ملاقات کے آداب اور ان کے نتائج
خطبہ عید الفطر مسجد الحرام
04 جون 2019 ۔۔۔ بمطابق 01 شوال 1440
امام و خطیب: معالی الشیخ صالح بن حمید
ترجمہ: فرہاد احمد سالم
بشکریہ: اردو مجلس فورم
معالی الشیخ صالح بن حمید (حفظہ اللہ تعالی) نے مسجد حرام میں 1 شوال 1440ھ کا خطبہ عید الفطر ''ملاقات کے آداب اور اس کے نتائج'' عنوان پر ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے کہا کہ عید خوشی اور مومنین کے لئے اللہ کی طرف سے انعام ہے، عید کی خوشیوں کا ایک مظہر: عزیز و اقارب سے ملاقات ہے ۔ چنانچہ ان ملاقات کے چند آداب پیش خدمت ہیں۔
ملاقات نیک نیتی ، صرف اللہ کے لئے تعلق، اور مستحق کا حق ادا کرنے کے لئے ہونی چاہیے۔ مہمانوں کے استقبال کے لیے مناسب وقت کا انتخاب ہونا چاہیے۔ ملاقات کے وقت کو پہلے سے مرتب کر نا چاہیے، وقت کی تعین کرتے ہوئے آداب ملحوظ رکھنے چاہیں ، اور اچانک تشویش ناک زیارتوں سے پرہیز کرنا چاہیے ۔اسی طرح خوش دلی سے معذرت قبول کرنی چاہیے اور سب کی مصروفیات کا مکمل احترام کرنا چاہیے۔ ملاقات کے آداب مین اجازت طلبی بھی ہے ۔ جیسے واضح طور پر اپنا نام بتلائیں اور تعارف کروائیں، مناسب مؤدبانہ طریقے سے اجازت طلب کریں، اسی طرح ملاقات کے دورانیے کا بھی خیال رکھیں۔ اس وقت کی پابندی کی جائے جو میزبان متعین کرے ۔اسی طرح بلا ضرورت آواز اونچی نہ کی جائے ۔اسی طرح لوگوں کی باتوں ، کاموں اور خاص طور پر میزبان کے گھر یلو معاملات میں بلا وجہ دخل نہیں دینا چاہیے ، نیز جن چیزوں سے بچنا واجب ہیں ان سے لازم بچیں ،جیسے غیر محرم سے نظر کی حفاظت کریں اور گھر کے مختلف حصوں اور سازو سامان پر نظریں نہ گھمائیں۔ ایسی گفتگو نہ کرے جو میزبان کو ناپسند ہو ،مثلاً ایسے سوال یا گفتگو کہ جس کو وہ ناپسند کرتا ہے ۔وہاں ہی بیٹھا جائے جہاں میزبان بٹھائے یا بیٹھنے کی اجازت دے ۔گھر والے سے اجازت لئے بغیر رخصت نہ ہوں ،نکلتے وقت بھی سلام کریں ۔مہمان کا مسکراہٹ اور خندہ پیشانی کے ساتھ حسن استقبال اور نرم گفتگو کریں۔ گفتگو کو اچھی طرح سننا بھی شامل ہے اسی طرح بولنے والے کو مہلت دی جائے یہاں تک کہ وہ اپنی بات ختم کر لے ۔ملاقات کے آداب میں مجلس کو حرام اختلاط ، حرام کھانے پینے غیبت اور چغل خوری جیسی شرعی خلاف ورزیوں سے پاک رکھنا بھی شامل ہیں ۔مجالس امانت ہیں ۔مہمان کو رخصت کیا جائے اور اس کے ساتھ گھر کے دروازے تک چلا جائے ۔
منتخب اقتباس
تمام تعریفات اللہ تعالی کے لئے ہیں ، جو انسانوں کا خالق، ظاہر و باطن کو جاننے والا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے اس نے جو چاہا وہ ہو گیا اور جو نہیں چاہا نہیں ہوا ، احتیاطی تدابیر تقدیر سے نہیں بچا سکتیں۔
تمام تعریفات اللہ تعالی کے لئے ہیں، اسی کے لئے دنیا و آخرت اور صبح و شام حمد ہے، اللہ اکبر، اللہ تعالی اس کے فرشتوں ، کتابوں ، رسولوں اور تقدیر پر ایمان لاتے ہوئے اس کی بڑائی بیان کرتا ہوں۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، وہ تنہا اور یکتا ہے ، مفرد اور بے نیاز ہے، اس کے علاوہ کوئی پناہ گاہ اور ٹھکانا نہیں۔
میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں ، آپ پاکیزہ پہلو ، اور خندہ پیشانی کے مالک ، آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے گئے۔
اللہ تعالی آپ پر ، تابناک ستاروں کی مانند آپ کی آل ، روشن ستاروں کی مانند صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین پر ڈھیروں برکتیں اور سلامتی نازل فرما جب تک روزے دار روزہ رکھتے رہیں اور لا الہ الا اللہ کی صدائیں بلند ہوتی رہیں۔
اَللهُ اَكْبَرُ، اَللهُ اَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ اَكْبَرُ، اَللهُ اَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ
اللہ اکبر کبیرہ والحمدللہ کثیرۃ و سبحان اللہ بکرۃ واصیلا
حمد و صلاۃ کے بعد!
لوگو میں اپنے آپ اور سامعین کو تقوی الہی کی وصیت کرتا ہوں کہ آپ تقوی اختیار کریں ، اللہ آپ پر رحم فرمائے ۔
اے جانے والوں کے جانشین اللہ سے ڈر جاؤ ۔ زاد راہ مکمل لے لو ، اور سوال کا جواب دینے کی تیاری کر لو ، تیاری میں جلدی کر و ، تیاری میں جلدی کر لو ؛ کیونکہ ابھی تک تمہارے پاس تیاری کا وقت ہے، آج عمل ہے اور حساب نہیں اور کل حساب ہو گا عمل نہیں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِمَنِ اتَّقَى وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلًا} [النساء: 77]
آپ ان سے کہئے کہ : دنیا کا آرام تو چند روزہ ہے اور ایک پرہیزگار کے لیے آخرت ہی بہتر ہے'' اور ان پر ذرہ بھر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔
اللہ اکبر ، اللہ نے اپنی بندگی کرنے والوں کو اطاعت کے ساتھ عمل کی توفیق دی ، چنانچہ ان کی کوشش قابل قدر ہوئی۔
الحمدللہ، اس نے اپنے لطف کے ساتھ احسان کیا اور ان کے حصے میں بخشش آئی۔
مسلمانو! آپ کو عید مبارک ہو ، اللہ تعالی ہم سے اور آپ کا قیام و صیام اور تمام عبادتیں قبول فرمائے ۔ آج کا دن اللہ کے مبارک دنوں میں سے ایک ہے، یہ ہم مسلمانوں کی عید ہے ۔
آپ کے لئے مبارک باد ہے ، آپ کا روزہ رکھنا اور افطار کرنا آپ کو مبارک ہو ، آپ کے لئے مبارک باد ہے کہ آپ نے تکبیرات پڑھیں اور شکر ادا کیا، تمہارا ظاہری شعار تکبیر اور باطنی شعار صلاح و تقوی ہے ۔
{وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ} [البقرة: 185]
تاکہ تم گنتی پوری کرو اور تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو، اس پر جو اس نے تمھیں ہدایت دی اور تاکہ تم شکر کرو۔
عید صرف ایک اللہ کی تکبیر ، تحمید ، تسبیح اور تمجید ، نیز شکر اور اچھی عبادت کا نام ہے تاکہ تم اس پر اللہ کی دی ہوئی ہدایت پر شکر ادا کرو اور احسان کرنے والوں کے لئے بشارت ہے ۔
عید فراخی، خوشی ، اور مومنین کے لئے اللہ کی طرف سے انعام ہے ، ہماری عیدیں نرمی ، محبت ، سخاوت، ایثار اور جوڑنے کی عیدیں ہیں نیز امت مسلمہ کو یک جان بنانے والی ہیں ۔
اللہ اکبر! اس کی اطاعت افضل ترین کمائی ہے ، اور الحمد للہ ! تقوی مضبوط ترین نسب ہے۔
مسلمانو! میں اس موقع پر عید کی خوشیوں کا ایک مظہر: عزیز و اقارب سے ملاقات اور اس کے آداب و نتائج پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔
مسلمانوں کی عید کے واضح مظاہر میں باہمی ملاقات ، عید کی مبارک باد کا تبادلہ ، خوشی ، مسرت ، سینے کی کشادگی کے ساتھ شکریہ کا اظہار شامل ہے ۔
مسلمانو ! انسان اپنی فطرت میں سماجی ہے اور دین اسلام اجتماعیت اور الفت کا دین ہے ، جو مومن لوگوں کے ساتھ رہتا ہے اور ان کی ایذا پر صبر کرتا ہے وہ اس مومن کی نسبت زیادہ اجر والا ہے جو لوگوں کے ساتھ نہیں رہتا اور ان کی ایذا پر صبر نہیں کرتا ۔
اللہ کے لئے بھائی چارہ مسلمانوں کا شعار ، اور نیکی اور تقوی میں باہمی تعاون اللہ کے لئے محبت کی دلیل ہے ۔
بندہ اسی کے ساتھ ہو گا جس سے اسے محبت ہو گی ، اور اس کے لئے اللہ کے پاس وہ سب کچھ ہے جس کی بندہ تمنا کرتا ہے۔
چار خصلتیں ایسی ہیں جو محبت پھیلاتی ہیں ۔
1) ملاقات ، 2) سلام،3) مصافحہ ،4) ہدیہ۔
اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر، اللہ اکبر وللہ الحمد اللہ اکبر کبیرہ والحمدللہ کثیرۃ و سبحان اللہ بکرۃ واصیلا
مسلمانو! حافظ نووی (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں : تاکیدی طور پر نیک لوگوں ، بھائیوں ، پڑوسیوں ، دوستوں اور قرابت داروں کی زیارت اور ان کی تکریم نیز ان کے ساتھ احسان اور صلہ رحمی مستحب ہے۔ آپ (رحمہ اللہ تعالی) مزید فرماتے ہیں: اس ضابطہ اخلاق ان کے حالات مراتب اور فرصت کے مختلف ہونے کی وجہ سے مختلف ہو گا، اس لیے ان کی زیارت اس طرح ہو کہ ان پر گراں نہ گزرے، اور ایسے وقت میں ہو جو ان کے لئے مناسب ہو ۔
دوستو! جب معاملہ ایسا ہی ہے تو یہ علم و حکمت اور آداب کے ماہرین کے بتائے ہوئے بعض آداب ، نتائج اور فوائد کی طرف کچھ اشارے ہیں ۔
ان آداب میں نیک نیتی ، صرف اللہ کے لئے تعلق، اور مستحق کا حق ادا کرنا شامل ہے ۔
مہمانوں کے استقبال کے لیے مناسب وقت کا انتخاب بھی ان آداب میں سے ہے۔
اسی طرح ملاقات کے وقت کو پہلے سے مرتب کر لیں، وقت کی تعین کرتے ہوئے آداب ملحوظ رکھیں، اور اچانک تشویشناک زیارتوں سے پرہیز کریں۔ ملاقات کا وقت ایسے مرتب ہو کہ آپ کا بھائی استقبال کے لئے تیار اور ملاقات کے لئے مستعد ہو سکے۔
اسی طرح خوش دلی سے معذرت قبول کریں اور سب کی مصروفیات کا مکمل احترام کریں۔ یہ قرآن کریم کے سکھائے ہوئے عظیم آداب میں شامل ہے:
{وَإِنْ قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكَى لَكُمْ} [النور: 28]
اور اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو تم لوٹ ہی جاؤ، یہی بات تمہارے لئے پاکیزہ ہے۔
دوستو! ملاقات کے لئے جن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے ان میں اجازت طلبی کے آداب بھی ہیں۔
جیسے واضح طور پر اپنا نام بتلائیں اور تعارف کروائیں، مناسب مؤدبانہ طریقے سے اجازت طلب کریں، اسی طرح ملاقات کے دورانیے کا بھی خیال رکھیں، چنانچہ ملاقات زیادہ لمبی اور بیزار کرنے والی نہ ہو، اور نہ ہی اتنی مختصر کے ملنے اور محبت پھیلانے کا مقصد ہی پورا نہ ہو ، ان تمام باتوں کی بنیاد باہمی احترام اور ملاقات کرنے والوں کے آپس کے تعلقات کی نوعیت اور قربت پر قائم ہے ۔
اسی طرح بہتر ہے کہ اس وقت کی پابندی کی جائے جو میزبان متعین کرے ، نیز اللہ عزوجل کے اس فرمان پر غور کریں ۔
{ فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ} [الأحزاب: 53]
پھر جب کھا چکو تو منتشر ہو جاؤ اور نہ (بیٹھے رہو) اس حال میں کہ بات میں دل لگانے والے ہو۔ بے شک یہ بات ہمیشہ سے نبی کو تکلیف دیتی ہے، تو وہ تم سے شرم کرتا ہے اور اللہ حق سے شرم نہیں کرتا ۔
عائشہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں طبیعت پر گراں لوگوں کے لئے یہ ہی کافی ہے کہ اللہ تعالی ان سے شرمایا نہیں ۔
حافظ ابن قیم (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں: لوگ یقیناً طبیعت پر گراں گزرنے والے آدمی سے نفرت کرتے ہیں چاہے وہ جتنا بھی دیندار ہو۔
اللہ کے لئے سوچیں کہ ہنس مکھ مزاج کتنے دلوں کو کھینچ لاتا ہے ، منہ چڑھا کر رکھنے والے لوگ خاص دوست نہیں ہوتے ، جب کے آپ خوش طبع انسان کو لوگوں میں معزز، نرم طبیعت ، اور ظریف مزاج والا پائیں گے۔
ملاقات کے وقت خیال رکھنے والی باتوں میں یہ بھی ہے کہ ، وقت مفید سرگرمیوں میں صرف کریں، نیز تکلف کے بغیر گفتگو کریں، اور ایسی چیزیں ہوں کہ جن سے خوشی ہو ، اسی طرح مجلس اور حاضرین مجلس میں انسیت پیدا ہو ، ساتھ ساتھ ملاقات کا مقصد محبت اور تعلق پروان چڑھے۔
اسی طرح بلا ضرورت آواز اونچی نہ کی جائے جیسے کہ لقمان (علیہ السلام) کی وصیت میں ہے ۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے ۔
{وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ إِنَّ أَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ} [لقمان: 19]
اور اپنی آواز کچھ نیچی رکھ، بے شک سب آوازوں سے بری یقیناً گدھوں کی آواز ہے۔
بعض عقل مند لوگوں کا قول ہے : اگر آواز کا بلند کرنا قابل تعریف ہی ہوتا تو اللہ تعالی اس کو گدھوں کے لئے نہ بناتا۔
تمام تعریفات اللہ ہی کے لئے ہیں کہ اس نے شریعت عطا کی ۔ اور اللہ ہی سب سے بڑا ہے کہ اس نے اپنی اطاعت کا حکم دیا۔
مسلمانو!
اسی طرح لوگوں کی باتوں ، کاموں اور خاص طور پر میزبان کے گھر یلو معاملات میں بلا وجہ دخل نہیں دینا چاہیے ، نیز جن چیزوں سے بچنا واجب ہیں ان سے لازم بچیں ،جیسے غیر محرم سے نظر کی حفاظت کریں اور گھر کے مختلف حصوں اور سازو سامان پر نظریں نہ گھمائیں۔
قابل لحاظ ادب میں یہ بھی کہ ایسی گفتگو نہ کرے جو میزبان کو ناپسند ہو ،مثلاً ایسے سوال یا گفتگو کہ جس کو وہ ناپسند کرتا ہے ، لہذا آپ اپنی نگاہیں دراز نہ کریں جیسے اپنے ہاتھوں کو دراز نہیں کرتے ، اسی طرح اس بات کا بھی خیال رہے کہ آپ جو معاملات دیکھیں یا جو کھانا پیش کیا جائے اس میں نقص نہ نکالیں ، ہاں اگر کوئی نصیحت کرنی ہو تو حکمت عملی کا دامن نہ چھوڑیں ۔
ادب میں یہ بھی شامل ہے کہ وہاں ہی بیٹھا جائے جہاں میزبان بٹھائے یا بیٹھنے کی اجازت دے ،کیونکہ گھر والا ہی نشستوں کی ترتیب کا حقدار ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس بلند ادب کی رہنمائی فرمائی ہے ۔
اور کوئی شخص کسی دوسرے کے گھر میں امامت کرائے اور نہ اس کی خاص مسند ہی پر بیٹھے ( جو اس کی عزت کی جگہ ہو ) الا یہ کہ وہ اجازت دے ۔
انہی آداب میں یہ بھی ہے کہ گھر والے سے اجازت لئے بغیر رخصت نہ ہوں ،نکلتے وقت بھی سلام کریں جیسے داخل ہوتے وقت سلام کیا تھا ، پہلا سلام دوسرے سلام کو کافی نہیں ہے ،
دوستو!
زیارت کے ان آداب میں مہمان کا مسکراہٹ اور خندہ پیشانی کے ساتھ حسن استقبال اور نرم گفتگو بھی شامل ہے ۔
امام اوزاعی سے پوچھا گیا ، کہ مہمان کی تکریم کیا ہے ؟
انہوں نے جواباً فرمایا خندہ پیشانی سے ملیں اور اچھی گفتگو کریں۔
فضیل بن عیاض (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں :آدمی کا اپنے دوستوں سے نرمی کا معاملہ اور اچھا برتاؤ کرنا اس کے اپنے رات کے قیام اور دن کے روزے سے بہتر ہے ۔
شاید انہوں نے یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے لی ہے ۔
بلاشبہ مومن اپنے حسن اخلاق ( عمدہ عادات ) کی بنا پر ‘ شب زندہ دار اور دن کے روزہ دار کا درجہ حاصل کر لیتا ہے ۔
انہی آداب میں گفتگو کو اچھی طرح سننا بھی شامل ہے اسی طرح بولنے والے کو مہلت دی جائے یہاں تک کہ وہ اپنی بات ختم کر لے ،اس کی طرف پوری توجہ کی جائے نیز اس کی بات نہ کاٹی جائے اگر چہ سننے والا وہ بات پہلے سے جانتا ہو ۔
عطا (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں : نوجوان مجھ سے کوئی بات کرتا ہے تو میں اس کی بات کو ایسے سنتا ہوں جیسے اس سے پہلے سنی ہی نہیں حالانکہ وہ بات میں نے اس کی پیدائش سے پہلے کی سن رکھی ہوتی ہے ۔
ملاقات کے آداب میں مجلس کو حرام اختلاط ، حرام کھانے پینے غیبت اور چغل خوری جیسی شرعی خلاف ورزیوں سے پاک رکھنا بھی شامل ہیں ۔
مجالس امانت ہیں ، اور بہترین لوگوں کے سینوں میں راز محفوظ رہتے ہیں ،
ملاقات کے آداب اور اخوت کی علامات میں یہ بھی ہے کہ آپ اپنے ساتھی کے عذروں کو قبول کریں اس کی کمی کو پورا کریں اور اس کی لغزش کو معاف کریں ۔
مہمان کے ساتھ جب بچے بھی ہوں تو ان کو فضول حرکات اور شور غل سے روکنا چاہیے ،جو گھر والوں اور حاضرین کی تشویش کا سبب بنیں ۔
اسی طرح ان آداب میں یہ بھی شامل ہے کہ مہمان کو رخصت کیا جائے اور اس کے ساتھ گھر کے دروازے تک چلا جائے ، یہ کمال ادب اور حسن ضیافت میں شامل ہے ۔
مسلما نو ! اپنے بھائیوں اور قرابت داروں کی زیارت کریں ، ان کا پیار حاصل کریں ،ان سے دعائیں لیں ان کی خبر گیری کریں اور ان کے ساتھ وہ بھلائی کریں جو پیار کو کھینچ لائے اور محبت کو دوام بخشے ۔
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:' جس نے کسی مریض کی عیادت کی یا کسی دینی بھائی سے ملاقات کی تو اس کو ایک آواز دینے والا آواز دیتا ہے: تمہاری دنیاوی واخروی زندگی مبارک ہو، تمہارا چلنا مبارک ہو، تم نے جنت میں ایک گھر حاصل کرلیا '
امام مالک اور احمد نے صحیح سند کے ساتھ معاذ بن جبل (رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا ہے،
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری خاطر دو محبت کرنے والوں کے لئے ، میری خاطر دو ہم نشینوں کے لئے ، میری خاطر دو ملاقات کرنے والوں کے لئے اور میری خاطر تحائف کا تبادلہ کرنے والوں کے لئے میری محبت ثابت ہو گئی ۔
ملاقات سے نفوس کو خوشی اور سینوں کو کشادگی حاصل ہوتی ہے ، نیز دل جڑتے ہیں اکٹھا ہونا اور ملنا عقلمندی ہے ، اللہ کی رضا کے لئے آپ کا اپنے بھائی سے ملنا نفس کا نفس کے لئے تحفہ ہے ،
اس لئے آپ ان کو بے عمل لوگوں اور فارغ بیٹھنے کی جگہوں اور بیکار لوگوں کا ٹھکانہ نہ بنائیں بلکہ فائدہ اور انسیت کی مجلس بنائیں ، کیونکہ ان کا فائدہ نا ختم ہونے والا اور نشان نہ مٹنے والے ہیں ۔
اللہ آپ کی حفاظت کرے، آپ حقوق کی حفاظت کریں ، نرمی اپنائیں ، خالص دوستی کریں ، اور عہد و پیمان کی پاسداری کریں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ } {فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّى يُؤْذَنَ لَكُمْ وَإِنْ قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكَى لَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ} [النور: 28]
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں داخل نہ ہو، یہاں تک کہ ان سے معلوم کرلو اور ان کے رہنے والوں کو سلام کہو۔ یہ تمھارے لیے بہتر ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ پھر اگر تم ان میں کسی کو نہ پاؤ تو ان میں داخل نہ ہو، یہاں تک کہ تمھیں اجازت دی جائے اور اگر تم سے کہا جائے واپس چلے جاؤ تو واپس ہوجاؤ، یہ تمھارے لیے زیادہ پاکیزہ ہے اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو، اسے خوب جاننے والا ہے۔
حمد و صلاۃ کے بعد!
مسلمانو! ان زیارتوں میں ویسے ہی دلوں کی باہمی قربت ہوتی ہے جیسے جسم قریب ہوتے ہیں ، پیار حاصل ہوتا ہے ، حالات کی خبر گیری ہوتی اور علوم معارف کا تبادلہ ہوتا ہے، نیز آپس میں نصیحت اور مشورہ ہوتا ہے ، محبت کی ملاقاتوں میں مسائل حل ہوتے اور کمیاں پوری ہوتی ہیں ، اسی طرح غافل کو یاد دلایا جاتا ، جاہل کو دکھایا جاتا ،اور ٹیڑھے کو سیدھا کیا جاتا ہے ۔
ملاقاتوں سے نفسوں میں کشادگی پیدا ہوتی، مصائب ہلکے ہوتے ، بشاشت حاصل ہوتی اور غمگین کو تسلی ملتی ہے ۔
محمد المنقدر (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں : زندگی کی لذتوں میں صرف بھائیوں سے ملاقات اور خوشیاں بکھیرنا باقی رہ گیا ہے۔
اور حسن بصری (رحمہ اللہ تعالی) فرماتے ہیں :ہمارے بھائی ہمارے نزدیک اپنے بال بچوں سے زیادہ محبوب ہیں ، ہمارے بھائی ہمیں آخرت یاد دلاتے ہیں جبکہ ہمارے بال بچے ہمیں دنیا یاد دلاتے ہیں ۔
اللہ سب سے بڑا ہے! اس نے ہر چیز کو ابتدا سے پیدا کیا ، اور تمام تعریفات اللہ ہی کے لئے ہیں ، آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ بھی ہے اور جو ان کے درمیان اور مٹی کے نیچے جو کچھ بھی ہے سب اس ہی کے لئے ہے ۔
آپ جان لیجئے ، اللہ آپ کی عید میں برکت دے ۔ ملاقاتوں میں تکلف اور نمود و نمائش باہمی رابطے کے خاتمے اور ملاقاتوں کو بھاری سمجھنے کا سبب بن سکتا ہے ، چنانچہ جب دل صاف ہوں گے تو تکلف ختم ہو گا ۔
تکلف میں ظاہری چیزوں کا اہتمام ہوتا ہے جبکہ ترجیحات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ، آدمی ظاہر کو سنوارنے کی فکر میں مشغول ہو جاتا ہے ، نیز اسی بارے میں سوچتا ہے ،جبکہ جیب خالی ہو جاتی ہے ، نتیجتاً تکلف بوجھ، جدائی اور نفرت کا سبب بنتا ہے۔
پیار قربت کی نسبت ہے ،قرابت داری پیار کی محتاج ہے ، اور پیار قرابتداری کا محتاج نہیں ۔
ان آداب کے ساتھ زیارت مسلم معاشرے کے واضح مظاہر میں سے ہے ،جس سے پیار مضبوط ہوتا اور تعلقات کے رشتے بڑھتے ہیں ،
اَللهُ اَكْبَرُ كَبِيْرًا، وَالْحَمْدُ للهِ كَثِيْرًا، وَسُبْحَانَ اللهِ بُكْرَةً وَّأَصِيْلًا.
مسلم اقوام!
اپنی عید سے خوشیاں مناؤ تم اللہ کے حکم سے امن و امان اور اطمئنان میں ہو، تمہیں عید مبارک ہو ۔
اللہ تعالی تمہاری اطاعت کو قبول فرمائے ۔
مسکراؤ اور خوش رہو اور خوشیاں پھیلاؤ۔ اسی طرح اپنے اور اپنے اہل و عیال اور بھائیوں میں خوشیاں پھیلاؤ، عید اور اس کی مبارک باد ہر اس شخص کے لئے ہے جو محتاجوں کے چہروں پر مسکراہٹ لائے اور مریضوں کو خوش کرے ۔
مسلمانو! عید دلوں کو صاف کرنے ، نفسوں کی اصلاح کا بہترین موقع ہے ۔اسی طرح حسد و کینہ کو صاف کرنے اور دشمنیاں اور عداوتیں دور کرنے کا بھی بہترین موقع ہے ۔
عید کی خوشی تو اس کے لئے ہے جس نے گناہوں سے سچی توبہ کی ، اپنی نیت خالص کی اور لوگوں کے ساتھ اچھا اخلاق اپنایا۔
ہمارے لئے اس بات میں نصیحت ہے۔
عید اس کی ہے جو لوگوں پر ظلم سے رک جائے اور قیامت کے دن سے ڈرے ۔
عید اس کی ہے جو لوگوں کو اللہ کی عطا کردہ فضل پر حسد نہ کرے ،
خوش ہو جاؤ اور شکر ادا کرو، نیز اپنے گرد و نواح میں خوشیاں بکھیرو، خوشی کی لذت دل کی نعمتوں میں اعلی مقام رکھتی ہے ۔
اَللهُ اَكْبَرُ، اَللهُ اَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللهُ اَكْبَرُ، اَللهُ اَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ
نیکیوں کی علامات میں سے ہے کہ رمضان کے بعد بھی بندہ نیکی اور اطاعت کے کاموں پر مداومت و استقامت اختیار کرے اور نیکیوں میں مزید آگے بڑھے ۔
بے شک تمہارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف تمہاری رہنمائی فرمائی ہے ، وہ یہ کہ رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے جائیں ، چنانچہ جس نے یہ روزے رکھے گویا کے اس نے سارے زمانے (سال)کے روزے رکھے ۔
اللہ تعالی مجھ سے اور آپ سے روزے ، قیام ، عبادات اور تمام نیک اعمال کو قبول فرمائے ۔
تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں