ابلیس سے جنگ کی روداد۔ ۔۔ حج کا سفر
حج کی داستان حج کی اصل روح کے تعارف کے ساتھ
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر محمد عقیل
حصہ-10
خیمے کی سیر
حج کے دن قریب آتے جارہے تھے۔ میں کعبے سے دور تھا لیکن دل وہیں لگا رہتا تھا۔ درمیان میں ایک جمعہ بھی آیا۔ جسے ادا کرنے کے لئے میں شارق اور ریحان کے ساتھ مسجد الحرام روانہ ہوا۔ یہ راستہ ہم نے طریق المشا ہ یعنی پیدل چلنے والوں کے راستے کے ذریعے طے کیا۔ یہ ایک طویل سرنگ تھی جو تقریباً پون گھنٹے پیدل چلنے کے بعد مسجدالحرام پر جاکر ختم ہوتی تھی۔ وہاں پہنچے تو مسجد بھر چکی تھی اور باہر ہی جگہ ملی۔ امام صاحب نے خطبہ دیا اور نماز پڑھائی۔
وہاں میں نے طواف کیا جس میں غیر معمولی رش تھا۔ میں نے حسرت سے ملتزم کو دیکھا جس پر لوگ شہد کی مکھیوں کی طرح چمٹے ہوئے تھے۔ وہاں مجھے مقام ابراہیم بھی نظر آیا ۔ اس کے بارے میں روایت ہے کہ یہ وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر کی تھی ۔ اس پتھر پر آج بھی ان کے قدموں کے نشان موجود ہیں۔ کچھ لوگ اس کو چومنے کی کوشش کررہے تھےاور شرطے انہیں ہٹا رہے اور سمجھارہے تھے کہ یہ چومنے کی جگہ نہیں صرف دیکھنے کا مقام ہے۔
۶ ذی الحج کو ہمارے گروپ لیڈر رافع نے بتایا کہ وہ منی ٰ میں ہمارے گروپ کا خیمہ دیکھنے جائیں گے ۔ انہوں نے جوانوں کو چلنے کی دعوت بھی دی تاکہ وہ روٹ کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ لیکن اچانک رات میں ہمارے گروپ کے ایک بزرگ اسمٰعیل صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی۔ ان کے دونوں پاؤں سوج کر موٹے ہوگئے تھے اور ان سے بالکل بھی چلا نہیں جارہا تھا۔ ہمارے گروپ میں ایک ڈاکٹر صاحب بھی تھے۔ ان کے مشورے پر انہیں ہسپتال لے جانے کی تیاری شروع کی گئی۔ یہ ذمہ داری بھی گروپ لیڈر رافع نے انجام دی اور اسمٰعیل صاحب کو اسپتال میں داخل کرلیا گیا۔
رافع کو آنے میں دیر ہوگئی اور ہم سمجھے کہ اب منیٰ جانے کا پروگرام کینسل ہوگیا ہے۔ بارہ بج رہے تھے اور میں سونے کے لئے لیٹ گیا۔ کچھ ہی دیر میں رافع آگئے اور انہوں نے ہمیں چلنے کے لئے کہا۔ لہٰذا میں شعیب برنی، ریحان، اسمٰعیل صاحب، دانش ، یاسر۔ شارق، عابد اور ایک اور صاحب منی کی جانب پیدل روانہ ہوئے۔ کچھ دور آگئے تو مسجد خیف دیکھی ۔ یہ منیٰ میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی جس کے مینار بہت دلکش تھے۔اس کے بارے میں یہ روایت مشہور ہے کہ یہاں کئی انبیاء نے نمازیں پڑھی ہیں۔
کچھ اور دور آگے بڑھے تو منی ٰ کے خیمے شروع ہوگئے۔ ہم تیز قدموں سے چلتے رہے یہاں تک کہ سوا گھنٹے میں منزل مقصود تک پہنچ گئے۔ ہمارا مکتب نمبر ۷۶ تھا جس کا خیمہ پول نمبر ۲/۵۰۸ پر واقع تھا۔ جب ہم خیمے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہ ایک بڑا سا ہال نما خیمہ تھا جس میں ایک پسلی کی چوڑائی کے برابر گدے بچھے ہوئے تھے۔ اس میں ائیر کنڈیشنر بھی لگا ہوا تھا ۔ اس میں قریب پچاس افراد سما سکتے تھے۔ خیمہ کے باہر باتھ رومز بنے ہوئے تھے۔
یہاں لوکیشن کو اچھی طرح دیکھ لینے کے بعد واپسی کا سفر شروع کیا اور جمرات سے گذرے تاکہ شیطان کو کنکریاں مارنے کی جگہ بھی دیکھ لیں۔ سب سے پہلے جمرہ صغریٰ یعنی چھوٹا شیطان آیا۔ کچھ آگے بڑھے تو جمرہ وسطیٰ اورآخر میں جمر ہ کبریٰ یا عقبہ (یعنی گھاٹی کا شیطان) نظر آیا۔ ہر شیطان ایک بڑی سی دیوار سے ظاہر کیا گیا تھا۔ یہ دیواریں مستطیل شکل کی تھیں اور خاص پتھر سے بنائی گئی تھیں۔ہر دیوار کے نیچے چاروں طرف ایک پیالے نما گھیرا بنا ہوا تھا تاکہ کنکریاں اس میں گر سکیں۔
ماضی میں کنکریاں مارتے وقت بہت حادثے ہوئے اور کئی لوگ ہلاک ہوئے ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پہلے شیطان کی علامت کے لئے ستون تعمیر تھے۔ نیز کنکریاں مارنے والوں کے لئے آنے اور جانے کا ایک ہی راستہ تھا۔ چنانچہ جب لوگ کنکریاں مار کر واپس جاتے تو آنے والوں سے ٹکراؤ ہوتا اور اس مڈبھیڑ میں بھگدڑ مچ جاتی اور کئی لوگ کچلے جاتے۔ اب حکومت نے ان ستونوں کو خاصی بڑی دیوار کی شکل دے دی ہے۔ نیز آنے اور جانے کے راستے الگ کردئے گئے ہیں اور سامان لانے کی اجازت نہیں۔ اسی طرح کنکریاں مارنے کے لئے تین پل بنادئے گئے ہیں اور کسی بھی پل سے رمی کی جاسکتی ہے۔
میں نے ان شیطانوں کو غور سے دیکھا تو مجھے ان دیواروں میں کوئی ابلیسیت نظر نہ آئی۔ حج کے تمام مناسک دراصل علامتی نوعیت کے ہیں چنانچہ یہ شیطان بھی کوئی اصلی نہیں بلکہ علامتی تھے۔ ان شیاطین کی معروف تاریخ یہی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اپنے فرزند عزیز کو قربان کرنے کے لئے نکلے تو شیطان نمودار ہوا اور اس نے آپ کو ورغلایا اور قربانی سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ آپ نے اس پر کنکریاں ماریں اور دھتکاردیا۔ آپ کچھ اور آگے بڑھے تو دوبارہ شیطان نے یہی عمل دہرایا اور آپ نے پھر اسے کنکریوں سے پرے کیا۔ تیسری مقام پر پھر شیطان نمودار ہوا اور آپ کو جھانسا دینے کی کوشش کی ۔ لیکن آپ نے ایک مرتبہ پھر ابلیس کو دھتکاردیا۔ یہ کنکریاں اسی یاد میں ماری جاتی ہیں۔
جمرات سے واپسی پر تقریباً رات کے تین بج گئے۔ اگر یہ کراچی ہوتا تو اتنے پیدل چلنے کے بعد طبیعت خراب ہوجاتی لیکن یہاں طواف اور سعی کرکر کے پیدل چلنے کی عادت ہوچکی تھی۔بہرحال میں گہری نیند سوگیا اور فجر کے وقت اٹھا ۔فجر پڑھنے کے بعد دوبارہ سوگیا۔کیونکہ اگلے روز رات میں حج کی ابتدا ہونی تھی اور منیٰ کے لئے روانہ ہونا تھا۔
حج کی ابتدا
بالآخر وہ گھڑی آپہنچی جس کا انتظار تھا۔ یہ سات ذی الحج کی شب تھی ۔ رات کا کھانا کھایا اور عشاء کی نماز پڑھی۔ آج کی رات منیٰ کی جانب روانگی تھی۔ میرے سب ساتھی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے۔ میں نے بھی غسل کیا اور حج کا احرام زیب تن کرلیا۔ میرے چاروں طرف کے کمروں سے لبیک کی صدائیں آرہی تھیں۔میں بھی تلبیہ پڑھ کر ان لوگوں کی صف میں شامل ہوگیا۔
لبیک اللہم لبیک، لبیک لاشریک لک لبیک ، ان الحمد النعمۃ لک والملک، لاشریک لک
حاضر ہوں ، اے میرے رب میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔بے شک تو ہی تعریف کے لائق ہے اور نعمت تیری ہی ہے، بادشاہی تیری ہی ہے،تیرا کوئی شریک نہیں۔
یہ لبیک خدا کی پکار کا جواب تھی۔ اللہ نے پکارا تھا کہ آؤ میرے بندو، میری جانب آؤ، شیطان کے خلاف جنگ میں حصہ لو ، اس کو آج شکست فاش سے دوچار کردو، اس کی ناک رگڑ دو، آج تم نے اپنا گھر بار ، بیوی بچے ، زیب و زینت سب ترک کردی تو طاغوتی رغبات سے بھی دست بردار ہوجاؤ اور تمام ابلیسی قوتوں کو شکست دے دو۔میں زبان سے لبیک کہہ رہا تھا اوردل کی زبان پر یہ کلمات جاری تھے۔
"میں حاضر ہوں اس اعتراف کے ساتھ کہ تعریف کے قابل توہی ہے۔ تو تنہا اور یکتا ہے، تجھ سا کوئی نہیں ۔ تیرا کرم، تیری شفقت، تیری عطا ،اور تیری عنایتوں کی کوئی انتہا نہیں۔ تیری عظمت ناقابل بیان ہے، تیری شان لامتناہی طور پر بلند ہے، تیری قدرت ہر عظمت پر حاوی ہے، تیرا علم ہر حاضر و غائب کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔تجھ سا کوئی نہیں اور کوئی تیری طرح تعریف کے لائق نہیں ۔”
اب تمام زینتیں حرام ہوگئی تھیں، اب نہ کوئی خوشبو لگانی تھی، نہ بال کٹوانے نہ ناخن ترشوانے اور نہ ہی پیر اور چہرے کو ڈھانکنا تھا۔ بس ایک ہی دھن سوار تھی اور وہ یہ کہ کس طرح ازلی دشمن کو شکست سے دوچار کیا جائے۔
احرام پہننے کے بعد ہم سب بس میں بیٹھے اور منیٰ کی جانب روانہ ہوئے۔ بس لبیک کی صداؤں سے گونج رہی تھی۔ تقریباً رات ڈیڑھ بجے منیٰ کے خیموں تک پہنچے۔ ہمارا کیمپ ایکسٹنڈ ڈ منیٰ یعنی مزدلفہ میں تھا۔ ہم سب نے سامان اتارا ۔ میں نوجوان ساتھیوں کے ہمراہ باہر کا جائزہ لینے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ اردگرد بدو عورتوں نے اسٹالز لگارکھے تھے۔ باہر ایک چہل پہل تھی اور لگ نہیں رہا تھا کہ رات کے دو بج رہے ہیں۔ کچھ دیر مٹر گشت کرنے کے بعد ہم سب واپس آگئے ۔ بستر نہایت ہی کم چوڑائی کے تھے اور بمشکل آدمی سیدھا لیٹ سکتا تھا۔ بہر حال سونے کے لئے لیٹ گئے تاکہ صبح تازہ دم ہوکر اٹھ سکیں۔
جاری ہے ۔۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں