اللہ کی معرفت کی اہمیت، فضیلت اور اسباب ۔۔۔ خطبہ مسجد الحرام (اقتباس) ۔۔۔ 12 جولائی 2019


اللہ کی معرفت کی اہمیت، فضیلت اور اسباب
خطبہ مسجد الحرام (اقتباس)
12 جولائی 2019 بمطابق  9 ذوالقعدہ 1440
امام و خطیب: فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر فیصل بن جمیل غزاوی
ترجمہ: فرہاد احمد سالم


فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر فیصل بن جمیل غزاوی (حفظہ اللہ تعالی) نے مسجد حرام میں 9 ذوالقعدہ 1440 کا خطبہ " اللہ کی معرفت کی اہمیت، فضیلت اور اس کے اسباب" کے عنوان پر ارشاد فرمایا: جس میں انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  یہ دعا فرماتے }اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا {یا اللہ! میں تجھ سے نفع بخش علم کا سوال کرتا ہوں۔ چنانچہ ایک مومن کو بھی علم نافع کا سوال کرنا چاہیے ، بلکہ اس میں اضافے کی بھی دعا کرنی چاہیے ۔تمام علوم میں سب سے افضل علم اللہ کی معرفت ہے ، اور اس معرفت کے حصول سے انسان کو اللہ کی تعظیم ،خشیت اور ہیبت حاصل ہوتی ہے ،نیز اس پر توکل اور صرف اسی کی عبادت کی توفیق ملتی ہے۔ اللہ تعالی کی معرفت انسان کی سعادت ، سکون اور کامیابی کی اساس ہے ، اللہ کی معرفت سے انسان اللہ کی اطاعت کے کام کرتا اور نا فرمانی سے بچتا ہے، نیز معرفت الہی کے بڑھنے سے ایمان بھی بڑھتا ہے ، اس کے برعکس اس کے فقدان سے انسان دنیا و آخرت میں شقاوت کا مستحق ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کی معرفت اس کے کلام قرآن کریم پر تدبر کرنے ، اس کے پیارے ناموں اور بلند صفات کو اپنی زندگی میں لازم پکڑنے اور ان کے معانی اور اثرات پر غور کرنے نیز کثرت سے اللہ کی عبادت کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ اللہ کی معرفت حاصل نہ ہونے سے انسان فتنہ الحاد کا شکار ہو سکتا ہے، فتنہ الحاد کی موجوں نے بہت تیزی سے امت کے نوجوان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جس کی بڑی وجہ توحید سے لاعلمی ہے تو ضروری ہے کہ ہم اپنے معاشرے اور نوجوانوں کی اس سنگین و سیاہ خطرے سے حفاظت کریں ، اور یہ خطرہ اللہ عزوجل کے ساتھ کفر ہے ۔



تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ہیں جو کمال صفات سے متصف اور جلال و جمال کی خوبیوں میں منفرد ہے، میں اللہ پاک کی حمد بیان کرتا ہوں جو اس کے چہرے کے جلال اور عظیم سلطنت کے لائق ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے نہ اس کی الوہیت میں کوئی اس کا شریک ہے اور نہ ہی ربویت میں ، نیز اس کے اسماء و صفات میں بھی اس کا کوئی ساجھی نہیں۔
میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ رب کی معرفت رکھنے والے اور اس کی قدر کو پہچاننے والے ہیں۔
اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کی آل ، صحابہ اور آپ کی دعوت سے ہدایت یاب والوں نیز آپ کے طریقے پر چلنے والوں پر درود و سلام نازل فرمائے۔

مسلمانو!
مومن علم نافع کا طلب گار اور اس کے حصول کے لئے کوشاں ہوتا ہے ، ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان الفاظ سے اللہ تعالی سے دعا کرتے۔} اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا {یا اللہ! میں تجھ سے نفع بخش علم کا سوال کرتا ہوں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے:
}اللهم انفعني بما علَّمتني، وعلِّمْني ما ينفعني، وزِدْني عِلْمًا{ یا اللہ ! جو تو نے مجھے سکھایا اسے میرے لئے نفع بخش بنا اور مجھے وہ سکھا جو میرے لئے نفع بخش ہو اور میرے علم میں اضافہ فرما۔
ان دونوں احادیث سے پتا چلتا ہے کہ صرف علم نافع کا ہی سوال کرنا چاہیے ،اسی طرح اس میں امت کے لئے اس بات کا درس بھی ہے کے کہ وہ اللہ تعالی سے اس چیز کا سوال کریں جو ان کے لئے نفع بخش ہو۔ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں تو واضح اس بات پر ابھارا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: }سَلُوا اللهَ عِلْمًا نَافِعًا{ اللہ تعالی سے علم نافع کا سوال کرو۔ چنانچہ بندہ صرف علم نافع کے سوال پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ اس میں اضافے کا سوال بھی کرے، جیسے کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے :
 {وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا } [طه: 114]
 اور دعا کیجئے کہ ''اے میرے رب! مجھے مزید علم عطا کر۔

یعنی: اے رب جو علم تو نے مجھے دیا ہے اس میں مزید اضافہ فرما، پس اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان علمی فوائد کے سوال کا حکم دیا جن کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم علم نہیں رکھتے تھے ، نیز اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم کے علاوہ اور کسی چیز میں اضافے کے سوال کا حکم نہیں دیا، اور یہ بات علم کی فضیلت کی واضح دلیل ہے ۔
علم سب سے افضل عمل ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم علم میں بڑھتے اور ترقی کرتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے۔

مسلم اقوام!
اللہ تعالی کی معرفت در حقیقت سب سے افضل علم ہے ۔ابن رجب (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں : سب سے افضل علم اللہ تعالی کی معرفت ہے، اور یہ اللہ تعالی کے اسماء و صفات کا علم ہے جس سے عالم کو اللہ تعالی کی معرفت ، خشیت، ہیبت ،تعظیم اور عظمت حاصل ہوتی ہے۔ نیز اللہ تعالی کی طرف توجہ ، اس پر توکل ، اس کی رضا اور مخلوقات کو چھوڑ کر صرف اس کی طرف التفات کی توفیق ملتی ہے ۔

ابن تیمیہ (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں: اللہ تعالی کے معرفت سے مراد بنیادی طور پر دو قسم کی معرفت ہے۔
1)پہلی قسم سے مراد کی اللہ کی ذات کی معرفت ، یعنی اللہ تعالی کی ذات عظمت و اکرام کے اوصاف سے متصف ہے جس کی دلیل اس کے پیارے نام بھی ہیں ۔ یہ علم جب بندے کے دل میں راسخ ہو جاتا ہے تو لامحالہ اس کا دل اللہ کی خشیت سے بھر جاتا ہے ،چنانچہ وہ یقینی طور پر جان لیتا ہے کہ اللہ تعالی اپنی اطاعت پر اجر دیتا اور نا فرمانی پر سزا دیتا ہے ۔
2)دوسری قسم سے مراد احکام و نواہی اور حلال و حرام کے شرعی احکام کی معرفت ہے۔

ابن قیم (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں: اللہ تعالی کی معرفت ہی ہر علم کی بنیاد ہے ، اور یہ معرفت بندے کی سعادت ، کمال اور دنیا و آخرت کی کامیابی ہے ۔ اور اس سے لاعلمی کا مطلب بندے کی اپنے نفس ، اس کے آداب اور طریقہ کار سے لاعلمی ہے ، کہ اس لاعلمی سے نہ پاکیزگی حاصل ہوتی ہے نہ کامیابی۔

پس معرفت الہی کا ثمرہ بندے کی سعادت اور اس سے لاعلمی بندے کی شقاوت ہے ۔ بندوں کی سعادت، اصلاح ،اور سکون صرف رب کی معرفت حاصل کرنے میں ہے ۔ چنانچہ یہ ہی ان کا مطلوب و مقصود ہونا چاہیے ، اور رب کی معرفت ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہونی چاہیے ۔
پس جب بندے میں ان چیزوں کا فقدان ہو تو اس کی حالت جانوروں سے بھی بری ہوتی ہے، بلکہ جانور تو اس سے زیادہ اچھی زندگی گزارتے ہیں اور آخرت میں بھی ان کے ساتھ سلامتی کا معاملہ ہو گا۔

مسلمانو!
بندے کا ایمان اس کی رب کے متعلق اس کی معرفت کے مطابق ہوتا ہے ، چنانچہ جب معرفت الہی بڑھتی ہے تو ایمان بھی بڑھتا ہے اور جب یہ معرفت کم ہوتی ہے تو ایمان بھی کم ہوتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  (میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس کی معرفت رکھنے والا ہوں) ۔ اس حدیث میں اس بات کا علم ہے کہ آدمی جتنا اپنے رب کی معرفت میں مضبوط ہو گا اتنا ہی وہ دین میں بھی مضبوط ہو گا۔

چنانچہ جب اللہ تعالی کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت زیادہ ہوئی تو آپ کی خشیت اور تقوی میں بھی اضافہ ہوا، اس لئے کہ علم تام خشیت کو مستلزم ہے ۔ جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
 {إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ} [فاطر: 28]
 بلاشبہ اللہ کے بندوں میں سے اس سے ڈرتے وہی ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔

احمد الانطاکی (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں: جو اللہ تعالی کی زیادہ معرفت رکھتا ہے وہ اللہ سے زیادہ ڈرتا ہے ، پس جو شخص اللہ تعالی کے اسماء و صفات اور افعال و احکام کو زیادہ جانتا ہو گا تو وہ اللہ کا زیادہ خوف رکھنے والا اور متقی ہو گا۔ خشیت اور تقوی معرفت الہی میں کمی کے ساتھ کم ہوتی ہے ۔

مسلمانو! اللہ تعالی کی معرفت اور اس کی عبادت لازم ملزوم ہیں ۔دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے، نیز دونوں ذاتی طور پر مطلوب و مقصود ہیں۔ دونوں میں سے کوئی ایک بھی دوسرے کی جگہ نہیں لے سکتا۔ اس بات کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
{فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ } [محمد: 19]
 سو (اے نبی!) جان لیجیے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کریں۔

فَاعْلَمْ: کہہ کر علم کا حکم دیا گیا ہے ، اور اسْتَغْفِرْ کہہ کر عمل کا حکم دیا گیا ہے۔

اللہ کے احکامات کا علم :یعنی اس کی حدود ، اور حلال و حرام کے بارے میں احکام شریعت کا علم ہے ، اور یہ حقیقتاً اللہ کی معرفت کی وجہ سے ہی حاصل ہوتا ہے ۔ چنانچہ اس کے حصول کے بعد بندہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے رب کو راضی کرے ، اس کی اطاعت کرے اور اس کے احکامات کی پیروی کرے۔

پس بندہ اس علم کی طرف متوجہ ہوتا ہے تاکہ اللہ کے حکم کی پیروی کرے اور اس کی نا فرمانی سے بچے ۔ اسی طرح اللہ تعالی کے احکامات کا علم اللہ تعالی کی معرفت کی دلیل ہے ۔ اور اگر یہ علم غیر اللہ کی خوشنودی کے لئے حاصل کیا جائے تو بلاشبہ یہ انسان کے لئے وبال بن جاتا ہے ۔ جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
جس نے اللہ کی رضا مندی والا علم اس غرض سے حاصل کیا کہ دنیا حاصل کرے ‘ تو ایسا آدمی قیامت کے دن جنت کی خوشبو نہیں پا سکے گا ۔ (اسے ابو دؤاد ، ابن ماجہ اور امام احمد نے روایت کیا ہے )

اللہ کے بندو!
جیسے کہ دنیا و آخرت میں فائدہ پہنچانے والا عظیم علم اللہ تعالی کی معرفت ، اور اس کی رضا ہے ۔ اسی طرح سب سے بڑی اور سخت جہالت اللہ تعالی سے لا علمی اور بندوں کے لئے اس کے پسند کردہ دین سے لا علمی ہے ۔
جس نے اپنی عقل کو نفع بخش شرعی علوم سے پردے میں رکھا ، کہ جن سے دین قائم ہوتا اور رب کی عبادت ہوتی ہے تو یقیناً وہ جاہلوں میں سے ہے ، اگرچہ وہ دنیاوی علوم میں نمایاں ہی کیوں نہ ہو ، اس لئے کہ بندوں کے لئے سب سے نقصان دہ بات ان چیزوں سے لا علمی ہے جو ان کے لئے نفع بخش یا نقصان دہ ہے ۔یا ان کو اللہ سے قریب کرنے والی ہیں ، اور وہ ہیں اللہ پر ایمان ، اس کی اطاعت اور اس کے رسول کی اتباع ، اسی لئے اللہ تعالی نے علم اور علماء کی تعریف کی اور جہالت اور جاہل کی مذمت بیان کی نیز بتایا کہ اہل علم اور جاہل کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ فرمایا:
{قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ} [الزمر: 9] 
آپ کہیے بتاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر ہیں؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں۔

اللہ تعالی نے کچھ بندوں کی مذمت بیان کی ہے کہ انہوں نے اس کی تعظیم و توقیر نہیں کی چنانچہ فرمایا:
{مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ} [الحج: 74]
 انہوں نے اللہ کے مرتبہ کے مطابق اس کی قدر جانی ہی نہیں ،اللہ تعالیٰ بڑا ہی زور و قوت والا اور غالب و زبردست ہے۔

پس مشرکین نے اپنے اوپر اللہ تعالی کی قدرت کو نہیں مانا چنانچہ انہوں نے اس کی کما حقہ قدر ہی نہیں کی۔
مسلمانو! الحاد کی موجوں نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ، چنانچہ یہ اپنے مدد گاروں کے ساتھ پھیل چکی ہیں یہاں تک کہ مسلمانوں کے ممالک اور بطور خاص نو جوانوں ان کی لپیٹ میں آ چکے ہیں ۔ پس یہ موجیں اپنے ساتھ ان لوگوں کے دلوں کو بہا کر لے گئیں ہیں کہ جن کو اپنے رب کی معرفت نہیں تھی ، اور نہ ہی ان کے نفوس میں رب کی معرفت راسخ تھی، پس الحاد کی فکر ان کی عقلوں پر مسلط ہو گئی اور وہ حیرانی و تذبذب کا شکار ہو گئے،۔ بلکہ بعض نے تو رب کا انکار، عبادات کو ترک اور مسلم معاشرے کی طرف نسبت کو بھی چھوڑ دیا ۔ جبکہ وہ خود ساختہ با اثر ثقافت کے حامل تھے جو شک پر قائم اور اسلامی ثقافت کی دشمن ہے۔

یہ الحادی موجیں تقاضہ کرتی ہیں کہ امت کی خیر خواہی اور حق کی نصرت کے بارے میں اہل علم ان کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی ذمہ داری کو ادا کریں نیز اس کے علمبرداروں کی کوششوں کو ناکام کرنے اور ان کے حقائق سے پردہ اٹھانے کے لئے اپنی ذمہ داری ادا کریں ۔

اس لئے کہ الحاد کے داعی بطور خا ص نو جوان لڑکے اور لڑکیوں کے پاس اپنے باطل کی نشر و اشاعت کی بہت سخت کو شش کرتے ہیں ۔ اسی طرح باطل کے دوسرے داعیوں سے بھی اس بات کا اندیشہ ہے کہ نوجوان ان کے فتنہ کا شکار ہو جائیں اس لئے کہ وہ مختلف شکلوں اور مختلف اسالیب میں الحاد کو پھیلانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑتے پس ان کا نقصان بھی زیادہ اور تاثیر بھی بڑی ہے۔

دینی بھائیو! اس دور میں جبکہ الحاد کی موجیں ان لوگوں کو نشانے پر رکھے ہوئے ہیں کہ جنہوں نے صحیح عقیدہ نہیں سیکھا اور نہ اس سے سیرابی حاصل کی بلکہ ان کے دلوں میں اللہ کی تعظیم بھی کمزور ہے ، تو ضروری ہے کہ ہم اپنے معاشرے اور نوجوانوں کی اس سنگین و سیاہ خطرے سے حفاظت کریں ، اور یہ خطرہ اللہ عزوجل کے ساتھ کفر ہے ۔

چنانچہ اس عظیم عقدی مسئلے اور اس کی تفاصیل کو رونما کریں ، توحید ربوبیت اور اللہ کے وجود کے اثبات کے دلائل پیش کر یں نیز لوگوں کو اس کا آسان تعارف کرائیں اور اس کی اہمیت کو اجاگر کریں ۔ اس طرح کے وہ شک و شبہات سے بچاؤ کے قلعے ثابت ہوں اور اہل ضلالت کے شبہات و اوہام کامیاب نہ ہو سکیں۔
اس دور میں امت کے مصلحین کا کردار ایسا ہو کہ جب ایسی آیات آئیں کہ جن میں اللہ کی عظمت کا ذکر ہو تو ان آیات کے ذریعے دلوں کو نرم کریں ۔
یاد رکھیں ! ربوبیت کے مسائل پر توجہ صرف نہ کرنا الحاد اور رب تعالی کے انکار کے ظاہری پھیلاؤ کا سبب ہے ۔

اللہ کے بندو جس نے رب کی معرفت حاصل کر لی تو وہ کس چیز سے نا واقف رہا اور جو رب کو نہ پہچان سکا تو اس نے کیا جانا؟
ابن قیم (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں جس نے اللہ اور اس کے رسولوں کی معرفت حاصل نہیں کی تو اس نے کیا حاصل کیا؟ اور اس نے کس حقیقت کو پایا اگر اس سے یہ حقیقت فوت ہو گئی۔
اس شخص کو کون سا علم و عمل حاصل ہوا جس سے اللہ کا علم ، اس کی رضا کا عمل اور اس تک پہنچانے والے راستے ہی گم ہو گیا ، تو اب وہاں پہنچنے کے بعد اس کے لئے کیا ہے؟
اگر دلوں کو اللہ کی معرفت اور تعظیم حاصل نہ ہو تو وہ بگڑ جاتے ہیں اور ان پر زنگ چڑھ جاتا ہے ۔ جس دل کو اللہ کی معرفت حاصل نہیں وہ کس چیز کی خواہش رکھے گا؟

جب بندہ مادی زندگی میں ڈوب جاتا ہے اور اس کا دل اللہ کی معرفت سے دور ہو جاتا ہے تو بلاشبہ وہ غم و غصے میں مبتلا ہوتا ہے اور توفیق سے دور ہو جاتا ہے بلکہ زندگی کی لذت سے محروم ہو جاتا ہے ۔ جس شخص کی زندگی اللہ کی معرفت سے گم ہو یا اس کی معرفت کے راستے سے غافل ہو تو اس کی زندگی میں کون سی لذت ہو سکتی ہے ؟

جب ہمارے ہاں اللہ کی معرفت کی اہمیت اور وہ پھل جو بندہ اس کے نتیجے میں پاتا ہے مقرر ہے ، تو پھر جو اہم سوال ہمارے ذہن میں آتا ہے اور جسے ہماری فکر مندی کا ذریعہ ہونا چاہیے وہ یہ کہ ہم اللہ کو کیسے جانیں گے ؟ اس کا اجمالی جواب یہ ہے کہ اللہ کے کلام قرآن کریم پر تدبر کریں ، اللہ کے پیارے ناموں اور بلند صفات کو اپنی زندگی میں لازم پکڑیں ان کے معانی اور اثرات پر غور کریں نیز کثرت سے اللہ کی عبادت کریں ، اور خصوصاً عبادت میں تفکر اور مختلف عبادات سے اللہ کا قرب حاصل کریں۔

اللہ کے بندو! یاد رکھو اللہ کی معرفت اور اس کی عبادت دو اہم مقاصد ہیں جن کے لئے مکہ مکرمہ میں اللہ کا مقدس گھر کعبہ بنایا گیا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْيَ وَالْقَلَائِدَ ذَلِكَ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ} [المائدة: 97]
 اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو جو قابل احترام گھر ہے لوگوں کے (لیے امن و جمعیت) کے قیام کا ذریعہ بنا دیا ہے اور حرمت والے مہینے کو اور قربانی کو اور پٹے والے جانوروں کو بھی، تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ آسمانوں اور زمین میں موجود تمام چیزوں کے حالات خوب جانتا ہے، نیز یہ کہ اللہ کو ہر چیز کا علم ہے۔

اور اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا} [الطلاق: 12]
 اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قسم سے انہی کے مانند۔ ان کے درمیان حکم نازل ہوتا رہتا ہے۔ تاکہ تم جان لو کہ اللہ یقیناً ہر چیز پر قادر ہے، اور یہ کہ اللہ نے علم سے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بندوں کا اپنے رب اور اس کی صفات کی معرفت حاصل کرنا اور اس ایک ہی کی عبادت کرنا یہ ہی خلقت اور امر کا مقصد ہے ۔

اللہ کے بندو! من جملہ جن چیزوں کو اللہ نے چنا کیا اور انہیں فضیلت دی ، نیز ان سے معاملے کو عظیم کیا اور بڑا بنایا وہ حرمت والے مہینے ہیں ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ } [التوبة: 36] 
مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے ان میں سے چار حرمت و ادب کے ہیں یہی درست دین ہے تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔

حرمت والے مہینے چار ہیں ذو القعدہ ، ذو الحجہ ، محرم اور رجب ، ابن عباس (رضی اللہ عنہ) اللہ کے اس قول کے بارے میں فرماتے ہیں :} فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ } ان مہینوں میں (قتال ناحق سے) اپنے آپ پر ظلم نہ کرو۔ یعنی تمام مہینوں میں ظلم نہ کرو پھر اللہ نے ان میں سے چار کو خاص کیا ، ان کو حرمت والا بنایا اور ان کی حرمت کو عظیم کیا، نیز ان میں گناہ کو سنگین قرار دیا اور نیک کاموں کے اجر کو بڑا قرار دیا ، پس جس نے اللہ کی معرفت حاصل کی اس کے لئے مناسب ہے کہ اس چیز کی تعظیم کرے جسے اللہ نے عظیم کیا ساتھ ساتھ زمان و مکان کے شرف کا بھی خیال رکھے اس کی حدوں سے آگے نہ بڑھے اور نہ اس کی حرام کردہ چیزوں کا ارتکاب کرے۔

خبردار: اللہ کے چنے ہو نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجو جیسے کہ تمہیں تمہارے رب نے بھی حکم دیا ہے اور فرمایا:
{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا } [الأحزاب: 56]
بے شک اﷲ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو! تم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر خوب کثرت سے درود و سلام بھیجو۔ (احزاب:56)

یا اللہ ! ہمیں نفع بخش علم عطا فرما، اور جو علم ہمیں دیا اس کو ہمارے لئے نفع بخش بنا ، اور بھلائی کی باتوں اور کاموں کی طرف ہماری رہنمائی فرما۔ و الحمدللہ رب العالمین۔




تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں