محب رب (افسانہ) ۔۔۔ حصہ اول

Image may contain: text

محب رب (افسانہ)
حصہ اول
تحریر: سمیرا حمید

بصرہ شہر میں قندیلیوں کی روشنی حاکم شہر کے اس باغ کو رات کا وہ آسمان بنا رہی تھی، جسے روشنی کے لیے چودھویں کے چاند کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ طلحہ بن مراد کے یہاں دعوت عام کا اہتمام تھا ۔سارا شہر موجود تھا کیا امیر کیا غریب۔ اگر کوئی موجود نہیں تھا تو وہ یقینا بد نصیب تھا۔ بن مراد کی دریا دلی کے سب گن گا رہے تھے۔ وہ سال میں ایک بار ایسی دعوت عام کا اہتمام ضرور کرتا تھا جہاں سب خاص عام ہو جاتے تھے اور عام خاص۔۔۔۔۔۔
اسی دعوت میں وہ چاروں باغ میں کھڑے دنیا جہاں کی باتیں نپٹا رہے تھے۔۔۔۔۔۔

حاکم شہر۔۔۔۔۔۔ جس کی انصاف پسندی کی بہت دھوم تھی۔ جس نے شہر کا انتظام ایسے سنبھالا ہوا تھا کہ دریا کنارے کتا بھی بھوک سے نہیں مرتا تھا۔ کوئی گھر ایسا نہیں رہا تھا جہاں خوش حالی کاراج نہیں تھا۔ کوئی ایسا جاہل نہیں بچا تھا جسے علم کے لیے مدرسہ میسر نہیں تھا۔ شہر میں پانی کا ایسا انتظام تھا کہ کیا نیل کے کنارے ہو گا۔ اس کی سخاوت اور سمجھ بوجھ نے اسے لوگوں کا محبو ب بنا دیا تھا۔کہ و ہ اسے ہر چیز اور ہر انسان سے زیادہ محبوب رکھتے تھے۔۔۔۔۔

محمد صالح نوجوان تاجر۔۔۔۔۔۔ جو ابھی کچھ دن پہلے بصرہ واپس آیا تھا۔وہ شہر کے لوگوں میں کچھ اس لیے بھی زیادہ مقبول تھا کہ وہ اپنے ساتھ ایسے ایسے دلچسپ قصے کہانیاں لایا کرتا تھا کہ د ل موہ لیا کرتا تھا۔ لوگ اس کی حس مزاح کے مداح تھے۔اس کی معصوم صورت پر پیار آتا تھا اور نیک طبیعت پر رشک۔ بن مراد اس کا بہترین دوست تھا، اسی لیے اس کی واپسی پر دعوت کا انتظام کر دیا تھا۔

مشہور و معروف عالم۔۔۔۔۔۔یہ علم کا ایسا گہرا سمندر تھے جس میں عقل و شعو ر کو حیران کر دینے والے خزانے سیپیوں میں موتیوں کی صورت مقید تھے۔ ان کے علم کے ستون انسانوں کی نجات پر کھڑے تھے۔ اس برگزیدہ ہستی نے اپنی زندگی اللہ کی راہ میں تبلیغ کے لیے وقف کر دی تھی۔

اور شہر کے معزز حکیم صاحب۔۔۔۔۔۔ ان کی رحمدلی اور شفقت کی تو کوئی مثال ہی نہیں تھی۔ ان کے چہرے پر روشنی کی طر ح پھیلی ہوئی مسکراہٹ موت کی راہ پرنکلی سانسوں کو ”زندگی” کی تھپکی دیتی تھی۔ ان کا حکمت بھرا علم، بیماروں کو نئی امید دیتا تھا۔ وہ بیمار کو کچھ ایسے ٹھیک کر دیتے تھے جیسے کوئی جادو گر ہوں کہ ہاتھ لگایا اور مرض ، شفاء میں بدل گیا۔

نوجوان تاجر محمد صالح کامل نے اپنا قصہ ختم کیا اور مشروب کی طلب پر آواز دینے کے لیے گردن کو پیچھے خم دیا تو اسے زرا دُور ایک بد حال فقیر کھانا کھاتا ہوا نظر آیا۔ فقیر شاید کہیں بہت دُور سے آیا تھا۔ اس کا حلیہ ایسا بد حال ہو چکا تھا کہ دیکھ کر ترس آتا تھا۔اس کے شانے پر کپڑے کا تھیلا ٹکا تھا، جسے اس نے کھانا کھاتے ہوئے بھی خود سے الگ کرنا ضروری نہیں سمجھا تھا۔ محمد صالح کو اس کے تھیلے میں دلچسپی ہوئی۔ اس کا دل چاہا کہ وہ فقیر کے قریب جائے اور جھانک کر اس تھیلے میں دیکھے۔۔۔۔۔۔وہ تاجر تھا اور تاجروں کی یہی فطرت ہوتی ہے۔

”تم تو فقیر ہو بھلا تمہارا دنیا کے سامان سے کیا لینا دینا۔” فقیر کے قریب کھڑا آدمی پوچھ رہا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر مذاقا فقیر کے شانے سے تھیلا بھی اُتار لیا تھا۔

اپنی انگلیاں چاٹ کر فقیر اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور تھیلا آدمی کے ہاتھ سے واپس لینا چاہا۔ ”د نیا کا سامان نہیں ہے اس میں۔”
”اچھا۔۔۔۔۔۔چلو پھر دیکھتے ہیں کہ کیا ہے اس میں۔۔۔۔۔۔” آدمی نے تھیلے میں ہاتھ ڈالنا چاہتا تو فقیر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روک دیا۔
”تم رہنے دو۔ میں نکال دیتا ہوں ۔تم نے دیکھ لیا تو شرمندہ ہو جاؤ گے۔” تھیلے میں ہاتھ ڈال کر فقیر نے ایک آئینہ نکال لیا۔
”فقیر کے پاس آئینے کا کیا کام؟ ”آدمی ہنس دیا۔ تو فقیر بھی ہنس دیا۔

”بس بھائی!میرا تو یہی کام ہے۔۔۔۔۔۔اب دینے والا جانے کہ یہی کام کیوں دیا۔”نرمی سے کہہ کر فقیر نے آئینے کو واپس تھیلے میں رکھنا چاہا تو آگے بڑھ کر محمد صالح نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ 

”آئینے بیچتے ہو۔۔۔۔۔۔لاؤ دکھاؤ۔۔۔۔۔۔کیا خاص بات ہے اس میں۔۔۔۔۔۔”

”بیچتا نہیں ہوں جوان! بس دکھاتا ہوں۔۔۔۔۔۔خاص بس اتنا ہی ہے کہ یہ اصل دکھا تا ہے۔۔۔۔۔۔”

فقیر کے انداز میں کچھ ایسی سچائی اور جلال تھا کہ جہاں تک اس کی آواز گئی وہاں تک سناٹا پھیل گیا۔ سب اس کی طرف بہت فرمانبرداری سے متوجہ ہوئے۔

”سیدھی طرح سے کہو کہ شکل دکھاتا ہے۔” کسی نے اس کے قریب آکر اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔

”شکل نہیں محترم! اصل۔۔۔۔۔۔انسا ن کا اصل۔۔۔۔۔۔”
عالم ، حاکم اور حکیم پوری طرح سے فقیر کی سمت متوجہ ہو گئے۔ محمد صالح کی طرح وہ بھی چل کر اس کے قریب آکر کھڑے ہو گئے۔

”لگتا ہے یہ پاگل ہے۔ دیکھو کیسی بہکی بہکی باتیں کرر ہا ہے۔ اصل سے تمہارا کیا مطلب ہے ۔بھلا بتاؤ تو سہی۔”

وہی جو انسان کا اصل ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔وہ سونا ہو یا چاندی۔۔۔۔۔۔سیاہ ہو یا خاک۔۔۔۔۔۔

سننے والوں کو دلچسپی تو ہوئی لیکن وہ یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہورہے تھے۔ جو دیکھا ، سنا نہ ہو اس پر یقین آتا بھی نہیں ہے۔

”چھوڑیں ! بے چارا پاگل لگتا۔ ” اپنے دل کی تسلی کے لیے کسی نے کہہ دیا۔

پاگل تو وہ ہے جو اپنے اصل سے نظریں چراتا ہے۔جو جانتے بوجھتے گھاٹے کا سودا کرتا ہے۔ ”فقیر نے ہنس کر کہا لیکن اس کی ہنسی نے سب کو سہما دیا۔اس کی ایک سوالیہ نظر نے انہیں جلا سا دیا۔اس کے لفظوں کی کاٹ انہیں کاٹ کر نکل گئی۔
”کیوں کیاا س شہر میں کوئی ایسا جرات مند نہیں ہے جو اس آئینے میں اپنا کھرا کھوٹا دیکھنا چاہے؟؟کوئی ایسا سچا جو اپنا جھوٹ سننا چاہے؟کوئی ایسا مومن جو کافر کو روبرو پائے؟کیا یہاں کوئی ایسا ”محب رب” نہیں جو مجازی اور حقیقی میں فرق دیکھنا چاہے؟آپ میں سے کوئی اس آئینے میں دیکھنا نہیں چاہے گا کیا؟”

سب کو چپ لگ ۔ فقیر زیر لب ہنس دیا۔ اس کی ہنسی حاکم شہر کو بہت کھلی۔ عالم، حکیم اور نوجوان تاجر کو بھی۔۔۔۔۔۔

”میں دیکھنا چاہوں گا۔” حاکم شہر نے بلند آواز سے کہا ۔وہ ایساہی جرات مند تھا اسی لیے سارا شہر اس پر اپنی جان نثار کرنے کے لیے تیار رہتا تھا۔ 

”میں بھی۔۔۔۔۔۔”عالم نے کہا۔ وہ ایسے شفاف دل تھے کہ آئینہ ان پر فخر کرتا۔ 

”میں بھی دیکھنا چاہوں گا۔۔۔۔۔۔” حکیم کے چہرے پر روشنی کی چمک پہلے سے زیادہ بڑھ گئی۔ نوجوان تاجر نے تینوں کی طرف دیکھا اور پھر فقیر کو۔۔۔۔۔۔
”اور میں بھی۔۔۔۔۔۔”

جاری ہے ۔۔۔۔۔ 



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں