محب رب (افسانہ) ۔۔۔ حصہ سوم

Image may contain: text

محب رب (افسانہ)
حصہ سوم
تحریر: سمیرا حمید


سارے شہر کو سکتہ ہو چکا تھا۔آئینہ بے رنگ ہو چکا تھا ۔وہاں کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ حاکم طلحہ بن مراد نے آئینے کو فقیر کی طرف اچھال دیا۔
”اچھا جادو ہے۔۔۔۔۔۔کیسے کیسے جھوٹ بول گیا۔”

کہہ کر اس نے شہر کے لوگوں کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں کے رنگ کو بدلا ہوا پایا۔ وہ اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
لعنت ہو تم پر۔۔۔۔۔۔” ایک نے اسے گھورتے ہوئے کہا ۔

فقیر نے آئینے کو عالم کی طرف بڑھا دیا۔ عالم کی گہری نظر نے فقیر کی آنکھوں میں جھانکنا چاہا۔۔۔۔۔ ۔پھر اس نے سامنے کھڑے لوگوں کو دیکھا۔ یہ وہی سب لوگ تھے جن کی زندگیاں اس کی تبلیغ نے بدل دی تھیں۔ ورنہ وہ سب تو بھولے بھٹکے ، جھوٹے، مکار اور بے ہدایتے لوگ تھے۔ وہ نہ ہوتا تو وہ سب کیسے جان پاتے کہ اللہ کو کون کون سا عمل ناپسند ہے ۔۔۔۔۔۔

اللہ کو انصاف پسند، رحمدل، اور معصوم دل پسند ہیں۔ اللہ کو معصومیت پسند ہے۔ ایسی معصومیت کہ کوئی نیکی کرے اور وہ اسے اللہ کا احسان سمجھے۔ اللہ کی دی توفیق۔ اس کی عطا کردہ ہدایت۔ اپنا کمال، اپنا ظرف ، اپنی طاقت نہ سمجھے۔ ایسی معصومیت کہ اگر وہ گناہ کر لے تو فورا توبہ کی طرف متوجہ ہو جائے۔ اللہ سے معافی مانگے۔۔۔۔۔۔ٹوٹی پھوٹی۔۔۔۔۔۔اچھی بری۔۔۔۔۔۔پکی سچی۔۔۔۔۔۔بس وہ معافی مانگے۔۔۔۔۔۔ اللہ کو گناہوں کی نشاندہی پسند ہے کہ بند ہ اپنے گناہوں پرنظر رکھے۔ اللہ کو وہ دل پسند ہے جو اس کی محبت سے لبریز رہتا ہے۔ اللہ کوبندگی پسند ہے۔ اس کی محبت سے بندھی ہوئی، اس کے خوف سے سہمی ہوئی نہیں۔ اللہ محبت ہے اور وہ محبت کو ہی محبوب رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔

فقیر نے عالم کی گہری نظر کا جواب سوال سے پہلے دے دیا تھا۔ وہ لوگوں کی طرف رخ کر کے کہہ رہا تھا۔ عالم نے اپنا ہاتھ پیچھے نہیں کھینچا اور آئینے کو اپنے سامنے کر لیا۔۔۔۔۔۔

میں اس شہر، اس ملک ، اس دنیا کا معتبر، باعلم ،عالم فاضل انسان ہوں۔ میں انصار بن جنید ہوں۔ جس نے علم کی تلاش میں تیس سال دنیا کی خاک چھانی ہے۔ عقل و شعورکے سمندر پیے، پہاڑ سر کیے، ویرانے پار کیے۔ آ گ میں جلا، پیاس سے مرا، بھوک سے تڑپا لیکن علم کی تلاش کو موخر نہیں کیا۔ میں علم کا ایسا سر چشمہ بنا چکا ہوں کہ ساری دنیا اس سے اپنی پیاس بجھاتی جاتی ہے لیکن میں ہوں کہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔ میری لکھی چود ہ کتابیں دنیا بھر کے کتب خانوں میں موجود ہیں۔ لوگ ان کتابو ں کو پڑھتے جاتے ہیں اور عالم فاضل بنتے جاتے ہیں۔ میں شہر شہر، کوچے کوچے جا کر لوگوں کو اللہ کی باتیں بتاتا ہوں ۔میں چاہتا ہوں کہ وہ اچھی طرح سے جان لیں اور سن لیں کہ اللہ ان سے کیا کہتا ہے۔۔۔۔۔۔”

وہ کہتا ہے کہ میں رحمن ہوں۔۔۔۔۔۔”’ ایک غیر معروف عالم نے مجھے سر راہ روک کر کہنے لگے۔
”میں نے کب کہا کہ وہ رحمن نہیں ہے۔”میں سمجھ سکتا تھا کہ یہ عالم میری شہرت سے حاسد ہے۔
پھر تم اللہ کو بس قہار ثابت کرنے پر کیوں بضد ہو؟
”کیا وہ قہار نہیں ہے۔۔۔۔۔۔؟؟”
قہار رب کی صفت ہے۔۔۔۔۔۔پورا رب نہیں۔۔۔۔۔۔
”پورا رب کون ہے؟”
الرحمن۔۔۔۔۔۔الرحیم۔۔۔۔۔۔الکریم۔۔۔۔۔۔

”تو تم چاہتے ہو کہ میں شہر کے چوروں، ڈاکوں، قاتلوں کو اللہ کے رحم کے قصے سناؤں۔ تاکہ وہ پہلے سے زیادہ گناہ کریں کہ اللہ تو معاف کر دے گا۔ چلو پہلے قتل کرتے ہیں، سود خوری سے پیٹ بھر لیتے ہیں پھر معافی مانگ لیں گے۔”

”یہ فیصلہ تمہیں نہیں کرنا کہ وہ کیا کریں گے۔ تم بس اللہ کی ہر صفت کو بیان کرو۔ اور یاد رکھو اللہ کا رحم اور محبت افضل ہیں۔ تمہیں کچھ چھپا کر نہیں رکھنا۔ تم مخلوق خدا کو صرف عذابوں اور سزاوں سے نہیں ڈرا سکتے۔ تمہیں اللہ کے رحم، توبہ اور معافی کے بارے میں بھی بتانا ہے۔”

”ان بد بختو ں کا اللہ کی محبت سے کیا لینا دینا۔۔۔۔۔۔”

بندگی کا ہر سبق محب رب (محبت کرنے والا)سے شروع ہوتا ہے۔ تم بندوں میں اللہ کی محبت جگائے بغیر انہیں بندگی نہیں سکھا سکتے۔۔۔۔۔۔”

”دنیا میں گناہوں کا بازار گرم ہے محترم! میرے کام میں مداخلت نہ کریں۔۔۔۔۔۔”

”شہرمیں چو ر وں، قاتلوں، لٹیروں، بے ایمانوں اور سود خوروں کی تعداد ہی کتنی ہے؟دو سو؟ تین سو؟”

”اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔دو ہوں یا دو سو۔۔۔۔۔۔”

”فرق پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔ کیونکہ دو، تین سو برے لوگو ں کے لیے تم نے باقی کی مخلوق کو اللہ سے ڈرا دیا ہے ۔وہ سمجھتے ہیں کہ خدا سخت عذاب میں مبتلا کرنے والے، قہر نازل کرنے والا رب ہے ۔ تم نے مخلوق سے اللہ کا رحم چھپا کر بڑا گناہ کیا۔”

”توکیا وہ ہر گناہ پر سوال نہیں کرے گا۔”میں نے اطمینان سے پوچھا۔

”وہ ہر گناہ پر سوال کرے گا لیکن وہ ہر گناہ کو معاف بھی تو کرتا ہے۔ تم نے لوگو ں کو توبہ کا نہیں بتایا۔ یہی کیوں بتایا کہ وہ جہنم کی آگ میں جھونک دیے جائیں گے۔ وہ ان کے لیے جہنم کے سات درجے دہکا رہا ہے۔۔۔۔۔۔”

”تو کیا جہنم دہکائی نہیں جا رہی؟ اس کے سات درجے نہیں ہیں؟”

”جہنم سے پہلے۔۔۔۔۔۔جنت سے بھی پہلے۔۔۔۔۔۔اس سے بھی پہلے کہ انسان پید ا ہوتا۔۔۔۔۔۔ اور اس سے بھی پہلے کہ یہ کائنات بنتی، رحم موجود رہا۔ پھر کائنا ت بنی۔ انسان وجود میں آیا، پھر اس کے اعمال ہوئے، پھر ان کی سز ا مقرر ہوئی۔۔۔۔۔۔ پھر اس سزا پر جہنم بنا۔۔۔۔۔۔ تم نے آخرین کو اولین کیسے کر بنا دیا۔ تم کیسے عالم ہو، تم اپنے رب کا ڈر لوگوں کے دلوں میں بٹھا رہے ہو۔ تم لوگوں کو خوف سے، آگ سے، سزا سے، موت سے ڈرا رہے ہو۔ تم لوگوں کو اللہ کی محبت میں مبتلا کیوں نہیں کرتے۔ تم انہیں اللہ کے رحم، کرم، فضل، اس کی معافی، اس کی محبت کی طرف کیوں نہیں بلاتے۔ تم انہیں یہ کیوں نہیں بتاتے کہ جب زمین و آسمان بنے تو رحم سو حصے بنا۔ ایک حصہ رحم اللہ نے مخلوق میں رکھا۔ اور باقی کا رحم اپنے پاس ۔کل مخلوق کے اس ایک حصہ رحم میں سے تمہاری ماں کے حصے کتنا آیا ہو گا؟؟ اس پر بھی تمہاری ماں نے تمہیں اپنی پیٹھ پر لاد کر گرم، تتپتا ہواصحرا تن تنہا پار کیا۔ صحرا کے کنارے وہ پیاس سے مر گئی ، لیکن پانی کی آخری بوندیں وہ تمہارے حلق میں اُتار گئی۔۔۔۔۔۔ ابھی بھی تمہیں اللہ کے رحم کا اندازہ کرنے میں مشکل پیش ہے۔۔۔۔۔۔ ابھی بھی تم اللہ کا رحم چھپاکر رکھنے کے در پر ہو۔”

”کیا اللہ کے رحم اور اس کی محبت کا سن کر لوگ بدل جائیں گے۔”

”اللہ کی محبت سے ہی تو دل بدلتے ہیں۔ چور بھی قاتل بھی۔ زانی بھی اور جاہل بھی۔ کبھی لوگوں کو خوف سے بدلتے ہوئے دیکھا ہے؟ خوف سے جسم بدلتے ہیں۔ سہم کر سکڑ جاتے ہیں۔ اپنی جگہ اور حیثیت بدل لیتے ہیں۔ د ل نہیں بدلتے۔ اگر میں تمہار ی گردن پر تلوار رکھ دوں تو کیا تم خدا کو چھوڑ کر مجھے اپنا خدامان لو گے؟ اچھا چلو خوف سے مان بھی لو گے تو کیا دل سے مجھے اپنا خدا تسلیم کرو گے۔ محبت کرو گے مجھ سے؟

اگر خوف سے سب کچھ ہونا منظور ہوتا تو اللہ نبیوں کو کیوں بھیجتا؟ پھر اللہ جنگجو بھیجتا۔ جو تلوار کے زور پر ، جاہ جلال، رعب اور طاقت سے لوگوں کو ایک اللہ پرایمان لانے کے لیے کہتے۔ پھر نبی بادشاہ اور شہنشاہ ہوتے جن کے نام سے ہی رعایا کا دم نکلتا۔ پھر وہ ریوڑ چرانے والے، مزدوری کرنے والے، ترکھان ، لوہار یا تاجر نہ ہوتے۔ پھر نبیوں کے پاس ہتھیار ہوتے، فوج ہوتی، دولت کے انبار ہوتے، خونخوار درندے اور بڑے بڑے قید خانے ہوتے۔ ایمان نہ لانے والے درندوں کے آگے ڈال دیے جاتے، قید خانوں میں قید کر لیے جاتے۔ جنگیں ہوتیں، لوگ زیر کر لیے جاتے۔ ہر طرف خون ریزی ، خوف اور طاقت کا بازار گرم رہتا۔ پھر ایک جہنم زمین پر بھی بنا دی جاتی۔

تم اتنی سی بات نہیں سمجھ سکے کہ اللہ نے اپنے نبیوں کو عام لوگوں جیسا کیوں بنایا۔ تاکہ لوگ ان سے خوفزدہ نہ ہوں۔ ان کی عز ت کریں لیکن ان کے رعب سے خائف نہ ہوں۔ وہ ان کی باتو ں کو عقل پر پرکھیں، سمجھ بوجھ سے جانیں۔ نہ کہ ان کے جاہ و جلال سے سہم کر ایمان لائیں۔ اللہ کو ایسے ایمان والے نہیں چاہیے۔ ورنہ اسلام تلوار کے زور پر قائم کیا جاتا۔ تم شہر شہر، گاؤں گاؤں، دیس دیس جاتے ہو اور بندوں کو جہنم کے عذابو ں سے لرزا کر رکھ دیتے ہو۔ تم نے کبھی انہیں یہ نہیں بتایا کہ۔۔۔۔۔۔

لوگوں نے گناہ کرنے چھوڑ دئیے ہیں۔”میں نے اس بحث کو ختم کرنا چاہا ۔میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ ان سے ایسی بے کار کی تکرار میں الجھا رہتا۔

”شاید۔۔۔۔۔۔اور لوگوں نے اللہ سے محبت کرنی بھی چھوڑ دی ہے۔ بچے اللہ کے خوف سے جھوٹ بولنا چھوڑ چکے ہیں۔ اب کوئی بچہ اللہ سے باتیں بھی نہیں کرتا کیونکہ وہ اللہ کے نام سے ہی سہم جاتاہے۔ کوئی عورت اللہ سے چپکے چپکے اپنے دل کا حال نہیں کہتی کیونکہ اسے لگتا ہے کہ اللہ کو بس نمازوں سے مطلب ہے اس کے دل کی باتوں سے نہیں ۔۔۔۔۔۔ کوئی مزدور سوکھی روٹی کھاتے ہوئے اللہ سے میٹھی روٹی کی فرمائش نہیں کرتا کیونکہ اسے یقین ہے کہ میٹھی روٹی کی فرمائش اس کی لالچ ہے۔ اور لالچی انسان جہنم میں جائے گا۔ تم نے انہیں اتنا زیادہ ڈرا دیا ہے کہ اللہ کے نام پر انہیں بس عذاب ہی عذاب دکھائی دیتا ہے ۔ اس کا رحم ، اس کی محبت نہیں۔”

”یہ سب اللہ کے اطاعت گزار بن چکے ہیں۔۔۔۔۔۔”میں اس سے بے زار ہو چکا تھا۔

”یہ سب بس اللہ کے غلام بن چکے ہیں۔ جو اپنے مالک کی سزا سے ڈرتا ہے، اس لیے کوئی گناہ نہیں کرتا۔ تم نے لوگوں کو بندگی نہیں ، غلامیت سکھائی ہے۔ جہنم سے ڈرے ہوئے غلام۔۔۔۔۔۔ اللہ کو یہی پیارے ہوتے تو اللہ کن کہتا اور سب کے دل اپنی طرف پھیر دیتا۔ اللہ نے نفس کیوں بنایا۔ اللہ نے انسان کو آزادی، سمجھ بوجھ، عقل شعور کیوں دی؟؟ کیونکہ اللہ کو غلام نہیں چاہیے تھے۔ اللہ کو بندے چاہیے تھے۔۔۔۔۔۔ اللہ کو ایسے اطاعت گزار نہیں چاہیے جو اس کی محبت کی طلب نہ رکھیں۔ ایسے بندے نہیں چاہیے جو بندگی کی چاہ نہ رکھیں۔۔۔۔۔۔”

میرے لیے یہ باتیں بے معنی تھیں۔ میں تو بس یہ جانتا تھا کہ خون کا بدلہ خون ہے۔ قاتل کا سر قلم ہو گا، چور کا ہاتھ کٹے گا، بے ایمان کو قید ہو گی، جھوٹے کی زبان جلے گی، ظالم ، سود خورکی پکڑ ہو گی ۔

ایک د ن مجھے قید خانے میں بلایا گیا ۔ موت کی سزا کا ایک قیدی مجھ سے ملنا چاہتا تھا۔ جس وقت میں وہاں پہنچا اس وقت اس کی سسکیوں سے قید خانے کی دیواریں لرز رہی تھیں۔ اس کے رونے نے دوسرے قیدیوں پر بھی رقت طاری کر دی تھی۔روشنی کے ذرے تک آبدیدہ تھے۔ ہوا کی سانسیں اس کے آنسوؤں سے نم تھیں۔

”کیا اللہ مجھے معاف کر دے گا۔”اس نے لجاجت سے میرا ہاتھ تھام لیا اور روتے ہوئے پوچھا۔

”تم نے ایک زندہ انسان کا قتل کیا ہے۔۔۔۔۔۔وہ تمہیں کیوں معاف کرے گا؟”

”میں شیطان کے بہکاوے میں آگیا تھا۔ کل میرا سر قلم ہونے جا رہا ہے۔ پھر کیا اللہ مجھ سے کلام کرے گا۔”

”وہ تم سے کلام کیوں کرے گا۔۔۔۔۔۔ تم نے یہاں دنیا میں اپنے کیے کی سزا بھگت لی تو تمہیں اوپر کوئی سزا نہیں ملے گی۔ ”

”میں سزا اور جزا کا نہیں پوچھ رہا۔۔۔۔۔۔ میں اللہ کا پوچھ رہا ہوں۔ کیا وہ میری طرف رخ کرے گا۔ کیا وہ مجھے دیکھے گا۔ کیا وہ مجھ سے محبت کرے گا۔ میرا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ میں اکیلا ہوں۔ کیا وہ میرا بنے گا؟ کیا وہ مجھے اپنا لے گا؟”

اسے کسی پل چین نہیں تھا۔ میں نے بے زاری سے اس کی طرف دیکھا۔ ”تم ایک قاتل ہو۔ اللہ کی محبت کی ایسی ہی فکر تھی تو قتل نہ کرتے۔ اب گڑگڑانے سے کیا حاصل۔”

وہ وہیں کا وہیں چپ ہو گیا۔ اس کی آنکھیں صدے سے سکڑ گئیں۔

”اللہ کی محبت پانے کے لیے میں نے خود کو کوتوال کے حولے کردیا۔ اپنے جرم کا اقرار کیا۔ میں نے توبہ کی۔ میں نے اللہ سے ہر طرح سے معافی مانگی ۔کیا اب بھی اللہ مجھ سے محبت نہیں کرے گا؟ کیوں؟ کس لیے؟ میرا اس کے سوا ہے ہی کون۔ اب وہ بھی مجھے نہیں اپنائے گا تو کون مجھے اپنائے گا؟ میں کہاں جاؤں گا۔” وہ زیر لب بڑ بڑا تا رہا۔

”کیا مومن اور قاتل برابر ہو سکتے ہیں؟ ”میں اس کی بڑ بڑاہٹ سے چڑ گیا۔

”میں اپنے کیے پرشرمندہ ہوں۔ معافی مانگ چکا ہوں۔”

”پھر بھی قاتل تو ہو نا ۔۔۔۔۔۔ اللہ تمہاری طرف نظر کرے گا یا اس مومن کی طرف جو رات دن عبادت میں مصروف رہتا ہے اور ہر حال میں اللہ کی اطاعت کرتاہے ۔جو اللہ سے ڈرتاہے، اور اپنی زندگی کو گناہوں کی سرحد سے بہت دُور رہ کر گزارتا ہے۔”

”اللہ کی محبت مقدار اور کمال میں کم تو نہیں ہو سکتی۔ اگر وہ اس مومن سے محبت کرتا ہے تو کچھ مجھ سے بھی کرتا ہو گا۔۔۔۔۔۔”

میں نے دیکھا کہ قید خانے کے بہت سے قیدی ہماری بات چیت بہت دلچسپی سے سن رہے ہیں۔ اگر میں اپنا رویہ نرم کرتا تو ان قیدیوں پر بر ا اثر پڑتا۔ پھر تو ہر انسان گناہ کیے جاتا اور توبہ کرتا رہتا۔ ایسے تو ہمیشہ گناہوں کا بازار ہی گرم رہتا۔

”تم نے اللہ سے اپنی محبت کھو دی ہے۔ بہتر ہے کہ سر قلم ہونے سے پہلے اچھی طرح سے توبہ کر لو۔ اور دعا مانگو کہ اللہ تمہیں جہنم کی آگ سے بچا لے۔”

”جہنم سے مجھے ڈر نہیں لگتا۔ وہ بے شک مجھے اسی میں جھونک دے۔۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔”

”چپ کر اے بد بخت۔۔۔۔۔۔چپ ہو جا۔۔۔۔۔۔”

یہ کہہ کر میں اسے روتا ہوا چھوڑ کر قید خانے سے باہر آگیا۔ دو دن بعد خواب میں مجھے وہی نوجوان نظر آیا۔ وہ خوش باش دکھائی دیتا تھا۔ پہلے تو وہ زیر لب مسکرا تا رہا پھر غصے سے مجھے گھورنے لگا اور انگلی اٹھا کر میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

اپنے انجام کے لیے تیار رہنا۔۔۔۔۔۔ تیار رہنا ۔۔۔۔۔۔ اللہ ایسا رحمن ہو گا اور میرے ساتھ ایسا معاملہ کرے گا ، دنیا میں مجھے اس کا اندازہ ہوتا تو میں بھوک کے خوف سے چوری نہ کرتا۔ چوری جیسے گناہ پر بھی وہ مجھ معاف کر دے گا تو میں چوری کے ظاہر ہو جانے کے خوف سے قتل نہ کرتا۔ میر ے قاتل بن جانے پر بھی وہ میری دعائیں سنے گا، میری توبہ قبول کرے گا تو میں ایک ایک سانس دعا کرتا، ایک ایک لمحہ توبہ کرتا۔۔۔۔۔۔ جتنا میں کر سکا اتنے پر بھی اس نے مجھ پر ایسارحم کیا کہ میں نے اسے پا لیا۔۔۔۔۔۔ لیکن تم اسے کیسے پاؤ گے؟؟ اصل بد بخت تو تم ہو۔۔۔۔۔۔

میں نے اس خواب کو اپنے ذہن کا فتور سمجھا۔ میں اپنی تبلیغ میں مصروف رہا اور بیرون شہر طوائفوں کے پاس گیا۔ انہوں نے اللہ کے عذاب سے ڈر کر چیخنا چلانا شروع کر دیا۔ وہ رونے پیٹنے تو لگیں لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی توبہ نہیں کی۔ شہر واپسی پر سرائے میں مجھے ایک دوسری طوائف ملی۔ وہ سیاہ چادر میں چھپی ہوئی تھی اور اپنے شہر سے بھاگ آئی تھی۔

”میں نے اللہ کے لیے یہ پیشہ چھوڑ دیا ہے۔ میری راہنمائی کریں۔” وہ میرے قدموں میں بیٹھ گئی۔

”تم نے توبہ کی۔۔۔۔۔۔؟”

”ہاں میں نے توبہ کی۔۔۔۔۔۔اب میرا رب مجھے ایسے اپنا لے گا جیسے پھول خوشبو کو۔۔۔۔۔۔”

”توبہ توبہ ۔۔۔۔۔۔ ناہجاز۔۔۔۔۔ ۔کہاں تو کہاں ہمارا رب ۔۔۔۔۔۔ اپنی اوقات دیکھی ہے۔ تو ایک طوائف ہے۔ سمندر کے پانی سے بھی نہا لے گی تو بھی اس لائق نہیں ہو سکے گی کہ رب العزت کی بارگاہ میں کھڑی ہو نے کی جرات کر سکے۔ یہی کیا کم ہو گا کہ اللہ تیرے گناہ معاف کر کے تجھے جہنم سے بچا لے گا۔”

”پر مجھے تو جہنم سے خوف نہیں آتا۔ بھلا جو آگ میں پلا بڑھا ہوا اسے آگ کیا ڈرائے گی۔”

”تو جنت میں جائے گی۔۔۔۔۔۔”

”جنت؟؟ جنت سے مجھے کیا لینا دینا !آپ ان دونوں کے مالک کی بات کریں۔ یہ پیشہ میں نے اس کے لیے چھوڑا۔ نہ جنت کے لالچ میں، نہ جہنم کے خوف سے۔”

میں نے ایک نفرت بھری نظر اس پر ڈالی۔ مجھے اس سے کراہیت آئی کہ ایک گناہ آلود جسم، ایک ناپاک زبان کیسے بار بار میرے رب کا نام لیتی ہے اور دعویٰ  کرتی ہے کہ اس نے اللہ کے لیے سب کچھ چھوڑا ہے۔ اب میرا رب اسے اپنا لے گا جیسے وہ کوئی معصوم دل، پاکیزہ روح ہی تو ہو۔ جیسے توبہ کرتے ہی اس کی حیثیت بدل گئی اور اس کے درجات بلند ہو گئے۔۔۔۔۔۔ہونہہ۔۔۔۔۔۔

”کیا خدا بھی مجھے ایسے ہی دیکھتا ہو گا؟؟” میری تحقیر بھری نظروں نے اسے افسردہ کر دیا۔

”ہاں بد بخت۔۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔۔”

وہ روتی ہوئی سرائے سے باہر بھاگ گئی۔ اس کی سیاہ چادر خاک آلود ہو گئی۔ ایسا لگا جیسے شدت غم سے وہ کسی کنوئیں میں چھلانگ لگانے جار ہی ہو۔۔۔۔۔۔

آئینہ دھواں دھواں ہو گیا۔ طوائف کی سسکیاں ان کے دل ڈسنے لگیں۔ ان کے کان اس کی توبہ سے دہکنے لگے۔ ان کی روحیں اس کی ”اللہ۔۔۔۔۔۔اللہ۔۔۔۔۔۔اللہ۔۔۔۔۔۔” کی پکار سے لرزنے لگیں۔ اللہ کے رحم اور اللہ کی محبت نے ان کے دلوں پر اپنا پہلا اثر چھوڑا۔۔۔۔۔۔اور وہ اس حقیقت کے گواہ ہوئے کہ۔۔۔۔۔۔

”جو زبان، جو دل، جو قلم، جو کتاب، جو انسان اللہ کے رحم کو چھپائے گا وہ سزا کا مستحق ہو گا۔ جو اللہ کی محبت سے پہلے کوئی دوسرا راستہ دکھائے گا وہ گناہ گار ہو گا ۔ جو ہدایت سے پہلے لعنت کا،علم سے پہلے جاہلیت کا، جزا سے پہلے سزا کا، رحم سے پہلے قہر کا،محبت سے پہلے بے زاری کا بتائے گا۔۔۔۔۔۔اللہ اس سے بے زار ہو گا۔۔۔۔۔۔”

دوسرا سبق:
قیامت کے دن اللہ فرمائیں گے کہــ ” میری ذات سے محبت کرنے والے آج کہاں ہیں؟ آج میں انہیں عرش کے سائے میں رکھوں گا۔ آج میرے سایہ کے علاوہ کسی چیز کا سایہ نہیں ہو گا۔”(الحدیث ۔مسلم)


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں