اسلام میں انسان کی عزت افزائی۔۔۔ خطبہ مسجد نبوی (اقتباس) ۔۔۔ 21 جون 2019


اسلام میں انسان کی عزت افزائی
 خطبہ مسجد نبوی (اقتباس) 
 21 جون 2019 بمطابق 18 شوال 1440 ہجری
امام و خطیب: فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی 
ترجمہ: شفقت الرحمٰن مغل


فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے18 شوال 1440 ہجری کا خطبہ جمعہ " اسلام میں انسان کی عزت افزائی" کے عنوان پر ارشاد فرمایا جس میں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی جسے چاہے اپنا چنیدہ اور برگزیدہ بنا لیتا ہے یہ اللہ تعالی کے اختیار میں کسی کو اس میں دخل اندازی کا اختیار نہیں ہے، تو اللہ تعالی نے انسان کو تمام مخلوقات کی خوبیوں کا مرکب بنایا اور انسان کو اپنے ہاتھ سے بنا کر اسے فضیلت اور مقام بخشا جو کہ انسان کی عزت افزائی بھی ہے، پھر بر و بحر میں ہر چیز انسانوں کے لئے مسخر کر دی، یہ عزت افزائی سب کے لئے ہے چاہے کوئی مسلمان ہو یا کافر، جبکہ آخرت میں عزت افزائی صرف مسلمانوں کے لئے ہوگی، دنیا میں انسانوں کی عزت افزائی صرف اس لیے ہے کہ انسان اللہ کی بندگی میں مزید دل لگائیں اور اپنی پیشانی صرف اسی کے آگے جھکائیں۔ اللہ تعالی نے ہمیں یہ قانون بتلایا ہے کہ اگر انسان کے اعمال اچھے ہوں تو اس کے مثبت اثرات خود انسان سمیت ارد گرد کے ماحول پر بھی پڑتے ہیں، آخرت میں ان سب لوگوں کی تکریم اور عزت ہوگی جنہوں نے شرک نہ کیا ہو گا، اور دنیا میں ان کے لئے اعلی مقام ہو گا جو دین الہی کی نصرت کے لئے کاوش کرتے ہیں اور اقامت نماز، زکاۃ کی ادائیگی ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے ہیں، دوسری طرف انسان کی بد اعمالیوں سے خود انسان بھی متاثر ہوتا ہے اور معاشرہ بھی منفی اثرات کے زیر اثر آ جاتا ہے، چنانچہ علانیہ فحاشی طاعون کا اور نت نئی وبائی امراض کا باعث بنتی ہے، اسی طرح عدم نفاذ شریعت، زکاۃ ادا نہ کرنا، ناپ تول میں کمی اور عہد شکنی بالترتیب باہمی اختلاف، بارشوں کی کمی، ظالم حکمرانوں کے تسلط، اور بیرونی دشمنوں کے زیر عتاب آنے جیسے منفی اثرات میں گھرنے کا باعث بنتے ہیں، آخر میں انہوں نے سب مسلمانوں کو استقامت کی دعوت دی اور اخروی گھر کی تیاری کرنے کی ترغیب دلائی اور پھر سب کے لئے دعا منگوائی۔


⇛ منتخب اقتباس ⇚

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، وہی غالب اور بخشنے والا ہے، وہی رات کو دن کے بعد اور دن کو رات کے بعد لاتا ہے، اس میں اہل دانش کے لئے نشانیاں ہیں، میں اپنے رب کی معلوم اور نامعلوم سب نعمتوں پر حمد و شکر بجا لاتا ہوں ان کا شمار بھی اللہ کے سوا کوئی نہیں کر سکتا، ہمارے پروردگار کے نام مقدس اور اس کی صفات عظمت والی ہیں، اس کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں، وہ یکتا اور زبردست ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے رحمت الہی اور جنت کی خوشخبری دی نیز دنیاوی سزاؤں اور اخروی عذاب سے ڈرایا، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد -صلی اللہ علیہ وسلم- انکی آل اور نیکو کار صحابہ کرام پر اپنی رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

تقوی الہی اپناؤ اور تقوی حاصل کرنے کے لئے اللہ کی رضا تلاش کرو اور اللہ کے غضب و عذاب سے بچو۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ} 
اور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے ان میں سے کسی کو کوئی اختیار نہیں ، اللہ پاک ہے وہ ہر اس چیز سے بلند تر ہے جسے لوگ شریک بناتے ہیں۔ [القصص: 68]

تو اللہ تعالی نے ساری مخلوقات کو اپنی قدرت، علم، حکمت اور رحمت کے ذریعے پیدا کیا، اس مشاہداتی کائنات کو وجود بخشا اور اس کا ایک وقت مقرر فرمایا جس سے کائنات ایک لمحے کے لئے بھی آگے پیچھے نہیں ہو سکتی، اس مشاہداتی کائنات میں اسباب بھی پیدا فرمائے، اور ان اسباب سے پیدا ہونے والی چیزیں بھی پیدا کیں، اس طرح اللہ تعالی سبب اور مسبب دونوں کا خالق ہے؛ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی جو چاہتا ہے وہ ہو جاتا ہے اور جو نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا، اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ (62) لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ}
 اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہر ایک کا نگہبان ہے[62] اسی کے پاس آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں، اللہ کی آیات کا انکار کرنے والے ہی خسارہ پانے والے ہیں۔ [الزمر: 62، 63]

ایک اور مقام پر فرمایا:
 {أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ}
 پیدا کرنا اور حکم چلانا اسی کے لائق ہے، جہانوں کا پروردگار اللہ بہت ہی بابرکت ہے۔ [الأعراف: 54]
 تو انسان بھی اللہ تعالی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے، اور یہ اللہ تعالی کی ایک انوکھی مخلوق ہے، اس میں اللہ تعالی نے دیگر مخلوقات میں بکھری ہوئی خوبیاں یکجا کر دی ہیں، اس بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ}
 یقیناً ہم نے انسان کو بہترین قالب میں پیدا کیا ہے۔[التين: 4]

اللہ تعالی نے اولاد آدم کی عزت افزائی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: 
{وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا}
 بلاشبہ! ہم نے بنی آدم کی عزت افزائی کی اور بحر و بر میں انہیں سواری مہیا کی، کھانے کو پاکیزہ چیزیں دیں اور جو کچھ ہم نے پیدا کیا ہے ان میں سے کثیر مخلوق پر انہیں نمایاں فوقیت دی۔ [الإسراء: 70]

یہاں دنیا میں اللہ تعالی کی طرف سے نعمتوں کے ذریعے عزت افزائی تمام اولاد آدم کے لئے ہے چاہے کوئی نیک ہے یا فاجر ، یہ عام عزت افزائی ہے، جبکہ آخرت میں ملنے والی رضائے الہی اور جنت کی صورت میں عزت افزائی خاص ہوگی اور یہ صرف اہل ایمان کو ملے گی آخرت میں کافر کے لئے کچھ نہیں ہو گا؛ یہ بھی واضح رہے کہ تمہارا پروردگار کسی پر ظلم بھی نہیں فرماتا۔

آخرت میں اللہ تعالی صرف اسی انسان اور جن کو عزت دے گا جس نے اللہ تعالی کی اطاعت کی ہو گی، جیسے کہ ابن عساکر نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (فرشتے کہتے ہیں: پروردگار! تو نے ہمیں پیدا کیا اور آدم کی اولاد کو بھی پیدا فرمایا، تو نے انہیں کھانے، پینے ، پہننے اور شادیاں کرنے کی صلاحیت دی، وہ سواری بھی کرتے ہیں، سوتے بھی ہیں اور آرام بھی کرتے ہیں، لیکن ان چیزوں میں سے کچھ بھی ہمیں عطا نہیں کیا لہذا آدم کی اولاد کو دنیا دے دے اور ہمیں آخرت دے دے، تو اللہ تعالی نے فرمایا: ایسی مخلوق جس کو میں نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی اس کو کسی ایسی مخلوق کے برابر نہیں کروں گا جسے میں نے کلمہ کن کہہ کر پیدا کیا ہے) اس حدیث کا ایک شاہد عبد اللہ بن عمرو سے بھی مروی ہے جسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔

بنی آدم کو دی گئی بڑی نعمتوں میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ تعالی نے انسانوں کے لئے بہت سی مخلوقات، چیزیں اور نعمتیں کام پر لگائی ہوئی ہیں، اسی کا ذکر اللہ تعالی نے کرتے ہوئے فرمایا:
 {أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً} 
کیا تم دیکھتے نہیں کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ نے تمہارے لئے کام پر لگا دیا ہے اور اس نے اپنی تمام ظاہری و باطنی نعمتیں تم پر پوری کر دی ہیں ۔[لقمان: 20]

یہاں اولاد آدم پر نعمتوں کی بھر مار کرنے میں حکمت یہ ہے کہ سب کے سب اللہ تعالی کے سامنے سرنگوں ہوں اور اسی کا شکر ادا کریں، نیز کسی کو بھی اس کا شریک مت ٹھہرائیں، فرمانِ باری تعالی ہے: 
{كَذَلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُونَ}
 یہ اس لیے ہے کہ تم پر اپنی نعمتیں پوری کر دے اور تم اسی کے سامنے سرنگوں رہو۔[النحل: 81]
 اس آیت کی تفسیر میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "یعنی اللہ تعالی اسی طرح تمہارے لیے ایسی چیزیں بناتا ہے جن سے تم اپنے کام نکالو اور اپنی ضرورت پوری کرو تا کہ یہ چیزیں تمہارے لیے اللہ کی اطاعت اور عبادت میں معاون بن جائیں"

انسان کا تذکرہ کر کے اللہ تعالی نے جو اسے بلند مقام دیا ہے کہ اللہ تعالی نے اسے اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا، پھر اسے ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل کیا؛ اس سب کا مقصد یہی ہے کہ انسان کو اپنی دنیاوی ذمہ داری معلوم ہو جائے، انسان فرض شناس ہو، اسے علم ہو کہ اس کی تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ اللہ تعالی نے اسے اپنے اوامر اور نواہی کا مکلف بنایا ہے، اس انسان کو شرعاً ذمہ داری سونپی ہے، نیز اسے اللہ تعالی کی بندگی کا شرف بھی حاصل ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَنْ يُتْرَكَ سُدًى} 
کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے بے مہار چھوڑ دیا جائے گا؟[القيامة: 36] 
امام شافعی رحمہ اللہ بے مہار کا مطلب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: "اسے نہ کوئی حکم دیا جائے گا اور نہ ہی کسی کام سے منع نہ کیا جائے گا!"

اس کے علاوہ اللہ تعالی نے اس کائنات کے جو اصول ہمارے لیے بیان کیے ہیں اور جو اسباب اس کائنات میں وجود پانے کے بعد مؤثر ہوتے ہیں انہیں بھی بیان کیا اور واضح کیا کہ: اگر انسان کے اعمال اچھے ہوں تو انسان کی زندگی بھی سنور جاتی ہے، اور اگر اعمال ہی گھٹیا ہوں تو زندگی بھی تباہ ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالی نے یہ بھی بتلایا ہے کہ اللہ تعالی کے فضل اور عدل کی بدولت انسانی اعمال کا منفی یا مثبت اثر حیوانات اور نباتات پر بھی ہوتا ہے؛ اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگ اطاعت گزاری پر کار بند رہیں اور حرام کردہ امور سے بچیں، چنانچہ انسانی اعمال کی بدولت زندگی سنور جانے کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ}
 اگر بستی والے ایمان لاتے اور تقوی اپناتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے، لیکن انہوں نے جھٹلا دیا تو ہم نے انہیں ان کی کارستانیوں کی وجہ سے پکڑ لیا۔ [الأعراف: 96]

 اللہ تعالی کا فرمان ہے: 
{الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ}
 اگر ہم انہیں زمین کا اقتدار بخشیں تو وہ اقامت نماز، زکاۃ کی ادائیگی ، اچھے کام کا حکم دیں اور برے کام سے روکیں گے، تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے قبضے میں ہے۔ [الحج: 41] 
ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے ایک بار خطاب کیا تو اسی آیت کی تلاوت کی اور فرمایا: "توجہ کریں! یہ صرف حکمران کی ہی ذمہ داری نہیں ہے، اس میں رعایا بھی برابر کی شریک ہے، کیا میں تمہیں یہ نہ بتلاؤں کہ اس ضمن میں تمہارے حکمران پر کیا حقوق ہیں؟ اور حکمران کے تم پر کیا حقوق ہیں؟: تمہارے حقوق یہ ہیں کہ حقوق اللہ کے متعلق تمہارا محاسبہ کرے، تمہارے درمیان انصاف کرے، اور حسب استطاعت تمہاری صحیح ترین سمت میں رہنمائی کرے۔ جبکہ تم پر یہ لازمی ہے کہ تم اس کی اطاعت کرو"

جس طرح نیک عمل کی تاثیر عام بھی ہوتی ہے اسی طرح خود نیک عمل کرنے والے پر بھی اس کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ}
 جو کوئی بھی مرد یا عورت ایمان کی حالت میں نیک عمل کرے تو ہم لازمی طور پر اسے دنیا میں بہترین زندگی عطا کریں گے اور آخرت میں اسے اس کے عمل سے بھی بہترین اجر ضرور عطا کریں گے۔[النحل: 97]

جبکہ اس کے مد مقابل یہ بھی ہے کہ بد اعمالیاں جس طرح برے شخص کو نقصان پہنچاتی ہیں اسی طرح زندگی بھی خراب کر ڈالتی ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ}
 اگر حق ان کی خواہشات کی پیروی کرتا تو آسمانوں اور زمین اور جو بھی ان میں ہیں؛ سب تباہ ہو جاتے۔[المؤمنون: 71]

ایک اور مقام پر فرمایا:
 {ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ}
 خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کی وجہ سے فساد برپا ہو گیا ہے تاکہ اللہ لوگوں کو ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے تاکہ وہ باز آ جائیں ۔[الروم: 41]

اے انسان! تم سابقہ امتوں میں ان لوگوں کی صورت حال پر غور کرو جنہوں نے برائیاں کی تھیں کہ ان پر کیا تکالیف آن پڑیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَكَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَأَنْشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا آخَرِينَ}
 اور ہم نے بہت سی ظالم بستیاں تباہ کر کے رکھ دیں، اور ان کے بعد دوسرے نئے لوگ پیدا کر دیے[الأنبياء: 11]

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (پانچ چیزوں کے بدلے پانچ چیزیں رونما ہوں گی:

  • جب کسی قوم میں علانیہ فحاشی ہونے لگ جائے ، تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہیں جو پہلے نہ تھیں ۔
  • جب ان کے حکمران اللہ تعالی کی کتاب کے مطابق فیصلے نہیں کرتے ، اور اللہ نے جو نازل کیا ہے اس کو اختیار نہیں کرتے ، تو اللہ تعالی ان میں پھوٹ اور اختلاف ڈال دیتا ہے۔
  • جب لوگ اپنے مالوں کی زکاۃ ادا نہیں کرتے ہیں تو اللہ تعالی آسمان سے بارش کو روک دیتا ہے ، اور اگر زمین پر چوپائے نہ ہوتے تو آسمان سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہ گرتا ۔
  • جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط ، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی زیادتی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
  • جب لوگ اللہ اور اس کے رسول کے عہد و پیمان کو توڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے علاوہ لوگوں میں سے کسی دشمن کو مسلط کر دیتا ہے ، وہ ان کی ملکیت کا جزوی حصہ چھین لیتا ہے) اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

اے انسان!

تم دیکھو کہ اللہ تعالی نے تم پر کیا کیا نعمتیں کی ہیں، ان نعمتوں کو کوئی شمار میں نہیں لا سکتا، تم ان کا شکر ادا کرو؛ کیونکہ اگر کوئی معمولی سی بھی نعمت تم سے چھن گئی تو اللہ کے سوا کوئی بھی اسے واپس نہیں لوٹا سکتا، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی کوئی نعمت معمولی نہیں ہوتی۔

اے انسان!

تم استقامت، صلاحیت، بہتر کارکردگی اور برائی سے رک کر اپنے معاشرے کو تحفظ دے سکتے ہو، اپنے آپ کو نقصانات اور سزاؤں سے بچا سکتے ہو۔ یہ بھی ذہن نشین کر لو کہ تم دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں باز پرس کا سامنا کرو گے، تو دیکھو کہ تمہارے پاس کیا جواب ہے؟

ایک حدیث میں ہے کہ: (اس وقت تک بندے کے قدم ہل نہیں سکیں گے جب تک اس سے چار چیزوں کے بارے میں نہ پوچھ لیا جائے: عمر کہاں گزاری، جوانی کہاں فنا کی، دولت کہاں سے کمائی اور کہاں خرچ کی؟ اور سیکھے ہوئے علم پر کتنا عمل کیا؟)

اے انسان!

تمہارا دائمی گھر وہی ہے جو موت کے بعد تمہیں ملے گا، تو اگر تم نے اپنے اس دائمی گھر کو نیکیوں سے آباد کر لیا ہے تو تمہارے لیے مبارکباد ہے، اور اگر تم دنیا میں مشغول ہو کر اخروی گھر بھول گئے ہو تو تمہارے لیے بربادی ہے۔ تمہاری دنیا تم سے منہ موڑ کر چلی جائے گی چاہے تم دنیا سے محبت رکھو یا بیزاری کا اظہار کرو، جبکہ آخرت تمہارے اعمال کے ساتھ تمہاری طرف بڑھ رہی ہے ۔

اللہ کے بندو!

{إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا}
 یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو [الأحزاب: 56] اور آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ: (جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا)

اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود پڑھو۔

یا اللہ! ہمیں حق بات کو حق سمجھنے کی توفیق دے اور پھر اتباعِ حق بھی عطا فرما، یا اللہ! ہمیں باطل کو باطل سمجھنے کی توفیق دے اور پھر اس سے اجتناب کرنے کی قوت بھی عطا فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے ۔ تو جسے چاہے راہ مستقیم کی رہنمائی فرما دیتا ہے۔

یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور جنت کے قریب کرنے والے اعمال کی توفیق مانگتے ہیں، یا اللہ! ہم جہنم اور جہنم کے قریب کرنے والے اعمال سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔

یا اللہ! تمام معاملات میں ہمارا انجام بہتر فرما دے، یا اللہ! ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے محفوظ فرما دے۔

یا اللہ! ہمارے دلوں کو تیری اطاعت گزاری پر ثابت قدم بنا دے، یا ذالجلال والا کرام! یا رب العالمین!

یا اللہ! اس ملک کو اور تمام اسلامی ممالک کو امن و امان کا گہوارہ بنا دے، یا رب العالمین!

اللہ کے بندو!

{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ}
 اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو [النحل: 90]

عظمت و جلالت والے اللہ کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور اللہ تعالی جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔



تبصرہ کرکے اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔ شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں