غضب الہی ۔۔۔۔ اثرات، اسباب اور تحفظ ۔۔۔ خطبہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 12 جون 2019


غضب الہی ۔۔۔۔ اثرات، اسباب اور تحفظ
خطبہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔
12 جون 2019 ۔۔ بمطابق 09 ذوالقعدہ 1440
امام و خطیب: فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل
بشکریہ: اردو مجلس فورم


فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے 09 ذوالقعدہ 1440 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں "غضب الہی ،،، اثرات، اسباب اور تحفظ" کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے کتاب و سنت میں اپنا مکمل تعارف کروایا ہے اور اللہ تعالی کے اسما و صفات پر غور و فکر سے خوف، امید، محبت اور توکل جیسی قلبی عبادات پروان چڑھتی ہیں، اللہ تعالی کی صفات میں غضب بھی شامل ہے ، اللہ تعالی کی یہ صفت کسی بھی مخلوق سے مشابہت نہیں رکھتی، اللہ تعالی کی ہر صفت خلقت پر اپنا اثر رکھتی ہے چنانچہ دنیاوی سزائیں اسی کا مظہر ہیں، اللہ تعالی کے غضب سے اعمال غارت ہو جاتے ہیں، اللہ غضب شدہ قوم سے انتقام بھی لیتا ہے، تمام انبیائے کرام نے اپنی اقوام کو اللہ کے غضب سے خبردار کیا، سلیم الفطرت شخص اللہ کے غضب سے بچنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ: قبروں پر سجدے، اللہ کی صفات میں شراکت کی کوشش، اللہ سے دعا نہ کرنا، خوشی سے کفریہ کام کرنا، دل میں نفاق ، رسولوں کو ایذا رسانی، نبی کے ہاتھ سے قتل ہونے والا، اللہ کے ولیوں کو خفا کرنے والا، تقدیری فیصلوں پر ناراضی ، اللہ کے راستے سے روکنا ،بے عمل عالم ، والدین کو ناراض کرنے والا، مسلمان کی جان یا مال لوٹنے والا، ظلم پر مدد کرنے والا اور میدان جنگ سے پیٹھ پھیرنا غضب الہی کے مستحق افراد اور اعمال ہیں۔ جس پر اللہ کا غضب ہو اس سے تعلقات بنان حرام ہوتا ہے، تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ اللہ کے غضب سے بچنے کے لئے مؤثر اقدامات کریں، چونکہ اللہ کی رحمت ہر چیز سے وسیع ہے اس لیے غضب الہی سے بچنے کے لئے خصوصی دعاؤں کا اہتمام بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے، آخر میں انہوں نے جامع دعا کروائی ۔


↝ منتخب اقتباس ↜

یقیناً تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، اسی سے مدد کے طلب گار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی اسی سے مانگتے ہیں، نفسانی اور بُرے اعمال کے شر سے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت عنایت کر دے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی رہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلامتی نازل فرمائے۔

مسلمانو!

اللہ تعالی نے مخلوق کو آیات قرآنی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اپنا تعارف کروایا۔ اللہ تعالی کے اسما و صفات انتہائی اعلی ہیں۔ اللہ کی صفات پر غور و فکر اور ان کے ذریعے اللہ کی بندگی اللہ کی محبت اور جنت کا راستہ ہے۔

اسما و صفات پر غور و فکر کی بدولت اللہ تعالی سے خوف، امید، محبت اور توکل وغیرہ جیسی خوبیاں پروان چڑھتی ہیں۔

امت محمدیہ کے سلف صالحین کا عقیدہ ہے کہ جو کچھ بھی کتاب و سنت میں اللہ تعالی کے اسما و صفات بیان ہوئے ہیں انہیں ثابت مانیں؛ اللہ کا خوف اور خشیت پیدا کرنے والی صفات الہیہ میں غضب کی صفت بھی شامل ہے۔ اللہ تعالی غضبناک ہوتا ہے اور راضی بھی ؛ لیکن کائنات میں سے کسی کے ساتھ اس کی مشابہت نہیں ۔

اللہ تعالی کی صفات میں سے ہر صفت کا خلقت پر اثر ہوتا ہے، چنانچہ اللہ تعالی کی صفت غضب کا اثر دنیا میں رونما ہونے والی عمومی سزاؤں اور بلاؤں کی صورت میں نظر آتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَى}
 اور جس پر میرا غضب نازل ہو گا تو وہ تباہ ہو گیا۔ [طہ: 81]
سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اللہ کے غضب سے چھٹکارے کی کوئی دوا نہیں"

اللہ کی ناراضی سے انسان کے اعمال غارت ہو جاتے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللَّهَ وَكَرِهُوا رِضْوَانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ}
 یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ کی ناراضی کا باعث بننے والی چیزوں کی پیروی کی اور رضائے الہی کو پسند نہ کیا، تو اللہ نے ان کے اعمال غارت کر دئیے۔[محمد: 28]

اللہ تعالی نے کچھ اقوام کو سزا سے دو چار کیا اور ان کے واقعات ہمیں اس لیے بتلائے تا کہ ہم ان کے کئے ہوئے گناہوں سے باز رہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
{ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ}
 وہ جہاں کہیں پائے گئے ان پر ذلت تھوپ دی گئی، الا یہ کہ اللہ کی طرف سے کوئی سبب پیدا ہو جائے یا انسانوں کی طرف سے ، آخر کار وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے ۔[آل عمران: 112]

ایک قوم نے اللہ کی آیات کا انکار کیا تو انہیں پے در پے غضب الہی مول لینا پڑا، اور ایک قوم پر اللہ تعالی غضبناک ہوا تو ان کی شکلوں کو مسخ کر دیا، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (بنی اسرائیل کے ایک قبیلے پر اللہ تعالی غضبناک ہوا تو انہیں جانوروں میں بدل دیا اور وہ زمین پر رینگنے لگے) مسلم

مسلمان ہمیشہ اللہ تعالی سے رحمت اور رضائے الہی کی امید کرتے ہوئے لو لگاتا ہے، وہ ہمیشہ اللہ کے غضب اور ناراضی سے بچتا ہے، جبکہ شرک غضب الہی اور عذاب کا سب سے بڑا موجب ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{إِنَّ الَّذِينَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَيَنَالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا}
 جن لوگوں نے بچھڑے کو معبود بنایا ان تک ان کے پروردگار کا غضب ضرور پہنچے گا اور دنیا میں انہیں ذلت ملے گی۔[الأعراف: 152]

قبروں کے پاس یا قبروں کی طرف منہ کر کے نماز غضب الہی کا سبب بنتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اپنے انبیائے کرام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانے والوں پر اللہ کا شدید ترین غضب ہوا) مالک

اللہ تعالی کی صفات میں شراکت داری کے لئے کوشش کرنے والے پر اس کی کاوش بطور عذاب الٹی پڑ جاتی ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "اپنے آپ کو شہنشاہ کہلوانے پر اللہ تعالی کا شدید ترین غضب ہوا" احمد

اللہ تعالی کی ذات نہایت سخی ہے؛ اسی لیے اللہ تعالی کو یہ بات پسند ہے کہ بندے اس سے مانگتے رہیں، چنانچہ جو اللہ سے نہیں مانگتا اس سے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو اللہ سے نہ مانگے تو اللہ تعالی اس پر غضبناک ہوتا ہے) ترمذی

کفر اللہ کو محبوب نہیں اور نہ ہی اسے پسند کرتا ہے، چنانچہ جب بھی کوئی بندہ کفر کرے تو اللہ تعالی اس پر غضبناک ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ} 
جس نے خوشی سے کفر کیا ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ [النحل: 106]

معاشرے میں بہتری اس وقت آتی ہے جب ظاہر اور باطن دونوں ہی صاف ہوں، لیکن اگر کوئی دل میں تو برائی رکھے اور ظاہر کچھ اور کرے تو اس کا اللہ کے بارے میں گمان اچھا نہیں ہے؛ اسی بنا پر وہ غضب الہی کا مستحق ٹھہرتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّينَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا}
 اور اللہ کے بارے میں برا گمان کرنے والے منافق مردوں اور عورتوں نیز مشرک مردوں اور عورتوں کو اللہ سزا دے ، یہی لوگ برے حالات میں پھنسے ہوئے ہیں، اور اللہ ان پر غضبناک ہے، ان پر اللہ کی لعنت بھی ہے نیز ان کے لیے جہنم تیار کی ہوئی ہے اور وہ بری لوٹنے کی جگہ ہے۔ [الفتح: 6]

ساری خلقت میں سے رسول چنیدہ ہوتے ہیں، اس لیے جو بھی رسولوں کو تکلیف دے تو وہ اللہ کے شدید ترین غضب کا مستحق ٹھہرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (ایسی قوم پر اللہ تعالی شدید ترین غضبناک ہوا جنہوں نے اللہ کے نبی کا چہرہ خون آلود کر دیا) متفق علیہ

بد ترین مخلوق وہ ہے جسے کسی نبی نے قتل کیا ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اس شخص پر اللہ تعالی شدید ترین غضبناک ہوا جسے نبی نے قتل کیا۔) متفق علیہ

اللہ کے ولیوں اور نیک بندوں کو خفا کرنے والا اللہ تعالی کو اپنے اوپر غضبناک کر لیتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اگر تم نے انہیں [یعنی صحابہ کرام کو] خفا کر دیا تو تم نے اپنے پروردگار کو غضبناک کر دیا) مسلم

مصیبت کے وقت بے صبری سے تقدیری فیصلے نہیں ٹلتے، اور مصیبت پر ناراضی کے اظہار سے ناراضی ہی ملتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو [تقدیری فیصلوں پر]اظہار ناراضی کرے تو اس کے لئے اللہ کی طرف سے بھی ناراضی ہے) ترمذی

اسی طرح اللہ کے راستے سے قولاً یا عملاً روکنا بھی تباہی اور غضب الہی کا باعث ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا اسْتُجِيبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ} 
جو لوگ اللہ کی دعوت تسلیم کر لئے جانے کے بعد اللہ کے متعلق جھگڑا کرتے ہیں ان کی حجت ان کے پروردگار کے ہاں کالعدم ہے ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے سخت عذاب ہے۔ [الشورى: 16]
 اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: " یعنی اللہ اور رسول اللہ پر مومنوں کے ایمان لانے کے بعد انہیں راہ ہدایت سے روکنے اور دوبارہ سے جاہلیت میں لے جانے کے لئے انہوں نے جھگڑا شروع کر دیا "

حاصل کردہ علم پر عمل نہ کرنے والا بھی ان لوگوں میں شامل ہے جن پر اللہ کا غضب ہے، مسلمانوں کو نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالی انہیں ایسے لوگوں سے اور ان کی روش سے بچا لے ۔

اللہ تعالی نے والدین کے حقوق کو خصوصی تحفظ دیا کیونکہ ان کی شان بہت اعلی ہے، نیز اپنی رضا مندی کو والدین کی رضا مندی سے منسلک فرما دیا، ایسے ہی اپنی ناراضی کو بھی ان کی ناراضی سے نتھی کر دیا، سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : "رب کی رضا مندی والد کی رضا مندی میں ہے اور رب کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے" ترمذی

مسلمان کی جان کو مکمل تحفظ حاصل ہے، اسی لیے مسلمان کو قتل کرنے والا شخص اللہ کے غضب اور لعنت کا مستحق ٹھہرتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا}
 اور جو شخص کسی مومن کو دیدہ دانستہ قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ [النساء: 93]

مسلمانوں کی دولت کو بھی مکمل تحفظ حاصل ہے، اسی لیے مسلمان کی دولت پر ہاتھ صاف کرنے والے کے لئے بھی شدید وعید ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جس نے مالی معاملات میں قسم اس لیے اٹھائی کہ اس کے ذریعے سے کسی مسلمان کا مال ہتھیا لے تو اللہ کے ساتھ اس کی ملاقات اس حالت میں ہو گی کہ اللہ تعالی اس پر غضبناک ہو گا۔) متفق علیہ


اگر کوئی جھوٹی عورت اپنے خاوند سے لعان کرے تو وہ ہمیشہ اللہ کے غضب میں رہتی ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ}
 اور پانچویں قسم یہ کہ: اللہ کا اس عورت پر غضب نازل ہو، اگر مرد اپنے دعوے میں سچا ہے۔[النور: 9]

ظلم کے لئے کسی کی مدد کرنے والے پر بھی اللہ تعالی غضبناک ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو کسی جھگڑے میں کسی کی ناحق مدد کرے یا ظلم کرنے کے لئے معاونت کرے تو اللہ تعالی اس پر اس وقت تک غضبناک رہے گا یہاں تک کہ وہ اپنی اس حرکت باز آ جائے) ابن ماجہ

زبان لوگوں کے ہاں ایک معیار ہے؛ اسی لیے ممکن ہے کہ ایک ہی بول انسان کی کامرانی یا نامرادی کا سبب بن جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (تم میں سے کوئی اللہ تعالی کو غضبناک کرنے والی بات بول دیتا ہے، اور اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا کیا اثر ہو گا ، لیکن اللہ تعالی اس پر ملنے کے دن تک اپنا غضب لکھ دیتا ہے) ترمذی

دشمن سے مڈ بھیڑ کے دوران میدان کار زار سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا بھی غضب الہی کا موجب ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَى فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ} 
اور اس دن پیٹھ پھیرنے والا شخص اللہ کے غضب میں آگیا۔ اس کا ٹھکانا دوزخ ہوگا اور وہ بری جائے بازگشت ہے ، الا یہ کہ وہ کوئی جنگی چال چل رہا ہو یا مڑ کر اپنی فوج کو ملنا چاہتا ہو۔[الأنفال: 16]

شکر ادا کرنا نعمت کا حق ہے، جبکہ اس نعمت پر تکبر اور حقیقی نعمت کنندہ کو بھول جانے کی سزا دنیا میں فوری مل جاتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِيهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِي وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَى}
 جو پاکیزہ چیزوں کا تمہیں رزق دیا ہے اسے کھاؤ اور کھا کر سرکشی نہ کرو۔ ورنہ تم پر میرا غضب نازل ہوگا اور جس پر میرا غضب اترا وہ تباہ ہو گیا۔ [طہ: 81]

اللہ تعالی کو غضبناک کرنے والے کام کے مرتکب شخص کے ساتھ بغض رکھنا واجب اور اس سے تعلقات بنانا حرام ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ}
 اے ایمان والو! ایسے لوگوں کو دوست نہ بناؤ جن پر اللہ کا غضب ہوا۔[الممتحنة: 13]

لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ موت کے بعد کی تیاری میں زیادہ سے زیادہ نیک عمل کریں؛ کیونکہ اللہ تعالی کا سب سے سخت غضب روزِ قیامت ظاہر ہو گا، اسی لیے آدم، نوح ، ابراہیم ، موسی اور عیسی علیہم السلام جیسے انبیائے کرام بھی اس سخت صورت حال میں پکار اٹھیں گے: (بلا شبہ میرا پروردگار آج اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا، بلکہ آج کے بعد کبھی بھی اتنا غضبناک نہیں ہوگا) متفق علیہ

ان تمام تر تفصیلات کے بعد مسلمانو!

اللہ تعالی بہت مضبوط اور قوت والا ہے، اللہ نے اپنے بندوں کو اپنے غضب سے خبردار بھی کر دیا اور فرمایا:
 {وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ}
 اور اللہ تمہیں اپنے آپ سے خبردار کرتا ہے۔[آل عمران: 28]
 لوگوں کو اللہ تعالی کے حلم کے دھوکے میں نہیں رہنا چاہیے۔ جب اللہ تعالی کسی پر غضبناک ہو کر سزا کا حکم جاری کر دے تو اس کے فیصلے کو کوئی نہیں ٹال سکتا؛ چنانچہ اگر لوگ بد اعمال کر کے بھی اللہ تعالی کی نعمتیں حاصل کرتے رہیں تو یہ اللہ تعالی کی طرف سے ڈھیل ہے، انہی کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ}
 اور میں انہیں ڈھیل دے رہا ہوں، بیشک میری تدبیر بہت مضبوط ہے۔[القلم: 45]
 تاہم اگر لوگ اللہ کی طرف رجوع کر لیں تو اللہ تعالی ان کے لئے توبہ اور بھلائی کے دروازے کھول دے گا اور ان سے راضی ہو جائے گا۔

مسلمانو!

اطاعت گزاری رضائے الہی کی موجب ہے، اسی کی بدولت انسان اللہ کی رحمت پاتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ}
 میری رحمت ہر چیز سے وسیع ہے۔ لہذا جو لوگ تقوی اپناتے ہیں، زکاۃ دیتے ہیں اور ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں ان کے لئے میں رحمت ہی لکھوں گا۔ [الأعراف: 156]


غضب الہی سے اللہ کی پناہ مانگنا اللہ کے حکم سے تحفظ کا باعث بن سکتا ہے، اسی لیے رسول اللہ ﷺ کی دعا میں شامل تھا کہ:
 ( {اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِكَ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ}
 ترجمہ: یا اللہ! میں تیری رضا کے ذریعے تیرے غضب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔) مسلم۔ 
اس لیے دانش مند مسلمان رضائے الہی پانے کے لئے خوب محنت کرتا ہے اور اپنے آپ کو ہر ایسے کام سے بچاتا ہے جو اللہ کو غضبناک کریں۔

یہ بات جان لو کہ اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:
 {إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا} 
اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56]

اللهم صل وسلم وبارك على نبينا محمد، یا اللہ! حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کرنے والے خلفائے راشدین: ابو بکر ، عمر، عثمان، علی سمیت بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہو جا؛ یا اللہ !اپنے رحم و کرم اور جو د و سخا کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا اکرم الاکرمین!




تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں