ابلیس سے جنگ کی روداد۔ ۔۔ حج کا سفر ۔۔۔ حصہ-1

ابلیس سے جنگ کی روداد۔ ۔۔ حج کا سفر
حج کی داستان حج کی اصل روح کے تعارف کے ساتھ
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر محمد عقیل

حصہ-1

پس منظر
رات اپنے اختتام کے آخری مراحل میں تھی اور سورج طلوع ہونے کے لئے پر تول رہا تھا۔ فلائٹ آنے میں ابھی وقت تھا ۔اس اجالے اور تاریکی کے ملاپ نے ائیرپورٹ کے مادیت سے بھرپور ماحول میں بھی روحانیت کا احساس پیدا کردیا تھا۔یہ مئی ۲۰۰۹ کا واقعہ ہے جب میں ائیر پورٹ پر اپنے والدین ، بھائی اور دادی کو رسیو کرنے آیا تھا جو عمرہ ادا کرکے واپس آرہے تھے۔ فجر کا وقت ہوگیا تھا چنانچہ میں نے نماز فجر مسجد میں ادا کی۔ نماز کے بعد جب فلائٹ آگئی تو میرے والدین باہر آگئے۔
میں نے جب اپنے بھائی اور والد کے منڈےہوئے سر دیکھے تو طبیعت میں ایک عجیب سا اضطراب پیدا ہونے لگا۔ میرا دل چاہا کہ میں بھی اپنا سر منڈوا کر خود کو اللہ کی غلامی میں دے دوں، میں بھی سفید احرام میں ملبوس ہوکر اس کی بارگاہ میں حاضری دوں، میں بھی اس کے در پرجاکر لبیک کا ترانہ پڑھوں۔ یہ احساس زندگی میں پہلی مرتبہ مجھے ہوا جو ایک خوشگوار حیرت کا باعث تھا۔مجھے یوں محسوس ہو ا کہ شاید حرم سے بلاوے کا وقت آگیا ہے۔
اس کے بعد میں نے اپنا یہ احساس کسی سے شئیر نہیں کیا لیکن خاموشی سے حج پر جانے کا طریقہ کار لوگوں سے معلوم کرنے لگا۔دوسری جانب جب میں نے زمینی حقائق کا جائزہ لیا تو علم ہوا کہ میرے پاس معقول رقم کا بندوبست نہیں ہے اور نہ ہی ملازمت سے آسانی سے چھٹی ملنے کی توقع ہے۔ اس کے علاوہ میری اس وقت دو بیٹیا ں بھی تھیں جن کی عمر یں چھ سال اور ساڑھے تین سال تھیں اور انہیں چھوڑ کر جانا ایک مشکل امر تھا۔
یہ سب حقائق امور حج پر جانے میں رکاوٹ تھے۔ لیکن میں جانتا تھا کہ جب بلاوہ آجائے تو کوئی روک نہیں سکتا۔ چنانچہ ان تمام رکاوٹوں سے قطع نظر میں نے حج پر جانے کی نیت کرلی ۔ میں نے اس بات کا ذکر اپنی بیوی سے بھی کیا جس پر انہوں نے اصولی طور پر اتفاق کرلیا۔ میں نے انہیں یہی بتایا کہ ابھی حالات سازگار نہیں لیکن میں نے اپنا کیس اللہ کے سامنے رکھ دیا ہے۔ وہ مسبب الاسباب ہے۔ اگر اس نے بلانا ہوگا تو ضرور راستہ نکالے گا۔
کچھ ہی دنوں بعد میرے والدین نے خود ہی ہمیں حج پر جانے کی ترغیب دینا شروع کردی اور ساتھ ہی بچوں کو رکھنے کا عندیہ بھی دیا۔ میرے بچے اس سے قبل ایک رات کے لئے بھی ہم سے جدا نہیں ہوئے تھے اور ان کا پاکستان میں رکنے کا معاملہ خاصا گھمبیر معلوم ہوتا تھا۔ لیکن ایک عالم ظاہری اسباب کا ہے اور ایک اسباب سے ماورا دنیا ہے ۔ انسان ظاہری اسباب کا پابند ہے لیکن اللہ نہیں۔ چنانچہ ایک ایک کرکے تمام مسائل حل ہوتے چلے گئے۔ مالی مشکل بھی آسان ہوگئی، بچوں کو چھوڑنے کی ہمت بھی ہوگئی اور ملازمت سے چھٹی کا مسئلہ بھی حل ہوگیا۔

روانگی
حج کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں۔ ویکسین لگوالی تھی اور ساتھ ہی تمام سامان کی خریداری مکمل کرلی تھی۔ سن ۲۰۰۹ میں حج ۲۶ نومبر کو متوقع تھا۔ میری فلائٹ کا شیڈول ۵ نومبر رات ۱یک بجے کا تھا۔ میں چار نومبر کو جب کالج سے گھر پہنچا تو ارادہ تھا کہ کچھ دیر آرام کرلوں گا تاکہ رات کو سفر کی تکان سے بچ سکوں۔ لیکن جب کالج سے گھر پہنچا تو مہمانوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ یہ ہمارے سماج رابطوں ایک حصہ ہے۔ اور اسے نبھانا بھی پڑتاہے۔ چنانچہ میں نے سب سے ملاقات کی۔ اور فراغت کے بعد فائنل پیکنگ کی ۔ اسی اثنا ء میں عشاء کی نماز ادا کی۔ عشاء کے بعد روانگی تھی۔ احرام باندھا جس کی بنا پر چلنے میں خاصی دشواری ہورہی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے بعد میں مشکل آسان کردی۔ احرام دراصل حج اور عمرے کا یونیفارم ہے۔ جس طرح کسی ملک کے فوجی وردی پہننے کے پابند ہوتے ہیں اسی طرح ایک حاجی بھی اس وردی کا پابند ہے۔مجھے احرام باندھنے کے بعد ایک طمانیت اور قرب الٰہی کا احساس ہوا کہ اللہ نے مجھے اپنے سپاہیوں میں شامل کرلیا۔
پاکستان سے جانے والے حاجی زیادہ تر حج تمتع کرتے ہیں جس کامطلب یہ ہے کہ اپنے وطن سے احرام عمرے کے لئے باندھا جائے اور پھر مکہ میں عمرے کی ادائگی کے بعد احرام اتار دیا جائے۔ پھر جب حج کے ایام شروع ہوں تو دوبارہ حج کے لئے دوسرا احرام باندھا جائے۔ حج کی دوسری قسم حج قران ہے جس میں حاجی اپنے ملک سے حج ہی کی نیت سے احرام باندھتا ہے اور دس ذی الحج تک اسے پہنے رکھتا ہے۔میرا حج بھی حج تمتع تھا۔

احرام
ہمارے گروپ لیڈر رافع صاحب نے بتایا تھا کہ بعض اوقات فلائیٹ لیٹ ہوجاتی ہیں یا کسی ایمرجنسی کے سبب کینسل بھی ہوسکتی ہیں ۔ اسی بنا پر احرام باندھنے کے باوجودمیں نے عمرے کی نیت نہیں کی تھی کیونکہ نیت کرنے کے بعد اور میقات کی حدود شروع ہوتےہی احرام کی پابندیاں شروع ہوجاتی ہیں ۔ ان پابندیوں میں سر یا چہرے کو ڈھانپنا، بال یا ناخن کاٹنا،خوشبو لگانا، خشکی کا شکار کرنا، شہوت کی باتیں کرنا اور ازدواجی تعلق قائم کرنا وغیرہ شامل ہیں ۔ ان پابندیوں کا فلسفہ یہی ہے کہ حج شیطان کے خلاف جہاد کا اعلان ہے۔ چنانچہ جب رب اپنے بندے کو پکارتا اور شیطان کے خلاف برسر پیکار ہونے کا حکم دیتا ہے تو یہ بندہ سفید کپڑوں کی وردی ملبوس کرلیتا ہے۔ اب اس پر دنیا کی زیب و زینت اور لذت حرام ہے یہاں تک کہ وہ اس جنگ میں برسر پیکار ہوکر اپنے دشمن کی ناک رگڑ دے اور اور اپنے مالک کی وفاداری کا ثبوت پیش کردے۔

ائیرپورٹ پر کافی رش تھا۔ وہاں کچھ مدد گار لوگوں کو گائیڈ کررہے تھے اور انہیں حج کے بارے میں بتارہے تھے۔ میرے گھر والے اور بیٹیاں بھی مجھے چھوڑنے آئیں تھیں لیکن ان کی محبت پر خدا کی محبت غالب آچکی تھی اور اب ان کی اتنی فکر محسوس نہیں ہورہی تھی۔ بہرحال تمام گھر والے ائیر پورٹ پر آئے تھے۔ ان سے ملنے کے بعد تقریباً دس بجے بورڈنگ شروع ہوئی اور میں اندر داخل ہوا۔ امیگریشن کے مراحل طے ہونے میں دو گھنٹے لگ گئے۔ بالآخر تمام مراحل طے کرنے کے بعد ڈیپارچر لاؤنج میں بیٹھ گئے۔ ہمارے گروپ کے تمام ساتھی جمع ہوچکے تھے۔میرا ایک دوست آصف بھی اسی گروپ سے جاررہا تھا۔ اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔

جاری ہے ۔۔۔۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں