ازدواجی زندگی کے لیے رہنما تعلیمات ۔۔۔۔ خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس) ۔۔۔ 14 جون 2019


ازدواجی زندگی کے لیے رہنما تعلیمات 
خطبہ جمعہ مسجد الحرام (اقتباس) 
 14 جون 2019 بمطابق 11 شوال 1440ھ
امام و خطیب: فضیلۃ الشیخ ماہر بن حمد المعیقلی 
ترجمہ: فرہاد احمد سالم

فضیلۃ الشیخ ماہر بن حمد المعیقلی (حفظہ اللہ تعالی) نے مسجد حرام میں 11 شوال 1440ھ کا خطبہ جمعہ '' ازدواجی زندگی کے متعلق رہنما تعلیمات'' کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے شادی کا حکم دیا اور اس کو انبیاء و رسل کی سنت قرار دیا چنانچہ شریعت الہی نے نکاح کو آسان کیا اور اس کو عفت اور پاکدامنی کا ذریعہ بنایا۔ ازدواجی زندگی شوہر اور بیوی کی ضرورت ہے اس سے ان دونوں کی زندگی سنورتی ہے ۔ ازدواجی زندگی کو خوش گوار بنانے کے لئے شوہر اور بیوی دونوں پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، جن میں شوہر اور بیوی کا آپس میں دینی و دنیوی معاملات میں تعاون، ایک دوسرے کی خدمت، آپس کے معاملات میں رعایت نیز آپس میں غم و پریشانی دور کرنا شامل ہے ۔اسی طرح شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کی ضروریات کو حسب استطاعت پورا کرے اور رہن سہن میں اسے اپنے برابر رکھے اسی طرح بیوی شوہر ہر خرچ سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔ ازدواجی زندگی میں شوہر اور بیوی کا ایک دوسرے پر اعتماد اور پوشیدہ رازوں کی حفاظت بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔ ازدواجی زندگی میں محبت ، نرمی اور حسن ظن زندگی کو چار چاند لگا دیتے ہیں ۔ اسی طرح خوشی مسرت اور تفریح بھی حسن معاشرت میں شامل ہیں۔ ٖغرض یہ کہ ان اچھی صفات کے ساتھ ازدواجی زندگی نیکی تقوی میں معاون اور حسن ایمان کی علامت ہے۔


↠ منتخب اقتباس ↞

تمام تعریفات اللہ تعالی کے لئے ہیں جس نے انسان کو پیدا کیا اور کامل بنایا ،نیز ٹھیک تخمینہ لگایا اور رہنمائی فرمائی ۔ اسی نے ٹپکتے ہوئے قطرے سے دو قسمیں نر اور مادہ پیدا کیں ۔میں اللہ پاک کی حمد بیان کرتا اور شکر ادا کرتا ہوں ،نیز اس کی تعریف کرتا اور اس سے مغفرت طلب کرتا ہوں ۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں ، اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر آپ کی آل ، صحابہ ، تابعین اور بہترین انداز میں قیامت تک آپ کی پیروی کرنے والوں پر درود و سلام اور برکتیں نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد!
{يَاأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا} [النساء: 1]
لوگو! اپنے اس پروردگار سے ڈرتے رہو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے (دنیا میں) بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں۔ نیز اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور قریبی رشتوں کے معاملہ میں بھی اللہ سے ڈرتے رہو۔ بلاشبہ اللہ تم پر ہر وقت نظر رکھے ہوئے ہے۔

امت اسلام!
ان دنوں میں جب کہ شادی کی تقریبات کثرت سے ہوتی ہیں شادی کے متعلق گفتگو بڑی اہمیت کی حامل ہے اور یہ گفتگو قرآن و حدیث کے دلائل اور نصیحتوں کا تقاضا کرتی ہے ۔
جیسے کہ اللہ تعالی نے شادی کا حکم دیا اس کی ترغیب دلائی اور اس کو انبیاء اور رسل کی سنت قرار دیا ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{ وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً } [الرعد: 38]
ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا۔

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اللہ کی شریعت نے نکاح کو آسان بنایا، پس شریعت نے ہر اس چیز سے روکا جس سے نکاح کی تکمیل میں رکاوٹ ہو یا آسان نکاح کو مشکل بنا دے۔
دنیا کا سب سے بہترین ذریعہ لطف اندوزی نیک بیوی ہے کہ جب شوہر اس کو دیکھے تو خوش کر دیتی ہے ، جب حکم دے تو بجا لاتی ہے اور جب خاوند موجود نہ ہو تو اس کی ہر چیز کی حفاظت کرتی ہے ۔

شادی ایک مضبوط عہد ہے یہ اللہ کے فضل سے دنیا میں شروع ہوکر آخرت میں بھی قائم رہتی ہے ۔

مسلم اقوام! 
اس میں کوئی شک نہیں کہ ازواجی زندگی شوہر اور بیوی دونوں کی ضرورت ہے ، یہ ضرورت دلہا اور دلہن دونوں کو ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے ان کی زندگی سنورتی ہے اور محبت و الفت کے ماحول میں بچوں کی پرورش ہوتی ہے تو یہ اچھی معاشرت، پاکیزہ معاملات اور نرمی کے بغیر ممکن نہیں۔
اور یہ اللہ تعالی کے اس حکم کی تعمیل ہے: 
{وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ} [النساء: 19]
اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔

اچھے طریقے سے زندگی بسر کرنے کا مطلب ہے کہ ان کے ساتھ ہر اس طریقے سے اچھائی کرو جو اچھائی شرعی طور پر معروف ہے اور حسب قدرت اچھی باتیں اور اچھے کام وغیرہ کرو۔

حسن معاشرت میں شوہر اور بیوی دونوں کا دین و دنیا کے معاملات کی ادائیگی میں ایک دوسرے سے تعاون بھی شامل ہے ۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہ ہی طریقہ تھا، 

چنانچہ مسند امام احمد میں ہے :
سیدہ عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) سے دریافت کیا کہ آیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کوئی کام کیا کرتے تھے؟ انھوں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جوتے مرمت کر لیتے، کپڑے کو سلائی کر لیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں اسی طرح کام کرتے تھے، جیسے تم میں سے کوئی اپنے گھر میں کام کاج کرتا ہے۔

شوہر بیوی دونوں میں سے کسی ایک کے لئے بھی درست نہیں کہ وہ ایک دوسرے کی خدمت سے یا اپنی ذمہ داری سے دور بھاگیں یا ایک دوسرے پر احسان جتلائیں ۔

مسلم اقوام!
حسن معاشرت کے مظاہر میں یہ بھی ہے کہ شوہر اور بیوی آپس میں خیال رکھیں، ایک دوسرے کے غم و پریشانی کو دور کرنے کی کوشش کریں اور آپس میں فرحت و مسرت پیدا کریں۔

خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کے عمل کو دیکھیے جب جبرائیل (علیہ السلام) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہلی مرتبہ آئے ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حال میں گھر لوٹے کہ آپ کا دل کانپ رہا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے مجھے پر چادر ڈالو ، مجھ پر چادر ڈالو، چنانچہ خدیجہ (رضی اللہ عنہا) نے اس وقت بہترین انداز میں اپنے فریضے کو سر انجام دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکون محسوس ہوا اور دل مطمئن ہو گیا۔ آپ (رضی اللہ عنہا) کی سیرت سے انسیت اور الفت کا سبق ملتا ہے ۔ خدیجہ (رضی اللہ عنہا) نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور وہ صاحب علم تھے ، تو انہوں نے کہا کہ یہ تو وہ ہی ناموس (یعنی جبرائیل (علیہ السلام) ہے جو اللہ نے موسی پر اتارا تھا)۔

حسن معاشرت میں یہ بھی ہے کہ خوشحالی کی حالت میں شوہر اپنی بیوی کے خرچے میں تنگی نہ کرے اور رہن سہن میں اپنے برابر رکھے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ} [الطلاق: 6]
انہیں اپنی طاقت کے مطابق وہاں رہائش دو جہاں تم رہتے ہو ، اور انہیں اس لئے تکلیف نہ دو کہ ان پر تنگی کرو۔

آپ کے خرچ کے سب سے زیادہ مستحق آپ کے اہل و عیال اور خواص ہیں ، ان پر خرچ کرنا ضائع کرنا نہیں ہے بلکہ یہ باقی رہنے والا صدقہ ہے ۔

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے کی عظمت اور اس کے بڑے اجر کو بیان کیا ۔
صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا ( جن دیناروں پر اجر ملتا ہے ان میں سے ) ایک دینا وہ ہے جسےتو نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا ایک دینار وہ ہے جسے تو نے کسی کی گردن ( کی آزادی ) کے لیے خرچ کیا ایک دینا ر وہ ہے جسے تو نے مسکین پر صدقہ کیا اور ایک دینار وہ ہے جسے تو نے اپنے گھر والوں پر صرف کیا ان میں سب سے عظیم اجر اس دینار کا ہے جسے تو نے اپنے اہل پر خرچ کیا ۔

اسی کے بالمقابل بیوی کے لئے بھی جائز نہیں کہ شوہر پر خرچ کا اتنا بوجھ ڈالے جو وہ اٹھا نہ سکے، اور خصوصاً اگر مطلوبہ چیز کا تعلق سہولیات سے ہو نہ کہ ضروریات سے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللَّهُ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا } [الطلاق: 7]
لازم ہے کہ وسعت والے اپنی وسعت میں سے خرچ کرے ، اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا ہو تو وہ اس میں سے خرچ کرے جتنا اللہ نے اسے دیا ہے ، اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس کی جو اسے دیا ہے ، عنقریب اللہ تنگی کے بعد آسانی پیدا کرے گا۔

شریک حیات!
حسن معاشرت کی خصلتوں میں شوہر اور بیوی کا ایک دوسر ے پر بھروسا کرنا بھی شامل ہے ، معتدل غیرت میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ تو اعلی مروت میں شامل اور محبت کی دلیل ہے ۔

صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ کو غیرت آتی ہے اور مومن کو بھی غیرت آتی ہے ۔

لیکن حد سے بڑھی ہوئی غیرت مسئلہ ہے کیونکہ اس سے بد گمانی پیدا ہوتی ہے ،اسی طرح اگر ہر بات کی غلط تاویل کی جائے کہ جس سے معاشرت کی شفافیت پر داغ آتا ہو ،اور ازدواجی زندگی منہدم ہو تی ہو تو یہ غیرت قابل مذمت ہے۔
علی (رضی اللہ عنہ) کا قول ہے : اپنے اہل و عیال پر زیادہ غیرت نہ کرو کہ تمہاری وجہ سے ان پر تہمت لگنے لگے۔

اللہ کے بندو! حسن معاشرت میں ازدواجی تعلقات کے رازوں کی حفاظت بھی شامل ہے اس لئے کہ شوہر اور بیوی کا رشتہ انتہائی گہرا رشتہ ہے ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ} [البقرة: 187]
وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لباس۔
ازدواجی زندگی کے رازوں کو شریعت نے خفیہ رکھنے کا حکم دیا ہے ،جہاں تک ان کو عام کرنے اور پھیلانے کی بات ہے تو یہ بڑی خیانت ہے جو قیامت کے دن ایسا کرنے والے کو بد ترین درجے میں لے جائے گی۔

حسن معاشرت میں بیوی کے ساتھ ایسی تفریح بھی ہے جس سے خوشی اور مسرت حاصل ہو ، جو آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر غور کرے گا وہ یہ بات جان لے گا کہ نبوت کی ذمہ داری کے باوجود بیویوں کے ساتھ تفریح کے بہت سے مظاہر پائے گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں موجود ہیں۔

اے شوہر !
 زینت ، کھانے اور لباس میں بیوی کی تعریف اس کے دل کی کنجی اور محبت کا راستہ ہے ۔

یاد رکھیں !اچھے لوگوں کا دل ہمیشہ نرم ہوتا ہے، آپ اپنی بیوی کے لئے ایسے ہی رہیے جیسے آپ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کے لئے رہے ، وہ بھی آپ سے وہ ہی چاہتی ہے جو آپ اس سے چاہتے ہیں ۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے ابن عباس (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں :
میں بیوی کے لئے زینت اختیار کرنا پسند کرتا ہوں جیسے کہ میں چاہتا ہوں کہ وہ میرے لئے زینت اختیار کرے ،اس لئے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے :
 {وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ} [البقرة: 228] 
اور معروف کے مطابق ان (عورتوں ) کے لئے اسی طرح حق ہے جیسے ان کے اوپر حق ہے۔

حسن معاشرت میں یہ بھی ہے کہ شوہر اور بیوی آپس میں محبت کا اظہار کریں اور قول کے ساتھ ساتھ اپنے فعل سے بھی الفت کا مظاہرہ کریں ۔
بخاری اور مسلم میں ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا لوگوں میں آپ کا سب سے محبوب کون ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ (متفق علیہ) 

شوہر اور بیوی !
آپ دونوں حسن معاشرت کی جتنی بھی کوشش کر لیں کمی کوتاہی اور اختلاف ہو ہی جاتا ہے ، پس شوہر اور بیوی ایک دوسرے کی ان چیزوں کو معاف کر دیں اور دونوں خطاؤں اور لغزشوں سے صرف نظر کو اپنا شعار بنا لیں۔
اس لئے کہ اگر چھوٹی چھوٹی چیزوں پر محاسبہ کرو گے تو ہر ایک چیز سے عاجز ہو جاؤ گے۔

دونوں کو چاہیے کہ غصے کے وقت بات کو مزید نہ پھیلائیں اور نہ ہی شریک حیات کی ناپسند چیز پر اڑیں، بلکہ فریق ثانی کی خوبیوں کو لازمی طور پر ذہن نشین کریں۔ نتیجتاً کبھی ایسا نہیں ہو گا کہ وہ حسن اخلاق، پاکیزہ عادات ،اور بھلائیوں میں کوئی ایسی چیز نہ پائے جو اسے خوش کرے۔ اور یہ چیز مردوں پر زیادہ واجب اور تاکیدی ہے ۔

صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی مومن مرد کسی مومنہ عورت سے بغض نہ رکھے ،ا گر اسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہے تو دوسری کسی خوبی سے راضی ہو جائے۔ 

عورتوں کے ساتھ خیر کا معاملہ کرو وہ تمہاری مدد گار ہیں پس تم ان کے حقوق ادا کرو جیسے کہ تمہیں تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی اور حقیقی بات یہ ہے کہ ازدواجی زندگی کی بنیاد اللہ کے تقوی پر ہے۔ شوہر اور بیوی کے معاملات میں تقوی پر رغبت دلانے اور اس پر ابھارنے کے بارے میں جو بات سورۃ طلاق میں آئی ہے وہ آپ اور کہیں نہیں پائیں گے ۔
جو تقوی اختیار کرے گا اللہ اس کے گناہ معاف فرما دے گا اور اجر بڑھا دے گا ، اس کے معاملات آسان کر دے گا اور ہر تنگی سے نکلنے کی راہ بنا دے گا نیز اس کو وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہو گا۔ اللہ سے زیادہ بات میں سچا کون ہے ؟ اللہ سے زیادہ بات میں سچا کون ہے ؟

اے شوہر اور بیوی !
اپنے اور رحمٰن کے درمیان جو کچھ ہے اس کو درست کریں اللہ آپ کو ملا دے گا۔ کتنے ہی گناہ ہیں جن سے خوش و خرم خاندانوں میں پھوٹ ڈلتی اور کتنے ہی گناہ ہیں جن کا بدلہ بدبخت زندگی بنتی ہے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ} [الشورى: 30]
اور جو بھی تمہیں کوئی مصیبت پہنچی ہے تو وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے اور وہ بہت سی چیزوں سے درگزر کرتا ہے۔

ازدواجی رشتے میں سکون و اطمینان بڑی نعمت ہے ،اس کا حقیقی قدر دان تو وہ ہی ہو گا جو اس کی لذت سے محروم ہو، قرآن نے اس حسین نعمت کا ذکر کیا ہے۔
{وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ بُيُوتِكُمْ سَكَنًا } [النحل: 80]
اور اللہ نے تمہارے لئے تمہارے گھروں میں سکونت کی جگہ بنائی۔

اللہ کے بندو ! یہ سکونت کی جگہ راحت اطمینان ، محبت و رحمت پر قائم باہمی صحبت ہے۔ اس کے ذریعے روح پرسکون ہوتی اور جسم آرام پاتا نیز مطمئن اور خوش ہوتا اور گفتگو سے انسیت و بشاشت تلاش کرتا ہے۔

مومنو! ہمیں جاننا چاہیے کہ ازواجی زندگی صرف محبت سے ہی قائم نہیں ہوتی ، اگرچہ محبت سے قائم ہو تو سب سے مثالی اور بلند مقام کی نمائندگی کرتی ہے ، لیکن یہ محبت کے ساتھ رحمت پر بھی قائم ہوتی ہے ۔

امام بخاری کی تاریخ الکبیر اور امام بغوی کی شرح السنۃ میں ہے کہ ایک آدمی نے عمر (رضی اللہ عنہ) کے زمانے میں اپنی بیوی کو اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا کیا تو مجھ سے محبت کرتی ہے ؟ تو بیوی نے کہا تم اللہ کا واسطہ دے کر پوچھ رہے ہو ، تو بات یہ ہے کہ میں تم سے محبت نہیں کرتی ۔چنانچہ وہ آدمی عمر (رضی اللہ عنہ) کے پاس حاضر ہوا اور قصہ ذکر کیا، عمر (رضی اللہ عنہ) نے عورت کو بلایا ، جب وہ آئی تو اس سے پوچھا کیا تم ہی ہو جو کہتی کو کہ میں اپنے شوہر سے محبت نہیں کرتی ؟ عورت نے جواباً کہا : اے امیر المومنین اس نے مجھے اللہ کا واسطہ دیا تو کیا میں جھوٹ بولتی ، تو عمر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: ہاں اس سے جھوٹ ہی کہو سارے گھر محبت پر ہی قائم نہیں ہوتے بلکہ لوگ اسلام اور احسان کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں ۔ 

یا اللہ ! ہر نئے جوڑے کو توفیق یاب فرما۔ یا اللہ ! ہر نئے جوڑے کو توفیق یاب فرما۔
یا اللہ ! ہر شوہر اور بیوی کو توفیق یاب فرما ، انہیں خوشی اور مسرت دے ، انہیں برکتوں سے نواز اور ان پر برکتوں کا دروازہ کھول دے نیز انہیں خیر پر جمع فرما اور نیک پاکیزہ ، بابرکت اولاد سے نواز۔
اے اللہ! مسلم نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو توفیق دے ، ان کو ظاہری اور باطنی فواحش اور فتنوں سے بچا۔
یا اللہ! ان کے لئے ایمان کو محبوب کر دے اور ان کے دلوں کو ایمان سے مزین کر دے ۔ نیز ان کے دلوں میں کفر ، فسق اور گناہ سے نفرت ڈال دے اور ان کو ہدایت یافتہ بنا دے۔

{رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ} [البقرة: 201]
اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔
اے اللہ ہمارے دلوں کو تقوی دے، ان کو پاکیزہ کر دے ، تو ہی ان کو سب سے بہتر پاک کرنے والا اور تو ہی ہر چیز پر مکمل قدرت رکھنے والا ہے۔
یا اللہ ! ہم تجھ سے معافی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں، اور دنیا و آخرت میں ہمیشہ معافی کا سوال کرتے ہیں۔
یا اللہ ! مسلمان مردوں اور عورتوں میں سے جو زندہ ہیں یا فوت ہو گئے ہیں ان کی مغفرت فرما۔
یا اللہ ! ہم سے قبول فرما بے شک تو سننے والا اور جاننے والا ہے، اور ہماری توبہ قبول فرما بے شک تو بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
{سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ (180) وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ (181) وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} [الصافات: 180 - 182]
پاک ہے آپ کا رب جو بہت بڑی عزت والا ہے ہر اس چیز سے (جو مشرک) بیان کرتے ہیں۔ پیغمبروں پر سلام ہے اور سب طرح کی تعریف اللہ کے لئے ہے جو سارے جہان کا رب ہے ۔




تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں