موت اٹل حقیقت اس کی تیاری ایک ضرورت - خطبہ جمعہ مسجد نبوی (اقتباس)

Image result for ‫کل نفس ذائقته الموت‬‎

فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے 16- جمادی اولی -1439 کا خطبہ جمعہ  مسجد نبوی میں بعنوان " موت اٹل حقیقت اس کی تیاری ایک ضرورت" ارشاد فرمایا جس انہوں نے کہا کہ یہاں ہر ایک شخص مستقبل بنانے کے لیے تگ و دو کرتا ہے تاہم کامیاب وہی ہوتا ہے جو دنیا و آخرت  دونوں جہانوں کے لیے تیاری کرے، اور چونکہ موت ایک اٹل حقیقت ہے تو ہم سب کو اس کے لیے تیاری کرنی چاہیے، اچھی موت ہر مومن کی دیرینہ خواہش ہوتی ہے؛ اسے پانے کے لیے عقیدہ توحید  اپنائیں، خالق و مخلوق کے حقوق و فرائض سمیت حدود الہی کی پابندی کریں، گناہوں سے بچیں، ہر وقت موت کی تیاری میں رہیں اور  وقت نزع اللہ تعالی سے کلمہ نصیب ہونے کی دعا کریں۔

منتخب اقتباس:

تقوی اپنانے کے لیے رضائے الہی تلاش کرو اور اللہ کی نافرمانی سے دور رہو، تقوی تمہاری زندگی کے حالات درست کرنے کا ذریعہ ہے، مستقبل کے خدشات و توقعات کے لیے یہی زادِ راہ ہے، تباہ کن چیزوں سے تحفظ اسی سے ممکن ہے، اللہ تعالی نے تقوی کے بدلے میں جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے۔

اللہ کے بندو!

اس زندگی میں ہر شخص اپنے فائدے کے لیے تگ و دو کرتا ہے، اپنے معاملات سنوارنے اور ذرائع معاش کے لیے کوشش کرتا ہے، ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دین  اور دنیا  دونوں کو سنوارتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالی نے دنیا میں خیر سے نوازا اور آخرت میں بھی ان کے لیے خیر و بھلائی ہے، نیز انہیں آگ کے عذاب سے بھی تحفظ دیا ۔

جبکہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو دنیا کے لیے دوڑ دھوپ کرتے ہیں لیکن آخرت کو بھول جاتے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جو گل چھڑے اڑاتے ہیں  اور ڈنگروں کی طرح کھاتے ہیں ، ان کا ٹھکانا آگ ہے۔

کسی بھی تمنا یا کام کی ایک انتہا ہے وہاں پہنچ کر وہ ختم ہو جائے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَأَنَّ إِلَى رَبِّكَ الْمُنْتَهَى}
 اور بیشک تیرے رب کی طرف ہی [ہر چیز  کی]انتہا ہے۔ [النجم : 42]

 پاک ہے وہ ذات جس نے تمام دلوں کےلیے مصروفیات، ہر ایک کے دل میں تمنائیں اور سب کے لیے عزم و ارادہ پیدا کیا، وہ اپنی مرضی سے جو چاہے کرتا اور جو چاہے نہیں کرتا ، اللہ تعالی کی مرضی اور ارادہ سب پر بھاری ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ}
 اور اللہ رب العالمین کی مرضی کے بغیر تمہاری کوئی مرضی نہیں ہے۔[التكوير : 29]
لہذا جو اللہ تعالی چاہتا ہے وہ ہو جاتا ہے اور جو  نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔

موت اس دھرتی پر تمام مخلوقات کا آخری انجام ہے، اس دنیا میں ہر ذی روح چیز کی انتہا موت ہے، اللہ تعالی نے موت فرشتوں پر بھی لکھ دی ہے چاہے وہ جبریل، میکائیل، اور اسرافیل علیہم السلام ہی کیوں نہ ہوں، حتی کہ ملک الموت بھی موت کے منہ میں چلے جائیں گے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ (26) وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ}
 اس دھرتی پر موجود ہر چیز فنا ہو جائے گی [26] صرف تیرے پروردگار کی ذات ِ ذوالجلال و الاکرام باقی رہے گی۔[الرحمن: 26- 27]

موت دنیاوی زندگی کی انتہا اور اخروی زندگی کی ابتدا ہے؛ موت کے ساتھ ہی دنیاوی آسائشیں ختم  ہو جاتی ہیں اور میت مرنے کے بعد یا تو عظیم نعمتیں دیکھتی ہے یا پھر درد ناک عذاب ۔

موت اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ، موت سے اللہ تعالی کی قدرت اور تمام مخلوقات پر اس کا مکمل تسلط عیاں ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ} 
اور وہی اپنے بندوں پر غالب ہے اور وہ تم پر نگہبان بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب تمھارے کسی ایک کو موت آتی ہے اسے ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے قبض کر لیتے ہیں اور وہ کوتاہی نہیں کرتے۔ [الأنعام: 61]

موت اللہ تعالی کی طرف سے عدل پر مبنی ہے، چنانچہ تمام مخلوقات کو موت ضرور آئے گی، فرمانِ باری تعالی ہے:
{كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ}
 ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے، پھر ہماری طرف ہی تمھیں لوٹایا جائے گا۔[العنكبوت: 57]

موت کی وجہ سے لذتیں ختم ، بدن کی حرکتیں بھسم ،جماعتیں تباہ، اور پیاروں سے  دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں، یہ سب اللہ تعالی اکیلا ہی سر انجام دیتا ہے۔

موت کو کوئی دربان روک نہیں سکتا، کوئی پردہ اس کے درمیان حائل نہیں ہو سکتا، موت  کے سامنے مال، اولاد، دوست  احباب سب بے بس ہوتے ہیں، موت سے کوئی چھوٹا، بڑا، امیر، غریب، با رعب یا بے رعب کوئی بھی نہیں بچ سکتا، فرمانِ باری تعالی ہے:
{أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكْكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ}
 تم جہاں بھی ہو گے تمہیں موت پا لے گی چاہے تم پختہ قلعوں میں ہی کیوں نہ ہو[النساء: 78]

موت انبیائے کرام کے علاوہ کسی سے اجازت نہیں لیتی؛ کیونکہ اللہ تعالی کے ہاں انبیائے کرام کا مقام و مرتبہ بلند ہوتا ہے، اس لیے موت ہر نبی سے اجازت طلب کرتی ہے، ایک روایت میں ہے کہ ہر نبی کو اللہ تعالی دنیا میں ہمیشہ رہنے  یا موت کا اختیار دیتا ہے تو انبیائے کرام موت پسند کرتے ہیں کیونکہ ان کے لیے اللہ تعالی کے ہاں اجر عظیم ہے اور دنیا کو وہ معمولی چیز جانتے ہیں۔

موت لازمی طور پر آ کر رہے گی اس سے خلاصی کا کوئی ذریعہ نہیں، موت کی شدید تکلیف کوئی بھی بیان کرنے کی سکت نہیں رکھتا؛ کیونکہ روح کو رگوں، پٹھوں اور گوشت کے ایک ایک انگ سے کھینچا جاتا ہے، درد کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو لیکن وہ موت کے درد سے کم ہی ہوتا ہے۔

عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت نزع میں دیکھا، آپ کے پاس ایک پیالے میں پانی تھا، آپ اپنا ہاتھ اس پیالے میں ڈبو کر اپنا چہرہ صاف کرتے اور فرماتے: (  "اَللَّهُمَّ أَعِنِّيْ عَلَى غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَسَكَرَاتِ الْمَوْتِ" (یا اللہ! موت کی سختی اور غشی  پر میری مدد فرما) ترمذی نے اسے روایت کیا ہے، کچھ روایات کے الفاظ میں ہے کہ: (بے شک موت کی غشی بہت سخت ہوتی ہے)

جو شخص ہمیشہ موت کو یاد رکھے تو اس کا دل نرم رہتا ہے، اس کے اعمال اور احوال اچھے ہوتے ہیں ، وہ گناہ کرنے کی جرأت نہیں کرتا، فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں برتتا، اور نہ ہی دنیا کی رنگینیاں اسے دھوکے میں ڈالتی ہیں، وہ ہمیشہ اپنے پروردگار سے ملنے کا شوق رکھتا ہے، اور جنت میں جانے کا سوچتا ہے۔

لیکن جو  شخص موت کو بھول جائے، دنیا میں مگن ہو، بد عملی میں مبتلا ہو، خواہشات کا انبار ذہن میں ہو ، تو ایسے شخص کے لیے موت سب سے بڑی نصیحت ہے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لذتوں کو پاش پاش کر دینے والی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو) ترمذی، نسائی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے، اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ: موت لذتوں کو ختم اور زائل کر دینے والی ہے۔

اللہ رب العالمین  کی وحدانیت کا اقرار، صرف ایک اللہ کی عبادت اور شرک سے بیزاری  موت کی تیاری کے لیے از بس ضروری ہے، انس رضی اللہ  عنہ کہتے ہیں کہ :میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ: (اللہ تعالی فرماتا ہے: ابن آدم! اگر توں مجھے زمین بھر گناہوں کے ساتھ ملے لیکن تم نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو تو میں تمھیں اتنی ہی مقدار میں مغفرت دے دوں گا) ترمذی نے اسے روایت کیا ہے اور حسن قرار دیا۔

موت کی تیاری کے لیے کبیرہ گناہوں سے باز رہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلًا كَرِيمًا}
 اگر تم منع کردہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرو تو ہم تمہارے گناہ مٹا دیں گے اور تمہیں عزت والی جگہ داخل کریں گے۔[النساء: 31]

موت کی تیاری کے لیے مخلوق کے حقوق ادا کریں، انہیں پامال مت کریں، یا ان کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام مت لیں؛ کیونکہ شرک کے علاوہ کوئی بھی حقوق اللہ سے متعلق گناہ ہو تو اسے اللہ تعالی معاف فرما دے گا، لیکن مخلوق کے حقوق؛ اللہ تعالی معاف نہیں فرمائے گا بلکہ ظالم سے مظلوم کا حق لے کر دے گا۔

معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص کی آخری بات "لا الہ الا اللہ" ہوئی تو وہ جنت میں داخل ہوگا) ابو داود اور حاکم نے اسے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

کلمہ پڑھنے کے لیے تاکید اس حکم سے بھی عیاں ہوتی ہے کہ قریب المرگ شخص کو نرمی سے کلمہ شہادت کی تلقین کی جائے، تا کہ اسے یاد آ جائے نیز اس پر سختی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ وہ پہلے ہی سخت تکلیف میں ہوتا ہے، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اپنے مرنے والوں کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو) مسلم

یہ بد بختی کی بات ہے کہ انسان موت کو بھول جائے اور اس کے لیے تیاری کرنا چھوڑ دے، گناہوں میں مگن ہو جائے اور عقیدہ توحید پامال کر دے، ظلم و زیادتی کرتے ہوئے معصوم جانوں کا قتل کرے، حرام مال کمائے اور کھائے، مخلوقات کے حقوق غصب کرے، ہوس پرستی میں ڈوب جائے، اور آخری دم تک گناہوں کی دلدل میں پھنسا رہے، پھر موت کے وقت اسے کسی قسم کی پشیمانی کوئی فائدہ نہیں دے گی اور نہ ہی موت کا وقت ٹلے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:
 {حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ}
 جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار! مجھے واپس لوٹا دے  [99] جو  میں چھوڑ آیا ہوں امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا [اللہ فرمائے گا]"ایسا ہرگز نہیں  ہو سکتا" یہ بس ایک بات ہوگی جسے اس سے کہہ دیا۔ اور ان [مرنے والوں] کے درمیان دوبارہ جی اٹھنے کے دن تک ایک آڑ  حائل ہوگی ۔[المؤمنون: 99- 100]

مسلمانو!

خاتمہ بالخیر کے اسباب کی پابندی کرو، اس کے لیے اسلام کے ارکان  خمسہ پر عمل پیرا رہو، گناہوں اور ظلم و زیادتی سے بچو۔

موت کے وقت خاتمہ بالخیر کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ ہمیشہ خاتمہ بالخیر کی دعا کریں؛
دعا ہمہ قسم کی خیر کا سر چشمہ ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ: (جو شخص کثرت کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ: "اَللَّهُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِيْ الْأُمُوْرِ كُلِّهَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْيِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الْآخِرَةِ" [یا اللہ! تمام معاملات کا انجام ہمارے لیے بہتر فرما، اور ہمیں دنیاوی رسوائی اور اخروی عذاب سے پناہ عطا فرما]تو وہ آزمائش میں پڑنے سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے)

اور موت کے وقت خاتمہ بالسوء کے اسباب میں یہ شامل ہے کہ: حقوق اللہ اور حقوق العباد پامال کیے جائیں، کبیرہ گناہوں پر انسان مُصر رہے، اللہ تعالی کی تعظیم کی بجائے تحقیر کرے، انسان دنیا میں مگن ہو  کر آخرت بالکل بھول جائے۔

 یا اللہ! ہم تجھ سے نیکیاں کرنے اور برائیاں ترک کرنے کی توفیق مانگتے ہیں،  یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے ہر قول و فعل کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہم جہنم اور اس کے قریب کرنے والے ہر قول و فعل  سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔

یا اللہ! یا ذالجلال والا کرام! ہم تجھ سے دعا گو ہیں کہ ہمیں ہمارے نفس کے شر سے محفوظ فرما، ہمارے کرتوتوں کے شر سے محفوظ فرما۔

اللہ کے بندو!

{إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ}
 اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کا حکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو [النحل: 90]

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں