چھاؤں ۔۔۔ (مکالمہ) از عمر الیاس

Image result for tree shade

چھاؤں (ایک مکالمہ)
تحریر: عمر الیاس

ہمارے مسائل کا آخر حل ہے کیا؟

سیدھا راستہ۔

یہ تو سب کو معلوم ہوتا ہے، پر سیدھے راستے پر چلنا اتنا مشکل کیوں ہے؟

کیونکہ ہمیں یقین نہیں آتا کہ یہ مشکل نہیں ، آسان ہے۔ مشکلیں تو ہر راستے میں ہوا کرتی ہں۔ بُرا / غلط راستہ کونسا آسان ہے!؟

پر، اتنے مذہب ، آسمانی کتابوں اور مصلحین، دعوت و تبلیغ، مشنری مشن، سماجی و رفاہِ عامہ کی لاکھوں کوششوں کے باوجود، نسلِ انسانی کی زندگی مزید سے مزید تر مشکل ، افسردہ اور پیچیدہ ہوتی چلی جا رہی ہے۔ یقیناً آپ اتفاق کریں گے۔

یقیناً۔

تو پھر حل کیا ہے۔

وہی۔ سیدھا راستہ۔ اور یہ قابلِ عمل ہے، آسان بھی۔

وہ کیسے؟

سیدھے راستے کے لئے نشانِ منزل سے زیادہ وہ لوگ ضروری ہیں، جو اس پر چلتے ہیں۔، وہ اس راہ کی مثال بنتے ہیں، انسان کی فطرت ہے کہ وہ مثالوں سے سیکھتا ہے۔ الہامی صحائف سے لے کر انسانی ادب و شاعری تک، مثال، تشبیہ اور استعارہ اظہار کی موثر ترین شکلیں ہیں۔

پر مثالیں تو بہت کم ہیں۔

یہی تو مسئلہ ہے، اور یہی حل۔

حل کیسے؟َ

بہت دھوپ میں آپ کیا تلاش کرتے ہیں؟

سایہ۔ چھاؤں۔

بالکل۔ چھاؤں۔ کیونکہ چھاؤں ، سائے سے بہتر ہوتی ہے۔

وہ کیسے؟

چھاؤں ٹھنڈی ہوتی ہے۔ وہ بڑے درختوں کی ہوا کرتی ہے۔ جیسے بڑی شخصیات۔ محبت کے رشتے۔ جیسے اچھے دوست۔ مخلص بزرگ۔ جیسے راہ نما۔

اور سایہ۔

سایہ تو کِسی بھی چیز کا ہو سکتا ہے۔ دیوار کا بھی۔ ٹین کی چھت کا بھی۔

تو اِن مثالوں سے کیا سمجھا جائے؟

یہی، کہ مصائب کی دھوپ میں نیکی اور رہنمائی کی چھاؤں تلاش کی جائے۔

پر اب تو نہ پیغمبر آئیں گے، نہ ہی ویسے صالحین ملتے ہیں۔ اب تو دین کے نام پر دکانداری اور تصوف کے نام پر بے دینی پائی جاتی ہے۔

چھاؤں تلاش کریں۔ مِلے گی۔ نیک لوگ آج بھی موجود ہیں۔ یقین کرو اُنہی کی وجہ سے، اور دیگر مخلوقات کی وجہ سے بارشیں برستی ہیں۔ اللہ کی رحمتیں آتی ہیں۔ ورنہ ہمارے اعمال تو بہت بُرے ہیں۔

پر، اگر کوئی چھاؤں نہ مِل پائے۔ تو؟

جِس جگہ درخت نہیں ہوتے، تو وہاں کیا کرنا چاہیئے؟

درخت کاشت کرنے چاہیئں۔ تاکہ کِسی کا تو بھلا ہو سکے۔

بالکُل۔ چھاؤں نہیں مِل رہی، تو خود چھاؤں بننے کی کوشش کریں۔ تاکہ کِسی کا تو بھلا ہو سکے۔




تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں