تحریر: نعیم شاہ
الفاظ کس طرح نہ صرف انسان بلکہ دیگر موجودات پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اس کا آنکھیں کھولنے والا تجربہ ایک جاپانی سائنس دان Dr. Masaru Emoto نے پانی پر کیا جس کا احوال ان کی کتاب The hidden message in water میں بیان کیا گیا ہے، جس کا اردو ترجمہ محمد علی سید نے اپنی کتاب ’’پانی کے عجائبات‘‘ میں بڑے دلچسپ انداز میں کیا ہے، جسے پڑھ کر ہمیں شکر اور ناشکری کے الفاظ کے حیران کن اثرات کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس جاپانی سائنس دان نے پانی کو اپنی لیبارٹری میں برف کے ذرات یعنی کرسٹلزکی شکل میں جمانے کا کام شروع کیا۔ اس مقصد کے لیے اس نے ڈسٹلڈ واٹر، نلکے کے پانی اور دریا اور جھیل کے پانیوں کے نمونے لیے اور انھیں برف کے ذرات یعنی Crystals کی شکل میں جمایا۔
اس تجربے سے اسے معلوم ہوا کہ پانی، اگر بالکل خالص ہو تو اس کے کرسٹل بہت خوبصورت بنتے ہیں لیکن اگر خالص نہ ہو تو کرسٹل سرے سے بنتے ہی نہیں یا بہت بدشکل بنتے ہیں۔ اس نے دیکھا کہ ڈسٹلڈ واٹر سے (جو انجکشن میں استعمال ہوتا ہے) خوبصورت کرسٹل بنے، صاف پانی والی جھیل کے پانی سے بھی کرسٹل بنے لیکن نلکے کے پانی سے کرسٹل بالکل ہی نہیں بنے کیوں کہ اس میں کلورین اور دوسرے جراثیم کش اجزا شامل تھے۔اس کے بعد اس نے ایک اور تجربہ کیا جس کے نتائج حیران کردینے والے تھے۔ اس نے شیشے کی سفید بوتلوں میں مختلف اقسام کے پانیوں کے نمونے جمع کیے۔
ڈسٹلڈ واٹر والی بوتل پر اس نے لکھا “You Fool” اور نلکے کے پانی والی بوتل پر لکھا “Thank You” یعنی خالص پانی کو حقارت آمیز جملے سے مخاطب کیا اور نلکے کے پانی کو شکر گزاری کے الفاظ سے اور ان دو بوتلوں کو لیبارٹری میں مختلف مقامات پر رکھ دیا۔ لیبارٹری کے تمام ملازمین سے کہا گیا جب اس بوتل کے پاس سے گزرو تو You Fool والی بوتل کے پانی کو دیکھ کر کہو “You Fool” اور “Thank You” والی بوتل کے پاس ٹھہرکر سینے پر ہاتھ رکھ کر جھک جاؤ اور بڑی شکر گزاری کے ساتھ اس سے کہو “Thank You”۔
یہ عمل 25 دن جاری رہا۔ 25 ویں دن دونوں بوتلوں کے پانیوں کو برف بنانے کے عمل سے گزارا گیا۔ نتائج حیران کن تھے۔ ڈسٹلڈ واٹر سے (جو خالص پانی تھا اور اس سے پہلے اسی پانی سے بہت خوبصورت کرسٹل بنے تھے) کرسٹل تو بن گئے لیکن انتہائی بدشکل۔ ڈاکٹر اموٹو کے کہنے کے مطابق یہ کرسٹل اس پانی کے کرسٹل سے ملتے جلتے تھے جن پر ایک مرتبہ انھوں نے “SATAN” یعنی شیطان لکھ کر رکھ دیا تھا۔
نلکے والا پانی جس سے پہلے کرسٹل نہیں بنے تھے، اس مرتبہ اس پر ’’تھینک یو‘‘ لکھا ہوا تھا اور کئی لوگ 25 دن تک اس پانی کو دیکھ کر ’’تھینک یو‘‘ کہتے رہے تھے، اس پانی سے بہترین اور خوب صورت کرسٹل بن گئے تھے۔اس کا مطلب یہ کہ نعمتوں کو ٹھکرانے، انھیں حقیر سمجھنے اور ان کا مضحکہ اڑانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ خالص پانی آلودہ پانی میں تبدیل ہوگیا۔ نعمتوں کا ادراک کرنے اور انھیں دیکھ کر شکریہ ادا کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ آلودہ پانی خالص آب حیات میں تبدیل ہوگیا۔
ہمیں ترقی یافتہ، مہذب قوم بننے کے لیے دوسروں کی تعریف اور شکریہ ادا کرنا سیکھنا ہوگا۔ ان کی خامیوں کا ڈھنڈورا پیٹنے کے بجائے ان کی اچھائیاں تلاش کرکے انھیں کھلے دل سے باآواز بلند سراہنا ہوگا، ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ صرف اسی وقت ہم ایک اخلاقی و ایمانی طور پر پھلتی پھولتی قوم بن پائیں گے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں