگ جائیں گے۔اگر مقابلے پر جم بھی گئے تو گھڑی دو گھڑی میں ان کا صفایا ہو جائے گا۔وہ اس وقت تو بہت ہی خوش تھا جب احد کی پہاڑی کی دوسری طرف یہ سارا لشکر خیمہ زن تھا۔ جس صبح حملہ کرنا تھا اس رات اس پر ایسی ہیجانی کیفیت طاری تھی کہ وہ اچھی طرح سو بھی نہ سکا۔ اسے ہر طرف مسلمانو ں کی لاشیں بکھری ہوئی نظر آ رہی تھیں۔دوسری صبح جب قریش اور دوسرے اتحادی قبائل کا لشکر جس کی تعداد دس ہزار تھی،خیمہ گاہ سے نکل کر مدینہ پر حملہ کیلئے شہرکے قریب پہنچا تواچانک رک گیا۔شہر کے سامنے ایک بڑی گہری خندق کھدی ہوئی تھی۔ابو سفیان جو لشکر کے قلب میں تھا لشکر کو رکا ہوا دیکھ کر گھوڑا سر پٹ دوڑاتا آگے گیا۔’’قریش کے جنگجو کیوں رک گئے ہیں ؟‘‘ابوسفیان چلاتا جا رہا تھا۔’’ طوفان کی طرح بڑھو اور محمدﷺ کے مسلمانوں کو کچل ڈالو،شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دو۔‘‘ابو سفیان کا گھوڑا جب آگے گیا تو اس نے گھوڑے کی لگام کھینچ دی ا ور اس کا گھوڑا اسی طرح رک گیا جس طرح اس کے لشکر کے تمام سوار رکے کھڑے تھے۔اس کے سامنے خندق تھی اس پر خاموشی طاری ہو گئی ۔’’خدا کی قسم! یہ ایک نئی چیز ہے جو میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں ۔‘‘ابو سفیان نے غصیلی آواز میں کہا۔’’عرب کے جنگجو کھلے میدان میں لڑا کرتے ہیں ۔خالد بن ولید کو بلاؤ، عکرمہ اور صفوان کو بھی بلاؤ۔‘‘ابو سفیان خندق کے کنارے کنارے گھوڑا دوڑاتا لے گیا۔ اسے کہیں بھی ایسی جگہ نظر نہیں آ رہی تھی جہاں سے اس کا لشکر خندق عبور کر سکتا۔یہ خندق شیخین کی پہاڑی سے لے کر جبلِ بنی عبید کے اوپر سے پیچھے تک چلی گئی تھی ۔مدینہ کے مشرق میں شیخین اور لاوا کی پہاڑیاں تھیں۔ یہ مدینہ کا قدرتی دفاع تھا۔

ابو سفیان دور تک چلا گیا۔اس نے دیکھاکہ خندق کے پار مسلمان اس انداز سے گھوم پھر رہے ہیں جیسے پہرہ دے رہے ہوں۔ اس نے گھوڑا پیچھے موڑا اور اپنے لشکر کی طرف چل پڑا۔تین گھوڑے اس کی طرف سر پٹ دوڑے آ رہے تھے جو اس کے قریب آ کر رک گئے۔ وہ خالد، عکرمہ اور صفوان کے گھوڑے تھے۔’’کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ مسلمان کتنے بزدل ہیں؟‘‘ابو سفیان نے ان تینوں سے کہا ۔’’کیا تم کبھی اپنے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرکے یا رکاوٹ کھود کر اپنے دشمن سے لڑے ہو؟‘‘خالد پر خاموشی طاری ہو گئی تھی۔آج مدینہ کی طرف جاتے ہوئے سے یاد آ رہا تھاکہ وہ اس خیال سے چپ نہیں ہو گیا تھا کہ ابو سفیان نے مسلمانوں کو بزدل جو کہا تھا وہ ٹھیک کہا تھا۔بلکہ خاموش رہ کر وہ اس سوچ میں کھو گیا تھا کہ یہ خندق بزدلی کی نہیں دانشمندی کی علامت تھی۔جس کسی نے شہر کے دفاع کیلئے یہ طریقہ سوچا تھا وہ کوئی معمولی عقل والا انسان نہیں تھا ۔اس سے پہلے بھی اس نے محسوس کیا تھا کہ مسلمان لڑنے میں اپنے جسم کی طاقت پر ہی بھروسہ نہیں کرتے ۔وہ عقل سے بھی کام لیتے ہیں ۔خالد کا دماغ ایسی ہی جنگی چالیں سوچتا رہتا تھا۔ مسلمانوں نے بدر کے میدان میں نہایت تھوڑی تعداد میں ہوتے ہوئے قریش کو بہت بری شکست دی تھی ۔خالد نے اکیلے بیٹھ کر اس لڑائی کا جائزہ لیا تھا۔ مسلمانوں کی اس فتح میں اسے مسلمانوں کی عسکری دانشمندی نظر آئی تھی۔’’کوئی اور بات بھی تھی خالد!‘‘ اسے خیال آیا ۔’’کوئی اور بات بھی تھی۔‘‘’’کچھ بھی تھا !‘‘خالد نے اپنے آپ کو جواب دیا۔’’ جو کچھ بھی تھا ،میں یہ نہیں مانوں گا کہ یہ محمدﷺ کے جادو کا اثر تھا یا اس کے ہاتھ میں کوئی جادو ہے۔ ہماری عقل جس عمل اور جس مظاہرے کو سمجھ نہیں سکتی اسے ہم جادو کہہ دیتے ہیں۔ اہلِ قریش میں ایسا کوئی دانشمند نہیں جو مسلمانوں جیسے جذبے سے اہلِ قریش کو سرشار کر دے اور ایسی جنگی چالیں سوچے جو مسلمانوں کو ایک ہی بار کچل ڈالے۔‘‘ ’’خدا کی قسم !ہم اس لیے واپس نہیں چلے جائیں گے کہ مسلمانوں نے ہمارے راستے میں خندق کھود رکھی ہے۔‘‘ابو سفیان خالد، عکرمہ اور صفوان سے کہہ رہا تھا۔ پھر اس نے ان سے پوچھا ۔’’کیا خندق عبور کرنے کا کوئی طریقہ تم سوچ سکتے ہو؟‘‘خالد کوئی طریقہ سوچنے لگا،لیکن اسے خیال آیا کہ اگر ان کے لشکر نے خندق عبور کر بھی لی تو مسلمانوں کو شکست دینا آسان نہ ہو گا۔ خواہ وہ کتنی ہی تھوڑی تعداد میں کیوں نہ ہوں ۔جن انسانوں نے تھوڑے سے وقت میں زمین اور چٹانوں کا سینہ چیر ڈالا ہے ان انسانوں کو بڑے سے بڑا لشکر بھی ذرا مشکل سے ہی شکست دے سکے گا۔’’کیا سوچ رہے ہو ولید کے بیٹے !‘‘ابو سفیان نے خالد کو گہری سوچ میں کھوئے ہوئے دیکھ کر کہا ۔’’ہمارے پاس سوچنے کا بھی وقت نہیں ہے۔ مسلمان یہ نہ سمجھیں کہ ہم بوکھلاگئے ہیں ۔‘‘’’ہمیں تمام تر خندق دیکھ لینا چاہیے ۔‘‘عکرمہ نے کہا۔’’کہیں نہ کہیں کوئی ایسی جگہ ہوگی جہاں سے ہم خندق عبور کر سکیں گے۔‘‘ صفوان نے کہا۔ ’’محاصرہ۔‘‘خالد نے خود اعتمادی سے کہا۔’’مسلمان خندق کھود کر اندر بیٹھ گئے ہیں۔ ہم محاصرہ کرکے باہر بیٹھے رہیں گے ۔وہ بھوک سے تنگ آ کر ایک نہ ایک دن خود ہی خندق کے اس طرف آ جائیں گے جدھر ہم ہیں ۔‘‘’’ہاں!‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’مجھے یہی ایک طریقہ نظر آتا ہے جو مسلمانوں کو باہر آ کر لڑنے پر مجبور کر دے گا۔‘‘ابو سفیان اپنے ان تینوں نائب سالاروں کے ساتھ خندق کے ساتھ ساتھ تمام تر خندق کو دیکھنے کیلئے جبلِ بنی عبید کی طرف چل پڑا۔سلع کی پہاڑی مدینہ اور جبلِ بنی عبید کے درمیان واقع تھی۔ مسلمان اس کے سامنے مورچہ بند تھے۔ ابو سفیان نے مسلمانوں کی تعداد دیکھی تو اس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آ گئی۔وہ ذرا آگے بڑھا تو ایک گھوڑا جو بڑا تیز دوڑا آ رہا تھا ا س کے پہلو میں آن رکا۔ سوار کو ابو سفیان بڑی اچھی طرح پہچانتا تھا ۔وہ ایک یہودی تھا جو تاجروں کے بہروپ میں مدینہ کے اندر گیا تھا۔ وہ مدینہ سے شیخین کے سلسلۂ کوہ میں سے ہوتا ہوا قریش کے لشکر میں پہنچا تھا۔’’اندر سے کوئی ایسی خبر لائے ہو جو ہمارے کام آ سکے؟‘‘ابو سفیان نے پوچھا اور کہا۔’’ ہمارے ساتھ ساتھ چلو اور اتنا اونچا بولتے چلو کہ میرے یہ تینوں نائب بھی سن سکیں۔‘‘ ’’مسلمانوں نے شہر کے دفاع اور آبادی کے تحفظ کے جو انتظامات کر رکھے ہیں وہ اس طرح ہیں‘‘یہودی نے کہا۔’’ یہ تو تم کو معلوم ہوگا کہ مدینہ چھوٹے چھوٹے قلعوں اور ایک دوسرے کے ساتھ ملی ہوئی بستیوں کا شہر ہے۔مسلمانوں نے شہر کی عورتوں ،بچوں اور ضعیفوں کو پیچھے کی طرف والے قلعوں میں بھیج دیا ہے۔ خندق پر نظر رکھنے کیلئے مسلمانوں نے گشتی پہرے کا جو انتظا م کیا ہے اس میں دو اڑھائی سو افراد شامل ہیں ۔یہ افراد تلواروں کے علاوہ پھینکنے والی برچھیوں اور تیر کمانوں سے مسلح ہیں۔ انہوں نے علاقے تقسیم کر رکھے ہیں جس میں وہ سارا دن اور پوری رات گشت کرتے ہیں ۔جہاں کہیں سے بھی تم خندق عبور کرنے کی کوشش کرو گے وہاں مسلمانوں کی خاصی زیادہ تعداد پہنچ جائے گی اور اس قدر زیادہ تیر اوربرچھیاں برسائے گی کہ تم لوگ پیچھے کو بھاگ آنے کے سوا کچھ نہیں کر سکو گے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ راتوں کو مسلمانوں کے خویش خندق سے باہر آ کر تم پر شب خون مار کر واپس چلے جائیں ۔‘‘ ’’عبد ﷲ بن ابی کیا کر رہا ہے؟‘‘ ابو سفیان نے پوچھا۔’’اے قریش کے سردار!‘‘ یہودی جاسوس نے کہا۔’’اتنی عمر گزار کر بھی تم انسانوں کو سمجھنے کے قابل نہیں ہو سکے۔ عبدﷲ بن ابی منافق ہے. مسلمان اسے جماعتِ منافقین کا سردار کہتے ہیں اور ہم اسے یہودیت کا غدا ر سمجھتے ہیں. اس نے مسلمان ہو کر ہم سےغداری کی تھی۔ مسلمانوں میں جاکر اس نے تمہارے حق میں انہیں دھوکے دیئے ۔اگر احد کی جنگ میں تم جیت جاتے تو وہ تمہارے ساتھ ہوتا مگر مسلمانوں کا پلہ بھاری دیکھ کر اس نے تم سے بھی اور یہودیوں سے بھی نظریں پھیر لی ہیں۔تمہیں اس آدمی پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے جو کسی مذہب کا پیروکار اور وفادار نہ ہو ۔‘‘’’اور حیُّ بن اخطب کہاں ہے؟‘‘ابو سفیان نے پوچھا۔

اسے محاصرے کامنظر یاد آنے لگا۔ لشکر کا جو حصہ اس کی زیرِ کمان تھا اسے اس نے بڑے اچھے طریقے سے محاصرے کی ترتیب میں کردیا تھا۔یہ محاصرہ بائیس روز تک رہا۔پہلے دس دنوں میں ہی شہر کے اندر مسلمان خوراک کی کمی محسوس کرنے لگے لیکن اس سے قریش کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا کیونکہ وہ اپنے ساتھ خوراک اوررسد بہت کم لائے تھے ۔ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انہیں مسلمان اپنے محاصرے میں لمبے عرصہ کیلئے بٹھا لیں گے۔ خوراک کی جتنی کمی شہر والے محسوس کر رہے تھے اس سے کچھ زیادہ کمی قریش کے لشکر میں اپنا اثر دِکھانے لگی تھی۔ سپاہیوں میں نمایاں طور پر بے چینی نظر آنے لگی تھی۔

جاری ہے ۔۔ 

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

⚔شمشیرِ بے نیام⚔ ِ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ (قسط نمبر 6) اس مؤرخ کے مطابق ،مدینہ میں اس افواہ کو سچ مانا گیا اور مسلمانوں کے چہروں پر...

شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 5




⚔ شمشیرِ بے نیام ِ⚔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

( قسط نمبر -5)



حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اپنے گھر گئے.
اپنی ایک خادمہ سے کہاکہ وہ یوحاوہ یہودن کو بلا لائے۔ یوحاوہ اتنی جلدی اس کے پاس آئی جیسے وہ اس کے بلاوے کے انتظار میں قریب ہی کہیں بیٹھی تھی۔’’تم نے مسلمانوں کو کامیابی سے دھوکا دیا ہے۔‘‘خالد نے یوحاوہ سے کہا۔’’ اورمغیث کے قبیلے کے لوگ تمہیں جادوگرنی کہنے لگے ہیں۔ لیکن یہ طریقہ مجھے پسند نہیں آیا۔‘‘’’میری بات غور سے سنو خالد !’’تم اپنے قبیلے کے نامور جنگجو ہو لیکن تم میں عقل کی کمی ہے۔ دشمن کو مارنا ہے ۔تلوار سے مارو اور اسے تیکھی نظروں سے ہلاک کر دو، تیر اور تلوار چلائے بغیر دشمن کو کوئی مجھ جیسی عورت ہی مار سکتی ہے۔

 آج چار برس بعد وہ جب صحرا میں تنہا جا رہا تھا۔ تو یوحاوہ کی باتیں اُسے یاد آ رہی تھیں۔ اس حد تک تو وہ خوش تھا کہ یہودی ان کے ساتھ تھے لیکن اسے یہ بھی معلوم تھاکہ یہودیوں کی دوستی میں جہاں مسلمانوں کی دشمنی ہے وہاں ان کے اپنے مفادات بھی ہیں ۔البتہ ا س نے یہ تسلیم کر لیا تھا کہ یوحاوہ اگر جادوگرنی نہیں تو اس کے سراپا میں جادو کا کوئی اثر ضرور ہے۔خالد کا گھوڑا مدینہ کی طرف چلا جا رہا تھا ۔ اس کے ذہن میں پھر خبیب ؓبن عدی اور زیدؓ بن الدثنہ آگئے۔ لوگ ان کی بولیاں بڑھ بڑھ کر دے رہے تھے۔ آخر سودا ہو گیا اور قریش کے دو آدمیوں نے انہیں بہت سے سونے کے عوض خرید لیا۔ یہ دونوں آدمی ان دونوں صحابیوںؓ کو ابو سفیان کے پاس لے گئے ۔’’ہم نے اپنے عقیدے سے ہٹ کر محمد )ﷺ(کے پاس چلے جانے والے ان دو آدمیوں کو اس لئے خریدا ہے کہ ان اہلِ قریش کے خون کا انتقام لیں جو احد کے میدان میں مارے گئے تھے۔‘‘ انہیں خریدنے والوں نے کہا ۔’’ہم انہیں آپ کے حوالے کرتے ہیں ۔آپ قریش کے سردار و سالار ہیں۔‘‘’’ہاں!‘‘ ابو سفیان نے کہا ۔’’مکہ کی زمین مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہے ۔ان دو مسلمانوں کا خون اپنی زمین کو پلا دو۔لیکن مجھے یاد آ گیا ہے کہ یہ مہینہ جو گزر رہا ہے ہمارے دیوتاؤں عزیٰ اور ہبل کا مقدس مہینہ ہے ۔یہ مہینہ ختم ہو لینے دو ۔اگلے دن انہیں کھلے میدان میں لے جا کر لکڑی کے کھمبوں کے ساتھ باندھ دینا اور مجھے بلا لینا۔‘‘خالد نے جب ابو سفیان کا یہ حکم سنا تو وہ اس کے پاس گیا۔ ’’مجھے آپ کا یہ فیصلہ اچھا نہیں لگا ۔‘‘خالد نے ابو سفیان سے کہا ۔’’ہم دگنی اور تگنی تعداد میں ہوتے ہوئے اپنی زمین کو مسلمانوں کا خون نہیں پلا سکے تو ہمیں حق حاصل نہیں کہ دو مسلمانوں کو دھوکے سے یہاں لا کر ان کا خون بہایا جائے ۔ابو سفیان کیا آپ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کو دھوکا دینے والی تین چار عورتیں تھیں ؟کیا آپ اپنے دشمن سے یہ کہلوانا چاہتے ہیں کہ اہلِ قریش اب عورتوں کی آڑ میں بیٹھ گئے ہیں؟‘‘
’’خالد!‘‘ ابو سفیان نے با رعب لہجے میں کہا۔’’ خبیب اور زید کو میں بھی اتنا ہی اپنے قریب سمجھا کرتا تھا جتنا تم انہیں اپنے قریب سمجھتے تھے ۔تم اب بھی انہیں اپنے قریب سمجھ رہے ہو ؟اور یہ بھول رہے ہو کہ اب یہ ہمارے دشمن ہیں۔ اگر تم انہیں آزاد کرانا چاہتے ہو تو لاؤ اس سے دگنا سونا لے آؤ اور ان دونوں کو لے جاؤ۔‘‘ ’’نہیں!‘‘ پردے کے پیچھے سے ایک گرجدار نسوانی آواز آئی۔ یہ ابو سفیان کی بیوی ہند کی آواز تھی ۔اس نے غصے سے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔’’ حمزہ کا کلیجہ چبا کر بھی میرے سینہ میں انتقام کی آگ سرد نہیں ہوئی ہے ۔اگر ساری دنیا کا سونا بھی میرے آگے لا رکھو گے تو بھی میں ان دو مسلمانوں کو آزاد نہیں کروں گی۔‘‘
’’ابو سفیان !‘‘خالد نے کہا
اگر میری بیوی میری بات کے درمیان یوں بولتی تو میں اس کی زبان کھینچ لیتا۔‘‘ ’’تم اپنی بیوی کی زبان کھینچ سکتے ہو؟‘‘ہند کی آواز آئی۔’’ تمہارا باپ نہیں مارا گیا تھا۔ تمہارا کوئی بیٹا نہیں مارا گیا اور تمہارا چچا بھی نہیں مارا گیا۔ایک بھائی قید ہوا تھا اور تم مسلمانوں کے پاس جا کر منہ مانگا فدیہ دے کر اپنے بھائی کو چھڑا لائے ۔آگ جو میرے سینہ میں جل رہی ہے تم اس کی تپش سے نا آشنا ہو۔‘‘خالد نے ابو سفیان کی طرف دیکھا ۔ابو سفیان کے چہرے پر جہاں مردانہ جاہ و جلال اور ایک جنگجو سردار کا تاثر تھا۔ وہاں ایک خاوند کی بے بسی کی جھلک بھی تھی۔ ’’ہاں خالد!‘‘ ابو سفیان نے کہا ۔’’جس کے دل پر چوٹ پڑتی ہے اس کے خیالات تم سے بہت مختلف ہوتے ہیں ۔کسی کو اپنا دشمن کہنا کچھ اور بات ہے لیکن اپنے دشمن کو پنے کسی عزیز کا خون بخش دینا بڑی ہی ناممکن بات ہے۔ تم کس کس کو قائل کرو گے کہ وہ ان دو مسلمانوں کی جان بخشی کر دے؟ تم جاؤ خالد۔ ان دو مسلمانوں کو اپنے قبیلے کے رحم و کرم پر چھوڑ دو۔‘‘خالد خاموشی سے واپس چلا گیا۔پھر خالد کو وہ بھیانک منظر یاد آیا جب باہر میدان میں لکڑی کے دو کھمبوں کے ساتھ خبیبؓ اور زیدؓ بندھے کھڑے تھے۔ تماشائیوں کا چیختا چلاتا ہوا ہجوم اکھٹا ہو گیا تھا۔ اُدھر سے ابو سفیان اور ہند گھوڑوں پر سوار ہجوم میں داخل ہوئے ۔ہجوم کے نعرے اور انتقامی نعرے پہلے سے زیادہ بلند ہو گئے۔ اگر اس ہجوم میں کوئی خاموش تھا تو صرف خالد تھا۔ ابو سفیان گھوڑے پر سوار دونوں قیدیوں کے قریب گیا اور دونوں نے اسے کہا کہ’’ وہ زندگی کی آخری نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔‘‘ ابو سفیان نے انہیں اجاز ت دے دی ۔

خالد اب مدینہ کی طرف جا رہا تھا۔ اسے جب وہ منظر یاد آیا کہ دونوں قیدیوں کے ہاتھ کھول دیئے گئے اور وہ قبلہ رو ہو کر نماز پڑھنے لگے ۔خالدپر اس وقت جو اثر ہوا تھا وہ اب چار برس بعد اس کی ذات سے ابھر آیا۔ گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھے بیٹھے خالد کا سر جھک گیا ۔خبیبؓ بن عدی اور زیدؓ بن الدثنہ ہجوم کی چیخ و پکار سے لا تعلق پنی موت سے بے پرواہ خدا کے حضور رکوع و سجود میں محوَ تھے۔ انہوں نے نہایت اطمینان سے نماز پڑھی ۔دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے۔ کوئی نہی بتا سکتا، تاریخ بھی خاموش ہے کہ انہوں نے خدا سے کیا دعا مانگی؟ انہوں نے خدا سے یہ نہیں کہا ہوگا کہ دشمن انہیں آزاد کردے۔وہ اٹھے اورخود ہی لکڑی کے کھمبوں کے ساتھ پیٹھیں لگا کر کھڑے ہو گئے۔ ’’او بد قسمت انسانو! ‘‘ابو سفیان نے بڑی بلند آواز سے خبیبؓ اور زیدؓ سے کہا۔’’ تمہاری قسمت اور زندگی میرے ہاتھ میں ہے۔ا پنی زبانوں سے کہہ دو کہ ہم اسلام کو ترک کرتے ہیں اور اب ہم اہلِ قریش میں سے ہیں اور تین سو ساٹھ بتوں کو برحق مانتے ہیں ۔یہ اعلان کر دو اور اپنی زندگیاں مجھ سے واپس لو۔اگر نہیں تو موت کو گلے لگاؤ۔ یہ بھی سوچ لو کہ تمہاری موت سہل نہیں ہو گی۔‘‘ ’’اے باطل کے پجاری ابو سفیان!‘‘زیدؓ کی آواز گرجی۔ ’’ہم لعنت بھیجتے ہیں پتھر کے ان بتوں پر جو اپنے اوپر بیٹھی ہوئی مکھی کو بھی نہیں اڑا سکتے۔ ہم لعنت بھیجتے ہیں عزیٰ اور ہبل پر جو تمہیں اگلے جہان دوزخ کی آگ میں پھینکیں گے۔ ہم پجاری ہیں اس ایک اﷲ کے جو رحمٰن اور رحیم ہے اور ہم عاشق ہیں محمد )ﷺ(کے جو اﷲکے رسول ہیں۔‘‘ ’’میرا رستہ وہی ہے جو زید نے تمہیں دِکھا دیا ہے۔‘‘ خبیب نے بلند آواز سے کہا۔’’اے اہلِ مکہ !سچا وہی ہے جس کے نام پر ہم قربان ہو رہے ہیں۔ ہمیں نئی زندگی ملے گی جو اس زندگی سے بہت زیادہ حسین اور مقدس ہو گی۔‘ ‘’’باندھ دو انہیں ان کھبوں کے ساتھ ۔‘‘ابو سفیان نے حکم دیا۔ ’’یہ موت کا ذائقہ چکھنے کے مشتاق ہیں ۔‘‘دونوں کے ہاتھ پیچھے کرکے کھمبوں کے ساتھ جکڑ دیئے گئے ۔ابو سفیان نے گھوڑا موڑا اور ہجوم کی طرف آیا۔

’’عزیٰ اور ہبل کی قسم! ‘‘ابو سفیان نے بلند آواز سے ہجوم سے کہا۔’’ میں نے اپنے قبیلے میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں دیکھا جو اپنے سردار پر اس محبت اور ایثار سے جان قربان کرنے کیلئے تیار ہو۔جس طرح محمد)ﷺ( کے پیروکار اس کے نام پر فدا ہوتے ہیں ۔‘‘ہند اپنے گھوڑے پر سوار کچھ دور کھڑی تھی۔ اس کے قریب اس کے چند ایک غلام کھڑے تھے۔ ایک غلام نے اپنے آقاؤ ں کو خوش کرنے کیلئے جوش کا ایسا مظاہرہ کیا کہ برچھی تان کر دونوں قیدیوں کی طرف کسی کے حکم کے بغیر بڑی تیز دوڑا اور کھمبے سے بندھے زیدؓ کے سینے پر برچھی کااتنا زور داروار کیا کہ برچھی کی انی زید کی پیٹھ سے باہر نکل گئی۔ زیدؓ بن الدثنہ فوراً شہید ہو گئے۔اس غلام نے سینہ تان کر ہجوم کی طرف خراجِ تحسین کی توقع پر دیکھا لیکن ہجوم کچھ اور ہی قسم کا شور بلند کرنے گا ۔تماشائی کہتے تھے کہ’’ یہ کوئی تماشا نہیں ہوا ۔یہ مسلمان اتنی سہل موت کے قابل نہیں ۔ہمیں کوئی تماشا دِکھاؤ۔‘‘’’ قتل کر دو اس غلام کو جس نے ایک مسلمان پر اتنا رحم کیا ہے کہ اسے اتنی جلدی مار ڈالا ۔‘‘ہند نے دبی آواز میں کہا ۔کئی آدمی تلواریں اور برچھیاں لہراتے اس غلام کی طرف دوڑے لیکن بہت سے آدمی دوڑ کر ان آدمیون اور غلام کے درمیان آ گئے۔ ’’خبردار! پیچھے کھڑے رہو۔‘‘ ایک آدمی نے جو گھوڑے پر سوار تھا للکار کر کہا ۔’’عربی خون اتنا بزدل نہیں کہ دو آدمیوں کو باندھ کر مارنے کیلئے قریش کاپورا قبیلہ اکھٹا ہو گیا ہے ۔خداکی قسم! ابو سفیان کی جگہ اگر میں ہوتا تو ان دونوں آدمیوں کو آزاد کر دیتا۔ یہ ہمارا خون ہیں اور یہ ہمارے مہمان ہیں ۔ہم ان سے میدان ِجنگ میں لڑیں گے۔یہ خالد تھا ۔‘‘’’یہ ٹھیک کہتا ہے۔‘‘ ہجوم میں سے کئی آوازیں سنائی دیں ۔’’دشمن کو باندھ کر مارنا عرب کی روایت کے خلا ف ہے۔‘‘تماشائیوں کے ہجوم میں سے بے شمار آوازیں ایسی سنائی دے رہی تھیں جو کہتی تھیں کہ ’’ہم تماشا دیکھیں گے۔ ہم دشمن کواس طرح ماریں گے کہ وہ مر مر کے جیئے۔‘‘تھوڑی دیر بعد تماشائیوں کا ہجوم دو حصوں میں بٹ گیا کہ ایک گروہ خبیبؓ کے قتل کے خلاف تھا اسے وہ عرب کی روایتی بہادری کے منافی سمجھتا تھا اور دوسرا گروہ خبیبؓ کو تڑپا تڑپا کہ مارنے کے نعرے لگا رہا تھا۔خالد نے جب اہلِ مکہ کو اور دور دور سے آئے ہوئے تماشائیوں کو اس طرح ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگاتے دیکھا تو وہ دوڑتاہوا ابو سفیان تک گیا۔
’’دیکھ لیا ابو سفیان!‘‘خالد نے کہا ۔’’دیکھ لیں ۔یہاں میرے کتنے حامی ہیں ،ایک کو مار دیا ہے دوسرے کو چھوڑ دیں ورنہ اہلِ قریش آپس میں ٹکرا جائیں گے ۔‘‘ہند نے خالد کو ابو سفیان کے پاس کھڑے دیکھا تو وہ سمجھ گئی کہ خالد بھی خبیبؓ کی رہائی کا حامی ہے۔ ہند نے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور ان دونوں کے پاس جا پہنچی۔’’خالد!‘‘ہند نے سخت بپھری ہوئی آواز میں کہا۔’’ میں جانتی ہوں تم کیا چاہتے ہو؟ کیا تم ابو سفیان کو اپنا سردار نہیں مانتے؟اگر نہیں تو یہاں سے چلے جاؤ۔ میں نے جو سوچاہے وہ ہو کر رہے گا۔ ‘‘’’خالد!‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’ا گر تم سمجھتے ہو کہ میرا حکم اور میرے ارادے صحیح نہیں تو بھی مجھے ان پر عمل کر نے دو۔ اگر میں نے اپنا حکم واپس لے لیا تو یہ میری کمزوری ہو گی۔ پھر لوگ میرے ہر حکم پر یہ توقع رکھیں گے کہ میں اپنا حکم واپس لے لوں۔‘‘خالد کو آج مدینہ کے راستے میں یاد آ رہا تھا اور اسے افسوس ہو رہا تھا کہ اس نے ابو سفیان کا حکم مان لیا تھا ۔خالد کی خوبیوں میں سب سے بڑی خوبی نظم و نسق اور اپنے سردار کی اطاعت تھی۔اس نے اپنے سینے پر پتھر رکھ کر صرف اس لئے ابوسفیان کا حکم مان لیا تھاکہ اہلِ قریش میں حکم عدولی کی روایت قائم نہ ہو۔’’اے اہلِ مکہ!‘‘ ابو سفیان نے دو گروہوں میں بٹے ہوئے تماشائیوں سے بلند آواز میں کہا۔’’ا گر آج یہاں دو مسلمانوں کے قتل پرہم یوں بٹ گئے تو ہم میدانِ جنگ میں بھی کسی نہ کسی مسئلے پر بٹ جائیں گے اور فتح تمہارے دشمن کی ہو گی۔ اگر اپنے سردار کی اطاعت سے یوں انحراف کرو گے تو تمہارا انجام بہت برا ہو گا۔‘‘ ہجوم کا شورور غوغا کم ہو گیا لیکن خالد نے دیکھا کہ اہلِ مکہ کے کئی ایک سردار چہروں پر نفرت کے آثار لیے واپس گھروں کو جا رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر بہت سے لوگ بھی جو تماشا دیکھنے آئے تھے واپس چلے گئے۔ خالد وہاں نہیں رکنا چاہتا تھا لیکن وہ خطرہ محسوس کر رہا تھا کہ دونوں گروہ آپس میں ٹکرا جائیں گے۔ اس کے اپنے قبیلے کے زیادہ تر لوگ تماشائیوں میں موجود تھے وہ کم از کم اپنے قبیلے کو اپنے قابو میں رکھ سکتا تھا ۔ہند نے تماشے کا پورا انتظام کر رکھا تھا۔ اس کے اشارے پر چالیس کم سن لڑکے جن کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں، دوڑتے اور چیختے چلاتے ہوئے تماشائیوں میں سے نکلے اور خبیبؓ کے اردگرد ناچنے اور چیخنے چلانے لگے۔ دو چار لڑکے برچھیاں تانے ہوئے خبیبؓ تک جاتے اوردوڑ کر خبیبؓ پر وار کرتے تھے لیکن خبیبؓک و گزند پہنچائے بغیر ہاتھ روک لیتے ،خبیب ؓبدکتے اور نعرہ لگاتے تھے۔ ’’میرا خدا سچا ہے اورمحمد)ﷺ( خدا کے رسول ہیں۔‘‘ چند اور لڑکے اس طرح برچھیاں تان کران پر ہلہ بولتے جیسے خبیبؓ کے جسم کو چھلنی کر دیں گے لیکن وار کرکے وار روک لیتے۔ خبیب ؓکے بدکنے پر تماشائیوں کا ہجوم دادوتحسین کے نعرے اور قہقہے لگاتا ۔لڑکوں کا یہ کھیل کچھ دیر جاری رہا اس کے بعد لڑکوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ برچھی کا وار بڑی زور سے کرتے لیکن خبیبؓ کے جسم پر اتنا سا وار لگتا کہ برچھیوں کی انّیاں کھال میں ذرا سی اتر کر پیچھے جاتیں۔ بہت دیر تک یہی کھیل چلتا رہا۔ تماشائی دادوتحسین کے نعرے اور خبیبؓ ﷲ اکبر اور محمد رسول ﷲ)ﷺ(کے نعرے بلند کرتے رہے۔خبیبؓ کے کپڑے خون سے لال ہو چکے تھے ۔ابو جہل کا بیٹا عکرمہ ہاتھ میں برچھی لیے ان لڑکوں کے پاس جا پہنچا اور انہیں ہدایات جاری کرنے لگا ۔لڑکے اب اپنی برچھیاں خبیب ؓکے جسم میں چبھو رہے تھے ۔وہ گول دائرے میں گھومتے اور ناچتے تھے۔ خبیبؓ کے جسم کا کوئی بھی حصہ ایسا نہ رہا جہاں برچھی نہ چبھی ہو اور وہاں سے خون نہ ٹپک رہا ہو۔ ان کے چہرے پر بھی برچھیاں ماری گئیں ۔جب بہت دیر گزر گئی اور لڑکے ناچ ناچ کر اور برچھیاں چبھو چبھو کر تھک گئے تو عکرمہ نے لڑکوں کو وہاں سے ہٹا لیا۔ خبیبؓ خون میں نہائے ہوئے تھے اور ابھی زندہ تھے۔ اورہر طرف دیکھ رہے تھے۔ ان کے نعروں میں کمی نہیں آئی تھی۔ عکرمہ ان کے سامنے کھڑا ہو گیا اور برچھی تان کر خبیبؓ کے سینے میں اتنی زور سے ماری کہ فاصلہ کم ہونے کی وجہ سے برچھی خبیب ؓکے جسم سے پار ہو گئی۔ خبیبؓ شہید ہو گئے۔‘‘ ’’ان کی لاشیں یہیں بندھی رہنے دو ۔‘‘ہند کی گرجدار آواز سنائی دی۔ ’’اب کئی دن ان کی لاشوں کے گلنے سڑنے کا تماشا دیکھتے رہو۔‘‘یہ واقعہ جولائی ۶۲۵ء کا تھا۔جو خالد کو یاد آ رہا تھا ۔اس نے اپنے دل میں درد کی ٹیس محسوس کی۔خبیبؓ اور زیدؓ کے قتل نے قریش کے سرداروں میں اختلاف کا بیج بو دیا تھا۔ جس طرح ان دو مسلمانوں نے آخری وقت نماز پڑھی اور اسلام سے نکل آنے پر موت کو ترجیح دی تھی۔ اس نے قریش کے کئی سرداروں پر گہرا اثر چھوڑا تھا ۔خود خالد نے اگر اسلام کی نہیں تو خبیبؓ اور زیدؓ کی دل ہی دل میں بہت تعریف کی تھی۔

ابوسفیان اور اس کی بیوی ہند کے خلاف اس کے دل میں نا پسندیدگی پیدا ہو گئی تھی۔’’ جنگجوؤں کا شیوہ نہیں تھا۔‘‘ اس نے اپنے آپ سے کہا ۔’’یہ جنگجوؤں کو زیب نہیں دیتا ۔‘‘ایک روز وہ ان سرداروں کی محفل میں بیٹھا تھا جو رسولِ خدا ﷺ کے ان دو اصحابؓ کے قتل کے خلاف تھے ۔’’کیا تم سب جانتے ہو کہ مارے جانے والے یہی دو نہیں بلکہ چھ مسلمان تھے۔‘‘خالد نے پوچھا۔’’ہاں!‘‘ ایک نے جواب دیا۔’’ یہ شارجہ بن مغیث کا کام ہے ۔وہ ان چھ مسلمانوں کو دھوکے سے پھندے میں لایا تھا۔‘‘ ’’اوراس کے پیچھے مکہ کے یہودیوں کا دماغ کام کر رہا ہے۔‘‘ خالد نے کہا ۔’’اور اس میں یوحاوہ یہودن نے دوتین اور یہودی لڑکیاں ساتھ لے جا کر اپنے اور ان کے حسن کا جادو چلایا۔یوحاوہ جادوگرنی ہے۔‘‘ایک سردار نے کہا کہ’’ بھائی کو بھائی کے ہاتھوں ذبح کرا سکتی ہے۔ کیا یہ خطرہ نہیں کہ یہودی ہمیں بھی ایک دوسرے کا دشمن بنا دیں گے ۔‘‘کسی اور سردار نے کہا۔’’ نہیں ۔‘‘ایک بوڑھا سردار بولا۔’’ وہ محمد کے اتنے ہی دشمن ہیں جتنے ہم ہیں ۔یہودیوں کامفاد اس میں ہے کہ وہ ہمارے اور مسلمانوں کے درمیان دشمنی اتنی پکی اور اتنی شدید کر دیں کہ ہم مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دیں ۔‘‘’’ہمیں یہودیوں پر شک نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ایک سردار نے کہا۔’’ بلکہ ضرورت یہ ہے کہ ہم یہودیوں کو مسلمانوں کے خلاف زمین کے نیچے استعمال کریں ۔‘‘لیکن ایسے نہیں جیسے شارجہ نے کیا ۔خالد نے کہا ور ایسے بھی نہیں کہ جیسے ابو سفیان اور اس کی بیوی نے کیا ’’کیا تم سب جانتے ہو کہ یوحاوہ مکہ کے چند ایک یہودیوں کے ساتھ مدینہ چلی گئی ہے؟‘‘ بوڑھے سردار نے پوچھا ۔اور خود ہی جواب دیا۔’’ وہ مدینہ اور اردگرد کے یہودیوں اور دوسرے قبائل کو مسلمانوں کے خلاف ابھاریں گے ۔اسلام کے فروغ سے وہ لوگ خود خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔ اگر محمد)ﷺ( کا عقیدہ پھیلتا چلا گیا تو اور میدانِ جنگ میں محمد )ﷺ(کے پیروکاروں کا جذبہ یہی رہا تو جو ہم دیکھ چکے ہیں تو خدائے یہودہ کا سورج غروب ہو جائے گا۔‘‘ ’’لیکن یہودی لڑنے والی قوم نہیں ۔‘‘خالد نے کہا ۔’’وہ میدانِ جنگ میں ہمارا ساتھ نہیں دی سکتی۔‘‘’’مسلمانوں کیلئے وہ میدانِ جنگ میں زیادہ مہلک ثابت ہوں گے۔‘‘ ایک اور سردار نے کہا۔’’ وہ اپنی یوحاوہ جیسی دل کش لڑکیوں کے ذریعے مسلمان سرداروں اور سالاروں کو میدانِ جنگ میں اترنے کے قابل نہیں چھوڑیں گے۔‘‘

یوحاوہ کا کردار خالد بھلا نہیں پا رہا تھا اور چار برس پرانی باتیں اسے سنائی دے رہی تھیں ۔وہ مدینہ کی طرف چلا جا رہا تھا اور احد کی پہاڑی اوپر اٹھتی چلی آرہی تھی ۔پھر یہ پہاڑی اس کی نظروں سے اوجھل ہونے لگی۔اس کا گھوڑا گھاٹی اتر رہا تھا۔ یہ کوئی ایک میل لمبا اور ڈیڑھ دو فرلانگ چوڑا نشیب تھا۔ اس میں کہیں کہیں مخروطی ٹیلے کھڑے تھے۔ یہ ریتیلی مٹی کے تھے ۔خالد کو دوڑتے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ اس نے چونک کر اُدھر دیکھا اور اس کا ہاتھ تلوار کے دستے پر چلا گیا ۔وہ چار پانچ غزال تھے جو اس سے نیچے دوڑتے جا رہے تھے ۔کچھ دور جا کر ایک غزال نے دوسرے غزال کے پہلو میں ٹکر ماری پھر دونوں غزال آمنے سامنے آ گئے اور ان کے سر ٹکرانے لگے ۔دوسرے غزال انہیں دیکھنے رک گئے۔’’اتنے خوبصورت جانور آپس میں لڑتے اچھے نہیں لگتے۔‘‘ خالدانہیں دیکھتا رہا ۔ایک تماشائی غزال نے خالد کے گھوڑے کو دیکھ لیا۔ا س نے گردن تانی اور کھر زمین پر مارا۔ لڑنے والے غزال جہاں تھے وہیں ساکت و جامد ہو گئے اور پھر تمام غزال ایک طرف بھاگ کھڑے ہوئے اور خالدکی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔قریش کے سردار دو گروہوں میں بٹ گئے تھے۔ ان کی آپس میں دشمنی پیدا نہیں ہوئی تھی لیکن پیار محبت اتحاد والی پہلی سی بات بھی نہیں رہی تھی۔خالد کو یاد آ رہا تھا کہ سب ابو سفیان کی سرداری اور سالاری کو تسلیم کرتے تھے۔ لیکن کھچاؤ سا پیدا ہو گیا تھا۔ جب اتحاد کی ضرورت تھی اس وقت اہلِ قریش نفاق کے راستے پر چل نکلے تھے۔ خالد کو یہ صورت حال سخت ناگوار گزرتی تھی۔’’کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپس کا نفاق دشمن کو تقویت دیا کرتا ہے؟‘‘خالد نے ایک روز ابو سفیان سے کہا تھا ۔’’کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اس نفاق کو اتفاق میں کس طرح بدلہ جا سکتا ہے ؟‘‘’’بہت سوچا ہے خالد!‘‘ابو سفیان نے اکتائے ہوئے سے لہجے میں کہا تھا۔’’ بہت سوچا ہے۔ سب مجھے پہلے کی طرح ملتے ہیں لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ بعض کے دل صاف نہیں ۔کیا تم کوئی صورت پیدا کر سکتے ہو کہ دلوں سے مَیل نکالا جائے؟‘‘ ’’ہاں! میں نے ایک صورت سوچ رکھی ہے ‘‘۔خالد نے کہا تھا۔ ’’میں یہی تجویز آپ کے سامنے لا رہا تھا ،جن سرداروں کے دلوں میں میل پیدا ہوگئی ہے وہ اب سمجھنے لگے ہیں کہ ہم نام کے جنگجو رہ گئے ہیں اور ہم نے مسلمانوں کا ڈر اپنے دلوں میں بٹھا لیا ہے ۔شارجہ نے چھ مسلمانوں کو دھوکہ دے کر اور ان میں سے دو کو آپ کے ہاتھوں مروا کر ہماری شکل و صورت ہی بدل ڈالی ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ ہم مدینہ پر حملہ کریں یا مسلمانوں کو کہیں للکاریں اور ثابت کر دیں کہ ہم جنگجو ہیں اور ہم مسلمانوں کو ختم کر کے ہی دم لیں گے۔
’’ہمارے پاس جواز موجود ہے۔‘‘ابو سفیان نے کہا تھا۔’’ میں نے اُحد کی لڑائی میں آخر میں محمد )ﷺ(کو للکار کر کہا تھا کہ تم نے بدر میں ہمیں شکست دی تھی۔ ہم نے احد کی پہاڑی کے دامن میں انتقام لے لیا ہے ۔میں نے محمد سے یہ بھی کہا تھا کہ قریش کے سینوں میں انتقام کی آگ جلتی رہے گی ۔ہم اگلے سال تمہیں بدر کے مقام پر للکاریں گے۔‘‘’’ہاں! مجھے یاد ہے ۔‘‘خالد نے کہا۔’’ ادھر سے عمر کی آواز آئی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ ہمارے اﷲ نے چاہا تو ہماری اگلی ملاقات بدر کے میدان میں ہی ہو گی۔‘‘’’آواز تو عمر کی تھی،الفاظ محمد )ﷺ(کے تھے۔‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’محمد)ﷺ( بہت زخمی تھا۔ وہ اونچی آواز میں بول نہیں سکتا تھا۔ میں محمد)ﷺ( کو پیغام بھیجتا ہوں کہ فلاں دن بدر کے میدان میں آجاؤ اور اپنے انجام کو پہنچو۔‘‘
دونوں نے ایک دن مقرر کر لیا اور فیصلہ کیا کہ کسی یہودی کو مدینہ بھیجا جائے۔دوسرے ہی دن ابو سفیان نے قریش کے تمام سرداروں کو اپنے ہاں بلایا اور بڑے جوش و خروش کے ساتھ اعلان کیا کہ وہ مسلمانوں کو بدر کے میدان میں للکار رہا ہے۔ قریش یہی خبر سننے کے منتظر تھے۔ انہیں اپنے عزیزوں کے خون کا انتقام لینا تھا۔ان کے دلوں میں رسول ﷲﷺ کی نفرت بارود کی طرح بھری ہوئی تھی۔جوا یک چنگاری کی منتظر تھی۔وہ کہتے تھے کہ محمد )ﷺ(نے باپ بیٹے کو اور بھائی بھائی کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے۔ابو سفیان کے اس اعلان نے سب کے دل صاف کر دیئے اور وہ جنگی تیاریوں کی باتیں کرنے لگے۔ایک دانشمند یہودی کو پیغام دیا گیا کہ وہ مدینہ جا کر نبی کریمﷺ کو دے کر جواب لے آئے۔ خالد کو یاد آ رہا تھا کہ وہ اس روز کس قدر مطمئن اور مسرور تھا۔ قریش کے سرداروں کے دلوں میں جو تکدر پیدا ہو گیا تھا وہ صاف ہو گیا تھا ۔خالد بڑ ہانکنے والا آدمی نہیں تھا لیکن اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ رسولِ خداﷺ کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرے گا۔یہودی ایلچی جواب لے کر آ گیا۔رسول اﷲﷺ نے ابو سفیان کی للکار کو قبول کر لیا تھا۔لڑائی کا جو دن مقرر ہوا وہ مارچ ۶۲۶ء کا ایک دن تھا لیکن ہوا یوں کہ سردیوں کے موسم میں جتنی بارش ہوا کرتی تھی اس سے بہت کم ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ موسم تقریباً خشک گزر گیا اور مارچ کے مہینے میں گرمی اتنی زیادہ ہو گئی جتنی اس کے دو تین ماہ بعد ہوا کرتی تھی ۔ابو سفیان نے اس موسم کو لڑائی کیلئے موزوں نہ سمجھا۔اس یاد نے خالد کو شرمسار سا کر دیا۔وجہ یہ ہوئی تھی کہ ابو سفیان موسم کی گرمی کا بہانہ بنا رہا تھا۔ مشہور مؤرخ ابنِ سعد لکھتا ہے کہ ابو سفیان نے قریش کے سرداروں کو بلا کر کہا کہ وہ کوچ سے پہلے مسلمانوں کو خوفزدہ کرنا چاہتا ہے۔ اس نے یہودیوں کی خدمات حاصل کیں اور انہیں خاصی اجرت دے کر تاجروں کے بھیس میں مدینہ بھیج دیا۔انہیں ابو سفیان نے یہ کام سونپا تھا کہ وہ مدینہ میں یہ افواہ پھیلائیں کہ قریش اتنی زیادہ تعداد میں بدر کے میدان میں آ رہے ہیں جو مسلمانوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی.


جاری_ہے۔۔۔۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

⚔ شمشیرِ بے نیام ِ⚔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ( قسط نمبر -5) حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اپنے گھر گئے. اپنی ایک خادمہ سے کہاکہ وہ یو...