کچھ لوگ


~!~ کچھ لوگ ~!~

منقول



کچھ لوگ مثال ابر رواں،
کچھ اونچے درختوں کا سایہ
کچھ لوگ چراغوں کی صورت،
راہوں میں اجالا کرتے ہیں 
کچھ لوگ اندھیروں کی کالک،
‏چہرے پر اچھالا کرتے ہیں
کچھ لوگ سفر میں ملتے ہیں،
دو گام چلے اور رستے الگ
کچھ لوگ نبھاتے ہیں ایسا،
ہوتے ہی نہیں دھڑکن سے الگ
‏کیا حال سنائیں اپنا تمہیں، 
کیا بات بتائیں جیون کی
اک آنکھ ہماری ہستی ہے،
اک آنکھ میں رت ہے ساون کی
ہم کس کی کہانی کا حصہ،
‏ہم کس کی دعا میں شامل ہیں 
ہے کون جو رستہ تکتا ہے،
ہم کس کی وفا کا حاصل ہیں
کس کس کا پکڑ کر دامن ہم، 
اپنی ہی نشانی کو پوچھیں
‏ہم کھو گئے کن راہوں میں
اس بات کو صاحب جانے دیں
کچھ درد سنبھالے سینے میں،
کچھ خواب لٹائے ہیں ہم نے
اک عمر گنوائی ہے اپنی،
‏کچھ لوگ کمائے ہیں ہم نے
دل خرچ کیا ہے لوگوں پر،
جان کھوئی ہے غم پایا ہے
اپنا تو یہی سرمایہ ہے




تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

~!~ کچھ لوگ ~!~ منقول کچھ لوگ مثال ابر رواں، کچھ اونچے درختوں کا سایہ کچھ لوگ چراغوں کی صورت، راہوں میں اجالا کر...

آج کی بات ۔۔۔ 27 جولائی 2019


~!~ آج کی بات ~!~


خلوص اور جذبوں کو دل میں اترنے کے لئے لفظوں کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی. لیکن لفظوں کو دل میں اترنے کے لئے خلوص اور جذبوں کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ لفظ سراسر کھوکھلے، اثر سے محروم ہوتے ہیں،
 دل کی مقناطیسی لہریں بہت گہری حساسیت رکھتی ہیں، انھیں جس شدّت سے بےرخی تکلیف دیتی ہے اسی شدّت سے خلوص زندہ کر دیتا ہے..




تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

~!~ آج کی بات ~!~ خلوص اور جذبوں کو دل میں اترنے کے لئے لفظوں کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی. لیکن لفظوں کو دل میں اترنے کے لئے خلوص ا...

ذرہ ہے آفتابِ منور کے سامنے



Image result for ‫روضہ رسول‬‎


ذرہ ہے آفتابِ منور کے سامنے
کلام: ذکی کیفی
ثنا خواں: حافظ فہد شاہ



بے خود کھڑا ہوں روضہِ اطہر ہے سامنے
ذرہ ہے آفتابِ منور کے سامنے

تھا میری تشنگی کو قیامت کا سامنا
اب خواب ہے یہ ساقیِ کوثر کے سامنے

ذرہ ہے آفتابِ منور کے سامنے

دل میں جمے ہوئے تھے بہت منظرِ جمال
دھندلا گئے ہیں گنبدِ اخضر کے سامنے

ذرہ ہے آفتابِ منور کے سامنے

حیراں ہے آنکھ عالمِ انوار دیکھ کر
اک تشنہ لب کھڑا ہے سمندر کے سامنے

ذرہ ہے آفتابِ منور کے سامنے

ہوں شرمسار نامہِ اعمال دیکھ کر
کس طرح جاؤں شافعِ محشر کے سامنے

ذرہ ہے آفتابِ منور کے سامنے

پیشِ نظر ہے جلوہِ فردوس کی بہار
گھر سے قریب آپ کے منبر کے سامنے

ذرہ ہے آفتابِ منور کے سامنے

بے خود کھڑا ہوں روضہِ اطہر ہے سامنے
ذرہ ہے آفتابِ منور کے سامنے



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

ذرہ ہے آفتابِ منور کے سامنے کلام: ذکی کیفی ثنا خواں: حافظ فہد شاہ بے خود کھڑا ہوں روضہِ اطہر ہے سامنے ذرہ ہے آفت...

فرشتوں کی دعاؤں کے حق دار

Related image


پڑھنے کے لیے لنک پر جائیں




تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

فرشتوں کی دعاؤں کے حق دار پڑھنے کے لیے لنک پر جائیں تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

آج کی بات ۔۔۔ 25 جولائی 2019


~!~ آج کی بات ~!~

آسانی یہ نہیں ہوتی کہ مشکل آسان ہو جائے ..
 آسانی یہ ہے کہ مشکل میں رب.. رب کی حکمت.. رب کی محبت .. نظر آ جائے!




تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

~!~ آج کی بات ~!~ آسانی یہ نہیں ہوتی کہ مشکل آسان ہو جائے ..  آسانی یہ ہے کہ مشکل میں رب .. رب کی حکمت .. رب کی محبت .. نظر آ...

اللہ کے گھر دیر ہے، اندھیر نہیں ہے


اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے
کلام: نا معلوم


مایوس کبھی ہوتا نہیں جس کو یقیں ہے
اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے

مچھلی کا پیٹ بن گیا انسان کا سایہ
اس بے نیاز ذات نے یونسؑ کو بچایا
جب آگ سے نمرود کا بازار گرم تھا
اس کے کرم نے آگ کو مردار بنایا

وہ دور ہے کب دل میں ہی تو گوشہ نشیں ہے
اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے

مشکل میں نظر آیا نہ جب کوئی سہارا
موسیٰؑ نے آنکھیں بند کیں، مولا کو پکارا
آگے تھا نیل پیچھے تھیں فرعون کی فوجیں
کس نے بنایا نیل کو موجوں کو کنارا

اتنا کریم رہنما سوچو تو کہیں ہے؟
اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے

امید کا دامن نا کسی حال میں چھوڑو
گھبراؤ نہیں، صبر کی دیوار نا توڑو
تقویٰ ہو اگر دل می تو ملتی ہے خدائی
اس ذات بنا کو سنے تیری دہائی

وہ ذات جو ہر شخص کی شہہ رگ میں مکیں ہے
اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے

مایوس کبھی ہوتا نہیں جس کو یقیں ہے
اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔



اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے کلام: نا معلوم مایوس کبھی ہوتا نہیں جس کو یقیں ہے اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے مچ...

محب رب (افسانہ) ۔۔۔ آخری حصہ

Image may contain: text

محب رب (افسانہ)
آخری حصہ
تحریر: سمیرا حمید


ہر طرف خاموشی تھی۔ سب کی نظریں نوجوان تاجر کا معاصرہ کر رہی تھیں۔ اس کی آنکھوں کی بے چینی سب کا دل دھڑکا رہی تھی ۔وہ ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔ سامنے ہی اس کا باپ کھڑا تھا اور اس کے بالکل ساتھ اس کا ہونے والا سسر۔ اب تک اس کی نظریں بار بار بس آسمان کی طرف ہی اٹھتی جاتی تھیں۔ وہ اتنا خوبصورت اور معصوم تھا کہ ، اس کی یہ حالت دیکھ کر رودینے کو دل چاہتا تھا۔ وہ ایسا بہادر اور زندہ دل تھا کہ آئینہ اس سے چھین کر توڑ دینے کو دل چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔ بھلا اس جیسا معصوم صورت۔۔۔۔۔۔ بھلا اس جیسا جوان۔ ۔۔۔۔ ۔وہ ایسا کیا کر بیٹھا ہے کہ ایسے کانپ رہا ہے۔۔۔۔۔۔ اس کی دودھیا پیشانی پر ہولناک لکیریں کھینچے لگیں ۔۔۔۔۔ ۔اس کی چاند روشن آنکھوںمیں سیاہی اترنے لگی۔

میں اس شہر کا تاجر۔۔۔۔۔۔محمد صالح کامل ہوں۔۔۔۔۔۔
اس نے آئینہ پکڑ کر اپنے سامنے کر کے ہجوم کی طرف پھیر دیا۔

”میں۔۔۔۔۔۔مم۔۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔۔”
آئینے میں دکھائی دینے والا محمد صالح اور آئینے کے پیچھے بیٹھا صالح سسکنے لگا ۔۔۔۔۔۔ پھر دونوں رونے لگا۔۔۔۔۔۔ صالح کے باپ نے اپنی نم آنکھوں کو پونچھا۔ شہر والوں کا دل بھی بھر آیا۔ اس کا رونا ایسا تھا کہ انہیں اس پر ٹوٹ کر پیار آیا۔۔۔۔۔۔
”یا اللہ ۔۔۔۔۔۔یااللہ۔۔۔۔۔۔ اے میرے رب۔۔۔۔۔۔” آئینے میں محمد صالح کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ آئینے کے پیچھے بھی وہ یہی کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
آئینہ سفید ہو نے لگا۔۔۔۔۔۔ وہاں سے اس کی صورت مٹنے لگی۔۔۔۔۔۔ اس کی سسکیاں سب سن سکتے تھے لیکن اس کے علاوہ آئینہ کچھ سنانے کے لیے تیار نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ کچھ بتانے کے لیے۔۔۔۔۔۔ کچھ دکھانے کے لیے۔۔۔۔۔۔

میرے صالح ۔۔۔۔۔ ۔تم نے۔۔۔۔۔۔ تم نے بروقت کی۔۔۔۔۔۔” آنکھیں پونچھے ہوئے صالح کے باپ نے بیٹے سے کہا۔ا س نے نم آنکھوں سے باپ کو دیکھا اور آنسو پونچھتے ہوئے ، یا اللہ ، یا اللہ کہتے ہوئے ہجوم کو چیرتا ہوا بھاگ گیا۔ سارا شہر جیسے جان گیا کہ وہ کہاں گیا ہو گا۔۔۔۔۔۔بندہ اپنے رب کی بندگی پانے۔۔۔۔۔۔

اسباق القدر۔۔۔۔۔۔آخر ی سبق۔۔۔۔۔۔
”تم میں سب سے برا یہ ہے۔۔۔۔۔۔” فقیر نے آئینے کو تھیلے میں رکھتے ہوئے عالم کی طرف اشارہ کیا۔ ”جس نے حاکم شہر کا انجام دیکھ لینے پر بھی اپنے اعمال پر نظر ثانی نہیں کی۔ اور توبہ نہیں کی۔”

”تم میں سے بد ترین یہ ہے۔۔۔۔۔۔ ”اس نے حکیم کی طرف اشارہ کیا۔” جس نے دو کا انجام د یکھ لینے پر بھی یہی سوچا۔ ”میں۔۔۔۔۔۔میں ۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔”

”اور تم میں سے سب سے بہترین یہ نوجوان ہے جس نے ان تینوں کے انجام پر اپنے اعمال پر نظر کی۔ اس نے اپنے ایک ایک عمل کو ٹٹولا اور دل ہی دل اللہ سے توبہ کی۔ اللہ نے اس کے لیے اس آئینے کو ہی اندھا اور گونگا کر دیا ۔۔۔۔۔ ۔یہ ہے تمہارا رب۔۔۔۔۔۔ تمہار ے پہاڑ گناہ، اور سمندر خطائیں معاف کر دینے والا۔۔۔۔۔۔ پہچانو اپنے رب کو۔۔۔۔۔۔ جو جو اپنے گناہ پہچان لے گا، توبہ کر لے گا اللہ اس کے گناہ پر پردہ ڈال دے گا۔ وہ اسے ایسے اپنا لے گا جیسے پھول خوشبو کو۔

ایسے ر ب کو بھول کر تم کہاں گمراہ ہو؟؟ تمہاری زندگی اس کی بندگی، اس کی محبت کے لیے ہی کتنی تھوڑی ہے۔ پھر تم کہاں گناہوں کی زیادتی میں بھٹکتے ہو۔

انسانوں میں بہترین انسان وہی ہے جو اپنے اعمال پر نظررکھتا ہے۔ تم میں سے سب سے برا وہ ہے جو خود کو اچھا سمجھتا ہے ۔ سب سے بڑا جھوٹا وہ ہے جو خود کو سچا سمجھتا ہے۔ بدترین متکبر وہ ہے جو خود کو عاجز سمجھتا ہے۔ جو خود کو مومن سمجھتا ہے وہی تواصل بد بخت ہے ۔ جو اپنی بڑائی میں مبتلا ہے وہ شرک کے راستے پر ہے۔ جو گردن کو اکڑا کر رکھتا ہے، وہی تو اصل فرعون ہے۔ جو انسان بننے سے چوک گیا ہے، وہ خدا بننے کی گمراہی میں بھٹک رہا ہے۔

جو حقیقی مومن ہے وہ اپنے گناہوں کی توبہ میں مصروف ہے۔ جو سچا ہے و ہ اپنے جھوٹ پکڑ رہا ہے۔ جو اللہ والا ہے، وہ اللہ سے ڈرنے والا ہے۔ وہ اپنا دل شیطان کے سپرد کر کے، اس کے نقش قدم پر چلنے والا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔

تم میں سے جو حقیقی ”محب رب”(اللہ سے محبت کرنے والا ) ہے، وہ صرف وہی ہے جو ہر سبق یاد رکھنے والا ہے۔

ختم شد



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

محب رب (افسانہ) آخری حصہ تحریر: سمیرا حمید ہر طرف خاموشی تھی۔ سب کی نظریں نوجوان تاجر کا معاصرہ کر رہی تھیں۔ اس کی آنکھوں کی...

محب رب (افسانہ) ۔۔۔ حصہ چہارم

Image may contain: text

محب رب (افسانہ)
حصہ چہارم
تحریر: سمیرا حمید


سب کی نظریں بار بار نوجوان تاجر کی طرح اٹھتی جاتی تھیں۔ و ہ پسینہ پسینہ ہو رہا تھا۔ بار بار اپنی اپنی پیشانی مسل رہا تھا۔ اس کی گھبراہٹ کچھ ایسی دل دہلا دینے والی تھی کہ اسے دیکھ کر یقین ہوتا تھا کہ اس کی دال ضروری پوری ہی کالی ہے۔

آئینہ شہر کے حکیم کے سامنے آیا۔ حکیم چاہتا بھی تو اب انکار نہیں کر سکتا تھا۔ شہر کے لوگوں کی آنکھیں پوری طرح سے اپنا رنگ بدل چکی تھیں۔ اب وہ پیچھے ہٹتا تو لوگ اسے اس سے کہیں زیادہ گناہ گار مانتے جتنا وہ ہوتا۔

”پھر میں نے کیا ہی کیا ہے۔۔۔۔۔۔ ”حکیم نے اطمینان بھری سانس لی۔” نہ میں خدا بنا رہا اور نہ میں نے لوگوں کو رب کے قہر سے ڈرایا ۔ میں نے تو لوگوں کو ان کی بیماریوں میں راحت دی ۔ ان کی تکلیفیں کم کییں۔انہیں شفاء دی۔”

حکیم صاحب نے آئینے میں خود کو دیکھا پھر اس کا رخ سب کی طرح گھما دیا۔

میں حکیم عقیل بن شیراز ہوں۔ اس شہر کا شاید ہی کوئی ایک ایسا انسان ہوگا جو مجھے نہیں جانتا ہوگا۔ کیا بادشاہ کیا فقیر، کیا مسافر کیا پردیسی میرے ہاتھ سے جس نے شفاء نہیں پائی ہو گی۔ میں نے کچھ ایسی جڑیاں بوٹیاں دریافت کی ہیں کہ مجھ سے پہلے شاید ہی کوئی ان جڑی بوٹیوں اور ان کے خواص سے واقف رہا ہو۔ میں نے ان سے حکمت کا عرق نچوڑ لیا ہے۔ دور دیس میں ایک وباء پھوٹ نکلی تھی، لوگوں کی آنکھیں پھول جاتی تھیں، ان سے خون رسنے لگتا تھا، اور وہ اندھے ہو جاتے تھے۔ میری بنائی دوا وہاں معجزے کے نام سے مشہور ہو گئی تھی۔ انعام کے طور پر مجھے لوگوں نے کیا کچھ نہیں دیا۔ کن کن اعزازوں سے نہیں نوازا۔ میں نے حکمت کا کوئی ایسا در نہیں چھوڑا جس کی دہلیز کو پار نہ کیا ہو۔ کوئی ایسی بیماری نہیں جس کا میں علاج نہ کر سکتا ہوں۔ کوئی ایسی بیمار نہیں تھاجو میرا ہاتھ لگنے سے شفایا ب نہ ہوا ہو۔۔۔۔۔۔”

میں یہ ۔۔۔۔۔۔ میں وہ ۔۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔

ایک بیمار کے علاج کے لیے میں شہر سے باہر گیا تھا۔ واپسی پررات ہو گئی۔ ایک غریب کی جھونپڑی میں رات گزارنی پڑی۔ وہ ایک آنکھ سے اندھا، ایک کان سے بہرا، ایک ہاتھ، ایک پیر سے مفلوج تھا۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ اس کی بیماری پیدائشی ہے یا وہ کسی وباء کا شکار ہوا ہے میں نے اسے ہاتھ لگایا تو اس نے میرا ہاتھ جھٹک کر پرے کر دیا ۔

”میں تمہیں ٹھیک کر سکتا ہوں۔ فکر نہ کرو۔” مجھے اس کا ہاتھ جھٹکنا برا تو لگا لیکن میں ضبط کر گیا۔

”تم؟؟” اس نے دانت پیسے۔ ”ہونہہ۔۔۔۔۔۔مجھے ہاتھ نہ لگانا۔ رات گزارو اور صبح ہوتے ہی نکل جانا۔”

”وہ تو ٹھیک ہے لیکن میں تمہیں۔۔۔۔۔۔”اس کی نخوت نے میرے خون کو جوار پھاٹا بنا دیا تھا۔

جس میں”میں۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔میں ”ہو وہ خود کو ٹھیک نہیں کر سکتا، مجھے کیا کرے گا۔”

”کیسی میں؟”

”میں”بیماروں کو ٹھیک کرتا ہوں۔ میں دوا بناتاہوں۔ میں جڑی بوٹیاں کھوج نکالتا ہوں۔ میں شفاء دیتا ہوں ۔۔۔۔۔۔میں ۔۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔”نفرت سے اس کے ہونٹ سکڑ گئے۔

”میں یہ سب کرتا ہوں تو ”میں” کہتا ہوں۔”

”تو پھر خدا کیا کرتا ہے۔۔۔۔۔۔؟؟”

”خدا بیماروں کے علاج کے لیے زمین پر نہیں آتا۔”

”وہ آئے گا کیوں؟ جب وہ یہیں موجود ہے۔ آتا تو وہ ہے جو جات اہے ۔۔۔۔۔۔جو ہمیشہ موجود ہے، وہ غیر موجود کیسے ہو گا؟

”وہ خود تو آکرعلاج نہیں کرتا نا میرے بھائی۔۔۔۔۔۔”

”وہی علاج کرتا ہے۔۔۔۔۔۔وہی شفاء دیتا ہے۔۔۔۔۔۔”

”اللہ نے ہی کہا ہے کہ دعا اور دوا کرو۔ دوا بنی تو حکمت بنی اور مجھ جیسا ناچیز حکیم۔۔۔۔۔۔”

دوا بنی، حکمت اور حکیم بھی۔۔۔۔۔۔لیکن تکبر کیسے بنا؟؟

مجھے اس ایک آنکھ کے اندھے سے بہت بے زاری ہوئی۔”ہاں میرے بھائی! میں جانتا ہوں کہ بے شک اللہ ہی سب کو شفاء دینے والا ہے۔ ہم سب تو بس ذریعہ ہیں۔”

”تم خود کو ذریعہ نہیں سمجھتے۔۔۔۔۔۔ کل سمجھتے ہو۔۔۔۔۔۔ اگر تم ایسے ہی کامل ہو تو بتاؤ تکبر کا کیا علاج ہے؟”

میں تمسخر سے ہنس دیا۔ ”اس کا تو پتا نہیں لیکن پاگل پن کا علاج ہے۔۔۔۔۔۔شہر پہنچتے ہی تمہیں دوا بھجواتا ہوں۔”

میں نے اس پاگل کو دوا تو نہیں بھجوائی لیکن اپنی وہ دوائیاں جن کی شہرت چار عالم میں تھیں بنانے میں مصروف رہا ۔ میں بیماروں کو یہ دوا دیتا جاتا اور عاجزی سے کہتا جاتا ۔۔۔۔۔۔”بے شک اللہ ہی سب کو شفاء دینے والا ہے۔”

لیکن میں تو یہ مانتا تھا کہ یہ میں ہوں جو اتنا لائق فائق ہوں۔ یہ میں ہوں کہ حکمت نے اپنے سارے راز مجھ پر کھول دیے ہیں۔ کون ہے جو میری طرح بیمار کو ہاتھ لگائے اور وہ اٹھ کر کھڑا ہو جائے۔ کون ہے جو قر ب المرگ کو زندگی کی سانس دے دے۔ کون ہے جو کئی ملکوں اور شہروں کو وبائی امراض سے چھٹکا ا دلاچکا ہو۔  یہ میں ہوں کہ جنگل جنگل گھومتا ہوں اور جڑیاں بوٹیاں اکھٹی کرتا ہوں۔  لوگ میری تعریف میں رطب اللسان ہوتے تھے۔ شاعر میرے شان میں قصیدے لکھتے تھے۔ وزیر، مشیر، بادشاہ مجھے انعام و اکرام دیتے تھے۔ میرے کئی با عزت نام تھے۔

”بے شک اللہ ہی ہے۔۔۔۔۔۔”

میری زبان سے عجز و انکسار کے اظہار کی کوئی حد نہیں تھی ۔میں نے قرآن کی آیات یاد کر لی تھیں۔ علاج کے دوران میں دکھاوے کے لیے ان کا ورد بھی کرتا جاتا تھا تاکہ لوگوں پر میری بزرگی کا رعب پڑے۔ میں نے دیکھا کہ لوگوں نے میری بزرگی سے متاثر ہو نا شروع کر دیا ہے تو میں نے اپنا لباس بدل لیا۔ میں ایک درویش ایک برگزیدہ بندہ بن گیا، جس کے ہاتھ میں اللہ نے خاص شفاء دی ہے۔ جو جس بیمار کو ہاتھ لگاتا ہے وہ صحت یاب ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔

”پہلے تو تم صرف متکبر تھے اب منافق بھی ہو گئے ہو۔ یاد رکھنا اللہ نے جن لوگوں پر لعنت بھیجی ہے ان میں سے ایک منافق بھی ہے۔”

”کیسی منافقت؟”

”تم زبان سے عجز و انکسار ظاہر کرتے ہو، اصل میں تم متکبر ہو۔ تمہارے غرور کے ہزاروں فرشتے گواہ بن چکے ہیں۔ کئی درویش اور صوفی۔ بزرگ اور مجذوب تمہارے غرور کی حدت سے پناہ مانگتے ہیں۔ رائی کے دانے کے برابر جس میں غرور ہو گا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا(الحدیث)۔ تم نے تو اپنی زات میں غرور کے پہاڑ اکھٹے کر لیے ہیں۔ حکیم ہو، یہ نہیں جانتے کہ اس کا علاج کیا ہے۔ توبہ ہے اس کا علاج۔ اللہ کی پناہ مانگو۔۔۔۔۔۔”

”مجھ جیسے مشہور اور باعزت انسان پر لوگ کیچڑ اچھالتے ہی رہتے ہیں۔ میرا عاجزی میں تمہیں غرور دکھائی دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے میرے بھائی کہ میں تو اللہ سے ڈرنے والا بندہ ہوں۔ میں اور میری اوقات ہی کیا ہے جو غرور کروں۔ نہ جانے تم مجھ سے بد گمان کیوں ہو۔ مجھے تو اپنی ذات میں ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔”

”وہ تمہیں دکھائی بھی نہیں دے گا۔ کیونکہ جو غرور کرتا ہے، اس کی سب پہلے اندر کی آنکھ ہی بند ہوتی ہے۔ پھر اندر کی آواز۔ پھر آسمانی الہام۔ ۔۔۔۔۔پھر عقل سلب ہوتی ہے۔ پھر دل پر مہر لگتی ہے۔۔۔۔۔ ۔پھر توبہ کا وقت بھی نکل جاتاہے۔۔۔۔۔۔

”میں نے کبھی کسی کے ساتھ کچھ برا نہیں کیا، نہ ہی کسی کا برا چاہا ہے۔ پھر تمہارا میرے ساتھ ایسا رویہ غیر مناسب ہے۔”

”تم ا پنے ساتھ برا کر رہے ہو کیا یہ برا نہیں؟ تم وہ گناہ کر رہے ہو جو گناہوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے۔”

”اگر ایسا ہی ہوتا تو اللہ میرے ہاتھ سے شفاء چھین لیتا۔ کوئی بیمار مجھ سے شفایاب نہ ہوتا۔ میں ذلیل و خوار ہوتا۔”

”تم اس حد سے بھی آگے نکل چکے ہو جہاں دراز رسی کھینچ کر متوجہ کیا جاتاہے۔ تم ہدایت کی وہ سرحد بھی پار کر چکے ہو۔ اب بس توبہ کا دروازہ بچا ہے۔۔۔۔۔۔ اس کے بند ہونے سے پہلے ، اس میں داخل ہو جاؤ۔۔۔۔۔۔ اللہ کی پناہ مانگ لو۔۔۔۔۔۔ شیطان خود جس گناہ کا مرتکب ہوا اس نے تمہیں بھی اسی گناہ میں شریک کر لیا۔۔۔۔۔۔”

”یہ کیا بات ہوئی۔۔۔۔۔۔کیسی حد۔۔۔۔۔۔؟”

”تم مانتے ہی نہیں کہ تم تکبر کر رہے ہو۔۔۔۔۔۔تو اب بھلا بتاؤ یہ حد کیا ہوئی؟”

”میں نے ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کیاہے میرے بھائی۔ میں کیا میری اوقات کیا۔نا معلوم تم کہنا کیا چاہتے ہو۔”

”اچھا تو پھر سنو۔۔۔۔۔۔انسانوں میں ایک تکبر کرنے والا ایسا بد نصیب انسان ہوتا ہے جسے یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ متکبر ہو چکا ہے۔ تکبر ایک چھپا ہوا گناہ ہے۔ یہ کئی بہانوں اور دلیلوں کے ڈھیر میں دبا پڑا ہوتا ہے۔ اس کا بیچ بہت نیچے، بہت گہرائی میں بویا جاتا ہے۔ جب متکبر کو الہام کیا جاتا ہے کہ تو غرور کررہا ہے تو وہ اس الہام کو کہ” نہیں میں تو بڑا عاجز ترین بندہ ہوں” کہہ کر رد کر دیتا ہے۔

پہلے اس کے تکبر کا معاملہ اوراس کے اور اللہ کے درمیان رہتا ہے۔ اللہ الہا م کرتا ہے کہ اے بندے تو تکبر کر رہا ہے، باز آ۔ توبہ کر۔ تو وہ اس الہام کو زبانی ”توبہ استغفار” کہہ کر، ”میں تو بڑا عاجز بندہ ہوں” کہہ کہہ کر بہلاتا رہتا ہے۔ اس کادل پھر بھی نہیں بدلتا۔ پھر اسے نشانیوں کی صورت نصیحتیں کی جاتی ہیں ۔کبھی کلام قرآن کے ذریعے، کبھی کسی عام کتاب کے ذریعے، کبھی کسی انسان کی زبانی، کبھی کسی اور کے انجام کی صورت، کبھی کوئی قصہ سنایا جاتا ہے، کبھی کوئی درویش لایا جاتا ہے۔ ساری کائنات اسے نشانیاں لا لا کر دکھاتی ہے کہ یہ ہے تیرا غرور۔ ایسا ہے تیرا تکبر۔۔۔۔۔۔ اللہ اسے بتاتا ہے کہ تیرا تکبر تجھے لے ڈوبے گا بازآ جا۔۔۔۔۔۔ شیطان کے نقش قدم پر نہ چل۔۔۔۔۔۔

وہ باز نہیں آتا۔۔۔۔۔۔اس کا گناہ اپنی حد پھلانگ جاتاہے۔ وہ اس کے اور اللہ کے درمیان کے پردے سے نکل آتا ہے اور فرشتوں تک جا پہنچتا ہے۔۔۔۔۔ ۔یہ دوسرا بد ترین درجہ ہے۔۔۔۔۔۔ فرشتے جان جاتے ہیں کہ اللہ کا یہ بندہ تکبر جیسا شیطانی گناہ کر رہاہے۔ وہ کہتے پھرتے ہیں کہ اللہ کا یہ بندہ تکبر کرتاہے۔ یہ تکبر اسے لے ڈوبے گا۔۔۔۔۔۔ اس بندے کو توبہ کر لینی چاہیے۔۔۔۔۔۔اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔

وہ توبہ نہیں کرتا۔ پھر فرشتوں سے اس کا یہ گناہ مخلوق تک جا پہنچتا ہے۔۔۔۔۔۔یہ آخری اور بدترین درجہ ہے۔۔۔۔۔۔ جو گناہ صرف رب اور بندے کے درمیان تھا اب مخلوق اس کی گوا ہ بننے لگتی ہے۔ مخلوق متکبر کو متکبر کہتی ہے تو وہ مانتا نہیں۔عجز و انکسار ظاہر کرتاہے۔ مخلوق کہتی ہے تو وہ کہتا ہے۔
بے شک یہ سب اللہ ہی کی وجہ سے ہے۔ میں اللہ کا بندہ ہوں اور مجھے اللہ سے بہت پیار ہے۔بھلا میں کیا اور میری اوقات کیا۔

مخلوق طنز کرتی ہے تو وہ کہتا ہے، ”لوگ مجھ سے حسد کرتے ہیں۔ میرے خلاف افواہیں پھیلاتے ہیں۔ بھلا میرا غرور و تکبر سے کیا لینا دینا۔ اللہ گواہ ہے کہ میرا دل صاف ہے۔ میں تو توبہ استغفار کرنے والا ہوں۔ ” وہ ایسی عاجزی دکھاتا ہے کہ مخلوق خدا کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ لیکن دراصل وہ تو خود کو دھوکا دے رہا ہوتا ہے۔ وہ توخود کو بہلا رہا ہوتا ہے۔

حکیم ہنس دیا۔”آپ نے تو مجھے جہنمی ہی ثابت کر دیا۔ ایسا بھی کیا گناہ کر دیا میں نے۔ اللہ کا کمزور سا بندہ ہوں۔ بھلا میری اوقات ہی کیا ہے۔۔۔۔۔۔

”ہاں یہی عاجزی۔۔۔۔۔۔ یہی انکسار۔۔۔۔۔۔ یہ تمہیں لے ڈوبے گا ۔۔۔۔۔۔ اس نے تمہارے غرور پر پردے ڈال دیے ہیں۔ شیطان تمہیں ایسے ہی مطمئن کرتاہے۔ وہ کہتا ہے ”استغفار کہہ لو۔” تم زبانی کلامی استغفار کر لیتے ہو اور تکبر کی اصل جڑ کو روح میں پھلنے پھولنے دیتے ہو۔ ہفتے میں دو دن تم غریبوں میں کھانا تقسیم کرتے ہو۔ ایک دن مفت علاج کرتے ہو۔ نمازیں پڑھتے ہو ، روزے رکھتے ہو۔ یتیموں ، مسکینوں کی مدد امداد کرتے ہو۔ ضرورت مندوں کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہو۔ شیطان تمہیں تھپکتا رہتا ہے کہ اگر تم تھوڑا بہت تکبر کر بھی رہے ہو تو یہ ایسی کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ تمہاری پہاڑ نیکیاں، اور سمندر رحم دلی تمہیں جنت تک لے جائیں گی ۔لیکن تم جانتے ہی نہیں کہ ان بڑی بڑی نیکیوں کے پہاڑ، تمہارے غرور کی دلدل نگل لے گی۔ خود کو برتر سمجھتے ہو۔ تمہارے تکبر کی کنکریاں تمہاری نیکیوں کے سمندروں کو پی جائیں گی۔۔۔۔۔۔خاک کر دیں گی۔۔۔۔۔ ۔پھر کیا ہاتھ آئے گا؟”

”آپ اپنے اعمال کی بھی ایسے ہی فکر کرتے ہیں جیسے میرے اعمال کی فکر میں پریشان ہیں؟” میں نے طنز یہ پوچھا

انہوں نے افسوس سے مجھے دیکھا۔ ”افسو س تیرے تکبر کی جڑ تیری روح میں پختہ ہو چکی ہے۔ اب تجھے ہدایت کی باتیں مذاق لگتی ہیں۔ تو اتنا گمراہ ہو چکا ہے کہ سب نیکوکار، اللہ سے ڈرنے والے، صادق اور امین،مومن اور اہل دین تیرے انجام پر افسوس کرنے لگے ہیں۔”

آئینہ سیاہ ہو چکا تھا۔ سننے والوں کی سماعتیں دہک اٹھی تھیں۔ تکبر کی حدت نے انہیں جلانا شروع کر دیا تھا۔ رات کی سیاہی اور قندیلیوں کی روشنی آپس میں مدغم ہوتی سب کے دلوں پر الہام کر رہی تھیں کہ۔۔۔۔۔۔

تیسرا سبق:
ارشا د باری تعالی ہے۔ ”کبریائی بڑائی،عظمت، فخر ، تکبر) میری ردا (چادر) اور عظمت میرا ازار ہے (یعنی صرف میرا حق ہے) جو کوئی اس وصف میں میرے ساتھ مقابلہ کرے گا میں اس کو جہنم میں ڈال دوں گا اور مجھے اس کی کوئی پرواہ نہ ہو گی۔ جہنم متکبروں کا ٹھکانہ ہے۔” (حدیث قدوسی۔ابوداؤد۔ مسلم)

جاری ہے ۔۔۔۔




تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

محب رب (افسانہ) حصہ چہارم تحریر:  سمیرا حمید سب کی نظریں بار بار نوجوان تاجر کی طرح اٹھتی جاتی تھیں۔ و ہ پسینہ پسینہ ہو رہا ...

حجاج کرام اور مکہ و مدینہ کی حرمت ... خطبہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 19 جولائی 2019


حجاج کرام اور مکہ و مدینہ کی حرمت
خطبہ مسجد نبوی (اقتباس) 
 19 جولائی 2019 بمطابق 16 ذوالقعدہ 1440
امام و خطیب: فضیلۃ الشیخ جسٹس صلاح بن محمد البدیر
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل

فضیلۃ الشیخ جسٹس صلاح بن محمد البدیر حفظہ اللہ نے 16 ذوالقعدہ 1440 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "حجاج کرام اور مکہ و مدینہ کی حرمت" ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ دنیا کے ہر کونے سے حجاج کرام کے قافلے چلے آرہے ہیں، کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں دولت اور فرصت کے باوجود بھی بیت اللہ کی زیارت نصیب نہیں ہوتی ، مکہ اور مدینہ دونوں ہی انتہائی محترم شہر ہیں ، یہیں پر قرآن نازل ہوا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زندگی انہی دو شہروں میں گزاری، یہاں پر شکار کرنا، درخت یا پودوں کو کاٹنا بھی منع ہے۔ تو اسی لیے کسی مسلمان کو تکلیف دینا، دھوکا دینا، حجاج کرام کے ساتھ کیے ہوئے معاہدے کو توڑنا، ان کو دی جانی والی سہولتوں میں وعدہ خلافی کرنا وغیرہ سنگین نوعیت کے جرم ہیں، اسی طرح یہاں پر کسی بھی ایسی سرگرمی کی شرعاً اجازت نہیں جو امن و امان کو سبوتاژ کرے، نیز یہاں پر برائی یا کج روی کا محض ارادہ کرنے پر بھی اللہ تعالی کی طرف سے سنگین عذاب کی وعید ہے۔ حج کو ذاتی ، سیاسی ، علاقائی، فرقہ واریت پر مبنی مفادات میں استعمال کرنا اور اخلاقی جرائم اسی وعید کے ضمن میں آتے ہیں۔ پائیدار امن و امان کے قیام کے لئے حجاج کرام بھی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار جبکہ مسجد الحرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں سے بھی افضل ہے، پھر انہوں نے متعدد اہل علم سے ذکر کیا کہ فضیلت والی جگہ یا وقت میں جس طرح نیکی کا ثواب زیادہ ہوتا ہے اسی طرح گناہ کی سنگینی بھی بڑھ جاتی ہے۔ دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ: ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہے کہ مکہ یا مدینہ میں کسی بھی نیکی یا رمضان گزارنے کا ثواب ایک لاکھ گنا زیادہ دیا جاتا ہے، لیکن اتنا ہے کہ فضیلت والی جگہ اور وقت کے باعث نیکی کے اجر میں اضافہ ہو جائے، پھر آخر میں انہوں نے جامع دعا کروائی۔


تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ہیں، حمد خوانی اور شکر گزاری سے اللہ کی عنایتوں اور نوازشوں میں اضافہ اور تسلسل پیدا ہو جاتا ہے۔

فَالْحَمْدُ لِلَّهِ الْعَلِيِّ الْأَعْظَمِ
ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْجَلَالِ الْأَفخَمِ

تمام تعریفیں بلند و بالا اللہ کے لئے ہیں، وہ جبروت، اور عظیم جلال والا ہے۔

وَعَالِمِ الإِعْلَانِ وَالْمُكَتَّمِ
وَرَبِّ كُلِّ كَافِرٍ وَمُسْلِمِ

وہ ہر خفیہ اور اعلانیہ چیز سے با خبر ہے، وہ ہر کافر اور مسلمان کا پروردگار ہے۔

وَالسَّاكِنِ الأَرضَ بِأَمْرٍ مُحْكَمِ
وَرَبِّ هَذَا الْبَلَدِ الْمُحَرَّمِ

اسی نے اپنے حکم سے زمین کو ٹھہرایا ہوا ہے، اور وہی اس حرمت والے شہر کا پروردگار ہے۔

وَرَبِّ هَذَا الْأَثَرِ المُقَسَّمِ
مِنْ عَهدِ إِبْرَاهِيْمَ لَمَّا يُطْسَمِ

وہی عہد ابراہیم سے اب تک عیاں اس نشانی کا رب ہے۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں، یہ گواہی مجھے ہمیشہ فائدہ دے گی، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، آپ توحید کی دعوت دینے والے تھے۔ اللہ تعالی آپ پر ،آپ کی اولاد، ازواج مطہرات، صحابہ کرام اور پیروکاروں پر ہمیشہ ڈھیروں سلامتی اور برکتیں نازل فرمائے۔

مسلمانو!

هَذَا رَكْبُ الْحَجِيْجِ دَنَا
يَشُقُّوْنَ الْبِيْدَ وَيَطْوُوْنَ الْفَلَا

یہ حجاج کے قافلے 
صحراؤں اور ریگزاروں کا سینہ چاک کرتے ہوئے آ رہے ہیں۔

قَدْ سَدَّدُوْا الْاَنْضَاءَ ثَمَّ تَتَابَعُوْا
يَتْلُوْ رَعِيْلٌ فِي الْفَلَاةِ رَعِيْلًا

انہوں نے اپنی کمزور سواریوں کو بھی سدھار کر قافلے در قافلے
 ریگستانوں کو عبور کرنا شروع کر دیا۔

يَا لَيْتَ شِعْرِيْ هَلْ أُعَرِّسُ لَيْلَةً
فَأُشُمُّ حَوْلِيْ إِذْخِرًا وَجَلِيْلًا

کاش مجھے رات کا ایسا پڑاؤ نصیب ہو جائے
 کہ اپنے ارد گرد اذخر اور جلیل بوٹیوں کی خوشبو سونگھوں۔

وَأَحُطُّ فِي أَرْضِ الرَّسُوْلِ رَكَائِبِيْ
وَأَبِيْتُ لِلْحَرَمِ الشَّرِيْفِ نَزِيْلًا

اور میں اپنی سواریوں کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نگری میں باندھوں
 اور حرم شریف میں راتیں گزاروں۔

کتنے ہی پیادہ، سوار اور فضائی مسافر مختلف علاقوں کا سفر کرنے والے، اپنا روپیہ پیسہ بے دریغ خرچ کرنے والے لوگوں کو آپ دیکھیں گے کہ بغیر کسی عذر کے فریضہ حج کی ادائیگی میں تاخیر کرتے ہیں، حالانکہ وہ اب عمر رسیدہ ہو چکے ہوتے ہیں اور بوڑھے لوگوں میں شمار ہونے لگے ہیں۔

مَا شَاقَ قَلْبِيْ صَوْتُ الشَّادِنِ الْغَرَدِ
وَلَا ابْتِسَامُ الثَّنَايَا الغُرِّ عَنْ بَرِدِ

میرے دل میں چرندوں یا پرندوں کی آواز سننے کی امنگ پیدا نہیں ہوتی
 اور نہ ہی چمکتے دانتوں کی مسکراہٹ دیکھنے کی۔

وَلَا تَثَنِّيْ مِلَاحٍ بِالْحِمَي بَرَزَتْ
تَخْتَالُ فِيْ حُلَلٍ مِنْ عَيْشِهَا الرَغِدِ

نہ ہی دل میں ہواؤں سے لہلہاتی سر سبز چراگاہ میں
 پر سکون رہائش کی تمنا پیدا ہوتی ہے۔

لَكِنْ إِلَى حَجَّةٍ نُجْزَى الْجِنَانَ بِهَا
تِلْكَ الْمُنَى مِنْ عَطَاءِ الْوَاحِدِ الْأَحَدِ

البتہ حج کی آرزو ہے کہ جس کے بدلے میں جنت مل جائے،
 یہ خواہش بھی صرف اللہ تعالی کی طرف سے ہے۔

مسلمانو!

مکہ اور مدینہ دو پھولوں جیسے پاکیزہ شہر ہیں، یہ دونوں شہر اللہ تعالی کے ہاں مطلق طور پر سب سے زیادہ معزز ہیں، متفقہ طور پر اس دھرتی کے سب سے عظیم شہر ہیں ، کیونکہ مکہ جائے نزول وحی ، دین کا سر چشمہ، پر امن شہر، مسلمانوں کا قبلہ ، اہل ایمان کے دلوں کی دھڑکن اور ام القری ہے، اس شہر کا کوئی ثانی نہیں، یہ بے نظیر اور بے مثال شہر ہے۔

جبکہ مدینہ پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب شہر ہے، مدینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر، مسکن، جائے ہجرت، گہوارہِ سنت ، ایمان کا قلعہ، نیز اسلام اور مسلمانوں کی جائے پناہ ہے۔

وحی انہی دونوں شہروں میں نازل ہوئی ، رسالت کا سورج انہی دونوں شہروں میں طلوع ہوا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی صرف انہی دو شہروں میں گزاری۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا: (جس دن اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اسی دن اس شہر کو حرمت والا قرار دیا، اس لیے یہ شہر اللہ کی طرف سے قیامت تک کے لیے محترم ہی رہے گا۔ اور مجھ سے پہلے یہاں کسی کے لیے قتال جائز نہیں ہوا اور میرے لیے بھی دن کی صرف ایک گھڑی کے لیے جائز کیا گیا۔ یہ شہر اللہ تعالی کی طرف سے قیامت تک کے لیے محترم ہے، لہذا یہاں کا کانٹا بھی نہ توڑا جائے اور نہ ہی یہاں کے شکار کو تنگ کیا جائے، نیز یہاں کی گری پڑی چیز بھی نہ اٹھائی جائے صرف اسے اجازت ہے جو اس گری ہوئی چیز کا [مالک تک پہنچانے کے لئے ]اعلان بھی کرے، نیز یہاں کی گھاس بھی نہ کاٹی جائے۔ ) تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: "اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اذخر کی اجازت دیں کیونکہ اسے لوہار اور گھروں میں استعمال کرتے ہیں " تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اذخر بوٹی کاٹنے کی اجازت ہے۔) متفق علیہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کو اسی طرح حرمت والا شہر قرار دیا جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا شہر قرار دیا تھا، تو جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو فرمایا: (مدینہ پر امن اور حرمت والا شہر ہے۔)

تو اگر حرم کے درخت اور شکار بھی محترم ہیں ، ان کا بھی شریعت میں مقام ہے تو مسلمان، ارکان حج اور حجاج کے امن و امان کا مقام اور مرتبہ کتنا بلند ہو گا؟! اس لیے کسی بھی مسلمان کو بلد الحرام میں کسی بھی ایسی سرگرمی کی اجازت نہیں ہے جو یہاں کے امن و امان ،نظام ، استحکام اور زائرین و شہریوں کے آرام کو سبوتاژ کرے، کوئی حاجی کسی بھی مسلمان کو زبانی یا جسمانی تکلیف نہ پہنچائے؛ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ}
اور جو بھی اس شہر میں ظلم کرتے ہوئے کج روی اختیار کرنے کا ارادہ کرے تو ہم اسے درد ناک عذاب چکھائیں گے۔ [الحج: 25]

اگر محض کج روی کا ارادہ اور نیت ہی درد ناک عذاب کے موجب ہیں تو :

حدیں پامال کرنے والے۔۔۔

جرم کرنے والے۔۔۔

قتل کرنے والے ۔۔۔

پر امن افراد کو دہشت زدہ کرنے والے۔۔۔

کمزور کو تکلیف پہنچانے والے۔۔۔

ناتواں پر ظلم ڈھانے والے۔۔۔

کسی حاجی کا مال نا حق کھانے والے کا کیا بنے گا؟!

کہ حاجی سے کیے ہوئے معاہدے کو بدل دے، یا معاہدے کی پاسداری نہ کرے، یا وعدہ خلافی کرے؟ ایسے شخص کی اللہ تعالی کے ہاں سزا کتنی ہوگی؟! ایسا شخص تو حرمت والے وقت! حرمت والی جگہ !! اور انسان کی حرمت بھی پامال کر بیٹھا ہے!!

[عبد مناف کی اہلیہ سبیعہ بنت احب نے اپنے بیٹے خالد کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا:]

أبُنَيَّ لَا تَظْلِمْ بِمَكَّةَ
لَا الصَّغِيْرَ وَلَا الْكَبِيرْ

میرے بیٹے! 
مکہ میں کسی چھوٹے یا بڑے پر ظلم مت کرنا۔

وَاحْفَظْ مَحَارِمَهَا بُنَيَّ
وَلَا يَغُرَّنْكَ الغَرُورْ

مکہ کی حرمت کا خصوصی خیال رکھنا، 
اور کبھی شیطان کے دھوکے میں مت رہنا۔

أَبُنَيَّ مَن يَّظْلِمْ بِمَكَّةَ
يَلْقَ أَطْرَافَ الشُّرُورْ

میرے بیٹے! 
مکہ میں ظلم ڈھانے والے پر ہر طرف سے مصیبتیں آتی ہیں۔

أبُنَيَّ يُضْرَبْ وَجْهُهُ
وَيَلُحْ بِخَدَّيْهِ السَّعِيرْ

میرے بیٹے! اسے چہرے پر مارا جائے گا 
اور اس کے گالوں پر آگ بھڑکے گی۔

أبُنَيَّ قَدْ جَرَّبْتُهَا
فَوَجَدْتُ ظَالِمَهَا يَبُورْ

میرے بیٹے! یہ میری مجرب بات ہے 
کہ یہاں ظلم ڈھانے والا تباہ ہو جاتا ہے۔

اَللهُ أَمَّنَهَا وَمَا
بُنِيَتْ بِعَرْصَتِهَا قُصُورْ

اللہ تعالی نے اس شہر کو
 اور یہاں بنے ہوئے گھروں کو بھی پر امن بنایا ہے۔

وَاللهُ أَمَّنَ طَيْرَهَا
وَالْعُصْمُ تَأْمَنُ فِيْ ثَبِيرْ

اللہ تعالی نے تو یہاں کے پرندوں کو بھی امن عطا کیا ہے
 اور ثبیر پہاڑ پر پہاڑی بکرے پر امن رہتے ہیں۔

وَالْفِيْلُ أُهْلِكَ جَيْشُهُ
يُرْمَوْنَ فِيْهَا بِالصُّخُورْ

ہاتھی والوں کا لشکر ہلاک کر دیا گیا
 اور ہاتھیوں کو پتھر مارے گئے۔

فَاسْمَعْ إِذَا حُدِّثْتَ
وَافْهَمْ كَيْفَ عَاقِبَةُ الْأُمُورْ

جب تمہیں بات سنائی جائے تو غور سے سنو،
 اور سمجھو کہ معاملات کا انجام کیسا ہوتا ہے۔


مسجد الحرام میں ظلم اور کج روی کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ یہاں حرام کام کا ارتکاب کریں یا حرام کو حلال سمجھیں؛ مثلاً: کوئی شرک و بدعات پر بر ملا عمل پیرا ہو، زنا کاری ، شراب نوشی، چوری، مکر و فریب کے ذریعے مال ہتھیانا، فرقہ واریت پر مبنی علامات آویزاں کرنا، بدعتی اور شرکیہ نعرے لگانا، حجاج کے مابین فتنہ، اختلاف، اور جھگڑا پیدا کرنا، حج کو جھوٹی خبریں پھیلانے کے لئے استعمال کرنا۔ حج میں سیاسی، نسلی، قومی، فرقہ واریت، یا نظریاتی مفادات حاصل کرنے کے لئے غلط باتیں پھیلانا اور دشمنیاں پروان چڑھانا وغیرہ مسجد الحرام میں ظلم اور کجروی کے مفہوم میں شامل ہے ۔

حج اور مشاعر مقدسہ کا مقام اس سے کہیں بالا اور برتر ہے کہ انہیں اس قسم کی گھٹیا حرکتوں کے لئے استعمال کیا جائے۔

حج کا انتظام اور امن و امان مضبوط ہاتھوں میں ہے، یہ ہاتھ تعمیری، محافظ اور درد دل رکھنے والے ہیں، یہ کبھی بھی کسی خبیث شخص کو کوئی منفی موقع نہیں دیں گے کہ حج کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرے یا اپنا کوئی ہدف پورا کر سکے۔

مسلمانو!

مکہ اور مدینہ کے باسیوں، رہائش پذیر لوگوں ، اور تمام حجاج، معتمرین اور زائرین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس معزز دھرتی کا مکمل احترام کریں، اس مقدس سرزمین کی ہر طرح سے حفاظت، رکھوالی، اور نگہبانی کریں، یہاں پر کسی قسم کی غلطی، گناہ، اور مہلک گناہ سے بچیں۔ حدود حرم میں کیا ہوا گناہ تعداد میں تو نہیں بڑھایا جاتا ہے لیکن اس گناہ کی سنگینی بڑھ جاتی ہے، اس لیے یہاں کیا ہوا گناہ کسی اور جگہ کے گناہ سے زیادہ سنگین ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اللہ کے شہر اور حرم میں کی ہوئی غلطی دھرتی میں کسی بھی جگہ کی ہوئی غلطی سے کہیں زیادہ سنگین ہوتی ہے۔"

اسی طرح مطالب اولی النہی میں ہے کہ: "نیکی اور بدی کا اثر فضیلت والی جگہ پر بڑھا دیا جاتا ہے؛ جیسے کہ مکہ ،مدینہ ، بیت المقدس اور مساجد وغیرہ ہیں۔ اسی طرح فضیلت والے وقت میں بھی اثر زیادہ ہو جاتا ہے، جیسے کہ جمعے کا دن، حرمت والے مہینے اور ماہ رمضان وغیرہ"

علامہ مرعی بن یوسف کرمی کہتے ہیں: "شریعت اسلامیہ میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ فضیلت والے اوقات اور حالات میں گناہ کی سنگینی بڑھ جاتی ہے، اسی طرح فضیلت والی جگہوں میں ہوتا ہے۔" آگے چل کر مزید لکھتے ہیں کہ: "جس جگہ یا وقت کی فضیلت جس قدر زیادہ ہوگی، وہاں پر گناہ کی سنگینی بھی اسی قدر بھیانک اور سنگین ہوگی؛ کیونکہ سفید جلد پر سیاہ تل واضح اور عیاں نظر آتا ہے۔"

قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "شریعت نے کئی جگہوں پر یہ واضح کیا ہے کہ جب کسی بھی جگہ کا احترام جتنا زیادہ بڑھتا جاتا ہے تو وہاں کی حرمت پامال کرنے پر سزا بھی اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے۔"

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "عظمت والے ایام اور عظمت والی جگہوں میں کی جانی والی معصیت کی سنگینی اور سزا میں اسی قدر اضافہ کیا جاتا ہے جتنی اس جگہ یا وقت کی فضیلت ہوتی ہے۔"

اس لیے حجاج کرام! آپ حالت احرام میں ہوں یا نہ ہوں اللہ تعالی کی طرف سے محترم قرار دی گئی چیزوں کی تعظیم کریں، حدود سے تجاوز مت کریں، اور نہ ہی کسی حرام کام کو اپنے لیے حلال سمجھیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
 { ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ عِنْدَ رَبِّهِ }
 ترجمہ: جو بھی اللہ تعالی کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو یہ اس کے لئے پروردگار کے ہاں بہتر ہے۔[الحج: 30]

حرمت والی اور محترم جگہیں یہ ہیں: مشاعر مقدسہ، بیت اللہ ، مسجد الحرام، اور مکہ مکرمہ؛ اس لیے جن کے احترام کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے آپ ان تمام جگہوں کا مکمل احترام کریں، انہی چیزوں کو مقدم رکھیں جن کو ترجیح دینے کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے، جس چیز کو حرام قرار دینے کا اللہ نے فیصلہ کر دیا ہے ان سے بچیں، تو تمہیں اللہ کا فضل، ثواب اور نعمتیں بھی حاصل ہو جائیں گی۔

مسلمانو!

احادیث مبارکہ میں مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں علمائے کرام کے صحیح ترین موقف کے مطابق فرض یا نفل سب نمازوں کے اجر میں عددی اضافہ ثابت شدہ ہے، جیسے کہ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میری اس مسجد میں نماز مسجد الحرام کے علاوہ دیگر تمام مساجد سے ایک ہزار نمازوں سے بھی افضل ہے، جبکہ مسجد الحرام میں ایک نماز دیگر تمام مساجد کی ایک لاکھ نمازوں سے بھی افضل ہے۔) احمد، ابن ماجہ

البتہ ایسی کوئی صحیح دلیل ثابت نہیں ہے کہ مکہ میں کی ہوئی کوئی بھی نیکی ایک لاکھ نیکیوں سے افضل ہو گی، نہ ہی یہ ثابت ہے کہ مکہ یا مدینہ میں گزارا ہوا رمضان ایک لاکھ گنا یا ستر گنا اضافی اجر رکھتا ہے، ان میں سے کسی چیز کے متعلق بھی احادیث میں ثبوت نہیں ہے، نہ ہی اس کی کوئی دلیل ہے؛ اس مفہوم کی تمام احادیث یا تو ضعیف ہیں یا من گھڑت اور جھوٹی ہیں۔

تاہم یہ بات صحیح ہے کہ کسی بھی فضیلت والی جگہ اور وقت میں کی ہوئی نیکی عددی طور پر نہیں بلکہ معنوی طور پر زیادہ ثواب اور اجر رکھتی ہے، اور جس کی دلیل عددی طور پر زیادہ ثواب کی ہے اس کا ثواب عددی طور پر بھی بڑھتا ہے۔

فضیلت والی جگہ اور وقت میں کی ہوئی بدی کا بوجھ اور گناہ بھی معنوی طور پر بڑھ جاتا ہے عددی طور پر نہیں بڑھتا۔

اس لیے مکہ اور مدینہ میں قیام کو غنیمت سمجھیں، ان دوران ڈھیروں نیک عمل کریں، توبہ اور استغفار کریں، اللہ کے سامنے عاجزی اور انکساری کا اظہار کریں، اپنی ندامت اور محتاجی اللہ کے سامنے رکھیں، اپنی ناتوانی اور ضرورت مندی بیان کریں؛ کیونکہ تم ایسی جگہ ہوں جہاں رحمت کا نزول ہوتا ہے، یہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں، یہاں مغفرت اور قبولیت ملتی ہے، یہاں پر جہنم سے آزادی دی جاتی ہے، اس دھرتی اور ایام کی عظمت ذہن میں رکھیں، اللہ تعالی تمہاری دعاؤں کو قبولیت سے نوازے اور تمہیں مغفرت عطا کرے، نیز تمہارے اعمال قبول فرمائے۔

احمد الہادی، شفیع الوری ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بار بار درود و سلام بھیجو، (جس نے ایک بار درود پڑھا اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا)


یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد پر درود و سلام نازل فرما، یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین، تمام صحابہ کرام، اہل بیت اور تابعین و تبع تابعین سے راضی ہو جا، اور ان کے کیساتھ ساتھ ہم سے بھی راضی ہو جا، یا کریم! یا وہاب!

یا اللہ! تمام حجاج کرام کا حج قبول فرما، یا اللہ! ان کے حج کو مبرور بنا، اور ان کی جد و جہد کی قدر فرما، ان کے گناہوں کو معاف فرما دے۔

یا اللہ! تمام حجاج کی ریاضتوں کو قبول فرما اور ان کی کاوشوں میں مزید بہتری پیدا فرما، یا اللہ! تمام حجاج کی ریاضتوں کو قبول فرما اور ان کی کاوشوں میں مزید بہتری پیدا فرما، یا اللہ! تمام حجاج کے درجات بلند فرما ۔ یا اللہ! ان کی تمام آرزوئیں پوری فرما دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہماری دعاؤں کو قبول فرما، یا اللہ! ہماری دعاؤں کو اپنی بارگاہ میں بلند فرما، یا کریم! یا رحیم! یا عظیم!



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

حجاج کرام اور مکہ و مدینہ کی حرمت خطبہ مسجد نبوی (اقتباس)   19 جولائی 2019 بمطابق 16 ذوالقعدہ 1440 امام و خطیب: فضیلۃ الشیخ جسٹس...

فیس ایپ ۔۔۔ ایک پیغام

Image result for faceapp

تحریر: افشاں نوید

"فیس ایپ" پر بیٹے انجوائے کررہے ہیں اپنے خوساختہ بوڑھے چہرے دیکھ دیکھ کر۔ ایک دوسرے کو دکھا رہے ہیں، ہنسی سے لوٹ پوٹ ہورہے ہیں ۔یہ زمانہ طالب علمی ہے ہی بے فکری کا دور۔جب کوئی ذمہ داری نہیں کاندھوں پر۔

 بیس برس کے چہرے پر پچاس کا چہرہ دیکھ کر بظاہر تو میں بھی ہنس پڑی لیکن دل یک دم ڈر گیا۔

ہم تو نہیں ہونگے اس وقت جب یہ بچے نانا دادا ہونگے۔ لیکن کیسے بتائیں ان کو کہ یہ وقت بڑی جلدی آجاتا ہے۔۔ بچوں، بن آہٹ، بن دستک دیے آجاتا ہے،لاکھ روکنا چاہو مگر گھڑی کی سوئیوں نے تھکنا نہیں سیکھا۔ وہ لمحہ بھر کو نہیں ٹھہرتیں اور۔۔۔ ۔ہم جیون ہار دیتے ہیں۔

یہ ٹیکنالوجی کا احسان ہے کہ مذاق ہی مذاق میں ایک پیغام تو ہے کہ اس عمر سے پہلے کچھ کرلینا۔

جب سانس پھولنے لگے، جب گوڈے گھٹنے جواب دینے لگیں، جب شوگر بن میٹھا کھائے بھی بار بار ہائی ہو جائے۔ جب بیک بون کے مہرے ڈس پلیس ہونے لگیں۔ جب بلڈ پریشر اور شوگر کے آلات بیڈ کے ساتھ والی میز کی زینت بن جائیں۔۔۔۔۔۔۔
دانت گنڈیری چوسنے، چنے چبانے، کاغذی اخروٹ و بادام کا چھلکا توڑنے کے بھی قابل نہ رہیں۔

"اماں آئس کریم کھائیں۔ کیا زبردست فلیور۔"اور جواب آئے۔"نہیں بچے ٹھنڈا لگتا ہے دانتوں میں"۔۔۔ "یہ دیکھیں آج محفوظ کے شیرمال لایا ہوں مزہ آجائے گا، قورمہ بنایا ہے ناں آپ نے"۔۔"نہیں میرے چاند کولیسٹرول لیول بڑھ جاتا ہے بے احتیاطی سے۔"
زندگی کے کتنے رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں۔ کتنی تمنائیں حسرتوں میں بدل جاتی ہیں۔

بچے ہنس رہے ہیں اور مجھے لگ رہا ہے کہیں بگل بج رہا ہے

ففرو۔۔ دوڑو
 وسارعو۔۔ جلدی کرو
 وسابقو۔۔۔ آگے بڑھو سبقت لے جاؤ۔۔ 
فلیتنافس المتنافسون ۔۔۔۔

کاش تین دہائی قبل جب ہم یونیورسٹی میں تھے کوئی ہمیں یہ چہرہ اس طرح دکھاتا تو شائد صراحی حیات کے کچھ قطروں کو سلیقے سے برت لیتے ۔ ضائع نہ کرتے اس چھوٹی سی چھاگل کے کسی قطرے کو امکانات کی حد تک۔

بچوں کے خیال میں یہ وقت بہت دور ہے۔ مجھ سے کوئی پوچھے تو بس  ایک رات جیسے سو کر اٹھ گئے۔۔
اتنی چھوٹی سی زندگی میں کرنے کے کام بے حساب ہیں۔
شاید فیس اپ کے مصنوعی بوڑھے چہرے وقت کی قدروقیمت کا احساس دلا رہے ہوں!!!

فیس ایپ ۔۔۔ ایک پیغام تحریر:  افشاں  نوید " فیس ایپ " پر بیٹے انجوائے کررہے ہیں اپنے خوساختہ بوڑھے چہرے دیکھ دیکھ کر۔ ...

محب رب (افسانہ) ۔۔۔ حصہ سوم

Image may contain: text

محب رب (افسانہ)
حصہ سوم
تحریر: سمیرا حمید


سارے شہر کو سکتہ ہو چکا تھا۔آئینہ بے رنگ ہو چکا تھا ۔وہاں کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ حاکم طلحہ بن مراد نے آئینے کو فقیر کی طرف اچھال دیا۔
”اچھا جادو ہے۔۔۔۔۔۔کیسے کیسے جھوٹ بول گیا۔”

کہہ کر اس نے شہر کے لوگوں کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں کے رنگ کو بدلا ہوا پایا۔ وہ اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
لعنت ہو تم پر۔۔۔۔۔۔” ایک نے اسے گھورتے ہوئے کہا ۔

فقیر نے آئینے کو عالم کی طرف بڑھا دیا۔ عالم کی گہری نظر نے فقیر کی آنکھوں میں جھانکنا چاہا۔۔۔۔۔ ۔پھر اس نے سامنے کھڑے لوگوں کو دیکھا۔ یہ وہی سب لوگ تھے جن کی زندگیاں اس کی تبلیغ نے بدل دی تھیں۔ ورنہ وہ سب تو بھولے بھٹکے ، جھوٹے، مکار اور بے ہدایتے لوگ تھے۔ وہ نہ ہوتا تو وہ سب کیسے جان پاتے کہ اللہ کو کون کون سا عمل ناپسند ہے ۔۔۔۔۔۔

اللہ کو انصاف پسند، رحمدل، اور معصوم دل پسند ہیں۔ اللہ کو معصومیت پسند ہے۔ ایسی معصومیت کہ کوئی نیکی کرے اور وہ اسے اللہ کا احسان سمجھے۔ اللہ کی دی توفیق۔ اس کی عطا کردہ ہدایت۔ اپنا کمال، اپنا ظرف ، اپنی طاقت نہ سمجھے۔ ایسی معصومیت کہ اگر وہ گناہ کر لے تو فورا توبہ کی طرف متوجہ ہو جائے۔ اللہ سے معافی مانگے۔۔۔۔۔۔ٹوٹی پھوٹی۔۔۔۔۔۔اچھی بری۔۔۔۔۔۔پکی سچی۔۔۔۔۔۔بس وہ معافی مانگے۔۔۔۔۔۔ اللہ کو گناہوں کی نشاندہی پسند ہے کہ بند ہ اپنے گناہوں پرنظر رکھے۔ اللہ کو وہ دل پسند ہے جو اس کی محبت سے لبریز رہتا ہے۔ اللہ کوبندگی پسند ہے۔ اس کی محبت سے بندھی ہوئی، اس کے خوف سے سہمی ہوئی نہیں۔ اللہ محبت ہے اور وہ محبت کو ہی محبوب رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔

فقیر نے عالم کی گہری نظر کا جواب سوال سے پہلے دے دیا تھا۔ وہ لوگوں کی طرف رخ کر کے کہہ رہا تھا۔ عالم نے اپنا ہاتھ پیچھے نہیں کھینچا اور آئینے کو اپنے سامنے کر لیا۔۔۔۔۔۔

میں اس شہر، اس ملک ، اس دنیا کا معتبر، باعلم ،عالم فاضل انسان ہوں۔ میں انصار بن جنید ہوں۔ جس نے علم کی تلاش میں تیس سال دنیا کی خاک چھانی ہے۔ عقل و شعورکے سمندر پیے، پہاڑ سر کیے، ویرانے پار کیے۔ آ گ میں جلا، پیاس سے مرا، بھوک سے تڑپا لیکن علم کی تلاش کو موخر نہیں کیا۔ میں علم کا ایسا سر چشمہ بنا چکا ہوں کہ ساری دنیا اس سے اپنی پیاس بجھاتی جاتی ہے لیکن میں ہوں کہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔ میری لکھی چود ہ کتابیں دنیا بھر کے کتب خانوں میں موجود ہیں۔ لوگ ان کتابو ں کو پڑھتے جاتے ہیں اور عالم فاضل بنتے جاتے ہیں۔ میں شہر شہر، کوچے کوچے جا کر لوگوں کو اللہ کی باتیں بتاتا ہوں ۔میں چاہتا ہوں کہ وہ اچھی طرح سے جان لیں اور سن لیں کہ اللہ ان سے کیا کہتا ہے۔۔۔۔۔۔”

وہ کہتا ہے کہ میں رحمن ہوں۔۔۔۔۔۔”’ ایک غیر معروف عالم نے مجھے سر راہ روک کر کہنے لگے۔
”میں نے کب کہا کہ وہ رحمن نہیں ہے۔”میں سمجھ سکتا تھا کہ یہ عالم میری شہرت سے حاسد ہے۔
پھر تم اللہ کو بس قہار ثابت کرنے پر کیوں بضد ہو؟
”کیا وہ قہار نہیں ہے۔۔۔۔۔۔؟؟”
قہار رب کی صفت ہے۔۔۔۔۔۔پورا رب نہیں۔۔۔۔۔۔
”پورا رب کون ہے؟”
الرحمن۔۔۔۔۔۔الرحیم۔۔۔۔۔۔الکریم۔۔۔۔۔۔

”تو تم چاہتے ہو کہ میں شہر کے چوروں، ڈاکوں، قاتلوں کو اللہ کے رحم کے قصے سناؤں۔ تاکہ وہ پہلے سے زیادہ گناہ کریں کہ اللہ تو معاف کر دے گا۔ چلو پہلے قتل کرتے ہیں، سود خوری سے پیٹ بھر لیتے ہیں پھر معافی مانگ لیں گے۔”

”یہ فیصلہ تمہیں نہیں کرنا کہ وہ کیا کریں گے۔ تم بس اللہ کی ہر صفت کو بیان کرو۔ اور یاد رکھو اللہ کا رحم اور محبت افضل ہیں۔ تمہیں کچھ چھپا کر نہیں رکھنا۔ تم مخلوق خدا کو صرف عذابوں اور سزاوں سے نہیں ڈرا سکتے۔ تمہیں اللہ کے رحم، توبہ اور معافی کے بارے میں بھی بتانا ہے۔”

”ان بد بختو ں کا اللہ کی محبت سے کیا لینا دینا۔۔۔۔۔۔”

بندگی کا ہر سبق محب رب (محبت کرنے والا)سے شروع ہوتا ہے۔ تم بندوں میں اللہ کی محبت جگائے بغیر انہیں بندگی نہیں سکھا سکتے۔۔۔۔۔۔”

”دنیا میں گناہوں کا بازار گرم ہے محترم! میرے کام میں مداخلت نہ کریں۔۔۔۔۔۔”

”شہرمیں چو ر وں، قاتلوں، لٹیروں، بے ایمانوں اور سود خوروں کی تعداد ہی کتنی ہے؟دو سو؟ تین سو؟”

”اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔دو ہوں یا دو سو۔۔۔۔۔۔”

”فرق پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔ کیونکہ دو، تین سو برے لوگو ں کے لیے تم نے باقی کی مخلوق کو اللہ سے ڈرا دیا ہے ۔وہ سمجھتے ہیں کہ خدا سخت عذاب میں مبتلا کرنے والے، قہر نازل کرنے والا رب ہے ۔ تم نے مخلوق سے اللہ کا رحم چھپا کر بڑا گناہ کیا۔”

”توکیا وہ ہر گناہ پر سوال نہیں کرے گا۔”میں نے اطمینان سے پوچھا۔

”وہ ہر گناہ پر سوال کرے گا لیکن وہ ہر گناہ کو معاف بھی تو کرتا ہے۔ تم نے لوگو ں کو توبہ کا نہیں بتایا۔ یہی کیوں بتایا کہ وہ جہنم کی آگ میں جھونک دیے جائیں گے۔ وہ ان کے لیے جہنم کے سات درجے دہکا رہا ہے۔۔۔۔۔۔”

”تو کیا جہنم دہکائی نہیں جا رہی؟ اس کے سات درجے نہیں ہیں؟”

”جہنم سے پہلے۔۔۔۔۔۔جنت سے بھی پہلے۔۔۔۔۔۔اس سے بھی پہلے کہ انسان پید ا ہوتا۔۔۔۔۔۔ اور اس سے بھی پہلے کہ یہ کائنات بنتی، رحم موجود رہا۔ پھر کائنا ت بنی۔ انسان وجود میں آیا، پھر اس کے اعمال ہوئے، پھر ان کی سز ا مقرر ہوئی۔۔۔۔۔۔ پھر اس سزا پر جہنم بنا۔۔۔۔۔۔ تم نے آخرین کو اولین کیسے کر بنا دیا۔ تم کیسے عالم ہو، تم اپنے رب کا ڈر لوگوں کے دلوں میں بٹھا رہے ہو۔ تم لوگوں کو خوف سے، آگ سے، سزا سے، موت سے ڈرا رہے ہو۔ تم لوگوں کو اللہ کی محبت میں مبتلا کیوں نہیں کرتے۔ تم انہیں اللہ کے رحم، کرم، فضل، اس کی معافی، اس کی محبت کی طرف کیوں نہیں بلاتے۔ تم انہیں یہ کیوں نہیں بتاتے کہ جب زمین و آسمان بنے تو رحم سو حصے بنا۔ ایک حصہ رحم اللہ نے مخلوق میں رکھا۔ اور باقی کا رحم اپنے پاس ۔کل مخلوق کے اس ایک حصہ رحم میں سے تمہاری ماں کے حصے کتنا آیا ہو گا؟؟ اس پر بھی تمہاری ماں نے تمہیں اپنی پیٹھ پر لاد کر گرم، تتپتا ہواصحرا تن تنہا پار کیا۔ صحرا کے کنارے وہ پیاس سے مر گئی ، لیکن پانی کی آخری بوندیں وہ تمہارے حلق میں اُتار گئی۔۔۔۔۔۔ ابھی بھی تمہیں اللہ کے رحم کا اندازہ کرنے میں مشکل پیش ہے۔۔۔۔۔۔ ابھی بھی تم اللہ کا رحم چھپاکر رکھنے کے در پر ہو۔”

”کیا اللہ کے رحم اور اس کی محبت کا سن کر لوگ بدل جائیں گے۔”

”اللہ کی محبت سے ہی تو دل بدلتے ہیں۔ چور بھی قاتل بھی۔ زانی بھی اور جاہل بھی۔ کبھی لوگوں کو خوف سے بدلتے ہوئے دیکھا ہے؟ خوف سے جسم بدلتے ہیں۔ سہم کر سکڑ جاتے ہیں۔ اپنی جگہ اور حیثیت بدل لیتے ہیں۔ د ل نہیں بدلتے۔ اگر میں تمہار ی گردن پر تلوار رکھ دوں تو کیا تم خدا کو چھوڑ کر مجھے اپنا خدامان لو گے؟ اچھا چلو خوف سے مان بھی لو گے تو کیا دل سے مجھے اپنا خدا تسلیم کرو گے۔ محبت کرو گے مجھ سے؟

اگر خوف سے سب کچھ ہونا منظور ہوتا تو اللہ نبیوں کو کیوں بھیجتا؟ پھر اللہ جنگجو بھیجتا۔ جو تلوار کے زور پر ، جاہ جلال، رعب اور طاقت سے لوگوں کو ایک اللہ پرایمان لانے کے لیے کہتے۔ پھر نبی بادشاہ اور شہنشاہ ہوتے جن کے نام سے ہی رعایا کا دم نکلتا۔ پھر وہ ریوڑ چرانے والے، مزدوری کرنے والے، ترکھان ، لوہار یا تاجر نہ ہوتے۔ پھر نبیوں کے پاس ہتھیار ہوتے، فوج ہوتی، دولت کے انبار ہوتے، خونخوار درندے اور بڑے بڑے قید خانے ہوتے۔ ایمان نہ لانے والے درندوں کے آگے ڈال دیے جاتے، قید خانوں میں قید کر لیے جاتے۔ جنگیں ہوتیں، لوگ زیر کر لیے جاتے۔ ہر طرف خون ریزی ، خوف اور طاقت کا بازار گرم رہتا۔ پھر ایک جہنم زمین پر بھی بنا دی جاتی۔

تم اتنی سی بات نہیں سمجھ سکے کہ اللہ نے اپنے نبیوں کو عام لوگوں جیسا کیوں بنایا۔ تاکہ لوگ ان سے خوفزدہ نہ ہوں۔ ان کی عز ت کریں لیکن ان کے رعب سے خائف نہ ہوں۔ وہ ان کی باتو ں کو عقل پر پرکھیں، سمجھ بوجھ سے جانیں۔ نہ کہ ان کے جاہ و جلال سے سہم کر ایمان لائیں۔ اللہ کو ایسے ایمان والے نہیں چاہیے۔ ورنہ اسلام تلوار کے زور پر قائم کیا جاتا۔ تم شہر شہر، گاؤں گاؤں، دیس دیس جاتے ہو اور بندوں کو جہنم کے عذابو ں سے لرزا کر رکھ دیتے ہو۔ تم نے کبھی انہیں یہ نہیں بتایا کہ۔۔۔۔۔۔

لوگوں نے گناہ کرنے چھوڑ دئیے ہیں۔”میں نے اس بحث کو ختم کرنا چاہا ۔میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ ان سے ایسی بے کار کی تکرار میں الجھا رہتا۔

”شاید۔۔۔۔۔۔اور لوگوں نے اللہ سے محبت کرنی بھی چھوڑ دی ہے۔ بچے اللہ کے خوف سے جھوٹ بولنا چھوڑ چکے ہیں۔ اب کوئی بچہ اللہ سے باتیں بھی نہیں کرتا کیونکہ وہ اللہ کے نام سے ہی سہم جاتاہے۔ کوئی عورت اللہ سے چپکے چپکے اپنے دل کا حال نہیں کہتی کیونکہ اسے لگتا ہے کہ اللہ کو بس نمازوں سے مطلب ہے اس کے دل کی باتوں سے نہیں ۔۔۔۔۔۔ کوئی مزدور سوکھی روٹی کھاتے ہوئے اللہ سے میٹھی روٹی کی فرمائش نہیں کرتا کیونکہ اسے یقین ہے کہ میٹھی روٹی کی فرمائش اس کی لالچ ہے۔ اور لالچی انسان جہنم میں جائے گا۔ تم نے انہیں اتنا زیادہ ڈرا دیا ہے کہ اللہ کے نام پر انہیں بس عذاب ہی عذاب دکھائی دیتا ہے ۔ اس کا رحم ، اس کی محبت نہیں۔”

”یہ سب اللہ کے اطاعت گزار بن چکے ہیں۔۔۔۔۔۔”میں اس سے بے زار ہو چکا تھا۔

”یہ سب بس اللہ کے غلام بن چکے ہیں۔ جو اپنے مالک کی سزا سے ڈرتا ہے، اس لیے کوئی گناہ نہیں کرتا۔ تم نے لوگوں کو بندگی نہیں ، غلامیت سکھائی ہے۔ جہنم سے ڈرے ہوئے غلام۔۔۔۔۔۔ اللہ کو یہی پیارے ہوتے تو اللہ کن کہتا اور سب کے دل اپنی طرف پھیر دیتا۔ اللہ نے نفس کیوں بنایا۔ اللہ نے انسان کو آزادی، سمجھ بوجھ، عقل شعور کیوں دی؟؟ کیونکہ اللہ کو غلام نہیں چاہیے تھے۔ اللہ کو بندے چاہیے تھے۔۔۔۔۔۔ اللہ کو ایسے اطاعت گزار نہیں چاہیے جو اس کی محبت کی طلب نہ رکھیں۔ ایسے بندے نہیں چاہیے جو بندگی کی چاہ نہ رکھیں۔۔۔۔۔۔”

میرے لیے یہ باتیں بے معنی تھیں۔ میں تو بس یہ جانتا تھا کہ خون کا بدلہ خون ہے۔ قاتل کا سر قلم ہو گا، چور کا ہاتھ کٹے گا، بے ایمان کو قید ہو گی، جھوٹے کی زبان جلے گی، ظالم ، سود خورکی پکڑ ہو گی ۔

ایک د ن مجھے قید خانے میں بلایا گیا ۔ موت کی سزا کا ایک قیدی مجھ سے ملنا چاہتا تھا۔ جس وقت میں وہاں پہنچا اس وقت اس کی سسکیوں سے قید خانے کی دیواریں لرز رہی تھیں۔ اس کے رونے نے دوسرے قیدیوں پر بھی رقت طاری کر دی تھی۔روشنی کے ذرے تک آبدیدہ تھے۔ ہوا کی سانسیں اس کے آنسوؤں سے نم تھیں۔

”کیا اللہ مجھے معاف کر دے گا۔”اس نے لجاجت سے میرا ہاتھ تھام لیا اور روتے ہوئے پوچھا۔

”تم نے ایک زندہ انسان کا قتل کیا ہے۔۔۔۔۔۔وہ تمہیں کیوں معاف کرے گا؟”

”میں شیطان کے بہکاوے میں آگیا تھا۔ کل میرا سر قلم ہونے جا رہا ہے۔ پھر کیا اللہ مجھ سے کلام کرے گا۔”

”وہ تم سے کلام کیوں کرے گا۔۔۔۔۔۔ تم نے یہاں دنیا میں اپنے کیے کی سزا بھگت لی تو تمہیں اوپر کوئی سزا نہیں ملے گی۔ ”

”میں سزا اور جزا کا نہیں پوچھ رہا۔۔۔۔۔۔ میں اللہ کا پوچھ رہا ہوں۔ کیا وہ میری طرف رخ کرے گا۔ کیا وہ مجھے دیکھے گا۔ کیا وہ مجھ سے محبت کرے گا۔ میرا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ میں اکیلا ہوں۔ کیا وہ میرا بنے گا؟ کیا وہ مجھے اپنا لے گا؟”

اسے کسی پل چین نہیں تھا۔ میں نے بے زاری سے اس کی طرف دیکھا۔ ”تم ایک قاتل ہو۔ اللہ کی محبت کی ایسی ہی فکر تھی تو قتل نہ کرتے۔ اب گڑگڑانے سے کیا حاصل۔”

وہ وہیں کا وہیں چپ ہو گیا۔ اس کی آنکھیں صدے سے سکڑ گئیں۔

”اللہ کی محبت پانے کے لیے میں نے خود کو کوتوال کے حولے کردیا۔ اپنے جرم کا اقرار کیا۔ میں نے توبہ کی۔ میں نے اللہ سے ہر طرح سے معافی مانگی ۔کیا اب بھی اللہ مجھ سے محبت نہیں کرے گا؟ کیوں؟ کس لیے؟ میرا اس کے سوا ہے ہی کون۔ اب وہ بھی مجھے نہیں اپنائے گا تو کون مجھے اپنائے گا؟ میں کہاں جاؤں گا۔” وہ زیر لب بڑ بڑا تا رہا۔

”کیا مومن اور قاتل برابر ہو سکتے ہیں؟ ”میں اس کی بڑ بڑاہٹ سے چڑ گیا۔

”میں اپنے کیے پرشرمندہ ہوں۔ معافی مانگ چکا ہوں۔”

”پھر بھی قاتل تو ہو نا ۔۔۔۔۔۔ اللہ تمہاری طرف نظر کرے گا یا اس مومن کی طرف جو رات دن عبادت میں مصروف رہتا ہے اور ہر حال میں اللہ کی اطاعت کرتاہے ۔جو اللہ سے ڈرتاہے، اور اپنی زندگی کو گناہوں کی سرحد سے بہت دُور رہ کر گزارتا ہے۔”

”اللہ کی محبت مقدار اور کمال میں کم تو نہیں ہو سکتی۔ اگر وہ اس مومن سے محبت کرتا ہے تو کچھ مجھ سے بھی کرتا ہو گا۔۔۔۔۔۔”

میں نے دیکھا کہ قید خانے کے بہت سے قیدی ہماری بات چیت بہت دلچسپی سے سن رہے ہیں۔ اگر میں اپنا رویہ نرم کرتا تو ان قیدیوں پر بر ا اثر پڑتا۔ پھر تو ہر انسان گناہ کیے جاتا اور توبہ کرتا رہتا۔ ایسے تو ہمیشہ گناہوں کا بازار ہی گرم رہتا۔

”تم نے اللہ سے اپنی محبت کھو دی ہے۔ بہتر ہے کہ سر قلم ہونے سے پہلے اچھی طرح سے توبہ کر لو۔ اور دعا مانگو کہ اللہ تمہیں جہنم کی آگ سے بچا لے۔”

”جہنم سے مجھے ڈر نہیں لگتا۔ وہ بے شک مجھے اسی میں جھونک دے۔۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔”

”چپ کر اے بد بخت۔۔۔۔۔۔چپ ہو جا۔۔۔۔۔۔”

یہ کہہ کر میں اسے روتا ہوا چھوڑ کر قید خانے سے باہر آگیا۔ دو دن بعد خواب میں مجھے وہی نوجوان نظر آیا۔ وہ خوش باش دکھائی دیتا تھا۔ پہلے تو وہ زیر لب مسکرا تا رہا پھر غصے سے مجھے گھورنے لگا اور انگلی اٹھا کر میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

اپنے انجام کے لیے تیار رہنا۔۔۔۔۔۔ تیار رہنا ۔۔۔۔۔۔ اللہ ایسا رحمن ہو گا اور میرے ساتھ ایسا معاملہ کرے گا ، دنیا میں مجھے اس کا اندازہ ہوتا تو میں بھوک کے خوف سے چوری نہ کرتا۔ چوری جیسے گناہ پر بھی وہ مجھ معاف کر دے گا تو میں چوری کے ظاہر ہو جانے کے خوف سے قتل نہ کرتا۔ میر ے قاتل بن جانے پر بھی وہ میری دعائیں سنے گا، میری توبہ قبول کرے گا تو میں ایک ایک سانس دعا کرتا، ایک ایک لمحہ توبہ کرتا۔۔۔۔۔۔ جتنا میں کر سکا اتنے پر بھی اس نے مجھ پر ایسارحم کیا کہ میں نے اسے پا لیا۔۔۔۔۔۔ لیکن تم اسے کیسے پاؤ گے؟؟ اصل بد بخت تو تم ہو۔۔۔۔۔۔

میں نے اس خواب کو اپنے ذہن کا فتور سمجھا۔ میں اپنی تبلیغ میں مصروف رہا اور بیرون شہر طوائفوں کے پاس گیا۔ انہوں نے اللہ کے عذاب سے ڈر کر چیخنا چلانا شروع کر دیا۔ وہ رونے پیٹنے تو لگیں لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی توبہ نہیں کی۔ شہر واپسی پر سرائے میں مجھے ایک دوسری طوائف ملی۔ وہ سیاہ چادر میں چھپی ہوئی تھی اور اپنے شہر سے بھاگ آئی تھی۔

”میں نے اللہ کے لیے یہ پیشہ چھوڑ دیا ہے۔ میری راہنمائی کریں۔” وہ میرے قدموں میں بیٹھ گئی۔

”تم نے توبہ کی۔۔۔۔۔۔؟”

”ہاں میں نے توبہ کی۔۔۔۔۔۔اب میرا رب مجھے ایسے اپنا لے گا جیسے پھول خوشبو کو۔۔۔۔۔۔”

”توبہ توبہ ۔۔۔۔۔۔ ناہجاز۔۔۔۔۔ ۔کہاں تو کہاں ہمارا رب ۔۔۔۔۔۔ اپنی اوقات دیکھی ہے۔ تو ایک طوائف ہے۔ سمندر کے پانی سے بھی نہا لے گی تو بھی اس لائق نہیں ہو سکے گی کہ رب العزت کی بارگاہ میں کھڑی ہو نے کی جرات کر سکے۔ یہی کیا کم ہو گا کہ اللہ تیرے گناہ معاف کر کے تجھے جہنم سے بچا لے گا۔”

”پر مجھے تو جہنم سے خوف نہیں آتا۔ بھلا جو آگ میں پلا بڑھا ہوا اسے آگ کیا ڈرائے گی۔”

”تو جنت میں جائے گی۔۔۔۔۔۔”

”جنت؟؟ جنت سے مجھے کیا لینا دینا !آپ ان دونوں کے مالک کی بات کریں۔ یہ پیشہ میں نے اس کے لیے چھوڑا۔ نہ جنت کے لالچ میں، نہ جہنم کے خوف سے۔”

میں نے ایک نفرت بھری نظر اس پر ڈالی۔ مجھے اس سے کراہیت آئی کہ ایک گناہ آلود جسم، ایک ناپاک زبان کیسے بار بار میرے رب کا نام لیتی ہے اور دعویٰ  کرتی ہے کہ اس نے اللہ کے لیے سب کچھ چھوڑا ہے۔ اب میرا رب اسے اپنا لے گا جیسے وہ کوئی معصوم دل، پاکیزہ روح ہی تو ہو۔ جیسے توبہ کرتے ہی اس کی حیثیت بدل گئی اور اس کے درجات بلند ہو گئے۔۔۔۔۔۔ہونہہ۔۔۔۔۔۔

”کیا خدا بھی مجھے ایسے ہی دیکھتا ہو گا؟؟” میری تحقیر بھری نظروں نے اسے افسردہ کر دیا۔

”ہاں بد بخت۔۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔۔”

وہ روتی ہوئی سرائے سے باہر بھاگ گئی۔ اس کی سیاہ چادر خاک آلود ہو گئی۔ ایسا لگا جیسے شدت غم سے وہ کسی کنوئیں میں چھلانگ لگانے جار ہی ہو۔۔۔۔۔۔

آئینہ دھواں دھواں ہو گیا۔ طوائف کی سسکیاں ان کے دل ڈسنے لگیں۔ ان کے کان اس کی توبہ سے دہکنے لگے۔ ان کی روحیں اس کی ”اللہ۔۔۔۔۔۔اللہ۔۔۔۔۔۔اللہ۔۔۔۔۔۔” کی پکار سے لرزنے لگیں۔ اللہ کے رحم اور اللہ کی محبت نے ان کے دلوں پر اپنا پہلا اثر چھوڑا۔۔۔۔۔۔اور وہ اس حقیقت کے گواہ ہوئے کہ۔۔۔۔۔۔

”جو زبان، جو دل، جو قلم، جو کتاب، جو انسان اللہ کے رحم کو چھپائے گا وہ سزا کا مستحق ہو گا۔ جو اللہ کی محبت سے پہلے کوئی دوسرا راستہ دکھائے گا وہ گناہ گار ہو گا ۔ جو ہدایت سے پہلے لعنت کا،علم سے پہلے جاہلیت کا، جزا سے پہلے سزا کا، رحم سے پہلے قہر کا،محبت سے پہلے بے زاری کا بتائے گا۔۔۔۔۔۔اللہ اس سے بے زار ہو گا۔۔۔۔۔۔”

دوسرا سبق:
قیامت کے دن اللہ فرمائیں گے کہــ ” میری ذات سے محبت کرنے والے آج کہاں ہیں؟ آج میں انہیں عرش کے سائے میں رکھوں گا۔ آج میرے سایہ کے علاوہ کسی چیز کا سایہ نہیں ہو گا۔”(الحدیث ۔مسلم)


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

محب رب (افسانہ) حصہ سوم تحریر:  سمیرا حمید سارے شہر کو سکتہ ہو چکا تھا۔آئینہ بے رنگ ہو چکا تھا ۔وہاں کچھ دکھائی نہیں دے رہا ...

محب رب (افسانہ) ۔۔۔ حصہ دوم

Image may contain: text

محب رب (افسانہ)
حصہ دوم
تحریر: سمیرا حمید


آئینہ کیا بولتا، سارا شہر بولنے کے لیے تیار تھا کہ وہ چاروں کیسے عظیم اور نیک فطرت انسان ہیں ۔ ان کے کردار ، اعمال اور افکار با وضو نمازی کی طرح پاک صاف تھے۔۔۔۔۔۔ان کا ظاہرو باطن آئینے کی طر ح شفاف تھا۔۔۔۔۔۔

چاروں ایک جگہ ساتھ ساتھ بیٹھ گئے۔ سب سے پہلے حاکم شہر نے اپنے سامنے آئینے کو رکھا اور پھر اس کا رخ ہجوم کی طرف موڑ دیا۔ طلحہ
”میں اس شہر کا حاکم طلحہ بن مراد ہوں۔میں ایک غریب لوہار کا بیٹا ہوں۔ مجھے پڑھنے لکھنے کا شوق تھا اور میں اس میں طاق بھی تھا۔ میرے استاد میری سمجھ بوجھ کے قائل تھے۔ لوگ میری علمی قابلیت کے مداح تھے۔ اپنی محنت اور لگن سے میں چھوٹے سرکاری عہدوں سے ترقی کرتا ہوا شہر کا حکمران بن گیا۔

میں نے شہر کے حالات بدلنے شروع کر دیے۔ مجھے غربت اور مصیبتوں سے نفرت تھی۔ اسی لیے سب سے پہلے میں نے شہر کی غربت مٹانی شروع کر دی تھی۔ لوگوں کی آسانی کے لیے کنوئیں کھدوانے شروع کر دیے۔ مسافروں کے لیے مسافر خانے، کسانوں کے لیے زرعی ساز و سامان کی فراہمی اور تاجروں کے لیے سرکاری کارواں کی سرپرستی شروع کر دی تھی۔ کھانے پینے اور عام استعمال کی چیزوں کی قیمتیں کم کر دی گئی تھیں۔ شہر میں مدرسوں اور مسجدوں کی تعداد شہریوں کی تعداد سے کچھ ہی کم ہو گی۔ کوئی صاحب علم ایسا نہیں تھا جسے کتابیں اور کتب خانے میسر نہ ہوں۔ میں نے دنیا بھر کی نایاب کتابوں سے کتب خانے بھر دیے تھے۔ علاج معالجے کی ایسی صورت حال تھی کہ پچھلے سات سالوں سے شہر میں کوئی وبا نہیں پھوٹی تھی۔ غرض کوئی ایسا کام نہیں تھا جو میں نے شہر اور شہریوں کی فلاح و بہود کے لیے نہ کیا ہو۔

ایک دن میں شہر کے دورے پر نکلا توکئی لوگوں نے میرے ہاتھ پکڑ پکڑ کر چومنے شروع کر دیے ۔وہ میرے آگے جھکے جاتے تھے۔ اس منظر نے مجھے دیوانہ کر دیا۔ لوگوں کے تعریف و توصیف سے بھرے جملے میرے کانوں میں گونجتے رہے۔ میں رات بھر سو نہیں سکا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں شہر کا حاکم نہیں ان سب کا حاکم ہوں۔ ان کے چہروں پر جو خوشی تھی وہ میرے ہی دم قدم سے تھی۔ بھلا میں نہ ہوتا تو وہ اتنے خوشحال ہوتے؟ نہیں۔۔۔۔۔۔وہ تو غربت زدہ اور پریشانیوں کے مارے ہوتے۔۔۔۔۔۔جاہل اور بیمار صورت۔۔۔۔۔۔

میں اگلے د ن پھر دورے پر نکلا۔ شہری دیوانے ہوئے جاتے تھے ۔وہ میرے نام کے نعرے لگا رہے تھے۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ مجھے اپنے سر کا تاج بنا لیں۔ میرے لیے اپنی گردنیں کٹوا دیں۔ مجھے اس منظر نے اتنا محظوظ کیا کہ میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے ہفتے میں ایک دن شہر کے دورے پر ضرور نکلنا چاہیے ۔میں نے اس شہر کے لیے خود کو ہلکان کیا ہے۔ میرا حق بنتا ہے کہ میں خود کو خوشی سے معمور کر لوں۔ اور جان لو ں کہ میں کون ہوں۔ میری حیثیت اور مقام کیا ہے۔ ۔

ایک دن سر راہ مجھے ایک بزرگ ملے۔ وہ کچھ غصے میں تھے ۔ انہوں نے کہا کہ میں ایک ایسا فرعون ہوں جو لوگوں کا پیٹ بھر رہا ہے اور اپنا نفس۔مجھے اس بزرگ کی بات پر غصہ آیا۔

”کیا میں رعایا کے حق میں کام نہیں کر رہا ؟؟”ان کی حقارت بھری نظروں کو نظر انداز کرنا مشکل تھا۔

کیسا کام؟؟ تم تو اپنے نفس کی اطاعت کرر ہے ہو۔ جو کام اللہ کی خوشنودی کے علاوہ کیا جائے وہ نفس کی اطاعت ہوتا ہے۔جو عمل، جو عزت، جو مرتبہ تمہیں خدا بنا دے ، وہ تو لعنت ہوتا ہے۔ اپنے ہاتھوں سے لعنت کا طوق بنا کر تم نے اپنے نفس کے گلے میں لٹکا دیا ہے۔۔۔۔۔۔اور کیسے خوش باش ہو۔۔۔۔۔۔

” بھوکوں کو کھانا مل رہا ہے ، جاہلوں کو علم۔گھروں میں رزق کی زیادتی ہے۔ ظلم ، نا انصافی کا بازار ٹھنڈا ہے۔ چور اچکے میرے نام سے ہی خوف کھاتے ہیں۔ کسی کی جرات نہیں کہ شہر کا امن و امان تباہ کر سکے۔”

نیت کا کھوٹ، سمندر سیا ہ کر دیتا ہے۔ سنا نہیں تم نے کہ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔ تمہارے کھرے عمل، تمہاری نیت کے کھوٹ میں بہہ گئے۔ اللہ کے محبوب ؐ نے دولت اور شہرت کی محبت کو دو بھیڑیے قرار دیا ہے۔ تم یہ سب لوگوں کی فلاح کے لیے نہیں اپنی تعریف و توصیف کے لیے کر رہے ہو۔ شیطان تم پر نقب لگا چکا ہے۔ وہ تمہیں اچھی طرح سے بہلا چکا ہے۔ تمہارا نفس شیطان کے ساتھ مل کر سازشیں کر رہا ہے۔ شہر اورشہریوں کی فلاح کے جھانسے میں وہ تمہیں اندھا کر چکا ہے۔۔۔۔۔۔ تم شہر کے حکمران نہیں رہے۔۔۔۔۔۔ تم نے خود کو انسانوں کا حکمران سمجھ لیا ہے۔۔۔۔۔۔ توبہ کر لو۔”

”کیسی توبہ ۔۔۔۔۔۔ جب کچھ کیا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔”میں نے قہقہہ لگایا۔

”یہی تو اصل گناہ ہے۔۔۔۔۔۔جو خود کو معصوم سمجھتا ہے ، وہی اصل گناہ گار ہے۔ جو خود کو نیک سمجھتا ہے، وہی تو بد بخت ہے۔ تو جانتا ہی نہیں کہ فرعون کیوں غرق ہوا؟؟ اس نے خدا کو ایک خدا کیو ں نہیں مانا؟ کیونکہ وہ خود کو خدا مانتا تھا۔”

”توبہ استغفار بزرگوار! میں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔۔۔۔۔۔ ایسا گناہگار نہیں ہوں میں۔”

”تو خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرا رہا کیونکہ تو خود کو خدا کے ساتھ شریک کر چکا ہے۔ تجھے نظر کیوں نہیں آرہا۔”

مجھے نظر آرہا تھا کہ بزرگوار کا دماغ چل پڑا ہے۔ عمر کی زیادتی نے انہیں دیوانہ کر دیا تھا۔

مجھے دوسرے شہر کے حاکم نے اپنے شہر کے دورے کی دعو ت دی تھی۔ اس شہر میں پہلے ہی میرے نام اور کام کی شہرت پہنچ چکی تھی۔ جس وقت میں شہرمیں داخل ہوا، اس وقت سارا شہر میرے نام کی پکار سے گونج اٹھا۔ مجھے دیکھنے کے لیے لوگ دیوانہ وار میرے گھوڑے کے ساتھ ساتھ بھاگ رہے تھے۔ خلق خدا مجھے دیکھنے کے لیے مری جاتی تھی۔
 شہر کے حاکم دین دار انسان تھے۔ انہوں نے بہت عاجزی سے میرا استقبال کیا تھا۔ وہ وہاں میری آمد پر بہت خوش تھے۔ لیکن میں شہر کے انتظامات اور صورتحال سے خوش نہیں تھا۔ جس کا اظہار میں نے شہریوں کے سامنے کر نا شروع کر دیا تھا ۔شہری اسی انتظار میں تھے کہ کوئی مجھ جیسا عقل مند آئے اور ان کے شہر کے حالات بھی بدل کر رکھ دے۔ انہیں تحریک چاہیے تھے جو میں نے انہیں دے دی اور وہ اپنے بوڑھے حاکم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کے خلاف کھلم کھلا نفرت کا اظہار کرنے لگے۔

شہریوں کی نفرت دیکھ کر حاکم شہر خاموشی سے اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے۔ اور ا ن کی جگہ مجھ جیسا جرات مند جوان، حاکم بن کر آگیا۔ وہ مجھے اپنا مرشد مانتا تھا اور میری بہت عزت کرتا تھا۔ میرے مشوروں پر اس نے شہر کے حالات بدلنے شروع کر دیے۔۔۔۔۔۔

”اپنے ساتھ ساتھ تم اسے بھی جہنم میں گھسیٹ رہے ہو۔ ”بزرگوار پھر مجھ سے ملنے آئے۔

”اگر زمین کو جنت بنانا گناہ ہے تو ہاں میں یہ گناہ کر رہا ہوں۔ اور خوشی سے کر رہا ہوں۔”

”تم زمین والوں کے لیے جنت نہیں، اپنے لیے جہنم بنا رہے ہو۔”

”آپ کی باتیں عجیب ہیں۔۔۔۔۔۔ بہتر ہے کہ آپ مجھ سے دُو ر رہیں، ورنہ آپ کی عز ت پر حرف آتے دیر نہیں لگے گی۔”

”دیر نہیں لگے گی حاکم شہر!زیادہ دیر نہیں لگے گی اور سوال جواب کا دن آجائے گا۔۔۔۔۔۔”

مجھے بزرگ کی بات پر ہنسی آئی۔ میرے عمل میں کہیں کوئی کھوٹ نہیں تھا۔ میں پوری ایمان داری سے لوگوں کی فلاح کے لیے کام کررہا تھا۔ میرا مقصد نیک تھا۔ میرا عمل بے داغ تھا۔ میری نیت سونا تھی۔ میری محنت، میری عقل با مقصد تھی۔ میں تو ایک مثالی حاکم تھا جس نے شہر کو ترقی کے عروج پر پہنچا دیا تھا۔

جمعے کے دن میں شہر کے دورے پر نکلا اور پھر جمعے کی نماز کے لیے مسجد چلا گیا۔ لوگ جو خطبہ سن رہے تھے وہ میری تعظیم میں اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور انہوں نے صفوں کی صورت،’ رکوع کی حالت میں جھک کر مجھے سلام کیا۔مجھے اس منظر نے بے خود کر دیا تھا۔ البتہ خطیب کی شکل بھینچ گئی۔ اس نے قہر برساتی نظروں سے میری طرف دیکھا۔

”تم نے تو خود کو خدا بنا لیا ہے۔نماز پڑھ لو تو اپنے لیے دعا کرنا کہ اے اللہ مجھے ہدایت دے۔”

میرے لب طنز سے وا ہو گئے۔”مجھ سے حسد تمہیں زیب نہیں دیتا۔۔۔۔۔۔”

”بھلا نالائقوں سے کیسا حسد۔۔۔۔۔۔”

نماز کے بعد میں مسجد سے باہر نکلا تو مسجد کے دروازے پر بیٹھے فقیروں نے مجھے غصے سے دیکھا۔ایک فقیر اُٹھ کر میرے پاس آیا اور کہا۔”لعنت ہو تم پر”۔

لوگوں نے اس فقیر کو پکڑ کر خوب مارا۔وہ پٹتا رہا اور میں دل ہی دل میں ہنستا رہا اور کہتا رہا”لعنت توتم پر ہو۔۔۔۔۔۔لعنت ہو تم پر۔”

پہلا سبق:
”جب میں نے غور کیا تو میں نے اپنے نفس کو شیطان کے ساتھ اپنے خلاف سازش کرتا ہوا پایا۔”(شیخ قادر جیلانی)

”انسان کو انسان بننے کی اتنی جلدی نہیں رہتی، جتنی خدا بننے کی رہتی ہے۔”

جاری ہے ۔۔۔۔۔ 



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

محب رب (افسانہ) حصہ دوم تحریر:  سمیرا حمید آئینہ کیا بولتا، سارا شہر بولنے کے لیے تیار تھا کہ وہ چاروں کیسے عظیم اور نیک فطر...