محب رب (افسانہ)
حصہ دوم
تحریر: سمیرا حمید
آئینہ کیا بولتا، سارا شہر بولنے کے لیے تیار تھا کہ وہ چاروں کیسے عظیم اور نیک فطرت انسان ہیں ۔ ان کے کردار ، اعمال اور افکار با وضو نمازی کی طرح پاک صاف تھے۔۔۔۔۔۔ان کا ظاہرو باطن آئینے کی طر ح شفاف تھا۔۔۔۔۔۔
چاروں ایک جگہ ساتھ ساتھ بیٹھ گئے۔ سب سے پہلے حاکم شہر نے اپنے سامنے آئینے کو رکھا اور پھر اس کا رخ ہجوم کی طرف موڑ دیا۔ طلحہ
”میں اس شہر کا حاکم طلحہ بن مراد ہوں۔میں ایک غریب لوہار کا بیٹا ہوں۔ مجھے پڑھنے لکھنے کا شوق تھا اور میں اس میں طاق بھی تھا۔ میرے استاد میری سمجھ بوجھ کے قائل تھے۔ لوگ میری علمی قابلیت کے مداح تھے۔ اپنی محنت اور لگن سے میں چھوٹے سرکاری عہدوں سے ترقی کرتا ہوا شہر کا حکمران بن گیا۔
میں نے شہر کے حالات بدلنے شروع کر دیے۔ مجھے غربت اور مصیبتوں سے نفرت تھی۔ اسی لیے سب سے پہلے میں نے شہر کی غربت مٹانی شروع کر دی تھی۔ لوگوں کی آسانی کے لیے کنوئیں کھدوانے شروع کر دیے۔ مسافروں کے لیے مسافر خانے، کسانوں کے لیے زرعی ساز و سامان کی فراہمی اور تاجروں کے لیے سرکاری کارواں کی سرپرستی شروع کر دی تھی۔ کھانے پینے اور عام استعمال کی چیزوں کی قیمتیں کم کر دی گئی تھیں۔ شہر میں مدرسوں اور مسجدوں کی تعداد شہریوں کی تعداد سے کچھ ہی کم ہو گی۔ کوئی صاحب علم ایسا نہیں تھا جسے کتابیں اور کتب خانے میسر نہ ہوں۔ میں نے دنیا بھر کی نایاب کتابوں سے کتب خانے بھر دیے تھے۔ علاج معالجے کی ایسی صورت حال تھی کہ پچھلے سات سالوں سے شہر میں کوئی وبا نہیں پھوٹی تھی۔ غرض کوئی ایسا کام نہیں تھا جو میں نے شہر اور شہریوں کی فلاح و بہود کے لیے نہ کیا ہو۔
ایک دن میں شہر کے دورے پر نکلا توکئی لوگوں نے میرے ہاتھ پکڑ پکڑ کر چومنے شروع کر دیے ۔وہ میرے آگے جھکے جاتے تھے۔ اس منظر نے مجھے دیوانہ کر دیا۔ لوگوں کے تعریف و توصیف سے بھرے جملے میرے کانوں میں گونجتے رہے۔ میں رات بھر سو نہیں سکا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں شہر کا حاکم نہیں ان سب کا حاکم ہوں۔ ان کے چہروں پر جو خوشی تھی وہ میرے ہی دم قدم سے تھی۔ بھلا میں نہ ہوتا تو وہ اتنے خوشحال ہوتے؟ نہیں۔۔۔۔۔۔وہ تو غربت زدہ اور پریشانیوں کے مارے ہوتے۔۔۔۔۔۔جاہل اور بیمار صورت۔۔۔۔۔۔
میں اگلے د ن پھر دورے پر نکلا۔ شہری دیوانے ہوئے جاتے تھے ۔وہ میرے نام کے نعرے لگا رہے تھے۔ ان کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ مجھے اپنے سر کا تاج بنا لیں۔ میرے لیے اپنی گردنیں کٹوا دیں۔ مجھے اس منظر نے اتنا محظوظ کیا کہ میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے ہفتے میں ایک دن شہر کے دورے پر ضرور نکلنا چاہیے ۔میں نے اس شہر کے لیے خود کو ہلکان کیا ہے۔ میرا حق بنتا ہے کہ میں خود کو خوشی سے معمور کر لوں۔ اور جان لو ں کہ میں کون ہوں۔ میری حیثیت اور مقام کیا ہے۔ ۔
ایک دن سر راہ مجھے ایک بزرگ ملے۔ وہ کچھ غصے میں تھے ۔ انہوں نے کہا کہ میں ایک ایسا فرعون ہوں جو لوگوں کا پیٹ بھر رہا ہے اور اپنا نفس۔مجھے اس بزرگ کی بات پر غصہ آیا۔
”کیا میں رعایا کے حق میں کام نہیں کر رہا ؟؟”ان کی حقارت بھری نظروں کو نظر انداز کرنا مشکل تھا۔
”کیسا کام؟؟ تم تو اپنے نفس کی اطاعت کرر ہے ہو۔ جو کام اللہ کی خوشنودی کے علاوہ کیا جائے وہ نفس کی اطاعت ہوتا ہے۔جو عمل، جو عزت، جو مرتبہ تمہیں خدا بنا دے ، وہ تو لعنت ہوتا ہے۔ اپنے ہاتھوں سے لعنت کا طوق بنا کر تم نے اپنے نفس کے گلے میں لٹکا دیا ہے۔۔۔۔۔۔اور کیسے خوش باش ہو۔۔۔۔۔۔”
” بھوکوں کو کھانا مل رہا ہے ، جاہلوں کو علم۔گھروں میں رزق کی زیادتی ہے۔ ظلم ، نا انصافی کا بازار ٹھنڈا ہے۔ چور اچکے میرے نام سے ہی خوف کھاتے ہیں۔ کسی کی جرات نہیں کہ شہر کا امن و امان تباہ کر سکے۔”
”نیت کا کھوٹ، سمندر سیا ہ کر دیتا ہے۔ سنا نہیں تم نے کہ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔ تمہارے کھرے عمل، تمہاری نیت کے کھوٹ میں بہہ گئے۔ اللہ کے محبوب ؐ نے دولت اور شہرت کی محبت کو دو بھیڑیے قرار دیا ہے۔ تم یہ سب لوگوں کی فلاح کے لیے نہیں اپنی تعریف و توصیف کے لیے کر رہے ہو۔ شیطان تم پر نقب لگا چکا ہے۔ وہ تمہیں اچھی طرح سے بہلا چکا ہے۔ تمہارا نفس شیطان کے ساتھ مل کر سازشیں کر رہا ہے۔ شہر اورشہریوں کی فلاح کے جھانسے میں وہ تمہیں اندھا کر چکا ہے۔۔۔۔۔۔ تم شہر کے حکمران نہیں رہے۔۔۔۔۔۔ تم نے خود کو انسانوں کا حکمران سمجھ لیا ہے۔۔۔۔۔۔ توبہ کر لو۔”
”کیسی توبہ ۔۔۔۔۔۔ جب کچھ کیا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔”میں نے قہقہہ لگایا۔
”یہی تو اصل گناہ ہے۔۔۔۔۔۔جو خود کو معصوم سمجھتا ہے ، وہی اصل گناہ گار ہے۔ جو خود کو نیک سمجھتا ہے، وہی تو بد بخت ہے۔ تو جانتا ہی نہیں کہ فرعون کیوں غرق ہوا؟؟ اس نے خدا کو ایک خدا کیو ں نہیں مانا؟ کیونکہ وہ خود کو خدا مانتا تھا۔”
”توبہ استغفار بزرگوار! میں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔۔۔۔۔۔ ایسا گناہگار نہیں ہوں میں۔”
”تو خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرا رہا کیونکہ تو خود کو خدا کے ساتھ شریک کر چکا ہے۔ تجھے نظر کیوں نہیں آرہا۔”
مجھے نظر آرہا تھا کہ بزرگوار کا دماغ چل پڑا ہے۔ عمر کی زیادتی نے انہیں دیوانہ کر دیا تھا۔
مجھے دوسرے شہر کے حاکم نے اپنے شہر کے دورے کی دعو ت دی تھی۔ اس شہر میں پہلے ہی میرے نام اور کام کی شہرت پہنچ چکی تھی۔ جس وقت میں شہرمیں داخل ہوا، اس وقت سارا شہر میرے نام کی پکار سے گونج اٹھا۔ مجھے دیکھنے کے لیے لوگ دیوانہ وار میرے گھوڑے کے ساتھ ساتھ بھاگ رہے تھے۔ خلق خدا مجھے دیکھنے کے لیے مری جاتی تھی۔
شہر کے حاکم دین دار انسان تھے۔ انہوں نے بہت عاجزی سے میرا استقبال کیا تھا۔ وہ وہاں میری آمد پر بہت خوش تھے۔ لیکن میں شہر کے انتظامات اور صورتحال سے خوش نہیں تھا۔ جس کا اظہار میں نے شہریوں کے سامنے کر نا شروع کر دیا تھا ۔شہری اسی انتظار میں تھے کہ کوئی مجھ جیسا عقل مند آئے اور ان کے شہر کے حالات بھی بدل کر رکھ دے۔ انہیں تحریک چاہیے تھے جو میں نے انہیں دے دی اور وہ اپنے بوڑھے حاکم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کے خلاف کھلم کھلا نفرت کا اظہار کرنے لگے۔
شہریوں کی نفرت دیکھ کر حاکم شہر خاموشی سے اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے۔ اور ا ن کی جگہ مجھ جیسا جرات مند جوان، حاکم بن کر آگیا۔ وہ مجھے اپنا مرشد مانتا تھا اور میری بہت عزت کرتا تھا۔ میرے مشوروں پر اس نے شہر کے حالات بدلنے شروع کر دیے۔۔۔۔۔۔
”اپنے ساتھ ساتھ تم اسے بھی جہنم میں گھسیٹ رہے ہو۔ ”بزرگوار پھر مجھ سے ملنے آئے۔
”اگر زمین کو جنت بنانا گناہ ہے تو ہاں میں یہ گناہ کر رہا ہوں۔ اور خوشی سے کر رہا ہوں۔”
”تم زمین والوں کے لیے جنت نہیں، اپنے لیے جہنم بنا رہے ہو۔”
”آپ کی باتیں عجیب ہیں۔۔۔۔۔۔ بہتر ہے کہ آپ مجھ سے دُو ر رہیں، ورنہ آپ کی عز ت پر حرف آتے دیر نہیں لگے گی۔”
”دیر نہیں لگے گی حاکم شہر!زیادہ دیر نہیں لگے گی اور سوال جواب کا دن آجائے گا۔۔۔۔۔۔”
مجھے بزرگ کی بات پر ہنسی آئی۔ میرے عمل میں کہیں کوئی کھوٹ نہیں تھا۔ میں پوری ایمان داری سے لوگوں کی فلاح کے لیے کام کررہا تھا۔ میرا مقصد نیک تھا۔ میرا عمل بے داغ تھا۔ میری نیت سونا تھی۔ میری محنت، میری عقل با مقصد تھی۔ میں تو ایک مثالی حاکم تھا جس نے شہر کو ترقی کے عروج پر پہنچا دیا تھا۔
جمعے کے دن میں شہر کے دورے پر نکلا اور پھر جمعے کی نماز کے لیے مسجد چلا گیا۔ لوگ جو خطبہ سن رہے تھے وہ میری تعظیم میں اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور انہوں نے صفوں کی صورت،’ رکوع کی حالت میں جھک کر مجھے سلام کیا۔مجھے اس منظر نے بے خود کر دیا تھا۔ البتہ خطیب کی شکل بھینچ گئی۔ اس نے قہر برساتی نظروں سے میری طرف دیکھا۔
”تم نے تو خود کو خدا بنا لیا ہے۔نماز پڑھ لو تو اپنے لیے دعا کرنا کہ اے اللہ مجھے ہدایت دے۔”
میرے لب طنز سے وا ہو گئے۔”مجھ سے حسد تمہیں زیب نہیں دیتا۔۔۔۔۔۔”
”بھلا نالائقوں سے کیسا حسد۔۔۔۔۔۔”
نماز کے بعد میں مسجد سے باہر نکلا تو مسجد کے دروازے پر بیٹھے فقیروں نے مجھے غصے سے دیکھا۔ایک فقیر اُٹھ کر میرے پاس آیا اور کہا۔”لعنت ہو تم پر”۔
لوگوں نے اس فقیر کو پکڑ کر خوب مارا۔وہ پٹتا رہا اور میں دل ہی دل میں ہنستا رہا اور کہتا رہا”لعنت توتم پر ہو۔۔۔۔۔۔لعنت ہو تم پر۔”
پہلا سبق:
”جب میں نے غور کیا تو میں نے اپنے نفس کو شیطان کے ساتھ اپنے خلاف سازش کرتا ہوا پایا۔”(شیخ قادر جیلانی)
”انسان کو انسان بننے کی اتنی جلدی نہیں رہتی، جتنی خدا بننے کی رہتی ہے۔”
جاری ہے ۔۔۔۔۔
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں