شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 6





⚔شمشیرِ بے نیام⚔ ِ

سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

(قسط نمبر 6)


اس مؤرخ کے مطابق ،مدینہ میں اس افواہ کو سچ مانا گیا اور مسلمانوں کے چہروں پر اس کے اثرات بھی دیکھے گئے۔جب رسولِ کریمﷺ تک یہ افواہ پہنچی اور یہ اطلاع بھی کہ بعض مسلمانوں پر خوف و ہراس کے اثرات دیکھے گئے ہیں تو رسولِ کریمﷺ نے باہر آ کر لوگوں کو جمع کیا اور اعلان کیا: ’’کیا ﷲ کے نام لیوا صرف یہ سن کر ڈر گئے ہیں کہ قریش کی تعداد زیادہ ہو گی؟کیا ﷲسے ڈرنے والے آج بتوں کے پجاریوں سے ڈرگئے ہیں ؟اگر تم قریش سے اس قدر ڈر گئے ہو کہ ان کی للکار پر تم منہ موڑ گئے ہو تو مجھے قسم ہے خدائے ذوالجلال کی !جس نے مجھے رسالت کی ذمہ داری سونپی ہے۔ میں بدر کے میدان میں اکیلا جاؤں گا۔‘‘رسولﷲ ﷺ کچھ اور بھی کہنا چاہتے تھے لیکن رسالتِ مآبﷺ کے شیدائیوں نے نعروں سے آسمان کو ہلا ڈالا۔ یہ سراغ نہ مل سکا کہ افواہ کس نے اڑائی تھی لیکن رسول ﷲ ﷺ کی پکار پر قریش کی پھیلائی ہوئی افواہ کے اثرات زائل ہو گئے اور مسلمان جنگی تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔ دن تھوڑے سے رہ گئے تھے۔ کوچ کے وقت مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار تھی۔ ان میں صرف پچاس گھوڑ سوار تھے۔جن یہودیوں کو افواہ پھیلانے کیلئے مدینہ بھیجا گیا تھا انہوں نے واپس آ کر بتایا کہ’’ افواہ نے پہلے پورا کام کیا تھا لیکن ایک روز محمدﷺ نے مسلمانوں کو اکھٹا کرکے چند ہی الفاظ کہے تو مسلمان بدر کو کوچ کیلئے تیار ہو گئے۔ان کی تعداد مدینہ میں ہماری موجودگی تک ڈیڑھ ہزار تک پہنچ گئی تھی ۔ہمارا خیال ہے کہ تعداد اس سے کم یا زیادہ نہیں ہو گی۔‘‘ 

آج مدینہ کو جاتے ہوئے اس واقعہ کی یاد نے خالد کو اس لیے شرمسار کر دیا تھا کہ وہ اس وقت محسوس کرنے لگا تھا کہ ابو سفیان کسی نہ کسی وجہ سے مسلمانوں کے سامنے جانے سے ہچکچا رہا ہے۔ خالد کو جب مسلمانوں کی تعداد کا پتا چلا تو وہ بھڑکا بپھرا ہوا ابو سفیان کے پاس گیا ۔’’ابو سفیان !‘‘خالد نے اسے کہا۔’’ سردار کی اطاعت ہمارا فرض ہے ۔میں اہلِ قریش میں سردار کی حکم عدولی کی روایت قائم نہیں کر نا چاہتا لیکن مجھے قریش کی عظمت کا بھی خیال ہے۔آپ اپنے رویے کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ قبیلہ قریش کی عظمت کا احساس مجھ میں اتنا زیادہ ہو جائے کہ میں آپ کے حکم اور رویہ کی طرف توجہ ہی نہ دوں۔ ‘‘ ’’کیا تم نے سنا نہیں تھا کہ میں نے یہودیوں کو مدینہ کیوں بھیجا تھا۔‘‘ ابو سفیان نے پوچھا۔’’ میں مسلمانوں کو ڈرانا چاہتا تھا۔‘

’ابو سفیان!‘‘ خالد نے اس کی بات پوری ہونے سے پہلے کہا۔’’ لڑنے والے ڈرا نہیں کرتے۔ کیا آپ نے مسلمانوں کو قلیل تعداد میں لڑتے ہوئے نہیں دیکھا؟ کیا آپ نے خبیب اور زید کو اہلِ قریش کی برچھیوں کے سامنے کھڑے ہو کر نعرے لگاتے نہیں سنا تھا؟ میں آپ سے صرف یہ کہنے آیا ہوں کہ اپنی سرداری کا احترام کریں اور بدر کوچ کی تیاری کریں۔‘‘ دوسرے ہی دن مکہ میں یہ خبر پہنچی کہ مسلمان مدینہ سے بدر کی طرف کوچ کر گئے ہیں ۔اب ابو سفیان کے کیلئے اس کے سوا اورکوئی راستہ نہیں رہ گیا تھا کہ وہ کوچ کاحکم دے ۔قریش کی جو تعداد بدر کو کوچ کیلئے تیار ہوئی وہ دو ہزار تھی اور ایک سو گھڑ سوار اس کے علاوہ تھے۔قیادت ابو سفیان کی تھی اور اس کے ماتحت خالد ،عکرمہ اور صفوان نائب سالار تھے۔ حسبِ معمول ابو سفیان کی بیوی ہند اور اس کی چند ایک کنیزیں اور گانے بجانے والی عورتیں بھی ساتھ تھیں۔مسلمان رسولِ اکرمﷺ کی قیادت میں ۴ اپریل ۶۲۶ء بمطابق یکم ذ ی القعد ۴ ہجری کے روز بدر کے میدان میں پہنچ گئے۔ قریش ابھی عسفان کے مقام تک پہنچے تھے ۔انہوں نے وہیں رات بھر کیلئے پڑاؤ کیا.
 علی الصبح ان کی روانگی تھی لیکن صبح طلوع ہوتے ہی ابو سفیان نے اپنے لشکر کو کوچ کا حکم دینے کے بجائے اکھٹا کیا اور لشکر سے یوں مخاطب ہوا :’’قریش کے بہادرو! مسلمان تمہارے نام سے ڈرتے ہیں۔ اب ان کے ساتھ ہماری جنگ فیصلہ کن ہو گی۔ ان مٹھی بھر مسلمانوں کا ہم نام و نشان مٹا دیں گے۔ نہ محمد اس دنیا میں رہے گا نہ کوئی اس کا نام لینے والا۔ لیکن ہم ایسے حالات میں لڑنے جا رہے ہیں جو ہمارے خلاف جا سکتے ہیں اور ہماری شکست کا باعث بن سکتے ہیں ۔تم دیکھ رہے ہو کہ ہم اپنے ساتھ پورا اناج نہیں لا سکے ۔ مزید اناج ملنے کی امید بھی نہیں کیونکہ خشک سالی نے قحط کی صورت پیدا کردی ہے پھر اس گرمی کو دیکھو۔ میں نہیں چاہتا کہ میں اپنے بہادروں کو بھوکا اور پیاسا مروا دوں۔میں فیصلہ کن جنگ کیلئے موزوں حالات کا انتظار کروں گا۔ہم آگے نہیں جائیں گے۔ مکہ کو کوچ کرو۔خالد کو یاد آ رہا تھا کہ قریش کے لشکر نے دو طرح کے نعرے بلند کیے۔ ایک ان کے نعرے تھے جو انہی حالات میں مسلمانوں کے خلاف لڑنے کا عزم کیے ہوئے تھے۔ دوسرے نعرے ابو سفیان کے فیصلے کی تائید میں تھے لیکن حکم سب کو ماننا تھا۔ خالد، عکرمہ اورصفوان نے ابو سفیان کا یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا۔
لیکن ابو سفیان پر ان کے احتجاج کا کچھ اثر نہ ہوا۔ ان تینوں نائب سالاروں نے یہ جائزہ بھی لیا کہ کتنے آدمی ان  کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ جائزہ ان کے خلاف ثابت ہوا ۔لشکر کی اکثریت ابو سفیان کے حکم پر مکہ کی طرف کوچ کر گئی۔ خالد اور اس کے دوسرے ساتھیوں کو مجبوراً لشکر کے پیچھے پیچھے آنا پڑا۔
 خالد کو وہ لمحہ یاد آ رہا تھا جب وہ اہلِ قریش کے لشکر کے پیچھے پیچھے عکرمہ اور صفوان کے ساتھ مکہ کو چلا جا رہا تھا۔اس کا سر جھکا ہوا تھا ۔ یہ تینوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ بھی نہیں رہے تھے جیسے ایک دوسرے سے شرمسار ہوں. خالد کو بار بار یہ خیال آتا تھا کہ لڑائی میں اس کی ایک ٹانگ کٹ جاتی۔ بازو کٹ جاتے ۔اس کی دونوں آنکھیں ضائع ہوجاتیں تو اسے یہ دکھ نہ ہوتا جو بغیر لڑے واپس جانے سے ہو رہا تھا۔اس وقت وہ اس طرح محسوس کر رہا تھا جیسے اس کی ذات مٹ چکی ہو اور گھوڑے پر اس کی لاش مکہ کو واپس جا رہی ہو۔نبی کریمﷺ کا قتل اس کا عزم اور عہد تھا جو وہ پورا کیے بغیر واپس آ رہا تھا۔ یہ عزم بچھو بن کر اسے ڈس رہا تھا۔ اسے بہت کچھ یاد آ رہا تھا۔ یادوں کا ایک ریلا تھا جو ختم نہیں ہو رہا تھا۔ اسے یہودیوں کے تینوں قبیلے بنو نضیر، بنو قریظہ اور بنو قینقاع یادآئے ۔انہوں نے جب دیکھا کہ قریش مسلمانوں کے خلاف لڑنے سے منہ موڑ گئے ہیں تو وہ سرگرم ہو گئے۔ یہودیوں نے مسلمانوں کے خلاف زمین دوز کارروائیاں شروع کیں ۔مکہ گئے اور قریش کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا۔ مگر قریش کا سردار ابو سفیان ٹس سے مس نہ ہوا۔ خالد کو معلوم نہ ہو سکا کہ ابو سفیان کے دل میں کیا ہے اور وہ مسلمانوں سے لڑنے سے کیوں گھبرا تا ہے۔

اسی سال کے موسمِ سرما کے اوائل میں خیبر کے چند ایک سرکردہ یہودی مکہ گئے۔ ان کا سردار حیّی بن اخطب تھا ۔یہ شخص یہودیوں کے قبیلے بنو نضیر کا سردار بھی تھا ۔یہودیوں کے پاس زر و جواہرات کے خزانے تھے۔ وہ چند ایک یہودی ابو سفیان اور قریش کے دیگر سرداروں کیلئے بیش قیمت تحفے لے کر گئے ۔ان کے ساتھ حسین و جمیل لڑکیوں کا طائفہ بھی تھا۔ مکہ میں یہ یہودی ابو سفیان سے ملے۔ اسے تحفے پیش کیے اور رات کو اپنے طائفہ کا رقص بھی دکھایا ۔اس کے بعد حیّی بن اخطب نے ابو سفیان سے خالد ،عکرمہ اور صفوان کی موجوگی میں کہا کہ’’ انہوں نے مسلمانوں کو ختم نہ کیا اور ان کے بڑھتے ہوئے قدم نہ روکے تو وہ یمامہ تک پہنچ جائیں گے ۔اگر وہ اس میں کامیاب ہو گئے تو قریش کیلئے وہ تجارتی راستہ ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے گا۔جو بحرین اور عراق کی طرف جاتا ہے ۔‘‘قریش کیلئے یہ راستہ شہ رگ کی حیثیت رکھتا تھا ۔’’اگر آپ ہمارا ساتھ دیں۔‘‘ حیّی بن اخطب نے کہا۔’’ تو ہم مسلمانوں کے خلاف خفیہ کارروائیاں شروع کر دیں گے۔‘‘ ’’ہم مسلمانوں سے دگنے تھے تو بھی انہیں شکست نہ دے سکے۔‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’ ان سے تین گنا تعداد میں ان سے لڑے تو بھی انہیں شکست نہ دے سکے اگر چند اور قبیلے ہمارے ساتھ مل جائیں تو ہم مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کر سکتے ہیں۔‘‘

’’ہم نے یہ انتظام پہلے ہی کر دیا ہے ۔‘‘حیّی بن اخطب نے کہا ۔’’قبیلہ غطفان اور بنو اسد آپ کے ساتھ ہوں گے۔ چند اور قبیلے ہماری کوششوں سے آپ کے ساتھ آ جائیں گے۔‘‘ خالد کو کیا کچھ یاد نہ آ رہا تھا تین چار سال پہلے کے واقعات ،اسے ایک روز پہلے کی طرح یاد تھے۔ اسے ابو سفیان کا گھبرایا گھبرایا چہرہ اچھی طرح یاد تھا۔ خالد جانتا تھا کہ یہودی اہلِ قریش کو مسلمانوں کے خلاف صرف اس لیے بھڑکا رہے ہیں کہ یہودیوں کا اپنا مذہب اسلام کے مقابلے میں خطرے میں آ گیا تھا ۔لیکن انہوں نے ابو سفیان کو ایسی تصویر دکھائی تھی جس میں اسے مسلمانوں کے ہاتھوں تباہی نظر آ رہی تھی۔دوسری طرف خالد، عکرمہ اور صفوان بن امیہ نے ابو سفیان کو سر اٹھا نے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔’’ ہم آپ کو اپنا سردار تسلیم کرتے ہیں ۔لیکن آپ یہ تسلیم کریں کہ آپ بزدل ہیں۔‘‘ ’اگر مسلمان موسم کی خرابی اور قحط میں لڑنے کیلئے آ گئے تھے تو ہم بھی لڑ سکتے تھے۔‘‘ ’’آ پ نے جھوٹ بو ل کر ہمیں دھوکا دیا ہے۔‘‘ ’’ابو سفیان بزدل ہے۔ ابو سفیان نے پورے قبیلے کو بزدل بنا دیا ہے۔ اب محمد ﷺ کے چیلے ہمارے سر پر کودیں گے۔‘‘ اور ایسی بہت سی طنز اور غصے میں بھری ہوئی آوازیں مکہ کے گلی کوچوں میں گشت کرتی رہتی تھیں ۔ان آوازوں کے پیچھے یہودیوں کا دماغ بھی کام کر رہا تھا لیکن اہلِ قریش کی غیرت اور ان کا جذبہ انتقام انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔ ابو سفیان اس حال تک پہنچ گیا کہ اس نے باہر نکلنا ہی چھوڑ دیا ۔خالد کو وہ دن یاد آیا جب اسے ابوسفیان نے اپنے گھر بلایا تھا۔ خالدکے دل میں ابو سفیان کا وہ احترام نہیں رہ گیا تھا جو کبھی ہوا کرتا تھا ۔وہ بادل نخواستہ صرف اس لیے چلا گیا کہ ابی سفیان اس کے قبیلے کا سردار ہے۔ وہ ابو سفیان کے گھر گیا تو وہاں عکرمہ اور صفوان بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ’’خالد!‘‘ ابوسفیان نے کہا ۔’’میں نے مدینہ پر حملہ کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘ خالد کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس نے غلط سنا ہو۔ اس نے عکرمہ اور صفوان کی طرف دیکھا ۔ان دونوں کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ آ گئی۔ ’’ہاں خالد!‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’جس قدر جلدی ہو سکے لوگوں کو مدینہ پر حملہ کیلئے تیار کر لو۔‘‘

یہودیوں نے جن قبائل کو قریش کا ساتھ دینے کیلئے تیار کیا تھا ۔ان سب کی طرف پیغام بھیج دیئے گئے ۔یہ فروری627 ء کے آغاز کے دن تھے ۔مختلف قبائل کے لڑاکا دستے مکہ میں جمع ہونے لگے۔ ان قبائل میں سب سے زیادہ فوج غطفان کی تھی ۔اس کی تعداد تین ہزار تھی۔ مُنےّہ اس کا سالار تھا ۔سات سو آدمی بنو سلیم نے بھیجے۔ بنو اسد نے بھی خاصی فوج بھیجی جس کا سالار طلیحہ بن خویلد تھا۔)اس کی تعداد تاریخ میں نہیں ملتی (قریش کی اپنے فوج کی تعداد چار ہزار پیادہ اور تین سو گھڑ سوار اور ڈیڑھ ہزار شتر سوار تھے۔اس پورے لشکر کی تعداد جو مدینہ پر فوج کشی کیلئے جا رہی تھی کل دس ہزار تھی۔اس کی کمان ابو سفیان کے ہاتھ میں تھی۔ابو سفیان نے اس متحدہ فوج کو جمیعت القبائل کہا تھا۔ ان میں سے کچھ قبائل مکہ میں نہیں آئے تھے۔ انہوں نے اطلاع دی تھی کہ جب لشکر مکہ سے روانہ ہو گا تو وہ اپنی اپنی بستی سے کوچ کر جائیں گے اور راستہ میں لشکر سے مل جائیں گے۔ خالد کو آج وہ وقت یاد آ رہا تھا جب اس نے مکہ سے کوچ کیا تھا ۔لشکر کا تیسرا حصہ ان کی کمان میں تھا۔ اس نے ایک ٹھیکری پر گھوڑا چڑھا کر وہاں سے اس تمام لشکر کو دیکھا تھا۔ اسے لشکر کے دونوں سرے نظر نہیں آ رہے تھے۔ دف اور نفریاں اور شہنائیاں اور لشکر کی مترنم آواز جو ایک ہی آواز لگتی تھی۔ خالد کے خون کو گرما رہی تھی۔ اس نے گردن تان کر اپنے آپ سے کہا تھا کہ ’’مسلمان پس کے رہ جائیں گے ۔اسلام کے ذرے عرب کی ریت میں مل کر ہمیشہ کیلئے فنا ہو جائیں گے ۔یہ اس کا عزم تھا ۔یہ لشکر 24فروری627ء بمطابق یکم شوال ہجری مدینہ کے قریب پہنچ گیا ۔قریش نے اپنا پڑاؤ اس جگہ ڈالا جہاں احد کی لڑائی کیلئے خیمہ زن ہوئے تھے۔ وہاں دوند یاں آکر ملتی تھیں۔ دوسرے تمام قبائل احد کی پہاڑی کے مشرق کی طرف خیمہ زن ہوئے۔قریش نے یہ معلوم کر نے کیلئے کہ مدینہ کے لوگوں کو قریش کی لشکر کی آمد کی اطلاع ملی ہے یا نہیں ۔دو جاسوس تاجروں کے بھیس میں مدینہ بھیجے ۔ابو سفیان اور ا سکے تمام نائب سالاروں کی خواہش اور کوشش یہ تھی کہ مدینہ والوں پر بے خبری میں حملہ کیا جائے لیکن دوسرے ہی دن قریش کاایک جاسوس جو یہودی تھا مدینہ سے آیا۔ا س نے ابو سفیان کو بتایا کہ مسلمانوں کو حملہ آور لشکر کی آمد کی اطلاع مل چکی ہے۔
مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔ اس یہودی جاسوس نے بتایا ۔’’سارے شہر پر خوف طاری ہو گیا تھا لیکن محمد)ﷺ( اور اس کے قریبی حلقے کے آدمیوں کی للکار پر مسلمانوں کے دل مضبوط ہو گئے ۔گلی کوچوں میں ایسے اعلان ہونے لگے جن سے تمام شہر کا جذبہ اور حوصلہ عود کر آیا اور مسلمان لڑائی کیلئے ایک جگہ اکھٹے ہونے لگے۔میرے خیال میں ان کی تعداد تین ہزار سے زیادہ نہیں ہو گی۔‘‘ مؤرخ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ انہیں اطلاع مل چکی تھی کہ مدینہ پر حملہ کیلئے جو لشکر آیا ہے اس کی تعداد دس ہزار ہے جس میں سینکڑوں گھڑ سوار اور شتر سوار بھی ہیں ۔اس وقت تک عرب کی سرزمین میں کسی لڑائی میں اتنا بڑا لشکر نہیں دیکھا تھا۔ تعداد کو دیکھا جاتا اور فن ِ حرب و ضرب کے پیمانے سے دونوں اطراف کو ناپا تولا جاتا تو مسلمانوں کو لڑے بغیر ہتھیار ڈال دینے چاہیے تھے یا وہ رات کی تاریکی میں مدینہ سے نکل جاتے اور کسی اور بستی میں اپنا ٹھکانا بناتے ۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تین ہزار مسلمان دس ہزار کے لشکر کامقابلہ ذرا سی دیر کیلئے بھی کر سکیں گے۔ دس ہزار لشکر نہایت آسانی سے مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتا تھا لیکن یہ حق اور باطل کی ٹکر تھی ۔یہ ﷲ کے آگے سجدے کر نے والوں اور بت پرستوں کا تصادم تھا۔ خدا کو حق کا ساتھ دینا تھا۔ خدا کو اپنے اس عظیم پیغام کی لاج رکھنی تھی جو اس کی ذاتِ باری نے غارِ حرا میں عرب کے سپوت کو دیا تھا اور اسے رسالت عطا کی تھی۔ــ’’خدا ان کا ساتھ دیتا ہے جن کے دلوں میں حق اور صدق ہوتا ہے۔‘‘ یہ نبی کریمﷺ کی للکار تھی جو مدینہ کے گلی کوچوں میں سنائی دے رہی تھی ۔’’لیکن اے ﷲ کی عبادت کرنے والوں! خدا تمہارا ساتھ اسی صورت میں دے گا جب تم دلوں سے خوف و ہراس نکال کر ایک دوسرے کا ساتھ دو گے اور اپنی جانیں ﷲ کی راہ میں قربان کر دینے کا عزم کرو گے۔جو ہمارے ﷲ کو نہیں مانتا اور جو ہمارے دین کو نہیں مانتا وہ ہمارا دشمن ہے اور اس کا قتل ہم پر فرض ہے۔ یاد رکھو قتل کرنے کیلئے قتل ہونا بھی پڑتا ہے۔ ایمان سے بڑھ کر اور کوئی طاقت نہیں جو تمہیں دشمن سے بچا سکے گی۔ تمہیں دفاع مدینہ کا نہیں اپنے عقیدے کا کرنا ہے۔ اگر اس عزم سے آگے بڑھو گے تو دس ہزار پر غالب آ جاؤ گے ۔خدا سوئے ہوئے یا خوف زدہ انسان کو معجزے نہیں دکھایا کرتا ۔اپنے عقیدے اور اپنی بستی کے دفاع کا معجزہ تمہیں خود دکھانا ہے ۔‘‘
نبی کریمﷺ نے مدینہ والوں کا حوصلہ اس قدر مضبوط کر دیا تھا کہ وہ اس سے بڑے لشکر کے مقابلے کیلئے بھی تیار ہو گئے۔ لیکن رسولِ ﷲﷺ اس سوچ میں ڈوب گئے تھے کہ اتنے بڑے لشکر سے مدینہ کو بچانا کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟ آپ ﷺ کو یہ تو پورا یقین تھا کہ ﷲ حق پرستوں کے ساتھ ہے لیکن حق پرستوں کو خود بھی کچھ کر کے دکھانا تھا۔ بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ خدا نے اپنے نام لیواؤں کی مدد کا انتظام کر رکھا تھا ۔وہ ایک انسان تھا جس نے عمر کے آخری حصہ میں اسلام قبول کیا تھا۔ اس انسان کا نام ’’سلمان فارسیؓ ‘‘تھا۔ سلمان فارسیؓ آتش پرستوں کے مذہبی پیشوا تھے۔ لیکن وہ شب و روز حق کی تلاش میں سرکردہ رہتے تھے۔ وہ آگ کو پوجتے تو تھے لیکن آگ کی تپش اور چمک میں اُنہیں وہ راز نظر نہیں آتا تھا جسے وہ پانے کیلئے بے تاب رہتے تھے ۔عقل و دانش میں ان کی ٹکر کا کوئی نہیں تھا۔ آتش پرست انہیں بھی اسی طرح پوجتے تھے جس طرح آگ کو۔ جب سلمان فارسیؓ کی عمر بڑھاپے کی دہلیز پھلانگ کر خاصی آگے نکل گئی تو ان کے کانوں میں عرب کی سرزمین کی ایک انوکھی آواز پڑی۔’’ ﷲ ایک ہے۔ محمدﷺ اس کا رسول ہے ۔‘‘یہ آواز سلمان فارسیؓ کے کان میں گھر بیٹھے نہیں پڑی تھی۔ ان کی عمر علم کی تلاش میں سفر کرتے گزر رہی تھی۔ وہ تاجروں کے قافلے کے ساتھ شام میں آئے تھے جہاں قریش کے تاجروں کے قافلے اور کچھ مسلمان تاجر بھی جایا کرتے تھے۔ قریش کے تاجروں نے سلمان فارسیؓ کو طنزیہ اور مزاحیہ انداز میں بتایا کہ ان کے قبیلے کے ایک آدمی کا دماغ چل گیا ہے اور اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ۔
ایک دو مسلمانوں نے عقیدت مندی سے سلمان فارسی کو نبی کریمﷺ کا عقیدہ اور آپﷺ کی تعلیمات سنائیں ۔سلمان فارسیؓ یہ سب سن کر چونک پڑے۔ انہوں نے ان مسلمانوں سے کچھ اور باتیں پوچھیں۔ انہیں جو معلوم تھا وہ انہوں نے بتایا ۔لیکن سلمان فارسیؓ تشنگی محسوس کر رہے تھے۔ وہ اتنا متاثر ضرور ہو گئے تھے کہ انہوں نے نبی کریمﷺ تک پہنچنے کا فیصلہ کر لیا ۔کچھ عرصہ بعد سلمان فارسیؓ رسولِ خدا ﷺ کے مقدس سائے میں جا بیٹھے ۔انہیں وہ راز مل گیا جس کی تلاش میں وہ مارے مارے عمر گزار رہے تھے۔ انہوں نے رسول ﷲﷺ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کر لیا اس وقت تک سلمان فارسیؓ بڑھاپے کے آخری حصہ میں پہنچ چکے تھے۔

اپنے ملک میں سلمان فارسیؓ صرف مذہبی پیشوا ہی نہ تھے وہ جنگی علوم کے ماہر تسلیم کیے جاتے تھے۔ اس دور کے مذہبی پیشوا بھی جنگ و جدل اور سپاہ گری کے ماہر ہوتے تھے۔ علم و ادب کے عالم بھی سپاہی ہوتے تھے لیکن سلمان فارسیؓ کو خدا نے جنگ و جدل کے امور میں غیر معمولی ذہانت دی تھی۔ اپنے ملک میں جب کوئی لڑائی ہوتی تھی یا دشمن حملہ آور ہوتا تھا تو سلمان فارسی ؓکو بادشاہ طلب کر کے صورتِ حال ان کے آگے رکھتا اور مشورے لیتا تھا۔نامور سالار بھی ان کے شاگرد تھے۔ وہ سلمان فارسیؓ اس وقت مدینہ میں رسولِ اکرمﷺ کے صحابہ کرامؓ میں شامل تھے ۔رسولِ اکرمﷺ نے یہ صورتِ حال جو قریش نے آپ ﷺ کیلئے پیدا کر دی تھی، سلمان فارسیؓ کے آگے رکھی ۔’’خندق کھودو ،جو سارے شہر کو گھیرے میں لے لے۔‘‘سلمان فارسیؓ نے کہا ۔رسولِ کریمﷺ اور وہاں بیٹھے ہوئے تمام صحابہ کرامؓ اور سالار ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھنے لگے کہ سلمان فارسی ؓنے یہ کیا کہہ دیا ہے؟عرب خندق سے واقف نہیں تھے۔فارس میں جنگوں میں خندق کا رواج تھا۔ سب کو حیران دیکھ کر سلمان فارسیؓ نے بتایا کہ خندق کیا ہوتی ہے اور اس سے دفاعی کام کس طرح سے لیا جاتا ہے ۔رسولِ کریمﷺ نے جو خود تاریخ کے نامور سالار تھے خندق کی ضرورت اور افادیت کو سمجھ لیا لیکن آپﷺ کے دیگر سالار شش و پنج میں پڑ گئے۔ ان کیلئے اتنے بڑے شہر کے اردگرد اتنی چوڑی اور اتنی بڑی خندق کھودنا ناقابلِ فہم نہیں تھا لیکن انہیں رسولِ ﷲﷺ کا حکم ماننا تھا۔خندق کی لمبائی چوڑائی اور گہرائی کا حساب کر لیا گیا۔ رسولﷲ ﷺ نے خندق کھودنے والوں کی تعداد کا حساب کیا۔آپﷺ نے کھدائی کا کام اس تعداد پر تقسیم کیا تو ایک سو دس آدمیوں کے حصہ میں چالیس ہاتھ کھدائی آئی تو رسولﷲ ﷺ نے دیکھا کہ لوگ خندق کو ابھی تک نہیں سمجھے اور وہ کھدائی سے ہچکچا رہے ہیں تو آپ ﷺنے کدال اٹھائی اور کھدائی شروع کردی۔یہ دیکھتے ہی مسلمان کدالیں اور بیلچے لے کر نعرے لگاتے ہوئے زمین کا سینہ چیرنے لگے۔ ادھر سے اس وقت کے ایک شاعر حسانؓ بن ثابت آ گئے۔ جنہیں رسولِ اکرمﷺ اکثر اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے۔

اس موقع پر جب مسلمان خندق کھود رہے تھے حسانؓ نے ایسے اشعار ترنم سے سنانےشروع کر دیئے کہ خندق کھودنے والوں پر وجد اور جنون کی کیفیت طاری ہو گئی۔ خندق کی لمبائی چند گز نہیں تھی، اسے میلوں دور تک جانا تھا۔ شیخین کی پہاڑی سے لے کر جبل بن عبید تک یہ خندق کھودنی تھی زمین نرم بھی تھی اور سنگلاخ بھی تھی اوریہ نہایت تیزی سے مکمل کرنی تھی، کیونکہ دشمن سر پر آن بیٹھا تھا۔قریش کا لشکر اس عجیب و غریب طریقۂ دفاع سے بے خبر احد کی پہاڑی کے دوسری طرف خیمہ زن تھا۔اس کے پیچھے یہودیوں کا ہاتھ تھا۔

چلتے چلتے خالد کو اپنی آواز سنائی دینے لگی۔اہلِ قریش تو ٹھنڈے پڑ گئے تھے ۔ان پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی تھی۔ گھوڑا اپنی مرضی کی چال چلا جا رہا تھا۔ مدینہ ابھی دور تھا، خالد کو جھینپ سی محسوس ہوئی۔ اس کے قبیلہ قریش نے اسے شرمسار کر دیا تھا۔ اسے یہ بات اچھی نہیں لگی تھی کہ یہودیوں کے اکسانے پر اس کے قبیلے کے سردار اور سالار ابو سفیان نے مدینہ پر حملہ کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن وہ خوش تھا کہ حملہ کا فیصلہ تو ہوا۔اتنا بڑا لشکر جو سر زمینِ عرب پر پہلی بار دیکھا گیاتھا یہودیوں نے ہی جمع کیا تھا لیکن خالد اس پر بھی مطمئن تھا کہ کسی نے بھی یہ کام کیا ہو، لشکر تو جمع ہو گیا تھا۔وہ اس روز بہت خوش تھا کہ اتنے بڑے لشکر کو دیکھ کر ہی مسلمان مدینہ سے بھاگ جائیں گے۔اگر مقابلے پر جم بھی گئے تو گھڑی دو گھڑی میں ان کا صفایا ہو جائے گا۔وہ اس وقت تو بہت ہی خوش تھا جب احد کی پہاڑی کی دوسری طرف یہ سارا لشکر خیمہ زن تھا۔ جس صبح حملہ کرنا تھا اس رات اس پر ایسی ہیجانی کیفیت طاری تھی کہ وہ اچھی طرح سو بھی نہ سکا۔ اسے ہر طرف مسلمانو ں کی لاشیں بکھری ہوئی نظر آ رہی تھیں۔دوسری صبح جب قریش اور دوسرے اتحادی قبائل کا لشکر جس کی تعداد دس ہزار تھی،خیمہ گاہ سے نکل کر مدینہ پر حملہ کیلئے شہرکے قریب پہنچا تواچانک رک گیا۔شہر کے سامنے ایک بڑی گہری خندق کھدی ہوئی تھی۔ابو سفیان جو لشکر کے قلب میں تھا لشکر کو رکا ہوا دیکھ کر گھوڑا سر پٹ دوڑاتا آگے گیا۔’’قریش کے جنگجو کیوں رک گئے ہیں ؟‘‘ابوسفیان چلاتا جا رہا تھا۔’’ طوفان کی طرح بڑھو اور محمدﷺ کے مسلمانوں کو کچل ڈالو،شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دو۔‘‘ابو سفیان کا گھوڑا جب آگے گیا تو اس نے گھوڑے کی لگام کھینچ دی ا ور اس کا گھوڑا اسی طرح رک گیا جس طرح اس کے لشکر کے تمام سوار رکے کھڑے تھے۔اس کے سامنے خندق تھی اس پر خاموشی طاری ہو گئی ۔’’خدا کی قسم! یہ ایک نئی چیز ہے جو میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں ۔‘‘ابو سفیان نے غصیلی آواز میں کہا۔’’عرب کے جنگجو کھلے میدان میں لڑا کرتے ہیں ۔خالد بن ولید کو بلاؤ، عکرمہ اور صفوان کو بھی بلاؤ۔‘‘ابو سفیان خندق کے کنارے کنارے گھوڑا دوڑاتا لے گیا۔ اسے کہیں بھی ایسی جگہ نظر نہیں آ رہی تھی جہاں سے اس کا لشکر خندق عبور کر سکتا۔یہ خندق شیخین کی پہاڑی سے لے کر جبلِ بنی عبید کے اوپر سے پیچھے تک چلی گئی تھی ۔مدینہ کے مشرق میں شیخین اور لاوا کی پہاڑیاں تھیں۔ یہ مدینہ کا قدرتی دفاع تھا۔

ابو سفیان دور تک چلا گیا۔اس نے دیکھاکہ خندق کے پار مسلمان اس انداز سے گھوم پھر رہے ہیں جیسے پہرہ دے رہے ہوں۔ اس نے گھوڑا پیچھے موڑا اور اپنے لشکر کی طرف چل پڑا۔تین گھوڑے اس کی طرف سر پٹ دوڑے آ رہے تھے جو اس کے قریب آ کر رک گئے۔ وہ خالد، عکرمہ اور صفوان کے گھوڑے تھے۔’’کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ مسلمان کتنے بزدل ہیں؟‘‘ابو سفیان نے ان تینوں سے کہا ۔’’کیا تم کبھی اپنے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرکے یا رکاوٹ کھود کر اپنے دشمن سے لڑے ہو؟‘‘خالد پر خاموشی طاری ہو گئی تھی۔آج مدینہ کی طرف جاتے ہوئے سے یاد آ رہا تھاکہ وہ اس خیال سے چپ نہیں ہو گیا تھا کہ ابو سفیان نے مسلمانوں کو بزدل جو کہا تھا وہ ٹھیک کہا تھا۔بلکہ خاموش رہ کر وہ اس سوچ میں کھو گیا تھا کہ یہ خندق بزدلی کی نہیں دانشمندی کی علامت تھی۔جس کسی نے شہر کے دفاع کیلئے یہ طریقہ سوچا تھا وہ کوئی معمولی عقل والا انسان نہیں تھا ۔اس سے پہلے بھی اس نے محسوس کیا تھا کہ مسلمان لڑنے میں اپنے جسم کی طاقت پر ہی بھروسہ نہیں کرتے ۔وہ عقل سے بھی کام لیتے ہیں ۔خالد کا دماغ ایسی ہی جنگی چالیں سوچتا رہتا تھا۔ مسلمانوں نے بدر کے میدان میں نہایت تھوڑی تعداد میں ہوتے ہوئے قریش کو بہت بری شکست دی تھی ۔خالد نے اکیلے بیٹھ کر اس لڑائی کا جائزہ لیا تھا۔ مسلمانوں کی اس فتح میں اسے مسلمانوں کی عسکری دانشمندی نظر آئی تھی۔’’کوئی اور بات بھی تھی خالد!‘‘ اسے خیال آیا ۔’’کوئی اور بات بھی تھی۔‘‘’’کچھ بھی تھا !‘‘خالد نے اپنے آپ کو جواب دیا۔’’ جو کچھ بھی تھا ،میں یہ نہیں مانوں گا کہ یہ محمدﷺ کے جادو کا اثر تھا یا اس کے ہاتھ میں کوئی جادو ہے۔ ہماری عقل جس عمل اور جس مظاہرے کو سمجھ نہیں سکتی اسے ہم جادو کہہ دیتے ہیں۔ اہلِ قریش میں ایسا کوئی دانشمند نہیں جو مسلمانوں جیسے جذبے سے اہلِ قریش کو سرشار کر دے اور ایسی جنگی چالیں سوچے جو مسلمانوں کو ایک ہی بار کچل ڈالے۔‘‘ ’’خدا کی قسم !ہم اس لیے واپس نہیں چلے جائیں گے کہ مسلمانوں نے ہمارے راستے میں خندق کھود رکھی ہے۔‘‘ابو سفیان خالد، عکرمہ اور صفوان سے کہہ رہا تھا۔ پھر اس نے ان سے پوچھا ۔’’کیا خندق عبور کرنے کا کوئی طریقہ تم سوچ سکتے ہو؟‘‘خالد کوئی طریقہ سوچنے لگا،لیکن اسے خیال آیا کہ اگر ان کے لشکر نے خندق عبور کر بھی لی تو مسلمانوں کو شکست دینا آسان نہ ہو گا۔ خواہ وہ کتنی ہی تھوڑی تعداد میں کیوں نہ ہوں ۔جن انسانوں نے تھوڑے سے وقت میں زمین اور چٹانوں کا سینہ چیر ڈالا ہے ان انسانوں کو بڑے سے بڑا لشکر بھی ذرا مشکل سے ہی شکست دے سکے گا۔’’کیا سوچ رہے ہو ولید کے بیٹے !‘‘ابو سفیان نے خالد کو گہری سوچ میں کھوئے ہوئے دیکھ کر کہا ۔’’ہمارے پاس سوچنے کا بھی وقت نہیں ہے۔ مسلمان یہ نہ سمجھیں کہ ہم بوکھلاگئے ہیں ۔‘‘’’ہمیں تمام تر خندق دیکھ لینا چاہیے ۔‘‘عکرمہ نے کہا۔’’کہیں نہ کہیں کوئی ایسی جگہ ہوگی جہاں سے ہم خندق عبور کر سکیں گے۔‘‘ صفوان نے کہا۔ ’’محاصرہ۔‘‘خالد نے خود اعتمادی سے کہا۔’’مسلمان خندق کھود کر اندر بیٹھ گئے ہیں۔ ہم محاصرہ کرکے باہر بیٹھے رہیں گے ۔وہ بھوک سے تنگ آ کر ایک نہ ایک دن خود ہی خندق کے اس طرف آ جائیں گے جدھر ہم ہیں ۔‘‘’’ہاں!‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’مجھے یہی ایک طریقہ نظر آتا ہے جو مسلمانوں کو باہر آ کر لڑنے پر مجبور کر دے گا۔‘‘ابو سفیان اپنے ان تینوں نائب سالاروں کے ساتھ خندق کے ساتھ ساتھ تمام تر خندق کو دیکھنے کیلئے جبلِ بنی عبید کی طرف چل پڑا۔سلع کی پہاڑی مدینہ اور جبلِ بنی عبید کے درمیان واقع تھی۔ مسلمان اس کے سامنے مورچہ بند تھے۔ ابو سفیان نے مسلمانوں کی تعداد دیکھی تو اس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آ گئی۔وہ ذرا آگے بڑھا تو ایک گھوڑا جو بڑا تیز دوڑا آ رہا تھا ا س کے پہلو میں آن رکا۔ سوار کو ابو سفیان بڑی اچھی طرح پہچانتا تھا ۔وہ ایک یہودی تھا جو تاجروں کے بہروپ میں مدینہ کے اندر گیا تھا۔ وہ مدینہ سے شیخین کے سلسلۂ کوہ میں سے ہوتا ہوا قریش کے لشکر میں پہنچا تھا۔’’اندر سے کوئی ایسی خبر لائے ہو جو ہمارے کام آ سکے؟‘‘ابو سفیان نے پوچھا اور کہا۔’’ ہمارے ساتھ ساتھ چلو اور اتنا اونچا بولتے چلو کہ میرے یہ تینوں نائب بھی سن سکیں۔‘‘ ’’مسلمانوں نے شہر کے دفاع اور آبادی کے تحفظ کے جو انتظامات کر رکھے ہیں وہ اس طرح ہیں‘‘یہودی نے کہا۔’’ یہ تو تم کو معلوم ہوگا کہ مدینہ چھوٹے چھوٹے قلعوں اور ایک دوسرے کے ساتھ ملی ہوئی بستیوں کا شہر ہے۔مسلمانوں نے شہر کی عورتوں ،بچوں اور ضعیفوں کو پیچھے کی طرف والے قلعوں میں بھیج دیا ہے۔ خندق پر نظر رکھنے کیلئے مسلمانوں نے گشتی پہرے کا جو انتظا م کیا ہے اس میں دو اڑھائی سو افراد شامل ہیں ۔یہ افراد تلواروں کے علاوہ پھینکنے والی برچھیوں اور تیر کمانوں سے مسلح ہیں۔ انہوں نے علاقے تقسیم کر رکھے ہیں جس میں وہ سارا دن اور پوری رات گشت کرتے ہیں ۔جہاں کہیں سے بھی تم خندق عبور کرنے کی کوشش کرو گے وہاں مسلمانوں کی خاصی زیادہ تعداد پہنچ جائے گی اور اس قدر زیادہ تیر اوربرچھیاں برسائے گی کہ تم لوگ پیچھے کو بھاگ آنے کے سوا کچھ نہیں کر سکو گے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ راتوں کو مسلمانوں کے خویش خندق سے باہر آ کر تم پر شب خون مار کر واپس چلے جائیں ۔‘‘ ’’عبد ﷲ بن ابی کیا کر رہا ہے؟‘‘ ابو سفیان نے پوچھا۔’’اے قریش کے سردار!‘‘ یہودی جاسوس نے کہا۔’’اتنی عمر گزار کر بھی تم انسانوں کو سمجھنے کے قابل نہیں ہو سکے۔ عبدﷲ بن ابی منافق ہے. مسلمان اسے جماعتِ منافقین کا سردار کہتے ہیں اور ہم اسے یہودیت کا غدا ر سمجھتے ہیں. اس نے مسلمان ہو کر ہم سےغداری کی تھی۔ مسلمانوں میں جاکر اس نے تمہارے حق میں انہیں دھوکے دیئے ۔اگر احد کی جنگ میں تم جیت جاتے تو وہ تمہارے ساتھ ہوتا مگر مسلمانوں کا پلہ بھاری دیکھ کر اس نے تم سے بھی اور یہودیوں سے بھی نظریں پھیر لی ہیں۔تمہیں اس آدمی پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے جو کسی مذہب کا پیروکار اور وفادار نہ ہو ۔‘‘’’اور حیُّ بن اخطب کہاں ہے؟‘‘ابو سفیان نے پوچھا۔

اسے محاصرے کامنظر یاد آنے لگا۔ لشکر کا جو حصہ اس کی زیرِ کمان تھا اسے اس نے بڑے اچھے طریقے سے محاصرے کی ترتیب میں کردیا تھا۔یہ محاصرہ بائیس روز تک رہا۔پہلے دس دنوں میں ہی شہر کے اندر مسلمان خوراک کی کمی محسوس کرنے لگے لیکن اس سے قریش کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا کیونکہ وہ اپنے ساتھ خوراک اوررسد بہت کم لائے تھے ۔ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انہیں مسلمان اپنے محاصرے میں لمبے عرصہ کیلئے بٹھا لیں گے۔ خوراک کی جتنی کمی شہر والے محسوس کر رہے تھے اس سے کچھ زیادہ کمی قریش کے لشکر میں اپنا اثر دِکھانے لگی تھی۔ سپاہیوں میں نمایاں طور پر بے چینی نظر آنے لگی تھی۔

جاری ہے ۔۔ 

تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں