تحریر: افشاں نوید
"فیس ایپ" پر بیٹے انجوائے کررہے ہیں اپنے خوساختہ بوڑھے چہرے دیکھ دیکھ کر۔ ایک دوسرے کو دکھا رہے ہیں، ہنسی سے لوٹ پوٹ ہورہے ہیں ۔یہ زمانہ طالب علمی ہے ہی بے فکری کا دور۔جب کوئی ذمہ داری نہیں کاندھوں پر۔
بیس برس کے چہرے پر پچاس کا چہرہ دیکھ کر بظاہر تو میں بھی ہنس پڑی لیکن دل یک دم ڈر گیا۔
ہم تو نہیں ہونگے اس وقت جب یہ بچے نانا دادا ہونگے۔ لیکن کیسے بتائیں ان کو کہ یہ وقت بڑی جلدی آجاتا ہے۔۔ بچوں، بن آہٹ، بن دستک دیے آجاتا ہے،لاکھ روکنا چاہو مگر گھڑی کی سوئیوں نے تھکنا نہیں سیکھا۔ وہ لمحہ بھر کو نہیں ٹھہرتیں اور۔۔۔ ۔ہم جیون ہار دیتے ہیں۔
یہ ٹیکنالوجی کا احسان ہے کہ مذاق ہی مذاق میں ایک پیغام تو ہے کہ اس عمر سے پہلے کچھ کرلینا۔
جب سانس پھولنے لگے، جب گوڈے گھٹنے جواب دینے لگیں، جب شوگر بن میٹھا کھائے بھی بار بار ہائی ہو جائے۔ جب بیک بون کے مہرے ڈس پلیس ہونے لگیں۔ جب بلڈ پریشر اور شوگر کے آلات بیڈ کے ساتھ والی میز کی زینت بن جائیں۔۔۔۔۔۔۔
دانت گنڈیری چوسنے، چنے چبانے، کاغذی اخروٹ و بادام کا چھلکا توڑنے کے بھی قابل نہ رہیں۔
"اماں آئس کریم کھائیں۔ کیا زبردست فلیور۔"اور جواب آئے۔"نہیں بچے ٹھنڈا لگتا ہے دانتوں میں"۔۔۔ "یہ دیکھیں آج محفوظ کے شیرمال لایا ہوں مزہ آجائے گا، قورمہ بنایا ہے ناں آپ نے"۔۔"نہیں میرے چاند کولیسٹرول لیول بڑھ جاتا ہے بے احتیاطی سے۔"
زندگی کے کتنے رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں۔ کتنی تمنائیں حسرتوں میں بدل جاتی ہیں۔
بچے ہنس رہے ہیں اور مجھے لگ رہا ہے کہیں بگل بج رہا ہے
ففرو۔۔ دوڑو
وسارعو۔۔ جلدی کرو
وسابقو۔۔۔ آگے بڑھو سبقت لے جاؤ۔۔
فلیتنافس المتنافسون ۔۔۔۔
کاش تین دہائی قبل جب ہم یونیورسٹی میں تھے کوئی ہمیں یہ چہرہ اس طرح دکھاتا تو شائد صراحی حیات کے کچھ قطروں کو سلیقے سے برت لیتے ۔ ضائع نہ کرتے اس چھوٹی سی چھاگل کے کسی قطرے کو امکانات کی حد تک۔
بچوں کے خیال میں یہ وقت بہت دور ہے۔ مجھ سے کوئی پوچھے تو بس ایک رات جیسے سو کر اٹھ گئے۔۔
اتنی چھوٹی سی زندگی میں کرنے کے کام بے حساب ہیں۔
شاید فیس اپ کے مصنوعی بوڑھے چہرے وقت کی قدروقیمت کا احساس دلا رہے ہوں!!!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں