شمشیرِ بے نیام ۔۔۔ خالد بن ولید ۔۔۔ قسط نمبر 8





⚔ شمشیرِ بے نیام⚔

  حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ

قسط نمبر-8


میں ان کی نیت معلوم کرلیتا ہوں۔‘‘ابو سفیان نے کہا اور اپنے غلام کو آواز دی۔’’عکرمہ اور خالد کو بلا لاؤ۔‘‘ابو سفیان نے غلام سے کہا۔نعیمؓ بن مسعود یہ کہہ کر چلے گئے ۔’’میں اپنے سردار غطفان کو خبردار کرنے جا رہا ہوں ۔‘‘خالد اور عکرمہ آئے تو ابوسفیان نے انہیں بتایا کہ نعیم اسے کعب بن اسد کے متعلق کیا بتا گئے ہیں ۔’’غیروں کے سہارے لے کر لڑائیاں نہیں لڑی جاتیں ابو سفیان!‘‘خالد نے کہا ۔’’آپ نے یہ تو سوچا ہی نہیں کہ بنو قریظہ مسلمانوں کے سائے میں بیٹھے ہیں۔ وہ زمین کے نیچے سے مسلمانوں پر وار کر سکتے ہیں لیکن وہ ہیں تو مسلمانوں کے رحم و کرم پر۔ اگر آپ لڑنے آئے ہیں تو جنگجوؤں کی طرح لڑیں۔‘‘ ’’کیا یہ صحیح نہیں ہو گا کہ تم دونوں میں سے کوئی کعب بن اسد کے پاس جائے۔‘‘ ابوسفیان نے پوچھا۔’’ہو سکتا ہے کہ اس نے نعیم سے کہا ہو کہ وہ ہم سے یرغمال مانگے گا۔لیکن تم جاؤ تو وہ ایسی شرط پیش نہ کرے۔کیا تمہیں نظر نہیں آ رہا ہے کہ تمام کا تمام لشکر نیم فاقہ کشی کی حالت میں ہے۔ کیا یہ لشکر خندق عبور کر سکتا ہے؟ یہی ایک صورت ہے کہ کعب مدینہ کے اندر مسلمانوں پر شب خون مارنے کا انتظام کرے۔‘‘ ’’میں جاؤں گا ۔‘‘عکرمہ نے کہا۔’’میں آپ کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ کعب بن اسد نے یرغمال کی شرط پیش کی تو میں آپ سے پوچھے بغیر معاہدہ منسوخ کر آؤں گا۔‘‘ ’’کیا میں بھی عکرمہ کے ساتھ چلا جاؤں ؟‘‘خالد نے ابو سفیان سے پوچھا۔’’اس کا اکیلے جانا ٹھیک نہیں ہے ۔‘‘’’نہیں!‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’اگر خطرہ ہے تو میں دو سالار ضائع نہیں کر سکتا۔عکرمہ اپنی حفاظت کیلئے جتنے لشکری ساتھ لے جانا چاہتا ہے لے جائے۔‘‘عکرمہ اسی وقت روانہ ہو گیا۔ اس کے ساتھ چار لشکری تھے۔اسے بڑی دور کا چکر کاٹ کر بنو قریظہ تک پہنچنا تھا۔وہ جمعہ کی رات اور تاریخ ۱۴ مارچ ۶۲۷ء تھی ۔جب عکرمہ خندق سے دور دور چلتا شیخین کے سلسلۂ کوہ میں داخل ہوا اور کعب بن اسد کے گھر پہنچا۔ کعب کو معلوم تھا کہ عکرمہ کیوں آیا ہے۔’’آؤ عکرمہ!‘‘ کعب بن اسد نے کہا۔’’ میں جانتا ہوں کہ تم کیوں آئے ہو۔ تمہارے آنے کی ضرورت نہیں تھی۔میں نے دس دن کی مہلت مانگی تھی ۔‘‘کعب بن اسد نے اپنے غلام کو آواز دی ۔غلام آیا تو اس نے غلام سے شراب اور پیالے لانے کو کہا۔’’پہلے میری بات سن لو کعب!‘‘ عکرمہ نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔’’میں شراب پینے نہیں آیا ۔مجھے بہت جلدی واپس جانا ہے۔ ہم محاصرے کو اور زیادہ طول نہیں دے سکتے ۔ہم کل مدینہ پر حملہ کر رہے ہیں۔تمہارے ساتھ ہمارا جو معاہدہ ہوا ہے اس کے مطابق تم مدینہ میں ان جگہوں پر جو ہم نے تمہیں بتائی ہیں کل سے حملے شروع کر دو۔ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تم نے ظاہری طور پر ہمارے ساتھ معاہدہ کیا ہے لیکن درپردہ تم نے وہ معاہدہ قائم کر رکھا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ تم نے کیا ہے۔‘‘
اتنے مین ایک نہایت حسین لڑکی شراب کی صراحی اور پیالے اٹھائے کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ عکرمہ کو دیکھ کر مسکرائی۔ عکرمہ نے اسے دیکھا تو اس کے چہرے پر سنجیدگی کا تاثر اور زیادہ گہرا ہو گیا۔’’کعب!‘‘ عکرمہ نے کہا۔’’تم نے اپنا مذہب اور اپنی زبان ان چیزوں کے عوض بیچ ڈالی ہے۔جنہوں نے کبھی کسی کا ساتھ نہیں دیا۔‘‘کعب بن اسد نے لڑکی کو اشارہ کیا تو وہ چلی گئی۔ ’’میرے عزیز عکرمہ!‘‘ کعب نے کہا۔’’میں تمہارے چہرے پر رعونت کے آثار دیکھ رہا ہوں۔ صاف پتا چلتا ہے کہ تم مجھے اپنا غلام سمجھ کر حکم دینے آئے ہو۔میں نے مسلمانوں کےبساتھ جو معاہدہ کیا تھا وہ بنو قریظہ کے تحفظ اور سلامتی کیلئے کیا تھا اور میں نے جو معاہدہ تمہارے ساتھ کیا ہے وہ تمہاری فتح اور مسلمانوں کی شکست کی خاطر کیا ہے۔مسلمانوں کو ختم کرنا میرے مذہب کا حکم ہے۔ تمہارے ساتھ معاہدہ نبھانا اسی سلسلے کی ایک کوشش ہے۔ اپنا مذہبی فریضہ ادا کرنے کیلئے میں تمہیں استعمال کروں گا۔حُیّ بن اخطب سے میں نے کہہ دیا تھا کہ اہلِ قریش اور اہلِ غطفان مجھے بنو قریظہ کی سلامتی کی ضمانت دیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ تم لوگ ناکام ہو جاؤ اور مسلمان ہم سے ظالمانہ انتقام لیں۔‘‘نعیمؓ بن مسعود نے جو چنگاری ان لوگوں کے درمیان پھینک دی تھی وہ عکرمہ کے سینے میں سلگ رہی تھی ۔نعیم ؓ نے عکرمہ کے ذہن میں ابو سفیان کی معرفت پہلے ہی ڈال دیا تھا کہ کعب افراد کی صورت میں ضمانت مانگے گا۔کعب کی زبان سے ضمانت کا لفظ سنتے ہی عکرمہ بھڑک اٹھا۔’’کیا تمہیں ہم پر اعتماد نہیں؟‘‘عکرمہ نے غصیلی آواز میں کہا۔’’کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم شاید بھول گئے ہیں کہ محمدﷺ ہمارا اور تمہارا مشترکہ دشمن ہے۔‘‘’’میں یہ نہیں کہتا جو تم کہہ رہے ہو۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ اپنے مشترکہ دشمن کو جتنا میں جانتا ہوں اتنا تم نہیں جانتے۔میں اعتراف کرتا ہوں کہ جو عقل خدا نے محمدﷺ کو دی ہے وہ ہم میں سے کسی کو نہیں دی……میں اس کی ضمانت چاہتا ہوں۔‘‘’’کہو، تمہیں کیسی ضمانت چاہیے؟‘‘عکرمہ نے پوچھا۔ ’’قبیلۂ قریش کے چند ایک سرکردہ افراد ہمارے پاس بھیج دو۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’میں کوئی نئی بات نہیں کہہ رہا عکرمہ! یہ ہمارا تمہارا دستور ہے۔اس رواج اور شرط سے تم واقف ہو۔میں نے ضمانت کے طور پر یرغمال میں لینے والے آدمیوں کی تعداد نہیں بتائی ،یہ تعداد تم خود مقرر کر لو۔تم جانتے ہو کہ معاہدے کی خلاف ورزی کرو گے تو تمہارے ان سرکردہ افراد کو ہم قتل کر دیں گے۔‘‘ ’’انہیں تم قتل نہیں کرو گے۔‘‘عکرمہ نے بھڑکی ہوئی آواز میں کہا۔’’تم انہیں مسلمانوں کے حوالے کر دو گے۔‘‘’’کیا کہہ رہے ہو عکرمہ؟‘‘کعب بن اسد نے حیرت اور پریشانی کے لہجے میں پوچھا۔’’کیا تم مجھے اتنا ذلیل سمجھتے ہو کہ میں تمہیں یہ دھوکا دوں گا کہ تمہارے قبیلوں کے سرداروں کو مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کرواؤں گا؟مجھ پر اعتبار کرو۔‘‘
’’یہودی پر اعتبار کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی نے سانپ پر اعتبار کر لیا ہو۔‘‘عکرمہ نے غصے کے عالم میں کہا۔’’اگر تم اپنے آپ کو اتنا ہی قابلِ اعتبار سمجھتے ہو تو کل مدینہ میں ان چھوٹے قلعوں پر حملے شروع کردو جہاں پر مسلمانوں نے اپنی عورتوں اور بچوں کو رکھا ہوا ہے۔‘‘’’کل؟‘‘کعب نے کہا۔’’کل ہفتے کا دن ہے۔ہفتے کا دن یہودیوں کا ایک مقدس دن ہوتا ہے جسے ہم ’’سبت‘‘ کہتے ہیں ۔اس روز عبادت کے سوا ہم اور کوئی کام نہیں کرتے۔کوئی یہودی سبت کے دن کوئی کام یا کاروبار کرے یا کسی پر حملہ کرے تو خدائے یہودہ اسے انسان سے خنزیر یا بندر کی شکل میں تبدیل کر دیتا ہے۔‘‘عکرمہ دیکھ چکا تھا کہ کعب بن اسد کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔وہ شراب پیتا چلاجا رہا تھا۔عکرمہ نے شراب پینے سے انکار کر دیا تھا۔اس نے ابو سفیان سے کہا تھا کہ وہ فیصلہ کر کے ہی واپس آ ئے گا۔’’تم کل حملہ کرو یا ایک دن بعد کرو۔ ہم تمہاری نیت کو عملی صورت میں دیکھ کر فیصلہ کریں گے کہ تمہیں یرغمال میں اپنے آدمی دیئے جائیں یا نہ دیئے جائیں۔‘‘عکرمہ نے کہا۔’’ اس سے پہلے ہم تمہیں ایک آدمی بھی نہیں دیں گے۔‘‘ ’’میں کہہ چکا ہوں کہ یرغمال کے بغیر ہم کچھ نہیں کریں گے۔‘‘کعب بن اسد نے کہا۔’’جوں ہی تمہارے آدمی ہمارے پاس پہنچ جائیں گے ہم تمہاری منشاء کے مطابق مدینہ کے اندر کھلبلی مچا دیں گے ۔تم دیکھنا کہ ہم محمد ﷺ کی پیٹھ میں کس طرح چھرا گھونپتے ہیں۔‘‘عکرمہ اٹھ کھڑا ہوا اور غصے میں بولا۔’’تم بد نیت ہو۔تمہاری نیت صاف ہوتی تو تم کہتے کہ مجھے کسی ضمانت کی ضرورت نہیں۔آؤ مل کر مسلمانوں کو مدینہ کے اندر ہمیشہ کیلئے ختم کر دیں۔‘‘’’مجھے اگر حکم ماننا ہی ہے تو میں محمد ﷺ کا حکم کیوں نہ مان لوں؟‘‘کعب بن اسد نے عکرمہ کاغصہ دیکھتے ہوئے کہا۔’’ہم مسلمانوں کے ساتھ رہتے ہیں۔جو تحفظ ہمیں ان سے مل سکتا ہے وہ تم نہیں دے سکو گے۔‘‘مؤرخ ابنِ ہشام اور ابنِ سعد نے لکھا ہے کہ نعیمؓ بن مسعود کا چھوڑا ہوا تیر نشانہ پہ لگا ۔عکرمہ غصے کے عالم میں کعب بن اسد کے گھر سے نکل آیا۔یہودیوں اور اہلِ قریش کا معاہدہ جو اگر برقرار رہتا تو مسلمانوں کی کمر ٹوٹ جاتی،کعب کے گھر کے اندر ہی ٹوٹ گیا۔جب عکرمہ کعب بن اسد سے ملنے جا رہا تھا۔اس وقت نعیم ؓبن مسعود اپنے قبیلے کے سردارغطفان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔اس کے ساتھ بھی انہوں نے کعب بن اسد کے متعلق وہی باتیں کیں جن باتوں سے وہ ابو سفیان کو بھڑکا چکے تھے۔غطفان نے اپنے سالار عینیہ کو بلالیا۔’’کیا تم نے سنا ہے کہ کعب بن اسد ہمیں کیا دھوکا دے رہا ہے؟‘‘غطفان نے عینیہ سے کہا۔’’وہ ہم سے یرغمال میں رکھنے کیلئے سرکردہ افراد مانگتا ہے۔کیا یہ ہماری توہین نہیں؟‘‘
’’سردار غطفان!‘‘ سالار عینیہ نے کہا۔’’میں پہلے تمہیں کہہ چکا ہوں کہ میرے ساتھ میدانِ جنگ کی بات کرو۔میں آمنے سامنے کی لڑائی جانتا ہوں۔ مجھے اس شخص سے نفرت ہو گی جو پیٹھ کے پیچھے آکر وار کرتا ہے اور مجھے اس شخص سے بھی نفرت ہوگی جس کی پیٹھ پر وار ہوتا ہے اور پھر تم یہودیوں پر اعتبار کرتے ہو؟ اگر کعب بن اسد کہے گا کہ مجھے اپنے قبیلے کا سردار غطفان یرغمال میں دے دوتو کیا میں تمہیں اس کے حوالے کر دوں گا؟‘‘ ’’میں اس شخص کا سر اڑا دوں گا جو ایسا مطالبہ کرے گا۔‘‘نعیمؓ بن مسعود نے کہا۔’’میں ان یہودیوں کو اپنے قبیلے کی ایک بھیڑ یا بکری بھی نہ دوں گا۔خدا کی قسم! کعب نے ہماری توہین کی ہے۔‘‘’’ابو سفیان کیا کہتا ہے؟‘‘غطفان نے نعیمؓ سے پوچھا۔’’یہ بات سن کر ابو سفیان غصے سے کانپنے لگا۔‘‘نعیمؓ نے کہا ۔’’ابو سفیان کہتا ہے کہ وہ کعب بن اسد سے اس توہین کا انتقام لے گا۔‘‘
’’اور اسے انتقام لینا چاہیے۔‘‘سالار عینیہ نے کہا۔’’بنو قریظہ کی حیثیت ہی کیا ہے؟وہ ہمارے اور مسلمانوں کے درمیان اس طرح پس جائیں گے کہ ان کا وجود ہی ختم ہو جائے گا۔‘‘خالد کو آج مدینہ کی طرف جاتے ہوئے وہ وقت یاد آ رہا تھا جب عکرمہ بنو قریظہ کی بستی سے واپس آ یا تھا۔خالد دوڑتا ہوا اس تک پہنچا تھا ۔اُدھر سے ابو سفیان گھوڑا دوڑاتا آگیا۔ عکرمہ کے چہرے پر غصے اور تھکن کے گہرے آثار تھے۔’’کیا خبر لائے ہو؟‘‘ ابو سفیان نے اس سے پوچھا۔’’خدا کی قسم ابو سفیان! میں نے کعب سے زیادہ بد نیت انسان پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔‘‘عکرمہ نے گھوڑے سے کود کر اترتے ہوئے جواب دیا۔’’نعیم نے ٹھیک کہا تھا۔‘‘’’کیا اس نے ہم سے یرغمال میں رکھنے کیلئے آدمی مانگے ہیں؟‘‘خالد نے پوچھا تھا۔’’ ہاں خالد!‘‘ عکرمہ نے کہا تھا۔’’ اس نے مجھے شراب پیش کی اور میرے ساتھ اس طرح بولا جیسے ہم اس کے مقروض ہیں۔اس نے کہا کہ پہلے یرغمال میں اپنے آدمی دو پھر میں مدینہ کے اندر شب خون ماروں گا۔‘‘ ’’کیا تم نے اسے کہا نہیں کہ اہلِ قریش کے سامنے بنو قریظہ کی حیثیت اونٹ کے مقابلے میں ایک چوہے کی سی ہے؟‘‘خالد نے کہا تھا ۔’’کیا تم نے اس کا سر اس کے کندھوں سے اتار نہیں دیا؟‘‘’’میں نے اپنا ہاتھ بڑی مشکل سے روکا تھا۔‘‘ عکرمہ نے کہا’’اس کے ساتھ ہمارا جو معاہدہ ہوا تھا وہ میں توڑ آیا ہوں ۔‘‘’’تم نے اچھا کیا۔‘‘ابو سفیان نے دبی دبی آواز میں کہا تھا۔’’تم نے اچھا کیا۔‘‘اور وہ پرے چلا گیا تھا۔

یہ کوئی بہت پرانا واقعہ نہیں تھا، ڈیڑھ دو سال پہلے کی ہی بات تھی۔ آج جب خالد مدینہ کی طرف جا رہا تھا تو یہ جانا پہچانا رستہ اسے اجنبی سا لگ رہا تھا ۔کبھی اسے ایسا محسوس ہونے لگتا جیسے وہ خود اپنے لیے اجنبی ہو گیا ہو ۔اسے ابو سفیان کا افسردہ چہرہ نظر آنے لگا۔ خالد نے محسوس کرلیا تھا کہ ابو سفیان مدینہ پر حملے سے منہ موڑ رہا ہے۔خالد اور عکرمہ وہیں کھڑے رہ گئے تھے۔ ’’کیا سوچ رہے ہو خالد ؟‘‘عکرمہ نے پوچھا تھا۔’’کیا تم میری تائید نہیں کرو گے کہ میں اس شخص ابو سفیان کی موجودگی کو صرف اس لیے برداشت کر رہا ہوں کہ یہ میرے قبیلے کا سردار ہے۔‘‘خالد نے عکرمہ کو جواب دیا تھا۔’’اہلِ قریش کو ابو سفیان سے بڑھ کر بزدل سردار اور کوئی نہیں ملے گا۔تم پوچھتے ہو کہ میں کیا سوچ رہا ہوں؟ میں اور زیادہ انتظار نہیں کر سکتا ۔میں نے خندق کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک دیکھا ہے۔ایک جگہ خند ق کم ہے اور زیادہ گہری بھی نہیں ہے۔ہم وہاں سے خندق کے پار جا سکتے ہیں اگر تم میرا ساتھ دو تو میں آج ہی ابھی اس جگہ سے چند سوار خندق کے اس پار لے جانا چاہتا ہوں۔ ابو سفیان کسی غیبی مدد اور سہارے کا انتظار کرنا چاہتا ہے تو کرتا رہے۔‘‘ ’’میں تمہارا ساتھ کیوں نہ دوں گا خالد؟‘‘ عکرمہ نے کہا تھا ۔’’کیا میں مسلمانوں کے ان قہقہوں کو برداشت کرسکوں گا جو اس وقت بلند ہوں گے جب ہم یہاں سے لڑے بغیر واپس جائیں گے۔چلو میں تمہارے ساتھ ہوں ۔‘‘وہ جگہ ذباب کی پہاڑی کے مغرب اور سلع کی پہاڑی کے مشرق میں تھی۔جہاں خندق کی چوڑائی اتنی تھی کہ گھوڑا اسے پھلانگ سکتا تھا۔ضرورت شہسوار کی تھی۔پیادے خندق میں اتر کر اوپر چڑھ سکتے تھے۔ اسی جگہ کے قریب تقریباً سامنے مسلمانوں کی خیمہ گاہ تھی۔ خالد نے عکرمہ کو یہ جگہ دور سے دکھائی۔ ’’پہلے میرے سوار خندق پھلانگیں گے ۔‘‘عکرمہ نے کہا۔’’ لیکن ابھی ہم تمام کا تمام سوار دستہ نہیں گزاریں گے۔ پار جا کر مسلمانوں کو ایک ایک سوار کے مقابلے کیلئے للکاریں گے۔وہ اس رواج کی خلاف ورزی نہیں کریں گے،میرے ساتھ آؤ خالد۔میں اپنے منتخب سوار آگے لاؤں گا۔تم ابھی خندق کے پاس نہ جانا ۔اگر ہم دونوں مارے گئے تو اہلِ قریش کو سوائے ذلت کے اور کچھ نہ ملے گا۔ابو سفیان کا دل محاصرہ اٹھا چکا ہے۔وہ لڑنے کے جذبے کو سرد کر چکا ہے۔‘‘

وہ مقام جہاں خندق گھوڑے کی لمبی جتنی چھلانگ سے پھلانگی جا سکتی تھی ایسی اوٹ میں تھا۔جسے گشتی سنتری قریب آ کر ہی دیکھ سکتے تھے۔عکرمہ نے سات سوار منتخب کر لیے تھے ان میں ایک قوی ہیکل بلکہ دیو قامت شخص ’’عمرو بن عبدو‘‘بھی تھا۔جس کی دھاک اس کی جسامت کی بدولت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ عکرمہ ان سات سواروں کو مقررہ مقام سے کچھ دور تک اس اندازے سے لے گیا جیسے گھوڑوں کو ٹہلائی کیلئے لے جا رہے ہوں۔مسلمانوں کے سنتریوں کو ان پر شک نہ ہوا۔’’سب سے پہلے میں خندق پھلانگوں گا۔‘‘عکرمہ نے چلتے چلتے اپنے سات سواروں سے کہا۔’’کیا یہ ٹھیک نہیں ہو گا کہ سب سے پہلے میرا گھوڑا خندق کو پھلانگے؟‘‘عمرو بن عبدو نے کہا ۔’’نہیں عمرو!‘‘عکرمہ نے کہا۔’’پہلے میں جاؤں گا۔ اگر میرا گھوڑا خندق میں گر پڑا تو تم خندق پھلانگنے کی کوشش نہ کرنا۔تمہارا سالار اپنی جان کی قربانی دے گا۔‘‘یہ کہہ کر عکرمہ نے گھوڑے کی باگ کو جھٹکا دیا ۔گھوڑے کا رخ خندق کی طرف ہوا۔تو عکرمہ نے ایڑھ لگا دی۔عربی نسل کا گھوڑا ہوا سے باتیں کرنے لگا۔عکرمہ نے لگام اور ڈھیلی کر دی اور گھوڑے کو پھر ایڑھ لگائی گھوڑے کی لگام اور تیز ہو گئی۔خندق کے کنارے پہ جا کر عکرمہ گھوڑے کی پیٹھ سے اٹھااور آگے کو جھک گیا۔گھوڑا ہوا میں بلند ہو گیا۔خالد کچھ دور کھڑا دیکھ رہا تھا قبیلہ ٔ قریش کے بہت سے لشکری دیکھ رہے تھے۔ زمین و آسمان دیکھ رہے تھے تاریخ دیکھ رہی تھی۔گھوڑے کے اگلے پاؤں خندق کے دوسرے کنارے سے کچھ آگے اور پچھلے پاؤں عین کنارے پر لگے گھوڑا رفتار کے زور پر آگے چلا گیا۔اس کی اگلی ٹانگیں دوہری ہو گئیں ۔اس کا منہ زمین سے لگا ،عکرمہ گرتے گرتے بچا۔گھوڑا بھی سنبھل گیا اور عکرمہ بھی،اسے اپنے پیچھے للکار سنائی دی ۔’’آگے نکل جاؤ عکرمہ !‘‘عکرمہ نے پیچھے دیکھا۔عمرو بن عبدو کا گھوڑا ہوا میں اڑا آ رہا تھا ۔عمرو رکابوں پر کھڑا آگے کو جھکا ہوا تھا۔کسی کو توقع نہیں تھی کہ اتنے وزنی سوار کے نیچے گھوڑا خندق پھلانگ جائے گا لیکن گھوڑا اسی جگہ جا پڑا جہاں عکرمہ کا گھوڑا گرا تھا۔عمرو کے گھوڑے کی ٹانگیں ایسی دوہری ہوئیں کہ منہ کے بل گرا اور ایک پہلو پر لڑھک گیا ۔عمرو گھوڑے کی پیٹھ سے لڑھک کر قلابازیاں کھاتا گیا ۔ایک لمحے میں گھوڑا اٹھ کھڑا ہوا ،ادھر عمرو اٹھا اور پلک جھپکتے میں گھوڑے پر سوار ہو گیا۔
اس کے پیچھے عکرمہ کے دو سوار اکھٹے چلے آ رہے تھے۔ خندق کے کنارے پر آکے دونوں سواروں نے اپنے گھوڑوں کی پیٹھیں خالی کر دی تھیں اور ان کی گردنوں پر جھکے ہوئے تھے۔ دونوں گھوڑے خندق پھلانگ آئے۔اہلِ قریش کے لشکر نے داد وتحسین کے نعرے لگائے۔ اس شور سے مسلمان پہرے دار دوڑے آئے،اتنے میں عکرمہ کے دو اور گھوڑے اپنے سواروں کو اٹھائے خندق کے کنارے سے ہوا میں اٹھے۔ ان کے پیچھے سات میں سے باقی سواروں نے بھی اپنے گھوڑوں کو ایڑھ لگا دی۔ تمام گھوڑے خندق پھلانگ آئے۔’’ٹھہر جاؤ !‘‘عکرمہ نے مسلمان سنتریوں کو بلند آواز میں کہا۔’’ کوئی اور گھوڑا خندق کے اس طرف نہیں آئے گا.ںمحمد ﷺ کو بلاؤ۔ تم میں جو سب سے زیادہ بہادر ہے اسے لاؤ وہ میرے ایک آدمی کا مقابلہ کرکے گرا لے تو ہم سب کو قتل کر دینا۔خدا کی قسم! ہم تمہارا خون اس ریت پر چھڑک کر واپس چلے جائیں گے۔‘‘ مسلمانوں کی اجتماع گاہ میں کھلبلی برپا ہو چکی تھی ۔ایک شور تھا ’’قریش اور غطفان نے خندق عبور کر لی ہے۔ مسلمانوں تمہارے امتحان کا وقت آ گیا ہے ۔ 

"ہوشیار…… خبردار……دشمن آگیا ہے۔‘‘رسول ﷲﷺ نے مسلمانوں کو بے قابو نہ ہونے دیا۔آپﷺ نے دیکھ لیا تھا کہ اہلِ قریش خندق کے پار کھڑے قہقہے لگا رہے تھے ۔ وہ مسلمانوں کا مزاق بھی اڑا رہے تھے۔ پھبتیاں بھی کس رہے تھے۔ رسولِ کریمﷺ اس جگہ پہنچے جہاں عکرمہ اور اس کے سوار کھڑے للکار رہے تھے۔ رسولِ کریمﷺ کے ساتھ حضرت علی ؓبھی تھے ۔آپﷺ نے صورتِ حل کا جائزہ لیا تو سمجھ گئے کہ عکرمہ انفرادی مقابلے کیلئے آیا ہے۔آپﷺ کو اور حضرت علیؓ کو دیکھ کر عمرو بن عبدو نے اپنا گھوڑا آگے بڑھایا۔’’قسم نے ہبل اور عزیٰ کی!‘‘عمرو نے للکار کر کہا۔’’تم میں مجھے کوئی ایک بھی نظر نہیں آ رہا جو میرے مقابلے میں اتر سکے۔‘‘مؤرخ عینی شاہدوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’مسلمانوں کی خاموشی گواہی دے رہی تھی کہ ان پر عمرو کا خوف طاری ہو گیا تھا۔وجہ یہ تھی کہ عمرو کی جسامت اور طاقت کے ایسے ایسے قصے مشہور تھے جیسے وہ مافوق الفطرت طاقت کا مالک ہو۔دیکھا شاید کسی نے بھی نہیں تھا. لیکن سب کہتے تھے کہ عمرو گھوڑے کو اپنے کندھوں پر اٹھا سکتا ہے اور وہ پانچ سو گھڑ سواروں کو اکیلا شکست دے سکتا ہے۔اس کے متعلق ہر کوئی تسلیم کرتا تھا کہ اسے نہ کوئی گرا سکا ہے نہ کوئی گرا سکے گا۔ ابو سفیان خندق کے پاس کھڑا دیکھ رہا تھا ۔خالد اور صفوان بھی دیکھ رہے تھے۔ غطفان، عینیہ اور ان کا تمام لشکر دیکھ رہا تھا اور نعیم ؓبن مسعود بھی غیر مسلموں کے لشکر میں دم بخود کھڑے تھے۔‘‘ ’’میں جانتا ہوں تم میں سے کوئی بھی آگے نہیں آئے گا۔‘‘عمرو بن عبدو کی للکار ایک بار پھر گرجی۔خندق کے پار قریش کا قہقہہ بلند ہوا اور کئی پھبتیاں سنائی دیں۔حضرت علیؓ نے رسول ﷲﷺکی طرف دیکھا ۔آپﷺ نے اپنا عمامہ سر سے اتارا اور حضرت علیؓ کے سر پر باندھ دیا پھر اپنی تلوار حضرت علیؓ کو دی۔
مؤرخ ابن سعد نے لکھا ہے کہ رسولِ کریمﷺ کی سرگوشی سنائی دی۔’’ علی کا مدد گار تو ہی ہے میرے ﷲ!‘‘مؤرخین نے اس تلوار کے متعلق جو رسولِ کریمﷺ نے حضرت علیؓ کو دی تھی، لکھا ہے کہ ’’یہ تلوار قریش کے مشہور جنگجو منبّہ بن حجاج کی تھی۔وہ بدر کی لڑائی میں مارا گیا تھا۔فاتح مجاہدین نے یہ تلوار حضورﷺ کو پیش کی تھی ۔آپﷺ نے اس کے بعد یہی تلوار اپنے پاس رکھی ،اب آپﷺ نے وہی تلوار حضرت علیؓ کو دے کر عرب کے ایک دیو قامت کے مقابلے میں اتارا۔ یہ تلوار تاریخ ِاسلام میں ’’ذوالفقار ‘‘کے نام سے مشہور ہوئی. حضرت علیؓ، عمرو بن عبدو کے سامنے جا کھڑے ہوئے ۔’’ابو طالب کے بیٹے!‘‘ عمرو جو گھوڑے پر سوار تھا۔حضرت علیؓ سے مخاطب ہوا۔’’کیا تم بھول گئے ہو کہ تمہارا باپ میرا کتنا گہرا دوست تھا؟ کیا یہ میرے لیے بہت برا فعل نہیں ہو گا۔کہ میں اپنے عزیز دوست کے بیٹے کو قتل کردوں۔‘‘ ’’اے میرے باپ کے دوست!‘‘حضرت علیؓ نے للکارکر جوا ب دیا ۔’ہماری دوستی ختم ہوچکی ہے۔ ﷲ کی قسم! میں تمہیں صرف ایک بار کہوں گا کہ ﷲ کو برحق اور محمدﷺ کو ﷲ کا رسول تسلیم کرلو اور ہم میں شامل ہو جاؤ۔‘‘ ’’تم نے ایک بار کہہ لیا ہے ۔‘‘عمرو نے کہا۔’’میں دوسری بار یہ بات نہیں سنوں گا ۔میں یہ بھی کہوں گا کہ میں تمہیں قتل نہیں کرنا چاہتا ۔‘‘ ’’میں تمہیں قتل کرنا چاہتا ہوں عمرو!‘‘حضرت علیؓ نے کہا ۔’’اتر گھوڑے سے اور آ میرے مقابلے پہ۔ اور بچا اپنے آپ کو اس تلوار سے جو مجھے ﷲ کے رسولﷺ نے عطا کی ہے۔‘‘عمرو کے متعلق مؤرخ لکھتے ہیں کہ وہ وحشی تھا۔ جب غصے میں آتا تھا تو اس کا چہرہ غضب ناک ہو کر درندوں جیسا ہو جاتا تھا۔ وہ گھوڑے سے کود کر اترا اور تلوار سونت کر حضرت علی ؓپر پہلا وار اتنی تیزی سے کیا کہ دیکھنے والے یہ سمجھے کہ اس کی تلوار نے حضرت علیؓ کو کاٹ دیا ہے۔لیکن حضرت علی ؓیہ بھرپور وار بچا گئے۔اس کے بعد عمرو نے یکے بعد دیگرے حضرت علیؓ پر متعدد وار کیے۔ حضرت علیؓ نے ہر وار غیر متوقع پینترا بدل کر بچایا۔عمرو نے یہ تو سوچا ہی نہیں تھا کہ جس جسامت اور طاقت پر اسے اتنا گھمنڈ ہے وہ ہر جگہ کام نہیں آ سکتی۔تیغ زنی کے معرکے میں جس تیزی اورپھر تی کا مظاہرہ حضرت علی ؓکر رہے تھے وہ عمرو نہیں کر سکتا تھا ۔کیونکہ اس کا جسم بھاری بھرکم تھا، اگر وہ گھوڑے کو اپنے کندھوں پر اٹھا بھی سکتا تھا تو بھی اس میں گھوڑے جیسے رفتار نہیں تھی۔اس کی طاقت گھوڑے سے زیادہ بھی ہو سکتی تھی۔حضرت علیؓ نے اس پر ایک بھی وار نہ کیا جسے عمرو نے خوفزدگی سمجھا ہو گا ۔وہ وار پہ وار کرتا رہا اور حضرت علیؓ کبھی اِدھر کبھی اُدھر ہوتے رہے۔ خندق کے پار اہلِ قریش کا لشکر جو قہقہے لگا رہا تھا ،یک لخت خاموش ہو گیا۔کیونکہ ان کا دیو قامت عمرو وار کرتے کرتے رک گیا تھا، اور خاموش کھڑا ہو گیا تھا۔وہ ہانپ رہا تھا۔وہ غالباً حیران تھا کہ کہ یہ نوجوان جو قد بت میں اس کے جسم کا بیسواں حصہ بھی نہیں ہے اس سے مرعوب کیوں نہیں ہوا۔دراصل عمرو تھک گیا تھا۔ حضرت علیؓ نے جب اس کی یہ حالت دیکھی کہ وہ اپنی طاقت اتنے سارے وار کرتے کرتے صرف کرچکا ہے اور حیران و پریشان کھڑا ہے تو حضرت علیؓ نے یہ حیران کن مظاہرہ کیا کہ تلوار پھینک کر بجلی کی سی تیزی سے عمرو پر جھپٹے ،اور اچھل کر اس کی گردن اپنے ہاتھوں میں دبوچ لی۔اس کے ساتھ ہی حضرت علیؓ نے عمرو کی ٹانگوں میں اپنی ٹانگ ایسے پھنسائی کہ وہ پیٹھ کے بل گرا۔
اس نے اپنی گردن چھڑانے کیلئے بہت زور لگایا لیکن اس کی گردن حضرت علیؓ کی آہنی گرفت سے آزاد نہ ہو سکی۔حضرت علی ؓنے اس کی گردن سے ایک ہاتھ ہٹا کر کمر بند سے خنجر نکالا اور اس کی نوک عمرو کی شہہ رگ پر رکھ دی ۔’’اب بھی میرے ﷲ کے رسول ﷺپر ایمان لے آ تو میں تیری جان بخشی کر دوں گا۔‘‘حضرت علیؓ نے کہا۔عمرو بن عبد نے جب دیکھا کہ اس کی وہ طاقت جس سے اہلِ عرب لرزتے تھے بے کار ہو گئی ہے تو اس نے یہ اوچھی حرکت کی کہ حضرت علیؓ کہ منہ پر تھوک دیا۔دیکھنے والے ایک بار پھر حیران رہ گئے کیونکہ حضرت علیؓ خنجر سے اس کی شہ رگ کاٹ دینے کے بجائے اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔انہوں نے خنجر کمر بند میں اڑس لیا اور ہاتھوں سے اپنا چہرہ صاف کیا،عمرو اب اس طرح اٹھا جیسے اس کے جسم کی طاقت ختم ہو چکی ہو۔صرف اسے ہی نہیں ہر کسی کو توقع تھی کہ حضرت علی ؓاسے زندہ نہیں اٹھنے دیں گے لیکن حضرت علیؓ بڑے آرام سے پیچھے ہٹے ۔’’عمرو!‘‘ حضرت علی ؓنے کہا۔’’میں نے ﷲ کے نام پر تیرے ساتھ زندگی اور موت کا مقابلہ کیا ہے لیکن تو نے میرے منہ پر تھوک کر میرے دل میں ذاتی دشمنی پیدا کر دی ہے۔میں تجھے ذاتی دشمنی کی بناء پر قتل نہیں کروں گا۔کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے ﷲ کو میرا یہ انتقام اچھا نہ لگے…… جا یہاں سے۔ اپنی جان لے کر واپس چلا جا۔‘‘عمرو بن عبدو شکست تسلیم کرنے والا آدمی نہیں تھا۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ میدان میں اس کی یہ پہلی ہار تھی جسے وہ برداشت نہ کر سکا ۔ا س نے اپنی ہار کو جیت میں بدلنے کیلئے یہ اوچھی حرکت کی کہ تلوار نکال کر حضرت علیؓ پر جھپٹ پڑا۔حضرت علیؓ اس حملے کیلئے تیار نہیں تھے لیکن ان کی کامیابی کیلئے رسولِ ﷲﷺ نے ﷲ سے مدد مانگی تھی ۔عین وقت پر جب عمرو کی تلوار اور حضرت علیؓ کی گردن میں دو چار لمحوں کا فاصلہ رہ گیا تھا، حضرت علیؓ نے اپنی ڈھال آگے کر دی۔ عمرو کا وار اس قدر زور دار تھا کہ اس کی تلوار نے حضرت علیؓ کی ڈھال کو کاٹ دیا۔ڈھال حضرت علی ؓکے کان کے قریب سر پر لگی جس سے خون پھوٹنے لگا۔ عمرو ڈھال میں سے تلوار کھینچ ہی رہا تھا کہ حضرت علی ؓکی وہ تلوار جو انہیں رسولِ کریمﷺ نے دی تھی ،اتنی تیزی سے حرکت میں آئی کہ عمرو کی گردن کٹ گئی۔گردن پوری نہ کٹی لیکن شہہ رگ کٹ چکی تھی۔ عمرو کی تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اس کاجسم ڈولنے لگا۔حضرت علیؓ نے ا س پردوسرا وار نہ کیا۔ انہو ں نے دیکھ لیا تھا کہ یہی وار کافی ہے۔ عمرو کی ٹانگیں دوہری ہوئیں، اس کے گھٹنے زمین پر لگے اور وہ لڑھک گیا۔عرب کی مٹی اس کا خون چوسنے لگی۔خندق کے پار دشمن کے لشکر پر ایسا سکوت طاری ہو گیا جیسے پورے کا پورا لشکر کھڑے کھڑے مر گیا ہو۔اب مسلمانوں کے نعرے گونج رہے تھے ۔عربوں کی رسم کے مطابق اس مقابلے کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گیا تھا۔مسلمانوں کے ایک جیش نے عکرمہ اور اس کے باقی سواروں پر حملہ کر دیا تھا۔ قریش کے ان سواروں کیلئے بھاگ نکلنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔وہ خیریت سے پسپا ہونے کیلئے لڑے۔ اس معرکے میں قریش کا ایک آدمی مارا گیا۔عکرمہ نے اپنا ایک گھوڑا خندق کی طرف موڑ کر بھاگ نکلنے کیلئے ایڑھ لگائی ۔خندق پھلانگنے سے پہلے عکرمہ نے اپنی برچھی پھینک دی۔ ان میں سے ایک سوار جس کا نام ’’خالد بن عبداﷲ‘‘ تھا خندق کو پھلانگ نہ سکا ۔اس کا گھوڑا خندق کے اگلے کنارے سے ٹکرایا اور خندق میں جا پڑا۔وہ اٹھ کر کنارے پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔لیکن مسلمانوں نے اس پر پتھروں کی بوچھاڑکر دی اور وہ وہیں ختم ہو گیا۔رسولِ کریمﷺ نے حکم دیا کہ خندق کے اس مقام پر مستقل پہرے کا انتظام کر دیا جائے کیونکہ وہاں سے خندق پھلانگی جا سکتی تھی۔دوسرے دن خالد اپنے گھڑ سوار دستے میں سے چند ایک جانباز سوار منتخب کرکے خندق عبورکرنے کو چل پڑا۔’’خالد رک جاؤ!‘‘ابو سفیان نے اسے کہا۔’’کیا تم نے کل عکرمہ کے سواروں کاانجام نہیں دیکھا؟اب مسلمانوں نے وہاں پہرے کا اور زیادہ مضبوط انتظام کر دیا ہوگا۔‘‘’’کیا یہ بہتر نہیں کہ لڑے بغیر واپس جانے کے بجائے تم میری لاش میرے گھوڑے پر رکھ کر مکہ لے جاؤ؟‘‘خالد نے کہا۔’’اگر ہم ایک دوسرے کے انجام سے ڈرنے لگے تو وہ دن بہت جلد طلوع ہو گا جب ہم مسلمانوں کے غلام ہوں گے۔‘‘’’میں تمہیں نہیں روکوں گا میرے دوست! ‘‘عکرمہ نے خالد سے کہا۔’’لیکن میری ایک بات سن لو۔اگر تم میری شکست کا انتقام لینے جا رہے ہو تو رک جاؤ۔تمہیں قریش کی عظمت عزیز ہے تو ضرور جاؤ۔‘‘

آج مدینہ کی طرف جاتے ہوئے خالد کو وہ لمحے یاد آ رہے تھے ۔اسے نہ اس وقت یہ خیال آیا تھا نہ آج کہ وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ خندق عبور کرکے بھی مارا جائے گا ،نہ عبور کر سکا تو بھی مارا جائے گا ،کیوں خندق کی طرف چل پڑا تھا۔ وہ ۱۶مارچ ۶۲۷ء کے دن کا تیسرا پہر تھا۔خالد چند ایک منتخب سوارو ں کے ساتھ خندق کی طرف بڑھا۔اس نے خندق پھلانگنے کیلئے کچھ فاصلے سے اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگائی۔مگر اس مقام کے پہرے پر جو مسلمان کہیں چھپے بیٹھے تھے۔انہوں نے تیروں کا مینہ برسا دیا۔خالد نے لگام کو پوری طاقت سے کھینچا،اور اس کا گھوڑا خندق کے عین کنارے پر جا رکا۔خالد نے گھوڑے کو پیچھے موڑااور اپنے تیر اندازوں کو بلایا۔اس نے سوچا تھا کہ اس کے تیر انداز مسلمانوں پر تیر پھینکتے چلے جائیں گے جس سے مسلمان سر نہیں اٹھا سکیں گے اور وہ خندق پھلانگ لے گا۔لیکن مسلمانوں نے تیر اندازی میں اضافہ کر دیا۔مسلمان تیروں کی بوچھاڑوں میں تیر چلا رہے تھے۔خالد کو پسپا ہونا پڑا۔خالد اس انداز سے اپنے سواروں کو وہاں سے ہٹا کر دوسری طرف چل پڑا جیسے اس نے خندق پر ایک اور حملہ کرنے کا ارادہ ترک کر دیا ہو۔مؤرخین جن میں ابنِ ہشام اور ابنِ سعد قابلِ ذکر ہیں لکھتے ہیں کہ’’ یہ خالدکی ایک چال تھی۔اس نے چلتے چلتے اپنے سوار جیش میں مزید سوار شامل کر لیے۔اس نے سوچا یہ تھا کہ اسے پسپا ہوتے دیکھ کر مسلمان پہرے دار اِدھر ُادھر ہوجائیں گے ۔اس نے ادھر دیکھا ۔وہاں اسے کوئی پہرے دار نظر نہ آیا۔اس نے اپنے دستے کو خندق کے کم چوڑائی والے مقام کی طرف موڑ کر سَر پٹ دوڑادیا۔خالد کی یہ چال صرف اس حد تک کامیاب رہی کہ اس کے تین چار گھوڑ سوار خندق پھلانگ گئے۔ان میں خالد سب سے آگے تھا۔مسلمان پہرے داروں نے انہیں گھیرے میں لے لیا۔قریش کے جو سوار ابھی خندق کے پاس تھے۔ان پر مسلمانوں نے اتنے تیر برسائے کہ انہیں پسپا ہونا پڑا۔خالد اور اس کے سواروں کیلئے مسلمانوں کے گھیرے سے نکلنا بہت مشکل ہو گیا۔یہ زندگی اور موت کا معرکہ تھا جو خالد نے گھوڑا دوڑا کر اور پینترے بدل بدل کر لڑا۔اس کے سوار بھی تجربہ کار اور پھرتیلے تھے۔ ان میں سے ایک مارا گیا۔خالد اب دفاعی معرکہ لڑ رہا تھا ۔اس نے کئی مسلمانوں کو زخمی کیا جن میں سے ایک شہید ہو گیا ۔آخر اسے نکلنے کا موقع مل گیا اور اس کا گھوڑا خندق کو پھلانگ آیا۔ اس کے جو سوار زندہ رہ گئے تھے وہ بھی خندق پھلانگ آئے۔ اس کے بعد قریش میں سے کسی نے بھی خندق کے پار جانے کی جرات نہ کی۔عکرمہ اور خالد کی ناکامی کے بعد قریش اور ان کے دیگر اتحادی قبائل کے لشکر میں مایوسی جو پہلے ہی کچھ کم نہ تھی اور بڑھ گئی۔ خوراک نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔ ابو سفیان جو اپنے اور دیگر تمام قبائل کے لشکر کا سالارِ اعلیٰ تھا پہلے ہی ہاتھ پاؤں چھوڑ بیٹھا تھا ۔خالد، عکرمہ اور صفوان نے یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ ان کا لشکر زندہ و بیدار ہے، یہ کارروائی جاری رکھی کہ وقتاً فوقتاً خندق کے قریب جاکر مسلمانوں کی خیمہ گاہ پر تیر برساتے رہے ۔اس کے جواب میں مسلمانوں نے تیر اندازوں کو خندق کے قریب پھیلا دیا جو اہلِ قریش کے تیر اندازوں پر جوابی تیر اندازی کرتے رہے۔تیروں کے تبادلے کا یہ سلسلہ صرف ایک دن صبح سے شام تک چلا۔

جاری ہے.........



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں