محب رب (افسانہ) ۔۔۔ آخری حصہ

Image may contain: text

محب رب (افسانہ)
آخری حصہ
تحریر: سمیرا حمید


ہر طرف خاموشی تھی۔ سب کی نظریں نوجوان تاجر کا معاصرہ کر رہی تھیں۔ اس کی آنکھوں کی بے چینی سب کا دل دھڑکا رہی تھی ۔وہ ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔ سامنے ہی اس کا باپ کھڑا تھا اور اس کے بالکل ساتھ اس کا ہونے والا سسر۔ اب تک اس کی نظریں بار بار بس آسمان کی طرف ہی اٹھتی جاتی تھیں۔ وہ اتنا خوبصورت اور معصوم تھا کہ ، اس کی یہ حالت دیکھ کر رودینے کو دل چاہتا تھا۔ وہ ایسا بہادر اور زندہ دل تھا کہ آئینہ اس سے چھین کر توڑ دینے کو دل چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔ بھلا اس جیسا معصوم صورت۔۔۔۔۔۔ بھلا اس جیسا جوان۔ ۔۔۔۔ ۔وہ ایسا کیا کر بیٹھا ہے کہ ایسے کانپ رہا ہے۔۔۔۔۔۔ اس کی دودھیا پیشانی پر ہولناک لکیریں کھینچے لگیں ۔۔۔۔۔ ۔اس کی چاند روشن آنکھوںمیں سیاہی اترنے لگی۔

میں اس شہر کا تاجر۔۔۔۔۔۔محمد صالح کامل ہوں۔۔۔۔۔۔
اس نے آئینہ پکڑ کر اپنے سامنے کر کے ہجوم کی طرف پھیر دیا۔

”میں۔۔۔۔۔۔مم۔۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔۔”
آئینے میں دکھائی دینے والا محمد صالح اور آئینے کے پیچھے بیٹھا صالح سسکنے لگا ۔۔۔۔۔۔ پھر دونوں رونے لگا۔۔۔۔۔۔ صالح کے باپ نے اپنی نم آنکھوں کو پونچھا۔ شہر والوں کا دل بھی بھر آیا۔ اس کا رونا ایسا تھا کہ انہیں اس پر ٹوٹ کر پیار آیا۔۔۔۔۔۔
”یا اللہ ۔۔۔۔۔۔یااللہ۔۔۔۔۔۔ اے میرے رب۔۔۔۔۔۔” آئینے میں محمد صالح کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ آئینے کے پیچھے بھی وہ یہی کہہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
آئینہ سفید ہو نے لگا۔۔۔۔۔۔ وہاں سے اس کی صورت مٹنے لگی۔۔۔۔۔۔ اس کی سسکیاں سب سن سکتے تھے لیکن اس کے علاوہ آئینہ کچھ سنانے کے لیے تیار نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ کچھ بتانے کے لیے۔۔۔۔۔۔ کچھ دکھانے کے لیے۔۔۔۔۔۔

میرے صالح ۔۔۔۔۔ ۔تم نے۔۔۔۔۔۔ تم نے بروقت کی۔۔۔۔۔۔” آنکھیں پونچھے ہوئے صالح کے باپ نے بیٹے سے کہا۔ا س نے نم آنکھوں سے باپ کو دیکھا اور آنسو پونچھتے ہوئے ، یا اللہ ، یا اللہ کہتے ہوئے ہجوم کو چیرتا ہوا بھاگ گیا۔ سارا شہر جیسے جان گیا کہ وہ کہاں گیا ہو گا۔۔۔۔۔۔بندہ اپنے رب کی بندگی پانے۔۔۔۔۔۔

اسباق القدر۔۔۔۔۔۔آخر ی سبق۔۔۔۔۔۔
”تم میں سب سے برا یہ ہے۔۔۔۔۔۔” فقیر نے آئینے کو تھیلے میں رکھتے ہوئے عالم کی طرف اشارہ کیا۔ ”جس نے حاکم شہر کا انجام دیکھ لینے پر بھی اپنے اعمال پر نظر ثانی نہیں کی۔ اور توبہ نہیں کی۔”

”تم میں سے بد ترین یہ ہے۔۔۔۔۔۔ ”اس نے حکیم کی طرف اشارہ کیا۔” جس نے دو کا انجام د یکھ لینے پر بھی یہی سوچا۔ ”میں۔۔۔۔۔۔میں ۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔”

”اور تم میں سے سب سے بہترین یہ نوجوان ہے جس نے ان تینوں کے انجام پر اپنے اعمال پر نظر کی۔ اس نے اپنے ایک ایک عمل کو ٹٹولا اور دل ہی دل اللہ سے توبہ کی۔ اللہ نے اس کے لیے اس آئینے کو ہی اندھا اور گونگا کر دیا ۔۔۔۔۔ ۔یہ ہے تمہارا رب۔۔۔۔۔۔ تمہار ے پہاڑ گناہ، اور سمندر خطائیں معاف کر دینے والا۔۔۔۔۔۔ پہچانو اپنے رب کو۔۔۔۔۔۔ جو جو اپنے گناہ پہچان لے گا، توبہ کر لے گا اللہ اس کے گناہ پر پردہ ڈال دے گا۔ وہ اسے ایسے اپنا لے گا جیسے پھول خوشبو کو۔

ایسے ر ب کو بھول کر تم کہاں گمراہ ہو؟؟ تمہاری زندگی اس کی بندگی، اس کی محبت کے لیے ہی کتنی تھوڑی ہے۔ پھر تم کہاں گناہوں کی زیادتی میں بھٹکتے ہو۔

انسانوں میں بہترین انسان وہی ہے جو اپنے اعمال پر نظررکھتا ہے۔ تم میں سے سب سے برا وہ ہے جو خود کو اچھا سمجھتا ہے ۔ سب سے بڑا جھوٹا وہ ہے جو خود کو سچا سمجھتا ہے۔ بدترین متکبر وہ ہے جو خود کو عاجز سمجھتا ہے۔ جو خود کو مومن سمجھتا ہے وہی تواصل بد بخت ہے ۔ جو اپنی بڑائی میں مبتلا ہے وہ شرک کے راستے پر ہے۔ جو گردن کو اکڑا کر رکھتا ہے، وہی تو اصل فرعون ہے۔ جو انسان بننے سے چوک گیا ہے، وہ خدا بننے کی گمراہی میں بھٹک رہا ہے۔

جو حقیقی مومن ہے وہ اپنے گناہوں کی توبہ میں مصروف ہے۔ جو سچا ہے و ہ اپنے جھوٹ پکڑ رہا ہے۔ جو اللہ والا ہے، وہ اللہ سے ڈرنے والا ہے۔ وہ اپنا دل شیطان کے سپرد کر کے، اس کے نقش قدم پر چلنے والا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔

تم میں سے جو حقیقی ”محب رب”(اللہ سے محبت کرنے والا ) ہے، وہ صرف وہی ہے جو ہر سبق یاد رکھنے والا ہے۔

ختم شد



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں