حجاج کرام اور مکہ و مدینہ کی حرمت ... خطبہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 19 جولائی 2019


حجاج کرام اور مکہ و مدینہ کی حرمت
خطبہ مسجد نبوی (اقتباس) 
 19 جولائی 2019 بمطابق 16 ذوالقعدہ 1440
امام و خطیب: فضیلۃ الشیخ جسٹس صلاح بن محمد البدیر
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل

فضیلۃ الشیخ جسٹس صلاح بن محمد البدیر حفظہ اللہ نے 16 ذوالقعدہ 1440 کا خطبہ جمعہ مسجد نبوی میں بعنوان "حجاج کرام اور مکہ و مدینہ کی حرمت" ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ دنیا کے ہر کونے سے حجاج کرام کے قافلے چلے آرہے ہیں، کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں دولت اور فرصت کے باوجود بھی بیت اللہ کی زیارت نصیب نہیں ہوتی ، مکہ اور مدینہ دونوں ہی انتہائی محترم شہر ہیں ، یہیں پر قرآن نازل ہوا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زندگی انہی دو شہروں میں گزاری، یہاں پر شکار کرنا، درخت یا پودوں کو کاٹنا بھی منع ہے۔ تو اسی لیے کسی مسلمان کو تکلیف دینا، دھوکا دینا، حجاج کرام کے ساتھ کیے ہوئے معاہدے کو توڑنا، ان کو دی جانی والی سہولتوں میں وعدہ خلافی کرنا وغیرہ سنگین نوعیت کے جرم ہیں، اسی طرح یہاں پر کسی بھی ایسی سرگرمی کی شرعاً اجازت نہیں جو امن و امان کو سبوتاژ کرے، نیز یہاں پر برائی یا کج روی کا محض ارادہ کرنے پر بھی اللہ تعالی کی طرف سے سنگین عذاب کی وعید ہے۔ حج کو ذاتی ، سیاسی ، علاقائی، فرقہ واریت پر مبنی مفادات میں استعمال کرنا اور اخلاقی جرائم اسی وعید کے ضمن میں آتے ہیں۔ پائیدار امن و امان کے قیام کے لئے حجاج کرام بھی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کریں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار جبکہ مسجد الحرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں سے بھی افضل ہے، پھر انہوں نے متعدد اہل علم سے ذکر کیا کہ فضیلت والی جگہ یا وقت میں جس طرح نیکی کا ثواب زیادہ ہوتا ہے اسی طرح گناہ کی سنگینی بھی بڑھ جاتی ہے۔ دوسرے خطبے میں انہوں نے کہا کہ: ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہے کہ مکہ یا مدینہ میں کسی بھی نیکی یا رمضان گزارنے کا ثواب ایک لاکھ گنا زیادہ دیا جاتا ہے، لیکن اتنا ہے کہ فضیلت والی جگہ اور وقت کے باعث نیکی کے اجر میں اضافہ ہو جائے، پھر آخر میں انہوں نے جامع دعا کروائی۔


تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ہیں، حمد خوانی اور شکر گزاری سے اللہ کی عنایتوں اور نوازشوں میں اضافہ اور تسلسل پیدا ہو جاتا ہے۔

فَالْحَمْدُ لِلَّهِ الْعَلِيِّ الْأَعْظَمِ
ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْجَلَالِ الْأَفخَمِ

تمام تعریفیں بلند و بالا اللہ کے لئے ہیں، وہ جبروت، اور عظیم جلال والا ہے۔

وَعَالِمِ الإِعْلَانِ وَالْمُكَتَّمِ
وَرَبِّ كُلِّ كَافِرٍ وَمُسْلِمِ

وہ ہر خفیہ اور اعلانیہ چیز سے با خبر ہے، وہ ہر کافر اور مسلمان کا پروردگار ہے۔

وَالسَّاكِنِ الأَرضَ بِأَمْرٍ مُحْكَمِ
وَرَبِّ هَذَا الْبَلَدِ الْمُحَرَّمِ

اسی نے اپنے حکم سے زمین کو ٹھہرایا ہوا ہے، اور وہی اس حرمت والے شہر کا پروردگار ہے۔

وَرَبِّ هَذَا الْأَثَرِ المُقَسَّمِ
مِنْ عَهدِ إِبْرَاهِيْمَ لَمَّا يُطْسَمِ

وہی عہد ابراہیم سے اب تک عیاں اس نشانی کا رب ہے۔

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں، یہ گواہی مجھے ہمیشہ فائدہ دے گی، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، آپ توحید کی دعوت دینے والے تھے۔ اللہ تعالی آپ پر ،آپ کی اولاد، ازواج مطہرات، صحابہ کرام اور پیروکاروں پر ہمیشہ ڈھیروں سلامتی اور برکتیں نازل فرمائے۔

مسلمانو!

هَذَا رَكْبُ الْحَجِيْجِ دَنَا
يَشُقُّوْنَ الْبِيْدَ وَيَطْوُوْنَ الْفَلَا

یہ حجاج کے قافلے 
صحراؤں اور ریگزاروں کا سینہ چاک کرتے ہوئے آ رہے ہیں۔

قَدْ سَدَّدُوْا الْاَنْضَاءَ ثَمَّ تَتَابَعُوْا
يَتْلُوْ رَعِيْلٌ فِي الْفَلَاةِ رَعِيْلًا

انہوں نے اپنی کمزور سواریوں کو بھی سدھار کر قافلے در قافلے
 ریگستانوں کو عبور کرنا شروع کر دیا۔

يَا لَيْتَ شِعْرِيْ هَلْ أُعَرِّسُ لَيْلَةً
فَأُشُمُّ حَوْلِيْ إِذْخِرًا وَجَلِيْلًا

کاش مجھے رات کا ایسا پڑاؤ نصیب ہو جائے
 کہ اپنے ارد گرد اذخر اور جلیل بوٹیوں کی خوشبو سونگھوں۔

وَأَحُطُّ فِي أَرْضِ الرَّسُوْلِ رَكَائِبِيْ
وَأَبِيْتُ لِلْحَرَمِ الشَّرِيْفِ نَزِيْلًا

اور میں اپنی سواریوں کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نگری میں باندھوں
 اور حرم شریف میں راتیں گزاروں۔

کتنے ہی پیادہ، سوار اور فضائی مسافر مختلف علاقوں کا سفر کرنے والے، اپنا روپیہ پیسہ بے دریغ خرچ کرنے والے لوگوں کو آپ دیکھیں گے کہ بغیر کسی عذر کے فریضہ حج کی ادائیگی میں تاخیر کرتے ہیں، حالانکہ وہ اب عمر رسیدہ ہو چکے ہوتے ہیں اور بوڑھے لوگوں میں شمار ہونے لگے ہیں۔

مَا شَاقَ قَلْبِيْ صَوْتُ الشَّادِنِ الْغَرَدِ
وَلَا ابْتِسَامُ الثَّنَايَا الغُرِّ عَنْ بَرِدِ

میرے دل میں چرندوں یا پرندوں کی آواز سننے کی امنگ پیدا نہیں ہوتی
 اور نہ ہی چمکتے دانتوں کی مسکراہٹ دیکھنے کی۔

وَلَا تَثَنِّيْ مِلَاحٍ بِالْحِمَي بَرَزَتْ
تَخْتَالُ فِيْ حُلَلٍ مِنْ عَيْشِهَا الرَغِدِ

نہ ہی دل میں ہواؤں سے لہلہاتی سر سبز چراگاہ میں
 پر سکون رہائش کی تمنا پیدا ہوتی ہے۔

لَكِنْ إِلَى حَجَّةٍ نُجْزَى الْجِنَانَ بِهَا
تِلْكَ الْمُنَى مِنْ عَطَاءِ الْوَاحِدِ الْأَحَدِ

البتہ حج کی آرزو ہے کہ جس کے بدلے میں جنت مل جائے،
 یہ خواہش بھی صرف اللہ تعالی کی طرف سے ہے۔

مسلمانو!

مکہ اور مدینہ دو پھولوں جیسے پاکیزہ شہر ہیں، یہ دونوں شہر اللہ تعالی کے ہاں مطلق طور پر سب سے زیادہ معزز ہیں، متفقہ طور پر اس دھرتی کے سب سے عظیم شہر ہیں ، کیونکہ مکہ جائے نزول وحی ، دین کا سر چشمہ، پر امن شہر، مسلمانوں کا قبلہ ، اہل ایمان کے دلوں کی دھڑکن اور ام القری ہے، اس شہر کا کوئی ثانی نہیں، یہ بے نظیر اور بے مثال شہر ہے۔

جبکہ مدینہ پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب شہر ہے، مدینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر، مسکن، جائے ہجرت، گہوارہِ سنت ، ایمان کا قلعہ، نیز اسلام اور مسلمانوں کی جائے پناہ ہے۔

وحی انہی دونوں شہروں میں نازل ہوئی ، رسالت کا سورج انہی دونوں شہروں میں طلوع ہوا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی صرف انہی دو شہروں میں گزاری۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا: (جس دن اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اسی دن اس شہر کو حرمت والا قرار دیا، اس لیے یہ شہر اللہ کی طرف سے قیامت تک کے لیے محترم ہی رہے گا۔ اور مجھ سے پہلے یہاں کسی کے لیے قتال جائز نہیں ہوا اور میرے لیے بھی دن کی صرف ایک گھڑی کے لیے جائز کیا گیا۔ یہ شہر اللہ تعالی کی طرف سے قیامت تک کے لیے محترم ہے، لہذا یہاں کا کانٹا بھی نہ توڑا جائے اور نہ ہی یہاں کے شکار کو تنگ کیا جائے، نیز یہاں کی گری پڑی چیز بھی نہ اٹھائی جائے صرف اسے اجازت ہے جو اس گری ہوئی چیز کا [مالک تک پہنچانے کے لئے ]اعلان بھی کرے، نیز یہاں کی گھاس بھی نہ کاٹی جائے۔ ) تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: "اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اذخر کی اجازت دیں کیونکہ اسے لوہار اور گھروں میں استعمال کرتے ہیں " تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اذخر بوٹی کاٹنے کی اجازت ہے۔) متفق علیہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کو اسی طرح حرمت والا شہر قرار دیا جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا شہر قرار دیا تھا، تو جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو فرمایا: (مدینہ پر امن اور حرمت والا شہر ہے۔)

تو اگر حرم کے درخت اور شکار بھی محترم ہیں ، ان کا بھی شریعت میں مقام ہے تو مسلمان، ارکان حج اور حجاج کے امن و امان کا مقام اور مرتبہ کتنا بلند ہو گا؟! اس لیے کسی بھی مسلمان کو بلد الحرام میں کسی بھی ایسی سرگرمی کی اجازت نہیں ہے جو یہاں کے امن و امان ،نظام ، استحکام اور زائرین و شہریوں کے آرام کو سبوتاژ کرے، کوئی حاجی کسی بھی مسلمان کو زبانی یا جسمانی تکلیف نہ پہنچائے؛ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 {وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ}
اور جو بھی اس شہر میں ظلم کرتے ہوئے کج روی اختیار کرنے کا ارادہ کرے تو ہم اسے درد ناک عذاب چکھائیں گے۔ [الحج: 25]

اگر محض کج روی کا ارادہ اور نیت ہی درد ناک عذاب کے موجب ہیں تو :

حدیں پامال کرنے والے۔۔۔

جرم کرنے والے۔۔۔

قتل کرنے والے ۔۔۔

پر امن افراد کو دہشت زدہ کرنے والے۔۔۔

کمزور کو تکلیف پہنچانے والے۔۔۔

ناتواں پر ظلم ڈھانے والے۔۔۔

کسی حاجی کا مال نا حق کھانے والے کا کیا بنے گا؟!

کہ حاجی سے کیے ہوئے معاہدے کو بدل دے، یا معاہدے کی پاسداری نہ کرے، یا وعدہ خلافی کرے؟ ایسے شخص کی اللہ تعالی کے ہاں سزا کتنی ہوگی؟! ایسا شخص تو حرمت والے وقت! حرمت والی جگہ !! اور انسان کی حرمت بھی پامال کر بیٹھا ہے!!

[عبد مناف کی اہلیہ سبیعہ بنت احب نے اپنے بیٹے خالد کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا:]

أبُنَيَّ لَا تَظْلِمْ بِمَكَّةَ
لَا الصَّغِيْرَ وَلَا الْكَبِيرْ

میرے بیٹے! 
مکہ میں کسی چھوٹے یا بڑے پر ظلم مت کرنا۔

وَاحْفَظْ مَحَارِمَهَا بُنَيَّ
وَلَا يَغُرَّنْكَ الغَرُورْ

مکہ کی حرمت کا خصوصی خیال رکھنا، 
اور کبھی شیطان کے دھوکے میں مت رہنا۔

أَبُنَيَّ مَن يَّظْلِمْ بِمَكَّةَ
يَلْقَ أَطْرَافَ الشُّرُورْ

میرے بیٹے! 
مکہ میں ظلم ڈھانے والے پر ہر طرف سے مصیبتیں آتی ہیں۔

أبُنَيَّ يُضْرَبْ وَجْهُهُ
وَيَلُحْ بِخَدَّيْهِ السَّعِيرْ

میرے بیٹے! اسے چہرے پر مارا جائے گا 
اور اس کے گالوں پر آگ بھڑکے گی۔

أبُنَيَّ قَدْ جَرَّبْتُهَا
فَوَجَدْتُ ظَالِمَهَا يَبُورْ

میرے بیٹے! یہ میری مجرب بات ہے 
کہ یہاں ظلم ڈھانے والا تباہ ہو جاتا ہے۔

اَللهُ أَمَّنَهَا وَمَا
بُنِيَتْ بِعَرْصَتِهَا قُصُورْ

اللہ تعالی نے اس شہر کو
 اور یہاں بنے ہوئے گھروں کو بھی پر امن بنایا ہے۔

وَاللهُ أَمَّنَ طَيْرَهَا
وَالْعُصْمُ تَأْمَنُ فِيْ ثَبِيرْ

اللہ تعالی نے تو یہاں کے پرندوں کو بھی امن عطا کیا ہے
 اور ثبیر پہاڑ پر پہاڑی بکرے پر امن رہتے ہیں۔

وَالْفِيْلُ أُهْلِكَ جَيْشُهُ
يُرْمَوْنَ فِيْهَا بِالصُّخُورْ

ہاتھی والوں کا لشکر ہلاک کر دیا گیا
 اور ہاتھیوں کو پتھر مارے گئے۔

فَاسْمَعْ إِذَا حُدِّثْتَ
وَافْهَمْ كَيْفَ عَاقِبَةُ الْأُمُورْ

جب تمہیں بات سنائی جائے تو غور سے سنو،
 اور سمجھو کہ معاملات کا انجام کیسا ہوتا ہے۔


مسجد الحرام میں ظلم اور کج روی کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ یہاں حرام کام کا ارتکاب کریں یا حرام کو حلال سمجھیں؛ مثلاً: کوئی شرک و بدعات پر بر ملا عمل پیرا ہو، زنا کاری ، شراب نوشی، چوری، مکر و فریب کے ذریعے مال ہتھیانا، فرقہ واریت پر مبنی علامات آویزاں کرنا، بدعتی اور شرکیہ نعرے لگانا، حجاج کے مابین فتنہ، اختلاف، اور جھگڑا پیدا کرنا، حج کو جھوٹی خبریں پھیلانے کے لئے استعمال کرنا۔ حج میں سیاسی، نسلی، قومی، فرقہ واریت، یا نظریاتی مفادات حاصل کرنے کے لئے غلط باتیں پھیلانا اور دشمنیاں پروان چڑھانا وغیرہ مسجد الحرام میں ظلم اور کجروی کے مفہوم میں شامل ہے ۔

حج اور مشاعر مقدسہ کا مقام اس سے کہیں بالا اور برتر ہے کہ انہیں اس قسم کی گھٹیا حرکتوں کے لئے استعمال کیا جائے۔

حج کا انتظام اور امن و امان مضبوط ہاتھوں میں ہے، یہ ہاتھ تعمیری، محافظ اور درد دل رکھنے والے ہیں، یہ کبھی بھی کسی خبیث شخص کو کوئی منفی موقع نہیں دیں گے کہ حج کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرے یا اپنا کوئی ہدف پورا کر سکے۔

مسلمانو!

مکہ اور مدینہ کے باسیوں، رہائش پذیر لوگوں ، اور تمام حجاج، معتمرین اور زائرین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس معزز دھرتی کا مکمل احترام کریں، اس مقدس سرزمین کی ہر طرح سے حفاظت، رکھوالی، اور نگہبانی کریں، یہاں پر کسی قسم کی غلطی، گناہ، اور مہلک گناہ سے بچیں۔ حدود حرم میں کیا ہوا گناہ تعداد میں تو نہیں بڑھایا جاتا ہے لیکن اس گناہ کی سنگینی بڑھ جاتی ہے، اس لیے یہاں کیا ہوا گناہ کسی اور جگہ کے گناہ سے زیادہ سنگین ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اللہ کے شہر اور حرم میں کی ہوئی غلطی دھرتی میں کسی بھی جگہ کی ہوئی غلطی سے کہیں زیادہ سنگین ہوتی ہے۔"

اسی طرح مطالب اولی النہی میں ہے کہ: "نیکی اور بدی کا اثر فضیلت والی جگہ پر بڑھا دیا جاتا ہے؛ جیسے کہ مکہ ،مدینہ ، بیت المقدس اور مساجد وغیرہ ہیں۔ اسی طرح فضیلت والے وقت میں بھی اثر زیادہ ہو جاتا ہے، جیسے کہ جمعے کا دن، حرمت والے مہینے اور ماہ رمضان وغیرہ"

علامہ مرعی بن یوسف کرمی کہتے ہیں: "شریعت اسلامیہ میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ فضیلت والے اوقات اور حالات میں گناہ کی سنگینی بڑھ جاتی ہے، اسی طرح فضیلت والی جگہوں میں ہوتا ہے۔" آگے چل کر مزید لکھتے ہیں کہ: "جس جگہ یا وقت کی فضیلت جس قدر زیادہ ہوگی، وہاں پر گناہ کی سنگینی بھی اسی قدر بھیانک اور سنگین ہوگی؛ کیونکہ سفید جلد پر سیاہ تل واضح اور عیاں نظر آتا ہے۔"

قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "شریعت نے کئی جگہوں پر یہ واضح کیا ہے کہ جب کسی بھی جگہ کا احترام جتنا زیادہ بڑھتا جاتا ہے تو وہاں کی حرمت پامال کرنے پر سزا بھی اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے۔"

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "عظمت والے ایام اور عظمت والی جگہوں میں کی جانی والی معصیت کی سنگینی اور سزا میں اسی قدر اضافہ کیا جاتا ہے جتنی اس جگہ یا وقت کی فضیلت ہوتی ہے۔"

اس لیے حجاج کرام! آپ حالت احرام میں ہوں یا نہ ہوں اللہ تعالی کی طرف سے محترم قرار دی گئی چیزوں کی تعظیم کریں، حدود سے تجاوز مت کریں، اور نہ ہی کسی حرام کام کو اپنے لیے حلال سمجھیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
 { ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ عِنْدَ رَبِّهِ }
 ترجمہ: جو بھی اللہ تعالی کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو یہ اس کے لئے پروردگار کے ہاں بہتر ہے۔[الحج: 30]

حرمت والی اور محترم جگہیں یہ ہیں: مشاعر مقدسہ، بیت اللہ ، مسجد الحرام، اور مکہ مکرمہ؛ اس لیے جن کے احترام کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے آپ ان تمام جگہوں کا مکمل احترام کریں، انہی چیزوں کو مقدم رکھیں جن کو ترجیح دینے کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے، جس چیز کو حرام قرار دینے کا اللہ نے فیصلہ کر دیا ہے ان سے بچیں، تو تمہیں اللہ کا فضل، ثواب اور نعمتیں بھی حاصل ہو جائیں گی۔

مسلمانو!

احادیث مبارکہ میں مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں علمائے کرام کے صحیح ترین موقف کے مطابق فرض یا نفل سب نمازوں کے اجر میں عددی اضافہ ثابت شدہ ہے، جیسے کہ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میری اس مسجد میں نماز مسجد الحرام کے علاوہ دیگر تمام مساجد سے ایک ہزار نمازوں سے بھی افضل ہے، جبکہ مسجد الحرام میں ایک نماز دیگر تمام مساجد کی ایک لاکھ نمازوں سے بھی افضل ہے۔) احمد، ابن ماجہ

البتہ ایسی کوئی صحیح دلیل ثابت نہیں ہے کہ مکہ میں کی ہوئی کوئی بھی نیکی ایک لاکھ نیکیوں سے افضل ہو گی، نہ ہی یہ ثابت ہے کہ مکہ یا مدینہ میں گزارا ہوا رمضان ایک لاکھ گنا یا ستر گنا اضافی اجر رکھتا ہے، ان میں سے کسی چیز کے متعلق بھی احادیث میں ثبوت نہیں ہے، نہ ہی اس کی کوئی دلیل ہے؛ اس مفہوم کی تمام احادیث یا تو ضعیف ہیں یا من گھڑت اور جھوٹی ہیں۔

تاہم یہ بات صحیح ہے کہ کسی بھی فضیلت والی جگہ اور وقت میں کی ہوئی نیکی عددی طور پر نہیں بلکہ معنوی طور پر زیادہ ثواب اور اجر رکھتی ہے، اور جس کی دلیل عددی طور پر زیادہ ثواب کی ہے اس کا ثواب عددی طور پر بھی بڑھتا ہے۔

فضیلت والی جگہ اور وقت میں کی ہوئی بدی کا بوجھ اور گناہ بھی معنوی طور پر بڑھ جاتا ہے عددی طور پر نہیں بڑھتا۔

اس لیے مکہ اور مدینہ میں قیام کو غنیمت سمجھیں، ان دوران ڈھیروں نیک عمل کریں، توبہ اور استغفار کریں، اللہ کے سامنے عاجزی اور انکساری کا اظہار کریں، اپنی ندامت اور محتاجی اللہ کے سامنے رکھیں، اپنی ناتوانی اور ضرورت مندی بیان کریں؛ کیونکہ تم ایسی جگہ ہوں جہاں رحمت کا نزول ہوتا ہے، یہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں، یہاں مغفرت اور قبولیت ملتی ہے، یہاں پر جہنم سے آزادی دی جاتی ہے، اس دھرتی اور ایام کی عظمت ذہن میں رکھیں، اللہ تعالی تمہاری دعاؤں کو قبولیت سے نوازے اور تمہیں مغفرت عطا کرے، نیز تمہارے اعمال قبول فرمائے۔

احمد الہادی، شفیع الوری ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بار بار درود و سلام بھیجو، (جس نے ایک بار درود پڑھا اللہ تعالی اس کے بدلے میں اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا)


یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد پر درود و سلام نازل فرما، یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین، تمام صحابہ کرام، اہل بیت اور تابعین و تبع تابعین سے راضی ہو جا، اور ان کے کیساتھ ساتھ ہم سے بھی راضی ہو جا، یا کریم! یا وہاب!

یا اللہ! تمام حجاج کرام کا حج قبول فرما، یا اللہ! ان کے حج کو مبرور بنا، اور ان کی جد و جہد کی قدر فرما، ان کے گناہوں کو معاف فرما دے۔

یا اللہ! تمام حجاج کی ریاضتوں کو قبول فرما اور ان کی کاوشوں میں مزید بہتری پیدا فرما، یا اللہ! تمام حجاج کی ریاضتوں کو قبول فرما اور ان کی کاوشوں میں مزید بہتری پیدا فرما، یا اللہ! تمام حجاج کے درجات بلند فرما ۔ یا اللہ! ان کی تمام آرزوئیں پوری فرما دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہماری دعاؤں کو قبول فرما، یا اللہ! ہماری دعاؤں کو اپنی بارگاہ میں بلند فرما، یا کریم! یا رحیم! یا عظیم!



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں