بصارت اور بصیرت میں فرق ... خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس) ۔۔۔ 21 جون 2019


بصارت اور بصیرت میں فرق 
 خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس) 
 21 جون 2019 بمطابق 18 شوال 1440ھ
امام و خطیب: فضیلۃ الشیخ فیصل بن جمیل غزاوی 
ترجمہ: فرہاد احمد سالم


فضیلۃ الشیخ فیصل بن جمیل غزاوی (حفظہ اللہ تعالی) مسجد حرام میں 18 شوال 1440 کا خطبہ '' بصارت اور بصیرت میں فرق'' کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ بصارت اور بصیرت میں فرق ہے، بصارت چیزوں کے ظاہر کو دکھاتی ہے جبکہ بصیرت چیزوں کے حقائق بتلاتی ہے، بصارت آنکھوں سے دیکھنے کا نام ہے، جبکہ بصیرت وہ روشنی ہے جسے اللہ دل میں ڈالتا ہے پھر اس سے انسان کو ہدایت ملتی، رب کی صحیح معرفت حاصل ہوتی ،حق و باطل میں فرق اور آخرت کے دن کا پتا چلتا ہے ۔ اور یہ ہی ان دونوں کے درمیان حقیقی فرق ہے۔ اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں سے نظر کی حفاظت اور اس کو نیچا رکھنے سے انسان کے دل کو بصیرت اور سچی فراست حاصل ہوتی ہے۔ اسی طرح حقیقی نابینا بصیرت کا نابینا ہونا ہے اور بصیرت کے بغیر انسان کی کوئی قدر و قیمت نہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ بصیرت کے تین درجے ہیں جس نے ان کو مکمل کر لیا اس نے مکمل بصیرت پا لی۔

1)اسما و صفات میں بصیرت۔ 
2)اوامر و نہی میں بصیرت ۔
 3)وعد و وعید میں بصیرت۔

بصیرت والے لوگ حق کو دلائل کے ساتھ پہچانتے ہیں چنانچہ یہ لوگ فتن اور شبہات کے نمودار ہونے پر ڈگمگاتے نہیں بلکہ یقین کامل کے ساتھ ثابت قدم رہتے ہیں ، اور دوسری جانب بہت سے لوگ ان فتنوں کی رو میں بہہ جاتے۔ بصیرت حاصل کرنے کے اسباب میں عظیم سبب ظاہر و باطن میں اللہ کا تقوی ہے ،جبکہ تقوی کے متضاد میں گناہوں کا ارتکاب بصیرت لے جاتا ہے۔ بصیرت حاصل کرنے کے اسباب میں اللہ عزوجل کے ذکر پر مداومت بھی ہے ،اور بصیرت ضائع ہونے کے اسباب میں ذکر الہی سے غفلت بھی ہے ۔اسی لئے اللہ تعالی سے بصیرت ، ہدایت اور تقوی پر ثابت قدمی کی دعا بصیرت و ہدایت حاصل کرنے کے بڑے اسباب میں شامل ہے ۔


↷منتخب اقتباس↶

یقیناً تمام تعریفات اللہ کے لیے ہیں ہم اسی کی حمد خوانی کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں ،ہم اپنے گناہوں کی بخشش بھی اسی سے چاتے ہیں ، اپنے نفس اور برے اعمال کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں ،جسے اللہ ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی رہنمائی کرنے والا نہیں بن سکتا ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبود بر حق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کی آل اور صحابہ پر ڈھیروں برکتیں اور سلامتی نازل فرمائے۔

مسلمانو!

ہر بصیرت مند مومن کے نزدیک یہ بات معروف ہے کہ بصارت اور بصیرت میں فرق ہے، بصارت چیزوں کے ظاہر کو دکھاتی ہے جبکہ بصیرت چیزوں کے حقائق بتلاتی ہے۔

اللہ کے بندو !

بصارت آنکھوں سے دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کا نام ہے، جبکہ بصیرت وہ روشنی ہے جسے اللہ دل میں ڈالتا ہے پھر اس کے ذریعے سے انسان کو ہدایت ملتی اور وہ اپنے رب کی صحیح معرفت حاصل کرتا ہے، نیز حق و باطل میں فرق کرتا ہے، اور اسی کے ذریعے ہدایت اور حق کی راہ کو پہچانتا ہے۔ اسی طرح اس گھر کی معرفت حاصل کرتا ہے جہاں لوگ لوٹ کر جائیں گے۔ اور یہ ہی ان دونوں کے درمیان حقیقی فرق ہے ؛ چنانچہ مومن کو ہی بصیرت حاصل ہوتی ہے جبکہ دوسرے لوگ اس سے محروم ہوتے ہیں؛ کیونکہ بصیرت کا مفہوم ان کے لئے واضح نہیں ہوتا تو ان میں معاملات کے اندر تفریق کی صلاحیت نہیں ہوتی وہ ان کی حقیقت اور ماہیت پہچاننے کی سکت نہیں رکھتے۔

مسلمانو! نعمتِ بصارت کو منفی سرگرمیوں سے تحفظ دینا ہر مسلمان پر واجب ہے ۔اسی لیے شرعی احکامات ان چیزوں سے نظر کی حفاظت کی ترغیب دیتے ہیں جنہیں بصیر و خبیر اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ (30) وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ } [النور: 30، 31]

(اے نبی)! مومن مردوں سے کہئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں ۔ یہ ان کے لئے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر ہے۔ اور مومن عورتوں سے بھی کہئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے علی (رضی اللہ عنہ) کو اس بات کی وصیت کی:

اے علی ! نظر کے پیچھے نظر مت لگاؤ ، پہلی تمہارے لیے معاف ہے ( جو اچانک پڑ گئی ) دوسری نہیں ( عمدا ًدیکھنا ) ۔ “

اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں سے نظر کی حفاظت اور اس کو نیچا رکھنے سے انسان کے دل کو بصیرت اور سچی فراست حاصل ہوتی ہے۔

اسی لئے کہتے ہیں : جب انسان بصری آزمائش میں مبتلا کیا جائے تو اس کی بصیرت اندھی ہو جاتی ہے ۔اللہ تعالی نے قوم لوط (علیہ السلام) کا قصہ اور ان کی آزمائش کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا:

 { إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ} [الحجر: 75]
بلاشبہ اس واقعہ میں بھی صاحب فراست لوگوں کے لئے کئی نشانیاں ہیں۔

اور صاحب فراست وہ لوگ ہیں جو حرام اور فحش نظر سے محفوظ ہوتے ہیں۔

مسلم اقوام!

کتنے ہی لوگ ہیں جو آنکھوں سے تو دیکھتے ہیں لیکن دل کے اندھے ہوتے ہیں، چنانچہ ان کی نظر ان کو کچھ فائدہ نہیں دیتی اس لئے کہ ان کے پاس بصیرت نہیں ۔ اور کتنے ہی ایسے نابینا ہیں جن کی بصارت میں تو نور نہیں لیکن ان کی بصیرت انتہائی منور ہوتی ہے؛ چنانچہ نابینا پن ان کے لئے نقصان دہ نہیں کیونکہ اللہ تعالی نے انہیں نورِ بصیرت سے نوازا ہوتا ہے۔

ابن عباس (رضی اللہ عنہما) کی جب بصارت چلی گئی تو وہ فرمایا کرتے تھے:

اگر چہ اللہ تعالی نے میری آنکھوں سے نور لے لیا لیکن میری زبان اور دل کو پر نور کر دیا ہے۔

بینائی چلی جائے تو یہ اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے؛ اس لیے اگر انسان آزمائش میں صبر کرے تو اس کے لئے اللہ کی طرف سے اچھا وعدہ ہے ۔

فقدان بصارت اتنا بڑا مسئلہ نہیں اصل مسئلہ فقدان بصیرت ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ} [الحج: 46]
بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، اندھے تو وہ دل ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔

چنانچہ حقیقی نابینا بصیرت کا نابینا ہونا ہے ،پس آپ نابینا بصیرت والے کو ذکر الہی اور اللہ کی اطاعت سے دور دیکھیں گے، اور اس کا بدلہ انتہائی سنگین ہو گا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{ وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى} [طه: 124]

اور جو میری یاد سے منہ موڑے گا تو اس کی زندگی تنگ ہو جائے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے۔

بلکہ بصیرت کے بغیر انسان اس دنیا میں بد حواس بن کر اس اندھے کی طرح زندگی گزارتا ہے کہ جو راستے میں چلتا ہے مگر راستہ نہیں جانتا کہ کہاں جانا ہے ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{ أَفَمَنْ يَمْشِي مُكِبًّا عَلَى وَجْهِهِ أَهْدَى أَمَّنْ يَمْشِي سَوِيًّا عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ} [الملك: 22]

بھلا جو شخص اپنے منہ کے بل اوندھا ہو کر چل رہا ہو وہ زیادہ صحیح راہ پانے والا ہے یا وہ جو سیدھا کھڑا ہو کر راہ راست پر چل رہا ہو؟

مسلم اقوام!

بصیرت کے تین درجے ہیں جس نے ان کو مکمل کر لیا اس نے مکمل بصیرت پا لی۔

1)اسما و صفات میں بصیرت۔  
2)اوامر و نہی میں بصیرت ۔
3)وعد و وعید میں بصیرت۔

اسما و صفات میں بصیرت کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کے ناموں اور اس کی صفات کی صحیح معرفت حاصل کرے، یہ معرفت اسے اللہ کے سیدھے راستے پر قائم رہنے میں مدد گار ثابت ہو گی۔

پس ذات باری تعالی تو وہ ہے کہ جس کی بات صداقت اور عدالت میں کامل ہے ۔اس کی صفات مخلوق کے ساتھ تشبیہ یا تمثیل سے بالا تر ہیں، اور اس کی ذات بھی کسی اور کی مشابہت سے اعلی تر ہے۔ اس کے عدل ،حکمت ، رحمت ،احسان اور فضل پر مبنی افعال تمام مخلوقات کو سموئے ہوئے ہیں۔ مخلوق کی تخلیق اور پھر ان پر حکم چلانا اسی کا کام ہے ۔ نعمتیں اور فضل اللہ ہی کاہے ، اسی کی بادشاہی اور اسی کی تعریفیں ہیں نیز اسی کی ثنا اور بزرگی ہے ۔

اس کے تمام نام مدح، حمد و ثنا اور تعظیم بیان کرنے والے ہیں ، اللہ تعالی کی تمام صفات؛ صفاتِ کمال ہیں ، اور تمام خوبیاں عظمت والی خوبیاں ہیں ۔

اللہ تعالی کے تمام افعال میں حکمت ، رحمت ، مصلحت اور عدل ہے اس کی مخلوقات میں سے ہر چیز اس پر دلالت کرتی اور نگاہ بصیرت سے دیکھنے والے کی رہنمائی کرتی ہے۔

چنانچہ جب بندہ اپنے رب کی پہچان حاصل کر لے گا تو وہ اس سے ڈرے گا اور اسی سے امید رکھے گا، نیز اسی کی عبادت اور تعظیم کرے گا ،اور مخلوق کو بڑا نہیں جانے گا کہ اپنے رب سے زیادہ ان کی تعظیم اور خوف دل میں بٹھائے ۔

اوامر و نہی میں بصیرت سے انسان اللہ تعالی کی مراد اور حدود کو جانتا اور ان کو لازم پکڑتا ہے ،نیز یہ تقوی اور صراط مستقیم کو لازم پکڑنے کا ذریعہ ہے ۔پس اس طرح انسان اللہ کی عبادت کی معرفت حاصل کرتا ہے چنانچہ اس کے دل میں اللہ تعالی کے احکام ،شریعت کی منع کردہ چیزوں اور قضا و قدر کے بارے میں ذرہ برابر بھی اختلاف نہیں ہوتا۔ اس طرح بندہ شرعی احکام اور تقدیری فیصلوں پر سر تسلیم خم کر لیتا ہے۔

وعد اور وعید میں بصیرت سے مراد یہ ہے کہ بندہ یہ گواہی دے کہ ہر جان نے اچھائی یا برائی جو کچھ بھی کمایا ہے اللہ تعالی جلد یا بدیر ، دنیا یا آخرت میں اس کا بدلہ دے گا۔ اور یہ ہی چیز اللہ تعالی کی الوہیت اور ربویت کی متقاضی ہے ۔ چنانچہ بندہ اللہ تعالی کی بیان کردہ اخروی گھر کی تفاصیل کو ذہین نشین رکھتا ہے گویا کہ وہ ان کا مشاہدہ کر رہا اور دیکھ رہا ہے ۔ نتیجتاً وہ اس علم کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے اور پھر اس کے دل کو عطا کردہ یہ بصیرت اس کے لئے راستے کو واضح کرتی ہے اور وہ اپنے مستقبل کو جان لیتا ہے ، پس وہ اس آنے والے دن اور اپنے رب سے ملاقات کے لئے مستعد ہوتا ہے ۔


اللہ کے بندو!

ایمانی بصیرت انسان کے ڈھانچے اور زندگی کو بدل دیتی ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَى نُورٍ مِنْ رَبِّهِ فَوَيْلٌ لِلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ} [الزمر: 22]

بھلا جس شخص کا سینہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لئے کھول دیا ہو اور وہ اپنے پروردگار کی طرف سے ایک روشنی پر ہو (اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو کوئی سبق نہیں لیتا) لہذا ان لوگوں کے لئے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کے ذکر سے (اور) سخت ہو جاتے ہیں۔

بےشک جسے بصیرت ایمانی دی جاتی ہے وہ اللہ پر بھروسا ، مددِ الہی پر یقین ، رحمت الہی پر توکل نیز اللہ کی توفیق اور عدل پر اعتماد کرتے ہوئے خوش بخت زندگی گزارتا ہے ۔اس کہ ہر وقت یہی کوشش ہوتی ہے کہ صحیح الہی منہج اور سیدھی راہ پر گامزن رہے ۔

مسلمانو!

مخلوق میں برگزیدہ اور بنی آدم میں زیرک بصیرت والے لوگ وہ ہیں کہ جنہوں نے حق کو دلائل کے ساتھ پہچانا اور حق کو حقیقی صورت میں دیکھا۔ چنانچہ یہ لوگ فتن اور شبہات کے نمودار ہونے اور شہوت عام ہونے پر نہیں ڈگمگاتے بلکہ یقین کامل کے ساتھ ثابت قدم رہتے ہیں ، اور دوسری جانب بہت سے لوگ ان فتنوں کی رو میں بہہ جاتے ہیں ۔

جبکہ بصیرت سے محروم لوگ حق اپنے سامنے تو پاتے ہیں مگر اس کی پیروی کرتے نہ اس پر عمل کرتے ہیں بلکہ باطل کی پیروی اور عملدرامد میں تاخیر نہیں کرتے ، اور باطل کی دعوت میں صبح شام سرگرم رہتے ہیں اس میں کوئی تعجب والی بات نہیں ہے؛ کیونکہ ایسے لوگوں کا معاملہ ہی الٹ ہوتا ہے اور وہ پیچیدگیوں میں الجھ جاتے ہیں، وہ اچھائی اور برائی میں تمیز نہیں کر سکتے، انہیں معلوم نہیں ہوتا مصلحت یا خرابی کہاں ہے؟ یہ لوگ شریعت الہی سے فیصلہ کرانے کی بجائے ہوس اور مرضی سے فیصلے کرتے ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

{أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللَّهِ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ } [الجاثية: 23]

بھلا آپ نے اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو الہ بنا رکھا ہے اور اللہ نے علم کے باوجود اسے گمراہ کر دیا اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ؟ اللہ کے بعد اب کون ہے جو اسے ہدایت دے سکے؟ کیا تم غور نہیں کرتے؟

اللہ کے بندو!

دین میں اہمیت ِ بصیرت کی یاد دہانی ضروری ہے ، بے بہا فتنوں اور سخت آزمائشوں کے وقت تو اس کی ضرورت مزید دو چند ہو جاتی ہے۔

کتنی ہی اقوام ہیں کہ راہ حق پر ہونے کے باوجود ان کے قدم ڈگمگا گئے اور وہ ثابت قدم نہ رہ سکے، اسی طرح قوموں میں کتنے ہی لوگ شبہات و شہوات کی رو میں بہہ گئے اور ان آفات سے نکلنے کی بصیرت حاصل نہ کر سکے۔

لہذا ہر وہ شخص جو اپنے لئے خیر اور نجات چاہتا ہے اس پر لازم ہے کہ بصیرت کے اسباب حاصل کرنے کی کوشش کرے اور ان چیزوں سے دور رہے جن سے بصیرت چلی جاتی ہے ۔

بصیرت حاصل کرنے کے اسباب میں عظیم سبب ظاہر و باطن میں اللہ کا تقوی ہے ۔ جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا } [الأنفال: 29]

اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہے تو اللہ تمہیں قوت تمیز عطا کرے گا۔

پس جو تقوی اختیار کرتا ہے اللہ تعالی اس کو حق و باطل کی معرفت عطا کرتا ہے ، چنانچہ یہ اس کی مدد ، نجات، دنیاوی معاملات میں آسانی ، قیامت کے دن سعادت اور گناہوں کی بخشش کا سبب بن جاتا ہے۔

تقوی کے متضاد میں گناہوں کا ارتکاب ، اللہ کے احکامات کے مقابلے میں گناہ اور نا فرمانی سمیت اللہ عزوجل سے حیا نہ کرنا شامل ہیں۔ اور یہ بصیرت کے ضائع ہونے کے اسباب بھی ہیں ۔

بصیرت حاصل کرنے کے اسباب میں اللہ عزوجل کے ذکر پر مداومت بھی ہے ۔ پس ذکر الہی دل کو جِلا بخشتا ہے، اور بہترین ذکر قرآن کریم کی تلاوت اس کا فہم اور اس پر تدبر ہے ۔ جتنا انسان کا قرآن سے تعلق مضبوط ہو گا اتنی ہی اسے نور بصیرت ملے گا۔

بصیرت حاصل کرنے کے اسباب میں اللہ کی قائم کردہ حرمتوں اور دین اور حدودِ شریعت کی پامالی پر غیرت کھانا بھی شامل ہے ۔جبکہ اس کے برعکس حقوق اللہ اور حرمتوں کی پامالی پر غصہ اور غیرت کا نہ ہونا انسان کی بصیرت کو اندھا کر دیتا ہے ۔

ان تمام اسباب سے بڑھ کر یہ ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے بندوں کو توفیق ، رشد و ہدایت اور دل میں نورِ حق مل جائے۔ یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے ۔

اسی لئے اللہ تعالی سے بصیرت ، ہدایت اور تقوی پر ثابت قدمی کی دعا بصیرت و ہدایت حاصل کرنے کے بڑے اسباب میں شامل ہے ۔

خبردار: اللہ کے چنے ہو نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجو جیسے کہ تمہیں تمہارے رب نے بھی حکم دیا ہے اور فرمایا:

{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا } [الأحزاب: 56]
بے شک اﷲ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو! تم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر خوب کثرت سے درود و سلام بھیجو۔ (احزاب:56)

اے اللہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی بیویوں آپ کی اولاد پر رحمتیں نازل فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم (علیہ السلام) پر بھجیں۔ اور اے اللہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی بیویوں اور اولاد میں برکت عطا فرما جیسا کہ تو نے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں برکت عطا فرمائی بے شک تو بہت تعریف کا مستحق اور بزرگی والا ہے۔

یا اللہ ! ہم ظاہر اور باطنی فتنوں سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

یا اللہ ! ہمیں دین میں بصیرت عطا فرما اور ہمیں اپنے متقی بندوں میں شامل فرما۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں