شکرانۂ نعمت کے آداب ۔۔۔ خطبہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 28 جون 2019


شکرانۂ نعمت کے آداب 
 خطبہ مسجد نبوی (اقتباس)
28 جون 2019 ۔۔۔ بمطابق  25 شوال 1440
امام و خطیب: فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل


فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری بن عواض ثبیتی حفظہ اللہ نے مسجد نبوی میں 25 شوال 1440 کا خطبہ جمعہ " شکرانۂ نعمت کے آداب" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ اللہ کی بندوں پر لاتعداد اور بے شمار نعمتیں ہیں اور جتنی بھی خوشیاں اور آسائشیں ہمیں میسر ہیں سب اللہ تعالی کی طرف سے ہیں، ہمارے اندر اور باہر موجود نعمتوں پر غور و فکر ان کا احساس اجاگر کرتا ہے اور اس سے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے، اور جب دل ایمان سے معمور ہو جائے تو شکر گزاری کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور یہی مومن کی اعلی اور کامیاب ترین کیفیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کی نعمتوں کا اولین تقاضا ہے کہ ان کا اعتراف کر کے ان کی نسبت اللہ کی جانب کریں اور یومیہ پانچوں نمازوں میں سورت فاتحہ کی صورت میں حمد الہی بیان کریں، جب انسان اعتراف کر لے تو ان نعمتوں کو حصولِ رضائے الہی میں استعمال کرتا ہے، اور نعمت کے اثرات بھی اس پر عیاں ہوتے ہیں۔ کسی کی زندگی میں نعمتوں کا تسلسل رحمت بھی ہو سکتا ہے اور زحمت بھی دوسری صورت اس وقت ہوتی ہے جب انسان ان نعمتوں کو اپنی طرف منسوب کرے اور اللہ کو بھول جائے جیسے کہ فرعون اور قارون نے کیا تھا، ان نعمتوں کے شکر میں انسان جتنی بھی تگ و دو کر لے شکر ادا نہیں ہو سکتا اس لیے اتنا ہی کافی ہے کہ انسان شکر کے ذریعے رضائے الہی کا طالب رہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نعمتوں پر غور و فکر نہ کرنا، اپنے سے اونچے کو دیکھ کر اپنی ذات پر ہونے والی نعمتوں کو بھول جانا، خوشیوں میں مگن ہو کر خوشی بخشنے والے کو پس پشت ڈالنا ناشکری کے زمرے میں آتے ہیں۔ عقل مند شخص ہر نعمت کا الگ الگ شکر ادا کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے، اور کسی بھی نعمت کا شکر ادا کرنے کے لئے اسے اللہ کی بندگی میں ہی استعمال کرتا ہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مطلب پورا ہونے تک اللہ کا شکر اور بندگی کرتے ہیں جیسے ہی ذاتی مفادات میں کمی آئے تو الٹے پاؤں لوٹ جاتے ہیں، پھر انہوں نے جامع دعا کروائی۔


↣ منتخب اقتباس ↢

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں کہ اسی نے پیدا کیا اور کامل بنایا، پھر درست تخمینے لگا کر رہنمائی بھی فرمائی، میں لا تعداد اور بے شمار نعمتوں پر اسی کی حمد و شکر بجا لاتا ہوں، اور گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، وہی بلند و بالا اور اعلی ہے۔ اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ اپنی من چاہی بات نہیں کرتے تھے بلکہ وہ تو وحی الہی ہوتی تھی۔ اللہ تعالی آپ پر، آپ کی آل، اور صحابہ کرام پر روزِ قیامت تک رحمتیں نازل فرمائے ۔

حمد و صلاۃ کے بعد میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی اپنانے کی تاکیدی نصیحت کرتا ہوں۔

بندوں پر اللہ کی نعمتیں بہت زیادہ اور لا تعداد ہیں، انہیں کوئی شمار نہیں کر سکتا، اللہ تعالی کی نعمتیں تسلسل کے ساتھ جاری ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَارَ (32) وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَيْنِ وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ (33) وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ}
 اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے تمہارے کھانے کو پھل پیدا کئے نیز تمہارے لئے کشتی کو مسخر کیا کہ اللہ کے حکم سے سمندر میں رواں ہو اور دریاؤں کو بھی تمہارے لئے مسخر کر دیا۔ [32] تمہارے لیے ہی سورج اور چاند کو دائمی طور پر مسخر کیا ، دن اور رات بھی تمہارے لئے مسخر کیے [33] اور جو کچھ بھی تم نے اللہ سے مانگا وہ اس نے تمہیں دیا۔ اور اگر اللہ کی نعمتیں شمار کرنا چاہو تو کبھی ان کا حساب نہ رکھ سکو گے۔ انسان تو ہے ہی ظالم اور ناشکرا [إبراهيم: 32 -34]

فوائد کا حصول اور نقصانات سے بچاؤ بلکہ انسان کو ملنے والی ہمہ قسم کی بھلائی در حقیقت اللہ تعالی کی طرف سے انعام ہوتی ہے، چاہے اس کا تعلق علم سے ہو یا ایمان سے، ملازمت سے ہو یا اولاد سے۔ رہائش ، سواری الغرض کسی بھی قسم کی خوشی اور کامیابی اللہ کی طرف سے ہی ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ}
 تمہارے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔[النحل: 53]

ہمارے ارد گرد کے ماحول پر غور و فکر ہمیں اللہ کی نعمتوں کا احساس دلاتا ہے، اسی کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{فَلْيَنْظُرِ الْإِنْسَانُ إِلَى طَعَامِهِ}
 انسان اپنے کھانے پر غور و فکر کرے۔[عبس: 24]
 ایک اور مقام پر فرمایا: 
{فَلْيَنْظُرِ الْإِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ}
 انسان غور کرے کہ اسے کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔[الطارق: 5]

مومن شخص اپنی متوازن عقل اور پختہ فکر کی بدولت اپنے ارد گرد اللہ تعالی کی نعمتوں کو دیکھتا ہے ؛ اللہ تعالی نے قابل قبول اعمال کرنے والے مومن کی ایسی ہی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا: 
{حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ}
 یہاں تک کہ وہ اپنی پختہ عمر کو پہنچا اور چالیس سال کا ہو گیا تو اس نے کہا : "میرے پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کیا ہے اور یہ بھی کہ میں ایسے اچھے عمل کروں جو تجھے پسند ہوں" [الأحقاف: 15]

جس وقت مومن کا دل ایمان سے معمور ہو تو اسے نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی نعمت حاصل ہوتی ہے، اس وقت مومن کا کردار اور اخلاق اعلی ترین سطح پر ہوتے ہیں، کامیابی اس کی رفاقت میں رہتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ (7) فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَنِعْمَةً وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ}
 لیکن اللہ نے ہی تمہیں ایمان کی محبت دی اور اس محبت کو تمہارے دلوں میں سجا دیا۔ نیز کفر، عناد اور نافرمانی سے نفرت پیدا کر دی ، یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ [7] یہ تو خالص اللہ کا فضل اور نعمت ہے، اللہ تعالی جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ [الحجرات: 7، 8]

اللہ تعالی کی نعمتوں کو یاد رکھنے کا اولین تقاضا ہے کہ ان کا اعتراف کریں اور پھر صرف اللہ عزوجل کی جانب ان کی نسبت کریں، اسی لیے اللہ کی نعمتوں کو یاد رکھنے والا ہمیشہ عطا کرنے والی ذات کا ذکر کرتا رہتا ہے، اور عطا کرنے والی ذات صرف اللہ تعالی کی ہے اٹھتے بیٹھتے ہم اسی کی نعمتیں استعمال کرتے ہیں۔

جس وقت مسلمان اپنے اوپر اللہ کی نعمتوں کا اقرار کرے، اپنی آغوش میں لینے والے فضل الہی کا اعتراف کرے تو مسلمان ان نعمتوں کو حصولِ رضائے الہی کے لئے استعمال میں لاتا ہے، یہ دیکھیں اللہ کے نبی سلیمان علیہ السلام پروردگار سے دعا کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
 {رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ}
 اے میرے پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں اپنے اور اپنے والدین پر کی ہوئی تیری نعمتوں کا شکر ادا کروں ، نیز اس بات کا بھی کہ میں تیرے پسندیدہ اچھے عمل کروں ، اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما[النمل: 19]، 
اسی طرح موسی کلیم اللہ علیہ السلام رب العالمین سے وعدہ کرتے ہیں:
 {قَالَ رَبِّ بِمَا أَنْعَمْتَ عَلَيَّ فَلَنْ أَكُونَ ظَهِيرًا لِلْمُجْرِمِينَ}
 کہا: میرے پروردگار! تیری عطا کردہ نعمت کو استعمال کرتے ہوئے میں مجرموں کا مدد گار ہر گز نہیں بنوں گا۔[القصص: 17]

مسلمان جس وقت اللہ کی نعمتوں کا اقرار کرے تو ان نعمتوں کا اظہار شکر اور حمد کے لئے کرتا ہے، فخر اور تکبر کے لئے نہیں کرتا، اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ}
 اور اپنے رب کی نعمت کو بیان کریں۔[الضحى: 11] 
یعنی مطلب یہ ہے کہ نعمت کنندہ کی عظمت بیان کرنے کے لئے حاصل شدہ نعمتیں لوگوں کو بتلائیں۔

ایک حدیث میں ہے کہ : (جب اللہ تعالی کسی بندے کو نعمت سے نوازے تو اس پر اپنی نعمت کے اثرات دیکھنا پسند فرماتا ہے) اس حدیث کو بیہقی نے حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

شکر کا اعلی ترین درجہ یہ ہے کہ آپ فوری عبادت میں مگن ہو جائیں، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ}
 بلکہ صرف اللہ کی ہی عبادت کریں اور شکر گزاروں میں شامل ہو جائیں۔[الزمر: 66]

انسان جتنی بھی جد و جہد کر لے نعمتوں کے شکر کا حق ادا نہیں ہو سکتا؛ تاہم انسان کو اتنا کافی ہے کہ وہ رضائے الہی پا لے، انسان عمومی الفاظ میں بھی شکر ادا کر سکتا ہے اور الگ الگ نعمت کا بھی شکر ادا کرے، چنانچہ جب بھی کوئی نئی نعمت ملے تو اس کے لئے شکر ادا کرے، جیسے کہ ایک حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص صبح کے وقت کہے: {اَللَّهُمَّ مَا أَصْبَحَ بِي مِنْ نِعْمَةٍ أَوْ بِأَحَدٍ مِنْ خَلْقِكَ؛ فَمِنْكَ وَحْدَكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ، فَلَكَ الْحَمْدُ، وَلَكَ الشُّكْرُ} [ترجمہ: یا اللہ ! مجھے یا تیری کسی بھی مخلوق کو جو بھی نعمت صبح کے وقت حاصل ہے وہ تجھ اکیلے ہی کی طرف سے ہے ؛تیرا کوئی شریک نہیں ۔ پس تیرے لیے ہی حمد ہے اور تیرا ہی شکر ہے ۔] تو اس نے اس دن کا شکر ادا کر دیا، اور جو شخص شام کے وقت کہے: {اَللَّهُمَّ مَا أَمْسَى بِي مِنْ نِعْمَةٍ أَوْ بِأَحَدٍ مِنْ خَلْقِكَ؛ فَمِنْكَ وَحْدَكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ، فَلَكَ الْحَمْدُ، وَلَكَ الشُّكْرُ} [ترجمہ: یا اللہ ! مجھے یا تیری کسی بھی مخلوق کو جو بھی نعمت شام کے وقت حاصل ہے وہ تجھ اکیلے ہی کی طرف سے ہے ؛تیرا کوئی شریک نہیں ۔ پس تیرے لیے ہی حمد ہے اور تیرا ہی شکر ہے ۔] تو اس نے اس رات کا شکر ادا کر دیا۔)

تاہم جس شخص کی بصیرت اللہ تعالی کی نعمتوں کے ادراک سے اندھی ہو جائے تو وہ شیطانی وسوسوں اور مکر کا شکار ہو جاتا ہے، قرآن کریم نے شیطان کے عزائم ذکر کرتے ہوئے بتلایا ہے: 
{ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ}
 پھر میں انہیں آگے ،پیچھے ،دائیں ، اور بائیں طرف گھیروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا ۔[الأعراف: 17]

دوسروں کے ہاں موجود فراوانی کو دیکھ کو بسا اوقات مسلمان اللہ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتا یا اپنے پاس موجود نعمتوں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے، تو ایسے میں صحیح مسلم کی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کے مطابق رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اس کی طرف دیکھو جو تم سے کم تر ہے، اپنے سے برتر کی طرف مت دیکھو؛ اس سے عین ممکن ہے کہ تم اللہ کی نعمتوں کو حقیر مت جانو)

یہ اللہ تعالی کی بے ادبی میں شامل ہے کہ انسان نعمتوں میں مگن ہو کر نعمت عطا کرنے والی ذات کو بھول جائے، خوشیوں میں مست ہو کر مشکل کشائی اور حاجت روائی کرنے والے کو پس پشت ڈال دے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{كَذَلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُونَ (81) فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ الْمُبِينُ (82) يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَهَا وَأَكْثَرُهُمُ الْكَافِرُونَ}
 اللہ اسی طرح تم پر اپنی نعمتیں پوری کرتا ہے تاکہ تم فرمانبردار بنو [81]اور اگر وہ رو گردانی کریں تو بیشک آپ پر صرف واضح تبلیغ کی ذمہ داری ہے۔[83] وہ اللہ کی نعمتوں کو پہچانتے بھی ہیں پھر ان کا انکار کر دیتے ہیں، ان میں سے اکثر ناشکرے ہیں۔[النحل: 81 - 83]

بسا اوقات مسلمان عبادت کو ملنے والی نعتوں سے نتھی کر دیتا ہے، چنانچہ اگر نعمتیں ملیں تو راضی رہتا ہے اور جیسے ہی نعمتیں اٹھا لی جائیں تو ناراض ہو جاتا ہے[اور عبادت ترک کر دیتا ہے]؛ تو یہ مذموم صفت ہے، اللہ تعالی نے ایسے شخص کے متعلق ہی فرمایا:
 {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انْقَلَبَ عَلَى وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ}
 اور کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالی کی بندگی کنارے پر رہتے ہوئے کرتے ہیں، اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچ گیا تو مطمئن ہوئے، اور اگر کوئی آزمائش آ پڑی تو الٹے پاؤں پھر گئے، وہ دنیا میں بھی نامراد اور آخرت میں بھی نامراد ہیں۔[الحج: 11]

اللہ کے فرمان: {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ } [ترجمہ اور کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالی کی بندگی کنارے پر رہتے ہوئے کرتے ہیں]کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: "ایک شخص مدینہ آیا کرتا تھا، تو جب اس کی بیوی لڑکے کو جنم دیتی اور اس کے گھوڑے بھی افزائش نسل کرتے تو کہتا: یہ بڑا اچھا دین ہے۔ اور جب اس کے ہاں اولاد نہ ہوتی اور نہ ہی اس کے گھوڑے افزائش نسل کرتے تو کہتا: یہ برا دین ہے" بخاری

اللہ کے بندو!

رسولِ ہُدیٰ پر درود و سلام پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں تمہیں اسی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
 {إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا}
 اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔ [الأحزاب: 56]

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.


یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے قول و فعل کی توفیق مانگتے ہیں، یا اللہ! ہم تجھ سے جہنم کے قریب کرنے والے ہر قول و فعل سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔

یا اللہ! ہم تجھ سے دیر سویر ہر قسم کی خیر تجھ سے مانگتے ہیں چاہے ہمیں اس کا علم ہے یا نہیں، اور اسی طرح یا اللہ! ہم تجھ سے دیر سویر ہر قسم کے شر سے تیری پناہ مانگتے ہیں چاہے ہمیں اس کا علم ہے یا نہیں۔

یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے قول و فعل کی توفیق مانگتے ہیں، یا اللہ! ہم تجھ سے جہنم کے قریب کرنے والے ہر قول و فعل سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔

یا اللہ! ہم تجھ سے ابتدا سے لیکر انتہا تک، اول تا آخر، جامع ، ظاہری اور باطنی ہمہ قسم کی بھلائی مانگتے ہیں ، یا اللہ! ہم تجھ سے جنت میں بلند درجات کے سوالی ہیں۔ یا رب العالمین!

یا اللہ! بلا شبہ تو ہی معاف کرنے والا ہے، معاف کرنے کو پسند بھی کرتا ہے، لہذا ہمیں معاف فرما دے۔

یا اللہ! ہمیں تیرا ذکر، شکر، تیرے لیے مر مٹنے والا، تیری طرف رجوع کرنے والا اور انابت کرنے والا بنا۔

تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی عبادت ہے، اور اللہ تعالی تمہارے تمام اعمال سے بخوبی واقف ہے۔


تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں