موسمیاتی تبدیلی ۔۔۔ اسباق اور نصیحتیں ۔۔۔ خطبہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔۔ 05 جولائی 2019


موسمیاتی تبدیلی ۔۔۔ اسباق اور نصیحتیں 
خطبہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔
 05 جولائی 2019 ۔۔ بمطابق 02 ذو القعدہ 1440
امام و خطیب: فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل

فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس حسین بن عبد العزیز آل شیخ حفظہ اللہ نے 02 ذو القعدہ 1440 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "موسمیاتی تبدیلی ،،، اسباق اور نصیحتیں" ارشاد فرمایا ، جس میں انہوں نے کہا کہ گزرتا وقت اور بدلتا موسم ہمارے لیے باعث نصیحت ہے، رات کی عبادت چوک جائے تو دن میں اس کی قضا مسنون عمل ہے، بدلتے موسم ہمیں دعوت فکر دیتے ہیں کہ اللہ کی قدرت کاملہ کا مظہر دیکھیں اور پھر اللہ کی بندگی میں مگن رہیں، اللہ کی معرفت حاصل ہونے پر انسان ہمیشہ سنجیدگی کے ساتھ اللہ سے لو لگاتا ہے، اسی لیے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر دن اور رات بنانے کا تذکرہ فرما کر اہل دانش کو دعوت فکر و شکر دی گئی ہے۔ گرمی کی شدت ہمیں جہنم کی آگ سے بچنے کی غیر محسوس تلقین بھی کرتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین بدلتے موسموں سے خوب نصیحتیں حاصل کرتے تھے، دوسرے خطبے میں انہوں نے حرمت والے مہینے ماہ ذوالقعدہ کی بعض خصوصیات کا تذکرہ فرمایا اور کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام عمرے اسی ماہ میں ہوئے تھے اس لیے اس ماہ میں عمرے کا اہتمام کرنا چاہیے، پھر آخر میں انہوں نے جامع دعا کروائی۔



تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، اللہ کا فرمان ہے: 
{يُقَلِّبُ اللَّهُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصَارِ} 
اللہ تعالی دن اور رات کو بدلتا رہتا ہے، اس میں دیکھنے والوں کے لئے یقینی عبرت ہے۔[النور: 44] ، 

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، وہی غالب اور بخشنے والا ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے دن اور رات اللہ تعالی کے ذکر اور شکر میں گزارے۔ یا اللہ! ان پر، ان کی آل، اور اللہ تعالی کی رضا پانے والے صحابہ کرام پر سلامتی، رحمتیں اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

تقوی الہی اپناؤ اور خلوت و جلوت میں اسی کو اپنا نگران جانو،
 {وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلَاقُوهُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ}
 تقوی الہی اپناؤ اور ذہن نشین کر لو کہ تم اس سے ملنے والے ہو، اور اہل ایمان کو خوشخبری سنا دیں۔ [البقرة: 223]

گزرتا وقت ہمارے لیے باعث عبرت اور شب و روز ہمارے لیے نصیحت ہیں، اسی کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا}
 وہی ہے جس نے رات اور دن کو بار بار ایک دوسرے کے بعد آنے والا بنایا۔ اب جو چاہے اس سے سبق حاصل کرے اور جو چاہے شکر گزار بنے۔ [الفرقان: 62]

اس آیت میں لفظ {خِلْفَةً} کا ایک معنی کونی اور قدری ہے کہ نظام کائنات کے مطابق رات اور دن ایک دوسرے کے متضاد ہیں اور ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں، دن کے بعد رات اور پھر رات کے بعد دن آتا ہے، دونوں اندھیرے اجالے ، اور کمی بیشی میں ایک دوسرے کے پیچھے رہتے ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{فَمَحَوْنَا آيَةَ اللَّيْلِ وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً}
 پھر ہم نے رات کی نشانی کو مٹا دیا اور دن کی نشانی کو روشن بنایا۔[الإسراء: 12] 
ایسے ہی اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَآيَةٌ لَهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُمْ مُظْلِمُونَ} 
ان کے لیے ایک اور نشانی رات ہے اس پر سے ہم دن کو اتار لیتے ہیں تو وہ اندھیرے میں رہ جاتے ہیں ۔[يس: 37]

اور {خِلْفَةً} کا دوسرا معنی شرعی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے دن اور رات کو ایک دوسرے کا قائم مقام بنایا ہے یعنی اگر دن اور رات کا اللہ کے لئے کیا جانے والا کوئی کام چوک جائے تو اس کی قضا دوسرے میں دی جا سکتی ہے۔

شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: "میرا قیام اللیل رہ گیا ہے" تو اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "قیام اللیل چوک جائے تو دن میں ادا کر لیا کرو"

اسی لیے حدیث نبوی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان موجود ہے کہ: (کسی بھی شخص کا مکمل قیام اللیل یا کچھ حصہ رہ جائے اور وہ اسے نماز فجر اور نماز ظہر کے درمیان دن میں ادا کر لے تو اللہ تعالی اس کے لئے نماز کا اجر لکھ دیتے ہیں، اور نیند اس پر صدقہ ہو جاتی ہے۔) مسلم

ایمانی بھائیو!

اب فائدہ مند نصیحت تو وہی شخص پکڑے گا جو اہل ایمان ہے، اس نصیحت کی بدولت ان میں خالق کائنات کا حقیقی خوف، اور عذاب الہی سے شدید ڈر پیدا ہو جائے گا، وہ اللہ تعالی کی ناراضی سے سنجیدگی کے ساتھ ڈرنے لگیں گے ،فرمانِ باری تعالی ہے: 
{إِنَّ فِي اخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَّقُونَ}
 بے شک رات اور دن کے بدلنے میں اور آسمانوں اور زمین میں اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزوں (میں) یقیناً ڈرنے والے لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ [يونس: 6]

ایسے ہی ایک اور مقام پر فرمایا:
 {هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَسْمَعُونَ} 
وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی، تاکہ تم اس میں آرام کرو اور دن کو روشن بنایا۔ بے شک اسی میں سننے والے لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں۔ [يونس: 67] 
جی ہاں! یہی لوگ ہیں جو اللہ تعالی کی آیات کونیہ سے مستفید ہو کر نصیحت بھی پکڑتے ہیں اور عبرت بھی حاصل کرتے ہیں، اس طرح ان کے دلوں میں سچا ایمان اور خالص عمل پیدا ہو جاتا ہے۔

اس لیے اے مومن! وقت کے بدلنے سے نصیحت حاصل کریں، ہر حالت میں اللہ تعالی کے شکر گزار رہیں، اللہ کی اطاعت گزاری پر عمل پیرا رہیں، اور نافرمانی سے بچیں، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ}
اللہ کی رحمت میں یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے رات اور دن اس لئے بنائے کہ تم ان میں سکون حاصل کرو اور اس میں اللہ کا فضل تلاش کرو، اس لئے بھی کہ تم اس کا شکر ادا کرو۔[القصص: 73] 
ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت میں مذکور شکر کی تفسیر میں کہتے ہیں: "یعنی تم دن اور رات میں متنوع عبادات کے ذریعے اللہ کا شکر ادا کرو۔"

ایمانی بھائیو!

بدلتے موسموں کی وجہ سے لوگوں کو ملنے والی نصیحتوں میں یہ بھی شامل ہے کہ گرمی کے موسم میں شدید گرمی پائی جاتی ہے، اسی وجہ سے لوگ سایہ اور ٹھنڈی ہوا تلاش کرتے ہیں، تو ایسے موسم میں مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ جہنم کو یاد کرے اور جہنم سے بچاؤ کے لئے اقدامات کرے، اللہ تعالی ہم سب کو جہنم اور جہنم کی گرمی سے محفوظ فرمائے، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{وَقَالُوا لَا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا لَوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ}
منافق کہنے لگے کہ : "ایسی گرمی میں [جہاد پر] نہ نکلو" آپ ان سے کہہ دیں: "دوزخ کی آگ اس سے بہت زیادہ گرم ہے" کاش! یہ لوگ کچھ سمجھتے ہوتے۔[التوبہ: 81]

اس امت کے سلف صالحین چونکہ اللہ تعالی سے انتہا درجے تک ڈرتے تھے ان کے دلوں میں اللہ تعالی کی خشیت بھری ہوئی تھی تو اسی لیے وہ بدلتے موسموں سے خوب نصیحت حاصل کیا کرتے تھے، جیسے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو ایمانی اوصاف کی وصیت کرتے ہوئے کہا کہ سخت گرمی کے موسم میں روزے رکھنا بھی ایمانی وصف ہے۔

ابن عمر اور دیگر سلف صالحین -اللہ ان سب سے راضی ہو- سے منقول ہے کہ وہ جب ٹھنڈا پانی پیتے تو رو دیتے اور اللہ تعالی کی کافروں کے بارے میں بتلائی ہوئی بات یاد کرتے تھے:
 {أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنَا مِنَ الْمَاءِ أَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكَافِرِينَ}
 "ہم پر بھی کچھ پانی انڈیل دو یا اللہ نے جو کچھ تمہیں کھانے کو دیا ہے اس میں سے کچھ گرا دو" تو اہل جنت جواب دیں گے کہ : "اللہ تعالی نے یہ دونوں چیزیں کافروں پر حرام کر دی ہیں "۔[الأعراف: 50]

یا اللہ! ہمیں عبرت حاصل کرنے والے لوگوں میں شامل فرما دے، ہمیں دائمی طور پر تیری اطاعت کرنے والا بنا دے، یا ذالجلال والا کرام!

ماہ ذوالقعدہ حج کے مہینوں میں بھی شامل ہے اور حرمت والے مہینوں میں بھی اس کا شمار ہوتا ہے، اللہ تعالی نے حرمت والے مہینوں کو بہت عظمت اور مقام سے نوازا ہے۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: "اللہ تعالی نے چار مہینوں کو خصوصی مقام عطا فرمایا اور ان کے احترام کو عظمت بخشی، ان مہینوں میں گناہ کو سنگین ترین قرار دیا، نیز نیکی کے اجر کو بھی ان مہینوں میں اللہ تعالی نے زیادہ فرما دیا ہے۔"

اہل علم نے صراحت کے ساتھ ماہ ذوالقعدہ میں عمرے کو مسنون قرار دیا ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چاروں عمرے ذوالقعدہ میں ادا کئے تھے، جیسے کہ صحیح بخاری اور مسلم میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

ایسے ہی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالقعدہ کے علاوہ کسی مہینے میں عمرہ نہیں فرمایا) اس حدیث کو ابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمروں کے لئے وہی وقت منتخب فرمایا جو اولی اور اعلی ترین بھی تھا اور حق بھی رکھتا تھا" اس لیے مسلمانوں ہمارے رسول اور حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو زندہ کر ڈالو؛ کیونکہ اس میں بہت زیادہ اجر ملے گا۔

اللہ تعالی نے ہمیں ایک عظیم کام کرنے کا حکم دیا ہے اور وہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت کے ساتھ درود و سلام پڑھنا، یااللہ! ہمارے حبیب، نبی ، رسول اور آنکھوں کی ٹھنڈک جناب محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- پر درود و سلام، برکتیں اور نعمتیں نازل فرما۔

اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔

یا اللہ! ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ ہمارے اوقات کو تیری اطاعت سے معمور فرما دے، یا اللہ! ہمیں تیری رضا کے حامل کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! ہمیں تیری رضا کے حامل کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! ہمیں ایسے کام کرنے کی توفیق عطا فرما جن سے تو دنیا اور آخرت میں ہم سے راضی ہو جائے۔ یا ارحم الراحمین! یا اکرم الاکرمین!

یا اللہ! مومن مرد و خواتین، اور مسلمان مرد و زن کی مغفرت فرما دے، زندہ اور فوت شدگان سب کی مغفرت فرما دے۔

یا اللہ! ہمیں تزکیہ اور تقوی عطا فرما، ہمارا تزکیہ فرما دے تو ہی بہترین تزکیہ کرنے والا ہے، تو ہی ہمارا والی اور مولا ہے۔

یا اللہ! ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما دے جن کی زندگیاں لمبی اور اعمال زیادہ ہوتے ہیں، جو دن رات اپنے رب کی اطاعت میں مگن رہتے ہیں، یا ذالجلال والا کرام!



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں